وسیع لاؤنج کو عبور کرنے کے بعد وہ زینے چڑھنے لگا۔
وہ اکثر جینی کے گھر آتا تھا لیکن عینی سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔
زینے چڑھ کر وہ راہداری میں چلنے لگا۔
دائیں جانب ریلنگ تھی اور بائیں جانب کمروں کے دروازے۔
آواز سن کر وہ سیڑھیوں کی جانب دیکھنے لگا۔
وہ یونہی دیکھتا ہوا الٹے قدم اٹھانے لگا۔
کمرے سے نکلتی عینی وائز سے ٹکرا گئی۔
“آئم سوری؟”
عینی اپنی گلاسز درست کرتی ہوئی بولی۔
وائز کو دیکھ کر اس کی آنکھوں میں حیرت سمٹ آئی۔ اب تک اس نے صرف تصویروں میں دیکھا تھا اس سے ملنے کا اتفاق پہلی بار ہوا۔
“آپ وائز ہیں نہ؟ جینی کے دوست؟”
وہ دلچسپی سے اسے دیکھ رہی تھی۔
“جی ہاں اور آپ؟”
وہ انجان بنتا اس کی جانب قدم اٹھانے لگا۔
“میں عینی ہوں۔۔۔ شاید کبھی میرا ذکر کیا ہو جینی نے۔ میں نے آپ کا لاسٹ ائیر کا شو دیکھا تھا بہت اچھے لگ رہے تھے آپ۔”
وہ اس کی جانب مسکراہٹ اچھالتی بول رہی تھی۔
“تھینک یو۔”
وہ جواباً مسکرایا۔
“کچھ گپ شپ ہو سکتی ہے؟”
وہ موقع کو غنیمت جانتے ہوۓ بولی۔
“شیور۔۔۔ ”
وہ اس کے ہاتھ سے فون پکڑ کر نمبر لکھنے لگا۔
عینی حسرت زدہ نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
“وائز تم یہاں کیا کر رہے ہو؟”
جینی سامنے سے آتی ہوئی بولی۔
“کیوں؟”
وہ پیشانی پر بل ڈالتا ہوا بولا۔
عینی دبے قدموں وہاں سے نکل گئی۔
“تم فلرٹ کر رہے تھے اس کے ساتھ؟”
وہ تیکھے تیور لئے بولی۔
“تم اپنی حد میں رہا کرو۔۔۔ مجھ پر اپنی مرضی مسلط نہیں کر سکتی تم۔”
وہ انگلی اٹھا کر برہمی سے کہتا مڑ گیا۔
“وائز۔۔ میری بات تو سنو۔”
وہ اس کے پیچھے لپکی۔
وہ تیز تیز قدم اٹھاتا باہر نکل گیا۔
وہ جا چکا تھا۔ جینی لب بھینچ کر بند ہوتے گیٹ کو دیکھنے لگی۔
~~~~~~~~
“وائز یہاں آؤ تمہیں کسی سے ملوانا ہے۔”
ثوبیہ اس کا ہاتھ پکڑ کر چلنے لگی۔
وہ مسکرا کر معذرت کرتا چل دیا۔
“اس سے ملو یہ میری خالہ کی بیٹی ہے سعدیہ۔۔۔ ”
وہ سعدیہ کے سامنے آتی ہوئی بولی۔
“ہیلو؟”
وہ ہاتھ ملاتی ہوئی بولی۔
“ہیلو؟”
وہ جبراً مسکرایا۔
“تم دونوں باتیں کرو مجھے تمہارے چاچو بلا رہے ہیں۔”
وہ سعدیہ کو اشارہ کرتی چل دی۔
“چاچی بات تو سنیں۔”
وہ انہیں روکنا چاہتا تھا۔
“کیا ہوا آپ کو ڈر لگ رہا ہے؟”
وہ اس کے قریب آتی ہوئی بولی۔
وہ سر تا پیر اس کا جائزہ لینے لگا۔
باقی لڑکیوں کی مانند وہ بھی پینٹ شرٹ پہنے ہوۓ تھی۔ وہ تو عادی تھا ایسی لڑکیوں کو دیکھنے اور ان سے ملنے کا۔
“محمد وائز رضی حیات کسی سے نہیں ڈرتا اور لڑکیاں تو چیونٹیوں کی مانند ہوتی ہیں۔”
وہ جیب میں ہاتھ ڈالتا ہوا بولا۔
“کہاں ہوتے ہیں آپ؟”
وہ اس کی بازو میں بازو ڈالتی چلنے لگی۔
“اگر تم میرے ہاتھ آ جاؤ تو بس لائف سیٹ ہو جاےُ گی۔”
وہ وائز کو دیکھتی سوچنے لگی۔
“جہاں دل کرتا ہے۔”
وائز سے سیدھے جواب کی توقع کرنا بیکار تھا وہ اپنے موڈ کے حساب سے بات کرتا تھا۔
اس کے فون پر کسی انجان نمبر سے کال آنے لگی۔
“ویٹ۔۔۔ ”
وہ اس سے دور ہوتا ہوا بولا۔
“میں عینی بول رہی ہوں۔”
وہ گھبرا کر بولی۔
“اوہ عینی! ”
اس کے لبوں پر مسکراہٹ رینگ گئی۔
“تم ایسا کرنا میرے اپارٹمنٹ آجانا,ایڈریس بھیج دوں گا میں ابھی میں پارٹی میں ہوں رات میں بات کروں گا؟”
وہ سعدیہ کو دیکھتا ہوا بولا جو اس کی جانب پشت کیے ہوۓ تھی۔
اس کا دھیان حیا کی جانب تھا سو وہ خاموشی سے نکل گیا۔
“کہاں غائب ہوگئے تھے تم؟”
وہ اسے دیکھتی خفگی سے بولی۔
“یار تمہیں پتہ تو ہے چاچی میرے پیچھے پڑی رہتی ہیں۔”
وہ منہ بناتا ہوا بولا۔
“تمہاری چاچی کو نہ کہیں دور چھوڑ کر آنا چائیے۔”
وہ دانت پیستی ہوئی بولی۔
وہ قہقہ لگاتا عقب میں دیکھنے لگا۔
“یہ تمہارے فیس پر کیا لگا ہے؟”
وہ اس کا چہرہ اپنی جانب موڑتی ہوئی بولی۔
“کیا؟”
وہ مسکراتا ہوا بولا۔
“کیوٹ نیس ہے یہ تو۔”
وہ لب دباےُ مسکرا رہی تھی۔
وائز دھیرے سے مسکرانے لگا۔
“تم آج ہی چلے جاؤ گے؟”
وہ دونوں ایک کونے میں کھڑے تھے۔ تمام افراد پارٹی میں مصروف تھے۔
“ہاں ظاہر ہے۔”
وہ اسے خود سے قریب کرتا ہوا بولا۔
“کچھ دن تک چلے جانا۔”
وہ اس کے کوٹ پر انگلیاں چلانے لگی۔
“نیکسٹ ٹائم جان۔”
وہ اس کے بالوں سنوارتا ہوا بولا۔
پارٹی ختم ہوتے ہی وہ گاڑی لے کر اپنے سفر پر روانہ ہو گیا۔
~~~~~~~~
“امی میں آؤں گی تو آپ میرے ساتھ چلنا مارکیٹ ابو کو منع کر دیں۔”
وہ روٹی رکھتی ہوئی بولی۔
“تم وہاں سے تھک کر آتی ہو تو مارکیٹ کیسے جاؤں گی؟”
وہ خفگی سے دیکھ رہی تھیں۔
“آپ کیوں فکر کرتی ہیں میں بلکل بھی نہیں تھکتی, بس آپ ابو کو منع کر دیں وہ کام چھوڑ کر آئیں گے اتنی دور سے۔۔۔”
وہ متفکر سی بولی۔
“کہہ تو ٹھیک رہی ہو۔ جانا ضروری نہ ہوتا تو میں نہ کہتی ان کو۔”
وہ پرسوچ انداز میں بولیں۔
“آپ فون کر کے منع کر دیں انہیں۔”
وہ نوالہ منہ میں ڈالتی ہوئی بولی۔
“تم آج دیر سے جاؤ گی؟”
وہ گھڑی کی سمت دیکھتی ہوئیں بولیں۔
“جی۔۔۔ ”
مختصر سا جواب آیا۔
“اچھا دھیان سے جانا؟ اور یونی میں بھی خیال رکھا کرو, کسی سے کوئی فضول بات نہ کرنا۔”
وہ ہمیشہ کی مانند تاکید کرنے لگیں۔
“جی امی میں جانتی ہوں۔”
وہ مسکراتی ہوئی بولی۔
“میں چلتی ہوں بس کبھی جلدی آ جاتی ہے تو کبھی دیر سے۔”
وہ چادر اٹھاتی ہوئی بولی۔
“ﷲ نگہبان۔”
وہ کہتی ہوئیں برتن سمیٹنے لگیں۔
“زرش یہ دیکھو تمہاری اسائنمنٹ کا کیا حال کیا ہے میم نازیہ نے؟”
جونہی زرش نے گیٹ عبور کیا مشل سامنے آتی ہوئی بولی۔
“مجھے لگتا ہے تم گیٹ پر پہرہ دے رہی تھی۔”
وہ لمبے لمبے سانس لیتی ہوئی بولی۔
“تم تو ڈرتی نہیں ہو کسی سے؟”
وہ آنکھیں سکیڑے گھورنے رہی تھی۔
“ایسے اچانک کوئی سامنے آتا ہے بھلا۔۔ اور یہ کس نے پھاڑ دی؟”
وہ متحیر سی اپنی اسائنمنٹ دیکھنے لگی۔
“جا کر پوچھ لو۔۔۔ آخر کون سی دشمنی نکالی ہے تمہارے ساتھ۔”
وہ منہ بناتی ہوئی بولی۔
وہ دوپٹہ درست کرتی چلنے لگی۔
“آپ نے مجھے بلایا؟”
وائز بنا دستک دئیے اندر آتا ہوا بولا۔
“ہاں۔۔۔آ جاؤ۔”
نازیہ مسکراتی ہوئی بولی۔
“جی؟”
وہ جیب میں ہاتھ ڈالتا ہوا بولا۔
“تمہاری اسائنمنٹ ملی تھی۔۔ تم بلکل بھی توجہ نہیں دیتے۔ پاس ہونے کا ارادہ ہے یا نہیں؟”
وہ ٹیبل سے اس کی اسائنمنٹ اٹھاتی ہوئی بولی۔
“آپ مجھے پاس نہیں کریں گیں؟”
وہ آبرو اچکا کر بولا۔
چہرے پر بلا کی سختی تھی۔
“نہیں ایسا کب کہا میں نے؟ میں تو سوچ رہی تھی تمہیں ایکسٹرا کلاس دے دوں۔”
مسکرا کر دو قدم اس کی جانب بڑھ گئی۔
وہ پچس چھبیس سال کی تھی۔ نارمل رنگت و قدامت والی۔
“کہاں؟”
وہ آہستہ سے بولا۔
“شام میں کسی ریسٹورنٹ یا پھر؟”
وہ اس کے قریب ہوتی کان میں سرگوشی کر رہی تھی۔
وہ سر جھکاےُ سن رہا تھا۔
عین اسی لمحے دروازہ کھلا اور زرش اندر داخل ہوئی۔
اندر کا منظر دیکھ کر اسکی آنکھیں باہر نکل آئیں۔
نازیہ دو قدم پیچھے ہوتی فاصلہ بڑھا گئی۔
“سوری۔۔۔ ”
وہ کہتی سرعت سے باہر نکل گئی۔
“یہ کہاں سے آ گئی؟”
وہ دروازے کو گھورتی ہوئی بولی۔
“باقی کی بات فون پر کر لینا۔ میں چلتا ہوں۔”
وہ کہتا ہوا باہر نکل گیا۔
زرش تیز تیز قدم اٹھا رہی تھی۔
جو اس نے دیکھا تھا اس کے بعد اسے اپنی بینائی پر شبہ ہو رہا تھا۔
“رکو۔”
وائز چلاتا ہوا اس کے پیچھے بھاگا۔
آواز اتنی بلند تھی کہ وہ کسی ٹرانس کی سی کیفیت میں رک گئی۔
وہ آواز پہچان نہیں پائی تھی لیکن دماغ میں وائز کا ہی نام گونج رہا تھا۔
“کیا لینے آئی تھی تم وہاں؟ اور بنا ناک کیے اندر آ گئی تمیز نہیں ہے تمہیں؟”
وہ اسے بازوؤں سے پکڑ کر دیوار کے ساتھ لگاتا ہوا بولا۔
آنکھوں سے غیض چھلک رہا تھا۔
“تم کون ہوتے ہو مجھ سے پوچھنے والے؟ وہ تمہاری جاگیر نہیں تھی۔ اور میں نے ناک کیا تھا لیکن اتنی مصروفیت تھی کہ اندر موجود افراد کو معلوم ہی نہیں ہوا۔”
وہ طنزیہ بولی۔
وہ اس کے ہاتھ ہٹانے کی سعی کر رہی تھی لیکن ناکام ہو رہی تھی۔
“اوہ تو تمہیں بولنا بھی آتا ہے!”
وہ اس کے ایک ایک نقش کو دیکھ رہا تھا۔
گھنی پلکیں اٹھی ہوئی تھیں۔ وہ خوفزدہ نہیں تھی بس خود کو آزاد کروانے میں ہلکان ہو رہی تھی۔
“تم اتنی نخرے کیوں دکھاتی ہو۔ جیسے خود کو کسی ریاست کی ملکہ سمجھتی ہو۔”
وہ اس کی بازو پر دباؤ ڈالتا ہوا بولا۔
“مجھے چھوڑو میں چلانا شروع کر دوں گی۔”
وہ دانت پیستی ہوئی بولی۔
آس پاس سے گزرتے سٹوڈنٹس رک کر ان دونوں کو دیکھ رہے تھے۔
یکدم اسے احساس ہوا وہ کھڑا کہاں ہے۔
دائیں بائیں دیکھتا پیچھے ہوا اور اسے گھورتا ہوا چلنے لگا۔
وہ بازو مسلتی چلنے لگی۔
“کیا یہ انسان مجھے سکون سے رہنے نہیں دے گا؟”
وہ سر جھکاےُ چل رہی تھی۔
“کیا ہوا زرش؟”
دائم اس کے سامنے آتا ہوا بولا۔
“نہیں کچھ نہیں۔”
وہ نفی میں سر ہلاتی ہوئی بولی۔
“پھر ایسا منہ کیوں بنایا ہوا ہے؟”
وہ جانچتی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
“نہیں ایسا کچھ بھی نہیں۔مشل کہاں ہے؟”
وہ آگے کی جانب قدم اٹھاتی ہوئی بولی۔
“وہ کیفے میں بیٹھی ہے۔ پتہ ہے کل میں گزر رہا تھا تو مجھے یہ نظر آئی۔”
وہ جیب سے کی چین نکالتا ہوا بولا جس پر زرش لکھا تھا۔
“اچھی ہے۔”
وہ معدوم سا مسکرائی۔
“پکڑو نہ! ”
وہ اس کی جانب بڑھاتا ہوا بولا۔
“نہیں۔۔ میں کیا کروں گی اس کا۔”
وہ شانے اچکاتی ہوئی بولی۔
“یار کوئی بھی کی ڈال لینا پکڑو اسے اب۔”
وہ خفگی سے بولا۔
“نہیں دائم۔۔ میں نہیں لے سکتی۔”
وہ دونوں کیفے میں آ چکے تھے۔
“حد ہے۔۔۔ تم ایک چھوٹی سی کی چین بھی نہیں لے سکتی؟”
وہ جیسے ہرٹ ہوا۔
“نہیں۔۔۔ ”
وہ کہتی ہوئی کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی۔
“ٹھیک ہے۔”
وہ اثبات میں سر ہلاتا وہاں سے چلا گیا۔
زرش اس کی آنکھوں میں اپنے لیے پسندیدگی دیکھ چکی تھی اس لئے کوئی یاس دلانا نہیں چاہتی تھی۔
“اسے کیا ہوا؟”
مشل چہرہ اوپر کرتی ہوئی بولی۔
“کچھ نہیں تم اسے چھوڑو اور میری بات سنو۔”
وہ بیگ رکھتی رازداری سے بولی۔
وہ دونوں ایک ہی کالج میں پڑھتی تھیں اور اب یہ دوستی یونی میں بھی قائم تھی۔
وہ منہ کھولے اسے دیکھنے لگی۔
“سچی ایسا تھا کیا؟”
وہ بےیقینی سے اسے دیکھ رہی تھی۔
“میں جھوٹ بولوں گی؟”
وہ گھورتی ہوئی بولی۔
“نہیں میرا مطلب میم نازیہ۔۔۔”
وہ بات ادھوری چھوڑ کر اسے دیکھنے لگی۔
“اب تم پوری یونی کو بتا دینا۔”
زرش اس کے منہ پر ہاتھ رکھتی خفگی سے بولی۔
“میں کیوں بتانے لگی۔۔ وہ تو بس یقین نہیں آ رہا تھا۔”
وہ کانوں کو ہاتھ لگاتی ہوئی بولی۔
“شام میں آؤں گی تم؟”
وہ اس کی پلیٹ سے چپس اٹھاتی ہوئی بولی۔
“امید تو ہے امی سے بات کی تھی اگر لے آئیں تو ٹھیک ورنہ پھر۔۔۔ ”
وہ ہستے ہوۓ بات ادھوری چھوڑ گئی۔
وہ اثبات میں سر ہلانے لگی۔
“کچھ منگوا لو۔۔ بھوک لگی ہے مجھے۔”
مشل منہ بناتی ہوئی بولی۔
“میں کچھ لے کر آتی ہوں۔”
وہ بولتی ہوئی کھڑی ہو گئی۔
~~~~~~~~