غنی کچن میں چاۓ بنا رہی تھی جبکہ انعم ٹرالی میں چیزیں سیٹ کر رہی تھی دونوں آجکل بی ایس سی کے ایگزامز دیکر فارغ تھیں غنی کو کھانا بنانے کا کریز تھا اسی لیے وہ ہر وقت کچن میں گھسی رہتی تھی آج چونکہ منگنی کی ڈیٹ فکس کرنے کے لیےمیمونہ بیگم آیی ھوئیں تھیں اس لیے انعم کو بھی ہیلپ کروانی پڑ رہی تھی البتہ موڈ کافی بگڑا ہوا تھا وہ دونوں ٹرالی لے کر لاونج میں آﺉیں تو انعم کو پھوپھو نے اپنے پاس بٹھا لیا غنی سب کو چاے سرو کرنے لگی ـ وہ آجکل موحد کے سامنے کم آتی تھی موحد نے کافی دِنوں بعد اسے آج دیکھا تھا
“اسے عقل کب سے آگئی” وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑایا اشارہ اس کے خاموشی سے کام کرنے کی طرف تھا
غنی شیزہ کو کپ تھما رہی تھی شیزہ نے کپ پکڑنے کے لیے ہاتھ آگے کیا مگر اس سے پہلے کہ غنی ہاتھ پیچھے کرتی ساری چاۓشیزہ کے کپڑوں پر گر گئی گرم گرم چاے شیزہ کے ہاتھوں ،بازوں اور کچھ پاوں پر گری شیزہ غصے سے کھڑی ھوئی اور زوردار تھپڑ غنی کے منہ پر مارا ” یو نان سینس اگر تمھیں کام کرنا نہیں آتا تو مت کیا کرو گھر میں ملازماوں کی کمی تھی جو تمھیں بھی رکھ لیا ” غنی سن کھڑی رہ گئی ” یہ کیا بد تمیزی ہے شیزہ ؟؟” انعم غصے سے بولی مگر اس سے پہلے کہ شیزہ کچھ کہتی مو حد تیزی سے آگے آیا اور شیزہ کا بازو پکڑ کر اسے اپنی جانب متوجہ کیا ” کول ڈاون… آؤمیں تمھیں برنال دیتا ہوں ” غنی نے چونک کر مؤحد کو دیکھا اور تیزی سے اپنے کمرے کی طرف بھاگی احد اور انعم بھی اس کے پیچھے بھاگے مگر وہ دروازہ لاک کر چکی تھی اسے رہ رہ کر شیزہ کے الفاظ یاد آ رہےتھے کیا وہ اسی قابل تھی آخر کیوں وہ میرے ساتھ ہی ایسا کرتی ہیں وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی اس نے اپنے گال پر ہاتھ رکھا آج سے پہلے اسے کسی نے نہیں مارا تھا اور آج ـ ـ ـ ـ اچانک روتے روتے وہ چپ ہو گی اسے موحد کے الفاظ یاد آے ” یہ میرا گھر ہے اور یہاں تمہیں وہ آزادی نہیں مل سکتی جیسی تم چاہتی ہو سمجھیں ـ اور آئندہ میرےبہن یا بھائی کو میرے خلاف کرنے کی کوشش مت کرنا ورنہ نتائج کی زمہ دار تم خود ہو گی ” پھر اسے موحد کا آج کا رویہ یاد آیا تو کیا وہ بھی مجھ سے نفرت کرتے ہیں لیکن کیوں ؟؟؟ یہ پوری رات اس نے رو کر گزاری تھی ماں باپ کو یاد کرتے ہوے اپنا گھر اپنا بچپن یاد کرتے ہوے گزاری تھی جیسے آج ہی ہر زخم تازہ ہوا ہو اپنا گھر ہونے کی خواہش شدت سے جاگی تھی
اگر مگر اور کاش میں ہوں
میں خود بھی اپنی تلاش میں ہوں
* * * * * * *
کچھ واقعات انسان کی زندگی بدل دیتے ہیں غانیہ بھی اس دن کے واقعہ کے بعد بہت خاموش رہنے لگی تھی احد اور انعم اس سے بارہا معافی مانگ چکے تھے آنٹی نے بھی اس سے کہا تھا کہ وہ شیزہ کے رویے پر بہت شرمندہ ہیں غنی نے انہیں مطمئن کر دیا تھا کہ اس سب میں ان کا کیا قصور ـ
آج موسم بہت خوشگوار تھا انعم نے اس کا موڈ بحال کرنے کے لیے اس کے لاکھ انکار کے باوجود اپنے ساتھ شاپنگ پر لے آئی تھی شاپنگ کے بعد جب وہ باہر آئیں تو انعم سر پر ہاتھ مارتے ہوے واپس بھاگی ” کیا ہوا ؟؟” غانیہ نے پوچھا”چابی کاونٹر پر ہی بھول آئی ہوں رکو ابھی آئی”انعم واپس بھاگی ـ وہ منہ بنا تے ہوےاس کا انتظار کرنے لگی سلطان ایاد جو کسی کام سے وہاں آیا تھا اسے یہاں کھڑے دیکھ کر حیران ہوا اور پھر کچھ سوچ کر مسکرایا اور اپنے گارڈز کو وہیں رکنے کا اشارہ کرتے ہوے اس کے پاس سے باکل آرام سے گزرا اور گا ڑی کے بونٹ پر رکھے شاپنگ بیگز اٹھالیے جب غانیہ کی نظر پڑی وہ کافی دور جا چکا تھا ” ارے یہ بیگ تو ـ ـ ـ” اس نے اپنے بیگز کی طرف دیکھا وہاں سے وہ بیگز غاںب تھے وہ اس کی طرف بھاگی ” رکو رکو بدتمیز اوے ” وہ اس کے سامنے جا کھڑی ہوںی ـ ـ ـ اس کی شکل پر نظر پڑتے ہی اُس کی پوری آنکھیں کھل گیںں “تم ” وہ حیرت سے چیخی وہ مسکرایا ” تم تو اس دن ـ ـ ـ تمہیں شرم نہیں آتی یوں دن دھاڑے سب کے سامنے چیزیں اُٹھاتے ہو ایک نمبر کے چور ہو تم مجھے تو پہلے ہی شک تھا شکل سے ہی لٹیرے لگتے ہو ادھر دو بیگز یہ تمھارے کام نہیں آںیں گے تم یوں کرو یہ پیسے رکھ لواور یہ کام چھوڑ کر کوںی حلال روزی کماو لنگڑے لولے تو ہو نہیں ہو اچھے خاصے ہٹے کٹے ہو یہ پکڑو”وہ ایک ہی سانس میں بولی اور اُس کے ہاتھ میں پیسے تھما کر غصے سےاُسے گھورتی بیگز کھینچ کر چلی گی وہ حیران کھڑا رہ گیا اس لڑکی پر نہیں بلکہ خود پر ـ
* * * * *
وہ بھاگتی بھاگتی کسی سے ٹکڑاںی سر اٹھا کر دیکھا تو ساکت رہ گئی
آـ ـ آپ وہ حیران نظروں سے اسے دیکھتے ہوے ایک دم پیچھے ہوئی
” کیوں آے ہیں اب آپ یہاں ؟؟ ” اس نے آنے والے سے پوچھا
” تمھیں لینے ” بڑے اطمینان سے جواب آیا ” تم نے ہی تو بلایا تھا مجھے یہاں ” “میں نے ؟؟” وہ حیران رہ گئی اس الزام پر مگر اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور کہتی پیچھے سے سلطان فرجاد نے اسے بالوں سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا اور دو تھپڑ لگاے وہ نیچے گر گئی ” تم دونوں بہن بھائی اتنی جلدی اپنی اصلیت پر اتر آو گے اس کا اندازہ نہیں تھا مجھے ” ایسا نہیں ہے پلیز بات سنیں میری ” جبڑے پر پڑنے والی ٹھوکر نے اسے بات پوری کرنے نہ دی وہ اس کی ٹھوکروں کی زر پر تھی اور مسلسل چیخ رہی تھی ـمگر ولید بخاری بڑے آرام ایک طرف کھڑا تھا یہ تماشہ ملاحظہ کر رہا تھا جیسے اس کا پسندیدہ پروگرام چل رہا ہو ـ سب ملازم ہاتھ باندھے کھڑے تھے ان کے لیے یہ نیا نہ تھا وہ اس لڑ کی کے ساتھ یہ ہی ہوتا دیکھ رہے تھے آخر ثمانہ بیگم لڑکی کی حالت دیکھتے ہوےآگے بڑھیں اور سلطان فرجاد کو پکڑ کر اوپر لے جانے لگیں ” آپ ہوش میں نہیں ہیں پلیز اوپر چلیں ” ” چھوڑو مجھے میں اسے سبق سکھا کر رہوں گا چھوڑو” وہ اس سے اپنا آپ چھڑا کر پھر اس کی طرف بڑھے جو اب بے ہو ش ہچکی تھی ” مر جاے گیچوڑیں ابھی اِس سے صبح بات کریں گے ” وہ انہیں زبردستی اوپر لے گںیں کچھ دیر بعد وہ واپس آںیں اور ملازماوں کو جانے کا اشارہ کر کے بولیں ” لے جاو اسے اب یہاں سے اور مجھے اب یہ دوبارہ نظر نہیں آنی چاہیںے ” وہ ہنسا ـ ـ ـ ہا ہاہاہاہا کیوں نہیںلے جاتا ہوں مگر پہلے میرا انعام” ثمانہ بیگم نے اسےپیسے تھماے اور بولیں ” اب جلدی نکلو” وہ پیسے حیب میں ڈال کر مڑا اور بے ہوش ہوتی مزنہ کو اٹھا کر باہر کی طرف چل دیا
* * * * * * *
“غانیہ ” انعم نے کچھ سوچتے ہوئے اسے پکارا وہ دونوں اس وقت اپنے کمرے میں تھیں غانیہ کی طرف سے جواب پا کروہ اٹھی اور اس کے پاس جا کر اس کےہاتھ سے ڈائجسٹ کھینچ لیا “تم کیا ہر وقت یہ پڑھتی رہتی ہو کب سے بلا رہی ہوں تمھیں”
“اوہ اچھا میں نے سنا نہیں یہ تو دو بس کہانی ختم ہونے والی ہے ”
” نہیں تم پہلے میری بات سنو ” انعم نے کہا اور اس کے پاس ہو کے بیٹھ گئی
” کوئی راز کی بات ہے ؟؟”
” ہاں ۔ ۔ ۔مجھے ۔ ۔ ۔ اسد سے ملنا ہے ”
” کیا ” اسکی چییخ بے ساختہ تھی ” آہستہ یار ” اس نے غنی کے منہ پر ہاتھ رکھ کر کہا
” ویسے کیوں ملنا ہے ؟؟خیریت ہے نا ؟؟”
“ہاں بس ایک ضروری بات کرنی ہے ”
” اچھا میں بھی چلوں گی تمھارے ساتھ ” غنی نے کہا
” ہاں ہاں اسی لیے تو بتا رہی ہوں تمھیں”
” چلو پھر چلیں ”
” ہاں چلو میں مما سے پوچھ کر آئی ”
“کیا تم خالا سے پوچھ کر جاو گی؟؟؟” غنی نے حیرت سے پوچھا
” افوہ نہیں یار پاگل ہوں کیا میں چلو اب”
کچھ ہی دیر بعد غنی اور انعم اسد کے سامنے تھیں پھوپھو تو گھر پر نہ تھیں اور شیزہ اپنے کمرے میں تھی اس لیے وہ آرام سے بات کر سکتی تھی
” زہے نصیب آپ دونوں یہاں کا راستہ کیسے بھول گئیں ” اسد نے خوش ہوتے ہوے کہا
“آپ سے ملنے آے ہیں ہم اسد بھائی خاص طور پر آپ سے” اس نے انعم کو دیکھتے ہوئے ہنس کر کہا انعم نے اس کے بازو پر چٹکی کاٹی تو وہ چیخی ” اف اللہ ” ” کیا ہوا ؟؟” اسد نے حیرت سے پوچھا ” کاٹ رہی ہے ”
“ہیں ؟؟”
” افوہ کچھ نہیں اسکی باتوںپر دھیان مت دیں مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے اسد”
” ہاں ہاں آو بیٹھو ”
” پھر تو میں چلتی ہوں ” غنی جانے کے لیے مڑی تو انعم نے اس کا ہاتھ پکڑ کر روکا ” اے کدھر ”
” افوہ اچھا تھوری نہ لگتا ہے آپ دونوں نے ضروری بات کرنی ہے تو اس کا مطلب آہم آہم ”
“بد تمیز بیٹھو یہاں ” انعم اس بات کا مطلب سمجھ کر جھینپی جبکہ اسد نے اختیار ہنسا ” ارے تم نے پڑھا نہیں تھا کل والی سٹوری میں ہیروئن کی دوست اسے ہیرو کے پاس چھور کر خود غائب ہو جاتی ہے یوں اسطرح ہیرو اور ہیروئن میں محبت ہو جاتی ہے اورـ ـ ـ” انعم نے باقاعدہ ہاتھ جوڑ کر اسکا منہ بند کروایا اور اسد کو دیکھا جو اپنی ہنسی ضبط کر رہا تھا
* * * * *
” مما مما ـ ـ ـ کیاہوا ؟؟؟” شیزہ گھر پہنچی تو میمونہ بیگم کو غصے سے بولتا دیکھ کر وہیں آ گئی اسد سامنے ہی کھڑا تھا ” کیا ہوا ہے اسد ؟؟؟؟” ـ میمونہ کو نہ بولتے دیکھ کر وہ اسد کی طرف متوجہ ہوئی مگر اسد نے سوال کا جواب نہیں دیا اور ماں کو دیکھکر بولا” میں آپ کو بتا رہا ہوں مما میں شادی صرف غانیہ سے ہی کروں گا اور اگر آپ نے مجھے فورس کیا تو واپس انگلینڈ چلا جاوں گا مگر آپ کی بات میں پھر بھی نہیں مانوں گا ” یہ کہہ کر وہ رکا نہیں تھا شیزہ حیران پریشان کھڑی رہ گئی ” غ. . غانیہ ” کچھ دیر تووہ بول ہی نہ سکی مگر پھر کچھ سوچ کر مسکرائی” اب آے گا مزہ ” وہ دل ہی دل میں خوش ہوتی کمرے کی طرف چل دی ـ
* * * * * * *
اس شام وہ رخصت کا سماں… یاد رہے گا
وہ شہر وہ کوچہ وہ مکاں ..یاد رہے گا
وہ ٹیس کی ابھری تھی اِدھر یاد رہے گی
وہ درد کہ اٹھا تھا یہاں.. یاد رہے گا
آنکھوں میں سلگتی ہوںی وحشت کے جلو میں
وہ حیرت وحسرت کا جہاں یاد رہے گا
ہم بھول سکے ہیں نہ تجھے بھول سکیں گے
تو یاد رہے گا…. ہاں یاد رہے گا
وہ جب سے آیا تھا مسلسل اسے ہی سوچے جا رہا تھا آخر کیا تھا ایسا اس میں آخر کیوں وہ اپنے قدم اس کی طرف بڑھنے سے روک نہیں پایا تھا ایسا نہیں تھا کہ اس نے زندگی میں لڑکیاں نہیں دیکھی تھیں یا وہ لڑکیوں سے بھاگتا تھا ـ بہت سی گرل فرینڈز تھی اس کی مگر وہ خود کبھی کسی کی طرف نہیں بڑھا تھا اور اگر اس نے کسی کو دوست بنایا بھی تو بہت احسان کرنے والے انداز میں مگر آج ـ ـ ـ ـ
وہ جتنا حیران ہوتا کم تھا وہ کھڑکی سے ہٹکر بیڈ پر آکر لیٹ گیا مگر اس کی یاد سے پیچھا چھڑانا مشکل کام تھا کتنی مختلف تھی وہ کتنی لا پرواہ اپنے آپ سے اپنے اردگرد سے پھر اچانک کچھ یاد آجانے پر اس نے اپنا والٹ نکالا اور وہ پیسے نکالے جو وہ اسکے ہاتھ میں دے
گئی تھی اسنے مٹھی بند کر لی اس نے پیسوں کو سونگھ کر اس کی خوشبو کو محسوس کر نا چاہا ” اف” پھر کچھ سوچ کر اس نے انٹر کام اٹھایا اور گارڈکو اندر آنے کا حکم دیا گارڈ ناک کر کے اندر آیا ” یس سر ” وہ کچھ دیر سوچتا رہا پھر بولا ” ایک ضروری کام ہے جِسے تم نے بہت رازداری سے کرنا ہے ” ” یس سر” گارڈ نے مستعدی سے سر ہلایا ” کل شاپنگ مال کے سامنے جس لڑکی سے میری ملاقات ہوئی تھی اس کا مکمل بائیوڈیٹا چاہںیے مجھے بہت جتنی جلدی ممکن ہو یہ کام ہو جاناچاہئے ” گارڈ نے حیرت سے اسے دیکھا ” اوکے سر” اور اس کے اشارے پر باہر چلا گیا
” چور لٹیرا ” وہ بے ساختہ ہنس دیا اور گنگنانے لگا
اس کی آنکھوں میں محبت کا ستارہ ہو گا
اک دن آے گا جب وہ شخص ہمارا ہو گا
* * * * * * * *
وہ گنگناتے ہوے سیڑھیوں سے نیچے اتری تو سامنے پھوپھو اور شیزہ کو دیکھ کر رک گئی “یہ کب آے” وہ دل ہی دل میں سوچتی ان کی جانب بڑھی مگر ن کی بات نے اسے ٹھٹھکنے پر مجبور کر دیا ” لو آگئی پوچھو اپنی بھانجی سے ” اس نے سر اٹھا کر دیکھا تو وہاں سب موجود تھے اسے کچھ گڑ بڑ کا احساس ہوا ” کیا ہوا ہے ؟؟؟”
تیرے کالے کرتوت بھی ہم بتائیں ارے سات گھر تو ڈاںن بھی چھوڑ دیتی ہے اپنی ہی محسن کا گھر اجاڑ دیا ” میمونہ بیگم کے الفاظ پر وہ حیران پریشان رہ گئی ناسمجھی سے اسنے سب کو باری باری دیکھا ” م.
.. میں نے کیا کیا ہے ؟؟؟” موحد آگے بڑھا اور اس کے سامنے جا کھڑا ہوا “تم نے اسد کو منع کیآ تھا کہ انعم سے شادی نہ کرے ؟؟؟” وہ درشت لہجے میں بولا اسے یاد آیا جب انعم اسے وہاں لے کر گںی تھی تو اس نے اسے مجبور کیا تھا کہ وہ اسکا پیغام اسد کو دے دے اور خود چاے بنانے چلی گئی تھی
“ہاں کہا تھا مگر ـ ـ ـ” چٹاخ اسکی بات پوری ہونے سے پہلے ہی موحد کا ہاتھ اٹھا اور اس کے گال پر اپنا نشان چھوڑ گیا
” کیوں ؟آخر کیوں تمھیں میری ہی بہن ملی تھی یہ سب کرنے کے لیے ؟ تم نے ایک بار بھی نہ سوچا کہ اس گھر نے تمھیں سہارا دیا ہے اسی گھر کے نیچے رہ کر تم نے یہ گھناونا کھیل کھیلا ” موحد چیخ رہا تھا اور وہ اپنی جگہ ساکت کھڑی تھی ” ایسا نہیں ہے میں نے ایسا کچھ نہیں کیا… انعم ” وہ انعم کی طرف لپکی ” انعم تم بتاو نا سب کو کہ …… “اسکی بات درمیان میں ہی رہ گئی ” میں کیا بتاوں مجھےکم از کم تم سے ایسی امید نہیں تھی ” وہ اس کا ہاتھ جھٹک کر اوپر چلی گںی صدمے سے اس کی زبان گنگ ہو گںی ـ
” ہونہہ خام خیالی ہے تمھاری کہ میں تم جیسی بدکردار لڑکی کو اپنی بہو بناوں گی ” اسد کے اٹھ کر جاتے ہی پھو پھو اس کی جانب بڑھیں اور بازو پکڑ کر دھکا دیا” میرے بیٹے کو لڑکیوں کی کمی نہیں ہے تم جیسی تھڑڈ کلاس لڑکیوں کی فطرت میں بخوبی جانتی ہوں جہاں امیر لڑکا دیکھا پھانسنا شروع کر دیا ہونہہ مگر میں ایسا ہونے نہیں دوں گی… وہ حقارت سے بولی انکی بات پر اسکے رونے میں شدت آگئی “چلوشیزہ ” و ہ ایک نفرت بھری نگاہ ڈال کر چلی گئیں وہ خالہ کی طرف بڑھی ” خالہ جان قسم لے لیں میں نے ایسا نہیں کیا ” وہ بے تحاشا رونے لگی ” خالا جان انہیں کوئی غلط فہمی ھوئی ہے میں نے اسد بھائی کو ہمیشہ بھائی سمجھا ہے ” انہوں نے گہرا سانس بھر کر اسے اپنے ساتھ لگا لیا ” بس مما بس اب معاملہ میری بہن کا ہے میں اسکے کسی ڈرامہ میں آنے والا نہیں ہوں بہتر ہو گا آپ اسے اپنی زبان میں سمجھا دیں اگر اسے یہاں رہنا ہے تو اپنی اوقات میں رہے تو بہتر ہو گا ” موحد انگلی اٹھا کر وارن کرتا چلا گیا
* * * * * *
“ہوں….. تو اب بتاؤکیا چاہتی ھو تم”شیزہ نے انعم کو دیکھتےہوئے پوچھاوہ دونوں اس وقت ریسٹورنٹ میں موجود تھیں “تم اچھے سے جانتی ہو… جو تم نے کہا میں نے وہ کیا ہے اب تمہاری باری ہے ” انعم کے کہنے پر شیزہ نے کچھ سوچ کر بولی” تو تم چاہتی ہو سلطانہ آنٹی تمہارا باقاعدہ رشتہ لے کرآئیں” شیزہ کے کہنے پر انعم نے نفی میں سر ہلایا “نہیں میں ایسا نہیں چاہتی میں عباد سے ملبنا چاہتی ہوں ” ،،،واٹ” شیزہ نے اسے یوں دیکھا جیسے اسکی دماغی حالت پر شبہ ہو ” تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے نا کہیں میرےبھائی سے منگنی ٹوٹنے کے صدمے سے دماغ پر اثر تو نہیں ہو گیا نا ” اسنے طنز کیا “نہیں میں سیریس ہوں اور اب تمہیں یہ کام کرنا ہے تمہارا وعدہ ہے” انعم نے اسے یاددہا نی کرائی ” کیا ثبوت ہے تمہارے پاس کے میں نے وعدہ کیا تھا “انعم اسکے یوں رنگ بدلنے پر حیران رہ گئی” تم مکر نہی سکتی” انعم برہم ہوئی ” ہاہاہا مزاق کر رہی تھی اچھا بتاو کیسے ملو گی”
” یہ تو بعد میں دیکھوں گی ” انعم دھیرے سے بولی
“ہوں ٹھیک ہے میں کچھ کرتی ہوں پھر بتاوں گی تمہیں”
” چلو اب چلتے ہیں کافی دیرہوگئی “انعم کے کہنے پر وہ دونوں باہر کی جانب چل دیں جب بالکل اچانک شیزہ کی نظر سامنے اٹھی اور وہیں جمکر رہ گئی” واؤ “انعم نے چونک کر شیزہ کو دیکھا اور پھر اسکی نظروں کے تعاقب میں نظر دوڑایی تو اسکی نظر ایک بے تحاشہ خوبصورت شخص پر پڑی جو اپنی لینڈ کروزر کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑا تھا اسکے چھ گارڈز اسکے اردگرد موجود تھے” شیزہ” انعم نے اسے ہلایا “ہوں” وہ جیسے نیند سے جاگی “اس لڑکےکی شکل عباد سے کتنی ملتی ہے نا”
” افوہ ایک تو تمہیں ہر جگہ عباد ہی نظر آتا ہے کہاں عباد اور کہاں یہ ہونہہ” انعم کو اسکا اسطرح کہنا برا تو بہت لگا مگر چپ کر گئی ” رکو ذرا میں اس سے ہیلو ہائے کر لوں “شیزہ مسکرا کر اسکی طرف بڑھ گئی مگر اس سے پہلے کہ شیزہ اس تک جاتی وہ اپنی لینڈ کروزر میں بیٹھا اور منظر سے غائب ہوگیا شیزہ مٹھیاں بھینچے اسے جاتا دیکھتی رہی۔