غنی غنی” انعم نے اسے پکارا جو لان میں بیٹھی تھی وہ مڑ کر اسے سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی” احد کا فون ہے تم سے بات کرنا چاہ رہا ہے” انعم نے موبائل اسکی طرف بڑھایا “کیوں “غانیہ نے تیوری چڑھائی “مجھے کیا پتا خود پوچھ لو “انعم حیران ہوتے بولی “مجھے نہیں کرنی بات کہہ دو اس سے” وہ غصے سے کہتی اندر چلی گئی انعم بے یقینی سے اسے جاتا دیکھتی رہی ” یہ غنی ہی تھی ” وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑائی
فرہاد گھر میں داخل ہوا تو ایاد لاوٴنج میں بیٹھا تھا فرہاد کے بازو اور ٹانگ پر پٹیاں تھیں سر پر بھی زخم تھا ایاد تیزی سے اٹھ کر اس تک پہنچا
“بھائی کہاں تھے آپ اور یہ کیا ہوا ؟؟ “ایاد اسے سہارا دے کر صوفے تک لایا
“گھر میں سب ٹھیک ہے نا” فرہاد نے اسکے سوال کو نظرانداز کیا
” ہاں سب ٹھیک ہے آپ بتائیں کیا ہوا ہے آپ کو ” اسنے بے قراری سے پوچھا
“بتاتا ہوں جو پوچھا ہے وہ بتا ؤ” ایاد سمجھ گیا وہ کیا پوچھنا چاہ رہا ہے “عباد بھیا کی شادی ہو گئی ہے آپ کی نہیں ہوئی اور میری بھی ہو گئی ” آخر میں وہ شرارت سے بولا” تمہاری؟؟؟ وہ کیسے ؟؟؟” وہ حیران ہوا
“بتاتا ہوں پہلےآپ بتائیں کہاں تھے مگر نہیں نہیں میں بابا اور بھیا کو بلا کر لاتا ہوں آپ کی کلاس لیں “وہ اٹھ کر بھاگا تھوری دیر میں سب وہاں جمع تھے مہراب صاحب جو اسکی کلاس لینے کا ارادہ رکھتے تھے مگر اس کی حالت دیکھ کر چپ ہو گۓ غانیہ آئی تولاوٴنج میں سب موجود تھے انعم اور عباد بھی وہیں تھے “یہ لوگ مری نہیں گے” وہ حیران ہوتی آگے بڑھی اچانک اس کی نظر فرہاد پر پڑی وہ اسے پہچاننے کی کوشش کرنے لگی
“آؤغانیہ بیٹھو یہ فرہاد بھائی ہیں “انعم نے اسے پکڑ کر پاس بٹھایا سلطانہ بیگم نے اسے دیکھ کر نفرت سے منہ پھیر لیا
“آہاں مجھے یاد آگیا یہ وہی ہیں جو مہندی پر شیزہ کے ساتھ بیٹھے تھے “غانیہ نے یاد کرتے ہوۓ کہا “ہاں ہاں بالکل یہ وہی ہیں اور فرہاد بھائی یہ ہیں مسسز غانیہ ایاد” ایاد نے مسکراتے ہوۓتعارف کروایا” اچھا یہ بتاؤ یہ سب کیسے ہوا” سلطانہ بیگم نے اکتا کر موضوع بدلا “ماموں جی کی بدولت ” فرہاد نے تلخی سے کہا
“کیا مطلب ” مہراب صاحب سیدھے ہو بیٹھے
“ماموں جی نے کروایا ہے یہ سب میں اس دن شاپنگ کر کے گھر آرہا تھا جب ان کے آدمی مجھے زبردستی اپنے ساتھ لے گے علی داد کی ہی بدولت میں آج زندہ یہاں موجود ہوں ” اسنے خاص ملازم کا نام لیا
“جھوٹ ہے یہ میں نہیں مانتی”سلطانہ بیگم کو یقین نہیں آیا
“آپ کو اپنی اولاد پر اعتبار نہیں کیا مما” ایاد نے لب بھینچ کر پوچھا
” بہت مہنگی پڑے گی شیر علی خان کو یہ دشمنی” سلطان مہراب غصے سے کھڑےہوگئے” باباپلیز چھوڑ دیں نقصان تو ہمارا ہی ہو گا ختم کر دیں اس بات کو” فرہاد نے انہیں سمجھایا
” یہ سب اسکی وجہ سے ہو رہا ہے نہ یہ طلاق دیتا نہ بھائی جان اس حد تک جاتے “سلطانہ بیگم فرجاد کو دیکھ کر غصے سے بولیں
“ثمانہ کے رنگ ڈھنگ ہی نہ تھے گھر بسانے والے تم بلاوجہ بات کو بڑھا رہی ہو ” سلطان مہراب نے اشارے سے انہہیں چپ رہنے کا اشارہ کیا
“ٹھیک ہے طلاق میں نے دی ہے نا تو مجھ سے بدلا لیں فرہاد کا کیا قصور ہے” فرجاد بھی طیش میں آگیا تھا سلطانہ بیگم سر جھٹک کر کمرے میں چلی گئیں
” یہ آنٹی کتنے غصے والی ہیں نا”ا غانیہ نے انعم کے کان میں سرگوشی کی” شش چپ” انعم نے اسے چپ رہنے کا اشارہ کیا
عباد نے اسکی سرگوشی سن لی تھی اس نے مسکرا کر غانیہ کو دیکھا تو وہ شرمندگی سے سر جھکا گئی
★★★★★★
مؤحد آفس کے سلسلے میں حیدر آباد آیا ہوا تھا وہ مٹینگ اٹینڈ کرکے آفس سے باہر نکل رہا تھا جب کوئی زور سے اس سے ٹکرایا جونہی اسکی نظر سامنے والے پر پڑی وہ اپنی جگہ جم گیا مقابل کی حالت بھی کچھ ایسی ہی تھی
” صائمہ “اسکے منہ سے بےساختہ نکلا
” موحد… تم یہاں ”
“کیسی ہو “وہ اب کے سنبھل کربولا
” اچھی ہوں تمہارے سامنے ہوں ”
“یہاں کیا کر رہی ہو “اسنے ادھر اُدھر دیکھ کر پوچھا
” یہاں جاب کرتی ہوں ”
“مگر تمہاری تو شادی ہو گئی تھی نا “وہ حیران ہوتا بولا “میرا خیال ہے اب ان باتوں کا کوئی فائدہ نہیں “اسنے بات ختم کرنی چاہی
“کیوں فائدہ نہیں میں تو آج بھی وہیں کھڑا ہوں راستہ تو تم نے بدلا تھا “اسکا لہجہ نہ چاہتےہوئے بھی تلخ ہو گیا
” کیا مطلب تم نے شادی نہیں کی” اب کے حیران ہونے کی باری صائمہ کی تھی
“آو کہیں بیٹھ کر بات کرتے ہیں” وہ اسکا ہاتھ پکڑ کر باہر نکل گیا
★★★★★★
ایاد حمزہ کے ساتھ لنچ کرنے ریسٹورنٹ آیا تھا وہ لنچ کرکےجونہی اٹھا اسے اپنے پیچھے نسوانی آواز سنائی دی وہ حیران ہو کر پلٹا سامنے شیزہ کھڑی تھی “تم یہاں”
” ہاں مجھے تم سے اکیلے میں کچھ ضروری بات کرنی ہے” وہحمزہ کو دیکھ کر بولی
“سوری اتنا فالتو ٹائم نہیں ہے میرے پاس” اسنے تلخی سے کہا اور جانے لگا
“پلیز ایک بار “اس کے لہجے میں التجا تھی
” اچھا میں چلتا ہوں بعد میں ملاقات ہو گی “حمزہ انہیں اکیلا چھوڑ کر باہر نکل گیا وہ گہری سانس بھرتا دوبارہ بیٹھ گیا “ہاں کہو جلدی ‘”
★★★★★
“ایاد کیا کہہ رہا ہے” انعم نے غنی سے پوچھا
” وہ کہہ رہے ہیں میں میٹنگ میں ہوں تھوڑی دیر میں آوں گا” غنی نے سیل آف کرتےہوئے کہا
” اچھا چلو آواتنی دیر ہم لنچ کرتے ہیں” وہ اسکا ہاتھ پکڑ کر ریسٹورنٹ کی طرف بڑھ گئی جونہی وہ لوگ اندر داخل ہوۓ دونوں کو حیرت کا شدید جھٹکا لگا
” یہ ایاد ….شیزہ “غانیہ لڑکھڑائی انعم نے اسے پکڑکر گرنے سے بچایا وہ تیز تیز قدم اٹھاتی آگے بڑھ گئی” رکو غنی “انعم اسکے پیچھے بھاگی
” کیا کمی ہے مجھ میں ….ہاں… بولو کیا غانیہ مجھ سے زیادہ خوبصورت ہے بتاو “شیزہ نے ایادکا ہاتھ پکڑنا چاہا
“ہاتھ مت لگانا “غانیہ کی آواز پر دونوں اچھلے” غانی” ایاد تیزی سے اٹھا “تم مجھ سے جھوٹ بول رہے تھے ہاں” “اور تم اب کہاں گئی تمہاری غیرت مجھ پر تو تم دونوں ماں بیٹی نے اتنا گھٹیا الزام لگایا اور خود کیا کرہی ہو تم اب ہاں” وہ چیخ کر بولی لوگ بھی اب انکی طرف متوجہ ہو چکے تھے
“آہستہ بولو غانیہ “ایاد نے اسے خاموش کروانا چاہا
“کیوں بولوں اہستہ جاؤ “وہ مزید بھڑکی” دفعہ ہو جاؤ میں کسی کو اپنے حق پر ڈاکا ڈالنے نہیں دوں گی سمجھی” اسنے شیزہ کو دھکا دیا اور اسکے بال پکڑ کر کھینچے “پلیز غانیہ بات سنو چھوڑو اسے غانیہ “ایاد نے اسکے بال چھڑواۓ
“چڑیل ہے یہ مجھے خوش نہیں دیکھ سکتی یہ” وہ روتے ہوے بھاگ کر باہر نکل گئی ایاد اسکے پیچھے لپکا شیزہ ساکت کھڑی تھی وہ غانیہ جسے بولنا نہیں آتا تھا اب کیسے اسے سب کے سامنے ذلیل کر گئی تھیباتت بات پر رونے والی ڈرپوک سی غانیہ کا یہ جنونی روپ اسنے پہلی بار دیکھا تھا انعم نے تاسف سے ادے دیکھا اور بغیر کچھ کہے واپس مڑ گئی
★★★★★★
“غانیہ پلیز میری بات سنو” ایاد نے اسکا بازو پکڑ کر اسے اپنی طرف موڑا وہ ابھی تک رو رہی تھی “ہاتھ مت لگائیں مجھے یہ ہی کرنا تھا تو کیوں لاۓ تھے مجھے وہیں رہنے دیتے” وہ اسکے ہاتھ جھٹک کر بولی
“اف یار کچھ نہیں کیا میں نے یار تم جانتی ہو میں صرف تم سے پیار کرتا ہوں” اسنےصفائی دینی چاہی
” جھوٹ بولتے ہیں آپ” وہ چیخی
“ادھر دیکھو میری طرف میری آنکھوں مہں دیکھو کیا میں جھوٹا لگتا ہوں کیا کوئی کمی ہے میرے پیار میں… ہوں “اسنے نفی میں سر ہلایا
” لیکن شیزہ ”
“وہ کچھ بھی نہیں ہے وہ میرے لیے تم ہو میرا سب کچھ “ایادنے اسے کندھوں سے پکڑ کر اپنے سامنے کھڑا کیا
“چلو معاف کردو نا اب “وہ منانے لگا
“نہیں “اسنے نفی میں گردن ہلائی
“کیوں “وہ حیران ہوآ
“میں بدلہ لوں گی “وہ آنسو صاف کرنے لگء
” اچھا کونسا” وہ مبہم سا مسکرایا
“میں کیوں بتاؤں”
” چلو مت بتاو مگر ناراضگی ختم کر دو دیکھ لو کان پکڑ لیے “اسنے کانوں کو ہاتھ لگایا
وہ روتے روتے ہنس دی اسنے بےاختیار اسے گلے سے لگا لیا
★★★★★★
“بھیا میں آجاوں “غانیہ نے فرجاد کے کمرے میں جھانک کر پوچھا
” ہاں آجاؤ گڑیا آؤبیٹھو خیریت ہے نا “فرجاد نے نرم لہجے میں پوچھا
” ہاں وہ ،،، وہ “ہچکچای
” ہاں ہاں بولو”
” مجھے آپکو کچھ بتانا ہے مزنہ بھابھی کے بارےمیں” وہ حیران ہوتا اسکے سامنے آبییٹھا”مزنہ کے بارے میں ہاں بتاؤ ”
“وہ ایاد کے پاس ہیں “اسنے دھماکا کیا
“کیاااااا” وہ اپنی جگہ سے کھڑا ہو گیا
“نہیں ایسا ہوتا تو وہ مجھے بتاتا تمہءں غلط فہمی ہوئی ہو گی “اسے یقین نہ آیا آتا بھی کیسے بات ہی ایسی تھی
“آپ کو نہیں پتا انہوں نے مجھے خود بتایا تھا کہ وہ آپ سے ناراض ہیں اس لیے وہ آپ سے چھپی ہوئی ہیں” اسنے سرگوشی کے انداز میں بتایا
“تو تم مجھے اب بتا رہی ہو…. ہوں” فرجاد نے اسے گھورا
“وہ میں نے بدلہ لینا تھا نا “مگر وہ اسکی بات سنے بغیر باہر نکل گیا
★★★★★★
“یہ کیا سن رہا ہوں میں” فرجاد اسکے سر پر آکر دھاڑا
” کیا بھیا” وہ جو سویا ہوا تھا فرجاد کے دھڑنے پر جلدی سے اٹھا
“مزنہ کہاں ہے” اسنے سیدھا پوچھا
“کہ ..کیا مطلب” وہ گڑبڑایا
“مطلب تم جانتے ہو “اسنے جانچتی نگاہوں سے اسکاجائزہ لیا
” نہیں تو مجھے کیا پتا “وہ مکرا
“تم مجھ سے بھی باتیں چھپاتے ہو آئی کانٹ بلیو” فرجاد نے افسوس سے کہا
“آپکو کس نے بتایا” وہ ہار مانتےہوے بولا
” تمہیں کیا لگا تم نہیں بتاو گے تو مجھے پتا نہیں لگے گا”
” اففففف” وہ ریلکس انداز میں بیڈ سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا پھر بات سمجھ کر اچھل کر بیڈ سے اترا
“غانیہ کی بچی” اسنے دانت کچکچاے
“اس کا کوئی قصور نہیں “فرجاد نے اسکا دفاع کیا
“یہ ہی پیس رہ گیا تھا دنیا میں جس سے مجھے محبت ہونی تھی “وہ بے چارگی سے بولا
“آئیں لے کر چلتا ہوں میں آپکو مزنہ بھابھی کے پاس” فرجاد کے مسلسل گھورنے پر وہ فوراً جانے کو تیار ہوا
مگر اسنے جونہی دروازہ کھولا کان لگا کر سنتی غانیہ دھڑام سے اسکے قدموں میں آگری
وہ جلدی سے اٹھی اورگھبرا کر باہر کو بھاگ گئی نہ چاہتےہوئے بھی ایاد کے لبوں پر ہنسی آگئی
“ہوں ….یہ تو بہت غلط ہوا تم غانیہ سے نہیں ملے دوبارہ “صائمہ نے مؤحد کی پوری بات سن کر کہا
“نہیں ”
“کیوں …اور شیزہ کے بارے میں کیا سوچا تم نے ”
” میں اس کے ساتھ نہیں رہ سکتا ” وہ خاموش ہو گئی “تم نے اپنے بارے میں نہیں بتایا ” موحد نے اسے بغور دیکھتے ہوے پوچھا
“میں نے شادی نہیں کی ”
“واٹ؟؟ مگر تمہاری مما نے تو کہا تھا کہ ”
“ہاں انہوں نے بہت زور دیا مگر میں نہیں مانی اور یہاں الگ فلیٹ لے کر رہنے لگی ہوں تب سے یہیں جاب کر رہی ہوں ” اسنے حقیقت بتائی
“تم نے مجھ سے رابطہ کیوں نہیں کیا ؟؟”
“مجھے لگا تم اپنی زندگی میں مگن ہو گے میں نہیں چاہتی تھی کہ تمہاری زندگی میں آکر تمہیں ڈسٹرب کروں ” وہ صاف گوئی سے بولی
“بالکل غلط سوچا تم نے میں ایک لمحہ تمہیں نہیں بھولا تم نے تین سال ضائع کر دئیے اپنے بھی اور میرے بھی میں آج ہی مما سے بات کرتا ہوں اور اب میں تمہاری ایک نہیں سنوں گا سمجھی ” موحد نے خفگی سے کہا
“لیکن ـ ـ ـ ” اسنے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا مگر موحد نے درمیان میں ہی ٹوک دیا
“لیکن ویکن کچھ نہیں بس بہت سہہ لی جدائی اب مزید نہیں سہہ سکتا ” وہ اسے دیکھ کر رہ گئی
★★★★★
صائمہ موحد کی کلاس فیلو تھی وہ دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے موحد کو تین سال کے لیے ایبروڈ جانا تھا اس لیے وہ چاہتا تھا کہ جانے سے پہلے صائمہ کا اس کے ساتھ نکاح ہوجائے صوفیہ بیگم اور ریحان صاحب نے اسکی خواہش کا احترام کیا تھا مگر صائمہ کے گھر والوں کی طرف سے یہ کہہ کر ا نکار کر دیا گیا کہ وہ بچپن سے اپنے کزن کے ساتھ منسوب ہے موحد کے لیے یہ کسی شاک سے کم نہ تھا وہ اسکے گھر بھی گیا تھا مگر وہ لوگ وہاں سے کہیں اور شفٹ ہو گئے تھے یہ سب ہونے کے بعد بھی وہ اسے بھول نہیں سکا تھا ہمیشہ اسکے انتظار میں رہا اور وقت نے ثابت کردیا کہ اسکا انتظارائیگاں نہیں گیا
….دوسری بار بھی ہوتی… تو تمہی سے ہوتی
….میں جو بالفرض… محبت کو دوبارہ کرتا
★★★★★★★★★★★★★
شیزہ اس دن کے بعد واپس نہیں آئی تھی نہ ہی موحد اسے لانا چاہتا تھا ریحان صاحب اور صوفیہ بیگم آج میمونہ بیگم کی طرف آئے تھے وہ چاہتے تھے کہ مل بیٹھ کر اس مسلے کا حل ڈھونڈا جائے وہ پچھلے آدھے گھنٹے سے لاوٴنج میں بیٹھے ان کا انتظار کر رہے تھے وہ دو بار ملازم سے بھی پوچھ چکے تھے “وہ آرہی ہیں ” کہہ کر چلا جاتا اس قدر تزلیل پر انہیں غصہ تو بہت آیا مگر چپ کر گۓ
“سوری بھائی صاحب آپ کو انتظار کرنا پڑا ایک بہت ضروری کال آگئی تھی ” میمونہ بیگم آتے ہی بولیں
“کوئی بات نہیں “صوفیہ بیگم غصہ پی کر بولیں
“کہیے کیسے آنا ہوا ؟؟”
“شیزہ اتنے دنوں سے آپکی طرف ہے آپ نے پوچھا نہیں اس سے کہ وہ اپنے گھر کیوں نہیں جاتیں “ریحان صاحب رسان سے بولے
” اپنا گھر کون سا اپنا گھر جہاں سے اسے آدھی رات کو بےعزت کر کے نکال دیا گیا “وہ لگی لپٹی رکھے بغیر بولیں
“اس سب میں قصور بھی صرف اس کا تھا “ریحان صاحب بھی تلخ ہوئے
“کیا قصور تھا اس کا مؤحد نے اس پر ہاتھ اٹھایا اور آپ کھڑے دیکھتے رہے وہ اب اسی صورت دوبارہ اس گھر میں جائے گی جب مؤحد اس سے معافی مانگے گا “یہ کہہ کر وہ کچھ سنے بغیر کمرے سے چلی گئیں وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر رہ گۓ
★★★★★★★★★★★★★
ڈور بیل بجنے پر مزنہ نے دروازہ کھولا مگر جونہی اسنے سامنے دیکھا اسکی اوپر کی سانس اوپر رہ گئی سامنے فرجاد کھڑا تھا وہ بھاگ کر اندر چلی گئی
” مزنہ میری بات سنو “فرجاد اسکے پیچھے گیا اور اسکا بازو پکڑکر اسکا رخ اپنی طرف کیا
” کیوں آئے ہیں آپ یہاں “اسکی آنکھوں میں آنسو تھے فرجاد تڑپ گیا
” اونہوں بہت رو لیا اب بس” وہ اسکے آنسو صاف کرتے بولا” میں جانتا ہوں میں نے تمہارے ساتھ بہت غلط کیا میں تو شاید معافی کے بھی لائق نہیں لیکن یہ سچ ہے کہ تمہارے بعد مجھے معلوم ہوا کتنی محبت ہے تم سے میں مجرم ہوں تمہارا چاہے تو معاف کردو چاہے تو ٹھکرا دو” وہ سرجھکاے کھڑا تھا
مزنہ نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا کتنا بدلا بدلا لگ رہا تھا وہ ایک پل لگا تھا اسے فیصلہ کرنے میں
“مجھے آپ سے کوئی گلہ نہیں “وہ مضبوط لہجے میں بولی
“تم بہت اچھی ہو مزنہ آئی رئیلی لو یو ” وہ فرطِ جزبات سے اسکی طرف بڑھا عین اسی لمحے اسکی جیب میں پڑا موبائل بج اٹھا اسنے نمبر دیکھا ایاد کا تھا جو نیچے کھڑا ان دونوں کا انتظار کر رہا تھا
” افوہ ایک تو یہ لڑکا” وہ کال کاٹتا ہوا بولا
” کون ہے “مزنہ نے پوچھا” ایاد ہے ہمارا انتظار کر رہا ہے “وہ آگے بڑھا اور اپنا ہاتھ اسکی طرف بڑھا کر بولا “میں تمہیں لینے آیا ہوں اس وعدے کے ساتھ کہ اب کبھی تمہارے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہونے دوں گا سب بھلا کر ایک نئی زندگی شروع کرتے ہیں چلو گی میرے ساتھ” مزنہ کچھ دیر اسکی آنکھوں میں دیکھتی رہی پھر ہو لے سے سر ہلا کر اپنا ہاتھ اسکے مضبوط ہاتھ میں دے دیا
★★★★★★★★★★★★★
ایاد کے جانے بعد غانیہ کمرے میں چلی آئی وہ بور رہی تھی انعم اور عباد مری گئےہوئے تھے گھر پہ سلطانہ بیگم کے سوا کوئی نہ تھا اسنے اپنا سوٹ نکالا اور واش روم میں جانے کے لیے مڑی جب اسکے کمرے کا دروازہ کھلا اور سلطانہ بیگم اندر آئیں وہ تو حیران رہ گئی
” آنٹی… آپ …یہاں “وہ ہکلا کر بولی
” کیوں میں نہیں آسکتی کیا میرے بیٹے کا کمرہ ہے جب دل چاہے آوں” وہ طنزًا بولیں
وہ چلتی ہوئی اسکے سامنے آکر کھڑی ہوگئیں
” کتنے پیسے لو گی میرے بیٹے کا پیچھا چھوڑنے کے”
“جج جی” وہ ناسمجھی سے انکا منہ تکنے لگی
” سمجھ نہیں آتا کیا تمہیں ….کبھی خود کو دیکھا ہے ششیشے میں ارے کہاں میرا ہیرے جیسا بیٹا اور کہاں تم.. بہتر یہ ہے خاموشی سے میرے بیٹے کی زندگی سے نکل جاؤ جتنے پیسے کہو گی اتنے دے دوں گی
” اسےتو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا جواب دے
“آنٹی یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں ”
“جتنی جلدی اپنی اپنی اصلیت پر آجاو گی تمہارا ہی فائدہ ہے ورنہ تمہیں اس گھر سے نکالنا میرے لیے مشکل نہیں ”
ان کے لہجے میں حقارت ہی حقارت تھی “لگتا ہے تم ایسے نہیں مانو گی “انہوں نے اس کا بازو پکڑا اور گھسیٹتے ہوئے باہر لے جانے لگیں وہ جانتی تھیں اس وقت گھر پر کوئی نہیں ہے اور اس سے اچھا موقع انہیں شاید نہ مل سکتا وہ اسے کھینچتے ہوئے سیڑھیوں تک آئیں “نکل جاؤ اس گھر سے اور اگر تم دوبارہ کبھی یہاں نظر آئی یا کسی سے ملنے کی کوشش کی تو بہت برا حشر کروں گی تمہارا ”
“آنٹی میں کہاں جاؤں گی ”
“یہ میرا دردِسر نہیں ہے سمجھی “اسی لمحے ایاد اور مزنہ گھر میں داخل ہوئے فرجاد کسی کام سے چلا گیا تھا اس سے پہلے وہ کچھ بولتا اس کی نظر سامنے پڑی وہ حیران ہوا “جاؤ نکل جاؤ دفعہ ہو جاؤ” سلطانہ بیگم نے اسے زور کا دھکا دیا وہ جو پہلی سیڑھی ہر کھڑی تھی دھکا لگنے سے سیڑھیوں سے نیچےجا گری
“مما ” ایاد زور سے چیخا اور اسکی طرف بھاگا “غانیہ غانیہ ” وہ اوندھے منہ گری تھی اس نے اسے سیدھا کیا تو دھک سے رہ گیا اس کے سر سے خون تیزی سے بہہ رہا تھا اس نے ایک نظر سامنے کھڑی ماں کو دیکھا اور اسے اٹھا کر باہر کی طرف بھاگا
خون صرف آگے سے نہیں سر کے پچھلے حصے سے بھی بہہ رہا تھا “ڈرائیور تیز چلاؤ “ایاد کی شرٹ اس کے خون سے رنگی جا چکی تھی اس کی حالت دیکھ کر اس کا دل بند ہو رہا تھا اس کی آنکھوں سے دو آنسو ٹوٹ کر نکلے اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ اسکی ماں اس حد تک بھی جا سکتی ہے مزنہ بغور اس کی پریشانی دیکھ رہی تھی ہسپتال پینچتے ہی اس نے فرجاد کو کال کی تھی وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے بھاگتا ہوا آیا تھا غانیہ I.C.Uمیں تھی ڈاکٹرز کے مطابق اسکی حالت بہت سیریس تھی وہ اسے دیکھتے ہی اس کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دیا “بھیا اگر اسے کچھ ہو گیا تو ”
“برا مت سوچو دعا کرو سب ٹھیک ہو گا “وہ اسے تسلی دینے لگا
★★★★★★★★★★★
آج اسے دو دنوں بعد ہوش آیا تھا دو دنوں میں ایاد ایک لمحے کو بھی اسکے پاس سے نہ ہلا تھا اسے ہوش میں آتا دیکھ کر فوراًاس کی طرف لپکا “غانیہ غانیہ میری جان آنکھیں کھولو ” اس نے جونہی آنکھیں کھولیں ایاد کو اپنے اوپر جھکا پایا “اـ ـ ـ یاـ ـ د ” اس کے منہ سے کراہ نکلی
“کیا ہوا درد ہو رہا ہے ؟؟”اس نے ہاں میں گردن ہلائی “کہاں پر ؟؟” اس نے سر کی طرف اشارہ کیا “میں ڈاکٹر کو بلا کر لاتا ہوں ” وہ اس کے سر پر بوسہ دے کر باہر نکل گیا
★★★★★★★★★★★★
آج ایاد اور فرجاد لاہور شفٹ ہو رہے تھے اپنی اپنی پیکنگ کرنے کے بعد وہ لوگ نیچے آۓ جہاں سلطان مہراب ، عباد ،انعم اور فرہاد کے علاوہ سلطانہ بیگم بھی موجود تھیں سب سے ملنے کے بعد ایاد سلطانہ بیگم کے پاس گیا “میں جانتا ہوں آپ ناراض ہوں گی ہمارے جانے سے مگر آئیم سوری اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں جو آپ چاہتی ہیں وہ ہمارے بس میں نہیں اسی لیے ہم نے سوچا یہاں سے ہی چلے جائیں “یہ کہہ کر وہ دروازے کی طرف بڑھ گیا جہاں سب کھڑے تھے مگر اچانک اسکے قدموں کو بریک لگ گیا سلطانہ بیگم بلک بلک کر رو رہی تھیں وہ اچانک اٹھیں اور فرجاد کےسامنے جا کر کھڑی ہو گئیں ” مجھے معاف کر دو بہت بری ہوں میں ہمیشہ تم سے نفرت کرتی رہی خود کے علاوہ سب کو حقیر جانتی رہی مگر اتنی بڑی سزا مت دو مجھے” انہوں نے اسکے آگے ہاتھ جوڑ دیے سب دم بخود رہ گئے وہ چند لمحے یونہی کھڑا رہا پھر آگے بڑھ کر انکے ہاتھ کھول دیے” میں نے ،،،، آپکو،،،، معاف کیا” اسکی اپنی آنکھیں بھی بھیگ گئی تھیں وہ اسکے کندھے سے لگ کر بری طرح رو دیں کچھ دیر بعد اسنے انہیں الگ کیا اور انکے آنسو صاف کیے” ہمیں دیر ہو رہی ہے” ایاد اونچی آواز میں بولا” کیا مطلب تم اب بھی جاو گے” سلطانہ بیگم جھٹکے سے پلٹیں “ہاں تو اور کیا آپ نے کونسا مجھے روکنے کا کہا” وہ معصوم بنا” فرجاد کو کہا تو ہے ”
“میں فرجاد تھوڑی ہوں” اسے غصہ آیا
” مگر تمہاری چابی تو ان کے پاس ہی ہے نا “انعم کی بات پر سب کا مشترکہ قہقہ گونجا
★★★★★★★★★★★★★
موحد نے شیزہ کو طلاق دے دی تھی اس دن کے بعد سے شیزہ نے ایاد سے ملنے کی کوشش نہیں کی تھی وہ اسی دن سمجھ گئی تھی کہ ایاد اسکی قسمت میں نہیں تھا اسنے جو چال چلی تھی وہ اسی پر الٹ دی گئی تھی وہ جان گئی تھی محبت کوشش سے نہیں قسمت سے ملتی ہے
محبت کھیل ہے قسمت کا
یوسف ملتا نہیں زلیخا نام رکھنے سے
ختم شد
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...