“شفی تو پاگل ہوگیا ہے” وصی نے جھنجھوڑتے ہوئے غصہ سے کہا۔
“ہاں پاگل ہوگیا ہوں میں۔۔۔کیاغلطی تھی میری یہی کہ میں اس سے بے پناہ محبت کی ہے۔۔۔اور اسنے۔۔”
شفی کی آنکھوں سےآنسوں گرے۔۔
“مجھے آج سمجھ آیا۔۔۔اج تک تم مجھ سے کیوں بھاگتی رہی۔۔۔کیوں مجھے اپنے قریب تک نہیں آنے دیتی تھی۔۔
میں شایدایسا پہلا مرد ہوں جس نے آج تک اپنی بیوی کوہاتھ تک نہیں لگایا۔۔اوراپنے بھائی نے میری کے ساتھ۔۔۔”
شفی نے سرخ آنکھوں کے ساتھ کہا۔۔
“شفی بکواس بند کر ورنہ میں بھول جاؤں گا کہ تو میرابھائی ہے۔۔۔” وصی نے چیخ کر کہا۔۔
“ارے تجھے ہی کب ہے تجھے یاد ہوتا تو یو میرے پیٹ پیچھے ایسا گھناؤنا کھیل نہیں کھیلتا۔۔”
شفی نےچبا کر کہا۔۔
“تونے سہی نہیں کیا تو پچھتائے ایک دن جب تجھے سچائی کا پتالگے گا۔۔۔مجھے تو شرم آرہی ہے تیری سوچ پر۔۔۔
چلو حور۔۔۔” وصی نے غصہ سے کہا۔۔
اور حور کی طرف دیکھا۔۔جو بے آواز رو رہی تھی۔۔
“حور۔۔۔چلو۔۔” وصی نے کہا۔۔
“نہیں۔۔۔” حور کی آواز بھر آئی۔۔
“حور چلو یہاں سے۔۔۔”وصی نے پھر سے کہا۔۔
“نہیں۔۔۔میں نہیں جاوں گی۔۔۔” حور نے روتے ہوئے شفی کو دیکھا۔۔
جو منہ موڑے کھڑا تھا۔۔
“شفی۔۔۔میں نے کچھ نہیں کیا ۔۔خدا کے لیے میرا یقین کریں۔۔”
حور روتے ہوئے منت کرنے لگی۔۔
“حور چلو یہاں سے۔۔۔” وصی نے اس کو بازو سے پکڑا۔۔
“شفی میں بے قصور ہوں۔۔۔آپ غلط سمجھ رہے ہیں شفی۔۔۔میری بات سنیں۔۔۔مجھے شفی کے پاس جانا ہے۔۔۔۔”
وصی اسے زبردستی لے جارہا تھا۔۔
مگر دور جاتے جاتے بھی شفی کے کانوں میں اس کی آواز پڑ رہی تھی۔۔
صبح سے ٹرائی کر رہی ہوں کال نہیں اٹھا رہی حور”
شائستہ بیگم فون کان سے لگائےلاؤنج میں داخل ہوئی۔۔
“مصروف ہوگی۔۔۔ہوسکتا ہے کہیں گھومنے گئے ہوں”
ددا نے کہا۔۔
ہاں اس نے بتایا تھا مگر کل گئے تھے وہ لوگ آج تو صبح سے بات نہیں ہوئی میری ۔۔”
شائستہ کو فکر ہوئی۔۔
“ہوسکتا ہے سوگئی ہوگی۔۔تو کیوں فکر کر رہی ہے؟”
ددو نے کہا۔۔
“وہ وصی اور شفی کے جانے کے بعد خود سے کال کر لیتی اور آج وہ کال ہی نہیں اٹھا رہی۔۔”
شائستہ بیگم نے کہا۔۔
“مس کال دیکھے گی تو خود ہی کرلے گی کال۔۔”
ددا نے کہا۔۔
“جی۔۔شاید۔۔” شائستہ بیگم سوچنے لگی۔۔
وہ وہیں کھڑا انہیں جاتا دیکھ رہا تھا کتنی ہی دیر یونہی ساکت کھڑا رہا۔۔
“حور۔۔۔تم کیوں کیا میرے ساتھ ایسا؟”
وہ وہیں زمین پر بیٹھا کسی بچے کی طرح رونے لگا۔۔
“میں نے کتنا چاہا تمہیں اور تم نے میرے ساتھ کیا کیا حور؟”
شفی کی آنکھوں سے مسلسل آنسوں گر رہے تھے۔۔
“میں تمہیں کبھی نہیں کروں گا معاف۔۔۔”
شفی نے اپنے سیدھے ہاتھ سے آنسوں صاف کیے۔۔۔
اور اٹھنے ہی لگا تھا کہ اس کی نظر پاس زمین پر پڑے مڑے تڑے سےکاغذ پر پڑی۔۔
اس نے ہاتھ بڑھا کر اس کاغذ کو اٹھایا۔۔
اور اسے کھول کر دیکھا۔۔۔جہاں میڈیسن کے نام لکھے تھے۔۔
“کیا یہ واقع ڈاکٹر حمنہ کی ہینڈ رائٹنگ ہے؟”
اس نے خود سے سوال کیا۔۔
(میں تمہیں طلاق دیتا ہوں۔۔۔۔)
اس کے کانوں میں اپنا ہی جملہ ٹکرانے لگا۔۔
وصی مجھے جانا شفی کے پاس۔۔۔وہ۔۔۔وہ ایسا کیسے کرسکتے ہیں میرے ساتھ۔۔۔میں۔۔۔نہیں”
حور نے وصی کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کی۔۔
“تم سمجھ کیوں نہیں رہی ہو وہ تمہیں نہیں رکھنا چاہتا اپنے ساتھ۔۔۔اس نے طلاق دے دی ہے تمہیں۔۔”
وصی نے رک کر اسے شانوں سے تھامتے ہوئے تلخ لہجے میں کہا۔۔
“نہیں۔۔۔نہیں۔۔۔شفی کو کہیں نا وہ میری بات سن لے۔۔۔بس
ایک بار۔۔۔” وہ روتے ہوئے کہنے لگی۔۔
وصی کو اس وقت حور کی حالت دیکھ بہت ترس آرہا تھا۔۔
اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ سب شفی کی سوچ تھی۔۔
“حور۔۔۔میری بات سنو۔۔حور۔۔۔”
وصی نے حور کو چھپ کروانا چاہا۔۔
“میں ہوں نا میں سب ٹھیک کردوں گا۔۔۔شفی کو میں سمجھاؤں گا۔۔۔وہ اس وقت غصہ میں ہے۔۔۔”
وصی نے اس کے آنسوں صاف کرتے ہوئے کہا۔۔
مگر وہ مسلسل روئے چلی جارہی تھی۔۔
“میری طرف دیکھو حور۔۔۔میں سب ٹھیک کردوں گا۔۔تھوڑا وقت دو بس۔۔۔”
وصی نے ور کو سمجھانا چاہا۔۔
جب کہ وہ اب خود کو کوس رہا تھا۔۔
کاش وہ حور کو گھومانے نا لے جاتا۔۔
“اس سب کا قصور وار میں ہوں۔۔”
وصی دل ہی دل میں خود کو کوسنے لگا۔۔
وصی یوں بنا بتائے نہیں جاسکتا تھا۔۔۔
اس لیے اسے چھٹی لینی لازمی تھی۔۔
وہ اسے باہر کھڑا کر خود اندر بلا گیا تھا
وہ اکیلی بیٹھی تھی۔۔
رو رو کر آنکھیں سوج گئی تھی۔۔
مگر آنسوں تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔۔
(میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں۔۔۔)
شفی کا پیار بھراجملہ اسے یاد آیا۔۔
اور وہ پھر سے گھٹنوں میں سر دیے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔۔۔۔
“بس یہی محبت تھی آپ کی شفی۔۔؟”
س نے دل میں کہا۔۔
(میں تمہیں طلاق دیتا ہوں)
اس کے کانوں میں جملہ ٹکرایا۔۔
“نہیں۔۔۔نہیں۔۔شفی آپ میرے ساتھ ایسا کیسے کرسکتے ہیں۔۔میں نے کچھ نہیں کیا تھا۔۔۔”
حور کی آنکھوں سے آنسوں قطرہ بہ قطرہ بہ رہے تھے۔۔
شائستہ بیگم رات کے کھانے کی تیاری کررہی تھی۔۔
وہ صبح سے بہت پریشان تھی۔۔
اسے حور بہت یاد آرہی تھی۔۔
جب سے حور گئی تھی۔۔ایسا کوئی دن نہیں گزرا تھا جب وہ انہیں کال نا کرتی اور آج پورا دن گزر گیا تھا۔۔
مگر ان کی بات نہیں ہوپائی۔۔
وہ کچن سے نکل کر لاؤنج کی طرف بڑھ رہی تھی کہ سامنے گیٹ پر اس کی نظر پڑی۔۔
وہ رک کر دیکھنے لگی۔۔
اور انہیں کچھ لمحے لگے پہنچاننے میں کہ وہ وصی اور حور ہی تھے۔۔
“حور۔۔” انہوں نے زیرلب کہا۔۔اور باہر کی جانب بڑھی۔۔
“مما۔۔۔” انہیں یکھتے ہی حور دوڑتی ہوئی ان کی طرف بڑھی۔۔اور جھٹ سے ان کے گلے لگ شدت سے رونے لگی۔۔
“حور۔۔۔کیا ہوا؟” شائستہ بیگم اسے یوں اچانک دیکھ حیران ہوئی۔۔
اور اسپر یوں اس کا بے اختیار رونا۔۔
ان کا دل ڈوبا رہا تھا۔۔۔
“وصی۔۔۔کیا ہوا ہے یہ رو کیوں رہی ہے۔۔حور بتا تو سہی۔۔”
شائستہ بیگم پریشان ہوئی۔۔
وصی بھی سر جھکائے خاموشی سے کھڑا تھا۔۔
تبھی ددو اور ددا بھی وہاں آئے۔۔
اور انہیں ہوں اچانک دیکھ حیران ہوئے۔۔
“کیا ہوا یہ رو کیوں رہی ہے؟”
ددا نے پوچھا۔۔
“اندر چلیں۔۔۔بتاتا ہوں۔۔”
وصی نے کہا۔۔
اور سب اندر کی جانب بڑھ گئے۔۔
وہ سب لاؤنج میں بیٹھے تھے۔۔
وصی نے انہیں ساری تفصیل بتادی۔۔
رات گہری ہورہی تھی۔۔
مگر حالات کی طرح نیند بھی اس سے ناراض تھی۔۔
وہ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔۔
حوراور اس کے ساتھ گزارے لمحے کسی فلم کی طرح چل رہے تھے اس کی آنکھوں میں۔۔جو شاید اب آنسوؤں سے بھری تھی۔۔
اسے سکون نہیں مل رہا تھا۔۔
سر درد سے پھٹا جارہا تھا۔۔
آنکھیں سرخ ہوچکی تھی۔۔
تبھی اس کا فون زور زورسے بجنے لگا۔۔
مگر وہ ٹس سے مس نا ہوا۔۔
فون بج بج کر بند ہوگیا۔۔۔
ساری باتیں باربار اس کے زہن میں گھوم رہی تھی۔۔
جو ہونا تھا وہ ہوگیا تھا وہ کچھ بھی بدل نہیں سکتا تھا۔۔
وہ گہری سوچوں کے سمندر میں ڈوبا تھا۔۔
کہ فون پھر سے بجنے لگا۔۔
اس بار اس نے ہاتھ بڑھا کر فون اٹھایا۔۔۔
اور بنا نوٹس کیے کہ کس کا نمبر ہے کان سے لگایا۔۔
“ہیلو شفی۔۔۔” ددا کی کڑک آواز اس کے حوش اڑا گئی۔۔
وہ یک دم سیدھا ہوا۔۔
“جی۔۔جی۔۔ددا۔۔” اس نے بھاری آواز میں کہا۔۔
“کل تو مجھے یہاں چاہیے ہے۔۔۔میرے سامنے۔۔۔”
ددا نے حکم سنایا فون بند کردیا۔۔
اور شفی کا حلق خشک ہوا۔۔
وہ آنکھیں موندے راکنگ چیئر پر جھول رہا تھا۔۔
سوچیں دماغ میں گردش کررہی تھی۔۔
کمرے کی خاموشی بھی اسے سکون نہیں دے رہی تھی
(بس کردے وصی۔۔۔اتنا گھٹیا کام کرتے تم لوگوں کو خدا کا خوف نہیں ہوا۔۔اور اب مجھ سے چھپا رہے ہو۔۔)
(آج میں ٹائم پر نا آتا تو کبھی تمہیں نا پکڑ پاتا۔۔)
(ارے تجھے یاد ہی کب ہے تجھے یاد ہوتا تو یو میرے پیٹ پیچھے ایسا گھناؤنا کھیل نہیں کھیلتا۔۔)
اسے بار بار شفی کے جملے یاد آرہے تھے۔۔
آنسوں بند آنکھوں سے بہ رہے تھے۔۔
(میں تمہیں طلاق دیتا ہوں)
ایک شیخ کر کہا جانے والا جملہ اسے یاد آیا اور اس نے جھٹ آنکھیں کھولی۔۔۔
“یہ سب میری وجہ سے ہوا ہے۔۔۔کاش میں حور کو لے کر ہی نا جاتا۔۔۔کاش میں اس دن فون سننے نہیں جاتا۔۔۔
کاش۔۔۔کاش۔۔۔شٹ۔۔۔” وصی خود کوکوسنے لگا۔۔
“میں نے حور اور شفی کوجدا کردیا۔۔۔میری وجہ سے۔۔۔”
کہتے کہتے وصی رکا اور بے اختیار اس کی سسکیاں کمرے میں گونجنے لگی۔۔
“شفی ایسا کیسے کر سکتا ہے اماں۔۔۔؟”
شائستہ بیگم نے نم آنکھوں سے کہا۔۔
“ہاں۔۔مجھے تو خود سمجھ نہیں آرہا شفی اتناسمجھدار ہے اس نے کس طرح اتنا بڑا قدم اٹھالیا۔۔۔”
ددا نے سنجیدگی سے کہا۔۔
“اس نے کیسے سوچ لیا کہ حور اور وصی۔۔۔اسے شرم نہیں آئی اتنی گھٹیا بات سوچتے ہوئے۔۔”
شائستہ بیگم نے غصہ سے کہا۔۔
“کل بلایا ہےمیں نے اسے۔۔۔اس کی جو بھی غلط فہمی تھی۔۔جوبھہ مسئلہ تھا ہم سے ڈسکس کرتا ہم خود اسے حل کرتے۔۔۔شادی بیاہ کوکیا اس نے کھیل بنایاہوا ہے؟”
ددا بھی تیش میں آئے۔۔
“شفی یہ کردیا تو نے۔۔۔” ددو نے بے اختیار کہا۔۔
“حور معصوم ہے ابا کیا یہ وہ شروع سے نہیں جانتا تھا۔۔۔
اگر اسے طلاق ہی دینی تھی تو کیوں میری بچی کی زندگی خراب کی اس نے؟”
شائستہ بیگم کی آنکھوں سے آنسوں گرے۔۔
“جو بھی ہوا اس میں شفی کا قصور ہے اسے اگر وصی اور حور کو لے کر شک تھا تو پہلے ہی بتا دیتا۔۔۔۔”
ددو نے کرختگی سے کہا۔۔
“اسی لیے میں نے بلایا ہے اسے۔۔۔تاکہ بیٹھ کر اس سے بات کی جائے۔۔۔اس کی غلطی ہے۔۔۔بس ہمارا کیا رہ گیا اس سے واسطہ۔۔۔جو اس نے کیا ہے اس کے بعد ہمارا کوئی رشتہ نہیں اس سے۔۔”
ددا نے غصہ سے فیصلہ سنایا۔۔۔
اور اٹھ کر لاؤنج سے باہر نکل گئے۔۔
شائستہ بیگم خاموش بیٹھی تھی۔۔
اسے خود یقین نہیں آرہا تھا کہ شفی چھی ایسا کچھ کرسکتا ہے۔۔
وہ بھی حور کے ساتھ جسے وہ پسند کرتا تھا۔۔
“حور سوگئی ہے؟” ددو نے فکرمندی سے پوچھا۔۔
“ہاں اماں۔۔۔ابھی نیند کی گولی دے کر سلائی ہے۔۔۔
کب سے رو رہی ہے۔۔۔اس کی طبیعت بھی سہی نہیں ہے”
شائستہ بیگم نے کہا۔۔
“ہاں کچھ کھایا بھی نہیں۔۔۔دودھ پلا دینا جب جاگے۔۔
اور اس کے پاس ہی سوجا اس کی طبیعت خراب ہے۔۔۔
بڑے دکھ دیکھے ہیں میری بچی نے”
ددو نے دکھ بھرے لہجے میں کہا۔۔
اور اثبات میں سر ہلاتی اٹھ کھڑی ہوئی۔۔
( مجھے پہلے ہی بتا دیتی۔۔میں تم سے کبھی شادی نہیں کرتا۔۔مگر یو حرام رشتہ قائم کرتے تمہیں شرم نہیں۔۔۔)
(مجھے آج سمجھ آیا۔۔۔اج تک تم مجھ سے کیوں بھاگتی رہی۔۔۔کیوں مجھے اپنے قریب تک نہیں آنے دیتی تھی۔۔
میں شایدایسا پہلا مرد ہوں جس نے آج تک اپنی بیوی کوہاتھ تک نہیں لگایا۔۔اوراپنے بھائی نے میری کے ساتھ۔۔۔)
(حورین شفی دارین میں تمہارے نام سے اپنا نام الگ کرتا ہوں ۔۔۔میں تمہیں طلاق دیتا ہوں۔۔۔طلاق دیتا ہوں۔)
“نہیں۔۔۔۔”وہ جھٹکے سے اٹھ بیٹھی۔۔۔
اور اپنے حلق سے نکلنے والی آواز کو وہ دبا نہیں سکی۔۔۔
اور دھاڑے مار مار کر رونے لگی۔۔
نیم اندھیرا چھایا تھا کمرے میں۔۔۔
اس کی آواز کمرے سے باہر تک جارہی تھی۔۔۔
شائستہ بیگم آواز سن تیزی سے اس کے کمرے کی جانب بڑھی۔۔ وہ سامنے ہی بیڈ پر گھٹنوں میں سر دیے پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔۔
“حور۔۔۔۔” شائستہ بیگم اس کی طرف لپکی۔۔
حور ان کے گلے لگ گئی۔۔
“مما۔۔۔میں نے کچھ نہیں کیا۔۔۔”
حور نے روتے ہوئے کہا۔۔
“مجھے پتا ہے میری جان۔۔” شائستہ بیگم کے آنسوں بے اختیار گرنے لگے۔۔
“میں اچھی بیوی نہیں تھی۔۔۔” حور نے کہا۔۔
“نہیں تم بہت اچھی ہو۔۔۔بس چپ ہوجاؤ۔۔۔”
شائستہ بیگم نے اس کے آنسوں صاف کیے۔۔
سب میری غلطی ہے۔۔۔مجھے وصی کے۔۔۔ساتھ نہیں جانا چاہیے تھا۔۔۔میں کیوں گئی۔۔کیوں گئی۔۔۔”
وہ خود کو ملامت کرنے لگی۔۔
“حور سب ٹھیک ہوجائے گا۔۔۔” شائستہ بیگم نے اس کا چہرہ اپنے ہاتھو میں سمویا۔۔
“مما۔۔مجھے۔۔مجھے پتا ہی نہیں تھا کہ وہ ایسا سوچیں گے۔۔ورنہ میں کبھی نا جاتی۔۔۔وہ مجھے مار لیتے مما ڈانٹ لیتے۔۔مگر۔۔۔”
وہ پھر سے رونے لگی۔۔۔
اور شائستہ بیگم اسے چپ کروانے لگی۔۔جب کہ انہیں شفی پر رہ رہ کر غصہ آرہا تھا۔۔
صبح کے 12 بج رہے تھے۔۔
حور دوا کے زیر اثر آرام کر رہی تھی۔۔
اور گھر کے باقی سب ممبر لاؤنج میں بیٹھے تھے۔۔
شفی ابھی پہنچا تھا اور ان کے سامنے صوفے پر براجمان تھا۔۔
“کیا بتانا پسند کے گاشفی تو نے ایسا کیوں کیا۔۔۔میں تیری زبانی بھی سب سننا چاہتا ہوں۔۔۔”
ددا کرخت لہجے میں کہا۔۔
“ددا آپ سب کو میں ہی غلط لگ رہا ہوں۔۔۔کیا کوئی ان سے بھی پوچھے انہوں نے ایسا کیوں کیا۔۔؟”
شفی نے نرم لہجے میں کہا۔۔
“کیا کیا ہے ان دونوں نے؟”
ددا نے پوچھا۔۔
“حور۔۔۔میری بیوی ہوکر مجھے اہمیت نہیں دیتی۔۔۔وہ اس کے ساتھ کیا اس نے مجھ سے پوچھا کہ وصی کے ساتھ جارہی ہوں۔۔میں شوہر تھا نا”
شفی نے دل کا غبار نکالا۔۔
“ٹھیک ہے سہی کہ رہے ہو۔۔۔اس کی غلطی تھی۔۔۔مگر میری بات سنو۔۔۔حور کوئی ایکبار تو وصی کے ساتھ نہیں گئی کہیں۔۔۔وہ تو شادی سے پہلے بھی کئی بار وصی کے ساتھ جاتی۔۔۔آتی تھی۔۔۔یہ تو کوئی وجہ نہیں ہوئی”
ددا نے سنجیدگی سے کہا۔۔
“وصی اور حور ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں۔۔۔
آپ کیوں نہیں سمجھ رہے ہیں ددا۔۔۔”
شفی نے ساری تفصیل بتائی۔۔۔
“تو تو ان دونوں کی بات تو سنتا۔۔۔طلاق دینے کی کیا ضرورت تھی۔۔
تجھے پتا کہ جس سے طلاق ہوجائے دوبارہ شادی نہیں ہوگی۔۔”
ددا نے اسے جتایا۔۔
“مجھے پتا ہے ددا۔۔۔میں غصہ میں طلاق دے بیٹھا ہوں۔۔۔
کیا کوئی شوہر جان بوجھ کر طلاق دےگا اپنی بیوی کو۔۔۔
نہیں نا۔۔۔میں نے بھی یہ قدم غصہ میں اٹھایا۔۔مگر اب مجھے کوئی پچھتاوا بھی نہیں کیوں کہ میں حور اور وصی کے راستے میں نہیں آنا چاہتا۔۔۔”
شفی نے کہا۔۔
“تجھے شک تھا کوئی مسئلہ تھا تو صاف بتاتا شفی۔۔۔خدا کی قسم میں حور سے بات نہیں کرتا۔۔۔”
وصی نے یک دم کہا۔۔
“کہا تم نہیں جانتے تھے شفی کہ میری حور کتنی معصوم ہے۔۔۔وہ بچپن سے گھبراتی ہے ہر شخص سے۔۔۔
مگر میں جانتی ہوں کہ اس نے تمہیں کتنا چاہا تھا۔۔۔اور تم نے ایک شک کی وجہ سے اسے کھو دیا۔۔۔”
شائستہ بیگم نے نم آنکھوں سے کہا۔۔
اوربھی سب نے سسے بہت سی باتیں سنائی جسے اس نے خاموشی سے سنا۔۔
کیونکہ وہ کل والا غصہ اب ٹھنڈا پڑ چکا تھا۔۔
آخر کو ددا نے اسے صاف لفظوں میں سمجھا دیا تھا کہ وہ واپس چلا جائے۔۔۔اور مڑ کر بھی نا دیکھے۔۔۔
“ددا آپ میرے ساتھ ایسا کیسے کرسکتے ہیں۔۔؟”
شفی نے سنجیدگی سے کہا۔۔
“تو نے کیوں کیا ایسا شفی۔۔۔؟” ددو نے نم آنکھوں سے گلہ کیا۔۔
ددا نے اس کا سامان غصہ میں اٹھا کر باہر رکھا۔۔۔
“جا یہاں سے۔۔۔دوپارہ اپنی شکل مت دکھانا ہمیں۔۔۔”
ددا نے اسے باہر کا راستہ دکھایا۔۔
“ددا آپ سب کو بس میں قصور وار لگ رہا ہوں۔۔۔”
شفی نے دکھ بھرے لہجے میں کہا۔۔
“آج سے ہمارا اور تمہارا کوئی واسطہ نہیں۔۔۔
ارے مجھے غرور تھا تجھ پر اور نے کیا کیا؟
اب جا مجھے تیری شکل بھی نہیں دیکھنی۔۔۔”
ددا نے غصہ سے کہا اور وہاں سے چلا گیا۔۔
“ددو۔۔آپ تو میری بات سنیں۔۔۔میرا کوئی قصور نہیں۔۔”
شفی نے ددو کی طرف دیکھا۔۔
مگر وہ بھی آنسوں بہاتی بنا کوئی جواب دیےاندر چلی گئی
اور وہاں اکیلہ کھڑا ان کی بے رخی دیکھ ساکت ہوگیا۔۔
پھر اپنا سامان اٹھا کر واپسی لوٹ گیا۔۔۔
رات کا وقت تھا۔۔وہ اکیلہ بیٹھا تھا۔۔
آسمان پر چاند پورا تھا۔۔۔
وہ بس چاند کو خاموشی سے تک رہا تھا۔۔
اور اپنی زندگی پر نظرثانی کر رہا تھا۔۔۔
تبھی ڈاکٹر حمنہ وہاں آئی۔۔
اورشفی نے اپنےدل کی ساری بات بات دکھ میں اس سے شیئر کی۔۔
“بہت ہی غلط کیا ایک بار تمہاری بات سن لیتے وہ لوگ”
ڈاکٹر حمنہ نے کہا
“مگر نہیں سنی انہوں نے مجھے گھر سے نکال دیا۔۔۔
سب کو میں ہی غلط لگ رہاہوں۔۔”
شفی نے نم آنکھوں سے کہا۔۔
“تم نے کچھ کھایا ہے؟” حمنہ نے پوچھا۔۔
“نہیں۔۔۔بھوک نہیں۔۔”
شفی نے مختصر کہا۔۔
“ایسے کیسے بھوک نہیں میں لاتی ہوں کھانا۔۔”
حمنہ نے کہا ۔اور جانے کے لیے پلٹی۔۔
“نہیں حمنہ سیریسلی میرا دل نہیں کر رہا۔۔”
شفی نے اس کا ہاتھ پکڑ اسے روکا۔۔۔
حمنہ نے فوراً اپنے ہاتھ پر اس کا دیکھا۔۔۔
بے اختیار اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔۔
“پتا ہے شفی میری مما کہتی ہیں۔۔کہ رات کا کھانا نہیں چھوڑنا چاہیے۔۔۔”
حمنہ نے مسکرا کر کہا۔۔
“اچھا کیوں؟”
شفی نے پوچھا۔۔
“رات کا کھانا چھوڑ دینے سے انسان جلدی بوڑھا ہوجاتا ہے”
حمنہ نے منہ بنا کر کہا۔۔اور شفی پھیکی سے مسکراہٹ کے ساتھ اس کا دل رکھ گیا۔۔۔
“کتنے دن ہوگئے ہیں وصی مگر حور نا ٹھیک سےکھا رپی ہے نا سو رہی ہے”
شائستہ بیگم نے لان میں بیٹھے وصی کے ساتھ والی کرسی کھسکا کربیٹھتے ہوئے کہا۔۔
“آپ لوگ اسے کہیں باہر لے جائیں کسی رشتے دار کے ہاں۔۔یا گھومانے۔۔۔تاکہ دل بہل جائے اس کا”
وصی نے مشورہ دیا۔۔
“نہیں۔۔۔وہ ںاہر نہیں جا سکتی”
شائستہ بیگم نے سنجیدگی سے کہا۔۔
“کیوں۔۔؟ وصی نے حیرانی سے پوچھا۔۔
“طلاق کے بعد لڑکی کو عدت پوری کرنی ہوتی ہے”
شائستہ بیگم نے کہا۔۔
“اچھا۔۔۔” وصی نے مختصر کہا اور چائے کا کپ ہاتھ میں لیے کچھ سوچنے لگا۔۔
“تمہیں کب جانا ہے واپس؟”
شائستہ بیگم نے پوچھا
“کل۔۔۔” وصی نے چائے کی سپ لی۔۔۔
“اچھا۔۔تیاری کی۔۔؟”
انہوں نے پھر پوچھا۔۔
“نہیں۔۔۔کرلوں گا”
وصی نے لاپرواہی سے کہا۔۔
“میں کردوں گی پیکنگ مجھے بتا دینا کوئی چیز رکھنی ہو تو۔۔۔”
شائستہ بیگم نے مسکرا کر کہا۔۔
“جی پھپھو۔۔۔” وصی نے چائےختم کی۔۔۔اور کپ ٹیبل پر رکھا۔۔۔
پھر کچھ سوچتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔۔
“کہاں چل دیے؟”انہوں نے پوچھا۔۔
“نہیں بس تھوڑا کام تھا۔۔مارکیٹ جارہا ہوں کچھ منگوانا ہے آپ نے؟”
وصی نے کہا۔۔
“نہیں مجھے تو کوئی کام نہیں حور کے لیے لے آنا کچھ۔۔
فاسٹ فوڈ وغیرہ۔۔کیا پتا کھا لے۔۔”
شائستہ بیگم نے اداسی سے کہا۔۔
انہیں ہر وقت بس حور کاخیال رہتا۔۔
وہ بس اس کا دل بانے کی کوشش میں لگی رہتی۔۔