لندن کی سرزمین پر اترتے ہی ایک مانوس سی خوشبو نے اس کے وجود سے ٹکڑاتی اس کی روح تک میں اتر چکی تھی۔۔۔۔۔۔ اس خشبو نے جس حد تک اسے سرشار کیا تھا وہی وہ جھنجھلا بھی گیا تھا۔
وہ جھنجھلا گیا تھا اپنے دل میں پنپتے عشق کے اس منہ زور جذبے سے جو اتنے سالوں بعد بھی ختم ہونے کی بجائے مزید زور پکڑ گیا تھا۔
گہری سانس اندر کھینچتا خود کو کافی حد تک کمپوز کیے وہ ہینڈ کیری تھامے گاڑی کی جانب بڑھا تھا۔۔ سنان کے حکم کے مطابق وائے۔زی کو اس نے اپنے آنے کی اطلاع سے بےخبر ہی رکھا تھا۔۔۔۔۔ اسے ابھی بھی سنان کی کسی بات پر یقین نہیں آیا تھا۔۔۔۔ وائے۔زی اور ایک بار ڈانسر؟۔۔۔۔۔۔ وہ چاہے جتنا مرضی کمینہ ہی کیوں نا تھا مگر ایک بار ڈانسر کے پیچھے اپنے مقصد کو بھول جانا؟ ناممکن۔۔۔۔۔۔ کچھ تو تھا جو معتسیم کو برے سے خٹک رہا تھا۔
’’ڈیسٹینیشن(منزل)!‘‘ گاڑی میں سوار وہ ڈرائیور کے پوچھنے سے پہلے ہی بول پڑا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ہے ڈارلنگ!‘‘ اسکے گال پر کس کیے وہ اس کے سامنے کرسی سنبھال چکا تھا، لیلیٰ نے اسے دیکھتے ہی منہ پھلا لیا تھا۔
’’واٹ ہیپینڈ؟‘‘ اس کا خراب موڈ دیکھ اس نے بھنویں اچکائی تھی۔
’’نتھنگ ایٹ آل!‘‘ لیلیٰ نے کندھے اچکائے کولڈ کافی کا گھونٹ لیا تھا مگر سامنے والا بھی حماد زبیری تھا، لیلیٰ کا عشق، اس کا جنون۔۔۔۔۔ اس کی ڈھڑکنوں کا سکون، اس کی روح کا مکین۔۔۔۔۔ وہ دونوں دو جسم ایک جان تھے۔۔۔۔ اگر لیلیٰ حماد کی دیوانی تھی تو حماد بھی اس کا عاشق تھا۔۔۔۔۔۔ وہ دونوں دو جسم ایک جان تھے۔۔۔۔۔۔ حماد کو نہیں معلوم کب؟ مگر سامنے بیٹھا یہ وجود اس کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش بن گیا تھا۔
وہ بارہ سال کا تھا جب ایک دن اس کا باپ اس ڈری سہمی بچی کو اپنے ساتھ اپنے گھر لایا تھا۔۔۔۔۔ ایک حادثے میں اس کی یاداشت کھو گئی تھی اور کوئی بھی اسے پہچاننے سے انکاری تھا۔
’’ہے کیا ہوا ہے ادھر میری طرف دیکھو بتاؤں مجھے؟‘‘ اس کا ہاتھ تھامے نرمی سے اس پر اپنا انگوٹھا پھیرتے حماد نے لہجے میں محبت سموئے پوچھا تھا۔۔۔۔۔ حماد کے پوچھنے پر اس کی آنکھیں بھیگ گئیں تھی۔
’’شزا!!‘‘ تڑپ کر وہ اسے اس کے اصل نام سے بلاتا اس کے پاس بیٹھ گیا تھا۔
’’یہ سب مجھے کب تک کرتے رہنا ہوگا حماد؟ میں یہ سب نہیں کرنا چاہتی۔۔۔۔۔ اب بس تھک گئی ہوں۔۔۔۔۔ مجھے تم چاہیے ہو حماد۔۔۔۔۔‘‘ اس کی غمگین لہجہ حماد کو بھی افسردہ کرگیا تھا۔
’’شزا!!‘‘ حماد بےبس سا بولا۔
’’پلیز حماد۔۔۔۔۔۔۔۔میں، میں اب تم سے مزید دور نہیں رہ سکتی اور اوپر سے وہ مجنو۔۔۔۔۔۔‘‘ بولتے بولتے اچانک ہی وہ رکی۔
’’کون؟‘‘ حماد پورا کا پورا اس کی جانب گھوما تھا۔
’’کوئی نہیں!‘‘ سر نفی میں ہلائے وہ گلاس وال سے باہر دیکھنے لگ گئی تھی جب حماد نے اس کی تھوڑی سے اسے تھامے رخ اپنی جانب کیا تھا۔
’’شزا مجھے پوری بات بتاؤ۔‘‘ حماد کا لہجہ سخت ہوا۔
’’کک۔۔۔۔۔۔۔کچھ نہیں ہے۔۔۔۔۔ تو بب۔۔بتاؤں کیا؟‘‘ اس کے غصے سے ڈرتی وہ تھوک نگلتے بولی تھی۔
’’شزا!!‘‘ اس کی تھوڑی پر گرفت سخت کیے حماد نے وارننگ زدہ لہجے میں بولا تھا۔
اس کی آنکھوں میں مچلتے غصے کو دیکھ اس کا اپنا غصہ ایک پل میں ہوا ہوا تھا۔
ایک رٹے رٹائے طوطے کی طرح وہ اس نے روز اول سے اب تک وائے۔زی نامی بلا کے بارے میں سب کچھ بتا چکی تھی۔
’’پہلے تو بس گھورتا تھا وہ مجھے مگر کل تو میرا پیچھا کرتے روم تک آگیا تھا۔۔۔۔۔!!‘‘ سر جھکائے وہ مدھم لہجے میں بولتی اس کے غصے بھرے چہرے کو دیکھتی دوبارہ نظریں جھکا گئی تھی۔
’’تم نے کچھ کہا کیوں نہیں اسے؟‘‘ ضبط کرتے اس نے سوال کیا۔
’’میں نہیں چاہتی کہ میری کسی بےوقوفی کی وجہ سے انکل اپنے مقصد کو حاصل کرنے میں ناکام ہوجائے۔۔۔۔۔ اور اگر ایسا کچھ ہوا تو وہ تمہیں دور کردے گے مجھ سے۔۔۔۔۔!‘‘ شزا کی بات سن حماد سے سر افسوس سے نفی میں ہلایا تھا۔
’’میں۔۔۔میں بہت ڈر گئی تھی حماد۔۔۔۔ وہ میرے اس قدر قریب۔۔۔۔۔‘‘
’’ششش!! بس خاموش۔۔۔۔‘‘ اس کے لبوں پر انگلی رکھے اس نے اسے مزید بولنے سے منع کیا تھا۔
’’اب تمہیں مزید ڈرنے کی ضرورت نہیں۔۔۔۔ آج سے میں تمہیں ایک پل کو بھی اکیلا نہیں چھوڑوں گا۔۔۔۔۔ یہ بات یاد رکھنا ہمیشہ ساتھ پاؤ گی مجھے اپنے!‘‘ اس کی گال پر ہاتھ رکھے وہ ایک جذب سے بولا تھا۔
’’پکا وعدہ؟‘‘ اپنے چہرے پر موجود اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھے اس نے سوال کیا تھا۔
’’پکا وعدہ!!‘‘ وہ مسکرائی اور سر اس کے کندھے پر ٹکائے اپنی انگلیوں کو آپس میں ملائے پرسکون سی آنکھیں موند گئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’کم آن ایوری ون۔۔ ووئی ہیو ویری لیس ٹائم!!‘‘ اپنی گھڑی کو گھورتی وہ دونوں تالی بجاتی بولی تھی۔
مختلف ورکرز اس کی بات سنتے ہی مزید تیزی سے کام سمیٹنے لگ گئے تھے۔
سیڈنی میں موجود یہ محل نما ولا چوہانز کی ملکیت تھا۔۔۔ مافیا کی دنیا میں چوہانز ایک جانا مانا نام تھا۔۔۔۔۔ ہر سال یہاں مختلف ملکوں سے آئی لڑکیوں کی بڑے پیمانے پر نیلامی کی جاتی تھی۔
یہاں آئی تمام لڑکیوں کو پر ٹیگ لگایا جاتا تھا جس پر ایک نمبر درج ہوتا تھا اور پھر اس کی بولی۔
آج نیلامی کا دن تھا اور وہ سب لڑکیاں جو اب اٹھارہ کی ہوچکی تھی انہیں نیلام ہوجانا تھا آج۔۔۔۔۔۔ اس نیلامی میں مختلف ممالک سے بڑے بڑے بزنس مین، سیاست دان۔۔۔۔۔۔ دوسرے مافیا گروپس کے ممبران بھی آتے تھے۔
’’میم؟‘‘ دروازے پر ناک کیے مارتھا کمرے میں داخل ہوئی تھی اور ایک نظر مسز چوہان کو دیکھا جو ہیروں کا ایک مہنگا ترین نیکلیس اپنے گلے سے لگائے بیٹھی اسے جانچ رہی تھی۔
’’ارے مارتھا اندر آؤ! کہو کیا خبر لائی ہو میرے لیے؟‘‘ نیکلیس کو باکس میں رکھے وہ مسکرا کر بولتی مارتھا کی جانب گھومی تھی۔
’’جو کہا تھا وہ ہوگیا کیا؟‘‘ آںکھیں مارتھا پر ٹکائے انہوں نے سوال کیا تھا لبوں سے مسکراہٹ ابھی بھی جدا نہیں ہوئی تھی۔
مارتھا نے گہری سانس خارج کیے اپنے سامنے بیٹھی خوبصورتی کی اس مورت کو دیکھا تھا جو بڑھاپے کی دہلیز پر آکھڑی ہوئی تھی مگر جوانی ابھی تک برقرار تھی۔
ان خوبصورت لبوں پر سجی وہ خوبصورت مسکراہٹ جو آج بھی نجانے کتنے دل دھڑکا دیتی مگر اس خوبصورتی کے پیچھے چھپا وہ مکروہ چہرہ جس سے مارتھا بالکل بھی انجان نہ تھی۔
’’میں نے بات کی تھ۔۔۔۔۔‘‘
’’آہ ہا!! بات نہیں کرنی تھی تمہیں میرا فیصلہ سنانا تھا!‘‘ مارتھا کی بات کو کاٹتے وہ بولی تھی۔
لبوں پر مسکراہٹ ابھی بھی موجود تھی مگر آنکھوں میں موجود سفاکی دیکھ ایک پل کو مارتھا کا دل کپکپا اٹھا تھا۔۔۔۔
’’تو بتاؤ مارتھا کیا بنا؟‘‘ اپنے مینیکیور ہوئے ناخنوں کو دیکھ ایک بار پھر سے سوال دھرایا گیا۔
’’جی میم وہ دراصل۔۔۔۔‘‘ اس سے پہلے مارتھا سے کوئی جواب بن پاتا کمرے میں ایک شور برپا ہوا۔
مرینہ چوہان نے ناگوار نظروں سے بیڈ کی جانب دیکھا جہاں موجود فون پوری آواز سے چنگھاڑ رہا تھا۔
’’مارتھا!‘‘ وہ ناگوار لہجے میں بولی تو ان کا مطلب سمجھتے مارتھا سر اثبات میں ہلائے بیڈ کی جانب بڑھی اور فون اٹھایا تھا۔
’’کس کی کال ہے؟‘‘
’’جیک سر کی‘‘ مرینہ کے پوچھنے پر اس نے جواب دیا تھا۔
مارتھا کا جواب سن کر جہاں مرینہ کی آنکھیں پھیلی تھی وہی مارتھا نے سکون کا سانس لیا تھا۔
’’جیک میرا بیٹا لاؤ دو!‘‘ لہجے میں محبت سموئے وہ خوشگوار لہجے میں بولی تھی۔
مارتھا نے موبائل مرینہ کو پکڑائے سر افسوس میں ہلایا تھا
’’ہیلو جیک مائی بےبی!‘‘ وہ شیریں لہجے میں بولی تھی۔
’’بےبی؟‘‘ اچانک ماتھے پر بل آگئے تھے اور ساتھ ہی آنکھوں میں ناگواری اور نفرت اتر آئی تھی۔
’’جیک۔۔۔۔۔جیک۔۔۔۔ لسن ٹو می۔۔۔ جیک۔۔۔۔۔۔‘‘ مرینہ نے تین چار بار نام پکارا تھا مگر آگے سے کال کاٹ دی گئی تھی۔
’’آہ!!‘‘ موبائل زور سے زمین پر مارے وہ دھاڑی تھی۔
’’کک۔۔کیا ہوا میم؟‘‘ خوف سے پیچھے ہوئی مارتھا نے جھجھک کر سوال کیا تھا۔
’’جیک!! اسے، اسے کسی نے مخبری کردی ہے زویا کے حوالے سے۔۔۔۔۔ وہ جان چکا ہے کہ ہمیں آج کی نیلامی زویا کو بھی بیچنا تھا اور اب وہ غصے سے بھپرا شیر آرہا ہے واپس سڈنی۔۔۔۔‘‘ مرینہ کی بات سن مارتھا نے شکر کی گہری سانس خارج کی تھی۔
’’مگر زویا مان گئی ہے۔۔‘‘ مارتھا نے مسکراہٹ دبائے جواب دیا تھا۔
’’ہممم مگر اب کوئی فائدہ نہیں۔۔۔۔۔۔ بس ایک بار میرے ہاتھ وہ مخبر لگ جائے تو جان نکال دوں گی میں اس کی۔۔۔۔۔۔۔۔ اففف اللہ اب مجھے ایک سال مزید اس بوجھ کو اپنے گھر میں برداشت کرنا ہوگا!!‘‘ وہ تنفر سے بولی تھی۔
’’میم۔۔۔۔میم۔۔۔وہ۔۔۔۔‘‘ اتنی دیر میں ایک میڈ بھاگتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی تھی۔
’’اب تمہیں کیا موت پڑگئی ہے؟‘‘ وہ غصے سے بولی۔
’’میم وہ لڑکی۔۔۔۔۔ وہ پری۔۔۔۔ وہ بےقابو ہوگئی ہے چوہان سر بھی اسے سنبھال نہیں پارہے!‘‘ پھولے سانس سمیت اس نے بات مکمل کی تھی۔
مرینہ نے غصے سے مٹھیاں بھینچے آنکھیں بند کی تھی۔
’’چلو!!‘‘ آنکھیں کھولے وہ غصے سے کھولتی کمرے سے باہر نکلی تھی۔
مارتھا اور وہ جولیا (میڈ) بھی اس کے پیچھے پیچھے چلتی تہہ خانے تک پہنچی تھی۔
یہ ایک جیل نما تہہ خانہ تھا۔۔۔۔۔ جہاں سلاخوں کے پیچھے خوبصورتی سے سجے کمروں میں نجانے کتنی ہی کم عمر حسینائیں موجود تھی۔
مرینہ کو دیکھ ہر ایک خوبصورت حسینہ خوف سے دبک گئی تھی۔
وہ قید تھی ایک ایسے پنجرے میں جو سونے کا تھا۔
مغرورانہ چال چلتی وہ تمام جیلوں کو پیچھے چھوڑتی ایک جیل تک پہنچی جہاں سے رونے دھونے اور چیخنیں چلانے کی آواز آرہی تھی۔
’’کیا ہورہا ہے یہاں؟‘‘ اس کی اونچی آواز پر سب لوگ پیچھے ہوئے تھے۔۔۔
وہی زمین پر گرے سسکتے وجود کو دیکھے مرینہ نے اب اپنے شوہر(غلام) کو گھورا تھا جس کے ہاتھ میں ہنٹر موجود تھا اور جو ہانپ رہا تھا۔
’’ڈارلنگ تم یہاں کیوں آگئی میں سنبھال رہا تھا نا سب!‘‘ ویلیم چوہان خوشآمدید لہجے میں بولا تھا۔
’’ہمم نظر آرہا ہے مجھے!‘‘ مرینہ سلگھتے لہجے میں اسے جواب دیے زمین پر گرے اس سسکتے وجود کی جانب متوجہ ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔ اس کی حالت دیکھ مرینہ کا غصہ مزید بڑھ گیا تھا۔
’’دیکھو کیا حال کردیا ہے تم نے اس کا؟ کیا اب ایسے میں اسے نیلامی میں پیش کروں گی؟ حالت دیکھ رہو اس کی؟ اب کون خریدے گا اسے۔۔۔۔۔ نجانے کتنے کڑوڑ ضائع ہوجائے گے میرے۔۔۔۔۔۔ وہ کون بھرے گا تمہارا شرابی باپ یا تمہاری آوارہ ماں؟‘‘ مرینہ ویلیم کے سر پر کھڑی چلا رہی تھی جس نے سر جھکا لیا تھا۔
’’بلڈی ہیل! جولیا!‘‘ غصے سے دھاڑتے اس نے سر زرا سا موڑے جولیا کی پکارا۔
’’کچھ بھی ہوجائے نیلامی تو آج اس کی ہوکر رہے گی! جولیا!! اب یہ تمہارے حوالے اسے اچھا سا تیار کرو۔۔۔‘‘ جولیا کو آرڈر دیے اس نے پری کو دیکھا جبکہ جولیا نے سر اثبات میں ہلایا تھا۔
’’کبھی بھی نہیں۔۔۔۔۔ ایسا کبھی نہیں ہوگا۔۔۔۔۔۔ میں تمہیں تمہارے ان ناپاک عزائم میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہونے دونگی!‘‘ پری مندی مندی آنکھوں سے اسے گھورتے بولی تھی۔
’’اچھا!! اور کیا کرے گی ہماری پری صاحبہ؟‘‘ اس کے پاس بیٹھتی ایک تمسخرانہ نگاہ اس کے وجود پر ڈالے وہ ہنسی تھی۔
غصے کی شدت سے بھرپور پری نے اس کے منہ پر تھوکا تھا۔ توہین اور ذلت سے مرینہ کا چہرہ سرخ ہوگیا تھا۔ ہاتھ ہوا میں بلند کیے اس نے اتنی زور سے پری کے منہ پر تھپڑ مارا تھا کہ اس کا ہونٹ پھٹ گیا تھا۔
’’صرف تین گھنٹے ہیں تمہارے پاس جولیا تیار کرو اسے۔۔۔۔۔۔ اور آج سب سے مہنگی بولی اسی کی لگے گی!‘‘ پری کا چہرہ ہاتھ میں دبوچے وہ غرائی تھی اور ایک جھٹکے سے اس کا چہرہ چھوڑتی، اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی وہ وہاں سے چلی گئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معتسیم آفندی کو ابھی تک اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔۔۔۔ سنان شاہ کا کہا ٹھیک نکلا تھا، وائے۔زی واقعی میں اپنے تمام کام پس پشت ڈالے اس بار ڈانسر کے لیے گھنٹوں اس کلب میں خوار ہوتا تھا۔۔۔
آج کا پورا دن اس نے وائے۔زی پر نظر رکھی تھی اور وہ اسے بار کے آس پاس ہی ملا تھا۔
’’لیلیٰ، لیلیٰ!!‘‘ منچلوں کے شور مچانے پر وائے۔زی کے لبوں پر خوبصورت مسکراہٹ در آئی تھی اور آنکھوں میں ایک انوکھی چمک۔
معتسیم نے بھی اس کی نظروں کی سمت دیکھا تھا جہاں پول پر ایک ڈانسر کھڑی تھی۔۔۔۔۔
’’لیلیٰ؟‘‘ وہ بڑبڑایا۔
تو یہ ہے وہ ڈانسر جس کے پیچھے وہ سب کچھ بھلائے بیٹھا تھا؟ معتسیم کا دل چاہا کہ اسے شوٹ کردے۔۔۔۔۔۔۔ اس نے نفرت بھری نگاہ اس لڑکی پر ڈالی تھی۔۔۔۔۔ کتنی نفرت تھی اسے اس لفظ ’’عورت‘‘ سے۔۔۔۔۔ اس کا سب کچھ چھین لیا تھا اس ایک لفظ نے۔۔۔۔۔۔ کتنا مقدس مانتا تھا وہ اس ذات کو، کتنی عزت دیتا تھا! مگر وہ غلط تھا۔۔۔۔۔۔ عورت وہ شے ہی نہیں جسے عزت دی جائے، محبت کی جائے۔۔۔۔۔۔۔ ماضی کو سوچتے اس کی آنکھوں میں نمی اور نفرت دونوں اپنے آپ در آئی تھیں۔
ایک آخری نگاہ وائے۔زی پر ڈالے وہ کلب سے باہر نکل گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیوار کو اوٹ سے ہلکا سا چہرہ نکالے وہ باہر موجود بھیڑ کو ایک نظر دیکھتی دوبارہ چہرہ پیچھے کرلیتی۔۔۔۔۔۔ مسلسل ایک گھنٹے کی اس کوشش کے بعد کلب کے باہر موجود لوگوں کا رش جھٹ ہی گیا تھا۔۔۔۔۔ اب وہ باآسانی اپنا کام کرسکتی تھی۔۔۔۔۔ اس وقت گارڈز بھی اپنی جگہ سے ہٹ جاتے تھے۔۔۔۔۔۔ اب بس اسے انتظار تھا تو کسی کے باہر آنے کا۔۔۔۔۔ مگر اس انتظار نے اسے بےبس کردیا تھا۔
اسکے پورے جسم میں نشے کی قلت کی وجہ سے کھجلی شروع ہوگئی تھی جبکہ سانس لینا اسے دشوار لگ رہا تھا۔
آخر کار انتظار کی گھڑیاں ختم ہونے کو آئی تھی جب اسے ایک شخص کلب سے باہر نکلتا نظر آیا۔
اس کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ دوڑ آئی تھی۔
اس نے دوبارہ ایک نگاہ اس آدمی پر ڈالی جو موبائل کان کو لگائے اس کی جانب آرہا تھا۔۔۔۔۔۔ اس کو اپنی جانب آتا دیکھ وہ فورا سے مڑی اور اپنے سے پانچ منٹ کی دوری پر بیٹھے بچے کی جانب بڑھی۔
’’اٹھو!!! جاؤ!!‘‘ وہ اس کا کندھا جھنجھوڑتی آواز میں زرا سا غصہ پیدا کرتے بولی تھی جس میں وہ بری طرح ناکام رہی تھی۔ آواز نہ تھی، تھی تو بس ایک مدھم سرگوشی۔
سر نفی میں ہلائے وہ بچہ اپنی جگہ سے اٹھتا اپنی پھٹی پینٹ جھاڑے اس شخص کی جانب بڑھا تھا۔ اسکو جاتے دیکھ لبوں پر ایک بڑٰی سی مسکان در آئی تھی۔
سنان کی کال سنتا معتسیم جو اسی جانب آرہا تھا اپنے سامنے سردی سے ٹھٹھرتے بچے کو دیکھ بیچ راہ میں رک گیا تھا۔
’’ہممم!! ٹھیک بعد میں بات کرتا ہوں!‘‘ کال کاٹے وہ اس بچے کی جانب متوجہ ہوا جو آنکھوں میں خوف لیے اسے دیکھ رہا تھا۔
’’ہہ۔۔۔ہیلو مسٹر!! کک۔۔کین۔۔۔۔یی۔۔یو۔۔۔۔۔ہہ۔۔۔۔۔ہیلپ می؟‘‘ وہ تیز طرار بچہ معصومیت لبوں پر سجائے معتسیم کو دیکھتے بولا
’’واٹ یو وانٹ؟‘‘ معتسیم نے سپاٹ لہجے میں پوچھا
’’کین یو گیو می سم منی، آئی ہیو ناٹ ایٹ اینی تھنگ فرام مارننگ(کیا تم مجھے کچھ پیسے دے سکتے ہو، میں نے صبح سے کچھ نہیں کھایا)‘‘ وہ معصوم آنکھیں پٹپٹائے بولا تو معتسیم نے گہری سانس خارج کیے سر نفی میں ہلایا۔
ان چھوٹے شیطانوں کے ایسے بڑے ڈراموں سے وہ اچھے سے واقف تھا۔
دیوار کی اوٹ سے ان کو دیکھتی وہ ماتھے پر گہرے بل سجا چکی تھی۔۔۔۔۔ ابھی تک تو اس شخص کو اپنا والٹ نکال لینا چاہیے تھا۔
غصے سے اس نے اپنے ہاتھوں کی مٹھیاں بنا لی تھی۔۔۔۔۔ ہاں مگر وہ غصہ کہاں تھا؟ وہ تو بس معتسیم کو گھورے جارہی تھی۔
’’نکالو!!‘‘ وہ مدھم آواز میں یوں بولی جیسے حکم دے رہی ہو اور وہ سن کر نکال لے گا۔
ماتھے پر موجود بل اگلے ہی لمحے ختم ہوئے تھے جب معتسیم نے کوٹ کی پاکٹ سے والٹ نکالا تھا۔
والٹ میں سے چند نوٹ نکالے معتسیم نے اس چھوٹے شیطان کی جانب بڑھائے تھے جس نے نوٹ تھامے دیوار کی اوٹ میں کھڑی اس بےتاب روح کو اشارہ کیا تھا۔
معتسیم سے پیسے لیے وہ چھوٹا شیطان دوسری جانب بھاگ گیا تھا۔۔۔۔۔ والٹ بند کیے معتسیم نے اسے دیکھ سر افسوس سے نفی میں ہلایا تھا۔
اس سے پہلے وہ والٹ واپس رکھتا، آندھی طوفان کی طرح آتی وہ اس سے ٹکڑاتی، اسے دھکا دیے اس کے ہاتھ سے والٹ کھینچے بھاگ نکلی تھی۔
ایک پل کو تو معتسیم کو کچھ سمجھ نہیں آیا مگر جیسے ہی بات سمجھ میں آئی وہ فورا اس کے پیچھے بھاگا تھا۔
گھٹنوں تک آتی شارٹس، عجیب بوسیدہ رنگ کا اپر۔۔۔۔۔ ننگے پاؤں وہ اس ٹھرٹھراتی سردی میں خرگوش کی سپیڈ سے بھاگ رہی تھی۔۔۔۔۔۔ معتسیم کو اس تک پہنچنا مشکل لگ رہا تھا۔۔۔ اس کی سپیڈ اتنی تیز تھی کہ پانچ منٹ کے اندر اندر ہی وہ معتسیم کی آںکھوں سے اوجھل ہوگئی تھی۔ اس کے پیچھے بھاگتا وہ اس گلی تک پہنچا تھا جہاں وہ غائب ہوئی تھی۔
کچھ سوچتا ہوا وہ اس گلی میں داخل ہوا تھا مگر آگے جو کچھ اسے دیکھنے کو ملا، اسے سخت کوفت ہوئی تھی۔۔۔۔۔ وہ وہاں کے نشئیوں کا بسیرا تھا۔
آہستہ آہستہ سے ان تمام لوگوں کو پار کرتا وہ کچرے میں ڈھیر کے قریب پہنچا تھا جس کے آگے گلی ختم ہوگئی تھی۔
’’کہاں گئی وہ؟‘‘ وہ غصے سے بڑبڑایا تھا جب کچرے کے ڈھیر کے پیچھے اسے کوئی آواز آئی تھی۔ قدم آگے بڑھاتا وہ اس جگہ پہنچا جب اپنے جوتے تلے کچھ محسوس ہوا،،، نظریں جھکائے دیکھا تو وہ انجیکشن تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ جان چکا تھا کہ یہ نشے کا انجیکشن ہے۔
انجیکشن کو پیر کی مدد سے پرے کیے وہ اب اس وجود تک پہنچ چکا تھا جو نشہ لیے اب پرسکون سی آنکھیں موند گئی تھی۔
اس کے سامنے بیٹھا وہ غصے سے اسے گھور رہا تھا، پاس ہی اس کا والٹ پڑا تھا جس میں سے تمام پیسے غائب تھے۔ تمام بات اسے سمجھ آچکی تھی۔۔۔۔۔۔ اس لڑکی نے نشے کی خاطر چوری کی تھی۔
معتسیم نے نفرت سے اس کے حلیے کو دیکھا تھا۔۔۔۔۔۔ لمبے مگر مٹی اور گند سے اٹکے بال اس کا چہرہ چھپائے ہوئے تھے۔
’’درشن تو کیا جائے اس چھوٹے خرگوش کا!!‘‘ اس کی ہائیٹ اور بھاگنے کی سپیڈ پر چوٹ کیے ہاتھ آگے بڑھائے اس نے بال چہرے پر سے ہٹائے تھے۔
مگر یہ کیا؟ معتسیم آفندی کو اپنا سانس بند ہوتا وہ محسوس ہوا تھا۔ یہ کیسا کھیل کھیلا تھا قسمت نے اس کے ساتھ؟ نہیں ایسا نہیں ہوسکتا تھا۔۔۔۔۔ مگر ایسا ہوگیا تھا
’’ماورا!‘‘ آنکھیں پھیلائے نام بڑبڑاتا وہ خوف سے پیچھے ہوا تھا۔
’’ہوں؟‘‘ غنودگی میں جاتی وہ بڑبڑائی۔
آنکھیں اس چہرے پر سے پلٹنے کو انکاری تھی تو دماغ ماننے سے۔
اپنا کانپتا ہاتھ آگے بڑھائے اس نے اسے چھونا چاہا تھا جو اب مکمل غنودگی میں جاچکی تھی۔
’’ماورا!!‘‘ لبوں نے ایک بار پھر اس کا نام لیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’بب۔۔۔۔۔باہر۔۔۔کک۔۔۔۔کیا ہوا؟‘‘ مارتھا کے کمرے میں آتے ہی اس نے خوف سے پوچھا اور ماتھے پر آئے پسینے کو صاف کرنے لگ گئی۔
’’کچھ نہیں ہوا بےبی۔۔۔۔۔۔ آپ سب چھوڑے اور مجھے بتائیے جو کہاں تھا وہ سب یااد ہے نا؟‘‘ مارتھا کی بات پر اس نے سر زور سے اثبات میں ہلایا۔
’’مم۔مگر۔۔۔۔مگر ۔۔۔۔۔۔ وہ۔۔۔۔وہ۔۔۔۔۔‘‘ اس نے خشک لبوں پر زبان پھیری تھی۔
’’فکر مت کرے۔۔۔۔۔ میم آپ کو کچھ نہیں کہے گی۔۔۔۔۔ وہ آپ کے بارے میں کوئی فیصلہ اس وقت نہیں لے سکتی۔۔۔۔۔۔۔۔ اس وقت وہ بالکل بےبس ہے۔۔۔۔۔۔ جیک سر آرہے ہے!‘‘ مارتھا اپنی دھن میں بولی ایک دم رکی تھی۔
اس نے زویا کی جانب دیکھا جس کا چہرہ خوف کی وجہ سے سفید ہوگیا تھا۔
’’بےبی۔۔۔۔‘‘ مارتھا اس کی جانب بڑھی جو سر نفی میں ہلائے پیچھے کو ہوتی بےدردی سے اپنے بال نوچنے لگ گئی تھی۔
’’سس۔۔۔۔سر نہیں۔۔۔۔۔۔۔ س۔۔۔۔۔۔سر نہیں۔۔۔۔۔نن۔۔۔۔۔نہیں!‘‘ وہ پیچھے کو ہوتی دیوار سے جالگی تھی۔
’’بےبی۔۔۔۔۔زویا بےبی کچھ نہیں ہوگا میں ہوں نا بےبی!‘‘ اس کی بگڑتی حالت دیکھ مارتھا کو اپنی جلد بازی پر افسوس ہوا تھا۔
جیک اس کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ہی نہیں ایک تلخ حقیقت بھی تھی جسے زویا مرتے دم تک بھول نہیں سکتی تھی۔
’’وو۔۔۔وہ۔۔۔۔نن۔۔۔۔۔نہیں ۔۔۔۔۔۔۔چھوڑے گا۔۔۔۔۔مم۔۔۔۔۔۔ مارے گا۔۔۔۔۔مارے گا!‘‘ وہ سر تیزی سے نفی میں ہلائے روتے بولی تھی۔
’’وہ کچھ نہیں کرے گے میں ہوں نا آپ کے ساتھ۔۔۔۔۔۔ آئی پرامس۔۔۔۔۔۔۔ وعدہ!‘‘ مارتھا اسے اپنی باہوں میں بھرے میٹھے لہجے میں بولی تھی۔
’’وو۔۔۔۔وعدہ؟‘‘ اس نے خوف سے آنکھیں ہلکی سی وا کیے اس سے پوچھا تھا۔
’’پکا وعدہ!‘‘ مارتھا کے بولتے ہی زویا نے اپنی چھوٹی انگلی اس کے سامنے کی تھی۔
مارتھا نے ہنستے ہوئے اپنی چھوٹی انگلی اس کی انگلی سے ملائی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’تو تم چاہتے ہو کہ میں چوہانز مینشن جاؤں اور وہاں سے تمہاری منگیتر کو نیلامی سے خرید کر بازیاب کرواؤں؟‘‘ سنان شاہ کے پوچھتے ہی سامنے بیٹھے شخص نے سر اثبات میں ہلایا تھا۔
’’مگر یہ کام تو تم خود بھی کرسکتے ہو نا؟ پھر میری مدد کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ سنان شاہ نے آبرو اچکائے سوال کیا تھا۔
’’مجھے صرف پری کو ہی نہیں باقی سب کو بھی بچانا ہے، مگر میں چاہتا ہوں کہ پہلے پری محفوظ ہوجائے۔۔۔۔۔ اور یہ کام تمہارے علاوہ کوئی اور نہیں کرسکتا سنان!‘‘ کافی کا گھونٹ بھرے وہ بھاری لہجے میں بولا تھا۔
’’ٹھیک ہے کروں گا تمہارا کام۔۔۔۔۔۔ مگر اسے ایک فیور سمجھنا۔۔۔۔۔۔۔ مدد نہیں!‘‘ سنان شاہ لبوں پر مسکراہٹ سجائے بولا تھا۔
’’فکر مت کرو مان زارون شیخ کو احسان ادھار رکھنے کی عادت نہیں۔۔۔۔۔۔۔ بہت جلد چکا دوں گا میں!‘‘ وہ بولا تو سنان مسکرایا تھا۔
’’تمہارا کام پکا سمجھو!‘‘ اپنی جگہ سے اٹھتے وہ بولا تھا۔
مان سے ہاتھ ملائے وہ وہاں سے جاچکا تھا۔
گاڑی میں بیٹھتے ہی سنان شاہ کی نظر سامنے موجود فلاور شاپ پر پڑی تھی جہاں ایک لڑکا کندھے پر گٹار لٹکائے، ہاتھوں میں ایک پھول لیے اس لڑکی کے سامنے بیٹھا تھا، جبکہ وہ لڑکی خوشی سے سن کھڑٰی بس اس کا اقرار سن رہی تھی۔
یہ دیکھتے ہی ایک سرد آہ اس کے لبوں سے خارج ہوئی تھی۔ موبائل نکالے اس نے کیلینڈر دیکھا جہاں ایک ہفتے بعد کی ڈیٹ مارک تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کا ڈھانچہ نما وجود اٹھائے معتسیم گلی کی نکر میں آگیا تھا جب چھوٹا شیطان اسے وہاں دیکھ چونکا اور پھر اس کی باہوں میں موجود اس بیتاب روح کو دیکھ اس کی آنکھیں پھیلی تھی۔
وہ انہی بڑٰی بڑی آنکھوں سے معتسیم کو گھور رہا تھا جس پر معتسیم نے اسے ایک زبردست گھوری سے نوازہ کے وہ ہڑبڑا کر چہرہ موڑ گیا تھا۔
نظروں کا زاویہ بدلے معتسیم نے اپنی باہوں میں موجود اس بےخبر وجود کو دیکھا تھا۔۔۔۔۔ جس کے جسم سے اٹھتی بدبو اور نشے کی سمیل اس کے اعصاب سلب کررہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔ نجانے کتنے عرصے سے وہ نہائی نہ تھی۔۔۔ اوپر سے اس کا حلیہ۔۔۔۔۔۔ کیا وہ اسی حلیے میں یہاں رہتی۔
مگر ان تمام باتوں میں جس بات نے اسے بری طرح ڈسٹرب کیا تھا وہ تھا اس کا یہاں ہونا۔۔۔۔۔۔ خبر کے مطابق تو اس وقت اس کی شادی ہوچکی ہوتی اور وہ اپنے شوہر کے ساتھ اسلام آباد میں ہی کہی رہائیش پذیر ہوتی۔
’’بہت جلد، بہت جلد تم سے تمام سوالوں کا جواب لوں گا میں مس ماورا۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر شروع ہوگا میرا انتقام۔۔۔۔۔۔ جس کے لیے میں اتنے سال ایک بےنام سی آگ میں جھلسا ہوں! جسٹ ویٹ اینڈ واچ!‘‘ اس کے وجود کو گاڑی کی بیک سیٹ پر پٹختا وہ غصے سے بولا تھا۔
ایک آخری نظر اس کے وجود پر ڈالے وہ گاڑی زن سے وہاں سے بھگا لے گیا تھا۔۔۔۔۔۔ بھول گیا تھا کہ وہ یہاں کیوں اور کس لیے ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ بس اب دماغ میں تھا تو صرف انتقام۔
انتقام!
غموں نے کی سازش انتقام لے رہے ہیں
ہے انتقام کی یہ حد، صبح شام لے رہے ہیں
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...