حزن و ملال میں جکڑی زینہ اس بات سے بالکل بے خبر تھی کہ وہ کسی کی متلاشی نظروں کے حصار میں آ چکی ہے۔ روحیل نا چاہتے ہوئے بھی انتظار گاہ سے نکل کر داخلی برآمدے کے ایک کونے میں پڑے بینچ پر بیٹھ گیا۔۔۔ جی چاہا زینہ کے پاس آکر اسکے سارے غموں کے مداوے کی یقین دہائی کروائے۔۔۔۔
زینہ اپنے اردگرد سے بالکل بے خبر نمکین پانی لٹانے میں اس قدر مشغول تھی کہ ایک بار روحیل کا شدت سے جی چاہا اسے اپنے حصار میں لے کر اس کی لاچارگی، بےبسی کو اپنے اندر سمو لے مگر وہ اپنے اس جذباتی پن کو اپنے دل کے اندر دبا گیا ۔۔
کاش یہ مان جائے۔میں اسے ایک کانٹا بھی چبھنے نہ دوں۔۔۔۔
زید عاصم کو ڈاکٹر کے ہمراہ کمرے سے نکلتے دیکھا تو فوراً اٹھ کھڑا ہوا اور انکی طرف بڑھنے لگا ۔۔۔
زینہ نظریں جمائے زید اور عاصم کی واپسی کی منتظر تھی، انہیں کمرے سے نمودار ہوتے دیکھا تو فوراً لپکی مگر روحیل کا زینہ سے قبل از وقت پہنچنا زینہ کو ناگوار گزرا مگر لب سی لیئے، دونوں بھائیوں کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی۔۔۔
زینہ کے بولنے سے قبل روحیل تمام تفصیلات پوچھنے لگا۔۔۔
ڈاکٹر نے یہی بولا ہے کہ انکا فشار الخون خطرناک حد تک نیچے چلا گیا تھا جس کی بنا پر فالج کا حملہ ہوا ہے ۔ڈاکٹر کے مطابق دماغ میں خون کا لوتھڑا بن چکا ہے، جسے ادویات کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اگلے 48 گھنٹے میں بچت ہو گئی تو ٹھیک وگرنہ فی الحال کچھ کہا نہیں جا سکتا ہے جبکہ ڈاکٹر بر وقت طبی امداد ملنے پر بھی بچت کی امید دلا رہے ہیں چونکہ ماسی جسمانی لحاظ سے بہت کمزور ہیں اس لیے انہیں مذید حملے کا خطرہ بھی لاحق ہے، اس وقت فشار القلب اور خون پتلا کرنے والی ادویات دی جا رہی ہیں ۔۔۔عاصم روحیل کو تفصیلاً بتا کر عقب میں کھڑی تڑپتی زینہ کی طرف بڑھ گیا جو روحیل کی موجودگی کی بنا پر چند گز کے فاصلے پر کھڑی اسکے چلے جانے کی منتظر تھی مگر روحیل تمام تفصیلات لینے کے بعد زینہ کے قرب میں پڑے بینچ پر جا بیٹھا۔۔۔
روحیل کے ہٹتے ہی زینہ عاصم زید کی طرف تڑپ کر لپکی اور ان دونوں کے ساتھ لپٹ کر دوبارہ سے بکھرنے لگی۔۔۔
زید عاصم ویرے ڈاکٹر کو بولو میری امی کو بچا لیں۔!!
عاصم ویرے تم تو دبئی سے آئے ہو ، تمہیں علاج معالجے کا زیادہ پتا ہو گا ، تم ڈاکٹروں سے اچھے طریقے سے بات کرو نا۔۔! انہیں بولو میری امی کا علاج اچھے سے کریں۔۔زینہ کی حالت قابلِ رحم ہوتی جا رہی تھی جبکہ عقب میں بیٹھے روحیل کا جی چاہ رہا تھا کہ زینہ کو اپنی آغوش میں لے کر اسکے سارے دکھ درد چن لے۔۔۔
زید عاصم اپنی طرف سے تسلی تشفی میں غلطاں تھے کہ روحیل سے رہا نہ گیا اور اٹھ کر قریب چلا آیا۔۔۔
زید اور عاصم میرے خیال میں آپ لوگ گھر جاؤ کیونکہ ماسی ابھی انتہائی نگہداشت کے کمرے میں موجود ہیں اور کسی کو بھی ملنے کی اجازت نہیں ملے گی جب تک انکی حالت نہیں سنبھلتی ہے۔۔۔۔
میں رات ادھر ہی ہوں ، آپ لوگ گھر چلے جاؤ۔!!
عاصم ویرے میں کہیں نہیں جاؤں گی جب تک میں اپنی امی کو نہ دیکھ لوں۔
مشورہ دینے والوں سے بولو خود گھر جا کر آرام فرمائیں۔۔۔!!!
جزبات کی رو میں بہتی زینہ کے منہ میں جو بھی آیا بول گئی۔۔۔
آپا کیا ہو گیا ہے آپ کو ۔؟؟
روحیل بھائی آپ سے بڑے ہیں۔!! ہوش میں آئیں۔ ! زید نے حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے زینہ کو کندھوں سے پکڑ کر ایک طرف لے جا کر جھنجھوڑا۔۔
آپا یہ انکا احسان ہے کہ وہ آدھی رات میں ہمارے ساتھ خوار ہو رہے ہیں۔وہ ہمارے ہمسائے پندرہ سال قبل تھے ۔!
اب نہیں ہیں۔!جو ہماری زمہ داریوں کا بوجھ اٹھائیں۔ یہ تو ان دونوں بھائیوں کا حسن خلق یا پھر حسن سلوک ہے جو ہمارے اس غریب خانے میں ٹھہرے رہے ہیں وگرنہ ہمارے گھر تو مفلسی کی بنا پر سگے رشتہ دار آنا پسند نہیں کرتے ہیں آپا۔۔!
کون دیتا ہے اپنی نیند کی قربانی۔؟روحیل بھائی اپنے آرام سکون کو چھوڑ کر وہ دس منٹ کے اندر اندر امی سمیت ہمارے سارے کنبے کو ہسپتال لائے ہیں اور آپ اس طرح ترش لہجے میں بات کر رہی ہیں۔؟!!
آپا مجھے آپ سے ایسی امید تو نہ تھی۔! آپ تو ہمت اور حوصلے والی ہیں۔! آپ ہی نے تو مجھے سکھایا تھا کہ مصیبت کے وقت صبر پر ہی اجر ملتا ہے مگر آج آپ وہ سب بھول گئیں ہیں۔!
زید تم اس شخص کی سیاہ کاریوں کو نہیں جانتے۔! تمہیں پتہ چلے تو تم اسکی چمڑی ادھیڑ کر رکھ دو۔۔!!
تم اسکی شکل دیکھنا بھی گوارا نہ کرو۔!۔موقع کی نزاکت کو مدِنظر رکھتے ہوئے زینہ زبان پر نہ لا سکی اور صرف اندر ہی اندر کڑھ کر رہ گئی۔۔۔
زید کی یاد دہانیوں پر صرف اسکی ہاں میں ہاں ملاتی رہی۔۔۔جبکہ دوسرے کونے میں عاصم روحیل کو حکمت استعمال کرنے پر درس دے رہا تھا۔۔۔
یار بھیا زینہ کے سامنے بولنے کی کیا تک بنتی تھی۔؟ یار پہلے سے ہی وہ ماسی کی وجہ سے پریشان ہے اوپر سے آپ سے چڑتی ہے تو آپ بیچ میں کیوں بولے ۔۔؟؟
یار عاصم تم نے اسکی حالت دیکھی ہے ۔؟؟؟ساری رات رو رو کر اور اسی بینچ پر بیٹھ بیٹھ کر فنا ہو جائے گی۔۔۔!
یار بھیا مجھے سرگوشی میں بتا دیتے نا ۔۔۔ میں حالات کو سازگار بنانے کی تگ و دو میں ہوں اور آپ بیچ میں آن کود پڑے ہیں۔۔!
یار مجھے اسکی فکر ہے۔! مجھے اس سے ہمدردی ہے۔! روحیل نے ملتجی لہجے میں بولا۔۔۔
بھیا جو کچھ آپ اس کے ساتھ کر چکے ہیں نا وہ سب بھلانے میں وقت لگے گا۔ لہٰذا صبر کا گھونٹ بھریں اور زینہ کے ارد گرد نہ منڈلائیں۔! یہ نا ہو ساتھ میرا بھی آنا جانا بند ہو جائے پھر آپ اپنے ناکام عشق پر ٹسوے بہاتے رہنا۔۔
ہاں تم ٹھیک کہہ رہے ہو چھوٹے۔۔! روحیل نے شرمندگی سے عاصم کی بات کی تائید کی۔۔
پر یار عاصم ماسی اچھی بھلی تھیں جب میں انہیں الوداع بول کر آیا ہوں، پھر اچانک ایسا کیا ہوا ہے جو وہ اس حالت میں جا پہنچی ہیں۔!
ماسی کے داماد سے تو ملے ہیں نا ؟ بس اسی نے زینہ کے رشتے کے حوالے کوئی تلخ بات بولی ہے ، ماسی فون سنتے سنتے زمین بوس ہونے لگیں وہ تو صد شکر میں نے اور زید نے بھاگ کر تھام لیا۔۔!
عاصم میرا جی چاہتا ہے میں اس ذیشان کے چودہ طبق روشن کر دوں۔! روحیل نے غصے سے دانت پیسے۔۔
بھیا اس وقت طبق روشن کرنے کی نہیں بلکہ طبق کو بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت ماسی کی صحت یابی کیلئے دعا کریں ورنہ زینہ کی جو حالت ہو رہی ہے وہ آپ سے چھپی نہیں ہے۔۔۔!!
یار مجھے ماسی اور زینہ کی ہی تو فکر کھائے جا رہی ہے۔۔
عاصم یار میں باہر سے کچھ کوفی چائے لاتا ہوں تم اسے پلا دو پلیز۔۔! یہ تو رو رو کر ہلکان پاگل ہو جائے گی۔۔
بھائی جان آپ اپنی بیقراری اپنے تک محدود رکھیں اور ماسی کے لیے دعا کریں بس۔! اور زینہ کی پہنچ سے بھی دور رہیں ورنہ وہ آپ کا قلع قمع کر دے گی ، جلتی پر تیل نہ چھڑکیں پیارے بھائی جان۔! عاصم نے التجا کی ہے۔۔
میں کیا کروں یار ۔؟؟ میرے سے رہا نہیں جاتا ہے۔ میں پہلے اسی غرض سے باہر رکا تھا کہ زینہ کو برا لگے گا مگر اب یار تمام حقائق جاننے کے بعد کہ اسکی ماں زندگی اور موت کی کشمکش میں ہے ، کیا میں باہر بیٹھ سکتا ہوں۔؟؟
اگر باہر نہیں بیٹھ سکتے تو احاطے میں زینہ سے فاصلے پر تشریف رکھیں۔یا پھر گھر جا کر آرام فرمائیں۔۔
ہونہہ آرام ۔! میں تو چاہتا ہوں تم لوگ گھر چلے جاؤ ، میں ویسے بھی رات کو بہت کم سوتا ہوں تو مجھے کوئی فرق نہیں پڑے گا یار ۔! کم ازکم تم لوگ تو گھر جا کر آرام کرو ۔۔!
بھیا سگی اولاد زندگی اور موت کی کشمکش میں ماں کو چھوڑ کر گھر آرام کے لئے جائے گی۔؟؟ یار بھیا آپ بھی نا آج کچھ زیادہ ہی جزباتی ہو رہے ہیں۔۔
اچھا وہ لوگ اگر نہیں جاتے تو میں بھی ادھر ہی ہوں۔روحیل نے اپنی خمار آلود آواز میں بولا۔۔ سادہ سے حلیے میں پریشان سا روحیل کسی بھی لڑکی کے دل میں گھر کر جانےکی صلاحیت رکھتا تھا مگر زینہ اسے آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھتی۔۔
اتنے قریب ہوتے ہوئے بھی زینہ اس کی دسترس سے بہت دور تھی۔
نفرتوں کے بیچ تو روحیل نے خود اپنے ہاتھوں سے بوئے تھے مگر اب ان بیچوں کی تیار شدہ فصل خاردار کانٹوں کا روپ دھار چکی تھی۔ پاس آؤ تو زخمی کرے ، دور جاؤ تو کسک بڑھائے۔۔
عاصم نے تمام حفاظتی تدابیر سمجھانے کے بعد
انگلی کے اشارہ سے بولا۔ بھیا زینہ سے دور رہنا۔۔!!
اپنے دل کو قابو میں رکھنا۔!!
آپ کے دل کا مچلنا آپ کے لئے نقصان کا باعث بھی بن سکتا ہے۔!! لہٰذا احتیاط علاج سے بہتر ہے۔!! اچھا میرے باپ۔! روحیل نے اپنے آپ کو قابو کرتے ہوئے بولا۔۔
مختصراً سلسلہ کلام کے بعد عاصم متوازن چال چلتا زید اور زینہ کے پاس آن بیٹھا۔۔جبکہ روحیل دل مسوس کر خارجی انتظار گاہ کی طرف بڑھ گیا۔۔
اس دوران زید نے زینہ کو سمجھا بجھا کر بینچ پر اپنے ساتھ بٹھا لیا۔۔ زینہ ہنوز ہچکیوں سے رونے میں مشغول تھی۔۔۔
عاصم نے زینہ کے قریب بیٹھتے ہوئے اسکے دونوں ہاتھ تھامے اور ہوئے بولا۔ زینہ میری بات غور سے سنو۔ !!
دیکھو زندگی موت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
ابھی بجائے رونے کے تم ماسی امی کے لئے شدت سے دعا کرو پلیز۔۔
تمہیں تو یہ سب باتیں خود سے پتا ہیں۔
عاصم ویرے میں دل میں بہت ساری دعائیں مانگ رہی ہوں مگر میرے آنسو تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے ہیں۔۔زینہ نے بھرائی آواز میں بولا۔۔۔
میں کوشش کرتی ہوں کہ میرے آنسو نہ نکلیں مگر ایسے ہی بہے جا رہے ہیں۔۔!!! زینہ نے اپنی روشن آنکھوں کو رگڑ ڈالا۔۔
زینہ میری بہن میں ہوں نا ۔! ماسی کے علاج معالجے میں کسی قسم کی کوئی کمی کوتاہی نہیں ہونے دوں گا۔۔تم بس ہمت اور حوصلے سے کام لو بلکہ ہمیں تو انتہائی نگہداشت والے کمرے میں داخل ہونے کی اجازت بھی نہیں ہے تو اگر مناسب لگے تو کچھ دیر بعد تم اور زید گھر چلے جاؤ ، میں یہاں پر ماسی کے پاس رکتا ہوں۔
نہ ویرے میں نہیں رہ سکوں گی امی کے بغیر۔! مجھے گھر نہ بھجواو ویرے۔۔! زینہ نے تڑپ کر عاصم کے دونوں ہاتھوں کو دبایا۔۔۔
دو زانوں بیٹھے عاصم نے اوپر اٹھتے ہوئے زینہ کو تسلی دی اور بولا تم اگر گھر نہیں جانا چاہتی تو کوئی بات نہیں مگر جب تھک گئی تو بتانا۔!! روحیل بھیا باہر ہی ہیں وہ تم دونوں کو چھوڑ آئیں گے۔۔
روحیل کا نام سن کر زینہ کا دل شدید بیزار ہوا مگر حالات کے پیشِ نظر خاموش ہو گئی۔۔
******************************************
میرے مالک میری ماں کو مکمل شفایاب کر دے۔! یا اللہ زندگی میں اگر کوئی ایک خالص نیکی صرف اور صرف تیری خوشنودی کے لیے کی ہے تو اسی کے بدلے میری دعاؤں کو قبول و منظور فرما۔! یا اللہ تجھے تیرے غفور الرحیم ہونے کا واسطہ بیشک تو ہی مسب الاسباب ہے میری ماں کی صحت لوٹا دے آمین۔۔
زینہ نجی ہسپتال کے ایک خالی کمرے میں اللہ کے حضور گریہ زاری میں ڈوبی ہوئی تھی۔ گھڑی رات کے دو بجا رہی تھی۔ چار سو سناٹا پھیلا ہوا تھا۔ آس پاس کمروں سے نرسوں کی سرگوشیاں اور انکے قدموں کی چاپ یا پھر مریضوں کی آہ و بقا فضا میں ارتعاش پیدا کرتی وگرنہ یہ طویل رات طویل تر ہوتی جا رہی تھی۔۔۔
ساری رات آنکھوں میں کٹی ، فجر کی ادائیگی کے ساتھ ہی غم سے نڈھال زینہ غنودگی میں جانے لگی۔۔۔
زینہ اپنے پاکیزہ وجود کو حیا کی چادروں میں لپیٹے ارد گرد سے بے خبر گٹھڑی بنی جائے نماز پر پڑی تھی۔ روحیل نے بھی ساری رات تڑپ کر گزاری، زینہ سے دوری اسے پریشان کر رہی تھی۔ مسجد سے واپسی پر یونہی نظر ادھ کھلے دروازے سے کمرے میں پڑے وجود پر گئی تو گویا
زینہ اپنے پاکیزہ وجود کو حیا کی چادروں میں لپیٹے ارد گرد سے بے خبر گٹھڑی بنی جائے نماز پر پڑی تھی۔ روحیل نے بھی ساری رات تڑپ کر گزاری، زینہ سے دوری اسے پریشان کر رہی تھی۔ مسجد سے واپسی پر یونہی نظر ادھ کھلے دروازے سے کمرے میں پڑے وجود پر گئی تو گویا کسی نے دل مٹھی میں جکڑ لیا، احساسِ محبت کے ساتھ ساتھ احساسِ تڑپ نے آن گھیرا ، رہا نہ گیا اور کمرے کے اندر داخل ہو گیا۔۔۔
جی چاہا اس ٹھنڈے یخ فرش پر بے نیاز اس ہستی کو اپنی باہوں میں بھرے اور ان تمام غموں ، پریشانیوں سے دور لے جائے۔۔
روحیل نے دبے پاؤں آگے بڑھنا شروع کر دیا۔۔
چند قدموں کے فاصلے پر آ کر دیکھا تو زینہ حیات اپنا چہرہ ڈھکے دنیا و مافیا سے بےخبر تھی۔۔۔
زینہ ۔!!
روحیل نے کچھ سوچ کر نہایت دھیمی آواز میں پکارا۔۔
دو تین مرتبہ پکارنے کے باوجود بھی زینہ کے طرف سے کوئی ردعمل ظاہر نہ ہوا تو روحیل دو زانوں بیٹھنے کا سوچ ہی رہا تھا کہ عقب سے عاصم کی آواز آئی ۔
بھیا۔!!! کیا کر رہے ہو یار۔؟؟ عاصم نے گھبرائے ہوئے لہجے میں بولا ۔۔
یہ منظر دیکھ کر عاصم کا تو دماغ گھومنا شروع ہو گیا۔۔
بھیا آپ ادھر کیوں بیٹھ رہے ہیں؟؟ زید یا کسی اور نے دیکھ لیا تو آپ کی اور اس بیچاری کی کیا عزت رہ جائے گا۔ عاصم نے التجائیہ انداز اپناتے ہوئے روحیل کو جھنجھوڑ ڈالا۔۔ بھیا اٹھ جائیں ۔! کیا کر رہے ہیں یار ۔!!
شکر کریں صرف میں نے دیکھا ہے ۔!
بھیا اللہ کا واسطہ اٹھ جائیں۔۔۔ عاصم سرگوشیوں میں روحیل کے بازو کو جھنجھوڑ رہا تھا۔۔۔
یار عاصم یہ بیمار پڑ جائے گی۔! اسے اتنے ٹھنڈے فرش پر نہیں ہونا چاہئے ۔ یار اس کمزور جان کو نمونیا ہو جائے گا۔ پلیز عاصم اسے یہاں سے اٹھاؤ۔!
مجھے اس کا یہاں فرش پر پڑے رہنا برداشت نہیں ہے ۔ میں تو اسے بولنے آیا تھا کہ یہاں سے اٹھے اور گھر چلے۔۔ روحیل دیوانوں کی طرح زینہ کے لیے تڑپ رہا تھا۔۔۔
یار بھیا میں اسکو اٹھا لیتا ہوں پلیز آپ یہاں سے چلے جائیں۔! عاصم کی جان سولی پر لٹکی ہوئی تھی۔۔
عاصم کی التجائیہ سرگوشیاں اپنے عروج پر تھیں۔
روحیل زینہ سے چند قدموں کے فاصلے پر بیٹھا عاصم کی التجاؤں پر غور و فکر کر رہا تھا۔۔۔
بھیا اب اٹھ بھی جائیں۔!
عاصم پہلے اسے اٹھاؤ۔!! یار بھیا یہ میری ذمہ داری ہے میں اسے اٹھا لیتا ہوں آپ بس یہاں سے چلے جائیں پلیز ۔۔! یہ تو اللہ کا شکر ہے کہ زید نے نہیں دیکھا ورنہ وہ آپ کے بارے میں کیا سوچتا۔؟؟ یار بھیا کچھ تو عقل سے کام لیں۔۔
عاصم نے تقریباً کھینچتے ہوئے روحیل کو کمرے سے باہر نکال کر برآمدے میں اپنے سامنے کھڑا کیا اور بولا ۔ بھیا یار آپ کو کیا ہو گا ؟؟ آپ کیوں ایسی حرکتیں کر رہے ہیں۔؟؟ یار وہ پہلے ہی آپ سے اتنی خار کھاتی ہے اور آپ اگر اس طرح کی حرکتیں کریں گے تو کیا اسکی نظروں میں آپ معتبر بن جائیں گے ۔؟؟عاصم نے فکر مندی سے دھیمے لہجے میں پوچھا۔۔۔
عاصم مجھے خود سمجھ نہیں آتی ہے۔! میں اس لڑکی کے معاملے میں اس قدر حساس ہو چکا ہوں کہ میں باوجود کوشش کے بھی اسکو نہیں چھوڑ سکتا ہوں۔۔۔
یار اسکے کردار کی خوشبو نے مجھے اسکا دیوانہ بنا دیا ہے ۔۔ مجھے اسکے کردار کی کشش نے احساس کرنے والا بنا دیا ہے ۔ تم نے دیکھا نہیں ہے کہ یہ اپنی ماں کے مرض کا سن کر کتنا تڑپی ہے۔!! اور یہ اپنی تڑپ کا علاج ایک رب سے جوڑے ہوئے ہے۔
یار میں رات کو بارہا اس کمرے کے باہر کے چکر کاٹ چکا ہوں۔ جب بھی آیا ہوں اسے اللہ کے حضور گریہ زاری کرتے دیکھا ہے ۔۔ اللہ کے سامنے پھیلے اسکے ہاتھ نیچے نہیں گئے۔۔۔ فجر سے قبل اسکی حالت ایسی نہ تھی ۔! بس ابھی کچھ دیر قبل ہی تو یہ زمین بوس ہو کر بےسدھ ہوئی ہے۔۔۔!!
روحیل نے اپنی خمار آلود آواز میں عاصم کو اپنے دل کا حال سنایا۔۔۔
یار بھیا آپ لاعلاج ہو چکے ہیں۔!! ساری رات آپ اسکی پہرہ داری کرتے رہے ہیں۔؟؟ میں سمجھا تھا کہ آپ خارجی انتظار گاہ میں بیٹھے ہوں گے مگر یہ نہیں پتا تھا کہ آپ نے سی آئی ڈی کا ریکارڈ توڑ ڈالا ہے۔۔! جاسوس نہ ہوں تو ۔!! آپکو یہاں پر نہیں ٹھہرنا چاہیے تھا۔۔!
رات میں نے آپکو کس قدر سمجھایا تھا کہ ایسی حرکت دوبارہ نہیں کرنی مگر آپ پھر بھی اس روش پر چلتے چلے جا رہے ہیں۔!
میں کیا کروں عاصم ۔؟؟ میں کیسے برداشت کروں کہ یہ اکیلی ایک انجان کمرے میں ایسے تنہا بیٹھ کر روتی تڑپتی رہے۔۔۔۔
اور کوئی بھی غیر شخص اسے نقصان پہنچا سکتا ہے۔!! روحیل نے اترے چہرے اور بےخواب تھکی آنکھوں سے عاصم کو دیکھا۔۔۔
بھیا آپ بھی اس کے لیے غیر ہی ہیں ، آپ یہ بات کیوں بھول جاتے ہیں۔؟؟
“عاصم میں تمہیں بتا رہا ہوں زینہ میری اور صرف میری ہے”۔کان کھول کر میری بات سن لو۔۔
عاصم روحیل کی دیوانگی پر سر جھٹک کر رہ گیا۔۔۔ پھر مجبور ہو کر بولا۔۔۔
زینہ میری بہن ہے اور میری ذمہ داری ہے۔! میں اسکی حفاظت کرنا جانتا ہوں۔۔آپ بالکل بےفکر ہو کر گھر جائیں۔۔!!
آپ نے اپنی کیا حالت بنا رکھی ہیں۔ ؟ کثرت بےخوابی سے آنکھوں کے ارد گرد گڑھے بن چکے ہیں۔بھیا آپ بیمار پڑ جاؤ گے۔۔۔ خدارا میری بات مان جائیں اور گھر جائیں۔۔۔
عاصم جب تک تم اسے یہاں فرش سے نہیں اٹھاؤ گے میں کہیں بھی نہیں جانے والا۔۔! روحیل دو ٹوک بول کر سامنے پڑے بینچ پر کسی ضدی بچے کی طرح جا بیٹھا۔۔
عاصم روحیل کے اس رویے پر صرف سر جھٹک کر رہ گیا اور دوبارہ کمرے میں گٹھڑی بنی زینہ کو اٹھانا شروع کر دیا۔۔۔
******************************************
دیکھ لیا ہے شہلا ۔! گھر کے داماد کی یہ حیثیت ہے ۔! ساری رات گزر گئی کسی نے گوارا نہیں کیا کہ بہنوئی کو بتا دیں۔! تمہیں بار بار بولا ہے انکے لیے نہ رویا کر ۔! انہیں تمہاری کوئی پرواہ نہیں ہے۔!
تم صرف ذیشان احمد کی بیوی ہو اور بس ۔! باقی سب ٹوپی ڈرامہ ہے۔۔۔ ذیشان کا لگاوٹ بھرا لہجہ شہلا کو مزید طیش دلا گیا۔۔۔
بس کر دو رونا شہلا ۔! جب شوہر کا ساتھ ہوتو باقی سب رشتے بے معنی ہوتے ہیں۔! ذیشان نے ہسپتال پہنچتے ہی واویلا مچا دیا۔ پھر فوراً پینترا بدلتے ہوئے شہلا کو بھڑکانے لگا ۔۔
ہمیں بتانے کی کیا ضرورت ہے ؟ اب رضاعی بھائی جو آچکا ہے۔ تمہیں تو رضاعی بھائی کوئی نہیں ملنے آیا۔۔۔
پھسر پھسر روتی شہلا نے شکوہ کناں نظروں سے زینہ کو گھورا۔۔۔
زینہ امی کو کچھ ہو جاتا تو میں تمہیں کبھی معاف نہ کرتی۔ ! تمہارے یہ پردے اور یہ دوریاں ہم بہن بھائیوں کو بکھیر رہی ہیں۔! شہلا نے شدید غصے میں زینہ کے لتے لینا شروع کر دیئے جبکہ ذیشان اپنی بھڑکائی ہوئی آگ پر مسرور نظر آ رہا تھا۔۔
ایک کونے میں کھڑے عاصم اور روحیل خاموشی سے ذیشان کی سیاست پر خون جلا رہے تھے جبکہ زید اور زینہ رونے کا شغل پورا کر رہے تھے۔۔۔
ذیشان ٹانگ پر ٹانگ چڑھا کر کھا جانے والی نظروں سے حجاب میں لپٹی زینہ کی خاموشی پر اسے گھور رہا تھا۔۔۔ اسکا چلایا ہوا تیر زینہ پر اثرانداز نہ ہوا اور وہ صبر سے بند زبان کے ساتھ گردن جھکائے کھڑی تھی۔۔
شہلا نے کچھ دیر کے بعد توپوں کا رُخ عاصم کی طرف موڑ لیا۔۔۔
اوئے عاصم۔!! تم تو ہمارے ویر تھے۔امی نے بچپن سے ہمیں “ویر”( بھائی) کہنے کی تلقین کی ہے۔۔مگر تم نے ایک رتی برابر نہ سوچا کہ تمہاری کوئی بڑی بہن بھی ہے۔ !! کل سے تم آئے ہو ذرا نہ ہوا کہ ذیشان کی گھر واپسی پر اسی کے ساتھ آ کر مجھے مل جاتے۔۔۔! شہلا کے ٹسوے اور شکوہ کنائی اپنے عروج پر تھی۔۔۔
وووووہ آپا میں نے آج آنا تھا مگر موقع ہی نہ ملا رات کو ہی ماسی کی طبیعت اچانک بگڑ گئی ۔ ذیشان بھائی سے بات کرتے ساتھ ہی ماسی بیہوش ہو گئیں تھیں۔ عاصم نے جانچتی نظروں سے ذیشان کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔
اسی وقت طبیعت خراب ہوئی تھی تو اسی وقت مجھے کال ملا کر مطلع بھی تو کیا جا سکتا تھا نا۔؟ حد ہے لاپرواہی کی بھی۔! میں گھر کا بڑا ہوں مگر مجھے ایک ملازم کی سی حیثیت دی جاتی ہے۔۔ ذیشان نے عاصم کا منہ بند کروا دیا جبکہ روحیل نے مٹھیاں بھینچتے ہوئے ذیشان کا گریبان پکڑنا چاہا جسے عاصم نے بروقت سختی سے تھام کر روک لیا۔۔۔
بھیا یہ شخص اس وقت اپنے اندر کی غلاظت ہمارے سر تھوپنا چاہتا ہے ، ہوش کے ناخن لو۔! عاصم نے دھیمے لہجے میں روحیل کو باور کروایا۔۔۔
عاصم تو دیکھ نہیں رہا ہے یہ زینہ کو کیسے گھور رہا ہے۔؟! روحیل نے دانت پیستے ہوئے بولا۔۔۔
بھیا یار سب دیکھ رہا ہوں مگر ہمارا اس وقت خاموش رہنا ہی بہتر ہے یار۔ ماسی اندر زندگی موت کی جنگ لڑ رہیں ہیں اور ادھر داماد اپنی سیاست چمکا رہا ہے۔۔
ذیشان سب کی طرف سے جواب نہ پاکر تلملا کر دائیں بائیں دیکھنے لگا ، انتظار گاہ میں ماسوائے زینہ اور شہلا کی ہچکیوں کے مکمل سکوت تھا۔۔۔
دس منٹ کے بعد زید سے بڑی بہن کا رونا دیکھا نہ گیا تو گویا ہوا بڑی آپا بس کر دو ۔! نہ رو ۔! میں مانتا ہوں کہ ہم سے غلطی ہو گئی ہے مجھے اسی وقت آپکو مطلع کرنا چاہئے تھا مگر امی کی اچانک نازک صورتحال کے پیشِ نظر دماغ ماؤف ہو گیا ، میری تو سمجھ میں ہی نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔۔! اور اوپر سے آپکی طبیعت بھی ایسی نہ تھی کہ آپکو آدھی رات کے وقت دوبارہ تکلیف دیتا۔۔۔
ارے میاں بس کرو ۔! رہنے دو یہ سب عورتوں والے ڈھگوسلے ہیں۔ شہلا سے قبل ذیشان نے زہر افشانیاں شروع کر دیں۔۔۔
صد شکر وہ تو میں صبح تمہارے میکے کے دروازے پر رشتے کی” ہاں” سننے کے لیے گیا تھا وگرنہ شہلا بیگم تم نے بےخبر ہی رہنا تھا۔۔۔
میں ادھر نہ جاتا تو تم نے ابھی تک بےخبر ہی رہنا تھا۔! یہ تو دروازہ نہ کھلنے پر میری چھٹی حس نے کچھ اشارہ دے دیا کہ کچھ نہ کچھ چل رہا ہے ۔۔ سالہ صاحب کو فون کرنے پر پتا چلا کہ خالہ صآحبہ ہسپتال داخل ہیں۔۔۔
ذیشان بھائی آپ جب سے آئے ہیں شکوہ کناں ہی ہیں ، ہماری ماں زندگی اور موت کی کشمکش میں ہے اگر دلاسہ نہیں دے سکتے تو کم ازکم ہمارا دل تو نہ جلائیں۔۔۔!!! زید نے دھیمے لہجے میں سمجھانا چاہا۔۔۔۔ مگر جن کی نیت میں کھوٹ ہو وہ کوئی وار خالی نہیں جانے دیتے ہیں۔
زید ایک رات میں تمہاری زبان بہت چلنے لگی ہے ۔ لگتا ہے رضاعی بھائی کے لمبے نوٹوں نے تمہیں بھی اپنا اسیر بنا لیا ہے۔! ذیشان کی زبان درازی اور روحیل کی برداشت جواب دے گئی۔۔
روحیل نے فورا جھپٹ کر ذیشان کو گریبان سے پکڑ لیا۔۔۔
تمہیں ذرا سی بھی شرم نہیں آتی ہے۔! تمہاری سگی خالہ بستر مرگ پر ہے اور تم ادھر آ کر اپنی بیوی کو بھڑکا کر سیاست چمکا رہے ہو۔!
اس اچانک افتاد پر سب ہقا بقا رہ گئے ، عاصم نے ہوش میں آتے ہی بھاگ کر روحیل کو پیچھے ہٹانا چاہا مگر ایک مضبوط دراز قد کاٹھ والا طاقتور مرد اتنی آسانی سے کہاں پیچھے ہٹنے والا تھا۔۔
بھیا۔۔!! عاصم دھاڑا۔۔۔
میں نے بولا ہے چھوڑ دیں انہیں۔!
نازک صورتحال پر زید نے بھی کھینچا تانی شروع کر دی۔۔۔
شور سن کر فوراً نرس آن دھمکی ۔ یہ ہسپتال ہے اکھاڑا گاہ نہیں ہے جہاں پر آپ اس طرح زور آزمائی کر رہے ہیں ۔۔آپ لوگ خاموشی سے بیٹھیں وگرنہ میں سیکیورٹی گارڈ کو بلوا لوں گی۔۔۔آپ کو لڑنے کا شوق ہے تو یہ شغل باہر جا کر پورا کریں۔۔۔ نرس نے کاٹ دار لہجے میں سب کو آئینہ دیکھایا۔۔۔
روحیل نے نرس کی تنبیہ کو سنا اور پھر غصہ دباتے ہوئے ذیشان کا گریبان چھوڑ دیا مگر ذیشان کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھنا نا بھولا۔۔۔
حالات کا ستایا یہ مفلس خاندان اس وقت غم کی تصویر بنا کھڑا تھا ، ایک طرف ماں بیہوش پڑی تھی تو دوسری طرف بہنوئی کے کاری گھاؤ ۔
زینہ بےبسی میں جھکی گردن کے ساتھ آنسو بہانے میں مصروف جبکہ شہلا کا بھی تقریباً یہی حال تھا۔۔۔
ذیشان نے اپنی قمیض درست کی اور دھاڑا۔۔! شہلا بیگم میں جا رہا ہوں تم یہاں پر اپنے رضاعی بھائی اور اصلی بھائی کی ذمہ داری ہو۔ منڈی جا کر ابھی مجھے جو اپنی زبان کی صفائی میں بولنا ہے وہ میں بول لوں گا مگر یاد رکھنا زینہ کی شادی اسی شخص سے ہو گی جسکو میں نے زبان دی ہے۔۔
ذیشان آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں۔؟؟ شہلا نے لاچارگی کا مظاہرہ کیا ۔۔
شہلا بیگم میرے گھر اس وقت تک لوٹ کر نہ آنا جب تک زینہ کی رخصتی کا بندوست نہ ہو جائے ۔۔
آخر کو میری بھی زبان ہے ۔! مرد ہوں۔! کوئی ٹٹ پنجیا نہیں ہوں۔۔
عاصم روحیل انتظام گاہ کے ایک کونے میں کھڑے اس نازک صورتحال پر کھول رہے تھے۔۔۔جبکہ زید اور زینہ شہلا کے ساتھ اشکبار تھے۔۔۔
ذیشان خدارا ابھی تو ایسا نہ بولیں ۔! امی کس قدر بیمار ہیں ۔! یہ باتیں امی کے ہوش میں آنے کے بعد بھی ہو سکتی ہیں۔! شہلا نے ملتجی لہجے میں شوہر کو قائل کرنا چاہا مگر وہ شہلا کا ہاتھ جھٹک کر پھرتی سے چل پڑا ۔۔۔
شہلا نے تڑپ کر اسکے پیچھے لپکنا چاہا مگر اسکی موجودہ حالت نے اسے موقع نہ دیا ۔۔۔
شہلا کراہ کر رہ گئی۔۔۔
پیٹ تھامتے ہوئے فرش پر ڈھیر ہوگئی۔۔
زینہ بھاگ کر بہن کے پاس فرش پر آن بیٹھی۔۔۔
آپا کیا ہوا ہے .؟؟
زینہ مجھے بہت تکلیف ہو رہی ہے ۔شہلا کے چہرے کا رنگ بدلنا شروع ہو گیا۔ پیشانی پسینے سے تر ہو گئی ۔۔۔
زینہ مجھے لگتا ہے ولادت کا وقت قریب آن پہنچا ہے۔۔۔ درد زہ میں تڑپتی شہلا نے سرگوشی سے بہن کے کان میں بولا۔۔۔
زینہ زید اور عاصم کی طرف مدد طلب نظروں سے مڑ کر دیکھنے لگی۔۔۔
ناتجربہ کار زینہ نے اس طرح کی حالت نہ کبھی دیکھی اور نہ سنی۔
فرش پر بیٹھے بیٹھے بہن کی ہتھیلیوں کو مسلنے کے سوا کچھ نہ سوجھا۔۔۔
آپا آپ ٹھیک ہو جاؤ گی۔! حوصلہ کرو۔!
میں ابھی چائے منگواتی ہوں۔۔!
زینہ میری تکلیف بڑھ رہی ہے۔! شہلا نے کراہتے ہوئے بولا۔۔۔
عاصم اور زید نے آگے بڑھ کر شہلا کو فرش سے اٹھانا چاہا مگر درد کی شدت سے وہ ادھر ہی ڈھے گئی۔۔۔
نازک صورتحال کو دیکھتے ہوئے روحیل نے بولا۔ آپ سب فکر نہ کریں ، میں بس ابھی ڈاکٹر کو بلاتا ہوں۔۔۔۔
روحیل نے انتظار گاہ سے نکل کر لیڈی ڈاکٹر کے حصول کے لئے دوڑ لگا دی۔
زید تم ذیشان بھائی کو فون کرو شاید ہسپتال کے احاطے میں ہی ہوں۔
عاصم بھائی فون بند ہے ۔! زید نے کانوں سے فون ہٹاتے ہوئے تھکے لہجے میں بولا ۔۔
اچھا چلو پھر میں انہیں بھاگ کر باہر دیکھتا ہوں شاید باہر سائیکل سٹینڈ تک ہی پہنچے ہوں۔ زینہ تم آپا کو ادھر بینچ پر بٹھاؤ۔۔ درد کی شدت کو برداشت کرتی شہلا دانت بھینچے ہوئے فرش پر دو زانوں بیٹھی اپنے نصیب پر اشکبار تھی۔۔۔
آپا سب ٹھیک ہو جائے گا۔! میں بس ابھی ذیشان بھائی کو بلا کر لاتا ہوں۔عاصم نے اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر شہلا کو سہارا دے کر اٹھانے کی کوشش کی مگر عاصم کا ہاتھ شہلا نے درد کی شدت سے مروڑا۔۔۔
عاصم ویرے مجھے بہت تکلیف ہے تم بس مجھے کسی طبیبہ کے حوالے کرو جلد ازجلد۔!
زینہ عقب میں بیٹھ کر شہلا کی کمر سہلانے لگی۔۔ زید نے آگے بڑھ کر سہارا دیا۔
عاصم بھائی آپا کو ہم دونوں مل کر سہارا دیتے ہیں ۔۔۔ ہاں ہاں کیوں نہیں۔۔۔
اس اثناء میں روحیل طبیبہ کے ہمراہ آن دھمکا۔۔۔
طبیبہ نے پہنچتے ساتھ پیشہ ورانہ مسکراہٹ کے ساتھ بنیادی سوال و جواب کا سلسلہ شروع کر دیا ۔۔۔
جن میں کچھ ذاتی نوعیت کے سوالات بھی شامل تھے۔۔۔
ذاتی نوعیت کے سوالات کی شروعات سے قبل زید، عاصم اور روحیل برآمدے کے دوسرے کونے میں کھسک گئے۔۔۔
بینچ پر بیٹھی شہلا درد کی شدت پر دبی آواز میں کراہ کر رہ گئی۔۔۔جبکہ زینہ بھی پہلو بدلنے پر مجبور ہو گئی۔۔۔
****************************-*************
((“ایک انسانی جسم صرف 45” ڈیل “(یونٹ) تک تکلیف برداشت کرسکتا ہے۔ “ایک ماں کو جنم دیتے وقت 57 ڈیل تک درد محسوس ہوتا ہے جو 20 ہڈیوں کے ٹوٹنے کے برابر ہے۔”))
اپنی ماؤں کی قدر کریں جس اذیت سے وہ آپکو اس دنیا میں لاتی ہیں ناقابل برداشت عمل ہے ۔بیوی کی غلامی میں ماں کی نافرمانی نہیں ہونی چاہئے۔ اللہ المستعان
*****************************************
دیکھیں آپ حوصلہ کریں۔ آپ کے ہاں پہلے بچے کی ولادت ہے اس لیے آپ کو اندازہ نہیں ہے ، آپکو میرے کہنے کے مطابق عمل کرنا ہوگا۔۔۔ جب بھی درد کی شدت کو محسوس کریں ، درد کو اپنے اندر سے کھینچ کر گہرے سانس کے ذریعے باہر نکالیں۔۔گہرے گہرے سانس لینے سے آپ کی قوت برداشت میں اضافہ ہوگا۔۔ آپکا دماغ سانس کو خارج کرنے کی طرف مصروف عمل رہے گا اور آپ کو اپنی قوت شور شرابے میں ضائع کرنے کا موقع نہیں میسر ہو گا۔۔۔!
طبیبہ کا پرشفیق لب و لہجہ شہلا کی ڈھارس بندھانے لگا۔۔دھیرے سے سر کو اثبات میں جھٹکنے لگی۔۔۔ طبیبہ نے اس عمل کو بار بار دہرانا شروع کر دیا تاکہ شہلا کو اس طریقہ کار کی سمجھ آ جائے۔۔
پاس بیٹھی مجبور زینہ ان تمام نئی معلومات پر ہراساں ہو رہی تھی۔۔اپنا دھیان بٹانے کے لیے دائیں بائیں دیکھنے لگی تو روحیل کو اپنی طرف متوجہ پاکر فوراً نظر پھیر لی۔۔
“اللہ جانے یہ بھوت کب میرے سر سے اترے گا ؟؟پتا نہیں اسے حجاب میں لپٹے وجود کو دیکھ کر کونسا ثواب ملتا ہے ۔؟ جتنا بھی اس سے دور بھاگتی ہوں یہ نمونہ کسی اور ذریعے سے میرے سامنے آن دھمکتا ہے۔۔۔ اسکی چول اداؤں پر اسکا سر پھاڑنے کو جی چاہتا ہے۔ عاصم بھی تو اسکا سگا چھوٹا بھائی ہے مگر یہ تاڑو پتا نہیں کس پر چلا گیا ہے”۔۔زینہ اندر ہی اندر کھول کر رہ گئی۔۔۔
شہلا کی پریشانی میں امی کا غم کچھ دیر کےلئے ذہن سے نکل گیا مگر یکدم دھیان جاتے ہی دل میں ٹھیس اٹھی ۔۔۔
کاش امی اس وقت موجود ہوتیں تو آپا کو کس قدر مدد کرتیں۔ چند آنسو لڑھک کر چہرے پر لپٹی چادر کو بھگونے لگے۔۔۔
آپ انکی کیا لگتی ہیں ؟ طبیبہ کے سوال پر زینہ فورا سیدھی ہو کر بیٹھ گئی اور جوابی تعارف کروایا۔۔۔
جو بھی ہدایت میں نے انکو سمجھائی ہیں ، آپ نے انکی مدد کرنی ہے۔۔ یہ اس وقت شدید تکلیف میں ہیں ، انہیں کسی مضبوط سہارے کی ضرورت ہے۔
مجھے ان صاحب نے بلاتے وقت آپکی والدہ کا بتایا ہے سن کر کافی افسوس ہوا ہے۔۔آپ کے رشتہ داروں میں کوئی تجربہ کار عورت موجود ہیں تو انہیں بلوا لیں۔۔ ولادت میں ابھی وقت لگے گا۔۔۔
کتنی دیر لگے گی؟ بے ساختہ زینہ کے منہ سے نکل گیا۔۔۔طبیبہ زینہ کے معصوم سے سوال پر مسکرا کر اٹھی۔۔۔
ان کے مکمل معائنے کے بعد ہی بتایا جا سکتا ہے مگر وہ بھی حتمی نہیں ہو گا ۔ یہ سب اللہ کے حکم کے مطابق ہوتا ہے۔ ۔جس روح نے جب اور جس وقت اس دنیا میں آنا ہے تبھی وگرنہ ہم اطباء کچھ بھی نہیں کر سکتے ہیں۔۔۔
ابھی آپ نے انکو خوب چلانا ہے ۔ انکو بیٹھنے نہیں دینا۔۔
دو لوگ انکو کندھوں سے تھام کر برآمدے میں خوب چلائیں جتنی دیر میں ہم انکے لئے باقی انتظامات کا بندوست نہیں کر لیتے ہیں آپ انکو مسلسل چلنے پر اکساتے رہیں ۔۔۔
شہلا ابھی آپ بیٹھیں نہیں بلکہ اپنے قریبی لوگوں کے کندھے توڑتے ہوئے چلتی جائیں۔۔
طبیبہ نے مسکراتے ہوئے ہمت بندھائی اور چلنے کے لیے کھڑا کر دیا ۔۔۔
شہلا ٹھیک آدھے گھنٹے بعد ہم سب اپنی تیاری مکمل کرکے آپکو ولادت والے کمرے میں بھیج دیں گے ۔ آپ نے گھبرانا بالکل بھی نہیں ہے۔۔
پسینے میں شرابور شہلا ہلکے سے سر جھٹک پائی۔۔۔
زینہ نے شہلا کو سہارا دے کر دھیرے دھیرے چلنا شروع کر دیا۔۔۔
زینہ کا اپنی بیہوش ماں کی طرف دھیان جاتا تو آنسو پلکوں کی باڑ توڑ کر چہرے کی چادر کو بھگونے لگتے۔۔۔
زینہ نے بہن کو تھامے ہوئے چلنا شروع کر دیا۔ برآمدے کے ایک کونے سے دوسرے تک پہنچنے سے قبل زید عاصم بہنوں کی طرف بڑھنے لگے۔۔
دونوں نے سوالیہ نظروں سے پوچھا۔۔
ویرے طبیبہ بول رہی ہے آپا کو خوب چلانا ہے اور آدھے گھنٹے بعد وہ لوگ انہیں اندر بلا لیں گے۔ زینہ نے ہمت جمع کر کے بنیادی معلومات گوش گزار کیں ۔ جبکہ چند گز کے فاصلے پر دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑا روحیل بیتابی سے زینہ کے قریب آنے کا منتظر تھا مگر زینہ اسکی ذہنیت سے واقف ہو چکی تھی اسی لیے شہلا کو برآمدے کے دوسرے کونے پر پہنچنے سے قبل ہی رخ موڑ لیا۔۔
روحیل اپنا سا منہ لے کر رہ گیا۔۔
“کوئی بات نہیں زینہ حیات، تڑپا لو جتنا تڑپانا ہے ۔! میرے سے دور بھاگ لو جتنا بھاگنا ہے مگر ایک دن اس زمین کی کوئی ہستی تمہیں میرے سے دور نہ کر پائے گی کیونکہ تم میری اور صرف میری ہو۔”روحیل اپنے اندر چھڑی جنگ سے نبردآزما ہونے کے لیے ہر دم تیار رہتا ۔۔۔
بھیا ۔!! اپنے خیالوں میں گم روحیل نے چونک کر عاصم کو دیکھا۔۔
بھیا ذیشان بھائی کا کوئی اتا پتا نہیں ہے ۔ آپا کو بھی کچھ دیر بعد کمرہ ولادت میں لے جائیں گے۔ میں سوچ رہا تھا آپ اور زید منڈی جا کر انکی کوئی خیر خبر لے کر آئیں۔۔ اور اگر آپ گھر جا کر سونا چاہتے ہیں تو زید کو منڈی تک چھوڑ دیں۔ واپسی پر یہ رکشہ میں ہسپتال آ جائے گا۔۔۔
اور تم عاصم ۔؟؟
بھیا میں زینہ اور شہلا آپا کے پاس ٹھہرتا ہوں ، انہیں اکیلا تو نہیں چھوڑا جا سکتا ہے۔۔ ویسے بھی ابھی تک ماسی امی کو ہوش بھی نہیں آیا ہے۔
“عاصم میرا بس نہیں چلتا، میں زینہ کے پاس خود رک جاتا۔۔میں اسکی قربت میں سکون محسوس کرتا ہوں”۔۔۔ روحیل صرف سوچ کر رہ گیا۔۔۔
بھیا آپ مجھے بہت تھکے لگ رہے ہیں گھر جا کر آرام کریں۔۔۔
نہیں یار ۔! میں ٹھیک ہوں۔۔! مرد ہوں ، کوئی عورت تھوڑی ہوں جو اتنا نازک مزاج ہوں گا۔۔
اسی گفتگو کے دوران شہلا نام کی صدا گونجی۔ نرس نے انتظار گاہ میں داخل ہوتے ہوئے متلاشی نظروں سے شہلا کا نام پکارا۔۔۔
جی ۔! عاصم آگے بڑھا۔
شہلا بی بی کا بلاوا آگیا ہے ۔آپ انہیں چلا کر کمرہ ولادت تک لے آئیں ۔ ساتھ میں نومولود کے کپڑے اور باقی ضروری چیزیں بھی ساتھ لانی ہیں ۔۔
جی ۔!! تینوں ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے ۔۔۔
جی ہمارے پاس تو یہ سب کچھ نہیں ہے۔۔
صاحب بچے کی پیدائش پر ہمیں ان تمام اشیاء کی ضرورت ہے۔ آپ ان تمام اشیاء کو لکھ لیں اور قریبی بازار سے لے آئیں۔!
جججججججی روحیل نے خود کو سمجھدار ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی۔۔ آپ ایسا کریں وہاں برقعہ پوش لڑکی جو مریضہ کے ساتھ چل رہیں ہیں ، جو اشیاء بھی درکار ہیں آپ انہیں لکھوا دیں ، میں آپ کی بتائی گئی تمام اشیاء آدھے گھنٹے میں لا دیتا ہوں۔۔۔
صاحب اس طرح کے کاموں میں آپریشن کی نوبت بھی آ سکتی ہے لہٰذا خطیر رقم درکار ہو گی۔۔۔
جی جی آپ رقم کے بارے میں پریشان نہ ہوں ، ہم سب بندوست کر لیں گے ۔ خطیر رقم کا سن کر زید کے پسینے چھوٹ گئے۔ آٹھ سو ہزار کی دہاڑی لگانے والا مزدور کہاں سے خطیر رقم کا بندوست کرتا۔۔۔
وہ روحیل بھائی میں اپنی موٹر سائیکل بیچ دیتا ہوں ، امید ہے آپا کے لیے خرچا نکل آئے گا ان شاءاللہ۔۔ زید نے خشک گلے سے بمشکل آواز نکالی۔۔۔
زید تم پاگل ہوگئے ہو یار ۔! میرے ہوتے ہوئے تمہیں پیسوں کی فکر کرنے کی بالکل بھی ضرورت نہیں ہے۔۔شہلا جیسے تمہاری بہن ہے ویسے میری بھی ہے۔۔۔ اور پھر تم کام اور زینہ کو یونیورسٹی کیسے چھوڑو لاؤ گے۔؟؟مجھے اگر اپنی بہنوں اور ماں کے لیے کچھ کرنے کاموقع مل رہا ہے تو مجھے روکنا مت۔!! عاصم نے دو ٹوک بول کر بات ختم کر دی۔۔
وہ بات تو ٹھیک ہے عاصم بھائی مگر آپ دونوں بھائی کل رات سے اپنے سب ضروری کام چھوڑ کر ہمارے ساتھ خوار ہو رہے ہیں۔
ہم تو پھر کچھ دیر کے لئے اونگھتے رہے ہیں مگر روحیل بھیا نے رات آنکھوں میں کاٹی ہے۔ انہیں دیکھیں کس قدر چہرہ اتر گیا ہے۔۔ زید نے مامتا بھری نظروں سے روحیل کو دیکھا۔۔۔
زید یار میں بالکل ٹھیک ہوں تم اور عاصم ویسے ہی صبح سے مامتا نچھاور کرنے میں لگے ہوئے ہو۔ روحیل نے مسکرا کر بات ٹالی۔۔۔
روحیل کی وجیہہ شخصیت حقیقتاً قابل رحم ہوتی جا رہی تھی۔۔
ہر وقت بےشکن لباس میں ملبوس رہنے والا شخص کل رات سے عام سے حلیے میں تھا۔ سادہ گرم سلیٹی رنگ کے کرتا شلوار کے ساتھ ایک لیدر جیکٹ زیب تن کیا ہوا تھا۔۔
اچھا اب کوئی ضد نہ کرے ۔! میں بس کچھ دیر میں تمام اشیاء لے کر آتا ہوں۔۔! روحیل نے ہاتھ آٹھا کر اشارہ کیا۔۔
زید تم لسٹ لے آؤ اور ساتھ میں بچے کے گمشدہ باپ کو ڈھونڈ کر لانا ہے یار۔۔ روحیل نے ملتجی لہجے میں گزارش کی ۔۔
زید زینہ اور شہلا کی طرف بڑھ گیا۔۔۔
عاصم یار پلیز زینہ کو میرے پاس ساتھ بھجوا دے۔!
کیا ۔؟؟ طبیعت تو ٹھیک ہے نا آپکی۔؟؟ عاصم کو جھٹکا لگا۔۔
یار چھوٹا بھائی نہیں ہے ۔؟؟
چھوٹا تو ہوں مگر لوٹا نہیں ہوں۔! عاصم نے شرافت سے جواب دے دیا۔۔
عاصم تو میرا بھائی ہے بھی ہے یا نہیں۔؟؟؟ روحیل نے دانت پیسے۔۔۔
ڈی این اے کروا لیتے ہیں۔! عاصم نے جلتی پر تیل چھڑکا۔۔۔
میں زید کو بولتا ہوں کہ مجھے خریداری نہیں آتی لہذا زینہ کو ساتھ لے کر آئے۔!
سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے، زینہ میری بہن ہے اور میری غیرت گوارا نہیں کرے گی کہ وہ کسی نامحرم کے ہمراہ خریداری کے لیے جائے۔اور ویسے بھی آپ کی موجودگی اس کے لیے باعث اذیت ہے ، میں یہ خطرہ نہیں مول سکتا ہوں۔۔ میری بہن پہلے ہی حالات کی ستائی ہوئی ہے۔۔۔ ماسی اور اب اپنی بہن کے غم میں گھلی جا رہی ہے۔۔!
عاصم ادھر ہسپتال ہے اور میں تیرا لحاظ رکھے ہوئے ہوں وگرنہ میں تیری گیچی (گردن) مروڑ دیتا۔۔۔اسکا محرم سگا بھائی زید بھی تو ساتھ ہو گا نا۔؟ روحیل نے اپنی بے بسی پر دانت پیسے۔۔۔
“یار بھیا آپ کو اسے ساتھ لے جا کر کونسا فائدہ ملنا ہے .؟ ایسے ہی خواہ مخواہ بچوں والی ضد کرتے ہیں۔ سر سے لے کر پاؤں تک تو وہ ڈھکی ہوتی ہے۔۔ نہ دیکھ سکیں گے اور نہ سن سکیں گے۔! عاصم نے لاچار ہو کر سمجھانا چاہا”۔۔
“اسکی موجودگی میرے لیے باعث رحمت ہے ، وہ میرے آس پاس ہوتو میرے دل کو اطمینان رہتا ہے ، اسکا چند لمحوں کا ساتھ میری روح کو سرشار کر دیتا ہے عاصم”۔! روحیل نے کھوئے ہوئے لہجے میں بولا۔۔
یہ سب شیطان کے بہکاوے ہیں ، نامحرم رشتوں میں کوئی سکون اطمینان نہیں ہے۔!
نہ میں نے ایسی محبت کی ہے اور نہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں، ابھی آیا ہوں تو شرافت سے دعا نکاح کروں گا اور اپنی دلہنیا کو اپنے ساتھ لے اڑوں گا ! اور ویسے بھی نامحرم میں اطمینان ڈھونڈنے سے بہتر ہے کہ بندہ اپنی نیند پوری کر لے جو میں روز کرتا ہوں۔ آپ بھی اس پر عمل کیجئے۔۔۔!
خیر آپ ادھر بیٹھ کر آہیں بھریں۔! میرے میں تو اتنا حوصلہ نہیں ہے ۔! عاصم انتظار گاہ کے ایک کونے سے دوسرے کونے میں زینہ کی طرف جاتے ہوئے روحیل کو باور کروا گیا۔
عاصم تو واپس آ پھر میں تیری شوخیاں نکالتا ہوں۔ شوخا نا ہو تو ۔!! سوچا تھا چھوٹا بھائی ہے تو میرے لیے راستہ ہموار کرے گا مگر یہ تو خود میرے راستے میں دیواریں چننے ہر تلا ہوا ہے۔ چنگیز خان بنا پھرتا ہے۔۔روحیل زچ ہو کر بڑبڑایا۔۔۔
ہاں بھئی زید تم اور بھیا پہلے ذیشان بھائی کو ڈھونڈو پھر جو چیزیں درکار ہیں فوراً خرید کر لے آؤ یار ۔! زینہ نے لسٹ بنا لی ہے ۔؟؟
زینہ کدھر گئی ہے نظر نہیں آ رہی ہے۔؟؟
وہ شہلا آپا اور نرس کے ساتھ اندر گئی ہے ابھی آتی ہی ہو گی۔۔۔
یار نرس نے ماسی کے بارے میں کوئی خیر خبر دی ہے۔؟؟ میں نے اندر جا کر دوبارہ پوچھا ہے مگر بس دعا کا بول رہے ہیں عاصم بھائی ۔! زید کی آنکھیں پانیوں سے بھرنے لگیں۔۔
پریشان نہ ہو یار ۔! اللہ بہترین کارساز ہے۔!
بس عاصم بھائی ایک کے بعد دوسری آزمائش آ رہی ہے۔ زید نے بھرائی آواز میں بولا اور ساتھ ہی آنسوؤں کی لڑیاں چہرے پر لڑھکنے لگیں۔۔
زید تم پیسوں کی وجہ سے پریشان ہو ۔؟؟ یار میں تمہیں بارہا یقین دہائی کروا چکا ہوں کہ تمہیں رتی برابر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ نے اگر ماسی اور شہلا کو اس حالت میں رکھا ہے تو ساتھ اسباب بھی تو نکال دئیے ہیں۔۔ عاصم نے زید کی کمر تھپتھپائی۔۔ جاؤ جلدی سے زینہ کو ڈھونڈ کر لاؤ۔!
نجانے نرس اسے کس طرف لے کر چلی گئی ہے۔ ذیشان نے پھر شور شرابہ کرنا ہے کہ مجھے کیوں بےخبر رکھا گیا ہے ۔۔۔۔؟
زینہ جوکہ نرس کی مطلوبہ اشیاء کو قلمبند کرنے میں غلطاں تھی اچانک ذہن میں جھماکا ہوا یہ سب چیزیں لکھ کر میں اس آوارہ لفنگے کو دوں گی ۔؟ سوچ کر ہی زینہ نے جھرجھری لی۔۔سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے۔۔۔
ایک تو وہ آوارہ جانتا بھی ہے کہ میں ہی یہ سب سپردِ قرطاس کر رہی ہوں۔۔۔ زینہ کا جی چاہا اپنی بےبسی پر دھاڑیں مار کر رو دے۔۔۔
زینہ شہلا کو تسلی دے کر باہر انتظار گاہ کی طرف بڑھ گئی۔۔۔
عاصم کو دیکھتے ساتھ ہی الفاظ کے چناؤ کے بارے میں سوچنے لگی۔۔۔ وہ ویرے میں نے نرس کی ہدایت پر تمام چیزیں قلمبند کر لیں ہیں مگر آپ آسانی سے یہ سب خرید لیں گے کیا؟؟؟
زینہ میں نہیں جا رہا ہوں روحیل بھائی اور زید جا رہے ہیں، تمہیں پتا ہے ذیشان بھائی کو بھی منڈی سے منا کر لانا ، جان جوکھوں کا کام ہے۔۔۔
ویر وہ میں سوچ رہی تھی کہ میں آپ کے ساتھ چلتی ہوں اور زید کو ادھر چھوڑ جاتے ہیں۔
ارے پگلی شہلا آپا کو تمہاری ضرورت پڑی تو پھر زید تو کچھ نہیں کر پائے گا۔! وہ ایسے اکیلی گھبرا جائیں گی۔۔!
چلیں جیسے آپ سب کو مناسب لگتا ہے۔زینہ نے ہتھیار ڈال دیئے اور اپنے ہاتھوں سے قلمبند صفحہ(ورقہ) عاصم کو تھما دیا۔۔۔زینہ نہیں چاہتی تھی کہ اسکا تحریر کردہ ایک حرف بھی اس آوارہ روحیل تک پہنچے ۔۔۔ کڑوا گھونٹ پی کر کونے میں پڑی کرسی پر بیٹھ گئی مگر سامنے سے قریب آتی نرس نے زینہ کا نام پکارا۔
زینہ چوکنا ہو کر نرس کی طرف قدم بڑھانے لگی۔۔۔ آپ کا نام زینہ ہے ؟
جججججججی ۔! زینہ کسی انہونی کے ڈر سے ہکلائی ۔۔
آپ کی والدہ کو ہوش آ گیا ہے۔وہ بار بار اس نام کو پکار رہی ہیں۔۔
وہ شدید نقاہت کا شکار ہیں لہذٰا انکے سامنے کسی قسم کی پریشان کن بات نہ کی جائے، انکو اس وقت ہمت اور حوصلے کی اشد ضرورت ہے۔۔
بت بنی زینہ کے آنسو نقاب کو بھگونے لگے۔۔۔
غم و خوشی کی ملی جلی کیفیات میں بھاگ کر دوسرے کونے میں کھڑے عاصم کی طرف لپکی۔۔
ویرے امی کو ہوش آ گیا ہے ۔۔۔
واقعی ۔؟
ہاں ویرے۔!
زینہ بہت مبارک ہو اللہ نے تمہاری گریہ زاری قبول کر لی ہے ۔ ہاں ویرے ابھی میں امی کو دیکھنے جا رہی ہوں تم ادھر ہی رکو۔! اگر شہلا آپا کی طرف سے نرس آئی تو مجھے مطلع کر دینا۔۔ !
ہاں تم آرام سے جاؤ ۔! اور ہاں ماسی کے سامنے رونا مت۔! میں ادھر ہی بیٹھا ہوں ، تم اطمینان کے ساتھ ماسی کے پاس وقت گزارو!۔ ٹھیک ہے ویرے ۔۔!