زیان یہ جبین کتنی ہنس مکھ بچی ہے ماشاللہ بہت باتیں کرتی اور بہت ہی پیاری باتیں کرتی ہے۔ ماں نے گھر داخل ہوتے ہی جبین کی تعریفیں کرنا شروع کر دی۔زیان بھی ماں کی ہاں میں ہاں ملاتا جا رہا تھا۔ زیان کے ذہن میں اس وقت کچھ ٹک نہیں پا رہا تھا۔وہ بے حد تھکا ہوا تھا وہ سونا چاہتا تھا۔
ماں: چل بیٹا سو جا کل بات کرتے ہیں۔ماں نے بیٹے کے دل کی بات جان لی تھی، وہ جانتی تھیں کہ انکا بیٹا خود سے اپنی تھکن کی شکایت نہیں کرے گا۔
زیان:سوری ماں میں توجہ نہیں دے پا رہا تھا۔ زیان کچھ شرمندہ سا تھا کہ وہ کیوں یہ بات چھپا نہیں پایا ماں سے۔دونوں ماں بیٹا شب بخیر کہ کر اپنے اپنے کمرے کی جانب چل دیئے۔
___________________
زیان امی کو دو نا فون کیا ہے یار بس ضد لگا لیتے ہو مجھ سے تم فون دو نا پلیز! شمائلہ نے بھائی کی منت سماجت کی مگر زیان نے اس کی بات سنی ان سنی کردی۔
فجر کی نماز کے بعد آنے والے اس اچانک “کال” نے ماں کے تو دل کی دھڑکن مزید تیز کردی تھی۔ وہ بھی فون مانگ رہی تھی لیکن زیان جانتا تھا کہ کوئی خطرہ کی بات نہیں ہے۔اور یہ بات اس نے ماں کو بھی یہ بات اشارے سے سمجھانے کی کوشش کی لیکن مائیں کب سمجھتی ہی ایسے اشاروں کو ان کی تو تار دلوں سے منسلک ہوا کرتی ہے۔
زیان نے موبائل فون کا سپیکر کھول دیا اور ماں کے بستر کے قریب “کشن” رکھ کر زمین پہ بیٹھ گیا۔
زیان:جی اب بولو کیا بات ہے؟
شمائلہ: نہیں بتاتی جاؤ تم امی سے بات کرنی ہے۔ شمائلہ ناراض ہو رہی تھی سچ مچ۔
ان دونوں کی باتوں سے جھنجلا کر ماں خود بول پڑیں۔
ماں: کیا بات ہے شمائلہ میں سن رہی ہوں اس نے سپیکر آن کر دیا ہے۔
شمائلہ: زیزو تم ماموں بنے والے ہو سنا تم نے۔ شمائلہ نے یک دم سے بات کہ دی۔
زیان: اوہ میڈم سپیکر آن کر دیا تب بھی بات نہیں بتا رہی مجھے ماموں بناو گی کہ میں باتوں سے بیزار ہو کر امی کو فون دے جاؤں گا؟؟ ہےنا؟؟ یہی سوچا کہ میں مامو بن جاوں گا۔ زیان ایک ہی سانس میں بولتا چلا گیا۔
زیان کے خاموش ہوتے ہی فون میں شمائلہ کا کہکھا بلند ہوا اور اس کے ساتھ ماں بھی ہنسنے لگی۔
زیان ان دونوں کے ہنسنے کی وجہ نہ سمجھ پایا اور ماں کو دیکھنے لگا بلکل ایسے جب چھوٹے بچے کے ہاتھوں میں غبارہ پھٹ جائے تو وہ بہت دیر “شاک” میں رہتا ہے کہ یہ کیا ہوگیا۔بلکل ایسے ہی زیان اس ہنسی کو سن کر شاک میں آگیا۔
شمائلہ: ارے بدھو میں مزاق نہہں کر رہی ہوں۔ شمائلہ نے اپنی ہنسی دباتے ہوئے کہا۔
تب تک ماں بھئ ہنس ہنس کے خاموش ہو چکی تھیں اور آنکھوں میں آنے والے آنسوں کو دوپٹے کے پلو سے صاف کر رہیں تھی۔ ماں کو روتے دیکھ کر زیان جھٹ سے بول اٹھا،
زیان: دیکھا مجھے بدھو کہا تم نے تو امی بھی رو رہی ہیں۔زیان بہن کو جیسے ڈانٹتے ہوئے بولا۔
شمائلہ: امی آپ کیوں رو رہی ہیں میں نے آپکو یہ خبر دی اور آپ ہو کے رو رہی ہو۔شمائلہ کی آواز میں بھی اداسی تھی۔
ماں: نہ پاگل میں نہیں رو رہی میں تو خوش ہوں اور یہ خوشی کے آنسو ہیں یہ تو تمھارا بھائی پاگل سا ہے۔میرا بیٹا نادان سا۔ ماں نے پیار سے زیان کے بالوں میں ہاتھ گھماتے ہوئے کہا۔
زیان: اماں کیا؟ میں پاگل اور شمو بدھو کہ رہی ہے۔حد ہے۔ زیان نے بچوں جیسا منہ بنایا۔
ماں: اوہ میرے بچے میرے بیٹے تمھاری بہن کے پاس خوشخبری ہے وہ ماں بنے والی ہے۔
ماں کی بات سن کر زیان خوشی سے کھل اٹھا۔” وہ والا ماموں” اسے اب اپنی حماقت پہ ہنسی بھی آرہی تھی۔
یہ خوشخبری سنتے ہی ماں کو تو بیٹی کے پاس پہنچنے کی جلدی پر گئی۔ کیسے بھئ ہو چاہے اڑتے ہوئے پہنچ جائیں بیٹی کے پاس۔
زیان نے دفتر جانے سے پہلے ماں کو تیار رہنے کا کہا کہ وہ ٹرین کی ٹکٹس بک کروا لے گا بس وہ تیار رہیں۔ ماں نے زیان کو روک دیا کے بس ایک ٹکٹ کافی ہو گی کیونکہ تمھیں خضر صاحب کے ساتھ کیا ہوا وعدہ بھی تو پورا کرنا ہے۔ انہیں تمھاری ضرورت ہے پتر۔
زیان: امی آپ اکیلی کیسے جائیں گی ٹرین میں؟ زیان کے لہجے سے فکرمندی عیاں تھی۔” میں آپکی جہاز کی سیٹ کروا دیتا ہوں”۔
ماں نے صفائی کرتے ہوئے جھاڑو ایسے لہرایا جیسے ابھی ماریں گی زیان کو۔
ماں: کیوں ماں کی جان لینئ ہے زیان؟ بھول گے کہ ڈاکٹر نے منع کر رکھا مجھے ہوائی سفر کرنے سے۔
زیان یہ بات سچ مچ ہی بھول چکا تھا اسے اپنی حماقت پہ افسوس ہو رہا تھا۔
وہ نہ چاہتے ہوئے بھی ماں کو اکیلے جانے دینے کے لیے رضامند ہو چکا تھا۔ اور اسی لیے وہ آفس بھئ جلدی چلا گیا کہ وہ سیٹ ریزرو کروا کہ جلد از جلد ماں کو بھیج سکے کراچی تا کہ وہ اپنی بیٹی سے مل سکیں۔۔۔
__________________
ماں کو سٹیشن پہ چھوڑ کر زیان ابھی واپسی کے راستے میں ہی تھا کہ انجبین کے والد کی کال آگئی اور انہوں نے زیان کو جلدی سے گھر آنے کو کہا اور آتے ہوئے ساتھ جبین کو بھی لیتے آنے کی تاقید بھی کردی۔
۔
ہائے کتنی جلدی آگئے ہو آپ لینے کے لیے، جبین زیان کو دیکھ کر حیران رہ گئ۔ اور بھاگ کر اندر چلی گئی تیار ہونے کے لیے۔ زیان جبین کی امی سے باتیں کرنے لگا۔
پندرہ منٹ میں جبین تیار ہو کر باہر آگئی، زیان اور جبین گھر سے نکل آئے۔
زیان: آنٹی کیوں نہیں جا رہیں ساتھ؟ زیان نے بیک مرر کو ٹھیک کرتے ہوئے بے دیھانی میں اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے سوال کیا۔
جبین: امی شادیوں میں کم ہی جاتی ہیں۔ اور مجھے بھی نہیں جانے دیتی کہیں۔ یہ تو میری سہیلی کی شادی تو آنے دیا انہوں نے۔
زیان: آپ کے گھر میں اور کوئی نہیں تھا سب کہیں گئے ہوئے ہیں کیا؟؟ زیان آج باتیں کرنے کے موڈ میں تھا۔صبح سویرے ملنے والی اس خوشخبری نے زیان کا موڈ بہت اچھا کر دیا تھا۔وہ اس وقت بہت اچھا محسوس کر رہا تھا۔
جبین نے زیان کی بات کا کوئی جواب نہ دیا اور گاڑی سے باہر دیکھتی رہی۔
زیان: آپ نے جواب نہیں دیا مجھے میری بات کا؟ زیان نے آہستہ سے پکارا جبین کو۔ جبین جیسے سوچوں کی وادی میں کہیں دور نکل گئی تھی۔اس نے زیان کی آواز سنی تو چونک گئی۔
جبین: میرے گھر میں بس میں اور میری امی رہتے اور کوئی نہیں۔میرے فادر ہم لوگوں کو چھوڑ کر چلے گئے اور ان کے ساتھ ہی میرے بھائی بہن بھی۔
باتوں کے دوران وہ لوگ انجبین کے گھر پہنچ چکے تھے۔
گھر کے اندر داخل ہوتے ہی فایہ نے جبین کو مدد کے لیے لان میں بلا لیا۔
جبین: زیان یہ بیگ پلیز اندر لیتے جائے گا،میرے کپڑے اور کچھ جیولری ہے اس میں یہ انجبین کے کمرے میں رکھ دیجیے گاپلیز! بیگ پکڑاتے ہوئے جبین بھاگتی ہوئی لان میں چلی گئی۔
۔
اماں آرہی ہوں میں بس ایک منٹ رک جائیں نا میں آئییییی۔۔۔۔۔۔ چھت سے اترتی ہوئی انجبین کا پاؤں سلپ ہوا اور وہ گر جاتی اگر نیچے سے آتا ہوا زیان اس کی کلائی نہ جکڑ لیتا ایک دن سے۔زیان کی گرفت اس قدر مضبوط تھی کہ انجبین زیان کی بازوں میں جھول کر رہ گئی۔لڑکھڑاتی ہوئی انجبین کا سر زیان کے سینے سے آلگا۔ اس ٹکر کے لگنے سے انجبین کے کانوں میں لگا جھمکا زیان کی شرٹ سے اٹک گیا۔
وہ دونوں چند لمحوں تک ایسے ہی ساکت کھڑے رہے دم سادھے ہوئے، ان چند سیکنڈز میں جیسے صدیاں بیت گئی تھیں۔قربت کا وہ ایک لمحا کب کیا اثر دیکھائے گا یہ کون جان سکتا تھا۔
زیان: اوہ سوری آپکو لگی تو نہیں؟ زیان نے اپنے ہاتھ ایسے ہوا میں بلند کر رکھے تھے جیسے اگر وہ انجبین کو چھو لے گا تو جل کر بھسم ہوجائے گا۔
انجبین: نہیں میں ٹھیک ہوں آپکو لگا تو نہیں جھمکا؟ انجبین نے پیچھے ہٹنے کی کوشش کی لیکن جھمکا اٹکنے سے وہ دور نہ جا سکی اور درد سے کراہنے لگی۔
ابھی یہ دونوں بت بنے ایک دوسرے کو یوں ہی دیکھ رہے تھے کہ جب جبین کچھ ضروری سامان لینے اندر آگئی۔
اوئے ہوئے یہ کیا رومانس چل رہا ہے جناب؟ جبین حسب عادت مزاق کیے بنا نہ رہ سکی اور ان دونوں کے پاس چلی آئی۔
انجبین: جبو یہ کانٹا اٹک گیا ہے یار! وہ کل کی تمام تلخی کو بھلا چکی تھی اور ایسے ہی جبین بھی وہ تمام تلخ کلامی بھلا چکی تھی۔
جبین: اٹگ گیا یا اٹکا لیا ہے؟ ہو ہی چڑیل کسی سے بھی چمٹ جاتی ہو۔ جبین نے آنکھ ماری اور اٹکا ہوا جھمکا نکالنے کی کوشش کرنے لگی۔
اس سب عمل کے دوران زیان بت بنا کھڑا تھا چپ چاپ۔سانس بھی اس آہستگی سے لے رہا تھا کہ جیسے زور کی سانس لینے سے بھی انجبین کو درد ہو گی۔۔۔
جبین: لو جی نکل آیا جھمکا۔ اور آپ جناب یہ بیگ کمرے میں رکھ کے باہر چل کے فاریہ کی مدد کریں۔ جبین انجبین کا ہاتھ تھامے ہوئے پاس سے گزر گئی۔زیان ان دونوں کو جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔
__________________
بھائی آپکی ڈریس تیار ہو گئی ہے جا کے جلدی سے تیار ہو جائیں جلدی سے۔ فاریہ گھر بھر میں یہ پیغام سب بھائیوں کو دیتی ہوئی چلتی جا رہی تھی، اس بات کی پرواہ کیے بغیر کہ کوئی سن بھی رہا ہے یا نہیں۔
شادیوں میں کوئی نہ کوئی فرد ایسا ہوتا ہے جو بس ناراض ہی رہتا ہے آخری دم تک۔اور بعض اوقات بد مغضی کا باعث بھی بنتا ہے۔ اس شادی میں یہ کام انجبین کی پھوپو یعنی عینی بھابی کی امی نے سنبھال رکھا تھا۔ باقی کے مہمانوں نے بارات میں شرکت کرنا تھی۔پںھوپھی کو اس بات کا غصہ تھا کہ ان کے میٹرک فیل بیٹے اور دو بار دنگا فساد کر کے جیل کی ہوا کھانے والے بیٹے امتیاز کو انجبین کا رشتہ کیوں نہیں دیا گیا ۔
فاریہ یہ اعلان کرتی چلی جا رہی تھی کہ اچانک چیخ مار کر واپس بھاگ آئی۔
فاریہ: اممی پھوپی آئی ہیں اور ساتھ امتیاز بھائی بھی۔۔۔۔ فایہ کی سانس دھونکنی کی مانند چل رہی تھی اور رنگ اڑا ہوا تھا۔ وہ ایسے سہمی ہوئی تھی جیسے کوئی بہت بڑی بلا دیکھ کر آرہی ہے۔
ماں: شش آہستہ بولو اور جا کے اپنے ابا کو بتاؤ، جبین بیٹا یہ زیورات الماری میں دیھان سے رکھ دینا۔ اور زیان بیٹا آپ اسکی چابی پاس رکھ لیجے گا۔
ماں حدایات دیتی ہوئی پھوپی اور انکے ہونہار بیٹے کے استقبال کے لیے چلی گئیں۔
زیان نے پہلے آنٹی کو جاتے دیکھا پھر جبین کو۔جبین کے چہرے پر بھی ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔اور وہ جیسے کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن جھجک رہی تھی۔
زیان: کیا ہوا آپکو طبعیت تو ٹھیک ہے آپکی؟ زیان نے اپنا سر آگئے کی جانب کیا تا کہ چہرے کے تاثرات دیکھ سکے۔
جبین: ایسے کیوں دیکھ رہے ہیں میں ٹھیک ہوں۔ جلدی سے الماری بند کرنے ہی لگی تھی جبین کہ زیان نے اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر سلماری بند ہونے سے پہلے ہی روک لی۔
جبین: یی یہ ککک کیا حرکت ہے؟ جبین گھبرا گئی اور ہکلانے لگی۔
زیان نے جبین کو جب ایسے ڈرے سہمے ہوئے دیکھا تو ہنس دیا۔اور جبین کی بات کا جواب دیے بنا ہاتھ آگے کر کے الماری کے اندر رکھی ہوئی چابی اٹھا لی۔
زیان: یہ چیز آپ بھول رہی تھی اس لیے بدتمزی کی سوری۔ زیان کی نیچر کے خلاف تھا کہ وہ کسی بات کو کریدے، اسکا یہ مننا تھا کہ لوگ جس کے سامنے چاہیں اپنا دل کھول دیں۔کسی سے کبھی زبردستی ان کی پریشانی کے بارے میں نہیں پوچھنا چاہئیے۔
زیان چابی لے کر باہر نکلنے ہی والا تھا کہ جبین کی آواز سنائی دی۔
جبین: سنیں وہ، مجھے کچھ کہنا تھا۔ جبین کی آواز ایسی تھی جیسے ابھی پھوٹ پھوٹ کر بچوں کی طرح رونے لگے گی۔اور ایسے ہی آثار چہرے سے بھی لگ رہے تھے۔
“وہ باہر جو پھوپی کا بیٹا آیا ہے جبو کی پلیز اس کے سامنے کیا آپ ایسے ایکٹ کر سکتے ہیں جیسے آپ میرے منگیتر ہو۔۔۔۔۔”۔
جبین نے ایک ہی سانس میں پوری بات کہ ڈالی،اور اس دوران آنکھوں کو ایسے زور سے میچ لیا جیسے کبوتر بلی کو اپنی طردمف بڑھتے ہوئے دیکھ کر آنکھیں بند کر لیتا۔
جبین کی بات سن کر زیان جیسے شاک میں آگیا۔ کچھ لمحے کمرے میں خاموشی چھائی رہی۔
جبین: اس کے لیے آپکو بھی ایک کام کرنا ہوگا میرا۔ بولیں منظور ہے؟
جبین نے جھٹ سے آنکھیں کھول دی۔ “جو کھو گے کروں گی بس ان سے بچا لیں” جبین سچ مچ میں سہمی ہوئی تھی۔
زیان: آپکو وہاب کی بہن کے ہوتے ہوئے بھی یہ سب کرنا ہوگا۔جو مجھے کرنے کے لیے آپ کہ رہی ہو۔ زیان کی بات سن کر جبین کی جان میں جان آئی اور وہ اس کام کے لیے تیار ہو گئی۔۔
۔
امتیاز: اوہ بڑے بڑے لوگ آئے جی ویاہ پہ اوئے ہوئے۔ امتیاز دانتوں میں ٹوتھ پک سے خلال کرتے ہوئے، جبین کو دیکھ کر بولا اور جبین کی جانب بڑھنے لگا۔جو اس وقت انجبین کا “کھسہ” اٹھانے نیچے آئی ہوئی تھی۔امتیاز کو اپنی طرف بڑھتے ہوئے دیکھ کر جبین کی تو سانس ہی اٹک گئی تھی۔ فاصلہ جوں جوں کم ہوتا جا را تھا جبین کے دل کی دھڑکن اسی رفتار سے مدھم ہوتی جا رہی تھی۔
چند قدموں کا فاصلہ ہی باقی تھا کہ زیان کی آواز سنائی دی۔
زیان: ارے تم یہاں ہو جبو! میں پورے گھر میں تجھے ڈھونڈ رہا۔ زیان بجلی کی سی تیزی سے پاس آیا اور جبی کا ہاتھ پکڑ کر چل دیا۔زیان نے یہ سب اتنی جلدی میں کیا کہ امتیاز تو امتیاز خود جبین کو سمجھ نہ آئی کہ یہ سب ہوا کیا۔
یہ دونوں امتیاز کی پہنچ سے دور ہی پہنچے تھے کہ انجبین کی چیختی ہوئی آواز نے ان دونوں کے قدموں کو بریک لگا دی۔
“جبین میڈم بعد میں یوں ہاتھ میں ڈالے چہل قدمی کرنا میرا کھسہ لے کر آو”۔
جبین: آتی ہوں میں تم صبر کر لیا کرو کچھ دیر۔اور اپنی آنکھیں دیکھو ہلکے ڈال لیے رات رات بھر جاگ کر۔ انجبین جبین کا جواب سن کر اسے گھورنے لگی۔ زیان کے ہاتھ کی گرفت جبین کی کلائی پر ڈھیلی پرنے لگی۔اانجبین کا سامنا زیان نہیں کرنا چاہتا تھا وہ نظریں جھکائے چپ چاپ باہر چلا گیا۔ زیان نے قدم باہر رکھا ہی تھا کہ کاشف نے آکر اطلاع دی کہ لڑکے والے آچکے ہیں مہندی لے کر۔مہندی کے بعد مہمانوں کے رکنے کا تمام انتظام زیان کے گھر پر ہی تھا۔
_________________
ڈھولک کی تھاپ پر گائے جانے والے گیتوں پہ ناچتی ہوئی جبین کو امتیاز کی نظریں مکمل طور پہ ایکس رئیز کرنے میں مصروف تھیں۔ وہ اس بات سے بے خبر اپنی سہیلی کے لیے خوشی سے جھوم رہی تھی۔
پلوشہ: میرے ساتھ ڈانس کریں گے زیزو؟ پلوشہ ساڑھی زیب تن کئے ہوئے زیان کے اس قدر قریب کھڑی تھی کہ اگر وہ اپنے جسم کو ہلکی سی جنبش بھی دیتا تو پلوشہ کے بدن کا کوئی نہ کوئی حصہ اس سے ضرور “مس” ہو جاتا۔
زیان: نہیں مجھے ناچنا نہیں آتا یہ آپ جانتی ہیں، پلیز تھوڑا فاصلہ رکھو۔ سب دیکھ رہے ہیں!
پلوشہ: دیکھنے دیں تمام عمر بھی تو ہمیں لوگوں نے یوں ہی دیکھنا ہے ہمیں۔ پلوشہ کا انداز بے حد بے باک تھا وہ کسہ بات کی پرواہ کئے بغیر یہ سب کچھ کئے جا رہی تھی۔
زیان کوئی اچھا سا جواب تلاش کر ہی رہا تھا کہ عین موقع پر ان دونوں کے جسموں کو ٹچ ہونے سے بچانے کے لیے جبین درمیان میں گھس آئی۔
زیان آئیں نا ڈانس کرتے ہیں، بس اتنئ سی بات کر کے جبین نے زیان کا ہاتھ ایسے ہی تھام لیا تھا جیسے صبح اس نے امتیاز کے سامنے جبین کی کلائی کو اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔
زیان کا جواب سنے بنا ہی جبین اسے لے کر سٹیج کے سامنے لے گئی۔
وہاب اور ذنجبین سٹیج پہ بیٹھے ہوئے آپس میں باتیں کر رہے تھے۔
“دیور دل دا چور”
گانے میں بول آتے ہی غیر ارادی طور پر زیان کی نظریں انجبین کی نظروں سے مل گئیں۔ زیان اپنا سٹیپ بھول کر بس جھومتا ہی رہ گیا۔
اس بات کی طرف کسی نے بھی دیھان نہ دیا کہ زیان سٹیپس بھول چکا ہے مگر جبین کی نگاہیں زیان کا تعاقب کرتی رہیں۔اور وہ یہ منظر دیکھ کر مسکرا دی۔
____________________
زندگی میں ایک لمحے کا بھی کبھی اتنا افسوس کرنا ہوگا یہ کبھی زیان نے سوچا نہیں تھا۔
°وہ ایک لمحہ جب زیان کو رکشہ میں بیٹھی ہوئی انجبین کی آنکھیں دیکھائی دی تھی۔
°وہ لمحہ جب دروازہ کھولنے ک بعد زیان کو دیکھتے ہی انجبین کا چہرہ غصے سے لال ہو گیا تھا۔
°وہ لمحہ کہ جب زیان اور انجبین اسپتال میں تنہا تھے، جب ہر طرح سے وہ اس کے قابو میں تھی۔ لیکن تب وہ ایک بار جو اس نے چہرے پر آنے والے بالوں کو ہٹانے کی گستاخی کی تھی۔ایسا کرنے کے دوران جب زیان کا سخت ہاتھ انجبین کے نرم و نازک گالوں سے جا لگا تھا۔ وہ رات بھر اس کے سرھانے چپ چاپ بیٹھا رہا تھا۔
کاشف بیچارہ تو غم سے نڈھال تھا بھائی کی موت کا سن کر۔تب تو زیان ہی تھا وہاں۔
°تب جب وہ رو رہی تھی شددت غم سے جب اس نے زیان کی آنکھوں میں جھانکا تھا اسے ایسا لگا تھا کہ اس نظر نے دل تک کا سفر تہہ کر لیا ہوگا۔تب ہی تو زیان نے منہ موڑ لیا تھا۔
°راشد بھائی کے چہلم کی دعا میں وہ سفید جوڑا پہنے جب زیان کے سامنے آئی تھی،ایک پری لگ رہی تھی۔
°کالج میں جب راستہ روک کر وہ کھڑی ہو گئی تھی تب؟
کاش کہ اس ایک ایک لمحہ میں اسے یہ بتا سکتا کہ وہ کتنی پیاری ہے۔ اس کے لبوں سے پھوٹنے والی ہنسی کھلتے گلاب سے بھی پیاری لگتی ہے۔
اس کی آنکھوں کی چمک طلوع آفتاب سے بھی دلکش ہے۔
لیکن زیان یہ سب اس سے نہ کہ سکا تھا۔بس ایک لمحہ کی دیر سے۔ قدرت کی جانب سے ہر لمحہ پاس آنے ہم قدم ہو کر بھی اسے اپنا ہم دم نہیں بنا سکا تھا زیان۔
۔
زیان جلدی تیار ہو پھر مدد بھی کرنی ہے تم نے وہاب کی اسے دلہا بننا ہے۔اور یہ واجد کدھر ہیں تمھیں کچھ بتا کر گئے ہیں کیا؟ ٹیرس میں کھڑے زیان تک بہن کی آواز پہنچی تو اس کے خیالات کا تسلسل ٹوٹ گیا۔
۔
آیا آپی! زیان نے بہن کی باتوں جواب میں فقط اتنا ہی کہا اور بوجھل قدموں اور بھاری دل کے ساتھ اپنے کمرے کی جانب بڑھنے لگا۔جہاں دولہا کوئی اور بن رہا تھا۔
“شکر ہے امی گھر نہیں ہیں،اگر ہوتیں تو کتنی اداس ہو جاتیں وہ”۔ زیان اسی سوچ میں ڈوبا ہوا کمرے میں داخل ہوا۔ جہاں وہاب شیروانی اٹھائے کھڑا تھا اس کے پاس ہی سلسبیل کھڑی اپنے چاچا کو دولہا بنتے دیکھ رہی تھی۔زیان کو اندر داخل ہوتے دیکھ کر سلسبیل بھاگتی ہوئی آئی اور زیان کا ہاتھ تھام کر بہت پیار سے بولی،
سلسبیل: ماموں آپ بھی دولہا بنو دے؟
زیان: نہیں بیٹا آپ کے چاچو بنیں گے نا۔ زیان نے مسکرا کر سلسبیل کو دیکھا اور اسے اٹھا کر اس کے گالوں کا بوسہ لیا۔
سلسبیل: تو مونشتر آنٹی آپ کو نہین ملے دی؟ سلسبیل کی بات سن کر وہاب نے زیان کی طرف دیکھا۔زیان نے اپنی آنکھیں جھکا لی اور سلسبیل کو پیار سے ڈانٹنے لگا کہ “بہت باتیں کرتی ہو، چلو ماما کے پاس بھاگو”۔سلسبیل منہ بسورتی اور “نندے مانوں” کہتی ہوئی باہر چلی گئی۔
زیان جانتا تھا کہ وہاب اسکو ہی دیکھ رہا ہے اور ایسی نظروں سے کہ جو زیان کے اندر تک اترتی جارہی تھیں۔
زیان: “کپڑے تبدیل کر لو باقی کی سیٹنگ میں دیکھ لیتا آکر”۔ اس سے پہلے کہ وہاب کچھ کہتا زیان تیزی سے باہر نکل گیا۔
زیان کی آنکھوں میں آنسو تھے، اس نے ماں کو کال کرنے کے لیے نمبر ملایا پھر کاٹ دی کال۔
“امی کہاں ہو آپ کہیں سے آجاؤ پلیز! آپکا. بیٹا بلکل بھی بہادر نہیں ہے امی” زیان اپنی آنکھوں سے آنسوں صاف کرتے کرتے بولتا جا رہا تھا جیسے خود سے سرگوشی کر رہا ہو۔
اپنی آنکھوں سے آنسوں صاف کرتے ہوئے زیان نے ایک بار نگاہ بلند کی، آسمان کو دیکھا اور مسکرا دیا۔
وہاب کی تیاری سے لے کر، روانگی بارات تک زیان کے چہرے کے تاثرات میں رتی بھر تبدیلی نہ آئی۔وہ ایک مصنوعی سی مسکراہٹ سجائے ہوئے ہر کام میں سب سے آگے تھا۔
_________________
خوشیوں کی بارش میں بھیگی ہوئی انجبین کی آنکھیں بھیگی ہوئی تھی۔ دلہن کے جوڑے میں ملبوس انجبین ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھی اپنے آپ کو دیکھ رہی تھی، بارات کے آنے میں کچھ ہی دیر باقی تھی۔
وہ کس قدر سخت لہجے والی تھی۔ سب سے لڑائی ہر کسی سے غصہ کرنا!۔ انجبین اپنے ہاتھوں میں لگی مہندی کو دیکھ رہی تھی،اور نہ جانے اسکی سوچوں کی ڈور کہاں کہاں الجھی ہوئی تھی۔
ماں: کیا سوچ رہی بیٹی؟ اور یہ آنکھوں میں آنسوں کیسے؟۔ ماں نے پیار سے اپنی بیٹی کا ماتھا چوم لیا۔
انجبین کو ماں کے اندر آنے کی خبر تک نہ ہوئی تھی، وہ تو بس اپنے ہی خیالوں میں گم سم بیٹھی تھی۔
بچپن سے لے کر جوانی کی دہلیز پہ قدم رکھنے تک۔اس گھر اس گھر کے در و دیوار اور یہاں رہنے والے لوگوں نے کیسے کیسے ناز نخرے اٹھائے تھے۔
انجبین: اماں مجھے چھپا لو نا۔ ماں ایسے نہ بھجو نا دور گھر سے۔میں اب غصہ چھوڑ دوں گی پلیز روک لو اماں۔ ماں کی آغوش میں چھپی ہوئی انجبین کی آنکھوں سے آنسوں کی برسات ہو رہی تھی۔
ماں: ہٹ پاگل روک کیوں لوں؟ میری بچی کو اللہ بہت سکھی رکھے۔ اب کیوں روکوں ماں کی جان انجبین میرا بچہ روتے نہیں نا بیٹی۔
انجبین کی امی نے اپنے اشکوں کو بہت مشکل سے روک رکھا تھا۔
اسی سب کے دوران کاشف کمرے میں داخل ہوا، “امی ابا بلا رہے ہیں”۔
ماں: بیٹا یہاں رکو بہن کے پاس میں دیکھتی ہوں باہر جا کر۔ بارات تو نہیں آگئی کاشف؟
کاشف: نہیں اماں ابھی نہیں۔ کاشف ماں کے جانے کے بعد بہن کے قریب آکر بیٹھ گیا۔ “رو رہی ہو آپ؟”۔
انجبین نے بنا بولے سر اثبات میں ہلا دیا۔
کاشف تسلی کے بول بولنے کے لیے تلاش کر ہی رہا تھا کہ قرۃالعین کمرے میں داخل ہوئی، کاشف کو دیکھتے ہی جلدی سے بولی۔
عینی: کاشی میرا بھائی جا بھاگ کر بھائی کو موبائل دے آو۔برات بھی آنے والی ہے شباش دیر مت کرنا۔
کاشف موبائل لے کر چلا گیا تو عینی انجبین کی جانب متوجہ ہوئی۔
عینی: رو نہیں نا میک اپ خراب ہو رہا ہے۔ عینی نے کوشش کی کہ وہ انجبین کا موڈ بہتر کر سکے۔
عینی کی بات سن کر انجبین مسکرا دی۔
انجبین: تجھے میرے میک اپ کی فکر میری پرواہ نہیں کہ ظالموں کہاں بھیج رہے ہو اتنے دور۔انجبین رو دینے کو تھی۔
عینی: آہ جی بلکل ٹھیک کہ رہی ہو،مجھے بھی تو لائے تھے نا۔ عینی نے ہنستےہوئے جواب دیا۔
انجبین: سب لڑکیوں کو ایسی ہی گھبراہٹ ہوتی ہے کیا؟ میں کیسے رہوں گی اماں بابا کے بغیر؟
انجبین کو اس گھر میں گزرنے والے وقت کی یادیں ستانے لگی تھی وہ تمام خوشیاں جو اس گھر میں گزری تھیں،وہ تمام ہنسی کے لمحات وہ غم کی گھڑیاں جو بیتی تھیں۔
سب ایک ایک کر کے یاد آنے لگی تھیں۔
________________________
نکاح کے لیے مولوی صاحب کو لے آو بیٹا مسجد میں ہی ہوں گے میں نے بتا دیا تھا کہ ہمارے گھر آنا ہے انہوں نے۔ خضر انکل نے زیان کے کندھے کو تھپکی دی، جو چپ چاپ ایک طرف کو کھڑا تھا۔
خضر صاحب کے بلانے پر زیان نے پلٹ کر دیکھا اور اپنی اداسی کو چھپانے کے لیے زبردستی مسکرانے لگا۔
“جی میں لاتا ہوں انکو” زیان نے ہاتھ خضر صاحب کے ہاتھ پر رکھا اور نرمی سے تھپکی دی۔
باپ کتنی جلدی بوڑھا ہو جاتا یے، اسی بات کو سوچتے سوچتے وہ مسج میں آگیا۔مولوی صاحب نے دیکھتے ہی پہچان لیا کہ یہ لڑکا انکی ہی تلاش میں یہاں آیا ہے۔انہوں نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے سمجھایا کہ وہ بس آنے ہی لگےتھے۔ مولوی صاحب کے ساتھ زیان لوٹ کر آیا تو تب تک انجبین اور وہاب کو سٹیج پر بیٹھا دیا گیا تھا ان دونوں کے درمیان ایک پردہ حائل تھا۔جس کے باعث وہ ایک دوسرے کو دیکھ نہیں سکتے تھے۔
زیان اور جبین اس چادر کو تھامے کھڑے تھے۔ زیان کا رخ انجبین کی طرف تھا۔
نکاح کی اجازت کے لیے دونوں بھائی آئے جن کو دیکھ کر انجبین کی آنکھوں تیرنے لگے۔
اجازت تک سب کچھ ٹھیک تھا۔تب تک تعمو زیان بھی سر جھکائے کھڑا تھا۔جوں ہی بات سائن کرنے کی ہوئی زیان نے تڑپ کر انجبین کی جانب دیکھا۔
اور دیکھتا ہی رہ گیا۔اس کی آنکھوں کی چمک اس کے دل کے جزبات کی ترجمانی کر رہی تھی۔ تب نہ جانے کیوں اس لمحے، اس ایک لمحے کو انجبین نے نظر اٹھائی تھی۔۔ وہ لمحا قیامت خیز لمحا ہو سکتا تھا اگر یہ اب سے پہلے کبھی ہوا ہوتا۔
یہ نگاہ، یہ نظر۔ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ کیوں آخر یہ شخص مجھے ایسے دیکھ رہا ہے کیا یہ وہ نگاہ ہے جس کی مجھے وہاب سے امید تھی۔ نہیں یہ نہیں ہو سکتا۔ انجبین نے آنکھیں بند کر لیں اور سائن کرنے لگی اس کے ہاتھوں کی لرزش صاف دیکھائی دے رہی تھی۔
سائن ہوتے ہی زیان نے اپنی نگاہیں انجبین کے چہرے سے ہٹا لیں تھی۔وہ اب کسی کی ہو چکی تھی،کسی اور کا نام اسکے نام کے ساتھ لگ گیا تھا۔
۔
رخصتی کے وقت سب کی آنکھوں میں آنسو تھے۔جبین عابد اور کاشف سٹیج سے اتاڑنے کے لیے آئے تو انجبین نے سوال کیا!
انجبین: بھائی راشد بھائی کو بھی لائیں نا۔ وہ کدھر ہیں بھائی؟ انکو بھی لاؤ ورنہ میں نہیں جاؤں گی۔مجھے مت بھیجو یہاں سے بھائی۔
کاشف روک لو نا تم اپنی آپی کو۔۔۔۔۔ جبین تم تو روک لو یار! مجھے یاد کرو گی نا مس کرو گی نا۔
وہ انجبین جو کل تک کسی کو خاطر میں نہیں لاتی تھی آج بچوں کی طرح رو رہی تھی۔ بابا کے سینے سے لگ کر وہ بہت روئی۔اس نے ماں کا دامن بھی تھام لیا۔ وہ اس قدر شددت سے رو رہی تھی کہ سب کو ہی یہ فکر لاحق ہو گئی کہ کہیں انجبین کو کچھ ہو نہ جائے۔
وہاب نے آگے بڑھ کر انجبین کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور سب کے سامنے اس نے وعدہ کیا!
کہ
“انجبین کو بہت خوش رکھے گا، اسے مائیکے کی یاد بھی نہیں آئے گی۔۔
جبین نسے زرا زرا سی بات پر رونا آجاتا تھا وہ آج سب کا حوصلہ بڑھا رہی تھی۔اس میں یہ طاقت نہ جانے کہاں سے آگئی تھی کہ وہ یہ سب دیکھ کر بھی رو نہیں رہی تھی۔
سب جاتی ہوئی گاڑیوں کو ہاتھ ہلا ہلا کر الوداع کر رہے تھے۔ایک زیان تھا جو فون کو کانوں سے لگائے ایک جانب پریشان کھڑا تھا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...