“آپ کروائیں گی میرے بیٹے سے اپنی شادی ،کیا وہ میرا ماضی جانتا ہے کیا میں جانتی ہوں وہ میری اصلیت نہیں جانتا هو گا جب جان جاۓ گا نا تو وہ مجھے ہر گز قبول نہیں کرے گا ،ارے میں تو وہ عورت ہوں جس کو کئی مردوں نے چھوا ہے میرے اپنے گھر والوں نے مجھے ٹھکرا دیا تو پھر آپ نے کیسے سوچ لیا کے آپ کا بیٹا مجھ نا پاک عورت کو قبول کرے گا ؟؟”
پری پر ایک عجیب سی کیفیت طاری هو گئی تھی ،وہ اندر سے ٹوٹ چکی تھی بالکل ایک آئینے کئی طرح کے جس کو ایک مرتبہ توڑ دیا جاۓ تو کبھی بھی وہ اپنی اصلی حالت میں واپس نہیں آسکتا ،پری کئی باتوں کا ایک ایک لفظ شائستہ بیگم کے دل پر پتھر بن کر برس رہا تھا صرف چار ہی دنوں میں شائستہ بیگم کو پری سے اتنا انس هو گیا تھا کے وہ پری کو اپنی بیٹی سمجھنے لگی تھی
“میں شائستہ تم سے وعدہ کرتی ہوں کہ میں اپنے بیٹے کئی شادی تم سے کرواؤں گی اور تم کو اپنی بیٹی بناؤں گی “شائستہ بیگم بہت پر جوش دکھائی دے رہیں تھی وہ اپنی بیٹی عالیہ کو تو کھو چکی تھیں اب پری کو نہیں کھونا چاہتی تھیں
“ایک وعدہ آپ نے مجھ سے کیا اب ایک وعدہ میں آپ سے کروں گی چاہے آپ کا بیٹا مجھ سے شادی کرے یا نا کرے میں اپنی اور اپنے اس بچے کئی حفاظت کروں گی صرف اور صرف آپ کی خاطر کیوں کہ میں جانتی ہوں کے آپ کو مجھ میں اپنی بیٹی دکھائی دیتی ہے ” شائستہ بیگم کے پیار کو دیکھ کر ایک مرتبہ پھر پری میں جینے کی خواہش پیدا هو گئی تھی اسے خوشی تھی کہ کوئی اس کو بھی چاہتا ہے اور وہ لاوارث نہیں ہے
“آجا میری بچی میرے گلے لگ کر خوب رو لے اتنا کے تیرے سارے غم ختم هو جاۓ “شائستہ بیگم نے پری کو اپنے گلے لگا لیا دونوں خوب روئیں مانا کے دونوں کے غم الگ تھے پر زخم تو سانجھے تھے
“میں نماز پڑھنا چاہتی ہوں اپنے اللّه کے ساتھ تنہائی میں کچھ باتیں کرنا چاہتی ہوں ،اگر آپ برا نا مانیں “پری شائستہ بیگم کی طرف دیکھتے ہوئے بولی ،شائستہ بیگم کو پری پری کی خالی خالی آنکھوں میں ایمان کی ابھرتی ہوئی روشنی دکھائی دی
“جی ضرور میرے بچے “شائستہ بیگم نے پری کا ماتھا چوما اور کمرے سے باہر چلی گئیں ،پری غسل خانے کی طرف بڑھی ،آئینے کے سامنے کھڑی هو کر اس نے ابھی نل کھولا ہی تھا کہ اس کی نظر اپنے چہرے پر پڑی ،اس کی آنکھوں کے نیچے ہلکے پڑے ہوئے تھے ،شکل سے وہ صدیوں کی بیمار لگ رہی تھی
“میں کیا تھی اور کیا هو گئی “اس نے اپنے چہرے کو چھوتے ہوئے سرگوشی کی ،اس کی آنکھوں سے ایک بار پھر آنسو ٹپک پڑے
شائستہ نے ابھی تک سعد سے پری سے نکاح کی بات نہیں کی کیوں کے وہ چاہتی تھی کہ پری بھی اپنی عدت گزار لے اور سعد بھی اپنے غم سے باہر نکل آۓ اسی طرح تین ماہ کا عرصہ بیت گیا
(تین ماہ بعد )
اس تین ماہ کے عرصے میں پری کے رویے میں کافی تبدیلی رنما ہونے لگی اب وہ شائستہ بیگم کے ساتھ باتیں کرتی تھوڑا بہت مسکرا بھی دیتی کبھی کبھار کھانا بھی بنا لیتی ،دوسری طرف سعد لاکھ کوششوں کے باوجود پری کو بھول نا سکا وہ غم کے سمندر سے باہر نا آپایا وہ کسی طور پر بھی یہ بات تسلیم کرنے کو راضی نا تھا کے اس کی پریشے اب اس دنیا میں نہیں رہی
ایک روز رات کو پری پانی پینے کے لئے باورچی خانے میں گئی ،پانی پی کر جب وہ واپس مڑی تو شائستہ کو وہاں کھڑے دیکھ کر اس کی چیخ نکل گئی،اندھیرا ہونے کی وجہ سے وہ سمجھی کے اس کے پاس کوئی انجان آدمی کھڑا تھا ،وہ ڈر کے مارے پیچھے کی جانب بھاگی کے اچانک اس کا پیر مڑ گیا اور وہ دھڑام سے فرش پر گر گئی ،پری کو فورا ہسپتال منتقل کر دیا گیا ،پری تو بچ گئی تھی پر اس کا بچہ ضائع هو گیا تھا
“جانتی ہیں آپ ایک روز میں نے اللّه تعالی سے کہا کے اے میرے اللّه یہ بچہ تیری ہی رضا سے میری کوکھ میں پل رہا ھے بے شک اس کی زندگی تیری امانت ھے اور میں تیری امانت میں ہر گز خیانت نہیں کروں گی پر مجھے ڈر لگتا ھے کے میرے بچے کو اس دنیا میں آنے کے بعد لوگ قبول نہیں کریں گے وہ isاس کو برا بھلا کہیں گے ،ناجائز کہیں گے ،باقی میرے رب تیری مرضی ھے کے اگر یہ بچہ اس دنیا میں آۓ تو میں اس کو تیری نعمت تصور کروں گی اور اگر یہ بچہ اس دنیا میں نہیں آتا تب بھی میں تیری ہی رضا میں راضی رہوں گی بیشک تو ہی میری راہنمائی کرنے والا ھے “پری شائستہ بیگم سے مخاطب تھی ،پری کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ اپنے بچے کے جانے پر ماتم کرے یا خوشیاں مناۓ پر آخر کار وہ ماں تو تھی خوشیاں کیسے منا سکتی تھی
“حمیرا بیٹی جان لو ایک بات تمہارے بچے کا اس دنیا میں نا آنا ہی اللّه کو منظور تھا بیشک وہ تمہارے حال سے باخبر تھا “شائستہ بیگم آنکھوں میں آنسو لئے پری کی جانب بڑھی وہ پری کا دکھ بانٹنا چاہ رہی تھیں اس کو حوصلہ دینا چاہ رہی تھیں
اس افسوس ناک واقعے کو بیتے دس روز گزر چکے تھے ،شائستہ بیگم نے اب سعد سے پری کے نکاح کی بات کرنا مناسب سمجھا ،وہ اب پری اور سعد کو ایک ہوتے دیکھنا چاہتی تھی تاکہ دونوں ایک دوسرے کا غم بانٹ سکیں
“بیٹے سعد آپ سے بات کرنا چاہتی ہوں میں “شائستہ بیگم سعد کے کمرے کی جانب بڑہیں
“جی ماں میں سن رہا ہوں آپ بولیں “سعد نے جواب دیا
“بیٹے اب آپ اپنی زندگی میں آگے بڑھو پریشے اب ہمارے بیچ نہیں رہی اور تم بھی اس بات کو تسلیم کرلو ،میں چاہتی ہوں کے تم حمیرا سے شادی کر لو ” اتفاق سے پری دروازے کے پیچھے کھڑی دونوں کی باتیں سن رہی تھی
“ماں میری پری نہیں مری وہ زندہ ھے اس کی بہن علیزہ جھوٹ بولتی ھے میں شادی کروں گا تو صرف پریشے سے “سعد غصے سے تلملا اٹھا ،دوسری جانب اپنا اصلی نام سنتے ہی پری چونک گئی یہ سوچ کر پری خود کو دلاسہ دے سکتی تھی کے ہوسکتا ھے کے کوئی اور پری هو پر علیزہ کا نام سننے کے بعد پری کو یقین هو گیا کے جس کے غم میں سعد تین ماہ سے گھلتتا جا رہا ھے وہ کوئی اور نہیں بلکہ خود پری ھے ،یہ سنتے ہی پری اپنے کمرے کی جانب بھاگی
“اگر تم حمیرا سے شادی نہیں کرو گے تو میں تم کو کبھی معاف نہیں کروں گی “شائستہ بیگم بھی اپنی بات پر ڈٹی رہیں آخر ان کو اپنا وعدہ بھی تو نبھانا تھا
“ٹھیک ھے ماں میں راضی ہوں “مرتا کیا نا کرتا سعد کو اپنا سر تسلیم خم کرنا پڑا کیوں کہ وہ اپنی ماں کی ناراضگی مول نہیں لے سکتا تھا پری کے بعد اس کی ماں ہی اس کا سب کچھ تھی
“مجھے چلے جانا چاہیے یہاں سے آنٹی کو جب پتہ چلے گا کے میں نے ان سجھوٹ بول کر اپنا نام چھپایا ھے تو ان پر کیا گزرے گی انہوں نے میرا اتنا خیال رکھا بدلے میں میں نے ان کے ساتھ کیا کیا جھوٹ بولا ” پری کی آنکھوں سے مارے ندامت کے آنسو بہہ رہے تھے ،وہ شائستہ کی محبت کے بدلے ان کو دکھ نہیں دینا چاہتی تھی ،پری نے فورا برقع زیب تن کیا اور گھر سے باہر کی جانب بھاگی
“حمیرا باجی رات کے دس بجے کہاں جا رہی ہیں آپ؟” گھر کے چوکیدار نے پوچھا
“میں کسی ضروری کام سے جا رہی ہوں فکر نا کرو سعد سے پوچھ لیا ھے میں نے “،پری نے جلدی جلدی میں جواب دیا اور گھر سے باہر نکل گئی
“شکریہ بیٹا تم نے میرا ماں رکھ لیا یہ میرے موبائل میں حمیرا کی تصویر ھے ایک نظر دیکھ لو اسکو “شائستہ بیگم کی مراد پوری ہونے جا رہی تھی ان کو خوشی تھی کے اب وہ پری سے کیا ہوا وعدہ پورا کریں گی
“ماں مجھے اس کے ماضی یا شکل و صورت سے کوئی غرض نہیں مجھے نہیں دیکھنی اس کی تصویر “پر شائستہ بیگم کے اسرار پر سعد نے جب سعد نے وہ تصویر دیکھی تو اس کے پیروں تلے زمین سرک گئی اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی
“ماں یہی تو پری ھے ”
پری کو سڑکوں کی خاک چھانتے ہوئے تو گھنٹے بیت چکے تھے وہ نہیں جانتی تھی کے وہ رات کے اس تاریک پہر وہ کہاں جا رہی ھے بس وہ ایک ہی سمت میں چلتی جا رہی تھی پیاس سے اس کا گلا خشک هو چکا تھا ،کچھ دور آگے اس کو ایک نلکہ نظر آیا ،اس نے سوچا کے وہ جی بھر کے پانی پیے گی اور اپنی پیاس بجھاۓ گی ،نلکے کے پاس پہنچ کر اس نے اپنا اسکارف اتار کر ایک جانب رکھا اور پانی پینے لگی کے اس کی سماعت سے ایک اونچی آواز ٹکرائی
“کیا کر رہی ھے میری گڑیا رانی ”
پری نے دیکھا کے موٹر سائیکل پے سوار دو مرد اس کی جانب دیکھ رہے تھے
“دیکھو مجھ سے دور رہو میرے قریب مت آنا ” پری چیخ کر بولی ،پری کا دماغ بالکل ماؤف ہو چکا تھا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا اس کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا سانس نیچے ہی رہ گیا تھا
“ہاۓ پری رانی چیختی کیوں ہے ہم سے نا ڈر ہم تو تیرے اپنے ہی ہیں “ان دو میں سے ایک آدمی موٹر سائیکل سے نیچے اتر آیا اور پری کی جانب بڑھنے لگا اس آدمی کے چہرے پر درندگی کے آثار عیاں ہونے لگے تھے پری بھی پیچھے ہٹتی جا رہی تھی کے ایک بڑے سے پتھر سے اس کا پاؤں ٹکرا گیا اور وہ دھڑام سے نیچے گر گئی
“اوۓ فیقے تو مزے کر میں تھوڑی ہی دیر میں آتا ہوں “موٹر سائیکل پر سوار آدمی چلایا
“چل ٹھیک ہے تو جا “فیقے نے اس کو جواب دیا اور وہ آدمی موٹر سائیکل دوڑاتا ہوا لے گیا
“گندے آدمی خبردار تو نے مجھے ہاتھ لگایا میں تیرا خون پی جاؤں گی “پری کے ہونٹ کپکا رہے تھے چہرے پر خوف طاری تھا ، اس کو احساس ہو رہا تھا کے گھر سے بھاگ کر اس نے کتنی بڑی غلطی کی ہے،اس نے جلدی جلدی اپنا اسکارف اٹھایا اور اپنا چہرہ ڈھانپ لیا
“ہاۓ تتلی تجھ میں تو بڑی ہی گرمی ہے تجھ سے پیار کرنے کا بڑا ہی مزہ آۓ گا “فیقے نے پری کے چہرے سے اسکارف کسی پتھر دل جانور کی طرح کھینچ کر اتارا اور پری کے نرم و نازک چہرے کو اپنے غلیظ ہاتھوں سے چھونے لگا
“مجھے لگتا ہے پری نے ہماری ساری باتیں سن لی ہوں گی بیچاری میری بچی سمجھی ہو گی کے اس کا اصلی نام جاننے پر میں اس سے ناراض ہو جاؤں گی ضرور میری بچی کی کوئی مجبوری ہو گی نا ” شائستہ بیگم مسلسل رو رہیں تھی ،وہ اپنی ایک بیٹی کھو چکی تھیں دوسری کو کھونے کی ان میں ہمت نا تھی وہ واقعی میں پری کو چاہتی تھیں ان کا دل پری کے لئے تڑپ رہا تھا وہ پری کو اپنی بیٹی کی نظر سے دیکھتی تھیں
“پر ماں جو بھی ہو اس کو بھاگنے کی کیا ضرورت تھی “سعد کی حالت بھی اپنی ماں سے کچھ مختلف تو نہیں تھی آخر پری اس کی محبت اس کو ملنے جا رہی تھی پر شاید ابھی کچھ اور امتحان باقی تھے
“بیٹا پری کی جو حالت تھی وہ میں جانتی ہوں یا میرا اللّه اس کو میں نے اپنی آنکھوں سے تڑپتے ،سسکتے دیکھا ہے ایسی حالت میں انسان کی عقل جواب دے جاتی ہے “شائستہ بیگم آنسو پونچھتے ہوئے بولی پر آنسو تو تھمنے کا نام ہی نہیں لے تھے
“ماں مجھے لگتا ہے کے ہمیں پولیس کو آگاہ کرنا چاہیے “سعد نے اپنی راۓ کا اظہار کیا،سعد کولگ رہا تھا کے اگر آج اس کو پری نا ملی تو وہ زندہ نہیں بچے گا اس کی زندگی پری سے شروع ہوتی تھی اور اسی پر آکر ختم ہوتی تھی اور شاید اسی کو محبت کہتے ہیں
“نہیں بیٹے ابھی نہیں جوان لڑکی کا معاملہ ہے پولیس کی مداخلت صحیح نہیں ابھی تم خود جا کر ڈھونڈو “شائستہ بہت نے مشورہ دیا
سعد نے اثبات میں سر ہلایا اور پری کو ڈھونڈنے کے لئے گاڑی لے کر نکل پڑا
فیقے نے پری کے ہاتھوں کو پکڑ لیا ،پری بھوکلا گی اسی اثنا میں اس کی نظر نیچے پڑے ہوئے بڑے سے پتھر پر گئی،اس نے ہمت کر کے وہ پتھر اٹھایا اور پوری قوت سے فیقے کے سر پر دے میرا ،فیقہ بے حوش ہو گیا پری نے موقعے کا فائدہ اٹھایا اور وہاں سے بھاگ کھڑی ہوئی ،وہ بھاگ رہی تھی مسلسل بھاگ رہی تھی ،اس اندھیری رات میں بڑے بڑے گھنے درخت جیسے پری کو خوش آمدید کہہ رہے ہوں ،پری کی چپل کی ایڑھی ایک عجیب سی آواز پیدا کر رہی تھی جو ماحول کی خاموشی اور سناٹے کو چیر رہی تھی ،بھاگتے ہوئے پری نے ایک بار بھی پیچھے مڑ کر نا دیکھا اس سنسان اور تاریک سی جگہ سے بھاگتے ہوئے پری کو وحشت ہو رہی تھی اس کا دل لرز رہا تھا ،بالآخر وہ اس سنسان جگہ سے نکل آئ
اب اس کی نگاہوں کے سامنے ایک بڑا سا دربار تھا، جس میں لگی ہوئی بتیوں سے رات کی تاریکی ذرا کم ہو گئی تھی ،اس نے سکھ کا سانس لیا اور جلدی جلدی دربار میں داخل ہو گئی اور دربار کے کسی کونے کدھرے میں سونے کی غرض سے لیٹ گئی
سورج کی چمکتی ہوئی کرنیں جب پری کی آنکھوں پر پڑی تو اس کی آنکھیں کھل گئیں ،پری اپنی آنکھیں مسلتی ہوئی اٹھ کر بیٹھ گئی سامنے لوگوں کی بہت چہل پہل تھی کہیں کھانا بٹ رہا تھا تو کہیں لوگ جھوم رہے تھے
“میں کہاں ہوں ؟”پری نے خود سے سوال کیا ،اس کی آنکھوں کے سامنے رات والا منظر گردش کرنے لگا
“یا اللّه تیرا شکر تو نے مجھے بچا لیا !” پیاس سے پری کا گلا سوکھ رہا تھا ،پری کی نظر سامنے لگے ہوئے نل پر گئی وہ وہ جلدی جلدی اٹھی اور پانی پی کر اپنی پیاس بجھانے لگی
ابھی وہ پانی پی ہی رہی تھی کے ایک جانی پہچانی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی
“پریشے تم …….!!!”
جب پری نے گردن گھما کر پیچھے کی جانب دیکھا تو اس کے حوش اڑ گۓ ،اس کے پیچھے میلے کچیلے کپڑے زیب تن کیے ہوئے عائشہ کھڑی تھی
“میں پری میں عائشہ تمہاری گنہگار ہوں میں نے تمہیں تباہ کرنا چاہا اور دیکھو اللّه نے مجھے تباہ کر دیا ،عائشہ کی آنکھوں سے ندامت اور شرمندگی چھلک رہی تھی ،اس کی آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے وہ پری کے سامنے سر جھکاۓ کھڑی تھی
“کیوں کیوں کیا تم نے میرے ساتھ ایسا عائشہ میں تو تمہیں اپنی دوست مانتی تھی اور تم نے میری پیٹھ میں ہی خنجر گھونپ دیا جانتی ہو تمہیں اس حال میں دیکھ کر مجھے بہت سکوں مل رہا ہے اور میرا گھر سے بھاگنا اس دربار میں آنا یہ سب کچھ شاید حکم خداوندی تھا ،میرا اللّه چاہتا تھا کہ میں اپنے مجرم کی حالت دیکھوں میں دیکھوں کے یہ دنیا مکافات عمل ہے “پری عائشہ پر بھڑک رہی تھی اس کس بس نہیں چل رہا تھا کے وہ عائشہ کا قتل اپنے ہاتھوں سے کردے
“میں نے حمزہ کے ساتھ مل کر تمہیں اغوا کرنے کا پلان بنایا اور بدلے میں حمزہ نے مجھے کئی پیسے دیے اس کے بعد میں نے محلے میں یہ بات پھیلا دی کے تم بھاگ گئی پھر میرے باپ نے میری شادی کردی جس سے میری شادی کئی گئی اس بےشرم آدمی نے مجھے کسی اور کے ہاتھ بیچ دیا کئی مردوں کے ہاتھوں گندہ ہونے کے بعد میں حمزہ کے پاس چلے گئی کیونکہ مجھے حمزہ کا پتہ معلوم تھا دو ہفتے میں نے اس کے ساتھ گزارے کیوں کہ میں گھر واپس نہیں جانا چاہتی تھی اس دوران میں نے حمزہ کے ساتھ کئی بار نا جائز تعلقات استوار کیے پھر ایک روز میری طبیعت بہت خراب ہو گئی اور اگلے روز حمزہ کئی بھی طبیعت خراب ہو گئی حمزہ نے ٹیسٹ کروایا تو پتہ چلا کے اس کو AIDS اور کینسر ہو گیا ہے بعد میں جب میں نے ٹیسٹ کر واۓ تو مجھے معلوم ہوا کے مجھے بھی AIDS ہو چکا ہے اور میں مرنے والی ہوں اس کا قصوروار حمزہ نے مجھے ٹہرایا اور گھر سے نکال دیا جب ماں باپ کے گھر گئی تو انہوں نے بھی مجھے اپنانے سے انکار کر دیا اور پھر میں یہاں پہنچ گئی مجھے معاف کر دو پری خدارا مجھے معاف کردو شایدایسے اللّه بھی مجھے معاف کردے “عائشہ پری کے پاؤوں میں گر گئی
“میں نے تمہیں معاف کیا اپنے اللّه کی خاطر عائشہ میں نے تمہیں معاف کیا”پری کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے پری نے عائشہ کو اپنے گلے لگا لیا اور دونوں خوب روئیں
اسی دوران پری کو بھوک لگ گئی پری لنگر میں بٹتا ہوا کھانا لینے گئی جیسے ہی وہ کھانا لے کر واپس آئ تو اس نے دیکھا کے سعد کھڑا دائیں بائیں دیکھ رہا تھا جیسے کسی کو ڈھونڈ رہا ہو پری فوری طور پر پیچھے مڑی تو اس نے دیکھا کےسامنے رنگیلی شمع کے ساتھ کھڑی باتیں کر رہی تھی