بہت پیاری مہندی لگی ہے ناں۔۔۔!!
عفان نے عین کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیتے پیار سے کہا۔
آپ کومہندی پسند ہے ناں۔۔ فان؟
اس نے بہت اشتیاق سے پوچھا۔
تمہارے ہاتھ پے۔۔۔۔۔ یہ مہندی۔۔۔ یہ چوڑیاں۔۔۔سب پسند ہیں۔۔۔۔ آنکھیں موندتے عین کے ہاتھوں کو لبوں کے قریب لے جا کے مہندی کی خوشبو کو محسوس کرنے لگا۔
عین کے دل کی دھڑکن تیز ہوٸی۔
ایک لمحہ تھا وہ۔۔۔
تھما نہیں۔۔۔پلٹا نہیں۔۔۔
یہ۔۔۔یہ کیا کر رہے ہیں آپ۔۔۔۔؟؟
عفان نے اسکے ہاتھوں پے لگی مہندی کو بگاڑ دیا۔
ایک الوداعی نظرعین پر ڈالی اور نظروں سے اوجھل ہو گیا۔
عین آوازیں دیتی رہ گٸ۔
تبھی دعا کے جھنجھوڑنے پر وہ یکدم اٹھی۔
وہ روتے ہوٸے سوٸی تھی۔
ووہ خواب تھا۔ اور یہ سمجھنے میں اسے ایک لمحہ لگا تھا۔
دعا جو نماز پڑھ کے قرآن مجید کی تلاوت کرنے کے بعد اٹھ رہی تھی۔
عین کے سوتے ہوۓ چینحنے پے اسکی طرف بڑھی تھی۔
آنکھوں میں ڈھیروں آنسو تھے۔
آپی۔۔آپ۔۔۔ ٹھیک ہیں ناں۔۔۔؟؟
عین کچھ کہتی کہ باہر سے ایمبولینس کی آواز آٸی۔دونوں بری طرح چونکیں۔
دونوں کے دل تیز رفتار سے دھڑک رہے تھے۔اور ایک دوسرے کو پتھراٸی نظروں سے دیکھے جا رہی تھیں۔
باہر سے شور کی آواز سن کے دعا باہر کی طرف لپکی۔
جبکہ۔۔۔ عین وہیں۔۔ زمین پر بیٹھتی چلی گٸ۔
جیسے آج۔۔ وہ سب کچھ ہار گٸ۔
دعا دروازے میں ہی ایستادہ ہوگٸ۔ بڑی حویلی کا یہ منظر ہر ایک کی آنکھ کو اشک بار کر گیا تھا۔
جوان جہان میت بڑے صحن کے بیچوں بیچ رکھ دی گٸ۔
الماس بیگم جوان بیٹے جس کے سر پر آج سہرا سجانا تھا۔یوں سفید کفن میں دیکھ دل پے ہاتھ رکھ بیٹھ گٸیں۔
دلاور صاحب ایک ٹک مردہ بیٹے کو دیکھے جا رہے تھے۔
بابا۔۔۔یہ کیا۔۔۔؟؟؟؟ آپ رو کیوں رہے ہیں۔۔۔؟؟ آج تو خوشی کا دن ہے۔
دلاور صاحب نے کھینچ کے بیٹے کو گلے سے لگایا۔
بیٹا یہ خوشی کے آنسو ہیں۔
ماتھےپے بوسہ دیا۔ اور آنسو پونچھے۔
اچھھھھھا۔۔۔ تو دکھ کے آنسو کیسے ہوتے ہیں۔۔۔؟؟ مذاقاً کہتاوہ دلاور صاحب کی آنکھوں میں اپنی شبیہہ چھوڑ گیا۔
دکھ کے آنسو۔۔۔۔؟؟؟ درد سے آنکھیں بند کر لیں۔
دکھ جب حد سے بڑھ جاۓ۔۔۔ تو آنسو بھی نہیں نکلتے بیٹا۔۔۔۔۔۔۔!!
دل ہی دل میں وہ عفان سےمخاطب ہوٸے۔
پاس ہی گھٹنوں کے بل بیٹھا زیان شاہ حیرت کی مورتی بنا تھا۔
ہنستا مسکراتا اسکا جان سے زیاہ عزیز بھاٸی اسے ایک دم سے چھوڑ کے چلا گیا۔ وہ تو۔۔ ابھی تک بے یقینی کی کیفیت میں تھا۔
بھاٸی۔۔! اتنی صبح صبح کہاں جارہے ہیں۔۔۔؟؟مسجد سے فجر کی نماز ادا کر کے واپس گھر میں داخل ہوتے زیان نے افراترفی میں عفان کو باہر جاتا دیکھا تو روک کے دریافت کیا۔
بس۔۔۔ ایک چھوٹا سا کام ہے۔۔۔ ڈیرے تک جا رہا ہوں۔۔۔ تھوڑی دیرتک واپس آتا ہوں ۔
ٹالتے ہوٸے عجلت بھرے انداز میں کہا۔
میں بھی چلتا ہوں۔ آپ کے ساتھ۔
زیان کہتے انہی قدموں پے عفان کے ساتھ ہو لیا۔
ارے۔۔۔یار۔۔۔!! کچھ دیر کی بات ہے۔۔۔ میں بس یوں گیایوں آیا۔ ۔۔ عفان نےمسکراتے ہوٸےکہا۔
اور زیان کے ہاتھ سے ہاتھ چھڑاکے آگے بڑھ گیا۔زیان وہیں اپنا ہاتھ دیکھتا کھڑا رہ گیا۔
دل تھوڑا بے چین ہوا۔
ہاتھ ایسا چھوٹا کہ۔۔۔ واپس ہاتھ نہ آسکا۔
زیان بار بار آنسو پونچھتا۔۔ لیکن پھر سے آنکھیں نم ہو جاتیں۔
منہ جھکاٸے وہ خود پے
فراز صاحب۔۔ عفان کے چچا تھے۔
انہیں عفان شاہ سب سے بڑھ کے تھا۔
عفان سے دلی وابستگی اتنی زیادہ تھی۔ کہ اپنے دل کا ٹکڑا اپنی لاڈوں پلی بیٹی اسکوسونپنے فیصلہ لیا۔
لیکن قرت ک یہ منظور نہ تھا۔
جس دن نکاح تھا۔ اسی دن وہ انکو دھوکا دے کے یہ دنیا چھوڑ جاۓ گا۔
پورا گھر دلہن کی طرح سجا ہوا تھا۔ ابھی بھی سب ویسا تھا۔نہیں تھا تو وہ پل نہیں تھا۔
وقت نے بھی عجیب پلٹا کھایا تھا۔
ساری خوشیاں ایک دم ماتم میں بدل گٸیں تھیں۔
پورا صحن لوگوں سے بھر گیا تھا۔ جو سنتا تھا۔ فوراً پہنچ جاتا۔
ہردلعزیز تھا عفان۔ سبھیاسکے اخلاق اور شرافت کی مثالیں دیتے نہ تھکتے تھے۔ہمدرد اتنا کہ کسی کی آنکھ میں ایک آنسو نہیںدیکھ سکتا تھا۔ تڑپ جاتا تھا۔۔
چھپ چھپا کے کتنےلوگوں کی وہ مدد کرتا تھا۔
آج وہبھی وہاں موجود تھے۔
سب کی آنکھیں اشک بار تھیں۔
کل جہاں عفان اور عین کی مہندی کا فنکشن اور ساتھ دع اور زیان کا نکاح ہوا تھا۔ اس وقت وہاں اسی جگہ ماتم کدہ بنا ہوا تھا۔
الماس بیگم چکرا کے زمین بوس ہوٸیں۔ فارس کی نظر ان پے ہی تھی۔ فوراً ماں کی جانب لپکا۔ اور انہیں اپنی بانہوں میں اٹھا کے حویلی کے اندر بھاگا۔
فراز صاحب نے جلدی سے ڈاکٹر کو فون کیا۔ دعا پانی لے آٸی۔ اور ان کے منہ چھینٹے مار نے لگی۔
لیکن وہ ہوش میں نہیں آرہی تھیں۔ فارس اور زیان دونوں ہی ماں کے پاس تھے۔
ماں کو یوں دیکھ وہ دونوں ہی گھبرا گٸے تھے۔
فارس مسلسل الماس بیگم کے ہاتھ مل رہا تھا۔ جبکہ زیان ماں کو اس حال میں دیکھ آنسو نہیں روک پارہا تھا۔
بھاٸی۔۔۔۔!! مما کو ۔۔۔ ہاسپٹل لے چلیں۔۔۔!معلوم نہیں ڈاکٹرکب آۓ گا۔۔۔!!
زیان سے ماں کی یہ حالت برداشت نہ ہوٸی۔
فارس نے بھی فوراًسے بیشتر ماں کو اپنی بانہوں میں اٹھایا۔ اور باہر نکتا چلا گیا۔ ابھی عفان کی موت سے کوٸی نہیں سنبھلا تھا کہ الماس بیگم نے انکی سانسیں کھینچ لیں۔
فارس اور زیان دونوں ہی ہاسپٹل ساتھ گٸے۔
ماں کے لیے دونوں کی پریشانی دیدنی تھی۔
گھر میں عفان کی اس ناگہانی موت پے آہ و بکا جاری تھی۔ عفان ہر دلعزیز بندہ تھا۔
زندہ دل
ہنسنے مسکرانے والا۔۔ سب کا احترام کرنے والا۔
سب کو خوش رکھنے والا۔
مصیبت زدہ کے کام آنے والا۔نرم گفتہ۔۔
آج وہ اللہ کے پاس چلا گیا۔
جو بھی عفان کی موت کی خبر سنتا بڑی حویلی پہنچ جاتا۔اور آنسو نہ روک پاتا۔
اور اس سب میں کبیر شاہ۔۔ ایک تماشاٸی کا کردار ادا کر رہے تھے۔
بظاہر تو وہ غمزدہ نظر آرہے تھے۔
لیکن ان کے دل میں کیا چل رہا تھا۔ کوٸی نہیں جانتاتھا۔
سواٸے ان کے بیٹےابرار شاہ کے۔۔۔
دونوں باپ بیٹے کی سوچ کو سوٸی ایک دوسرے سے ملتی جو تھی۔
سب کے سامنے دونوں غم کا لبادہ اوڑھے کھڑے تھے۔ لیکن دل و دماغ میں کیا منصوبے پل رہے تھے۔ یہ صرف وہی جانتے تھے۔
دونوں اشاروں سے ایک دوسرے سے بات کررہےتھے٠٠
لیکن زبان سے کچھ نہیں بول رہے تھے۔
ہاٸے۔۔۔ کیا۔۔۔ ہوگیا۔۔۔؟؟ بیٹھے بٹھاٸے کیسی نظر لگی ہے۔۔۔ اس حویلی کو۔۔۔ جان جہان بیٹا چلا گیا ان کا۔۔۔!!
کسی عورت نے اپنی راٸے سے باقیوں کونواز۔
تو سب نے ہاں میں ہاں ملاٸی۔
آج ماں نے سہرا سجانا تھا۔ بیٹے کے سر پے۔۔۔ وہ دیکھو۔۔۔ کیسے کفن کا لبادہ اوڑھ کے جا رہا ہے۔
دوسری نے دکھ سے کہا۔
ماں بھی یہ صدمہ برداشت نہ کر پاٸی۔
اللہ ماں کی خیر کرے۔۔۔ ایک اور عورت نے دعا دی۔
آمین۔۔۔ آمین۔۔۔!! سب نے یکجان کہا۔
ویسے۔۔ مانو نہ مانو۔۔۔ ہمارا عفان۔۔۔ خودکشی کر لے۔۔۔۔ دل نہیں۔۔ مانتا۔۔۔۔ ضرور کوٸی۔۔ اور بات ہے۔۔۔!!
ایک عورت نے رازدانہ انداز میں کہا۔
ارے۔۔۔ مجھے تو۔۔۔ لگتا ہے۔۔۔ انکی۔۔ بیٹی ہی منحوس ہے۔۔۔۔!! ابھی قدم رکھے نہیں ۔۔۔ اور میت اٹھ گٸ۔۔۔!!
سوچو۔ اب آگے کیا کیا ہونا ہے ان کے ساتھ۔۔
شیییی۔۔۔ چپ کر۔۔۔ کسی نے سن لیا تو غضب ہو جاۓ گا۔
دوسری عورت نے روکا۔
آپس کی انکی باتوں کو گھر کی ایک فرد کتنے توجہ سے سن رہی تھی۔ یہ نہیں جانتی تھیں۔
لیکن وہ سنتے اور آگے کے حالات کو اپنے رخ پے موڑنے والی یہ ہستی کوٸی اورنہیں۔ کبیر شاہ کی بیوی دردانہ بیگم تھیں۔
انہی کی طرح سازشی چالاک اور عیار۔۔۔!!
یہ پوری فیملی۔۔ ان کے ساتھ ہی تھی۔
کبیر شاہ۔۔۔ دلاور شاہ کے سوتیلے بھاٸی۔۔
************************************
الماس بیگم کا نروس بریک ڈاٶن ہوا تھا۔ اور وہ آٸی ی یو میں تھیں۔
ایک آزماٸش کے ساتھ ایک اور آزماٸش۔۔۔۔
زیان۔۔۔!! تم گھر چلے جاٶ۔
فارس نے دھیمے لہجے میں ICU کے باہر کھڑے اندر دیکھتے زیان سے کہا۔
بھاٸی۔۔۔۔!! وہ مما۔۔۔۔!! زیان اسوقت بالکل بچوں کی طرح بی ہیو کر رہا تھا۔
میں ہوں ناں۔۔۔ یار۔۔۔!! کیوں فکرکرتا ہے۔۔؟؟
فارس نے اسے کھینچ کے اپنے سینے سے لگایا۔
تو وہ ضبط کے باوجود پھوٹ پھوٹ کے رو دیا۔
یہی سہارا یہی کندھا تو وہ ڈھونڈ رہا تھا۔
عفان کے اچانک داغِ مفارقت نے ان سب کو ہی توڑ دیا تھا۔
چلو۔۔ شاباش گھر جاٶ۔۔۔!! فارس شروع سے ہی مضبوط اعصاب کا مالک رہا تھا۔ ابھی بھی وہ اپنا حوصلہ نہیں ہارا تھا۔
زیان دل کا سارا بوجھ آنسوٶں کی صورت نکال کے تھوڑا ریلکس ہوا تھا۔ لیکن ماں کے لیے فکرمندی ابھی بھی قاٸم تھی۔
اسی فکرمندی کے ساتھ وہ گھر میں داخل ہوا۔ عفان کو غسل کے لیے لے جایا جا چکا تھا۔
دلاور شاہ کے پاس پہنچ کے ماں کی کنڈیشن کے بارے میں بتا کے وہ مردان خانے کی طرف چلا گیا۔
آپی۔۔۔!! پلیز۔۔۔!! باہر آٸیں۔۔۔!!
دعا کوٸی دسویں بار اسے بلانے آٸی تھی۔
لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہو رہی تھی ۔
کیسسسے۔۔۔ کیسے۔۔۔ ہم۔۔ باہر آٸیں۔۔؟؟
ہم۔۔۔۔انکو کیسے۔۔۔ یوں دیکھ سکتے ہیں۔۔۔؟؟
دعا۔۔۔۔۔ وہ ۔۔۔ مجھے۔۔۔ یوں۔۔ کیسے۔۔۔؟؟
عین ہچکیوں میں روتےہوٸے بولی۔
دعانے آگے بڑھ کےاسے اپنے ساتھ لگا لیا۔
وہ کہاں بے خبر تھی ۔۔؟ کتین چاہت تھی دونوں میں۔۔۔
لیکن موت کیا کچھ دیکھتی ہے؟اس نے آنا ہے سو آنا ہے۔۔۔
صبر کریں آپی۔۔۔! ایک دن سبھی کو اسکی طرف لوٹ کے جاناہے۔۔۔۔
روتے ہوٸے عین کو تھپکی دی۔
کیسے کریں ہم صبر۔۔۔۔؟؟آپ جانتی ہیں ناں۔۔۔!! وہکیا تھے ہمارے لیے۔۔۔!!
آنکھوں کے لال ڈوروں نے دعا کو۔مزید دکھی کر دیا۔
آپی۔۔۔۔!! بڑی امی کے لیے اللہ سے دعا کریں۔
دعا نے اسکا دھیان الماس بیگم کی طرف دلایا۔ تو وہ پھر رونے لگی۔ وہ شروع سے ہی ڈری سہمی اور اپنے آپ میں رہنے والی چھوٸی موٸی سی لڑکی تھی۔
آج تک کبھی اسکی اونچ آواز نہیں سنی گٸ حولی میں ۔ نرم لہجہ دھیما مزاج۔ اسکے اندر کوٹ کوٹ کر بھرا تھا۔
لیکن وہ یہ نہیں جانتی تھی۔ اس نازک مزاج رکھنے والی اس لڑکی کے لیے آگے کتنی بڑی آزامٸش تیار کھڑی ہے۔
*********************************
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...