وہ سٹیج سے اترنے کے بعد سائیڈ پر آکر کھڑی ہوگئی تھی، مگر نظر اب بھی اس ستمگر پر ٹکی تھی۔۔
تمہارے پہلو میں جو میری جگہ کھڑا ہے
اسے بتاؤ نا کہ وہ کس کی جگہ کھڑا ہے
بی بی۔۔۔۔ بی بی جی وہ آپ کی امی کمرے میں بے ہوش ہوگئیں ہیں، نجمہ کی بات سنتے ہی اس کے چہرے کا رنگ اڑا تھا، وہ اپنا کلچ وہیں پھینکے اندر کی طرف بھاگی تھی۔۔۔۔
اس کے اس طرح بھاگنے سے ابان کو حیرانی ہوئی تھی وہ سٹیج سے نیچے اترا تھا۔
کیا ہوا ہے؟
نجمہ کی بات سننے کے بعد ابان بھی زری کے پیچھے گیا تھا۔
امی! امی! آنکھیں کھولیں۔۔۔۔
چچی جان!!! ابان نے آگے بڑھ کر انہیں اٹھایا تھا اور باہر گاڑی کی طرف بڑھ گیا تھا۔
____________
آپ اب پیشنٹ سے مل سکتے ہیں۔
مسٹر ابان، آپ ذرا ہمارے ساتھ آئیں۔۔۔ ابان ڈاکٹر کے ساتھ چل پڑا۔
زری! بیٹا اندر چلو۔۔۔۔
وہ سر ہلائے اندر کی طرف چل دی۔
امی۔۔۔۔۔ ان کے پاس کھڑی، انہیں اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔
جس میں وہ بری طرح ناکام ہوئی تھی۔
بھائی صاحب مجھے آپ سے اکیلے میں بات کرنی ہے۔
بغیر زری کی طرف متوجہ ہوئے، رابیعہ بیگم نےاحمد صاحب کو پکارا تھا۔۔۔
___________________
مسٹر ابان ہم آپ کو پیشنٹ کی کنڈیشن کے بارے میں پہلے ہی آگاہ کر چکے ہیں۔
“ان کا کینسر لاسٹ سٹیج پر ہے۔” ڈاکٹر کی باتیں ابان کے ذہن میں گھوم رہی تھیں۔۔۔۔۔
وہ ڈاکٹر کے کمرے سے نکل کر رابیعہ بیگم کے واٹ کی طرف بڑھا تھا۔ جب زری اسے باہر کھڑی نظر آئی۔
تمہیں چچی کے پاس ہونا چاہیے تھا، باہر کیا کر رہی ہو۔۔۔۔
امی کو تایا ابو سے کوئی ضروری بات کرنی ہے۔۔۔۔ وہ اپنے آنسو صاف کرتی ہوئی بولی۔
زری مجھے تمہیں کچھ بتانا ہے۔ وہ چچی کو__
ابھی اس کی بات مکمل بھی نہ ہوئی تھی کہ دروازہ کھلنے کی آواز پر زری مڑی تھی۔
تایا ابو۔۔۔۔ امی اب ٹھیک ہیں؟
وہ آرام کر رہی ہیں۔۔۔
ابان تم زری کو لے کر گھر جاؤ۔
اس سے پہلے ابان زری کو کچھ کہتا، ذری بول پڑی تھی۔
تایا ابو مجھے۔۔۔۔ مجھے ابھی گھر نہیں جانا، امی سے ملنا ہے۔۔۔۔۔۔ وہ رو دینے کو تھی۔
“بیٹا ابھی وہ آرام کر رہی ہیں، اور ویسے بھی رابعہ بیگم کا کہنا ہے کہ وہ تم سے کل ہی ملیں گی تمہاری رخصتی کے وقت۔۔۔۔۔۔”
اس نے زخمی نگاہوں سے اپنے تایا جان کو دیکھا تھا اور بنا کچھ کہے ہسپتال سے باہر نکل گئی۔
تم اسے گھر چھوڑ آؤں اور رابیعہ بیگم کی رپورٹ بھی لیتے آنا۔
ڈاکٹرطاہر سے ان کی رپورٹ ڈسکس کر لیں گے۔
“ٹھیک ہے ڈیڈ۔۔۔۔۔۔۔”
__________________
غمِ زندگی تیرا شکریہ تیرے فیض ہی سے یہ حال ہے
وہی صبح و شام کی الجھنیں، وہی رات دن کا وبال ہے +
نہ چمن میں بُوئے سمن رہی نہ ہی رنگِ لالہ و گل رہا
تو خفا خفا سا ہے واقعی کہ یہ صرف میرا خیال ہے
اسے کیسے زیست کہے کوئی گہے آہِ دل گہے چشمِ نم
وہی رات دن کی مصیبتیں وہی ماہ ہے وہی سال ہے
میں غموں سے ہوں جو یوں مطمئن تُو برا نہ مانے تو میں کہوں
تیرے حسن کا نہیں فیض کچھ، میری عاشقی کا کمال ہے
ہے یہ آگ کیسی لگی ہوئی میرے دل کو آج ہُوا ہے کیا
جو ہے غم تو ہے غمِ آرزو، اگر ہے تو فکرِ وصال ہے
کوئی کاش مجھ کو بتا سکے رہ و رسمِ عشق کی الجھنیں
وہ کہے تو بات پتے کی ہے میں کہوں تو خام خیال ہے
رابیعہ بیگم گھر آ چکی تھیں، لیکن ذری ان سے ملنے نہیں گئی تھی۔
دروازے پر دستک ہوئی تھی۔
بی بی جی! یہ آپ کی شادی کا جوڑا ہے۔ اگر آپ کو کسی اور چیز کی ضرورت ہے تو مجھے بتا دیں۔۔۔ نجمہ نے بیڈ پر کپڑے رکھتے ہوئے کہا۔
نہیں مجھے اور کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے جواب سے صاف ظاہر تھا کہ وہ اب نجمہ کی موجودگی نہیں چاہتی۔
جی ٹھیک ہے۔ نجمہ یہ کہہ کر باہر کی طرف چل دی۔
وہ صوفے سے اٹھی تھی اور بیڈ کی طرف بڑھی تھی جہاں نجمہ شادی کا جوڑا رکھ کے گئی تھی۔
وہ وہی برائیڈل ڈریس تھا، جو اس نے مال میں دیکھا تھا اور اسے کافی پسند آیا تھا۔
لیکن اب یہی جوڑا اسے ایک آنکھ نہ بھایا تھا۔ اسے کپڑے دیکھ کر پھر سے رونا آیا تھا۔
______________________
قبول ہے۔۔۔
قبول ہے۔۔۔
قبول ہے۔۔۔
حجاب و قبول کے مرحلے کے بعد عاشی لغاری ہاؤس سے رخصت ہوئی تھی۔
یوں آہستہ آہستہ مہمان بھی رخصت ہوتے گئے۔
زری کی رخصتی اس کے اپنے گھر سے ہوئی تھی۔ اس دورانیہ میں اس نے رابیعہ بیگم سے ایک لفظ نہ کہا تھا۔
جو خوشی تمھارے قریب ہو
وہ صدا تمھارے نصیب ہو
تجھے وہ خلوص ملے کہ جو
تیری زندگی پہ محیط ہو
__________________
وہ کل رات سے گھر سے باہر تھا۔
اور اب بھی وہ اپنی رخصتی کے بعد فہد کے پاس سے لوٹا تھا۔ اس نے اپنے ہاتھ پر بندھی گھڑی پر نگاہ ڈالی تھی، جہاں رات کے ڈیڑھ بجے رہا تھا۔
وہ ان سب میں زری کو بھول ہی گیا تھا۔
گھر میں خاموشی کا راج تھا۔ سب اپنے اپنے کمروں میں موجود تھے وہ بغیر کوئی آواز کیے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
وہ دروازہ کھولے جیسے ہی اندر داخل ہوا اس کا اندازہ غلط تھا، زری بیڈ پر موجود نہ تھی بلکہ وہ تو پورے کمرے میں بھی موجود نہیں تھی۔ وہ واش روم کے دروازے کی طرف بڑھا مگر وہ بھی خالی تھا۔ ٹیرس کے دروازے کو کھولا لیکن وہ اسے وہاں بھی دکھائی نہ دی۔
وہ پہلے ہی تھکا ہوا تھا اور اب اس طرح اس کے نہ ملنے پر اسے غصہ آیا تھا۔
وہ کچھ سوچتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گیا۔۔۔
______________
عاشی کا استقبال پورے شوق و ذوق سے ہوا تھا۔ اور اس عرصے میں اسے اپنے ماں باپ کی کمی شدت سے محسوس ہوئی تھی۔
بلا ایسے بھی ماں باپ ہوتے ہیں جنہیں صرف اپنی، اپنی پہچان، اپنی سوسائٹی کی ہوتی ہے، انہیں اولاد ایک سٹیج تک ضروری ہوتی ہے، پھر جیسے ہی وہ تھوڑے بڑے ہوتے ہیں ہر رشتے سے آزاد کر دیا جاتا ہے۔
وہ کمرے میں بیڈ کے درمیان بیٹھی فہد کا انتظار کر رہی تھی۔
جب دروازہ کھولا تھا اور اندر آنے والی شخصیت فہد کی تھی وہ چلتا ہوا اس کے پاس ہی بیڈ پر اس کے سامنے بیٹھ گیا۔
وہ کافی دیر اسے ایسے ہی دیکھتا رہا اور مقابل کو بولنے پر مجبور کر گیا۔
عاشی نے اپنا گھونگھٹ اٹھایا تھا، “یہ کیا حرکت ہے، میں کب سے ایک ہی جگہ پر بیٹھے تمہارا انتظار کر رہی ہوں، اور اس گھونگھٹ نے میرا دم نکال دیا ہے، اس کو اٹھانے کی بجائے آرام سے بیٹھ گئے ہو۔ حد کرتے ہو تم بھی۔۔۔۔۔۔ وہ آخر میں اپنی پھولی ہوئی سانسوں سے بولی تھی۔
فہد اس کی باتوں پر جی جان سے مسکرایا تھا۔
اس طرح بولتی ہوئی کہیں سے بھی پہلے دن کی دلہن بلکہ کچھ گھنٹہ پہلے کی دلہن نہیں لگ رہی ہو۔
اب تم جاؤ، بلکہ ایسا کرو تم سو جاؤ وہ بیڈ سے اٹھنے کو تھی جب وہ اسے اپنی طرف دوبارہ کھینچ چکا تھا۔
ایسے کیسے مس!! اتنی محنت و مشقت کے بعد تو یہ رات آئی ہے۔
وہ اس کے”محنت و مشقت” لفظ سن کر مسکرا دی تھی۔ چلو میری منہ دکھائی نکالو۔۔۔۔ وہ مزے سے بولی تھی۔
اس منہ کی منہ دکھائی تو میں ہرگز نہیں دوں گا، جو میں نے زندگی میں ہزاروں بار دیکھ چکا ہوں اور ویسے بھی میں نے کونسا گھونگھٹ اٹھایا ہے؟ محترمہ خود ہی گھونگھٹ اٹھا چکی تھیں۔۔۔۔۔ وہ شرارتی انداز سے بولا تھا۔
وہ منہ پھولائے ذرا پیچھے کی طرف ہوئی تھی۔
وہ اٹھا تھا اور دراز سے ایک چھوٹا سا بکس نکالے اس کی طرف بڑھا تھا۔
تمہارے آگے، تمہاری محبت کے آگے میرے لئے دنیا کی ہر چیز کم پڑ جاتی ہے، میں شروع میں تمہاری محبت کو ماننے سے انکاری تھا۔ مگر بہت جلد تمہاری محبت کا زہر میرے اندر کھل گیا۔۔۔۔ وہ اسے ڈائمنڈ رنگ پہناتے ہوئے بولا۔
وہ زہر لفظ سن کر پھر سے غصے کے موڈ میں آ گئی تھی۔
اس سے پہلے کہ وہ کچھ اٹھا کر فہد کے سر میں دے مارتی فہد اسے اپنی باہوں میں قید کر چکا تھا۔
____________
اس نے دروازہ کھولا تھا۔
یہ وہ کمرہ تھا لغاری ہاؤس کا جو زری کے استعمال میں تھا۔
وہ بیڈ پر کمبل اوڑھے سو رہی تھی وہ آگے بڑھا تھا اس کو اٹھانے کی نیت سے۔۔۔۔
اس کے اس طرح اپنے کمرے سے نکل کر یہاں آ کر سونے پر اسے شدید غصہ آیا تھا جسے وہ کنٹرول کر گیا تھا۔
اس نے اسے اٹھانے کیلئے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ اس کی نظر سائیڈ ٹیبل پر پڑی جہاں پر نیند کی گولیوں کی شیشی موجود تھی اور اس کے نیچے ہی ایک چٹ بھی تھی۔
اس نے ہاتھ بڑھا کر وہ چٹ اٹھائی جس پر بڑے الفاظ میں گڈنائٹ لکھا تھا اور ساتھ میں غصے کو بڑھا دینے والا ایموجی بھی موجود تھا۔ یہ سب دیکھ کر اس کے غصے کا گراف بڑھا تھا۔
اس نے اس کا کندھا زور سے ہلایا تھا مگر بے سود۔۔۔۔۔
وہ جھکا تھا اور اسے اپنی باہوں میں بھر کے کمرے کی طرف بڑھا تھا۔
وہ اسے بیڈ پر لیٹانے کے بعد فریش ہونے چل دیا تھا۔
وہ دنیا سے بے خبر اس کے کمرے میں موجود تھی اس نے یہ قدم ابان کو غصہ دلانے کے لیے بنا سوچے سمجھے اٹھایا تھا، لیکن وہ اس کا انجام نہیں جانتی تھی۔
وہ فریش ہونے کے بعد سگریٹ لیے صوفے پر بیٹھا جو کہ بیڈ کے بالکل سامنے موجود تھا۔
اس کے خیال میں وہ ایک معصوم اور بودو سی لڑکی تھی، جس سے وہ ایسی حرکت کی امید کبھی بھی نہیں کر سکتا تھا۔
اسے اپنی بےعزتی کہاں برداشت تھی اور یہ لڑکی جو نہ صرف اس کے دل میں جگہ بنا رہی تھی بلکہ وہ اس کے کمرے میں پورے استحقاق سے براجمان بھی ہو چکی تھی۔
اس لڑکی نے اسے ذلیل کرنے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی تھی۔
وہ غصے سے اٹھا تھا اور اس کے سر پر جا کھڑا ہوا تھا۔
وہ لڑکی اپنی رخصتی پر نہیں روئی تھی اور نہ ہی اکیلے کمرے میں روئی تھی اس کے نا رونے کا واضح ثبوت اس کے چہرے پر میک اپ کی موجودگی تھی۔ جو کہ ابھی تک سہی سلامت تھا۔
وہ وہی لہنگا پہنے ہوئے تھی جس پر نہ صرف زری کی بلکہ ابان کی بھی نظریں ٹک گئی تھیں۔
اس لہنگے کو مال میں دیکھتے ہی اس کی نظروں میں ذری کا چہرہ آیا تھا وہ اس کی سوچ سے بھی ذیادہ پیاری لگ رہی تھی۔
اور یوں سوتے ہوئے وہ معصومیت کے سارے ریکارڈ توڑ گئی تھی۔
وہ اپنا غصہ، نفرت سب بھولائے اس پر چکا تھا اور اس کی پیشانی پر اپنی محبت کی مہر ثبت کی تھی، یہ سب اس سے بے خودی کے عالم میں ہوا تھا۔
ورنہ وہ یہ سوچ چکا تھا کہ کبھی بھی اس لڑکی کو اپنی محبت سے آشنا نہیں کروائے گا اس کی اجازت کے بغیر۔۔۔۔
وہ پیچھے ہٹا اور واپس صوفے پر آ گیا تھا اس کا ارادہ اب اس صوفے پر سونے کا تھا۔
کچھ پل کے بعد زری نے اپنی آنکھیں کھولی تھیں، اور اپنا ہاتھ اپنی پیشانی پر رکھا تھا جہاں کچھ پل پہلے وہ ستمگر اپنی محبت کی نشانی چھوڑ کر گیا تھا۔
اس کا اسے اٹھا کر لانا، آرام سے بیڈ پر لیٹانا جیسے وہ کوئی موم کی گڑیا ہو۔۔۔۔۔ وہ سب محسوس کر سکتی تھی کیونکہ اس نے کوئی گولی نہیں لی تھی یہ سب اس نے ابان کو غصہ دلانے کے لیے کیا تھا۔۔
اور اس کی نظر صوفے پر لیٹے ابان پر گئی تھی۔۔۔۔۔
________________
میرے ہمسفر، میرے ہم نشین
میں نے رب سے مانگا تو کچھ نہیں
پر جب بھی مانگی کوئی دُعا
نہیں مانگا کچھ بھی تیرے سوا
وہ اٹھی تھی اور اپنے آپ کو کسی دوسرے کمرے میں دیکھ کر اس کے ذہن میں کل رات کے سارے منظر لہرائے تھے۔
اس نے جیسے ہی آنکھ اٹھا کر صوفے پر دیکھا تو وہاں ابان موجود نہ تھا اسے حیرت ہوئی تھی، بھلا وہ اتنی صبح کہاں جا سکتا ہے۔
لیکن جیسے ہی اس کی نظر بیڈ پر پڑی تو وہ بہت قریب ہی اس کے پاس موجود سو رہا تھا۔
پتہ نہیں رات کون سا وقت تھا، جب سر کے درد سے اس کی آنکھیں کھلی تھیں اور وہ اٹھ بیٹھا تھا۔ اس چھوٹے سے صوفے پر نیند آنا مشکل تھا اور صبح پھر ایک تھکا دینے والے دن کی شروعات ہو جانی تھی، اسی لیے وہ کچھ سوچتے ہوئے آٹھ کھڑا ہوا اور زری کی دوسری سائیڈ پر آ کر لیٹ گیا تھا۔
اچھے بھلے صوفے پر تھے، بھلا یہاں آنے کی کیا ضرورت تھی۔۔۔۔ وہ بڑھاتی آٹھ کھڑی ہوئی تھی۔
اس نے جیسے ہی الماری کھولی تو اسے حیرت ہوئی کیونکہ الماری میں ابان کے ساتھ اس کے کپڑے بھی موجود تھے اور وہ دو سوٹ بھی تھے جو ابان نے اس کے لیے لیے تھے، وہ ان میں سے ایک سوٹ لیے واش روم میں گھس گئی
________________
میری نطروں میں کوئی کیسے جچے
نسبت یار نے مغرور بنا رکھا ہے
ایسے کیا دیکھ رہے ہو؟؟؟؟؟
عاشی نیند سے بیدار ہوئی تو فہد کو خود پر نظریں جمائے پایا۔۔۔۔
دیکھ رہا ہوں کہ کیا کوئی صبح اتنی بھی حسین ہو سکتی ہے؟
اچھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ حیران ہوئی تھی۔
مجھے اتنی پیاری صبح دینے کے لئے شکریہ۔۔۔۔
تمہیں نہیں لگتا کہ تم کچھ زیادہ ہی ڈائیلاگ بازی کرنے لگے ہو۔۔۔۔۔؟
کیونکہ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ بیوی کی تعریف کرتے رہو گے تو زندگی آسانی سے کٹ جائے گی۔۔۔۔۔ وہ شرارت سے بولا تھا۔
مطلب تمہیں صرف زندگی کاٹنی ہے؟ وہ اداسی سے بولی تھی۔
نہیں مجھے اب تمہارے ساتھ اپنی ساری زندگی بتانی ہے وہ اس کا چہرہ اپنی طرف کرتے ہوئے بولا۔۔۔۔
__________________
وہ نکھری نکھری باہر آئی تھی۔
اور نظر سامنے ہی اس دشمن جان پر پڑی تھی۔ جو اب اٹھ چکا تھا مگر اس نے اٹھنے کی زحمت نہیں کی تھی۔
وہ اس پر ایک نظر ڈالنے کے بعد ڈریسنگ ٹیبل کی طرف بڑھ گئی تھی۔
وہ اپنے گیلے بالوں کو سکھانے میں اس قدر مصروف تھی کہ اس کو یہ بھی علم نہ ہوسکا کہ کب ابان اس کے بالکل پیچھے آ کھڑا ہوا تھا اور اس کے دلربا سراپے میں کھو سا گیا تھا۔
وہ گرے فراک پہنے ہوئے تھی جس پر گلابی رنگ کا کام ہوا تھا۔
اس نے نظر اٹھا کر شیشے میں دیکھا تھا، وہ بلیک شرٹ اور ٹراؤزر پہنے ہوئے تھا اور بال بکھرے ہوئے تھے مگر پھر بھی اپنی نشیلی آنکھوں سے مقابل کو کھائل کر دینے کی صلاحیت رکھتا تھا۔
وہ اٹھی تھی اور اس کے پاس سے گزرنے کو تھی جب وہ اس کا ہاتھ پکڑ ے اسے ڈریسنگ کے ساتھ لگا گیا تھا۔
اپنی یہ اکڑ کسی اور کو دکھانا اور کل رات جو حرکت تم نے کی ہے اس کی وجہ جان سکتا ہوں؟
وہ اس کے پوچھنے پر بھی کچھ نہ بولی تھی۔
اس کے نہ بولنے پر اسے اور غصہ آیا تھا اس نے ہاتھ بڑھا کر ڈریسنگ پر موجود اشیاء کو زمین پر دے مارا تھا۔
میں تم سے اس گھٹیا حرکت کی وجہ پوچھ رہا ہوں؟ وہ دھاڑا تھا۔
اس کی دھاڑ پر وہ سہم گئی تھی اور آنکھیں نم ہونے کو تھیں۔۔۔
اس کی آنکھیں نم ہونے پر اسے اپنے رویے پر افسوس ہوا تھا۔
اگر ایسی گھٹیا حرکت کرنے کا تم نے سوچا بھی، تو اگلی بار میں خود تمہارا گلا دبا دوں گا۔ پھر تمہیں ان فضول حرکتوں کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
وہ نہیں جانتا تھا کہ اس نے کتنی گولیاں لی ہیں؟ بس اسے اس کی فکر تھی، اگر زیادہ استعمال کر لیتی تو؟؟؟ یہ سوچ ہی اسے ہلا دینے کے لئے کافی تھی۔۔۔۔۔
وہ اسے اپنی طرف دیکھا پا کر نظریں جھکا گئی تھی مگر اپنے آنسوؤں کو روکنے میں ناکام رہی تھی۔ 2
تیری طرح تیرا غم بھی ہمیں مات دے گیا
آنکھیں تو ڈھانپ لیں مگر آنسو نہ چُھپ سکے
_________________
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...