دسمبر کی ٹھٹرتی شام اپنے عروج پر تھی۔ ۔
اس وقت وہ سب روانہ یوچکے تھے۔ اس وقت وہ گھر صرف مصطفی کا انتظار کررہی تھی
آج عجوہ بیگم کے میکے دعوت تھی انکی سب لوگ روانہ ہوچکے تھے سوائے اسکے۔
آئے کیوں نہیں صبح بتایا تو تھا میں نے۔وہ ہاتھ میں فون تھامے چکر کاٹ رہی تھی اور بار بار گھڑی کی جانب دیکھ رہی تھی۔
اچانک اس کا دھیان مشعل کی جانب گیا اسے سوئے ہوئے تین گھنٹے سے زیادہ ہوگئے تھے اتنی دیر تو کبھی نہیں سوئی۔وہ اسے دیکھنے کے لیے اوپر بھاگی۔
مشعل !مشعل!وہ اسے پکارتی گود میں لیا۔
یااللہ !یہ تو بخار میں تپ رہی ہے اور سانس کیوں نہیں لے رہی۔وہ اسے زور سے ہلاتے ہوئے بولی ۔
وہ مکمل طور پرحواس باخستہ ہوگئی تھی اور اسکو سہلانے کے ساتھ ساتھ مصطفی جو فون ملارہی تھی۔
فون اٹھائیں مصطفی !فون اٹھائیں اسے اس وقت کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔
اچانک دروازے کی آواز آئی وہ یہ کہہ کر نیچے بھاگی۔
مگر سامنے کھڑے شخص کو دیکھ کر ٹھٹک گئی۔
*******************
اس وقت لاؤنج میں بیٹھے تھے۔ وہ غصے اور اضطراب کی ملی جلی کیفیت میں چکر کاٹ رہا تھا گاہے بگاہے گھڑی کو دیکھ رہا تھا جو رات کا ایک بجارہی تھی۔اس کے غضے کا اندازہ ماتھے پر تنی رگوں سے لگایا جاسکتا تھا ۔
ساریہ آگے بڑھی اور اس کے کندھے ہر ہاتھ رکھ کر بولی
“کم ڈاؤن”
اس سے پہلے وہ کوئی جواب دیتا کہ کنزہ اندر داخل ہوئی مشعل کو گود میں لیے اور اس کے پیچھے ارحم بھی تھا۔
ارحم کو دیکھ کر اس کا پارہ اور ہائی ہوگیا۔
کہاں تھی تم اتنی دیر!وہ اس کی طرف لپکا اور اونچی آواز میں چلایا۔
اس کے ایسے ردعمل سے وہ گھبرا گئی ۔
وہ وہ مشعل!!ہاسپیٹل لے کر گئی تھی۔اس نے سہمے ہوئے لہجے میں بولی۔
چٹاخ! ایک زوردار تھپڑ اس کے چہرے پر مارا مصطفی نے۔
باہر سے زوردار بجلی کے چمکنے کی آواز آئی۔
یہ تھپڑ نہیں تھا ایک ضرب تھی جس نے چکنا چور کردیا تھا اس کے مان کو اس کے بھروسے کو اور “شاید” اس کے رشتے کو۔
مصطفی۔۔۔وہ بےیقینی سے اسے دیکھ رہی تھی۔
خبردار!جو اپنی ناپاک زبان سے میرا نام کیا تو کیا چاہتی تھی۔ تھک گئی تھی مجھ سے جو کسی غیر محرم کے ساتھ تعلقات بڑھائے۔
کیوں باپ مرگیا تھا اسکا کیا۔۔۔وہ اسے جھنجوڑ کر پوچھ رہا تھا۔
نہیں میں نے آہکو بہت دفعہ فون ملایا مگر آپکا فون بند تھا اور مشعل کی طبیعت بہت زیادہ خراب تھی اس وجہ سے مجھے جانا پڑا۔وہ روتے کوئے کہہ رہی تھی ۔
ار ارحم تم ہی بتاؤ انہیں۔اس نے نم آنکھوں سے ارحم کو دیکھا جس میں ایک امید چمک رہی تھی
ارحم کے چہرے کے تاثرات سرد تھے ۔ایک گہرا سانس لے کر وہ بولا۔
کنزہ اگر انہیں حقیقت پتا چل ہی گئی ہے تو میرے خیال سے تمہیں بھی کچھ چھپانا نہیں چاہیے۔وہ اس قدر پختہ لہجے میں بولا کہ کنزہ بھی حیران رہ گئی۔
واہ!کیا اداکار ملا ہے مجھے۔ساریہ نے دل ہی دل میں سوچا۔
ارحم ہلکی سی چنگاری لگا کر چلا گیا لیکن وہ اسے پیچھے سے پکارتی رہی۔
ارحم رکو رکو ارحم تم کیعں جھوٹ بول رہے ہو۔ کیا بگارا ہے میں نے تمہارا وہپ اس کے پیچھے بھاگی مگر وہ ظالم بہرا بن کر چلا گیا وہ دوبارہ اندر آئی ۔
مصطفی وہ وہ جھوٹ بول رہا تھا آپکو مجھ پر یقین نہیں میں تو آپکی محبت تھی نہ ۔
مصطفی!!وہ اس کو بلارہی تھی جو اسکو سن نہیں رہا تھا شک کی پٹی اسکی آنکھوں پر اس قدر بندھی یوئی تھی کہ اسے اسکی معصومیت اور بےگناہی نظر نہیں آرہی تھی۔
اوہ جسٹ شٹ اپ کنزہ یہاں کوئی اندھا نہیں ہے سب کی آنکھیں ہیں اور سب دیکھ رہے ہیں۔ساریہ آگے بڑھ کر بولی۔
یو جسٹ شٹ اپ ہمارے معاملات میں مت بولو۔وہ اسکے اس طرح بیچ میں بولنے پر بھڑکی۔
اوہ یو شٹ اپ !وہ بلکل ٹھیک بول رہی ہے اور تم کیوں اس لہجے میں بات کررہی ہو کس نے تمہیں حق دیا ساریہ سے ایسے بات کرنے کا ۔مصطفی زہر خندہ لہجے میں بولا۔
وہ بےیقینی سے اسکی طرف دیکھ رہی تھی کہ اسے ساریہ پر یقین ہے۔ کیااس کے سارے خدشات ٹھیک تھے۔
میں تمہیں ہمیشہ کے لیے اپنی زندگی سے بے دخل کرتا ہو طلاق دیتا ہوں طلاق دیتا ہوں طلاق دیتا ہوں۔وہ کڑک اور نفرت سے بھرپور لہجے میں بولا۔
ایک زوردار بجلی چمکی اور ساتھ ہی موسلادھار بارش شروع ہوگئی۔
کنزہ کو ایسے لگا جیسے کسی نے اس کے ہاتھ پاؤں شل کردہے ہوں ۔
اس کے سامنے کھڑا شخص اس قدر اندھا تھا یا اب اسے اس سے محبت نہیں رہی تھی جو اتنی جلدی شک کی دلدل میں پھنس گیا تھا۔
وہ وہاں سے جا چکا تھا اور ساریہ اس کے پیچھے چل ہڑی۔
اس نے ایک نظر صوفے ہر بیٹھے اپنے باپ کو دیکھا جیسے انہیں کوئی فرق ہی نہ پڑا ہوا ہو۔
اس نے ہمت جمع کرکے اپنی باپ کو مخاطب کیا۔
“بابا”
ایک امید تھی کہ چاہے دنیا ٹکرادے باپ کبھی اولاد کو مہیں ٹکراتے ۔
انہوں نے ایک نظر اٹھا کر اسے دیکھا اور پھر دور کھڑی بت بنی دائمہ کو دیکھا۔
“دائمہ”
انکی پکار سن کر اس نے نظریں اٹھا کر دیکھا۔
دائمہ بیٹا گواہ رہنا میری بیٹی میرے لیے مر گئی ۔مرگئی اب میں صاحب اولاد نہیں رہا۔
انکی بات سن کر کنزہ کو ایسا لگا کہ اسکا دل کسی نے کھینچ لیا ہوگا وہ دوبارہ سانس نہیں لے پائے گی۔
چچا جان میں گواہ ہوں کہ آپکی بیٹی اور میری دوست اب نہیں رہی وہ مرگئی ہے۔
رہی سہی کسر دائمہ کے جملوں نے ہوری کردی۔
“غیروں سے کہا شکوے کریں
جب اپنے ہی غیر نکلیں”
بنایا گیا جب بیچ چوڑاہے پر ہمارا تماشا”
” نظر ا ٹھا کر دیکھا تو تماشائی میرے اپنے تھے”
****************************
دسمبر کی رات اور ساتھ موسلادھار بارش نے ٹھنڈ میں اور اضافہ کیا رات کے آخری پہر میں وہ سڑک پر اکیلے دوماہ کی بچی کے ساتھ تھی اس وقت سب لوگ اپنے گھروں میں ہیٹر جلا کر خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہے تھے اور ایک وہ تھی جو اپنا سائبان چھین جانے کا سوگ منارہی تھی۔
دوماہ کی بچی کو سینے سے لگائے وہ ہر طرح سے اسے مخفوظ کررہی تھی ۔
وہ مکمل طور پر بھیگ چکی تھی۔
یا اللہ! تو ہی کوئی راہ نکال۔اس نے شدت سے اللہ کو پکارا۔
اسے اپنے سر پر ایک مامتا سے بھرپور لمس کا احساس ہوا اس نے اپنا گھٹنوں میں دیا سر اٹھا کر سامنے دیکھا توایک بوڑھی عورت کھڑی تھی۔
کیا ہوا بیٹا ادھر کیوں ایسے بیٹھی ہے۔شفقت سے چور لہجہ اس کو اندر تک رس گھولتا محسوس ہوا۔
گھر نہیں ہے کیا تیرا؟؟؟؟وہ اپنے مٹی سے اٹے ہاتھ جس میں روغن اور فینائل کی بدبو اپنا بسیرا کیے ہوئے تھے ان دونوں بو نے مل کر انکے ہاتھ کی اپنی مہک کو ماردیا تھا اس کے چہرے پر پھیرتے ہوئے بولیں۔
وہ انکی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی جہاں اسے اپنا ٹوٹا ہوا وجود مکمل نظر آرہا ۔۔۔۔۔
بول بیٹا بول مرد کہاں ہے تیرا۔انہوں نے دوبارہ ہوچھا شفقت لہجے میں اور بڑھ گئی۔
میں یتیم ہوگئی ہوں ایک ہلکی سی ہوا نے میرا آشیانہ تتربتر کردیا۔وہ حال دل کھول کر بیٹھ گئی۔
اسکی بات سن کر وہ مسکرائیں۔
پتر جس رب نے تجھ سے لیا وہ بہترین عطا کرے گا ۔
وپ بولی۔
اس سے بہترین کیا ہوگا؟؟اس نے دل میں سوچا۔
پتر ہماری سوچ کا حلقہ بڑا تنگ اور محدود ہے ہم کبھی سوچ نہیں سکتے کہ اَللّٰهُﷻ نے اس سے زیادہ بہترین کیا سوچا ہوگا ۔
تو صبر کر وہ صبر کو ضائع نہیں کرتا
وَاصۡبِرۡ فَاِنَّ اللّٰهَ لَا يُضِيۡعُ اَجۡرَ الۡمُحۡسِنِيۡنَ ۞
ترجمہ:
اور صبر سے کام لو، اس لیے کہ اللہ نیکی کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔
اس صبر کے بدلے کیا پتا تجھے وہ اپنا آپ دے دے جس کے آگے دنیا کی کر چیز پھیکی ہے کیا پتہ تیری یہ آزمائش ایک راستہ ہو اپنے رب سے جڑنے کا۔وہ اسکی سوچ پڑھ کر بولیں۔
اسکی بات سن کر اس کے دماغ میں اپنے کہے کوئے جملے کلک ہوئے
“مجھے اللہ سے اپنا رشتہ جوڑنا ہے ”
بارش تھم چکی تھی ۔بارش کی شدت کے باعث اس کے ہونٹ نیلے ہڑچکے تھے۔
بوڑھی عورت اسے اپنے گھر کے آئی ۔
جس رات کنزہ اس کے ہمراہ اس گھر میں داخل ہوئی تھی اس عورت کا اسی رات انتقال ہوگیا تھا۔
شاید اسکی حیات کا مقصد پورا ہوگیا تھا۔اللہ نے شاید اسے اسی کام کے لیے منتحب کیا تھا اسی لیے تو اپنے آخری سفر پر روانہ ہونے سے پہلے اسکا چہرہ پرنور تھا۔ ۔
****************************
پلکوں کی مُنڈیروں پہ اُتر آتے ہیں چُپ چاپ
غم ایسے پرندے ہیں جو پالے نہیں جاتے
“ماں” وہ یادوں کے تلخ حصے میں گم تھیں جب مشعل کی آواز ان کے کانوں میں گونجی۔
اس کی رس گھولتی آواز پر انکے چہرے پر ایک مدھم سی مسکراہٹ نے رقص کیا۔
اسکی آواز سن کر ہی تو وہ زندگی کی جانب لوٹی تھیں اگر وہ بھی نہ کوتی تو شاید وہ کب کی ہار چکی ہوتی۔
جی میرے گوشئہ جگر۔انھوں نے محبت سے جواب دیا۔
وہ راکنگ چیئر کی پیچھے کھڑی تھی اس کا سر ان کے چہرے پر جھکا تھا۔
ماں کیوں بار بار ماضی کو یاد کرتیں ہیں۔ اس نے پوچھا۔ وہ حقیقت سے واقف تھی۔
“انسان کو اپنا ماضی کبھی بھی نہیں بھولنا چاہیے انسان کا حال اسکے ماضی ہر ہی منحصر ہوتا کے اگر ہم اپنے ماضی کو بھلا دیں گے تو ہم اپنے حال پر متکبر ہوجائیں گے” وہ دھیمے لہجے بولیں ۔
وہ انکے پیچھے سے اسکے سامنے آکر بیٹھ گئی تھی۔
ماں برا نہ مانے تو ایک پوچھو؟اس نے ہچکچاتے ہوئے بولا۔
ہمممم۔وہ مسکرا کر اسکی طرف دیکھ کر بولیں۔
رات کا پہلا پہر اپنے اختتام کو تھا۔آج چودھویں کی رات تھی۔ چاند کی کرنیں کھڑکیوں کے شیشے سے اندر داخل ہورہی تھیں۔کمرے میں کوئی بھی بلب نہیں جل تہا تھا صرف ایک شمع تھی ۔
یہ اس علاقے میں ہمیشہ سے تھا کہ لوڈشیڈنگ کب اور کس ٹائم ہوجائے کسی کو خبر نہیں ہوتی۔۔
شمع اور چاند کی چاندنی مل کر کمرے کو اور سحر انگیز بنا رہی تھیں۔
ماں وہ تو آپ ست محبت کرتے تھے پھر انہوں نے ہقین کیوں نہ کیا آپکا۔اس نے کبھی بھی مصطفی کو باپ نہیں کہا تھا۔
اسکی بات سن کر کنزہ کے چہرے اے مسکراہٹ سمٹی۔
“مشعل !نبھانے والا اورجانے والا ا ایک موقع کی تلاش میں ہوتے ہیں۔مصطفی مجھ سے اکتا گئے تھے تو یہ بات ان کے لیے بہانہ بن گئی اب یہ حقیقت تھی کہ نہیں اس نے انکو کوئی فرق نہیں پڑتا تھا انہیں تو بس مجھے چھوڑنا تھا۔وہ سنجیدہ لہجے میں کہتے ہوئے بولی۔
اس کی بات سن کر مشعل خاموش ہوگئی۔
*************************
اس وقت وہ ائیر پورٹ پر کھڑا اس بڑی سی عمارت کو دیکھ رہا تھا کتنا کچھ بدل گیا تھا ان چند سالوں میں۔
اردگرد کے لوگ اسے عجیب نظروں سے دیکھ رہے تھے اس نے نظریں گھما کر ہوتے ائیرپورٹ کا جائزہ لیا۔
اسے ایک خوف اندر سے کھائی جارہا تھا وہ جس کام کے لیے آیا تھا کیا وہ مکمل ہوجائے گا۔
وہ آنکھیں بند کر کے چند گھنٹے پیچھے چلا گیا ۔
” دیکھیں مسٹر ارحم میں جانتا ہوں آپ اس وقت تکلیف کے کس مرحلے میں سے گزررہیں ہیں یہ وہ بیماری ہے جس میں لوگ اتنی دیر تک سروائیو نہیں کرپاتے آپکا اندر مکمل طور پر ختم ہوچکا ہے۔میں آپکو موت کا انجیکشن تو دے دوں لیکن یہاں تو آپکا کوئی بھی نہیں تو پھر بولیں۔ دیکھیں شاید یہ اللہ کی طرف سے آپکے لیے مہلت ہے اپنے گناہوں کی تلافی کا۔”
پلیز سائید! اس کے کانوں میں آواز پڑی جس کی وجہ سے ہوش میں آیا۔
کیا وہ مجھے معاف کردے گی ؟؟؟اس کے دماغ میں سوال نے جنم لیا۔
دو پرامید نم آنکھیں اسکی نظروں کے سامنے لہرائیں جس میں بستی امید کی اس نے کرچیاں کرچیاں کردی تھیں۔
وہ بھاری ہوتے ہوئے قدموں سے ائیرپورٹ سے اپنی منزل کی جانب گامزن ہوا۔
***””””””*****************
حرفِ تازہ نئی خوشبو میں لکھا چاہتا ہے
باب اک اور محبت کا کُھلاچاہتا ہے
ایک لمحے کی توجہ نہیں حاصل اُس کی
اور یہ دل کہ اُسے حد سے سوا چاہتا ہے
اک حجابِ تہہِ اقرار ہے مانع ورنہ
گُل کو معلوم ہے کیا دستِ صبا چاہتا ہے
ریت ہی ریت ہے اِس دل میں مسافر میرے
اور یہ صحرا تیرا نقشِ کفِ پا چاہتا ہے
یہی خاموشی کئی رنگ میں ظاہر ہو گی
اور کچھ روز کہ وہ شوخ کھلا چاہتا ہے
رات کو مان لیا دل نے مقدر لیکن
رات کے ہاتھ میں اب کوئی دیا چاہتا ہے
تیرے پیمانے میں گردش نہیں باقی ساقی
اور تیری بزم سے اب کوئی اُٹھا چاہتا ہے
وہ اپنی ہی دھن میں گاڑی چلا رہا ہوتا ہے کہ اسکی نظر سامنے کھڑی اپنی دشمن جان پر پڑ تو اس نے وہ ایک دم ٹھٹک گیا ۔
“اففف یہ وین آ کیوں نہیں رہی !وہ کب سے کھڑی بس کا انتظار کررہی تھی خلاف معمول آج یہ سڑک زیادہ خاموش تھی ۔
اچانک دو نقاب ہوش اسکے پاس رکے اور پسٹل اس پر تانی۔
ک کون ہیں آاپ اور کیا چاہتے ہیں؟؟اس نے گھبراتے کوئے ہوچھا۔
فون نکالوں اور پرس دو ۔وہ پسٹل کا رخ اسکی طرف کیے بائیک سے اترتے ہوئے بولے۔
میرمیرے ہاس کچھ نہیں پے پلیز مجھے چھوڑدو۔وہ گھبراتے ہوئے بولی ۔
اے کیا مسئلہ ہے تم دونوں کو اور کیوں ستارہے ہو اس لڑکی کو۔اس سے پہلے وہ کچھ کہتے اس کے پیچھے سے آواز آئی۔
مشعل نے شکر ادا لیا کہ مدد کے لیے مسیحا آیا۔
اے تو کون ہے اور پرائے پھڈے میں کیوں ٹانگ اڑا رہا ۔بہت مہنگا پڑے گا تجھے۔ان میں سے ایک نقاپوش بولا۔
کیا کروگے لوگ ہاں۔وہ جیبوں میں ہاتھ ڈالے پرسکون لہجے میں بولا۔
رک بتاتا ہوں تجھے یہ کہہ کر اس نے ہسٹل کا رخ اسکی طرف کر دیا ۔
یہ منظر دیکھ مع مشعل دو قدم پیچھے ہٹی۔مارے خوف کے اس کے گلے سے آواز آنا بند ہوگئی تھی ۔
زہرام نے اسکے ہاتھ سے پسٹل لینے کی کوشس کی مگر اسی اثنا میں فائر ہوگئے۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...