رات ویران ہے، بہت ویران
آسماں لاش ہے، جلی ہوئی لاش
جس کے سینے پہ چیونٹیوں کی طرح
ایک انبوہ ہے ستاروں کا
رزق چنتے ہیں اور کھاتے ہیں
خامشی سے گزرتے جاتے ہیں
ہائے یہ رات، ہائے ہائے یہ رات
کب بسر ہو گی؟ کیسے گزرے گی؟
کوئی دیکھے مری نظر سے اسے
کوئی چارہ مجھے بتائے مرا
کچھ علاج اس نظر کا؟ کوئی دوا؟
یا پھر آنکھیں ہی نوچ لے میری
ہے مسیحا کوئی؟ طبیب کوئی؟
کون میرے علاوہ دیکھے گا؟
جو مری آنکھ پر بھی ہے دشوار
غم کی عظمت کو کون پہچانے؟
چھوڑ کر زندگی کا کاروبار
کسے فرصت کہ آنکھ اٹھائے ذرا
شب کی ویرانیوں کا نوحہ لکھے؟
آسماں کا جنازہ پڑھ ڈالے؟
اور ستاروں کا راستہ روکے؟
کسے فرصت ہے مجھ سے بات کرے؟
میری آنکھوں میں جھانک کر دم بھر
مجھ سے پوچھے کہ میں نے کیا دیکھا؟
بھری دنیا میں کون دیدہ ور؟
کون رکھتا ہے میری جیسی نظر؟
کون پوچھے کہ میں نے کیا دیکھا؟
غم کی عظمت کو کون پہچانا؟
کسے فرصت کہ مجھ کو پہچانے؟
۲۶ اگست ۲۰۱۶ء