کچھ آدهے گهنٹے بعد خوشی کے ساتھ ساتھ غم کی خبر ملی کہ ارمنہ تو وفات پاگئی مگر اسکی بیٹی ہوئی تهی-
خوشی اور غم کی ملی جلی کیفیت تهی-
ارمنہ کی ڈیڈ باڈی لے کر ارمغان اپنے گهر آگیا-ارسل نے ارمنہ کی ڈائری سے نمبر دے کر اپنے بڑے بہن بهائیوں کو بهی بلوالیا-
وہ سب بهی آگئے اور میت کو کاندها دیا-آج ارمغان کو بہت کچھ یاد آیا-ہر وہ دن جب ارمنہ نے اسکے منہ سے نکلتے ہی بات پوری کی-
♡ ♡
وہ دن جب ارمنہ نے اس پر پانی پهینکا پانی دینے والی کوئی اور نہیں میرب ہی تهی-ارمغان کی محبت اس کوپریشان کرنے کو ہی تو اس نے بے ہوش ہونے کا ڈرامہ کیا-جس کا فلاپ سین ارمنہ نےآ کےکیا-وہ جان گئی تهی کہ وہ یہ سب ڈرامےکررہاہے-
پهرجب وہ اسکوریستوران کهانےپرلےکرگیا-تب وہ اسکومیرب سےاپنی محبت کی بابت ہی بتاناچاہتاتها-
مگراس دوران اسےارمنہ کے پیچهےجاتےجاتےاچانک میرب نظرآئی جس کے بالکل پاس ایک گاڑی آ کر اس کو کچلنے والی تهی-ارمغان نے اسے اپنی طرف کهینچ کر بچایا-جبکہ ارمنہ یہ منظر دور کهڑے دیکھ رہی تهی-اس دن کے بعد اس نے ارمغان سے ملنا اور بات کرنا چهوڑ دیا-وہ بلاتا تو ہوں ہاں میں جواب دے دیتی-
پهر ارمنہ کی رخصتی کی بات چل نکلی ارمنہ بہت خوش تهی کہ اب وہ ہمیشہ کے لئے اسکے پاس چلی جائے گی-
مگر شومئی قسمت کہ وہ خوشی بهی چند لمحوں کی مہمان نکلی-
آخری پریکٹیکل سے ایک رات قبل ارمنہ کے لئے ارمغان کا فون آیا-جس نے اسکی ساری خوشیاں تباہ کر دیں-
“السلام علیکم، ارمنہ!”ارمغان کی آواز آئی-
“ہاں ارمغان بولو؟”اس نے پوچها-
“ارمنہ، تم سب جانتے ہوئے بهی کیسے مجھ سے شادی کر سکتی ہو؟”اسکا انداز بہت عجیب تها-
“کیا مطلب ہے تمہارا، ارمغان؟
ہمارا نکاح بچپن میں ہوا تها اور یہ طے ہوا تها کہ پڑهائی مکمل ہونے کے بعد رخصتی ہو گی-“وہ بولی-
کونسا نکاح؟ میں کسی ایسے نکاح کو نہیں مانتا-اور ایک بات اپنے دماغ میں بٹها لو میں تم سے شادی نہیں کروں گا اور تمہاری شادی بہت اچهیجگہ کروائوں گا-اپنی کلاس کا احمد تم سه شادی کرنا چاہتا ہے اوروہ رشتے کے لئے اپنے ماں باپ کو بهیج رہاہے-” اس نےبول کر کهٹ سے فون بندکردیا-
وہ کافی دیر گم صم کهڑی رہی-
پهر اس نے مشعل کوسب بتا دیا اسکی بهی وہی کیفیت تهی جو ارمنہ کی تهی- پهر اس کے بہت منع کرنےکےباوجوداس نے اشعر صاحب سے بات کی-
♡ ♡
جب وہ انکےپاس گئی تو وہ بزنس میں خسارے کے باعث بے تحاشہ پریشان تهے-اس نے جب یہ سب انکے گوش گزار کیا تو وہ یہ سب برداشت نہ کر سکے اور انکا ہارٹ فیل ہو گیا-اس دن حیات کے دل میں اس کے لئے نفرت کا بیج بویا گیا جو کہ آٹھ برس بعد ایک تناور درخت بن چکا تها-
تب تک مشعل شادی ہو کر بیرون ملک رہائش پزیر تهی اور زیغم اپنے بیوی بچوں کے ساتھ الگ رہتا تها-یہ گهر مرتے ہوئے اشعر صاحب نے حیات کے نام کر دیا تها-
جو کہ اب یہاں اپنے میاں اور دو بچوں کے ساتھ رہتی تهی-
♡ ♡
اپنی بڑی بہن سے ملنے کا اشتیاق تو حیات کو بھی تھا مگر جو سب کچھ ہوااسکےبعدوہ چاہ کےبھی مل نہ پائی-کیونکہ وہ ارمنہ کو اپنے باپ کاقاتل مانتی تھی-
جس دن ارمنہ اس گھر سےدخصت ہوئی-اشعرصاحب کودوسراجان لیوا ہارٹ اٹیک ہوااوروہ بیٹی کے غم کو سینے سے لگائےچل بسے-
شایدوہ اسکی بےبسی کومحسوس کر چکے تھےکہ وہ بےگناہ ہےاورکسی اورکے لئے جھوٹ بول رہی ہے-
☆♡☆♡☆♡☆
ارشد صاحب کی تمام اولاد بہت فرمانبردار تھی-انھوں نےارمنہ کو حقیقتا”ماں کا درجہ دیا-ہر کام میں اسکی رائےلی جاتی-پھرجووہ مشورہ دیتی اس پربغیر کسی پس و پیش عمل کیاجاتا-
ارمنہ کے ساتھ بہت اچھا وقت گزر رہا تھامگرشاید قدرت کوارمنہ کاابھی اورامتحان مقصودتھا-
ایک روز اچانک ادشدصاحب سوئے میں ہی دل کادورہ پڑنے سےانتقال کرگئے-
ارمنہ نے عدت پوری کرکےاپنےگھرجانے کوترجیح دی-سب نےاسےروکاکہ یہاں ہی رہیں-یہ آپکا گھرہی ہے-مگروہ اپنے باپ سےمعافی مانگنےکی غرض سےوہاں سےچلی آئی-مگرقدرت نےیہ موقع بھی اس سےچھین لیا-
☆♡☆♡☆♡☆
ارمنہ کی میت کو جب گھرلایاگیاتو حیات بھی وہاں آئی-بہن کی میت دیکھ کر آنسو آئے مگرخاموشی سے وہاں سےاٹھنےلگی-
“خالہ!”ارسل نےاسےپکارا-
وہ پیچھےمڑیت تووہ لپک کراسکے سینے سےلگ گیااوررونےلگا-
“خالہ!امی آپکوبہت یادکرتی تھیں آپکی باتیں بتایاکرتی تھیں کہ بچپن میں آپ کتنی شرارتیں کرتی تھیں-خالہ ہمیں اپنےساتھ اپنےگھرلےجائیں ہم یہں نہیں رہ سکتے-پلیزخالہ امی نے کہا تھا-اگرمجھےکچھ ہوجائےتواپنی خالہ کےپاس چلےجانا-خالہ پلیزہمیں لے جائیں-“وہ روتےہوئےاس سےکہےگیا-
“نہیں،نہیں لےجاسکتی تم لوگوں کو کیونکہ میں اپنےباپ کی قاتلہ کےبچے نہیں پال سکتی-“یہ کہہ کروہ وہاں سےچلی گئی-
ارمغان اس سےیہ بھی نہ کہہ سکاکہ ایسے مت بولوکہ اسکاکوئی قصورنہیں تھا-
☆♡☆♡☆♡☆
“ارمغان!”ارمنہ بولی-
“ہاں بولوکام ہوگیا؟”اس نےپوچھا-
“ہاں اب تم شادی کر سکتےہواپنی مرضی سے-“اس نےجواب دیا-
“بہت،بہت شکریہ،دیکھنامیں تمہاری کتنی اچھی جگہ شادی کرواتا-آج سے تم میری طرف سے آزاد ہواس بندھن سے-“وہ پرجوش لہجے میں بولا-
ہاں،مگرتمہیں اس زحمت کی ضرورت نہیں ہے-بس میراایک کام کرنا-“وہ بولی-
“ہاں بولو-جوکہو گی اب میں وہ کرونگا-“وہ بولا-
“ارمغان،تم ساری زندگی یہ راز نہیں کھولو گے کہ یہ طلاق تمہارے کہنے پر لی ہے چاہےکچھ بھی ہو جائےتم یہ راز راز ہی رہنے دوگے-“وہ بولی-
“ہاں،ہاں ٹھیک ہے-یہ راز ہی رہے گا-“وہ لاابالی شخص آج بھی یہ سوچ نہ سکا کہ اب بھی وہ اس پر احسان کر رہی تھی-
یہ کہہ کر اس نےفون بند کردیااور ارمنہ گھٹنوں میں سر دئے روتی رہی-وہ اس وقت ابھی اپنےباپ کو اسپتال لے جانےلگی تھی-اسی لئےجلدی جلدی اٹھ گئی-کیونکہ حیات زیغم کو نیچے لا رہی تھی-
☆♡☆♡☆♡☆
جب اسکی میت لے جانےلگے تو ارمغان بہت رویا-وہ اس سے معافی مانگنا چاہتا تھا مگر اب وقت گزرگیاتھا-اور وقت کب،کہاں اورکس کے لئےرکتاہے-وقت کا کام ہےاڑجانا-جو وہ پر لگا کہ اڑ جاتا ہے-
وہ وہاں بے ہوش ہو گیاتھا-مگر جب اسکو ہوش آیا تو ارمنہ کودفنایاجاچکا تھا-
‘اےاللہ!تو نےمجھےاس قابل بھی نہ سمجھاکہ میں اس کی میت کو کاندھا ہی دے سکوں-‘اس نےسوچا-مگر اب کیا ہوسکتا تھا-
☆♡☆♡☆♡☆
ارمنہ کےبچوں کو فہیم اور اسکی بیوی اپنے ساتھ لے گیا-وہ ان کو روک بھی نہ سکا-کس حق سےروکتا-وہ وہاں سے جا کراپنا تعلیمی سلسلہ دوبارہ شروع کر چکے تھے-
☆♡☆♡☆♡☆
جب ارسل تھوڑا بڑا ہواتو ایک دن وہ اپنی ماں کی چیزیں دیکھنے لگا-ان چیزوں میں اسکو اپنی ماں کے ہاتھ کی لکھی ڈائری مل گئی-
اس ڈائری سے اسے معلوم ہوا کہ اسکی ماں ایک ڈاکٹر تھی-وہ بہت حیران ہوا کیونکہ اسکی ماں نےکجا کسی نے بھی کبھی اسکونہیں بتایا تھا کہ اسکی ماں ڈاکٹر تھی-
اس ڈائری میں اس نے تمام حقائق سے پردہ اٹھایاہواتھاکہ اسکی زندگی میں کیا کیا حالات و واقعات رونما ہوئے-اور کیوں حیات اس سے اتنی نفرت کرتی تھی-اس دن اس نے تہیہ کرلیاوہ یہ تمام حقائق سب کے سامنے لائے گا-چاہے اسے اسکے لئے کچھ بھی کرنا پڑے-
☆♡☆♡☆♡☆
“ارسل! جاءو ذراآرام کرلوتمہارے بھائی اب ٹھیک ہیں-میں دیکھ لوں گی انھیں-کب سےتم یونہی جاگ رہے ہو-سوئے ہی نہیں-“فہیم کی بیوی طیبہ بولی-
“نہیں بھابھی میں ٹھیک ہوں-آپ آرام کریں آپ بھی توابھی تک جاگ رہی ہیں-“وہ اپنائیت سےبولا-
“میرےشہزادےصبح تم نےیونیورسٹی بھی جاناہے-تھک گئےتوجاگ نہیں پاءو گے-جاکرآرام کرلوتھوڑاسا-“وہ بولیں-
“ہاں ارسل تم جاکراب آرام کرومیں ٹھیک ہوں-بیماریاں توبڑھاپےکاحصہ ہوتی ہیں-“اب کہ فہیم صاحب بولے-
“کون بوڑھاکہہ رہا آپ کوآپ تو بس ابھی 45 سال کے ہیں-یہ بھی کوئی بوڑھے ہیں-“وہ اٹھتےہوئےبولا-
“چلیں اب آپ لوگ آرام کریں میں بھی سونےکی کوشش کرتاہوں اگرنیند آجائے-“اب وہ باہرآگیا-
کمرےمیں آکر سیدھاوہ ٹیرس میں گیا-اس خنک موسم میں بھی کھڑےہو کر اسکو ٹھنڈک محسوس نہیں ہو رہی تھی کیونکہ اسکےاپنےاندر آگ کا الاءو جل رہا تھا-
جب اندر کاموسم اچھا نہ ہوتوباہرکی بہار بھی خزاں جیسی لگتی ہے-
وہ بھی اپنےباہرکےموسم سےبےپرواہ اپنی اندرکی آگ کو بجھانےکی کوشش کر رہاتھا-
☆♡☆♡☆♡☆
“ارسل!۔۔۔ارسل!۔۔اٹھ جاءو یونیورسٹی نہیں جانا-بھابھی کب سےنیچےناشتے پرتمہاراانتظار کر رہی ہیں اورتم ہوکہ اٹھ ہی نہیں رہے-“اب کہ علوینہ نے اسکا کمبل کھینچ کر اتارامگربےسود- ارسل بے ہوش پڑا تھا-
علوینہ دوڑ کرنیچےسے بھائی بھابھی کو بلالائی-فہیم نے اسکابخاردیکھاتو 103 پرپہنچاہواتھا-
انھوں نےتیزی سےڈاکٹرعارف کوفون ملایااور انکوگھربلایا-
“اس نے کسی بات کی بہت زیادہ ٹینشن لی ہے-جسکی وجہ سےاسکی یہ حالت ہوئی ہے-“ڈاکٹر عارف نےبتایا-
“مگرایسی کوئی بات بھی نہیں ہوئی کہ وہ اسطرح کی حالت میں آئے-“طیبہ بولیں-
“بھابھی!آج امی کی برسی ہے-“علوینہ بولی-
اتنےسال گزرنےکےبعدبھی جب ارمنہ کی برسی ہوتی-اسکی یہی حالت ہو جاتی تھی-وہ حد سےزیادہ حساس ہو گیاتھا-
“میں اسکےلئےکھچڑی بناتی ہوں-تم کالج کےلئےتیارہوجاءو تمہارےبھیا تمہیں چھوڑ آئیں گے-“وہ پیاربھرے لہجےمیں بولیں-
وہ اٹھ کرتیارہونے چلی گئی-
واپسی پرگھرمیں قرآن خوانی کروائی گئی-اوراس میں محلےداراورگھروالے شامل تھے-جبکہ ارمنہ اورارسل کےخاندان میں سے کوئی شامل نہ تھا-ان 12سالوں میں ہمیشہ یونہی ہوتاآیا تھا-نہ کوئی یہاں سےوہاں گیا-نہ ہی کوئی وہاں سے آیا-
☆♡☆♡☆♡☆
اگلےدن جونہی ارسل یونیورسٹی پہنچا وہ دوڑ کر اس کےپاس آئی-مگر ارسل اسکی طرف دیکھےبغیر آگےبڑھ گیا-
یہ اسکے لئے پریشان کن بات تھی-کیونکہ آج سے پہلےکبھی ایسانہیں ہوا تھا-
“ارسل!کیا ہوا؟تم کل یونی بھی نہیں آئے-اور آج آئےتویہاں آگئےمیری طرف دیکھا بھی نہیں تمہیں میری پریشانی کا کوئی اندازہ نہیں ہے-“وہ پریشان کن لہجے میں بولی-
“تمہیں میرےلئےپریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں اوکےاب میرارستہ چھوڑو-“ارسل اسےچھوڑ کر وہاں سے چلا گیا-وہ گم صم اپنی غلطی تلاش کرتی رہ گئی-
‘شاید اسے بچپن کےنکاح والی بات کا غصہ ہے-‘اس نے سوچا-
“منا لوں گی اسکو-کوئی بات نہیں-“وہ بول کر آگے بڑھ گئی-
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...