دوپہر تک حویلی میں ایک رونق کا سما تھا، ضیغم کی تینوں بہنیں اپنے شوہر اور بچوں کے سمیت حویلی میں موجود تھی۔۔۔ اور وہ تینوں ہی روشانے سے بہت اچھی طرح ملیں،، توقع کے برخلاف کشمالا کافی خاموش تھی،، یقیناً فیروز جتوئی نے اُسے سختی سے وارننگ دی ہوگی۔ ۔۔ روشانے اُن سب کے درمیان اپنے آپ کو بالکل تنہا محسوس نہیں کر رہی تھی اسے صرف الجھن دلاویز کے شوہر جاوید کی نظروں سے ہو رہی تھی جو بہت عجیب طریقے سے اُسے دیکھ رہا تھا مگر تھوڑی دیر بعد ہی ضیغم نے اُسے کمرے میں جاکر آرام کرنے کو کہا۔۔۔ شاید ضیغم اُس کی الجھن بھانپ گیا تھا یا پھر جاوید کی نظروں کو،، ضیغم اُس سے کل رات والی بات پر ابھی تک ناراض تھا جبھی وہ اپنی بہنوں سے ہنس کر بات کر رہا تھا مگر روشانے کی ایک دو باتوں کا جواب اُسے نارمل انداز میں دیا تھا وہ الگ بات تھی وہ اپنی اور روشانے کی ناراضگی کا کسی دوسرے کو محسوس نہیں ہونے دے رہا تھا
رات میں کھانے کے بعد سب واپس جا چکے تھے اب ڈرائنگ روم میں صرف شمشیر جتوئی فیروز جتوئی کشمالا اور ضیغم موجود تھے تو روشانے سب کے لیے قہوہ بنا کر ڈرائنگ روم کے اندر داخل ہوئی تب کشمالا کی آواز اُس کے کانوں میں پڑی
“تو پھر کیا سوچا ہے تُو نے پلورشہ کی نند کے بارے میں۔۔۔ اپنی رضامندی دے تاکہ میں پلورشہ کے سُسرال جا کر باقاعدہ رشتے کی بات کر سکوں،، واپس شہر جانے سے پہلے یہ معاملہ حل کر کے جانا ہے تجھے”
کشمالا یقیناً ضیغم سے مخاطب اُس کی بات کا مفہوم سمجھ کر روشانے کے ہاتھ میں لرزرش ہوئی، وہ جو کشمالا کی طرف قہوہ دینا چاہ رہی تھی گرم قہوہ کشمالا کے پاؤں پر چھلک پڑا
“ہائے جلا دیا اِس بدبخت نے میرا پاؤں، اب تو میں تجھے بالکل نہیں چھوڑوں گی”
کشمالا روشانے کو کوسنے لگی اِس سے پہلے وہ اٹھ کر روشانے کی درگت بناتی، ایک دم ضیغم صوفے سے اُٹھ کر غُصے میں روشانے کے پاس آیا
“کوئی کام تمہیں سیدھا کرنا آتا ہے کہ نہیں، فوراً جاؤ اپنے کمرے میں”
ضیغم روشانے کے ہاتھ میں موجود قہوے کی ٹرے کو ٹیبل پر رکھتا ہوا روشانے کا بازو پکڑ کر اُسے کمرے کے دروازے تک لایا اور کمرے سے نکلنے کے لیے کہا۔۔۔ روشانے تیز قدموں سے سیڑھیاں چڑھتی ہوئی بیڈ روم میں جا پہنچی
روشانے کو اندازہ تھا ضیغم اُس پر غصّہ نہیں کرتا یا کمرے سے نہیں نکالتا تو کشمالا کو اُسے مارنے کا جواز مل جاتا۔۔۔ روشانے ضیغم کا بیڈ روم میں پہنچ کر اس کے آنے کا انتظار کرنے لگی
****
آج کا دن اُس کا کافی مصروف گزرا تھا اپنی بہنوں کے ساتھ وقت گزار کر اُسے کافی اچھا محسوس ہو رہا تھا۔۔۔ وہ روشانے سے ابھی تک کل والی بات پر ناراض تھا اِس کے باوجود اُسے کشمالا کا روشانے کو حراساں کرنا بالکل اچھا نہیں لگ رہا تھا۔۔ ضیغم جانتا تھا پلورشہ کی نند سے رشتے والی بات سن کر روشانے ایک دم پریشان ہو گئی تھی۔۔۔ اُس سے پہلے کشمالا کسی سخت رد عمل کا اظہار کرتی ہے ضیغم نے غصّے کا اظہار کر کے خود اُسے کمرے سے نکال دیا۔۔۔ روشانے کے وہاں سے جانے کے بعد اُس نے صاف لفظوں میں سب کے سامنے کشمالا کو کہہ دیا تھا کہ وہ دوسری شادی میں دلچسپی نہیں رکھتا وہ روشانے کے ساتھ مطمئن اور خوش ہے
اِس وقت ضیغم کشمالا کے اسرار پر اپنے کمرے میں جانے کی بجائے اُسی کے کمرے میں موجود لیپ ٹاپ پر مصروف تھا تب اُس کے موبائل پر روشانے کا میسج آیا۔۔۔ ایک نظر اُس نے سوتی ہوئی کشمالا پر ڈال کر اپنا موبائل اٹھایا
“سائیں پلیز اپنے کمرے میں آئے ضروری بات کرنی ہے آپ سے”
ضیغم میسج پڑھتے ہی لیپ ٹاپ سے توجہ ہٹا کر روشانے کو رپلائی کرنے لگا
“خاموشی سے چپ کر کے سو جاؤ میں بزی ہوں اِس وقت”
روشانے کو میسج سینڈ کر کے اُس کا دھیان روشانے کی طرف جا چکا تھا، اب اُس کام میں دل نہیں لگتا اِس لیے وہ لیپ ٹاپ بند کر کے کمرے میں موجود بالکونی میں کھڑا ہو کر اسموکنگ کرنے لگا۔۔۔ نہ چاہتے ہوئے بھی روشانے کے میسج کا انتیظار کرنے لگا جیسے ہی میسج ٹون بجی تو وہ میسج چیک کرنے لگا
“سائیں اگر آپ کمرے میں نہیں آئے تو میں ساری رات روتی رہو گی” روشانے کا میسج پڑھنے کے بعد ضیغم کی بھنویں تنی
“مجھے تمہارے رونے سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا روتی رہو ساری رات”
میسج سینڈ کرنے کے بعد پندرہ منٹ گزر چکے تھے مگر روشانے کا دوبارہ میسج نہیں آیا تو ضیغم کو بےچینی ہونے لگی
“بے وقوف لڑکی شاید رونے ہی بیٹھ گئی ہے سچ میں”
وہ بڑبڑا کر سگریٹ کا ٹکڑا پھینکتا ہوا سوتی ہوئی کشمالا پر نظر ڈال کر کمرے سے باہر نکل گیا
****
“جب میرے رونے سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا تھا تو کیوں آئے پھر یہاں پر”
بیڈ روم میں ضیغم کو داخل ہوتا دیکھ کر روشانے کمرے کا دروازہ بند کرتی ہوئی اُس سے شکوہ کرنے لگی مگر وہ خوش تھی اُس کا یقین رائیگاں نہیں گیا اُس کا سائیں اُس کے بلانے پر آگیا تھا
“کام کی بات کرو جس کے لئے تم نے مجھے یہاں بلایا ہے”
ضیغم اس بات کو نظر انداز کرتا ہوا سنجیدہ لہجے میں بولا تو روشانے چلتی ہوئی اُس کے پاس آئی
“مامی کے سامنے اسموکنگ کر رہے تھے آپ۔۔۔ یہ کوئی اچھی بات تو نہیں ہے”
اپنا چہرہ ضیغم کے چہرے کے نزدیک لاتی ہوئی،، وہ اُس کی سانسوں سے اٹھتی سگریٹ کی خوشبو کو محسوس کرتی بولی
“کام کی بات کرو کیوں بلایا ہے مجھے”
ضیغم دوبارہ اپنی بات دہراتا ہوا بولا شال میں لپٹی ہوئی اپنی بیوی کو دیکھنے لگا جس نے اپنے بالوں کو چٹیاں کے انداز میں بل ڈال کر ایک طرف کاندھے سے آگے کیا ہوا تھا
“کام کی بات یہ ہے کہ میں کافی دیر سے آپ کا انتظار کر رہی تھی کمرے میں کیوں نہیں آرہے تھے آپ”
وہ خفا خفا سی خاص بیویوں والے انداز میں ضیغم سے پوچھنے لگی
“عادت ڈال لو کبھی کبھی اکیلے رہنے کی، کیونکہ جب دوسری آجائے گی تو اکثر ایسا ہوا کرے گا”
ضیغم نے جتنی سنجیدگی سے یہ جملہ ادا کیا روشانے اُس کو گھور کر دیکھنے لگی
“ایک بیوی پر گزارا نہیں ہو رہا آپ کا”
وہ اب برا مانتی ہوئی ضیغم سے پوچھنے لگی
“میں تو سادہ سا بندہ ہوں ایک بیوی سے ساری زندگی کام چلا سکتا ہوں۔۔ لیکن اگر بیوی ہی شوہر کی چاہت کی طلبگار نہ ہو اور اُسے بلاوجہ کے نخرے دکھائے۔۔۔
ضیغم کا جملہ ابھی مکمل بھی نہیں ہوا تھا کہ اچانک روشانے نے ضیغم کے دونوں گالوں پر اپنے ہاتھ رکھ کر اُس کے ہونٹوں پر بے حد آہستگی سے اپنے گلابی ہونٹ رکھ دیے۔۔۔ وہ ایسا کر کے ضیغم کو اپنی چاہت کا بتانا چاہتی تھی اور ساتھ ہی اس کی ناراضگی بھی دور کرنا چاہتی تھی
جبکہ دوسری طرف ضیغم روشانے کے اِس اقدام پر اچھا خاصا حیرت ذدہ ہوا تھا شادی کے ایک ماہ گزرنے کے باوجود اُس نے یہ بے باک مظاہرہ آج سے پہلے کبھی نہیں کیا تھا۔۔۔ روشانے اپنے اِس عمل پر اب خود بھی جھجھک کر پیچھے ہٹنے لگی تبھی ضیغم نے اُس کی کمر کے گرد اپنے بازو حائل کرتے ہوئے دوبارہ اُسے خود سے نزدیک کیا۔۔۔ اب کی بار وہ روشانے کے ہونٹوں کو قید کر چکا تھا،، جب ضیغم کی گرفت میں نرمی آئی تو روشانے اُس سے دور ہوئی
“پھر آگے کیا ارادہ ہے اب”
ضیغم اُس سے خوشگوار موڈ میں پوچھنے لگا جبکہ روشانے جُھکی ہوئی پلکوں کو اٹھا کر اُسے دیکھنے لگی
“اب آپ مامی کے کمرے میں واپس چلے جائیں”
روشانے اُس کی ناراضگی ختم کر چکی تھی اِس لیے مسکراہٹ چھپاتی ہوئی بولی
“سچ میں چلا جاؤں واپس”
ضیغم سنجیدہ ہو کر روشانے سے پوچھنے لگا۔۔۔ تو روشانے بیڈ کی طرف قدم بڑھاتی ہوئی بیڈ پر جا کر بیٹھ گئی
“جا کر دکھائیں”
روشانے نے بولتے ہوئے اپنے گرد لپٹی ہوئی شال اُتار کر ایک طرف رکھی۔۔۔ اُسے نائٹی میں دیکھ کر ضیغم نے مسکراہٹ چھپاتے ہوئے بھنویں اچکائی،، یہ نائٹی ضیغم ہی اُس کے لئے لے کر آیا تھا لیکن اُس کا استعمال روشانے آج پہلی بار کر رہی تھی۔۔۔ روشانے ضیغم کو دیکھ کر بالوں میں ڈلے چٹیا کے بل کھولنے لگی جس پر ضیغم زور سے ہنستا ہوا اُس کے پاس آیا
“سارے طریقے آتے ہیں تمہیں ناراض شوہر کو منانے کے”
وہ اپنی ٹی شرٹ اتار کر روشانے پر جُھکتا ہوا اُس سے پوچھنے لگا
“مامی کی شادی والی شرط پر آپ انہیں منع کر دیئے گا سائیں”
وہ بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی، ضیغم کو اپنے اوپر جھکتا ہوا دیکھ کر سنجیدگی سے بولی۔۔ کشمالا کی طرف سے اسے عجیب ڈرکا لگا رہتا تھا
“یار وہ ماں ہیں میری، اُن کا حکم تو نہیں ٹال سکتا۔۔۔ دوسری والی یہی رہے گی حویلی میں تمہیں ٹینشن لینے کی ضرورت نہیں ہے”
ضیغم اُسے چھیڑنے والے انداز میں بولا مگر روشانے بالکل سیریس ہو کر اُسے دور ہٹاتی ہوئی خود اُٹھنے کی کوشش کرنے لگی
“یار پندرہ دن تمہارے پاس گزار کر،، صرف دو دن کے لیے اُس بے چاری کے پاس آیا کروں گا اب تو ٹھیک ہے نا”
روشانے کو واپس لٹاتا ہوا وہ روشانے کا سیجیدہ چہرہ دیکھ کر اُس سے بولا۔۔۔ تو روشانے کی آنکھوں میں نمی بھرنے لگی،، جسے چھپانے کے لئے روشانے نے اپنے چہرے کا رخ تکیہ کی طرف کر لیا
“آوئے میں مذاق کر رہا تھا۔۔۔ روشی یہاں دیکھو میری طرف۔۔۔ تمہیں لگتا ہے تمہارا سائیں ایسا کر سکتا ہے”
وہ روشانے کا چہرہ تھام کر اُس کا رخ اپنی طرف کرتا ہوا پوچھنے لگا
“تو ایسے مذاق میں بھی مت بولیے گا۔۔۔ میں کبھی بھی برداشت نہیں کرسکتی آپ کو کسی اور کے ساتھ دیکھ کر۔۔۔ بھلے ہی زندگی میں مجھ سے کتنا ہی خفا ہو جائیں مگر یہ ظلم مجھ پر کبھی مت کیجئے گا سائیں”
روشانے بالکل سنجیدہ ہوگئی تھی۔۔۔ ضیغم نے باری باری اُس کی آنکھوں کو چومتے ہوئے روشانے کو اپنے حصار میں قید کیا
“میں ایسا کبھی بھی نہیں کر سکتا تم ہمیشہ میرے پاس رہنا۔۔۔ چاہے کچھ بھی ہوجائے کبھی بھی مجھے سے دور مت جانا”
ضیغم اُس کے کانوں میں سرگوشی کرتا ہوا اُس کی گردن پر جُھک چکا تھا۔۔۔
روشانے نے اطمینان سے اپنی آنکھیں بند کرلی۔۔۔ وہ خود بھلا کہاں اس سے دور رہ سکتی تھی،، کسی خیال کے تحت روشانے نے آنکھیں کھولی سامنے بالکنی کے بند دروازے اور کھڑکی پر ڈھکے پردے پر اپنی نظر ڈالی۔۔۔ اُس نے کمرے میں آنے کے بعد پہلا کام ہی یہ کیا تھا
ضیغم کی بڑھتی ہوئی شدتوں پر اُس کا دھیان دوبارہ اپنے شوہر کی طرف چلا گیا۔۔۔ وہ روشانے کو اپنے حصار میں لے کر مکمل طور پر اُس پر قابض ہو چکا تھا۔۔۔ روشانے بھی ان لمحات میں اپنا آپ، اپنی سوچیں صرف اپنے سائیں کے نام کرنا چاہتی تھی۔۔۔ ضیغم کے گرد اپنے بازوؤں کا حصار بنا کر اُس نے سکون سے آنکھیں موند لی
****
رات کا آخری پہر تھا جب روشانے کی آنکھ کُھلی اُس کے پہلو میں ضیغم بے خبر سو رہا تھا۔۔۔ ماحول میں خنکی کو محسوس کر کے روشانے نے کمفرٹر ضیغم کے اوپر ڈالا کیونکہ اُس کی شرٹ روشانے کی شال کے پاس پڑی ہوئی تھی۔۔۔ روشانے بیڈ سے اٹھ کر کپڑے چینج کرنے واشروم چلی گئی۔۔۔ واپس آکر بالوں کا جوڑا بناتی ہوئی وہ دوبارہ لیٹنے لگی تب اُسے بالکونی میں کسی کے کودنے کی آواز آئی۔۔۔ بالکونی کا بند دروازہ دیکھ کر خوف سے اُس کی آنکھیں پھیلنے لگیں۔۔ اُس نے فوراً مڑ کر ضیغم کی طرف دیکھا جو کہ بے خبر سو رہا تھا۔۔۔ دروازے کا ہینڈل ہلکا سا گھوما تو اُس کے پورے جسم میں سنسنی سی پھیل گئی۔۔۔ اِس سے پہلے دوبارہ ہینڈل گھما کر دروازہ کھولنے کی کوشش کی جاتی وہ ہمت کرتی ہوئی خود دروازے کا لاک کھولنے لگی۔۔ جیسے ہی روشانے نے بالکونی کا دروازہ کھولا ویسے ہی کسی نے اُس کا ہاتھ پکڑ کر اسے بالکونی میں کھینچا
****
رات کا آخری پہر تھا تب کشمالا کی آنکھ کھلی ضیغم کو کمرے میں موجود نہ پا کر وہ بیڈ سے اٹھ کر کمرے سے باہر نکلی چاروں طرف اندھیرا ہونے کی وجہ سے اسے کچھ دکھائی نہیں۔۔۔ ضیغم کے کمرے پر نظر ڈال کر وہ واپس اپنے کمرے میں آگئی۔۔۔ رات میں سناٹے کے باعث سرگوشی کی آواز پر وہ چوکنا ہوئی،، خیال آنے پر کشمالا نے اپنی بالکنی کا رخ کیا۔۔۔ ایک قدم ہی اس نے بالکنی میں رکھا تھا وہ دوبارہ پیچھے ہوئی اور پردے کی آڑھ سے ضیغم کی بالکنی میں دیکھنے لگی۔۔۔ وہ روشانے کو تو پہچان چکی تھی مگر اُس سے باتیں کرتا ہوا وجود ضیغم ہرگز نہیں تھا۔۔۔ کشمالا حیرت اور بے یقینی سے اُن دونوں کو دیکھنے لگی۔۔۔ سخت پہرا ہونے کے باوجود یہ آخر کون تھا جو حویلی کے اندر آنے کی جرات کر سکتا تھا۔۔۔ روشانے اب واپس کمرے میں جا چکی تھی جبکہ وہ شخص جنگلے پر چڑھنے کے بعد پائپ پر چڑھتا ہوا حویلی کی چھت کے اوپر چڑھنے لگا۔۔۔ کشمالا تیزی سے اپنے کمرے سے نکلتی ہوئی۔۔۔ حویلی کے پچھلے حصے میں موجود برآمدے میں پہنچی۔۔۔ جہاں سے وہ اپنی چھت کا تھوڑا بہت حصہ دیکھ سکتی تھی۔۔۔ وہ جو کوئی بھی تھا چھت پر سے چھلانگ لگاتا ہوا دوسرے گھر کی چھت پر کودا۔۔۔ یقیناً وہ شخص حویلی میں آیا بھی اِسی راستے سے ہوگا۔۔۔ کشمالا کا ارادہ ضیغم کے کمرے میں جاکر روشانے سے بات کرنے کا تھا مگر کچھ سوچ کر وہ اپنے کمرے میں واپس چلی آئی
****
“رات میں کون موجودہ تھا تیرے ساتھ کمرے کی بالکنی میں”
صبح ناشتے کے دوران جب سب ٹیبل پر موجود تھے تب کشمالا روشانے کو دیکھتی ہوئی پوچھنے لگی۔۔۔ ضیغم سمیت سب نے ہی کشمالا کی طرف دیکھا جبکہ روشانے کے ہاتھ میں موجود بریڈ کا پیس پلیٹ میں گر گیا
“ماں یہ آپ کس طرح کا سوال کر رہی ہے اس سے”
روشانے کے کچھ بولنے سے پہلے ضیغم کشمالا کو دیکھتا ہوا بولا جبکہ فیروز جتوئی اور شمشیر جتوئی ناشتہ چھوڑ کر انہی کو دیکھ رہے تھے
“تُو حمایت مت لے ضیغم، مجھے تیری بیوی سے پوچھنے دے،، آدھی رات میں یہ تیرے کمرے کی بالکونی میں کھڑی کس سے باتیں کر رہی تھی”
کشمالا ضیغم سے بولتی ہوئی گھور کر روشانے کو دیکھنے لگی۔۔۔ روشانے کو اپنا سانس رُکتا ہوا محسوس ہوا
“صبح صبح تمہیں کچھ نہیں ملا تو تم نے پھر ڈرامہ شروع کردیا،، بند کرو اپنا ڈرامہ اور ناشتہ کرنے دو سب کو”
فیروز جتوئی کشمالا کو جھڑکتا ہوا بولا
“سائیں اگر یہ اتنی ہی سیدھی ہے تو یوں خاموش ہرگز نہیں ہوتی،، چہرہ دیکھو اِس کا،، کیسے ہوائیاں اُڑ رہی ہیں۔۔۔ میں نے اِسے خود رات میں دیکھا تھا کسی مرد کے ساتھ”
کشمالا فیروز جتوئی کو دیکھتی ہوئی بتانے لگی جبکہ روشانے کے ماتھے پر پسینے کی ننھی ننھی بوندیں نمایاں ہونے لگی
“خدا کے لئے ماں بس کر دیں اب، میں گیا تھا رات میں اپنے کمرے میں۔۔۔ ساری رات میں تھا اس کے ساتھ اور کچھ جاننا ہے آپ کو۔۔۔ مجھے ساری زندگی اِس بات کا بےحد افسوس رہے گا آپ نے اِس پر اِس حد تک گھٹیا الزام لگایا ہے”
ضیغم کشمالا کی بات سُن کر غُصے میں کرسی سے اٹھتا ہوا بولا
وہ کشمالا کے خیال سے صبح ہوتے ہی روشانے کو سوتا ہوا چھوڑ کر اپنے کمرے سے واپس کشمالا کے کمرے میں آ گیا تھا۔۔۔ مگر یہاں پر الٹا اُس کی بیوی پر الزام لگایا جا رہا تھا یہ بات ضیغم کو ہرگز برداشت نہیں ہوئی
“کیوں پڑ گئی ہو تم اس کی بیوی کے پیچھے،، کر دیا تم نے صبح کا ناشتہ برباد۔۔۔ مل گیا اب سکون تمہیں۔۔۔ آج کے بعد میں تمہیں اس حویلی کا ماحول خراب کرتے ہوئے نہیں دیکھو کشمالا”
شمشیر جتوئی جو کافی دیر سے خاموش تھا کشمالا پر اچھی طرح گرجتا ہوا بولا
“دادا سائیں یہاں کا ماحول جب تک خراب رہے گا جب تک میں اور روشی یہاں پر موجود رہیں گے، یہ بدلے میں آئی ہے یا دشمنوں کا خون اس کے اندر بستا ہے،، بیوی ہے یہ میری۔۔۔ میں اِس پر لگا کوئی بھی الزام برداشت نہیں کرو گا۔۔۔ ہمیں آج شام یہاں سے نکلنا ہے پیکنگ کر لینا”
ضیغم شمشیر جتوئی کو بولنے کے ساتھ ہی آخری جملہ روشانے کو دیکھتا ہوا بولا اور وہاں سے چلا گیا
روشانے نم آنکھوں کے ساتھ حویلی سے باہر جاتے ہوئے ضیغم کو دیکھنے لگی پھر اُس کی نگاہ کشمالا پر پڑی جو خونخوار نظروں سے اُسی کو دیکھ رہی تھی روشانے نظریں چرا گئی
****
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...