“تم…” عاص اس کی طبیعت درست کرتا لیکن کال ڈسکنکٹ کی ٹونٹ ٹونٹ بجتی بیل نے اسے حیرت میں ڈال دیا۔
عاص نے موبائل ہٹا کر اسکرین کو دیکھا۔ کال ڈسکنکٹ لکھا تھا۔ عاص نے نمبر ریڈائل کیا۔ نمبر مصروف آرہا تھا۔ دو سیکنڈ کے وقفے سے اسے ایلین کا میسج رسیو ہوا۔ اس نے موبائل کی کونٹیکٹ لسٹ میں ایلیاء کا نام ایلین کے نام سے سیو کیا ہوا تھا۔ عاص نے میسج پر کلک کیا۔
“پاگل سمجھا ہے جو تم سے ابھی بات کروں گی؟” ساتھ ہی زبان چڑھاتا ایموجی تھا۔ عاص نے غصے سے موبائل کی گردن ہی دبوچ لی۔ تبھی اسے ایک اور میسج موصول ہوا۔
“پانی پی کر غصہ ٹھنڈا کرلو۔ نہیں تو اس غصے کی آگ سے شاہ ہاوس چاند پر پہنچ جائے گا۔” اب کی بار میسج کے ساتھ آنکھوں کو ہاتھوں سے چھپائے ہوئے بندر بھی سینڈ کیا تھا۔ عاص نے غصے میں موبائل بیڈ پر پھینک دیا۔
چہرے پہ ہاتھوں کو رکھے وہ بیڈ پر کمر کے بل گرا۔ پھر ہاتھوں کو ہٹا کر کمرے کی خوبصورت سیلنگ کو تاکنے لگا۔
“مجھ سے دور رہیں۔” ایلیاء کی آواز نے کان میں سرگوشی کی تھی۔
وہ سر جھٹک کر دوبارہ اٹھ بیٹھا اور کپڑے تبدیل کرنے کی غرض سے الماری کی جانب بڑھ گیا۔
رات کے اس پہر وہ مسکرا کر ہاتھ میں پکڑے موبائل کو دل سے لگائے اپنے بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی۔ کمرے میں داخل ہوتی ہوئی دادی صاحبہ یہ منظر دیکھ کر مسکرائی۔
“کھانے پینے پر اگر میں دھیان نا دوں تو تم باپ بیٹی بھوکے رہو۔” دادی کی آواز سن کر ایلیاء مسکرا کر سیدھا بیٹھ گئی۔
دادی نے ٹرے میں رکھا دودھ کا گلاس اس کی سمت بڑھایا۔ جسے ایلیاء نے خوشی خوشی تھام لیا۔
“عنبر ہے نا.. تو آپ کیوں میرے کھانے ، پینے کی چیزیں لے کر کمرے میں آجاتی ہیں؟” ایلیاء نے سوال مکمل کر کے دودھ کو سونگھ کر اس کا ایک گھونٹ لیا۔
“میرا آنا تمھیں پسند نہیں؟” دادی نے دل پر ہاتھ رکھے یوں سوال کیا مانو جیسے ابھی دل کا دورا پڑا ہو۔
“دادی ایسی ایکٹنگ پر آسکر نہیں ملے گا۔” اس نے تنگ کرنے کے لیے کہا اور بدلے میں ان ایک دھپ کمر پر وصول کی۔
“اس میں کیا ملا کر لائیں ہیں؟ ویسے.. یہ آپ کی بھاری ہاتھ کی تھپکیوں سے میں مر گئی نا تو بھی آپ کا پیچھا نہیں چھوڑوں گی۔” مضحکہ خیز انداز میں کہہ کر ایلیاء نے دودھ کے مزید دو لمبے گھونٹ بھرے اور شکر کیا کہ یہ حکیمی نسخہ پچھلے نسخے سے بہتر تھا۔
“میری جان تم سے پیچھا کون چھڑانا چاہتا ہے؟” دادی نے لاڈ میں اس کے چہرے کو دونوں ہاتھوں میں بھرتے ہوئے کہا۔
“مسٹر عاص سلطان۔” ایلیاء نے موبائل لہراتے ہوئے کہا۔ دادی کو تو الف سے ے تک سب بات معلوم تھی۔ انھوں نے محبت بھری نگاہوں سے اسے دیکھا اور ایلیاء نے اچک کر خالی گلاس اور ٹرے بیڈ کے سائیڈ ٹیبل پر رکھ دی۔
“دادی…” ایلیاء نے ان کی گود میں سر رکھ کر التجائی انداز میں پکارا۔
” دادی کی پیاری بچی.. کہو اب کیا کر دیا تم نے۔” دادی نے اس کے لہر کی بناوٹ جیسے بالوں میں انگلیاں پھیرنا شروع کیں۔
” میں نے آج صحیح معنوں میں اس کا خون جلایا ہے۔” ایلیاء نے مسکراتے ہوئے کہا پھر اس کی شریر مسکراہٹ اداسی میں بدل گئی۔ ” وہ سمجھتا کیوں نہیں ہے کہ میں اسے واقعی پسند کرتی ہوں…اسے تمکین سے زیادہ محبت کرتی ہوں… لیکن اس کی آنکھوں پر تو تمکین کا لیبل لگا ہے۔ میری محبت تو نظر ہی نہیں آتی.. محترم سلطان کو۔” ایلیاء نے منہ چڑاتے ہوئے کہا۔
“محبت احساس کا رشتہ ہے۔ دیکھنا اسی لگن سے اسے چاہو گی.. تو تمھارے کہے بغیر ہی تمھاری محبت کو سمجھ جائے گا۔” دادی نے بڑے پیار سے اسے سمجھایا اور پیشانی پر پیار کیا۔
“کب ہوگا ایسا؟ کب؟” کب لفظ کو زیادہ کھینچ کر اس نے اپنی بے صبری کا اظہار کیا تو دادی مسکرا دیں۔
“یہ رشتہ صبر سے سنبھلتا ہے۔ بے صبری اور بے چینی دکھا کر تم اسے ہاتھ سے گنوا دینا چاہتی ہو؟” دادی کے سوال پر وہ دل تھامے اٹھ کر بیٹھ گئی۔
” ارے کیا کہہ رہیں ہیں؟ میں کیوں گنواوں گی؟” اس نے آنکھیں بڑی کرکے حیرت بھرے لہجے میں سوالات کئے۔
“لیکن میں اسے اس نمکین تمکین کا نہیں ہونے دوں گی۔ کبھی بھی نہیں۔” ایلیاء نے کچھ سوچتے ہوئے زبان سے اپنے عزم کا اظہار کیا۔ دادی نے اپنی پیشانی پر افسوس سے ہاتھ مارا۔
“یوں زور زبردستی سے رشتہ قائم رکھو گی؟” دادی کے سوال پر وہ بڑے مزے سے سرہانے سے سر ٹکائے مسکرا کر ان کو دیکھنے لگی۔
” اس رشتے کو قائم رکھنے کے لیے میں زور ، زبردستی سب آزماوں گی۔” اس نے فخریہ کہا اور پاوں پر پاوں رکھا۔
“زور ، زبردستی سے رشتے نہیں بنتے۔” دادی نے آہستہ سے کہا۔ ” تمھیں اپنے ماں، باپ کا رشتہ بھول گیا؟” دادی کے جملے نے اس کو حقیقت یاد دلائی تھی۔
مسکراہٹ ، خوشی سب اس کے چہرے سے غائب ہوگئی تھی۔ اس نے نظر پھیر کر کروٹ بدل لی۔
“پتہ نہیں منہ میں کیا بڑبڑاتی ہیں۔ جائیں آرام کریں جھریاں بڑھ جائیں گی۔” اس لرزے ہوئے لہجے میں جملے سن کر دادی کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔
وہ سائیڈ ٹیبل سے ٹرے اور خالی گلاس اٹھانے آگے بڑھیں ساتھ ساتھ ایک نظر ایلیاء کے چہرے پر ڈالی جو لیمپ کی مدھم روشنی سے روشن اور ہر جزبات سے پاک تھا۔ اس کی نظریں کچھ یادوں میں کھوئیں ہوئیں تھیں۔ وہ کچھ کہے بغیر ہی اس کے کمرے کی لائٹ بند کرکے باہر چلیں گئیں۔ ان یادوں میں بھٹکتے بھٹکتے ایلیاء کو کب نیند آگئی اسے اندازہ ہی نہیں ہوا۔
صبح اٹھتے ہی وہ اپنے سیمنار کا بہانا بنا کر کراچی جا چکی تھی۔ صبح بھی جب ایلیاء نے عاص کی کال اٹینڈ نہیں کی تو وہ مجبوراً اس سے ملنے عارف صاحب کے گھر چلا گیا۔ وہاں دادی سے معلوم ہوا کہ ایلیاء تو ایک ہفتے لیے کسی سیمنار میں گئی ہے اور عاص کی کال نا اٹھانے کی تو جیسے اس نے قسم کھا رکھی تھی۔ وہ اس ہفتے میں اس کا نمبر کئی مرتبہ ٹرائے کر چکا تھا لیکن اس کے علاوہ وہ منتہی بھابی، لبنی اور سلیمان کے میسجس اور کال کا جواب دے رہی تھی۔ عاص کا غصہ کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ رہا تھا۔ ایک ہفتہ یونہی خون جلتے جلتے گزرا۔
پیر کے روز وہ معمول کے مطابق عارف صاحب کے گھر گیا۔ پورچ سے گھر کی جانب جاتے ہوئے سامنے ہی باغ میں ایلیاء کا وجود دیکھ کر ایک ہفتے کا سارا غصہ اس کی آنکھوں میں اتر آیا۔ وہ کسی شکاری شیر کی طرح بنا چاپ کیے ایلیاء تک پہنچ گیا۔ اس سے پہلے کانوں میں ہینڈ فری لگائی ہوئی ایلیاء کو اس کی موجوگی کا احساس ہوتا عاص نے اس کا بازو پکڑ کر اپنی سمت موڑ لیا۔ ایلیاء کے سامنے کا منظر گھومتے ہی اس کے ہاتھ میں پکڑا گلدستہ زمین پر گرا۔ اس نے پلکیں جھپکا کر حیرت سے اپنے سامنے کھڑے عاص کو دیکھا۔
“کہاں تک چھپو گی مجھ سے؟ کیا سمجھی تھی یوں چھپن چھپائی کھیلنے سے میرا غصہ اور نفرت کم ہوجائے گی؟” عاص نے گرفت سخت کرتے ہوئے سوال کیا۔
“لگ رہا ہے کافی یاد کیا مجھے؟” ایلیاء نے مسکرا کر کہا۔ عاص نے ایک جھٹکے سے اسے چھوڑا۔
” بہت خوش فہمی ہیں نا کہ سب تمھاری انگلیوں کے اشارے پر ہورہا ہے۔” عاص نے اس کو گھورتے ہوئے سوال کیا۔ پھر ایک قدم بڑھ کر اس کے مقابل کھڑا ہوا اور اس کی آنکھوں میں گھورا۔ “تم کیا سمجھتی ہو میرے بابا کے ذریعے مجھے مجبور کرکے یہ رشتہ ٹوٹنے سے بچا لیا تم نے؟”عاص کا لہجہ سخت مگر آواز دھیمی تھی۔
“رشتے اعتماد اور محبت سے بنتے ہیں… اور جس رشتے میں شروع سے ہی یہ احساسات موجود نہیں تو وہ رشتہ صرف سمجھوتا کہلاتا ہے۔” وہ چند سیکنڈ رکا اور پھر سرد لہجے میں گویا ہوا۔ ” اور مس ایلیاء میں بھی اس رشتے کے ساتھ بس سمجھوتا کروں گا۔ تمھیں میری محبت نصیب نہیں ہوگی۔” عاص سرد لہجے میں کہہ کر رخ موڑ کے آگے بڑھنے لگا۔
“جو تمھارا اعتماد اور محبت ٹھکرا گئی۔ تم اس کو دل میں سمائے بیٹھے ہو۔ جب کے میری محبت کے لیے تمھارے دل میں کوئی جگہ نہیں ہے۔” ایلیاء کی آواز پر عاص خاموش رہا کچھ نہیں کہا بس آگے بڑھ گیا۔ ایلیاء نے جھک کر گلدستہ اٹھایا اور پھولوں کو سونگھتے ہوئے عاص کے وجود کو دیکھ کر مسکرائی۔
انسان بھی لاحاصل چیزوں کے پیچھے ہی بھاگتا ہے۔ حاصل کی گئی چیزوں پر ہی صبر شکر کر لے تو اسے لاحاصل شے کے لیے کبھی تڑپنا نا پڑے۔
•••••••
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...