مولانا کوثر نیازی کی ذاتِ گرامی سے میں 1953ء سے واقف ہوں۔ مولانا ممدوح تحریکِ ختمِ نبوت ؐ کے سلسلے میں گرفتار ہوکر لاہور سینٹرل جیل تشریف لائے تھے۔ اس وقت ان کا تعلق جماعتِ اسلامی سے تھا۔ سیاست میں ہر چند کہ ہماری راہیں جدا تھیں لیکن جیل سے نکلنے کے بعد بھی ہم ایک دوسرے سے ملتےرہے، کبھی لاہور میں اورکبھی کراچی میں۔ پھر یوں ہوا کہ مولانا مرکزی حکومت میں وزیر ہوگئے۔ اب کہاں ایک مقتدر وزیر کی بلند پروازیاں اورکہاں ایک پاشکستہ خاک نشین کی درماندگیاں، ملاقات کے تمام امکانات ختم ہوگئے۔ مولانا کی بے پناہ مصروفیتوں نے ان کو کبھی اتنی فراصت نہ دی کہ ایک پرانے رفیق ِ زندان کو یاد کریں اور یہاں یہ شرم دامن گیر کہ غرض مندروں کی طرح دربار میں جائیں تو درخواست میں لکھیں کیا۔ کاغذ کی فراوانی ضرور تھی لیکن کاغذی پیرہن پہننا ہم کو آتا نہیں لہٰذا ہم کبھی راہ میں ملے نہ مولانا نے ہم کو اپنی بزم میں بلایا۔
اب حسنِ اتفاق کہیے یا سوء اتفاق کہ جن دنوں میں نفسیاتی ڈاکٹروں کی کانفرنس کے لیے مقالہ لکھ رہا تھا (تہذیب کا اثر ہمارے خیالات پر) تو اخبار جنگ میں مولانا کوثر نیازی کا ایک مضمون نظر سے گزرا۔ اس مضمون میں مولانا نے کہ شاعر شیریں سخن بھی ہیں مولانا مفتی محمد شیخ مرحوم سے عقیدت کے جوش میں ایک جن کا قصہ کیا لکھا کہ مجھ کو ” خوباں” سے چھیڑ کا بہانہ ہاتھ آگیا۔ میں سمجھا تھا کہ جس طرح بچے جن پری کے قصوں کوفرضی حکایت جان کر پڑھتے ہیں مولانا نے بھی مفتی صاحب کی داستان جن کا قصہ سمجھا ہو گا مگر نہیں جناب، مولانا کوثر نیازی توقرآن، حدیث اور مشرق و مغرب کے علماء کے اقوال زریں سے جنوں کا وجود ثابت کرنے بیٹھ گئے۔ اِدھر ہم ہیں کہ اپنی حرکت پر نادم۔ عقیدت کے رنگین محل میں جس پر منقولات کا پورا لشکر پہرہ دے رہا ہو مجھ سے بد عقیدہ کا گزر کہاں ہو سکتا ہے لیکن کہیں ایسا تو نہیں کہ مولانا نے جنوں کی بحث اس لیے چھیڑی ہے کہ وہ اُن مسائلِ زندگی پر جن سے ہم دو چار ہیں کچھ لکھنا خلافِ مصلحت خیال کرتے ہیں۔
مولانا کوثرنیازی نے مفتی محمد شفیع مرحوم کے حوالے سے جن کا جو قصہ بیان کیا اس سے یہ تو پتہ چلا کہ یہ جن صاحب بڑی مافوق الفطرت صلاحیتوں کے مالک تھے اور بحمداللہ مسلمان بھی تھے لیکن یہ راز نہ کھلا کہ موصوف ایک بزرگ عالمِ دین کی زوجہ محترمہ کی طرف جو پردہ فرماتی تھیں کیوں متوجہ ہوئے اوران کی اس غیر شرحی حرکت کا جواز کیا تھا۔
میرا مقالہ چونکہ ذہنی امراض کے ڈاکٹرو ں کے لیے تھا لہٰذا میں نے مثالیں دے کر بتایا تھا کہ ہمارے معاشرے میں جو مختلف تو ہمات رائج ہیں ان سے سیدھے سادے عقیدت مندوں کو کتنا نقصان پہنچ رہا ہے۔ مثلاً یہ واقعہ ہے کہ ایک صاحب نے خواب دیکھا جس میں ان کو حکم ہوا تھا کہ اپنے بیٹے کو قربان کردو چنانچہ انھوں نے سنتِ ابراہیمی کی تقلید میں بیٹے کو ذبح کردیا۔ اسی طرح ایک بانجھ عورت نے کسی کے کہے میں آکر اپنے پڑوسی کے بچے کو قتل کیا اوراس کے خون سے نہائی تاکہ صاحبہ اولاد ہوجائے۔ میں نے لکھا تھا کہ بہ ظاہر یہ دیوانوں کے افعال ہیں لیکن درحقیقت ایک بڑے سماجی مرض کی نشان دہی کرتے ہیں اور وہ مرض ہے توہم پرستی کا جور وز بروز بڑھتا جارہا ہے۔ مولانا کوثر نیازی کو شاید علم نہ ہو کہ فقط شہر کرامی میں ذہنی مریضوں کی تعداد پچاس ہزار کے قریب ہے۔ میں ان پیٹ بھروں کا ذکر نہیں کررہا ہوں جو اعصابی بیماریوں کا شکار ہیں بلکہ کم استطاعت لوگوں کا جو کسی شدید صدمے، حادثے یا گھریلو پریشانیوں کے سبب اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھے ہیں۔ میرے ایک دوست نے حال ہی میں ایک دستاویزی فلم ” آسیب زدوں” پر بنائی ہے۔ اس میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح نفسیاتی الجھنوں میں مبتلا مریضوں کو ان کے خوش عقیدہ اعزاواقربا ایک درگاہ سے دوسری درگاہ اور آسیب اُتارنے والے ایک بزرگ کے آستانے سے دوسرے بزرگ کے آستانے پر لیے پھرتے ہیں اور ذہنی امراض کے اسپتال یا ڈاکٹر کے پاس آخر میں اس وقت پہنچتے ہیں جب مرض لا علاج ہو چکتا ہے۔ کیا کسی کو یقین آئے گا کہ اس “ترقی یافتہ” شہر میں آسیب اُتارنے والے اصحاب کے اپنے نجی “قید خانے” بھی ہیں جن میں ہمارے بد نصیب مجنوں زنجیروں بیڑیوں سے بندھے زمین پر بے حس و حرکت پڑے رہتے ہیں اور ہزاروں مکھیاں ان کے جسموں پر بھنبھناتی رہتی ہیں۔ اس دستاویزی فلم کی ہر تصویر سچی ہے اور مولانا اگریہ فلم دیکھ لیں تو شاید پھر کبھی جنوں کا ذکر نہ کریں ۔
نفسیات کے ڈاکٹروں سے گفتگو کیجئے تو وہ اپنے مریضوں کے بیان کردہ ایسے ایسے ” سچے” واقعات کا ذکر کریں گے کہ آپ سن کر حیران ہو جائیں گے۔ لطف یہ ہے کہ ہر مریض بڑے خلوص سے یہی کہے گا یہ واقعہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے یا یہ سانحہ خود پر گزرا ہے۔ یہ تو خیر دیوانوں کی بڑ ہوئی۔ اگرآپ کسی بھلے چنگے شخص کو جس کو سراب کی اصل حقیقت نہ معلوم ہو ریگستان میں دوپہر کے وقت کھڑا کردیں تو اس کو ہر طرف پانی سے بھری جھیلیں نظر آئیں گی اوروہ قسم کھاکر کہے گاکہ میں نے فلاں ریگستان میں جھیلیں دیکھی ہیں۔
طب کی پرانی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ ابتدائی زمانے میں لوگوں کو بیماریوں کے اصل اسباب معلوم نہ تھے۔ ان کا راسخ عقیدہ تھا کہ انسان کے جسم میں جب کوئی عفریت یا بھوت داخل ہو جاتا ہے تو وہ بیمار پڑجاتا ہے لہٰذا ہر بیماری کا علاج خواہ و زکام اور بخار ہو یا یرقان اور مرگی جادو منتروں سے ہوتا تھا۔ علاج کرنے والے یہ جادوگر “طبیب” عبادت گاہوں کے پروہت ہوتے تھے۔ چنانچہ اہلِ بابل کی عکادی زبان میں طبیب، پروہت اورجادوگر، تینوں کے لیے ” آزو” اور “ایازو” کی اصطلاحیں استعمال ہوتی تھیں۔ سحر اور طب میں کوئی فرق نہ تھا۔ پھر رفتہ رفتہ جادو منتروں کے ساتھ دوائیں بھی استعمال ہونے لگیں اور دواؤں کا پلہ بھاری ہوتا گیا لیکن یونانی طب کے فروغ سے قبل تک قدیم مصر اور بابل میں جادو منتر علاج کا لازمی جز سمجھے جاتے تھے۔ مثلاً مصری آثارِ قدیمہ کی کھدائی میں پندرھویں صدی قبل مسیح سے سن عیسوی کی ابتدا تک کے بے شمار خریطے ملے ہیں جن پر امراض اوران کے علاج کی ترکیبیں درج ہیں۔ ان سب کی بنیاد اس عقیدے پر ہے کہ بیمار پر کوئی عفریت سوار ہے یا کوئی بد روح اس میں گھس گئی ہے لہٰذا علاج تجویز کرنے والا جادو گر طبیب یہ نہیں لکھتا کہ ” یہ نسخہ” فلاں بیماری کا ہے۔” بلکہ یہ لکھتا ہے کہ یہ نسخہ عفریت کو ” مار بھگانے ” کا ہے یا ” ڈرانے دھمکانے” کا ہے یا “ہلاک کرنے” کا ہے۔
مگرجوں جوں علم طب نے ترقی کی ، بیماریوں کے اصل اسباب پتہ چلے اوران سے شفا پانے کے لیے دوائیں دریافت ہوتی گئیں تو لوگوں نے اپنے تجربے سے دیکھ لیا کہ بیماریوں کا علاج جادو منتر ، ٹونے ٹوٹکے جھاڑ پھونک سے نہیں ہوتا بلکہ دواؤں سے ہوتا ہے لہٰذا لوگوں کا اعتقاد ان توہمات پر سے اٹھتا گیا لیکن اب بھی ہزاروں لاکھوں بلکہ شاید کروڑوں عقیدت مند ایسے ہیں جو علاج کے قدیم طریقوں پر یقین رکھتے ہیں نتیجہ یہ ے کہ آپ کو ہر شہر، قصبے اور دیہات میں ایسے پیر فقیر مل جائیں گے جن کا جھاڑ پھونک کا کاروبار انھیں توہمات کے طفیل چلتا ہے۔ عجیب بات ہے کہ جن بھوت ان لوگوں کو بالکل نہیں ستاتے جو ان کے وجود کو سرے سے مانتے ہیں نہیں حالاں کہ اس بد اعتقادی کی سزا سب سے پہلے انھیں کو ملنی چاہیے نہ کہ ان سیدھے سادے لوگوں کو جو ان قوتوں کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں۔
جن بھوتوں کا عقیدہ دراصل قدرت کی ظاہرہ اور ان دیکھی قوتوں کے تجسیمی تصور ہی کی ایک شکل ہے۔ ابتدائی انسان ان قوتوں کو۔۔۔ سورج چاند، ہواطوفان، بادل کی گرج، بجلی کی چمک، سیلاب، آندھی، زلزلہ وغیرہ۔۔۔ اپنی ہی طرح جان دار، فعال اور با ارادہ سمجھتا تھا۔ جو قوتیں اس کو فائدہ پہنچاتی تھیں ان کو وہ خیر اورنیکی کی قوتوں سے تعبیر کرتا تھا اوران کو پیارکرتا تھا۔ اس کے برعکس جو قوتیں اس کو نقصان پہنچاتی تھیں ان کو وہ بدی اور شرکی قوتیں خیال کرتا تھا اور ان سے ڈرتا تھا۔ چنانچہ مصر و بابل ، یونان و ایران ، ہندوستان و چین ہر جگہ ان قوتوں کو دیوی دیوتا کا روپ دے دیا گیا اور بری قوتیں کہیں یم کہلائیں، کہیں قیامت، کہیں اہرمن اور کہیں موت۔ یہ دیوی دیوتا انسانوں ہی کی سی زندگی بسر کرتے تھے۔ ان کے عادات و اطوار بھی انسانوں کے سے تھے۔ شادی بیاہ، آل اولاد، محبت نفرت، دشمنی دوستی، غرض یہ کہ دیوی دیوتاؤں کی دنیا کسی انسانی جذبے سے خالی نہ تھی۔ اس کے علاوہ وہ انسانوں کے معاملات میں بھی دخل دیتے تھے چنانچہ ٹرائے کی دس سالہ جنگ میں کوہ اولمپس کے بعض دیوتا ایک فریق کی حمایت کرتے اور بعض دوسرے فریق کی۔ اسی طرح رگ وید کے بقول جب آریا قوموں نے وادیِ سندھ پر حملہ کیا تو اِندر دیوتا نے اشوروں اور پانٹریوں کو ہرانے میں آریوں کی سپہ سالاری کی۔ افسوس ہے کہ کوہِ اولمپس کے دیوی دیوتا یورپ میں عیسائیت کے رواج پاتے ہی یکسر غائب ہوگئے حالاں کہ تیسری چوتھی صدی قبل مسیح میں ان کا وجود “حقائق ثابتہ” میں شمار ہوتا تھا یہاں تک کہ سقراط کو دیوتاؤں کے انکار کے جرم میں زہر کا پیالہ پینا پڑا تھا اور اس کے ہم عصر فلسفی انکسا غورث اور ڈرامہ نویس یوری پڈتیرایتھنز سے جلا وطن کردیے گئے تھے۔ مصر ، لبنان و فلسطین، عرب اور ایران، ہندوستان اور چین اور غرض یہ کہ پرانی دنیا کے تمام دیوی دیوتا جو ہزاروں سال تک اپنے عقیدت مندوں کو اپنے وجود کا ثبوت فراہم کرتے رہے آج فقط دیو مالائی داستانوں میں زندہ ہیں۔
مولانا کوثر نیازی نے برسبیلِ تذکرہ جنوں اور انسانی عورتوں کے درمیان “نکاح” اور ” طلاق” کی بات بھی کی ہے۔ معلوم نہیں کہ اس شادی خانہ آبادی سے جو اولاد پیدا ہوتی تھی یا اب بھی ہوتی ہے اس کا شمار جنوں میں ہوگا یا انسانوں میں۔بہرحال مافوق الفطرت اشخاص کا زمین پر رہنے والی عورتوں سے جذباتی لگاؤ بھی دیو مالائی دَور ہی کا قصہ ہے۔ کوہِ اولمپس کے دیوتاؤں کی عاشق مزاجی تو مشہور ہے۔ کسی خوش جمال لڑکی کو باغ میں ٹہلتے یا چشمے کے کنارے نہاتے دیکھا تو جھٹ اس سے جنسی رشتہ قائم کرلیا۔ چنانچہ یونان کے کتنے ہی ہیرو زیوس یا اپالو کی اولا دکہے جاتے تھے۔ اسی طرح مہابھارت کی رانی کنتی کا پہلا بیٹاکرن سورج دیوتا کے نطفے سے تھا بلکہ بلکہ راجپوتانہ کے راجے مہاراجے ابھی کل تک سورج بنسی اور چندر بنسی ہونے کا دعویٰ کرتے تھے۔ پھر جنوں نے کیا قصور کیا ہے جو ہماری بہو بیٹیوں پر فریفتہ نہ ہوں۔
پرانی قوموں کے عقائد و اوہام کے تذکرے سے ہمارا مقصد یہ تھا کہ مافوق الفطرت قوتوں بالخصوص جنوں کے وجود کا تاریخی اور معاشرتی پس منظر واضح ہو جائے۔ جنوں کا وجود بھی دراصل سی شجرِ تخیل کی ایک شاخ ہے جو عہد قدیم میں خوب پھلا پھولا لیکن انسان جوں جوں قدرت اور قوانین قدرت سے آگاہ ہوتا گیا ، جوں جوں سائنسی علوم اور تجربات و مشاہدات کا دائرہ وسیع ہوتا گیا دیوی دیوتاؤں، جنوں پر یوں کا دائرہ عمل و اختیار بھی تنگ ہوتا گیا۔
مولانا کوثر نیازی کا یہ ارشاد بالکل درست ہے کہ ” نامعلوم جہانوں اوراجنبی مخلوقوں تک علمی رسائی حاصل کرنے کی کوشش بجائے خود وقت کا کوئی برا مصرف نہیں۔ ” چنانچہ معلوم سے نا معلوم تک پہنچنے کی تگ و دو سائنس دانوں کا صدیوں سے مستقل مشغلہ رہا ہے۔ ہم مولانا کو بھی بلا پس و پیش اپنے عہد کا سائنس دان محقق مان لیتے اگرانھوں نے منقولات پر تکیہ کرنے کے بجائے سائنسی طرز فکرو عمل اختیار کی ہوتی اور عقلی دلائل اور سائنسی تجربوں سے جنوں کے وجود کو ثابت کیا ہوتا مگرانھوں نے توائمہ، علماء، فقہا اور صوفیا کے علاوہ مغربی مصنفین کے اقوال کا ایک پورا دفتر پیش کردیا اور تب ہم کو جنوں کے بے شمار عادات و خصائل کا علم ہوا۔ مثلاً یہ کہ وہ ہوا میں اڑتے ہیں اور ہزاروں میل کا سفر پلک جھپکتے طے کرلیتے ہیں وہ آگ سے بنے ہیں۔ ان میں بعض مسلمان ہیں اور بعض غیر مسلمان، وہ ہماری عورتوں سے شادی کرتے ہیں اورپھر ان کو طلاق بھی دیتے ہیں۔ وہ ہم سے چمٹ جاتے ہیں اور ہم کو ستاتے ہیں (البتہ ان کے اس طرز عمل کی غرض و غایت کیا ہوتی ہے۔ یہ نہیں معلوم) مگرافسوس ہے کہ ان “حقائقِ ثابتہ” کی تائید میں بے شمار کتابی کتابی شہادتیں پیش کرنے کے باوجود مولانا نے کوئی ایک عقلی دلیل بھی جنات کے وجود کے حق میں نہ دی۔
حقیقت یہ ہے ک ہ جنوں کے وجود کا تعلق عقائد سے ہے نہ کہ عقل سے۔ برطانوی فلسفی جان لاک کے بقول عقیدہ وہ شے ہے جس کو اس کی سچائی ثابت ہونے سے پیش ترہی تسلیم کرلیا جائے۔ عقیدے کی پرورش ماں کی گود میں نشوونما گھریلو روایات اور معاشرتی ماحول میں ہوتی ہے۔ اسلامی روایتوں کے ماحول میں پرورش پانے والا بچہ عموماً اسلامی عقائد کا پابند ہوتا ہے، ہندو ماحول کا بچہ ہندو اور یہودی ماحول کا بچہ یہودی ہوتا ہے۔ تعلیم پاکر بھی ہماری یہی کوشش ہوتی ہے کہ علم سے اپنے عقیدوں کا جواز پیدا کریں یا علم اور عقیدے کو ہم آہنگ کرلیں۔ عقائد کی چھاپ ہمارے جذبات و احساسات پر اتنی گہری ہوتی ہے کہ ذرا سی ٹھیس لگ جائے تو ہم مشتعل ہو جاتے ہیں۔ ہمارے ان عقیدوں کو منقولات سے بڑا سہارا ملتا ہے۔
لیکن جب ہم عقیدے کی دنیا سے عقل کی دنیا میں آتے ہیں تو “کیا”، “کیوں” اور “کیسے” کے بے شمار سوالات ہم کو ستانے لگتے ہیں بقول غالبؔ
شکنِ زُلفِ عنبرین کیون ہے
نِگہ چشم سرمہ سا کیا ہے؟
سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں
ابرکیا چیز ہے ، ہوا کیا ہے؟
عقیدے کے پاس ان سوالوں کا جواب نہیں ہے۔ کیوں کہ عقیدہ نام ہے تسلیم و رضا کا، اقرار و تقلید کا، روایتوں کے احترام کا۔ اس میں “کیوں”، “کیسے” کی گنجائش نہیں۔ وہ ہم کو ” مان لینے” کی تلقین کرتا ہے اور بحث ، شک اور انکار سے منع کرتا ہے کیوں کہ یہ رحجان اس کے حق میں مفید نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس عقل کا مدار شعور اگہی پر ہے۔ شعور و آگہی کی اساس عملی تجربے اور مشاہدے ہوتے ہیں۔ انھیں کی مدد سے انسانی عقل نے بڑے بڑے کارنامے سرانجام دیے ہیں۔ نئی نئی دریافتیں اور ایجادیں کی ہیں، وہ چیزیں بنائی ہیں جو کائنات میں موجود نہ تھیں بلکہ قدرتی اشیا ہی سے ایک نہایت عظیم الشان مصنوعی دنیا تعمیر کرلی ہے۔
مولانا کوثر نیازی کا طرزِ استدلال ” منقولاتی” ہے۔ سائنسی یا عقلی نہیں، یعنی کسے شے کا وجود ثابت کرنے کے لیےوہ علما، فقہا، صوفیا کی شہادتوں پر بھروسہ کرتےہیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں کہ:
“جنوں کا وجود، انسانوں کو ان کا تکلیف پہنچانا اور بزرگانِ دین کا ان کو مسخر کرلینا علماء اور فقہا ہی میں نہیں صوفیا کے طبقے میں بھی مسلم رہا ہے اور اس میں ایسی ایسی شخصیات کے نام شامل ہیں جن کی صداقت اور تقدس کی قسم کھائی جا سکتی ہے۔ ”
گویا کسی شے کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے بہت سے معتبر اور مقدس علماء ، فقہا اور صوفیا وغیرہ کی تائیدی شہادتیں کافی ہوتی ہیں۔ تو کیا ہم مان لیں کہ زمین ساکت و قائم ہے اور چاند سورج سیارے سب زمین کر گرد گھومتے ہیں اس لیے کہ کپلر اور گلیلو کی دریافت سے پیش تر مسلمان، ہندو، عیسائی، یہودی، بودھ، پارسی غرض یہ کہ تمام دنیا کے “بزرگان دین علما، فقہا، صوفیا” حتیٰ کہ قرآن حکیم کے مفسرین متفقہ طور پر یہی عقیدہ رکھتے تھے کہ چاند، سورج، ستارے، سیارے سب زمین کے گرد طواف کرتے ہیں اور کائنات کا مرکز زمین ہے۔
مولانا کوثر نیازی ارسطو کے مقام اور مرتبے سے ضرور واقف ہوں گے۔ وہی ارسطو جس کو دنیائے اسلام ” معلم اول” کے لقب سے یاد کرتی تھی۔ یہ عظیم فلسفی اور سائنس دان ڈیڑھ ہزار برس تک مغربی دنیا کے خیالات و عقائد پر حکمرانی کرتا رہا۔ خود کلیسائے روم کی نظروں میں ارسطو کے مفروضات اور نظریات کا رتبہ انجیل مقدس سے کم نہ تھا۔ کسی کی مجال نہ تھی کہ ارسطو کے دعوؤں پر شک کرسکے۔ چنانچہ کپلر نے(جو خود پادری تھا) علم ریاضی کی مدد سے اور گلیو نے اپنی دُور بین کے شواہد سے جب یہ ثابت کردیا کہ ارسطو اور بطلیموس کے مفروضات غلط ہیں اور نظامِ شمسی کا مرکز سورج ہے نہ کہ زمین تو ایوانِ کلیسا میں تہلکہ مچ گیا۔ گلیلو کو روم کی مذہبی عدالت میں طلب کیا گیا اور حکم ہوا کہ اس کفر سے توبہ کرو ورنہ آگ میں جلنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔ گلیلو بے چارے نے موت کے ڈر سے توبہ کرلی مگرچپکے سے کہا کہ میں مانوں یہ نہ مانوں زمین تو برابر گھومتی رہے گی۔
سائنسی طرزِ استدلال ” منقولاتی” نہیں بلکہ تجرباتی ہوتا ہے۔ سائنس کسی شے کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے نیوٹن اورآئن سٹائن ، ڈارون اور پرلیٹلے کی شہادتوں کا سہارا نہیں لیتی بلکہ تجربوں سے ثابت کرتی ہے اور تجربے بھی وہ جس میں ساری دنیا کو شریک کیا جا سکے اور ہر شخص ان کی سچائی کو اپنے ذاتی تجربے سے پرکھ سکے۔ مثلاً یہ دعویٰ کہ پانی دو گیسوں (ہائیڈروجن اور آکسیجن) سے مل کر بنا ہے ایک ایسے تجربے کی بنا پر ہے جو اسکول کا لڑکا بھی کرسکتا ہے اوراگر کوئی شخص انکار کرے تو ہم اس سے کہہ سکتے ہیں کہ بھائی تم ایک بوتل میں ہائیڈروجن لو اور دوسری میں آکسیجن، پھر دونوں گیسوں کو ملا دو پانی بن جائے گا۔ اسی طرح اگرکوئی شخص ہوا کے وجود سے انکار کرے تو معمولی سے عملی تجربے سے نہ صرف ہوا کا وجود ثابت ہو سکتا ہے بلکہ یہ بھی کہ ہوا میں وزن ہوتا ہے اور وہ جگہ گھیرتی ہے۔ چنانچہ بچوں کی چوتھی جماعت میں بھی یونان کے ڈھائی ہزار برس پرانے نیچری فلسفی ایمپوڈا کلیز کے مشہور تجربے کا ذکر موجود ہے۔ مثلاً ایک خالی غبارے کو وزن کرلو پھراس میں ہوا بھر کر وزن کرو۔ ہوا سے بھرا ہوا غبارہ خالی غبارے سے زیادہ وزنی ہوگا۔ پس ثابت ہوا کہ ہوا میں وزن ہوتا ہے۔ اب ایک خالی بوتل لیں اور اس کو اُلٹا کرکے پانی سے بھری بالٹی میں سیدھا ڈبوئیں۔ پانی کا ایک قطرہ بھی بوتل میں نہ جائے گا کیوں کہ بوتل میں ہوا موجود ہے۔ اب آپ بوتل کو تھوڑا سا ٹیڑھا کردیں۔ پانی میں بلبلے اٹھنے لگیں گے اور تھوڑی دیر میں بوتل پانی سے بھر جائے گی کیوں کہ بوتل کے ٹیڑھے ہونے کی وجہ سے ہوا کو باہر نکلنے اور پانی کو بوتل میں داخل ہونے کا موقع مل گیا۔ پس ثابت ہوا کہ ہوا جگہ گھیرتی ہے۔ ہم نے جان بوجھ کر موجودات کی دو ایسی مثالیں چنی ہیں جو نظر نہیں آتیں (پانی کا ہواؤں سے بننا اور ہوا میں وزن کا ہونا)
وجہ یہ ہے کہ ہم کو مولانا کے اس ارشاد سے بحث کرنا ہے کہ کسی شے کا نظر نہ آنا اس کے عدم وجود کی دلیل نہیں بن سکتا۔ مولانا کے دس کالم کے مضمون میں جو منقولاتی شہادتوں سے پر ہے یہ ایک واحد عقلی دلیل ہے اور ہم کو اس سے پورا پورا اتفاق ہے۔ مثلاً ہم کو خوشبو نظر نہیں آتی، برقی توانائی نظر نہیں آتی، کشش زمین نظر نہیں آتی، حرارت نظر نہیں آتی، زمین گھومتی نظر نہیں آتی بلکہ سورج چاند گردش کرتے نظر آتے ہیں۔ پھر بھی ہم ان حقیقتوں کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ ہم ان کے وجود کا عملی تجربوں سے مظاہرہ کرسکتے ہیں۔ جیسا کہ ہم نے پانی اور ہوا کے ضمن میں کیا لیکن مولانا کا کہنا ہے کہ کسی شے کا نظر نہ آتا عدم وجود کی دلیل نہیں بن سکتا البتہ وجود کی دلیل بن سکتا ہے۔ اس دلیل میں جو منطقی مغالطہ پوشیدہ ہے مولانا نے شاید اس پر غور نہیں فرمایا۔ حالاں کہ جس طرح کسی شے کا نظر نہ آنا عدم وجود کی دلیل نہیں بن سکتا اسی طرح وجود کی دلیل بھی نہیں بن سکتا۔ وجود کے صرف وجود سے ثابت کیا جا سکتا ہے عدم وجود سے ہر گزنہیں۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ ” آفتاب آمد دلیل آفتاب۔” حقیقت یہ ہے کہ کسی شے کے وجود کا انحصار ہم کو نظر آے یا نظر نہ آنے پر ہے ہی نہیں۔ نظر آنا تو ایک طرف رہا، قدرتی اشیا کے وجود کا انسان کے وجود سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ وہ تو انسان کے وجود سے لاکھوں برس پہلے بھی موجود تھیں۔
مگر مولانا نے اس منطقی مغالطے ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ایک اور منطقی مغالطے میں الجھ گئے۔ فرماتے ہیں کہ ” کتنے حقائق تھے جو پچھلی صدی کے لوگوں پر منکشف نہ ہوئے تھے آج ہماری نگاہوں کے سامنے ہیں۔ کیا پچھلی صدی کے لوگوں کا محض اس بنا پر انھیں رد کردینا کہ وہ انھیں نظر نہیں آئے ان کے عدم وجود کی دلیل بن سکتا ہے؟” اس دلیل میں مولانا نے اشیا کے موجود ہونے کو ان کے منکشف یا دریافت ہونے سے گڈ مڈ کردیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ انیسویں صدی کا انسان ہو یا بیسویں صدی کا کسی حقیقت کے منکشف یا دریافت ہونے سے پیش تر اس کے وجود کو یقینی طورپر کس طرح تسلیم کرے گا۔ بے شمار جراثیم ایسے ہیں جو ہم کو نظر نہیں آتے تھے مگر وہ موجود تھے البتہ جب سائنس دانوں نے خوردبین کے ذریعے ان کے وجود کو دریافت کرلیا تو ہر شخص کو ان کا وجود تسلیم کرنا پڑا لیکن ان کی دریافت سے پہلے انسان زیادہ سے زیادہ قیاس آرائی کرسکتا تھا۔ وہ یہ دعویٰ کیسے کرتا کہ جراثیم موجود ہیں اور دعویٰ کرتا تو ثابت کیسے کرتا۔ قدرت کے خزانے میں اب بھی بے شمار ایسی چیزیں ہوں گی جن کا ہم کو علم نہیں لیکن کوئی شخص اگریہ دعویٰ کرے کہ زمین کے اندر شترمرغ کے انڈوں کے برابر موتی پوشیدہ ہیں تو ان موتیوں کے وجود کا بارِ ثبوت اس کی گردن پر ہوگا۔ وہ یہ کہہ کر بری الذمہ نہیں ہو سکتا کہ تم کو کیا معلوم زمین کے اندر ابھی کیا کیا پوشیدہ ہے۔ میں اس سے الٹ کر یہ سوال بھی کرسکتا ہوں کہ مجھ کو تو واقعی نہیں معلوم مگرتم کو کیسے معلوم ہوا۔ اس کے علاوہ میں کسی ماہرِ ارضیات سے پوچھ سکتا ہوں کہ موتی کن مادی اشیا سے بنتا ہے، کیا زمین کے اندر یہ اشیا موجود ہیں اورکیا زمین کہ تہوں کے درجہ حرارت میں موتیوں کی تشکیل ممکن ہے۔ اگرجواب نفی میں ملا تو میں شتر مرغ کے انڈوں کے برابر موتی کے زمین میں موجود ہونے سے انکار کردوں گا۔
لیکن جنوں کے سلسلے میں وجود اور عدم وجود کی بحث فضول ہے کیوں کہ مولانا جنات کے وجود کو یقینی طورپر تسلیم کرتے ہیں۔ وہ جنوں کے وجود کو ثابت تو نہ کرسکے البتہ انھوں نے کتابوں کے حوالے سے جنوں کے بعض خصائل ضرور بیان کردیے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگروہ اپنے ذاتی تجربے اور مشاہدے سے یا کتابوں کے حوالے سے ہم کو یہ بھی بتا دیتے کہ جنوں کی خوراک اور پوشاک کیا ہے۔ وہ رہتے بستے کہاں ہیں، زمین پر، ہوا میں یا آسمان پر۔ انسانوں کی طرح کیا ان کی بھی گھریلوزندگی ہوتی ہے اور یہ کہ سیدھے سادے بے قصور انسانوں کو ستانے کے علاوہ ان کے اور مشاغل کیا ہیں۔ یہ سوالات میں نے طنز و استہزا کے طورپر نہیں کیے ہیں بلکہ مخلوقات اگرجان دار اور باشعور ہیں تو ان کے بارے میں اس قسم کے سوالات کا اٹھنا قدرتی امر ہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ جن ہر چند کہ آگ سے بنے ہیں پھر بھی ہم کو نظر نہیں آتے حالاں کہ آگ اپنی مختلف شکلوں میں ہم کو نظر آتی ہے۔ حتیٰ کہ وہ چنگاری بھی جو پتھروں کی رگڑ سے پیدا ہوتی ہے۔ یہاں یہ عرض کرنا بے محل نہ ہوگا کہ آگ بذاتِ خود کوئی شے نہیں ہے، پانی، لوہے، چاندی سونے، لکڑی یا کوئلے پتھر کی طرح بلکہ مادی اشیا کے مابین کیمیاوی عمل کی ایک کیفیت ہے۔ ان کا درجہ حرارت ہے۔ وہ لکڑی، کوئلہ، مٹی کے تیل، پیٹرول اور دوسرے آتش گیر مادوں کے کیمیاوی عمل سے پیدا ہوتی ہے۔ وہ اپنا الگ وجود نہیں رکھتی بلکہ کسی نہ کسی مادی شے کے وجود کی محتاج ہوتی ہے۔ تو کیا جن حضرات بھی مادی اشیا کے کیمیاوی عمل کا نتیجہ ہیں؟۔
مولانا نے مجھ کو مغرب زدہ تصور کرکے کئی مغربی مصنفوں سے جن میں سویت روس کے مصنف بھی شامل ہیں، استناد کیا ہے۔ مولانا کا مطالعہ بے شک بہت وسیع ہے اور ان کا ذوق کتب بینی بھی لائق ستائش ہے لیکن کیا ان کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی۔ نہ ہر چھپی ہوئی تحریر معتبر اور مستند، خواہ وہ مغرب کی ہو یا مشرق کی۔ ہم کو ہر صورت میں اپنی قوتِ عقلیہ سے ضرور کام لینا چاہیے۔مولانا سے یہ حقیقت بھی پوشیدہ نہ ہوگی کہ خواجگی ہر دور میں نئے نئے مسکرات بناتی رہتی ہے اور یہ کہ کھلونوں سے بچوں ہی کو بہلایا نہیں جاتا۔ سامراجی نظام گزشتہ نصف صدی سے جس اقتصادی، سیاسی، فکری اور اخلاقی بحران میں مبتلا ہے وہ بھی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ عام لوگوں کو گمراہ کرنے، ان کی توجہ زندگی کے روزمرہ کے مسائل سے ہٹانے ، ان کی قوتِ فکر و عمل کو مفلوج کرنے کے وہ کون سے حربے ہیں جو مغربی بازی گر استعمال نہیں کررہے ہیں۔ کبھی “ایک دنیا” اور “ایک عالمی حکومت” کا شوشہ چھوڑا جاتا ہے وہ بھی ایسے وقت میں جب ایشیا اور افریقہ کے محکوم ملک آزادی اور خود مختاری کی جدو جہد میں مصروف تھے۔ دلیل یہ دی جاتی تھی کہ دنیا اب بہت سکڑ گئی ہے، ریاست کے پرانے نظریے اب فرسودہ ہو چکے ہیں اور دنیا کے مسائل اب آپس میں اتنے گتھ گئے ہیں کہ ان کو حل کرنے کے لیے ایک ” عالمی حکومت” کا قیام لازمی ہوگیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس ” عالمی حکومت” کی سربراہی کا اہل امریکہ کے سوا دوسرا کون ہے۔ پھر پروفیسر ٹوائن بی کی فلسفہ تاریخ کی دُھوم مچتی ہے، سارتر صاحب کے فلسفہ وجودیت کو جو وجودیت کی نفی کرتا ہے بانس پر چڑھایا جاتا ہے کہ بالآخر مارکسی فلسفے کا توڑ مل ہی گیا۔ ” مہمل اور بے مقصد” ادب کا بازار گرم ہوتا ہے۔ سر آلیور لاج اور سر آرتھر کوئن ڈائل روحانی کلب قائم کرتے ہیں جہاں روحوں سے بات چیت ہوتی ہے۔ سائنسی ایجادات کی مدد سے بھوتوں، آسیبوں ، ڈراکو لاؤں اور دوسری مافوق الفطرت مخلوقوں پر فلمیں بنتی ہیں، ” مرکر زندہ ہونے والوں” کی آپ بیتیاں چھپتی ہیں، جنوں کی داستانیں شائع ہوتی ہیں، ہپی ازم کا نیا مسلک رائج ہوتا ہے، حشیش کا کاروبار چمکتا ہے اور اس کی اتنی قسمیں بنتی ہیں کہ ” ساحرالموط” ہوتا تو شرما جاتا۔ لندن، پیرس اور نیو یارک کی سڑکیں ” ہری اوم”، “ہری اوم” کے بھجنوں سے گونجنے لگتی ہیں اور یوگا کے ماہر مہارشیوں کی چاندی ہو جاتی ہے اور ہم خوش ہیں کہ دیکھا مادہ پرست افرنگیوں کو آخر کار روحانیت کا قائل کرلیا۔ کتنے سیدھے ہیں ہم لوگ! میں مولانا سے پوچھتا ہوں کہ ان کے نزدیک مغرب کی ابلہ فریبییاں کیا، زمانے کے اتفاقات ہیں یا ان کے پیچھے کوئی سوچی سمجھی حکمتِ عملی بھی کارفرما ہے؟
آخر میں مولانا سے میری مودبانہ درخواست ہے کہ حیات بعد الموت کے تذکرے اور جنون کی داستانیں اپنی جگہ لیکن کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ آٹھ کروڑ زندہ پاکستانیوں کے زندہ مسائل و مصاحب سے بحث کی جائے۔ ان کی قوتِ فکر و عمل کو بیدار کرنے کی کوشش کی جائے، ان کے علم و شعور میں اضافے کی تدبیریں اختیار کی جائیں اوراُن توہمات کاطلسم توڑا جائے جن میں ہم صدیوں سے گرفتار ہیں۔
ختم شد ❌
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...