(ایک سماجیاتی اور نفسیاتی جائزہ)
(۱) ابتدائیہ
مرزا اسداللہ خاں غالبؔ کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اُن کی شاعری، مکاتیب اور خود اُن کی حیات کثیر تعداد تنقیدات، تبصروں اور تجزیوں کے موضوع رہے ہیں۔ یہ امتیازِ خصوصی برصغیر کے کسی دوسرے ادیب یا دانشور کو حاصل نہیں ہوا۔ غالباً ڈاکٹر محمد اقبال ایک ا ستثنا ہیں، لیکن ادبی وجوہات سے زیادہ اُس میں سیاسی مصلحتیں شامل ہیں۔ برصغیر ہندوپاکستان میں، خاص طور پر پچھلی پانچ دہائیوں سے، غالبؔ کی زندگی، اُن کی ذاتی ترجیحات، فن اور شاعری اور اُن کے مکاتیب پر مختلف زاویوں سے تجزیے کیے گئے ہیں۔ اُن کی زندگی کے ہر گوشے اور اُن کے فن کے ہر پہلو پر اس قدر سیرحاصل تبصرے کیے گئے ہیں کہ اِس سلسلے میں اب مزید کچھ کہنے یا لکھنے کی بہت کم گنجائش ہے۔ یہ خیال رہے کہ تبصروں اور تجزیوں کا یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
دُنیائے ادب میں ادیبوں اور اُن کے ادب پاروں کو جانچنے اور اُن کی تجزیہ کاری کے لیے مختلف پیمانے وضع کیے گئے ہیں۔ یہ پیمانے اکثر و بیشتر منطق، فلسفہ، سائنسی اور سماجیات کے اصولوں کے مطابق وضع ہوئے ہیں۔ یہ پیمانے اور معیار اُردو تنقید نگاری اور تجزیہ نگاری کے بنیادی اصولوں میں شامل ہیں۔ میرے خیال میں، ان اصولوں کے علاوہ، اُردو کے بعض ناقدوں اور تجزیہ نگاروں نے ادیبوں اور شاعروں کی زندگی اور فن پاروں کے تجزیوں کے سلسلے میں ایک عنصر (Element)کا اضافہ کیا ہے۔ اِس نکتۂ نگاہ کا تقاضہ یہ ہے کہ ادیبوں یا شاعروں کی زندگیوں اور اُن کے اعمال کو پیمبرانہ معیاروں کے مطابق جانچا اور پرکھا جائے۔ اتنا ہی نہیں، بلکہ اُن کی شاعری اور اُن کے فن کا بھی اِن ہی معیاروں کے پیشِ نظر تجزیہ کیا جائے۔ اس نکتۂ نظر سے ادیبوں اور شاعروں کی حیات اور شاعری پر رحمانی اوصاف یا سفلی (میں لفظ شیطانی استعمال کرنے سے گریز کر رہی ہوں) خصائل کے پس منظر میں تبصرے یا تجزیے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ میرے خیال میں یہ صورتِ حال ادب کے لیے صحت مند نہیں ہے۔ بہرکیف! اسداللہ خاں غالبؔ کی شخصیت اور شاعری اس نکتۂ نگاہ کی یلغار سے محفوظ نہیں رہتی ہے۔ اِس طرح کے جائزے اور تبصرے، کسی حد تک، میرے اِس مختصر مضمون کے محرّک ہیں۔
میں ڈاکٹر وزیر آغا کے اِس خیال سے قطعی متفق ہوں کہ “غالبؔ ایک محشر خیال ہیں۱”لیکن مجھے اُن کے اِس نتیجے سے اتفاق کرنے میں تامّل ہے کہ “غالبؔ ایک مجموعۂ اضداد ہیں۲۔ “دراصل شاعر اپنے تجربات، مشاہدات اور کیفیات کے ایک وسیع دائرے میں رہ کر اشعار کی صورت اظہارِ خیال کرتا رہتا ہے۔ بادی النظر میں کہیں کہیں اِن خیالات میں تضادات نظر آتے ہیں، لیکن واقعتاً اِن میں ایک تسلسل بھی پایا جاتا ہے۔ اِس کے علاوہ اب وقت آیا ہے کہ ہم اس بات پر بھی غور و فکر کریں کہ کسی شاعر یا ادیب کے فن پارے ایک فیکٹری سے تیاّر شدہ اشیاء (Manufactured Goods) سے مختلف ہوتے ہیں۔ فیکٹری سے تیاّر شد اشیاء دُکانوں کے مختلف ’شیلفوں‘یا ’کاؤنٹروں‘پر جانچنے اور خریدنے کے لیے رکھی جاتی ہیں۔ اِس عمل میں ایک خریدار مختلف اشیاء کے نمایاں فرق کا بھی اندازہ کر سکتا ہے۔ لیکن اِن سب چیزوں کا اطلاق ادبی فن پاروں کے تجزیے میں نہیں ہوسکتا۔
مرزا غالبؔ کی زندگی، اُن کے ذاتی تجربات و ردِّ عمل، اُن کی شاعری اور اُن کے مکاتیب مختلف اور وسیع موضوعات ہیں۔ ایک شاعر ذہنی، جذباتی اور ارضی اُتار چڑھاؤ کے ادوار سے گزرتا ہے اور اپنے ردِّ عمل کا اظہار کرتا ہے۔ غالبؔ بھی ان ادوار سے ہو کر اُن سے پید اشدہ کیفیات کے عمل سے گزرے۔ اُن کی خوبی یہ ہے کہ اُن کی شاعری میں ان کیفیات اور اس ردِّ عمل کا ایک تسلسل اور توازن موجود ہے۔ بہرکیف، یہ بحث اِس مضمون سے الگ ایک اور تبصرے کا موضوع ہے۔
غالبؔ اور صنفِ نازک کے موضوع کے سلسلے میں تین نقطہ ہائے حوالہ جات (Points of Reference) نہایت اہم ہیں۔ غالبؔ کی عشقیہ شاعری، اُن کی ذاتی زندگی بشمول ان کے جذباتی حوادث اور اُن کا سماجی اور تہذیبی ماحول۔ میرے خیال میں غالبؔ کا صنفِ نازک کے تئیں ردِّ عمل، رجحانات اور کیفیات کا تجزیہ مؤثر طور پر ان ہی تین حوالوں کے تعلق سے کیا جا سکتا ہے۔
(۲) غالبؔ کی عشقیہ شاعری
صنفِ نازک کے تئیں غالبؔ کے رُجحانات اور کیفیات کا اندازہ کافی حد تک غالبؔ کی عشقیہ شاعری کے حوالے سے لگایا جا سکتا ہے۔ صنفِ نازک کے تئیں اُن کے ردِّ عمل کا یہ سب سے اوّلین ماخذ ہے۔ اِس حوالے سے، غالبؔ ہی نہیں، دُنیا کے کسی شاعر، خواہ وہ کسی بھی خطےّ یا زبان سے تعلق رکھتا ہو، کی عشقیہ شاعری اُس کی جمالی حِس (Aesthetic Sense) اور صنفِ نازک کے تئیں اُس کی کیفیات کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ بقول حمید احمد خاں:
“غالبؔ کے اُردو اور فارسی کلام میں حسن و عشق کو ایک نمایاں جگہ حاصل ہے۔ تعداد کے لحاظ سے پورے کلام میں اِس مضمون کے اشعار آدھے تو نہیں، مگر ایک تہائی کے قریب ضرور ہوں گے۔ “
غالبؔ کی عشقیہ شاعری میں روایتی اشعار (Traditional Metaphors) بخوبی موجود ہیں۔ مثال کے طور پر لیلیٰ، مجنوں، پروانہ، شمعِ محفل وغیرہ۔ ان اشعار کے علاوہ صنفِ نازک کے ظاہری خدوخال (Appearance) یعنی چہرے کے نقش و نقوش (پرتوِ خورشید، چندۂ دنداں)، قد (قدر رعنا، سروقد، سرو قامت) زُلف (زلفِ پری، زلفِ مشکیں، شکنِ زلفِ عنبریں، تارِ زلف) وغیرہ سے اُن کا عشقیہ کلام معمور ہے۔ “قد و گیسو”کے حوالے سے اُن کے کلام میں ایک عجیب طرح کا اصرار (Emphasis) ہے۔ ظاہر ہے کہ اُن کا عشقیہ کلام نسائیت کے حسن اور جلوؤں سے روشن ہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ یہ جلوے اُن کی عشقیہ شاعری کا ایک مستقل باب ہیں۔ اِس شاعری میں حسن کی فتنہ سامانیاں،’آب و تاب کی جلوہ سازیاں، مژہ ہائے دراز، چشمِ خوباں، تیرِ نیم کش، چوں چشم تست نرگس، نہ شعلے میں یہ کرشمہ نہ برق میں یہ ادا، موجِ خرامِ یار، وغیرہ کی حشرسامانیاں ہرسو نظر آتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ صنفِ نازک کی اِس تصویر کشی سے مرزا غالبؔ کے دِل و دماغ کا کیا تعلق ہے؟ صنفِ نازک کے تعلق سے اُن کی عشقیہ شاعری اُن کے کس رجحان یا ذہنی کیفیت کی عکاّسی کرتی ہے؟
میں اُن کی عشقیہ شاعری کا جائزہ مافوق الفطرت یا پیمبرانہ پیمانوں سے نہیں لے رہی۔ میرے خیال میں صنفِ نازک کے حوالے سے غالبؔ کی عشقیہ شاعری کے جائزے سے یہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ صنفِ نازک کے حسن کی پیکر تراشیاں، غالبؔ کے ذوقِ جمال کا ایک اہم جز ہیں۔ اُن کے عشقیہ اشعار اُن کی اعلیٰ جمالی حس (Superior Aesthetic Sense) کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ حسن کی جلوہ سامانیاں اُن کے ذوقِ جمال کی تسکین کا سبب معلوم ہوتی ہیں۔ اِس لحاظ سے وہ جلوؤں میں گم ہیں نہ کہ گوشت پوست کی دِل فریبیوں میں گرفتار۔ مجھے معاف فرمائیں گے، اِس نتیجے کا اِطلاق اُردو کے بہت سے روایتی، حتیٰ کہ ہمعصر شاعروں پر بھی نہیں ہوسکتاہے۔ کیونکہ ان کی عشقیہ شاعری میں، خاص طور پر صنفِ نازک کے حوالے سے جمالیاتی نہیں، بلکہ جنسی پہلو غالب ہے۔ مرزا غالبؔ کے ظاہر اور جسمانی حسن سے دعوتِ نظر کی حد تک لطف اندوز تو ہوتے ہیں، لیکن یہ نظارہ اُن کے جمالیاتی ذوق کی تسکین کا سامان ہے۔ یہ نظارہ ایک بوالہوس کا نظارہ نہیں، بلکہ ایک رندِ مست کے شوق و ذوق کا سامان ہے۔ وہ خود اِس چیز میں تمیز کرتے ہیں:
ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی
اب آبروئے شیوۂ اصلِ نظر گئی
یا:
فروغ شعلہ خس یک نفس ہے
ہوس کو پاسِ ناموس وفا کیا
یا:
اسدؔ کو بت پرستی سے غرض درد آشنائی ہے
نہاں ہیں نالۂ ناقوس میں در پردہ “یا رب ہا”
غالبؔ کا یہ ذوقِ جمال ایک عام سطحی (Superficial) تماشہ بین کا ذوقِ جمال نہیں ہے، بلکہ ایک حسّاس، عالی ظرف شاعر کا ذوقِ جمال ہے۔
جذبات و کیفیات کے اعتبار سے، مرزا غالبؔ حسن کے جلوؤں کو اپنے عشق میں ضم کر دیتے ہیں، وہ بھی اس طرح کہ دونوں میں کوئی فرق نہیں رہتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ کیفیات ایک طرح سے درویشانہ ہیں اور فلسفیانہ بھی۔ یہ احساسات لطیف اور دلکش پیکروں کی صورتیں اختیار کر کے اُن کے اشعار میں ڈھل جاتے ہیں:
ہنوز محرمیِ حسن کو ترستا ہوں
کرے ہے ہر بنِ مو کام چشم بینا کا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وا کر دیے ہیں شوق نے بند نقابِ حسن
غیراز نگاہ اب کوئی حائل نہیں رہا
غالبؔ کا ردِّ عمل، ان کے جذبات، اُن کا دردِ نہاں، اُن کے عشقیہ کلام میں فلسفیانہ انداز سے جلوہ گر ہوتا ہے:
عشق سے طبیعت نے زیست کا مزہ پایا
درد کی دوا پائی ، دردِ لادوا پایا
غالبؔ کے جذبات اور ذہنی تصوّرات کے باہمی رِشتے کے سلسلے میں، جناب اسلوب احمد انصاری کے یہ تاثرات وضاحت کے لیے کافی اہم ہیں:
“غالبؔ جذبے اور ذہنی تصوّرات کے درمیان رشتہ قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ خیالات کو حسّیات میں اور مشاہدات کو ذہنی کیفیات میں تبدیل کرنے کی صلاحیت بدرجہ اتم رکھتے ہیں۔ فکر اور جذبے جیسا سچا اور حسین امتزاج اور تخیلی پیکروں میں مینا کاری اور قوسِ قزح کی جو بہار ہمیں غالبؔ کے یہاں نظر آتی ہے، اس کی مثال اُردو کے کسی دوسرے شاعر کے یہاں نہیں ملتی۔ ان کے بہترین اشعار وہی ہیں، جہاں تجربات کا بیان ذہن کو منوّر کرتا چلا جاتا ہے اور جہاں فکر اور جذبے کے عمل اور ردِّ عمل کا پتہ چلتا ہے:
کیا آئینہ خانے کا وہ نقشہ تیرے جلوے نے
کرے جو پرتوِ خورشید عالم شبنمستاں کا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہ ہو گا یک بیاباں ماندگی سے ذوق کم میرا
حبابِ موجۂ رفتار ہے نقشِ قدم میرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب میں ہوں اور ماتم یک شہرِ آرزو
توڑا جو توُ نے آئینۂ تمثال دار تھا۴
یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ عشق و محبت کا تعلق صنفِ نازک سے ہے۔ حسن اور عشق کے باہمی تصادم سے جو کیفیات انسان کے ذہن میں پیدا ہوتی ہیں، وہ ہوس کا رُوپ دھارن کرتی ہیں اور کبھی رُوح کی گہرائیوں کو چھو کر انسانی جذبات و کیفیات کو اعلیٰ و ارفع منزلوں سے بھی ہمکنار کرتی ہیں۔ عمل اور ردِّ عمل کا یہ کھیل روزِ اول سے ابن آدم کی سرگذشت کا ایک حصّہ ہے۔ غالبؔ کے لیے محبت کیا ہے؟ بقول اسلوب احمد انصاری:
“محبت اُن کے لیے کوئی ایسا جذبہ نہیں، جو انتہائی فطری طور پر دلکش محاکات کی صورت میں ڈھل جائے۔ وہ ایک گرم اور تیز رَو ہے یا ایک لاوا جو پوری شخصیت کے اندر ہلچل ڈال دیتا ہے۔ غالبؔ صرف نرم و نازک اشاروں سے کام نہیں لیتے، بلکہ انتہائی لطیف حسّیات و کیفیات کا محاسبہ کرتے اور ان پر استدلال کرتے ہیں۔ ان کی عشقیہ شاعری کے تانے بانے میں نکتہ آفرینی اور ندرتِ فکر کی جگمگاہٹ صاف نظر آتی ہے۵۔ “
غالبؔ کی عشقیہ شاعری کا طرّۂ امتیاز یہ ہے کہ اس میں فلسفے اور تفکر کا گہرا رنگ نظر آتا ہے۔ اس تفکر کا تعلق شاعر کے ذہن اور دماغ کے ساتھ ہے۔ تفکر کا یہ رنگ ہمیں غالبؔ کی ذہنی و فکری ساخت، اُن کی ذہنی پختگی، وسعتِ جذبات اور شاعرانہ عمل کا سراغ فراہم کرتے ہیں۔
(۳) ذاتی زندگی
غالبؔ اِس زمین پر رہنے والے گوشت پوست کے آدمی تھے۔ اُن کی زندگی میں ایک بیوی اُمراؤ جان بیگم تھیں۔ اور ایک محبوبہ “ستم پیشہ ڈومنی”بھی اُن کی زندگی میں شامل تھیں۔ اُن کے مکاتیب سے یا اُن کی زندگی کے بارے میں جو بھی تبصرے تحریر کیے گئے ہیں، اُن سے اس بات کا کوئی اشارہ نہیں ملتا ہے کہ اُن کی بیگم اور ستم پیشہ ڈومنی کے مابین کوئی تصادم رہا ہو۔ میرے خیال میں اِس طرح کا تصادم کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے، بلکہ تصادم کی عدم موجودگی ایک غیر معمولی بات ہے۔ تصادم کی عدم موجودگی مرزا غالبؔ کے تدبر اور شائستگی کا ایک واضح ثبوت ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مرزا غالبؔ نے اِن دونوں رِشتوں کو الگ الگ خانوں (Compartment) میں رکھ کر اِن کو الگ الگ رول (Role) تفویض کیے تھے۔ اُن کے مکاتیب اور شاعری سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ ایک مخصوص عورت کے تئیں اُن کا ردِّ عمل ایک عاشق کا تھا،جس میں جزیات کا عمل دخل نہیں تھا۔ دوسری عورت کے تئیں انکا ردّ عمل بالکل ایساتھا جیسا ایک شوہر کا ہوتا ہے۔
غالبؔ کی شادی تیرہ برس کی عمر میں ہوئی تھی۔ اُس وقت اُن کی بیگم کی عمر گیارہ برس کی تھی۔ غالباً اُمراؤ بیگم تعلیم یافتہ نہیں تھیں۔ اِس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ غالبؔ رامپور سے جو خطوط ارسال کرتے اُنھیں ڈیوڑھی پر جا کر سنانے کی ہدایت دیتے۔ ظاہر ہے کہ میاں بیوی میں ذہنی اور علمی فاصلے موجود تھے۔ لیکن ذہنوں کی یہ تفاوت کبھی بھی عملی زندگی میں اُن کے ٹکراؤ کا باعث نہیں بنی۔ ایسا لگتا ہے کہ نارمل لوگوں کی طرح اُنھوں نے ایک سمجھوتہ کر رکھا تھا۔ اِسی لیے اُن کے ازدواجی رِشتے میں ایک وقار، ایک ٹھہراؤ نظر آتا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ غالبؔ کے عادات و اطوار، اُن کا رہن سہن اور اُن کا طرزِ زندگی (Life Style) اُن کی آمدنی سے کسی طور میل نہیں کھاتا تھا۔ باقاعدہ آمدنی کے وسائل بھی نہیں تھے۔ وہ ہمہ وقت (Full Time) شاعر تھے۔ وہ دَور آج کے دَور سے مختلف تھا۔ آج کل کے دَور میں ہمہ وقت ادیب اور شاعر اپنی روزی روٹی کا بندوبست با عزّت طور پر شاعری یا اپنی تحریروں کے توسط سے تو کرسکتے ہیں لیکن اُس زمانے میں نوابوں یا بادشاہوں کے وظائف یا تحائف کے سوا شاعروں کے لیے آمدنی کا کوئی اور وسیلہ نہیں تھا۔ غالبؔ کی عادتیں رئیسانہ اور مزاج شاہانہ تھا۔ نوبت یہاں تک آتی تھی کہ گھر کا سازوسامان تک بک جاتا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کی مشکلات کا سارا بوجھ اُن کی بیگم کو ہی جسمانی اور ذہنی طور پر اُٹھانا پڑتا تھا۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ یہ سارا بوجھ تحمل، رواداری اور وقار کے ساتھ جھیل لیتیں۔ ان حالات میں اگر میاں بیوی کے درمیان کچھ حد سے زیادہ تلخی ہوئی ہوتی یا اگر اس طرح کے حالات میاں بیوی کے درمیان کسی نزاع کا باعث بن گئے ہوتے تو اس کیفیت کا اظہار کم سے کم اُن کے مکاتیب میں ضرور نظر آتا۔ اِس بات کا خیال رکھنا لازمی ہے کہ آج کل کے اُن سماجی اور قانونی اصولوں کا اطلاق، جن کے تحت زن و شوہر کے تعلقات آتے ہیں، غالبؔ کے عہد پر نہیں ہوسکتا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ چند تجزیہ نگار حضرات خوردبین کی مدد غالبؔ کے مکاتیب میں جملے تلاش کرتے کرتے اور بین السطور معنی کھنگالے ہوئے یہ بات ثابت کرنے پر مصر ہیں کہ غالبؔ اپنی شادی سے بیزار اور خانگی زندگی سے پریشان تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ غالبؔ اگر شادی کو واقعی ایک بیڑی سمجھتے، تو اِس بیڑی کو توڑنے میں اُنھیں کیا دقّت درپیش تھی۔ اس میں شبہ نہیں کہ اُن کے مکاتیب میں کہیں کہیں اِس بات کا ذکر ضرور ہے کہ کبھی کبھی خانگی ذمّہ داریاں اُن پر گراں گزرتی تھیں۔ کسی مکتوب میں اُنھوں نے شادی کو ایک بیڑی سے بھی تعبیر کیا تھا۔ مجھے اس میں کوئی خاص بات نظر نہیں آتی ہے۔ اس طرح کے ردِّ عمل کا اظہار ہر شادی شدہ مرد اپنی ازدواجی زندگی کے دوران کرتا ہی رہتا ہے، جو نہیں کرتا، وہ متوازن ذہن کا شخص نہیں ہے۔ ایسا ردِّ عمل شادی شدہ زندگی کا ایک حصّہ ہیں۔ مردوں کو چھوڑیے، عورتیں بھی اس کا اظہار کرتی رہتی ہیں۔ لیکن ان کلمات سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہاں کی دانشمندی ہے کہ لوگ اپنی خانگی زندگیوں کے بندھن سے آزاد ہونا چاہتے ہیں اور شادی کے رِشتوں کو توڑنا چاہتے ہیں۔ ایک بات اور بھی ہے کہ غالبؔ نے اس طرح کی بیزاریوں کا اظہار اُس وقت کیا، جب اُن کی عمر پچاس برس سے اُوپر تھی۔ اس عمر میں ایسا ردِّ عمل خلاف معمول نہیں اور نہ ہی فطری اصولوں کے منافی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ میاں بیوی میں جو نوک جھونک چلتی رہتی تھی، اُس کے بارے میں پڑھ کر ایک عجیب سی خوشگواری کا احساس ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک مرتبہ جب اُنھوں نے اپنی بیگم کو نماز پڑھتے دیکھا، تو برجستہ کہا:
“جب آؤ، نماز، گھر کو فتح پوری مسجد بنا دیا ہے۔ “
ایک اور جگہ اِسی طرح میاں بیوی کی نوک جھونک کا نقشہ یوں کھینچا گیا ہے:
“مرزا: میرا تو ناک میں دَم کر دیا، حضرتِ موسیٰ کی بہن۔ “
اُمراؤ بیگم براہِ راست غالبؔ کو کیسے جواب دیتیں۔ ایسا ردِّ عمل، اُن کی عالی ظرفی اور طبقۂ شرفا کی روایات کے منافی تھا۔ البتہ وہ اپنی بھتیجی معظم زمانی بیگم سے مخاطب ہوتی ہیں:
“توُ تو بچہ ہے۔ بڈّھے کی بات کا خیال نہ کرنا، بڈّھا تو دیوانہ ہو گیا ہے۔ “
میری گذارشات کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ غالبؔ اپنی بیگم کے عشق میں دیوانہ وار گرفتار تھے۔ لیکن میرا اصرار ہے کہ غالبؔ اپنی شادی کے رِشتے کا بیحد احترام کرتے تھے۔ وہ اپنی بیگم کا خیال رکھتے تھے۔ اپنے سماجی ماحول کے ضابطوں کے مطابق اور اپنی تہذیبی اقدار کو ملحوظِ نظر رکھتے ہوئے، مرزا غالبؔ نے اس رشتے کو خوش اسلوبی سے نبھایا۔
جناب کوثر چاند پوری صاحب (جنھوں نے غالبؔ کی زندگی کا جائزہ پیمبرانہ اصولوں کے مطابق لیا ہے) کم سے کم اتنا تو اعتراف کرتے ہیں کہ غالبؔ ۶ نے جو خطوط رامپور سے لکھے اور جن میں خانم کا ذکر کیا ہے اور ڈیوڑھی پر جا کر بیگم کو سنادینے کی تاکید کی ہے، وہ سب باتیں رواداری پر مبنی ہیں، جو عرصہ تک ساتھ رہنے سے پیدا ہو جاتی ہیں۔ مگر بقول چاند پوری صاحب اسے۷ محبت کہنا مشکل ہے، البتہ اِن خطوط سے غالبؔ کے اعترافِ وفاداری کی نشاندہی ہوتی ہے، جو بیوی کی طرف سے اِن کے دل میں موجود ہے۔
“ستم پیشہ ڈومنی” دوسری خاتون ہیں، جن کا مرزا غالبؔ کی زندگی میں جذباتی طور پر گہرا عمل و دخل رہا ہے۔ “ستم پیشہ ڈومنی”ایک طوائف تھیں، جن سے غالبؔ عشق کرتے تھے۔ کلامِ غالبؔ کو مقبولِ عام بنانے میں اُن کا بھی کچھ نہ کچھ رول ضرور رہا ہو گا۔ یہ خیال رہے کہ طوائفیں اُس شہنشاہی اور جاگیردارانہ دَور کا ایک اہم حصّہ تھیں۔
یہ خاتون بیس بائیس سال کی عمر میں غالبؔ کو داغِ مفارقت دے جاتی ہیں۔ غالبؔ کے نوحوں اور مکاتیب سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وہ ان سے بے پناہ عشق کرتے تھے اور اُنھیں بیحد عزیز رکھتے تھے۔ کلامِ غالبؔ سے یہ اندازہ تو ہوتا ہے کہ اُن کا یہ عشق، اُن کے دِل کے اندر اُتر کر اُن کی رُوح میں بس گیا تھا، اور اُن کے اشعار میں ڈھل کر سامنے آتا تھا۔ غالبؔ کا یہ عشق ارضی تو تھا، لیکن زمین سے اُٹھ کر آسمانوں کی وسعتوں کو چھو گیا تھا۔ غالبؔ کی وابستگی اور شدّتِ جذبات کا اندازہ ان اشعار سے ہوتا ہے:
گلفشانی ہائے ناز و جلوہ کو کیا ہو گیا
خاک پر ہوتی ہے میری لالہ کاری ہائے ہائے
اور:
شرم و رُسوائی سے جا چھپنا نقابِ خاک میں
ختم ہے اُلفت کی تجھ پر پردہ داری ہائے ہائے
مرزا حاتم علی مہر کی معشوقہ کی تعزیت کے سلسلے میں اُنھوں نے ایک جگہ یوں تحریر کیا ہے:
“مغل بچےّ بھی غضب کے ہوتے ہیں۔ جس پر مرتے ہیں، اُس کو مار رکھتے ہیں۔ میں بھی مغل بچہ ہوں۔ عمر بھر ایک ستم پیشہ ڈومنی کو میں نے بھی مار رکھا ہے۔ خدا اُن دونوں کو بخشے اور ہم تم دونوں کو کہ زخمِ مرگِ دوست کھائے ہوئے ہیں۔ چالیس بیالیس برس کا واقعہ ہے،بہ آنکہ یہ کوچہ چھٹ گیا۔ اس فن میں بیگانۂ محض ہو گیا ہوں۔ لیکن اب بھی کبھی کبھی وہ ادائیں یاد آتی ہیں۔ اُس کا مرنا زندگی بھر نہ بھولوں گا۸۔ “
مرزا غالبؔ کی یہ کیفیت اُن کی محبوبہ کی موت کے چالیس برس بعد کی ہے۔ یہ ردِّ عمل ایک دل پھینک رومان زدہ شاعر کا تو نہیں ہوسکتا۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ وہ اپنے محبوب کا ذکر ایک دوست کی حیثیت سے کرتے ہیں۔ اس سے اُن کی جذباتی وابستگی کا ہی نہیں، بلکہ اپنے محبوب کے تئیں احترام اور عزّت کا بھی اندازہ ہوتا ہے۹۔ اِس خاتون کی موت کے بعد غالبؔ کی زندگی میں، بظاہر اور دوسری خاتون نظر نہیں آتیں۔
غالبؔ کا عشق ایک ذاتی اور اُن کا اپنا جذباتی معاملہ تھا۔ حسن کے تئیں اُن کا ردِّ عمل بھی ایک مخصوص ذاتی ردِّ عمل تھا۔ لیکن یہ دونوں کیفیات اُن کے اشعار کی شکل میں ایک آفاقی ردِّ عمل بن جاتی ہیں۔ ان اشعار میں فن کی حسن کاری اور فلسفیانہ گہرائی ساتھ ساتھ نظر آتی ہیں۔
(۳) غالبؔ کا سماجی ماحول
غالبؔ کا سماجی اور تہذیبی پس منظر جاگیردارانہ تھا۔ وہ دَور شہنشاہیت کا دَور تھا۔ اُس دَور کی خواتین تو زنان خانوں کی زینت ہوا کرتی تھیں۔ وہ پالکیوں میں سفر کرتی تھیں۔ راہ چلتے اتفاقاً ہوا کا کوئی شریر جھونکا کسی گزرتی ہوئی پالکی کا کونا ہٹا کر، کسی رُخِ زیبا کی ایک جھلک فراہم کرنے کا موجب بنتا تو مرزا غالبؔ کے ذوقِ جمال کی تسکین کے لیے کافی تھا۔ اس ماحول میں صنفِ نازک کے ساتھ روابط کے امکانات محدود تھے۔ اس لحاظ سے غالبؔ کی عشقیہ شاعری محض تخیل پردازی ہی نظر آتی ہے۔
اِس تہذیبی پس منظر سے دُور کلکتہ میں اپنے قیام کے دوران، جب وہ ’بتانِ کشورِ لندن‘کا نظارہ کرتے ہیں، تو غالبؔ کے منہ سے ’ہائے‘نکل جاتی ہے۔ (واضح رہے کہ غالبؔ کی یہ متحیّرانہ ہائے، انگریزی زبان کے ‘Oh’یا ‘Ah’کے مترادف نہیں ہے، بلکہ آج کل کے دَور کے نوجوانوں کے عام سے ردِّ عمل Wowسے مشابہہ ہے)۔
غالبؔ اپنی پینشن کے سلسلے میں کلکتےّ کا سفر کرتے ہیں۔ اپنے قیام کے دوران وہ فرنگی حسیناؤں کا نظارہ کرتے ہیں۔ یہ حسینائیں کبھی دریائے ہگلی پر مور پنکھی کشتیوں پر سوار ہو کر سیر کرتی نظر آتی ہیں، کبھی سڑکوں پر بے فکری سے خراماں خراماں ٹہلتی ہوئی گزر جاتی ہیں۔ غالبؔ کے معاشرے میں ایسے بیباک، بے پردہ، پری رُو چہرے کہاں نظر آتے تھے۔ وہاں تو عالم یہ تھا:
منہ نہ دِکھلاوے ، نہ دِکھلا ، پر بہ اندازِ عتاب
کھول کر پردہ ذرا ، آنکھیں ہے دِکھلا دے مجھے
کلکتہ میں تو عالم ہی دوسرا تھا۔ ہر طرف برملا حسن کی فراوانیاں اور جلوہ سامانیاں۔ سچ تو یہ ہے کہ مرزا کے لیے یہ نظارہ کسی کلچرل شاک (Cultural Shock) سے کم نہ تھا۔ اس نظارے کا ردِّ عمل اشعار کی شکل میں یوں ظاہر ہوتا ہے:
وہ سبزہ زار ہائے مطرا کہ ہے غضب
وہ نازنیں بتانِ خود آرا کہ ہائے ہائے
صبر آزما وہ اُن کی نگاہیں کہ صف نظر
طاقت رُبا وہ اُن کا اشارہ کہ ہائے ہائے
بظاہر غالبؔ کا یہ ردِّ عمل کچھ ایسا نظر آتا ہے کہ جیسے اُنھیں کوئی کیفیت اپنے ساتھ بہا کر لے گئی ہو، لیکن میرے خیال میں یہ ایک مخصوص مشاہدے کا ردِّ عمل ہے۔ غالبؔ کی سنجیدگی اور دانشورانہ اِدراک کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بنارس کے ’بتانِ خوب رُو‘کی تعریف وہ اس طرح کرتے ہیں:
بتانش را ہیولیٰ شعلۂ طور
سراپا نورِ ایزد چشم بد دور
کلکتہ کے تجربے کو مرزا غالبؔ یوں سمیٹتے ہیں:
گفتم:
“ایں ماہ پیکراں چہ کس اند؟”
گفت:
“خوبانِ کشورِ لندن”
گفتم:
“ایناں مگر دِلے دارند؟”
گفت:
“دارند لیک از آہن”
گفتم:
“از بہر داد آمدہ اَم”
گفت:
بگریز و سر بہ سنگ مزن”
ظاہر ہے جب حسیناؤں کے دِل لوہے کے ہیں، جن پر کوئی اثر نہیں ہوتا تو حاکموں کے دِل کیسے ہوں گے۔ یہاں انصاف ملنے کی گنجائش کہاں، جس کی تلاش میں غالبؔ نے کلکتہ کا سفر اختیار کیا تھا۔ پتھروں سے سر پھوڑنے سے کیا فائدہ۔ خیالات کو حسیّیات میں، مشاہدات کو ذہنی کیفیات میں اور پھر ان کو شعری پیکروں میں ڈھالنے کی اس سے بہتر مثال اور کیا ہوسکتی ہے۔
غالبؔ حسن کا شدید احساس رکھتے تھے۔ یہ احساس اُن کے تخیل کی پرواز کو لامکاں کی حدوں تک لے گیا تھا۔ وہ حسن کی ظاہری شکل سے زیادہ اُس کی لافانیت پر یقین رکھتے تھے۔ وہ حسن کے خاک ہونے پر بھی یقین نہیں رکھتے تھے کہ وہ پھر لالہ و گل کی صورتوں میں ظاہر ہوتا ہے۔ غالبؔ کے حسن و عشق کا حوالہ (Reference Point)صنفِ نازک ہے، جو بقول اُن کے شعلہ خو ہے، آتشِ نفس ہے، حسن میں یکتا ہے، تند خو ہے اور ستمگر بھی۔ صنفِ نازک کی اِس صف میں ایک مونس و ہمدرد اُمراؤ بیگم ہیں اور ایک دوست ستم پیشہ ڈومنی بھی ہیں:
دیکھئے لاتی ہے اُس شوخ کی نخوت کیا رنگ
اُس کی ہر بات پر ہم نامِ خدا کہتے ہیں
وحشتؔ و شیفتہؔ اب مرثیہ کہویں شاید
مرگیا غالبِؔ آشفتہ نوا کہتے ہیں
حوالہ جات
۱غالب کی شخصیت، ڈاکٹر وزیر آغا، از “احوال و نقد غالب” مرتبہ: پروفیسر محمد حیات خاں سپال، نذرسنز (لاہور، ۱۹۶۷ء)، ص۱۲۳۔
۲ایضاً۔
۳”غالب کی شاعری میں حسن و عشق” حمید احمد خاں، از “نقدِ غالب” مرتبہ: ڈاکٹر مختارالدین احمد، انجمن ترقی اُردو (ہند) علی گڑھ (۱۹۵۶ء) ص۷۶۔
۴”قشِ غالب” اسلوب احمد انصاری، غالب اکیڈمی، نئی دہلی (۱۹۷۰ء)، ص۱۸۔
۵ایضاً، ص۱۹۔
۶”جہانِ غالب” کوثر چاند پوری، نسیم بکڈپو، لکھنؤ (۱۹۶۳ء) ، ص۹۷۔ ۱۱۰۔
۷ایضاً۔
۸”غالب کی عشقیہ شاعری” ڈاکٹر ایس ایم ا کرم، از: “احوال و نقد غالب”، ص۳۹۸۔
۹ایضاً، ص۳۹۸۔ ۳۹۹۔
۔۔۔۔۔۔