ڈاکٹر جمیل جالبی(کراچی)
اب تو ہواؤں کا رخ بدل گیا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب فارسی زبان ہمارا اوڑھنا بچھونا تھی۔ بچوں کی تعلیم کا آغاز، جیک اینڈ جل وینٹ اپ ٹو دی ہل، کے بجائے گلستان، بوستان سے ہوتا تھا۔ لوگ شوق سے فارسی پڑھتے تھے۔ فارسی اشعار اور فارسی ضرب المثال چشمۂ شیریں کی طرح زبان پر رواں تھیں۔ برصغیر پاک و ہند کی مسلم تاریخ اور کم و بیش ساری علمی و ادبی میراث اِسی زبان میں محفوظ تھی اور آج بھی محفوظ ہے۔لیکن فارسی زبان کے عدم رواج نے اِس میراث کو ہمارے لئے بے معنی بنادیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم آج اپنی تاریخ کی صحیح ترجمانی سے قاصر ہیں۔ جو انگریزوں نے لکھ دیا ہمارے لئے مُستند ہوگیا اور آج اُنہیں حوالوں سے ہم اپنی تاریخ کو پہچانتے ہیں اور اُسے بے مایہ و حقیر جانتے ہیں۔ اِسی وجہ سے ہمیں اپنی چیزیں کم تر اور اپنی میراث بے وقعت نظر آتی ہے۔ غور کیجئے کہ اٹھارہویں عیسوی تک ہمارا جو کچھ ادبی، علمی، تہذیبی و تاریخی سرمایہ تھا وہ زیادہ تر فارسی میں تھا اور آج ہم فارسی زبان سے کم و بیش ناواقف ہیں ماضی سے ہمارا رشتہ کمزور ہوگیا ہے اور اسی وجہ سے ہماری جڑیں کھوکھلی ہوکر رہ گئی ہیں۔ یہی صورتحال رہی تو مجھے یقین ہے کہ ہم اسی طرح تیسرے بلکہ چوتھے درجے کی قوم بن کر رہِ حیات کو طے کرتے رہیں گے۔ بہرحال جب میری قو م نے طے کرلیا ہے کہ اپنی زبان، اپنی تہذیب اور اپنی میراث کو ترک کرکے بیرونی تہذیب کو اپنائے گی تو پھر میں اور آپ کیا کرسکتے ہیں۔ ہم تو زیادہ سے زیادہ بقول اکبرؔ ……
نیک و بد حصور کو سمجھائے جاتے ہیں۔
حضرت صباؔ اکبر آبادی کو بھی میری طرح یہی خلش تھی اور اسی لئے انہوں نے غالبؔ کی فارسی رُباعیوں کا اردو ترجمہ کیا تاکہ بند چشمے کا منہ کھول دیں اور اہلِ ذوق کی تشنگی دور کرنے کا سامان مہیا کردیں۔ غالبؔ ہمارا عظیم شاعر ہے۔ ایک ایسا شاعر جو مسلم تہذیب کی علامت بن گیا ہے وہ آج بھی ہمارا ایسا شاعر ہے جو مختلف موڑوں پر، زندگی کے مختلف تجربات کے دو راہوں پر ہمارے جذبات و احساسات کی ترجمانی کرکے ہمیں تازہ دم کردیتا ہے۔ غالبؔ کا اردو کلام بلاشبہ لافانی ہے لیکن اُس کا فارسی کلام بھی اردو کی طرح لافانی اور بے مثل ہے۔ اُس کا اپنا لہجہ اور اُس کا اپنا رس ہے لیکن ہم فارسی زبان سے ناواقفیت کی بنا پر اس سے لطف اٹھانے کی اہلیت ہی گنوا بیٹھے ہیں۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے علمی، ادبی، تہذیبی و تاریخی سرمائے کو اردو میں منتقل کریں تاکہ بند قلعے کا دروازہ کھل جائے اور ہم اپنے ماضی کی میراث سے اپنا حقیقی تہذیبی رشتہ قائم کرسکیں۔ حضرت صباؔ اکبر آبادی نے کئی سال پہلے عمر خیامؔ کی رباعیات کا اردو ترجمہ کیا تھا اور ایسا کیا تھا کہ ترجمہ سُن کر روح کی کلی کھل اٹھتی تھی اور اب غالبؔ کی رباعیات کا اردو ترجمہ کرکے ایک اہم اوروقیع کام کیا ہے۔ ترجموں کو پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ صباؔ صرف غالبؔ کے غالبؔ کی شاعری کے رس، غالبؔ کی فکری لطافتوں کے رازداں ہی نہیں ہیں بلکہ انہیں اُردو زبان، اُس کے اسالیب اس کے مختلف لہجوں اور اظہار و بیان پر پوری قدرت بھی حاصل ہے۔ یہ کام ہمارے دور میں حضرت صباؔ اکبر آبادی ہی کرسکتے تھے اور خوشی کی بات ہے کہ یہ کام انہوں نے ہی کیا ہے۔ صباؔ اکبر آبادی صاحب نے غالبؔ کی فارسی رباعیات اور اپنے ترجموں کو ساتھ ساتھ شائع کیا ہے اور اہلِ نظر دیکھ سکتے ہیں کہ ان ترجموں میں وہ تخلیقی شان موجود ہے جو غالبؔ کی فارسی رباعیوں میں نظر آتی ہے۔ یہ کام کرکے انہوں نے فارسی کے غالب کو ہماری تہذیب کے آنگن میں لاکھڑا کیا ہے اور اس موقع پر اگر میں حضرت صباؔ سے یہ فرمائش بھی کر بیٹھوں تو بے جا نہ ہوگا۔
حضرت صباؔ کے بعدفارسی کا چلن ہمارے دور میں بہت کم ہوگیا ہے۔ آنے والے زمانوں میں یہ چلن اور کم ہوجائے گا۔ اس لئے اگر آپ غالبؔ کی فارسی غزلوں کا اردو میں ترجمہ کردیں تو نہ صرف اردو زبان پر احسان ہوگا بلکہ ہماری تہذیب کے چمن میں بہار آجائے گی۔
یہ بہت بڑا کام ہے لیکن ہمارے ملک میں اس کام کو صباؔ صاحب ہی کرسکتے ہیں۔ غالبؔ نے خود کہا تھا۔
فارسی بیس تابہ بینی نقش ہائے رنگ رنگ
بگزر مجموعۂ اردو کہ بے رنگِ من است
آپ خود سوچئے کہ جب غالبؔ کا اردو کلام جسے اس نے ’’بے رنگِ من است‘‘ کہا ہے اتنا بول رہا ہے تو وہ فارسی کلام جسے غالبؔ نے ’’نقش ہائے رنگ رنگ‘‘ کہا ہے ہماری تہذیبی زندگی میں کیسے کیسے نئے رنگ کھولے گا۔
حضرت غالبؔ بھی جناب صباؔسے اس رباعی میں شاید یہی کہہ رہے ہیں۔
مائل بہ کرم عالم ایجاد رہے
شاید مرا غم خانہ بھی آباد رہے
مجھ سے تو وہی مطربِ خوش خو اچھا
جو دوسروں کے گیت پہ دل شاد رہی
اب دو چار رباعیاں اور سن لیجئے اور اندازہ کیجئے کہ حضرت صباؔ نے کیسا خوبصورت ترجمہ کیا ہے۔
شب کیا ہے سویدائے دل اہلِ کمال
بڑھ جاتا ہے اور حُسنِ زلف و خط و خال
معراجِ رسولﷺبھی ہوئی تھی شب میں
اس سے بہتر نہیں تھا کوئی ہنگام وصال
اِک روز شراب چھوڑنا ہے غالبؔ
پھر ساقی کے ہاتھ جوڑنا ہے غالبؔ
کیا فائدہ یہ ہوائی توبہ کرکے
رُخ دونوں طرف جو موڑنا ہے غالبؔ
کیا موت سے خوف جاں ستانی ہے مجھے
یہ موت حیاتِ جاودانی ہے مجھے
خود سوزِ حیات سے پُھنکا جاتا ہوں
خود موت سے تلخ زندگانی ہے مجھے
افلاس کے عالم میں ہوئی تلخ حیات
طاعت بھی نہیں ہوتی بہ اُمیدِ نجات
اے کاش نماز اور روزہ ہوتے
مشروط بہ مال جیسے حج اور زکواۃ
غالبؔ تیرا سخن میں ہمسر تو نہیں
پھر بھی تو حدِ ہوش سے باہر تو نہیں
مے چاہتا ہے نفیس اور بے حد
یہ پیر مغاں ساقیِٔ کوثر تو نہیں
شادی جو کرے گا ہوگا دانا کیسے
افکار سے پھر جان بچانا کیسے
گھر ساری خدائی میں ہے، گھر والی نہیں
پھر میرا خدا ہو نہ توانا کیسے
ان رباعیات کو پڑھنے کے بعد میں سمجھتا ہوں کہ اگر غالبؔ بھی اپنی رباعیات کا ترجمہ کرتے تو ویسا ہی کرتے جیسا صباؔ صاحب نے کیا ہے۔