صبا اکبرآبادی کی تخلیقات کے ذخیرہ میں جہاں غزلیں، منظومات، رباعیات اور اسی(۸۰) کے قریب مراثی شامل ہیں وہاں ترجمہ کے سلسلے میں بھی اُ ن کا مدِ مقابل کوئی دوسرا نظر نہیں آتا۔ رباعیاتِ عمر خیام کا ذکر ہم گزشتہ شمارے میں کر چکے ہیں کہ خیام کی بارہ سو رباعیات کا اردو رباعی میں ترجمہ کیا ہے۔ غالب کے اردو دیوان کی مکمل تضمین کے ساتھ غالب کی تمام فارسی رباعیات کو اردو رباعی کا روپ دیا ہے۔ ذیل میں غالب کی چند فارسی رباعیات کے ساتھ صبا صاحب کا ترجمہ پیش کر رہے ہیں۔۔۔۔(نذر خلیق)
غالب غمِ روزگار بارش نہ کشد وز خورِ بہشت انتظارش نہ کشد
دارد تن و تن ز درد زارش نہ کُند دارد دل و دل ہیچ کارش نہ کشد غالبؔ
غالب کو غمِ حیات ہے بارِ عظیم کب تک یہ خیالِ حورِ فردوسِ نعیم
ہے جسم مگر درد کا مارا ہوا جسم دل سینے میں ہے مگر وہ مجروح و دونیم صباؔ
اے تیرہ زمین کو بو دۂ بستر من ہر خاک کہ با تُست ہمہ برسر من
زر بہر کسان و بہر من دانہ و دام اے مادرِ دیگران و مادندرِ من غالبؔ
اے خاک ادائیں ہیں تری البیلی تُو نے مٹی کی مجھ سے بازی کھیلی
غیروں کو زر و مال، مجھے رنجِ دوام تُو سب کی سگی ماں ہے مری سوتیلی صباؔ
خواندیم سخن ہائے محبت بسیار راندیم سخن ہائے محبت بسیار
رفتیم ز عالم و در عالم آخر ماندیم سخن ہائے محبت بسیار غالبؔ
ہاں کی ہیں محبت کی بہت سی باتیں لکھی ہیں محبت کی بہت سی باتیں
دنیا سے میں جاتا ہوں مگر دنیا میں چھوڑی ہیں محبت کی بہت سی باتیں صباؔ