اردو شعرا میں جو مقبولیت مرزا اسد اللہ خاں غالبؔ کے کلام کو حاصل ہوئی وہ بہت کم شاعروں کے حصے میں آئی، لیکن عام طور پر غالب کے بارے میں یہی کہا جاتا ہے کہ وہ اردو کے ایک مشکل پسند شاعر تھے، ان کی شاعری فارسی شاعری کی مبینہ تقلید ہے، ان کے اشعار بے معنی ہیں یا یہ کہ ان کی شاعری میں جا بجا ابہام پایا جاتا ہے۔ لوگوں کی یہ بھی رائے ہے کہ غالب کی تشبیہیں نامانوس اور استعارے و تراکیب دور از کار ہیں، ان کے خیال میں پیچیدگی اور طرزِ بیان میں الجھاؤ پایا جاتا ہے۔ مزید برآں کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ غالب کے یہاں گہرا فلسفہ پایا جاتا ہے جو عام انسانوں کی فہم و ذکا سے بالا تر ہے۔ غالب کے بارے میں حکیم آغا جان عیش نے تو یہ تک کہہ دیا تھا ؎
کلامِ میرؔ سمجھے اور زبانِ میرزا سمجھے
مگر ان کا کہا یہ آپ سمجھیں یا خدا سمجھے
ان تمام باتوں کے با وصف غالبؔ کی بے پناہ مقبولیت اور شہرت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ غالب آج بھی اتنے ہی مقبول شاعر ہیں جتنے کہ وہ اپنے دور میں تھے بلکہ رفتارِ زمانہ کے ساتھ ساتھ غالبؔ کی شہرت اور مقبولیت میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ آج غالبؔ کی ہمہ گیری و آفاقیت کا یہ عالم ہے کہ نہ صرف ہندو پاک بلکہ دنیا کے تقریباً ہر بڑے ملک کے لوگ غالبؔ کے نام سے واقف ہو چکے ہیں۔ دنیا کے تمام بڑے شاعروں کی اگر کوئی فہرست مرتب کی جائے تو اس میں اردو کی جانب سے غالب کا نام ضرور شامل ہو گا۔ اس کے علاوہ غالبؔ کی شاعری اور ان کی زندگی پر حالیؔ سے لے کراب تک جتنی کتابیں لکھی گئی ہیں اور جتنے مضامین شائع ہوئے ہیں اتنے شاید کسی دوسرے شاعر پر نہیں لکھے گئے۔ غالب کے اردو دیوان کو بھی بہتر سے بہتر طور پر شائع کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ان کی زندگی سے لے کر اب تک دیوانِ غالبؔ کے بے شمار ایڈیشن منظرِ عام پر آ چکے ہیں اور دنیا کی بیشتر ترقی یافتہ زبانوں میں غالبؔ کے کلام کے ترجمے ہو چکے ہیں۔
غالبؔ کو جو لوگ مشکل پسند بتاتے ہیں انھیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ ایک مشکل پسند شاعر عوام میں کیوں کر اتنا مقبول ہوسکتا ہے اور ہر آنے والی نسل ان کے کلام پر کیوں کر اپنا سردھن سکتی ہے۔ غالب کے بارے میں مختلف قسم کی رایوں سے قطعِ نظر اگر ان کی شاعری کا ذرا بغور مطالعہ کیا جائے اور ان کے کلام کو ایسے اشعار سے ہٹ کر دیکھا جائے جن میں الفاظ کی بازی گری اور تخیل کی اونچی اڑان پائی جاتی ہے تو ان کی شاعری پر سے مشکل پسندی، ابہام اور پیچیدگی کے پردے ہٹتے ہوئے نظر آئیں گے۔ مشکل پسندی کی جگہ سادہ بیانی اور پیچیدگی اور الجھاؤ کی جگہ سلجھاہوا انداز نظر آنے لگے گا۔ غالبؔ کی شاعری کا یہی وہ پہلو ہے جس میں ان کی مقبولیت کا راز پوشیدہ ہے۔ اگر وہ مشکل پسند شاعر ہوتے اور ان کی شاعری بے معنی اور مہمل ہوتی تو زمانہ آج انھیں سرآنکھوں پر جگہ نہ دیتا اور نہ ہی ان کے دیوان کو ’’الہامی کتاب‘‘ کا درجہ دیا جاتا، اور محمد حسین آزادؔ بھی دیوانِ غالب کے بارے میں یہ نہ کہتے:
’’وہ یہی دیوان ہے کہ آج ہم عینک کی طرح آنکھوں سے لگائے پھرتے ہیں۔ ‘‘
غالبؔ کی پیچیدگی اور مشکل پسندی پر اردو میں بہت کچھ لکھا گیا ہے اور آئندہ بھی لکھا جائے گا، لیکن غالبؔ کی سہل پسندی اور سادہ بیانی کی طرف تنقید نگاروں کی بہت کم توجہ مبذول ہوئی ہے۔ حالانکہ ان کے یہاں صاف، سادہ، سلیس اورسلجھے ہوئے اشعار کی کوئی کمی نہیں۔ اس طرح کے اشعار ہمیں ان کے دیوان میں جا بجا ملتے ہیں، مثلاً :
دم لیا تھا نہ قیامت نے ہنوز
پھر ترا وقتِ سفر یاد آیا
________
جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن
بیٹھے رہیں تصورِ جاناں کیے ہوئے
________
مہرباں ہوکے بلا لو مجھے چاہو جس دم
میں گیا وقت نہیں ہوں کہ پھر آ بھی نہ سکوں
________
ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
________
مجھ کو دیارِ غیر میں مارا وطن سے دور
رکھ لی مرے خدا نے مری بیکسی کی لاج
________
نیند اس کی ہے دماغ اس کا ہے راتیں اس کی ہیں
تیری زلفیں جس کے بازو پر پریشاں ہو گئیں
غالبؔ دہلی کے رہنے والے تھے مگر ان کی پیدائش آگرے میں ہوئی تھی۔ یہ وہی دہلی ہے جو کئی بار گردشِ زمانہ کے ہاتھوں اُجڑ چکی تھی اور جس کی ساری زیب و زینت اور آرائش خاک میں مل چکی تھی۔ غالبؔ کا اپنا دور بھی کسی پُر آشوب دور سے کم نہ تھا۔ غدر کے خوں چکاں واقعات ان کی آنکھوں کے سامنے رونما ہوئے تھے۔ دہلی کی رونق کو مٹتے ہوئے اور سلطنتِ مغلیہ کے چراغ کو گل ہوتے ہوئے انھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ اس کس مپرسی اور بدحالی کی وجہ سے دہلی کے رہنے والوں میں وہ بانکپن نہیں رہ گیا تھا جو لکھنؤ میں پایا جاتا تھا۔ دہلی والوں کی طرزِ معاشرت میں بے پناہ سادگی پیدا ہو چکی تھی۔ تکلف و تصنع اور زیبائش و آرائش تو نام کو بھی باقی نہ تھی۔ دراصل یہ کیفیت غالبؔ کے عہد سے بہت پہلے ہی پیدا ہو چکی تھی۔ چنانچہ ہم جانتے ہیں کہ میر تقی میرؔ جب دہلی کی بدحالی سے گھبرا کر لکھنؤ پہنچے تھے تو وہاں کے طرحداروں اور بانکوں نے ان کی سادگی پر خوب خوب قہقہے بلند کیے تھے۔ غالبؔ نے جس ماحول میں آنکھیں کھولی تھیں وہ ماحول بھی امیرانہ نہ تھا۔ والد کا انتقال ان کی کم عمری ہی میں ہو چکا تھا۔ جب یہ بڑے ہوئے تو انھیں طرح طرح کی معاشی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ غرض یہ کہ ان سب باتوں نے غالبؔ کو ایک سادہ انسان بن کر رہنے پر مجبور کر دیا تھا۔ لیکن زمانے کی صعوبتوں کو دیکھ کر بلکہ جھیل کر نہ تو وہ میرؔ کی طرح سنجیدہ ہوئے اور نہ ہی انھوں نے یاس کا کوئی عنصر قبول کیا۔ غالبؔ کی زندگی میں جو سادگی پیدا ہوئی تھی اس کا اثر ان کی شاعری پر بھی پڑا اور ان کی شاعری ’’سادگی و پرُکاری ‘‘ کا ایک نمونہ بن گئی۔
غالبؔ کی شاعری کو تین ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلا دور شعر کہنے کی عمر سے لے کر پچیس برس کی عمر تک کا ہے۔ دوسرا دور پچیس برس کی عمر سے شروع ہوتا ہے اور قلعۂ معلّیٰ کی ملازمت تک جاری رہتا ہے۔ ان کی شاعری کے تیسرے دور کو قلعۂ معلی کی ملازمت سے لے کر آخرِ عمر تک خیال کیا جاتا ہے۔ پہلے اور دوسرے دور میں غالب فارسی سے بہت قریب نظر آتے ہیں۔ ان کی شاعری میں مرزا بیدلؔ کی برملا تقلید پائی جاتی ہے۔ لیکن تیسر ا دور جو قلعۂ معلی کی زندگی سے وابستہ ہے، وہی ان کی شاعری کا اہم ترین زمانہ ہے۔ اس دور میں ان کی شاعرانہ خوبیاں انتہائی عروج پر نظر آتی ہیں۔ یہاں تک پہنچتے پہنچتے وہ سمجھ گئے تھے کہ کامیاب غزل گو بننے کے لیے سہل پسندی کا ہی راستہ اختیار کرنا ہو گا۔ چنانچہ ان کا اس دور کا کلام ندرتِ خیال، شگفتگیِ بیان اور لطافتِ زبان کے ساتھ ساتھ اپنے اندر بڑی سادگی بھی رکھتا ہے۔ دراصل ان کی اسی شاعری نے انھیں اردو شعرا کی صفِ اول میں لا کھڑا کیا۔
اکثر ایسا دیکھا گیا ہے کہ ایک شاعر، دوسرے شاعر کے کلام سے اثر قبول کرتا ہے، لیکن غالب ایک ایسے شاعر ہیں جنھوں نے اپنی تحریروں سے آپ اثر قبول کیا ہے۔ شاعری کے ابتدائی دور میں وہ مرزا بیدلؔ سے ضرور متاثر تھے، لیکن یہ اثر صرف ان کی جوانی تک قائم رہا اور رفتہ رفتہ بیدلؔ کی تقلید کم ہوتی گئی۔ فارسی کا جنون جب ان کے ذہن و دماغ سے جاتا رہا تو انھوں نے اردو مکتوب نگاری کی بنیاد ڈالی اور اردو میں ایسے سادہ اورسلیس خطوط لکھے کہ نہ تو ان سے پہلے کوئی ایسے خط لکھ سکا اور نہ ان کے بعد ہی کسی کو اس اسلوب میں خط لکھنے کی جرأت ہوئی۔ اس سے قبل فارسی شاعری کی طرح غالب خطوط بھی فارسی ہی میں لکھا کرتے تھے۔ زبان کی اس تبدیلی کا ان کی شاعری پر بہت گہرا اثر پڑا اور یہ تبدیلی ایک طرح سے اردو شاعری کے لیے فالِ نیک ثابت ہوئی۔ چنانچہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ غالب اگر خطوط اردو میں نہ لکھتے تو غالباً ان کی اردو شاعری بھی اتنی سادگی اور سہل پسندی کی حامل نہ ہوتی۔ غالب کو دہلی کی عام بول چال کی زبان بہت پسند تھی، چنانچہ ان کے خطوط کی زبان بھی وہی ہے جواس عہد کی دہلی کی زبان تھی کہ ان کو یہی زبان عزیز تھی۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ میر امّن کی ’باغ و بہار‘ کو مرزا رجب علی بیگ سرورؔ کی ’فسانۂ عجائب‘ پر غالب نے ہمیشہ فوقیت دی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ’باغ و بہار‘ دہلی کی صاف، ستھری اور سلجھی ہوئی زبان میں لکھی گئی ہے۔ اس کے برخلاف ’فسانہ عجائب‘ پرتصنع اور مقفیٰ ومسجّع نثر کا ایک نمونہ بن کر رہ گئی جسے غالب نے ’’بھٹیار خانہ‘‘ کہا ہے۔ اگر غالب پُر تکلف اندازِ بیان، پر تصنع اسلوب اور عبارت آرائی کے شیدائی ہوتے تو ’فسانہ عجائب‘ کی زبان کو خوب سراہتے اور اس کی چاشنی اور رنگینی سے خوب لطف اندوز ہوتے، لیکن ان کے مزاج میں سادگی کا عنصر بدرجۂ اتم موجود تھا۔ انھوں نے مشکل اور پر تکلف اندازِ بیان کونہ تو خود پسند کیا اور نہ دوسروں ہی کے لیے اسے بہتر سمجھا۔
ان سب باتوں سے قطعِ نظر، جس چیز نے غالب کو سہل پسندی اور سادہ بیانی کی طرف مائل کیا وہ تھا ان کا وہ احساس جو اس دور کے عوام کی ناسخن فہمی یا کم سخن شناسی کے سبب پیدا ہوا تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ جس طرح کی شاعری وہ کر رہے ہیں، وہ عوام کے مذاق اور ان کی فہم سے بالاتر ہے۔ عوام کا معیار اتنا بلند نہیں کہ وہ تخیل کی بلند پروازیوں کو سمجھ سکیں۔ اس جھنجلا ہٹ کا اظہار ان کی شاعری میں کہیں کہیں پایا جاتا ہے، مثلاً :
ہوں گرمیِ نشاطِ تصور سے نغمہ سنج
میں عندلیبِ گلشنِ ناآفریدہ ہوں
________
نہ ستائش کی تمنّا نہ صلے کی پروا
گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی نہ سہی
لیکن آخری دور میں جب غالب کو عوام نے ان کے اشعار کی سادگی اور صفائی کی وجہ سے سر آنکھوں پر بٹھانا شروع کر دیا تو وہ فخر یہ یہ کہنے پر مجبور ہوئے ؎
ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالبؔ کا ہے اندازِ بیاں اور
غالب کی شاعری پر مشکل پسندی، پیچیدگی اور مبہم ہونے کے جو الزامات عائد کیے گئے ہیں ان میں غالب یا ان کی شاعری کا کوئی قصور نہیں، قصور اس بات کا ہے کہ عوام نے اپنے فیصلے میں بہت جلد بازی سے کام لیا اور بغیر سوچے سمجھے ان کی شاعری کو ’’بے معنی‘‘ کہہ ڈالا۔
غالب سے پہلے ہمیں اردو میں ایسے متعدد شعرا نظر آتے ہیں جو اشعار کی سادگی اور سلاست میں اپنا جواب نہیں رکھتے تھے۔ لیکن جو بات غالب کے یہاں ہے وہ دوسرے شعرا کے یہاں نہیں پیدا ہوسکی۔ اس سلسلے میں میرتقی میرؔ کا نام پیش کیا جا سکتا ہے۔ میر کے یہاں سادہ، سلیس اور عام فہم اشعار کی تعداد کافی ہے اور ان کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ اردو کے ایک سادہ بیان اور عام لب و لہجے کے شاعر ہیں، اور انھوں نے اس بات کا دعویٰ بھی کیا ہے کہ انھیں ’’گفتگو عوام سے ہے‘‘، لیکن غالب کے سلسلے میں جو تعصب ہمارے ذہن کے اندر جاگزیں ہو چکا ہے اس سے قطعِ نظر کرتے ہوئے اگر دیکھا جائے تو غالب کے کلام میں بھی میرؔ جیسی سادگی کی مثالیں جا بجا ملیں گی۔ میرؔ کا ایک شعر ہے ؎
بھاگے مری صورت سے وہ عاشق میں اس کی شکل پر
میں اس کا خواہاں یاں تلک وہ مجھ سے بیزار اس قدر
غالب نے اسی خیال کو کتنے سادہ، سہل اور برجستہ انداز میں یوں پیش کیا ہے ؎
ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار
یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے
میرؔ کا شعر ہے ؎
سراہا اُن نے ترا ہاتھ، جن نے دیکھا زخم
شہید ہوں میں تری تیغ کے لگانے کا
غالب نے اسی مضمون کو یوں باندھا ہے ؎
نظر لگے نہ کہیں اس کے دست و بازو کو
یہ لوگ کیوں مرے زخمِ جگر کو دیکھتے ہیں
میر اور غالب کے یہ دونوں اشعار ہمیں فارسی کے اِس شعر کی یاد دلاتے ہیں ؎
ہر کس کہ زخم کاریِ مارا نظارہ کرد
تا حشر دست و بازوئے او را دعا کند
غالب کی ابتدائی دور کی شاعری کا بیش تر سرمایہ فارسی میں ہے اور اسی کو وہ ’’نقش ہائے رنگ رنگ ‘‘ کہتے تھے اور اپنے ’’مجموعۂ اردو ‘‘کو ’’بے رنگ‘‘ خیال کرتے تھے ؎
فارسی بیں تابہ بینی نقش ہائے رنگ رنگ
بگذراز مجموعۂ اردو کہ بے رنگِ من است
فارسی میں شعر کہنے کے علاوہ انھوں نے اکثر فارسی اشعار کے ترجمے بھی کیے ہیں، لیکن اشعار میں کہیں سے بھی ترجمہ پن کی بو نہیں آتی۔ ان کے دوسرے اشعار کی طرح یہ اشعار بھی بالکل طبع زاد (Original)معلوم ہوتے ہیں۔ ان میں وہی سلاست، وہی روانی اور وہی سادگی جلوہ گر ہے جو دوسرے اشعار میں پائی جاتی ہے۔ غالب کے دیوان میں بے شمار اشعار ایسے ملیں گے جو فارسی کا چربہ ہیں، لیکن ان کا اندازِ بیان سہل ہے اور ان میں اتنی برجستگی پائی جاتی ہے کہ گمان ہی نہیں ہوتا کہ یہ فارسی سے ترجمہ کیے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر فارسی کا یہ شعر ملاحظہ ہو ؎
جانے کہ داشت کرد فدائے تو آذری
شرمندہ از تو گشت کہ جانِ دگر نہ داشت
غالب اسی خیال کو یوں ادا کرتے ہیں ؎
جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
ایک اور شعر ملاحظہ ہو جسے اکثر لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ یہ غالب کا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ فارسی کے ایک شعر کا ترجمہ ہے۔ اصل شعر فسونی تبریزی کا ہے جو یوں ہے ؎
بہ اوچو می رسم آسودہ می شوم ازدرد
ندیدہ حالِ مرا وقتِ بے قراری حیف
غالب کا شعر یوں ہے ؎
اُن کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پہ رونق
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے
غالب کے کلام میں سادگی وسادہ بیانی کے ذکر سے ہر گز یہ مراد نہیں کہ اُن کے یہاں اس کے علاوہ کوئی دوسری خصوصیت نہیں پائی جاتی۔ ان کی شاعری میں شوخی و ظرافت، طنز و مزاح، رندی و سرمستی، کیفیاتِ حسن و عشق، نیز واعظ و جنت کے تذکرے، سبھی کچھ ہیں، لیکن اکثر و بیشتر ان کا طرزِ بیان اتنا سہل ہے کہ ان مضامین کو سمجھنے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی۔
شعر کو آسان اور عام فہم بنانے کے لیے غالب نے مختلف طریقے (Devices) استعمال کیے ہیں۔ طویل اور پیچیدہ بحروں کی جگہ انھوں نے مختصر اور آسان بحریں استعمال کیں۔ فارسی کی اضافتوں کو کم کیا اور تشبیہات و استعارات بھی وہی استعمال کیے جو عام انسانی فہم سے بالاتر نہ ہوں۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں ؎
دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے
________
ہے خبر گرم ان کے آنے کی
آج ہی گھر میں بوریا نہ ہوا
________
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
________
کیا وہ نمرود کی خدائی تھی
بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا
________
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
________
نظر میں کھٹکے ہے بِن تیرے گھر کی آبادی
ہمیشہ روتے ہیں ہم دیکھ کر در و دیوار
ایک شاعر اور ایک عام انسان کے تخیل میں زمین وآسمان کا فرق پایا جاتا ہے۔ شاعر جس چیز کو دیکھتا اور محسوس کرتا ہے، ایک عام انسان کا ذہن وہاں تک نہیں پہنچ سکتا۔ غالب کے تخیل کی دنیا ایک دوسری دنیا تھی، جہاں ہر ذہن کی رسائی ناممکن تھی، لیکن جب غالب نے سہل پسندی اختیار کی تو انھوں نے اپنے تخیل کو ایک عام آدمی کے تخیل سے ملا دیا اور روز مرہ کی زندگی کے مشاہدات اور احساسات کو اس طرح پیش کیا کہ وہ دیکھنے والوں کو عجیب نہ معلوم ہوں۔ غالب کی قوتِ مشاہدہ معمولی سے معمولی بات کو بھی نظر انداز نہیں کرتی۔ سبھی جانتے ہیں کہ جب آگ کو پانی سے بجھایا جاتا ہے تو اس میں سے ہلکی سی آواز نکلتی ہے۔ یہ عام مشاہدہ ہے، لیکن چوں کہ غالب ایک شاعر تھے، لہٰذا وہ اس سے ایک اور نتیجہ اخذ کرتے ہیں ؎
آگ سے پانی میں بجھتے وقت اٹھتی ہے صدا
ہر کوئی درماندگی میں نالہ سے دوچار ہے
اس شعر میں غالب کا اندازِ بیان اتنا سادہ ہے کہ اسے سہلِ ممتنع کہنا بیجا نہ ہو گا۔
تخیل کی بلند پروازی غالب کے یہاں ضرور پائی جاتی ہے، لیکن اس بنیاد پر ہم انھیں ’فلسفی ‘ نہیں کہہ سکتے، البتہ مفکر ضرور کہہ سکتے ہیں۔ ان کے اشعار ہمیں فکر کی دعوت دیتے ہیں اور سوچنے پر مجبور کرتے ہیں، لیکن کسی پیچیدگی یا الجھن کا شکار نہیں ہونے دیتے۔ شعر ملاحظہ ہو ؎
قیدِ حیات و بندِ غم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں
________
غمِ ہستی کا اسد کس سے ہو جز مرگ علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک
کون نہیں جانتا کہ شمع صبح ہونے تک مختلف رنگ بدلتی رہتی ہے۔ کبھی تیز ہو جاتی ہے تو کبھی مدھم ہونے لکتی اور کبھی بجھنے پر آ جاتی ہے، لیکن ہر حال میں وہ صبح تک جلتی رہتی ہے۔ انسان کی زندگی بھی مختلف نشیب و فراز سے ہو کر گذرتی ہے ان سب پریشانیوں اور مصیبتوں سے اسے چھٹکارا اسی وقت ملتا ہے جب وہ آخری سانسیں لیتا ہے۔
غالب کے کلام کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں اختصار پایا جاتا ہے۔ وہ بڑے سے بڑا مضمون بھی نہایت اختصار کے ساتھ ایک شعر میں نظم کر دیتے ہیں، لیکن اس سے یہ ہر گز نہیں سمجھنا چاہیے کہ شعر کوئی پہیلی یا معما بن کر رہ جاتا ہے۔ شعر میں کوئی نہ کوئی لطیف اشارہ ایسا ضرور موجود ہوتا ہے جو شعر کی تفہیم میں معاون ہوتا ہے، اور اس طرح شعر مشکل نہیں معلوم ہوتا۔ یہ شعر ملاحظہ ہو ؎
تجھ سے تو کچھ کلام نہیں لیکن اے ندیم !
میرا سلام کہیو اگر نامہ بر ملے
________
قفس میں مجھ سے رودادِ چمن کہتے نہ ڈر ہمدم
گری ہے جس پہ کل بجلی وہ میرا آشیاں کیوں ہو
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس قسم کے اشعار میں غالب نے دریا کو کو زے میں بند کر دیا ہے، لیکن ذہن اگر ذرا سابھی بیدار ہو تو شعر کا سمجھنا قطعی مشکل نہیں۔
غالب کے کلام میں عاشقانہ مضامین کی اتنی اہمیت نہیں جتنی کہ عاشقانہ مضامین میں ان کی شوخی و ظرافت کے امتزاج کی ہے۔ یہ میدان گویا انھی کے لیے مخصوص ہے۔ ان کی شوخی و ظرافت کا انداز بالکل فطری ہے۔ غالب کا طنز بھی بہت سادہ اور براہِ راست ہوتا ہے۔ سادگی کے باعث اس میں ایک مخصوص کیفیت پیدا ہو جاتی ہے، مثلاً ؎
چاہتے ہیں خوب رویوں کو اسدؔ
آپ کی صورت تو دیکھا چاہیے
________
مجھ تک کب ان کی بزم میں آیا تھا دورِ جام
ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں
رندانہ مضامین کی بھی ان کے یہاں کمی نہیں۔ خمریات پر ان کے اشعار ان کی بہترین شاعری کا نمونہ ہیں۔ وہ شراب کی لذت سے آشنا تھے اور شراب انھیں بے حد عزیز تھی۔ اسی لیے انھوں نے خمریات سے متعلق عجیب عجیب مضامین پید ا کیے ہیں۔ شراب سے والہانہ محبت کے اظہار میں بھی انھوں نے سہل پسندی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ ان کے یہ اشعار دیکھیے ؎
گو ہاتھ میں جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگے
________
جاں فزا ہے بادہ جس کے ہاتھ میں جام آگیا
سب لکیریں ہاتھ کی گویا رگِ جاں ہو گئیں
________
میں نے مانا کہ کچھ نہیں لیکن
مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے
________
مے ہی پھر کیوں نہ مَیں پیے جاؤں
غم سے جب ہو گئی ہو زیست حرام
غالب نے واعظ و زاہد پر بھی خوب خوب طنز کیے ہیں اور شراب کے ذکر کے ساتھ جنت و دوزخ کا بھی ذکر کیا ہے، لیکن ان تمام مضامین کے بیان میں سادگی و سہل پسندی کی نمایاں خصوصیت کو انھوں نے ہر جگہ برقرار رکھا ہے ؎
جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زہد
پر طبیعت ادھر نہیں آتی
________
وہ چیز جس کے لیے ہو ہمیں بہشت عزیز
سوائے بادۂ گلفام و مشک بو کیا ہے
________
کہاں میخانے کا دروازہ غالب اور کہاں واعظ
پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے
غالب حسن کے شیدائی تھے۔ ان کے کلام میں بیشتر اشعار حسن کے موضوع پر ہیں۔ حسن کا تذکرہ جہاں بھی انھوں نے کیا ہے خلوص وسادگی کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیا ہے۔ وہ حسن کو دیکھ کر حیرت میں پڑ جاتے ہیں اور ایک خاص کیفیت میں کھو جاتے ہیں، لیکن اپنے بیان کی سادگی کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ وہ سچائی اور سادگی کے ساتھ وہی بیان کرتے ہیں جو دیکھتے ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں ؎
یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں
غمزہ و عشوہ و ادا کیا ہے
شکنِ زلفِ عنبریں کیوں ہے
نگہِ چشمِ سرمہ سا کیا ہے
________
حسن غمزے کی کشاکش سے چھٹا میرے بعد
بارے آرام سے ہیں اہلِ جفا میرے بعد
غالب محبوب کے حسن سے زیادہ اس کی اداؤں اور شوخیوں سے متاثر نظر آتے ہیں، لیکن اس تاثر کا اظہار بھی وہ اسی انداز میں کرتے ہیں ؎
اس نزاکت کا بُرا ہو وہ بھلے ہیں تو کیا
ہاتھ آئے تو انھیں ہاتھ لگائے نہ بنے
غالب کی سہل پسندی اور سادہ بیانی جسے سطورِ بالا میں بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے، ان کی زندگی اور شاعری کے اختتامی دور سے زیادہ تعلق رکھتی ہے۔ یہ ایک بدیہی حقیقت ہے جو محتاجِ دلیل نہیں کہ کسی بھی شاعر کا اہم ترین رنگ یاسب سے زیادہ قابلِ توجہ اسلوبِ بیان وہ ہوتا ہے جو اس کی عمر کی پختہ ترین منزل یاسب سے زیادہ ترقی یافتہ دور سے تعلق رکھتا ہے، کیوں کہ مشقِ سخن، طرزِ فکر اور قوتِ بیان کی اس منزل میں پہنچ کر وہ اپنی معراج کو چھو لیتا ہے۔ پھر کوئی وجہ نہیں کہ ہم غالب کے صرف ابتدائی دور کے ہی کلام کو مدِ نظر رکھ کر اس بات کو دہراتے رہیں کہ وہ ایک نہایت مشکل پسند شاعر تھے، بلکہ کیوں نہ ہم ان کی عمر کے بہترین دور کے کلام کو مدِ نظر رکھتے ہوئے انھیں ایک ایسا شاعر تسلیم کریں جو سہولتِ بیان اور سادگیِ اظہار پر اعلیٰ ترین قدرت رکھتا تھا اور اسی بنا پر ایک سہل پسند اور سادہ بیان شاعر قرار دیے جانے کا بھی حق رکھتا تھا۔