دو دن بعد ان کا نکاح تھا۔ نکاح کے بعد وہی ہوا جس کا اسے ڈر تھا۔ ریعان نے شائق سے رخصتی کروانے کا کہا تو وہ مان گیا اور باقی سب کو بھی منا لیا۔ شائق نے غالیہ کو آ کر بتایا
“مگر بھائی۔”
“گڑیا کچھ ماہ بعد بھی تو یہی ہونا تھا۔ اچھا ہے ابھی ہی سہی۔ اب اپنا لاسٹ سمسٹر گھر پہ ہی دل لگا کر پڑھنا۔”
“بھائی۔۔۔”
شائق نے مسکراتے ہوئے اسے اپنے ساتھ لگایا اور اس کے سر پہ پیار دیا۔
__________________________________________
وہ اس وقت اپنی ڈائری لکھ رہی تھی جب موحد کا فون آیا۔
“آپ نے میرے ساتھ اچھا نہیں کیا ماما۔”
“کیا ہوا موحد؟ تم تو ہوسپٹل جانے والے تھے نا؟”
“جی۔ اچھا ہوا کہ میں چلا گیا ورنہ مجھے کبھی پتا ہی نہ چلتا کہ میں اپنے باپ کے ہوتے ہوئے بھی یتیموں کی سی زندگی گزار رہا ہوں۔”
“حیدر نے کچھ کہا ہے؟ پتا نہیں وہ لڑکا پھر سے کیوں آ گیا ہے۔ میں نے کہا بھی تھا تم سے کہ اس سے دور رہو۔ وہ فضول باتیں کرتا ہے تم سے۔ تم۔۔۔”
“نہیں ماما۔ اس بار حیدر نے تو کچھ کہا ہی نہیں۔ ہاں مگر وہ ہمیشہ سے سچا تھا۔ آپ جھوٹی تھیں۔”
“موحد کیا ہوا ہے؟ جانو گھر آؤ۔ ہم بات کرتے ہیں نا۔”
موحد اکثر اس موضوع پہ اس سے بات کرتا تھا۔ کبھی کبھار اسے بہت فرسٹریشن بھی ہوتی مگر پھر وہ نارمل ہو جاتا تھا۔ لیکن آج سے پہلے اس نے عقیدت سے اس لہجے میں بات نہیں کی تھی۔
“میں نے جب بھی بابا کے بارے میں پوچھا۔ آپ نے جھوٹ کہا کہ وہ اس دنیا میں نہیں۔ ارے آپ تو میری ماما ہی نہیں۔”
“موحد”
“کہہ دیں پھر سے کہ یہ جھوٹ ہے۔”
“ہاں یہ سچ ہے کہ میں نے تمہیں جنم نہیں دیا مگر۔۔۔”
“مگر کیا؟ میں نے ہمیشہ آپ کو سچا سمجھا مگر آپ۔۔۔”
“موحد یہ سچ ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ تمہارے بابا اس دنیا میں نہیں۔”
وہ رو رہی تھی۔ اسے لگا کہ سارے سفر کی تھکان اسے آج ہی محسوس ہو رہی ہے۔
“بس کریں۔ اور کتنی بار غلط بیانی کریں گی؟ میرے بابا زندہ ہیں اور میں انہیں ڈھونڈ لوں گا۔آپ نے مجھے میرے بابا سے دور کر کے اچھا نہیں کیا۔ میں آپ کو کبھی معاف نہیں کروں گا۔”
موحد فون بند کر چکا تھا۔ موبائل اس کے ہاتھ سے پھسل کر زمین پہ گر گیا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔
“موحد۔۔۔”
ٹیبل پہ گرنے سے پہلے یہ وہ آخری لفظ تھا جو اس کے لبوں نے ادا کیا۔
__________________________________________
“چاچو”
“ہاں؟”
علیشہ سامنے صوفے پر بیٹھ گئی۔
“چاچو مجھے آپ کو کچھ بتانا ہے۔”
“ہاں بولو۔”
علیشہ کے دل میں جو بھی تھا اس نے اسے بتا دیا۔
“تم سچ کہہ رہی وہ علیشہ؟”
وہ بیمار ہونے کے باوجود بستر سے اتر کر اس کے پاس آیا۔
“میں پورے یقین سے تو نہیں کہہ سکتی مگر مجھے یہی لگتا ہے۔”
“مجھے اس سے ملنا ہے ابھی۔”
“ابھی تو شاید اس کے لیے آنا ممکن نہ ہو چاچو۔ کل پیپر کے بعد مل لیجیے گا۔”
“نہیں علیشہ ابھی پلیز۔”
“اچھا میں اسے کال کرتی ہوں۔”
علیشہ کافی دیر اس کا نمبر ٹرائی کرتی رہی مگر وہ آف تھا۔
“چاچو ابھی آپ آرام کریں۔ ہم کل اس بارے میں بات کریں گے۔”
وہ واپس بستر پہ لیٹ گیا مگر نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔
__________________________________________
وہ کمرے میں آیا تو وہ لال جوڑے میں گھونگھٹ نکالے بیٹھی تھی۔
“آنکھوں پہ یقین آ تو نہیں رہا مگر کیا کریں یہی سچ ہے کہ مس غالیہ ریعان میرے انتظار میں پلکیں بچھائے بیٹھی ہیں۔”
“بالکل غلط۔ بیٹھی نہیں، بٹھائی گئی ہوں۔”
غالیہ نے خود ہی گھونگھٹ الٹ دیا۔
“ہا ہا ہا۔ میں سوچ ہی رہا تھا اتنی دیر چپ رہ کر کہیں تم گونگی ہی نہ ہو گئی ہو۔”
‘کنجوس۔ آج بھی یہی باتیں سنائے گا۔’
“اگر تم اس انتظار میں ہو کہ میں تمہاری تعریف کروں تو۔۔۔”
“نہیں مجھے کسی بندر کی تعریف کی ضرورت نہیں۔ مجھے پتا ہے کہ میں کتنی پیاری لگ رہی ہوں۔”
وہ اس کے پاس آ بیٹھا۔
“اچھا؟ مگر مجھے تو نہیں پتا کہ میں کتنا اچھا لگ رہا ہوں۔”
“آج تم میرے ساتھ بیٹھے تھے تو اسی لیے اچھے لگ رہے تھے۔”
“دیکھو تمہارے لیے بال بھی کٹوائے ہیں میں نے۔”
“ہاں جیسے تایا ابو نے تمہیں ایسے آنے دینا تھا نا۔”
“خیر روکنا تو مجھے کسی نے بھی نہیں تھا۔ کیوں روک سکتا ہے کوئی مجھے؟”
غالیہ نے اس کی طرف دیکھا۔
“بولیں مس غالیہ۔”
ریعان نے اس کا ہاتھ پکڑا۔ غالیہ کچھ نہ بولی۔ اس کا چہرہ سرخ ہو گیا۔
“ہا ہا ہا بس ساتھ ہی سیٹی گم ہو جاتی ہے تمہاری۔”
__________________________________________
“ماما۔۔۔ ماما کیا ہوا آپ کو؟ ماما آئم ایم سوری۔ماما اٹھیں۔”
موحد گھر آیا تو عقیدت بے ہوش تھی۔ اس نے فوراً ادیان کو کال کی۔
“موحد میں آ رہا ہوں۔ تم عقیدت سے کچھ نہیں کہو گے۔ انہیں اس بارے میں کچھ نہیں معلوم۔”
“انکل۔ انکل ماما۔”
وہ رو رہا تھا۔
“کیا ہوا ہے انہیں۔”
“ماما”
“موحد میں نے پوچھا ہے کیا ہوا عقیدت کو؟”
“وہ۔۔۔ وہ بے ہوش ہو گئی ہیں۔ اٹھ نہیں رہیں۔ آپ آ جائیں پلیز جلدی۔”
“میں بس پہچنے والا ہوں۔”
ادیان آیا تو وہ دونوں اسے جلدی سے گاڑی میں ہوسپٹل لے گئے۔
__________________________________________
لاسٹ سمسٹر کمپلیٹ ہونے کے بعد اریج کی بھی رخصتی ہو گئی اور ساتھ ہی ریعان کے بڑے بھائی کی بھی شادی ہو گئی۔ یہ اتفاق تھا کہ غالیہ اور شائق کے گھر ایک ہی دن اولاد ہوئی مگر ان کی خوشیاں بھی اسی دن ان سے روٹھ گئیں۔شائق کو اللہ نے بیٹی دی۔ وہ لوگ تھوڑی دیر پہلے ہی گھر گئے تھے۔ غالیہ کا کیس کومپلیکیٹڈ تھا اس لیے اس کا ایمرجنسی آپریشن ہونا تھا۔ شائق نے رکنا چاہا مگر ریعان نے اسے گھر بھیج دیا۔ آپریشن تھیٹر میں جانے سے پہلے غالیہ نے ریعان سے کہا تھا کہ اگر اسے کچھ ہو جائے تو وہ ان کی اولاد کا خاص خیال رکھے۔ ریعان نے اسے ڈانٹا کہ وہ فضول باتیں نہ سوچے۔ اسے کچھ نہیں ہو گا۔ اس نے ڈاکٹر سے بھی کہا تھا کہ بے بی سے زیادہ اس کے لیے غالیہ اہم ہے۔ اس لیے اسے کچھ نہ ہونے دیا جائے۔ آپریشن کامیاب ہوا۔ غالیہ نے ایک بہت خوبصورت بیٹے کو جنم دیا مگر آپریشن کے بعد غالیہ کو خون کی ضرورت تھی۔ او نیگٹو بلڈ گروپ ہونے کی وجہ سے صرف ایک بوتل کا انتظام ہو سکا اور بروقت خون نہ ملنے کی وجہ سے غالیہ زندگی کی بازی ہار گئی اور اس دن ریعان حیدر بھی زندہ لاش بن گیا۔
__________________________________________
“ماما ٹھیک ہیں نا؟”
ادیان ایمرجنسی سے باہر آیا تو موحد نے پوچھا۔
“انہیں سٹروک ہوا ہے۔ وہ کوما میں ہیں۔”
“یہ سب میری وجہ سے ہوا ہے۔”
“تم نے میری بات ہی نہیں سنی تھی موحد۔ انہیں اس بارے میں معلوم ہی نہیں تھا۔”
پھر ادیان اسے سب بتاتا گیا۔
“یہ صرف میں جانتا تھا کہ تمہارا باپ زندہ ہے۔ جس دن یہ واقعہ ہوا۔ اس سے اگلے دن میں آنٹی سے پوچھ کر اسی جگہ گیا جہاں سے عقیدت تمہیں لائی تھیں۔ میں نے وہاں پتا کروایا تو مجھے پتا چلا کہ صبح فجر کی اذان کے بعد وہاں کا ہی ایک دکاندار اسے ہوسپٹل لے گیا تھا۔ اللہ جانے کیسے مگر وہ آدمی زندہ تھا۔ اس کی بہت بری حالت تھی۔ ایک رات پہلے اس کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا۔ شاید اس شخص کو بھی اپنے بچنے کی امید نہیں تھی اسی لیے اس نے تمہیں عقیدت کو سونپ دیا تھا۔”
ادیان نے اسے اس کے باپ کے بارے میں جو تھوڑی بہت اسے معلومات تھی، وہ دے دی۔ جو ایڈریس اس نے بتایا۔ اسے سن کر موحد چند لمحوں کے لیے کچھ بول ہی نہ سکا۔ ساری رات وہ ہوسپٹل ہی رہا۔ اگلی صبح ادیان نے اسے زبردستی پیپر دینے کے لیے بھیج دیا۔
__________________________________________
وہ جلدی سے پیپر کر کے ہوسپٹل آ گیا۔ علیشہ پیپر دے کر فارغ ہوئی تو اسے کالج میں نہ پا کر حیران ہوئی۔
“ہیلو۔ جی چاچو میں فری ہوں مگر موحد نہیں مل رہا۔ جی پیپر دینے تو آیا تھا مگر شاید جلدی چلا گیا۔ جی میں نے کیا تھا فون مگر فون بند ہے اس کا۔ جی گھر کا ایڈریس معلوم تو ہے مگر۔ چلیں آپ آ جائیں تو ہم چلتے ہیں پھر اس کے گھر۔”
وہ دونوں اس کے گھر گئے تو وہاں بھی کوئی نہ ملا۔
“چاچو ہو سکتا ہے کہ وہ لوگ کہیں گئے ہوں۔ ہم کل پھر آ جائیں گے۔”
__________________________________________
شام ہو چکی تھی۔ وہ عقیدت کے پاس بیٹھا تھا جب ادیان اندر آیا۔
“موحد چلو اٹھو تھوڑی دیر گھر چلے جاؤ اور سو بھی لینا۔ کل سے جاگ رہے ہو۔”
“آپ بھی تو جاگ رہے ہیں۔”
“میں تو ڈاکٹر ہوں یار۔”
ادیان نے مسکرانے کی کوشش کی۔
“یہ آپ مجھ سے جھوٹ بول رہے ہیں یا خود سے؟”
“تم گھر جاؤ۔ فریش ہو آؤ۔ پھر بات کرتے ہیں۔”
__________________________________________
موحد گھر آیا تو سیدھا عقیدت کے کمرے میں گیا۔ رائٹنگ ٹیبل پہ عقیدت کی ڈائری کھلی پڑی تھی اور پاس ایک پین رکھا تھا۔ ڈائری کو لکھتے ہوئے چھوڑ دیا گیا تھا۔ موحد کو معلوم تھا کہ عقیدت ڈائری لکھا کرتی ہے۔ اس نے ڈائری اٹھائی اور اپنے کمرے میں چلا آیا۔ نہا کر نکلا تو ڈائری کھول کر پڑھنے لگا۔ جیسے جیسے پڑھتا گیا، اس کا پچھتاوا بڑھتا گیا کہ اس نے اپنی ماں سے بہت برا کہا۔ اس نے تو اپنی پوری زندگی اس پرائے بچے کے نام کر دی تھی اور وہ پھر بھی وہ سب کچھ کہہ گیا۔
‘موحد اب اکثر بحث کرتا ہے۔ اسے اپنے باپ کی تصویر میرے پاس نہ ہونے پہ حیرت ہوتی یے۔ ادیان اس کو سمجھاتا رہتا ہے۔’
‘میرے دل میں یہ ڈر رہتا ہے کہ موحد مجھ سے دور نہ چلا جائے۔’
‘موحد کا سکول اب ختم ہو رہا ہے۔ پتا بھی نہیں چلا اور اتنے سال بیت گئے۔’
‘موحد کی کالج میں ایک دوست بن گئی ہے علیشہ۔ بہت پیاری بچی ہے۔ اسے دیکھ کر مجھے اپنے پرانے دن یاد آجاتے ہیں جب میں اور ادیان۔۔۔ میرا خیال ہے موحد آنے والا ہے۔ اب مجھے اٹھ جانا چاہیے۔’
ڈائری کا آخری صفحہ آدھا لکھا گیا تھا۔
“آج میں نے اتنے سالوں بعد امی کی پرانی چیزیں نکالیں۔ تصویروں کے ساتھ کچھ کارڈز اور چند خطوط تھے جنہیں پوسٹ نہیں کیا گیا تھا۔ وہ میری پیدائش سے لے کر امی کی ڈیتھ تک ہر سال ایک ہی تاریخ کو لکھے گئے تھے اور ایک ہی لڑکی کے نام۔ غالیہ۔ غالیہ شاہمیر۔ مجھے انہیں پڑھ کر یہی سمجھ آیا ہے کہ وہ امی کی بیٹی ہے۔ اس کا مطلب میری بہن ہے مگر میں تو اکلوتی ہوں۔ ان سب خطوط پہ جو ایڈریس ہے وہ لاہور کا ہے مگر ہم تو پہلے کراچی میں تھے۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ میں کیا کروں۔”
موحد نے ڈائری بند کر دی۔
__________________________________________
وہ واپس ہوسپٹل آ گیا۔ گھر سے آتے ہوئے وہ فون چارج کر لایا تھا جو کل سے بند تھا۔ تھوڑی دیر بعد علیشہ کی کال آئی۔
“موحد کہاں ہو تم؟ تمہارا فون بھی بند تھا اور گھر پہ بھی کسی نے دروازہ نہیں کھولا۔ خیریت ہے؟ تم لوگ کہیں گئے ہوئے ہو؟”
“علیشہ ہم ہوسپٹل ہیں۔ ماما ٹھیک نہیں ہیں۔”
“کیا ہوا انہیں؟”
“سٹروک۔ شی از ان کوما۔”
“وٹ؟”
“میں تم سے بعد میں بات کرتا ہوں علیشہ۔”
“موحد سنو۔ ہیلو۔ موحد۔”
وہ فون بند کر چکا تھا۔
“کیا ہوا علیشہ؟”
“چاچو اس کی ماما ہوسپٹل میں ہیں۔ وہ، وہ وہیں پہ ہے۔ ابھی اس سے کچھ بھی پوچھنا مناسب نہیں ہو گا۔”
“مگر ہم جا تو سکتے ہیں نا ہوسپٹل۔”
“ہاں جی چلیں پھر۔”
__________________________________________
غالیہ کی ڈیتھ کے بعد اس کا سنٹر اب بھی ویسا ہی تھا۔ شائق روز وہاں جاتا تھا۔ شام میں ریعان بھی چلا جاتا مگر وہ دونوں ایک دوسرے کا سامنا کرنے سے کتراتے تھے۔ قسمت کے کھیل کو کبھی کسی نے نہیں جانا۔ کسے گماں تھا کہ دوسروں کے بچوں کو پیار دینے والی کی اپنی اولاد اس کے پیار بھرے لمس سے محروم ہو جائے گی؟
__________________________________________
“موحد”
“تم یہاں؟”
“ہاں۔ یہ میرے چاچو ہیں۔ ریعان احمد۔”
موحد کو ادیان کی بات یاد آئی۔
‘تمہارے بابا کا نام ریعان احمد ہے۔ وہ ایک یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔’
نام تو ایک جیسا ہو سکتا ہے مگر ادیان اسے ان کا ایڈریس بھی بتا چکا تھا۔ کل سے اب تک وہ عقیدت کے لیے ہی پریشان تھا کہ اسے پھر سے اپنا باپ یاد ہی نہیں آیا تھا۔
“موحد۔”
ریعان نے آگے بڑھ اس کے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں تھاما۔
“مجھے علیشہ نے کہا کہ تمہاری شکل مجھ سے بہت ملتی ہے اور تمہارے بابا بھی نہیں۔ پھر علیشہ نے راستے میں فون پہ ڈاکٹر ادیان سے بھی کنفرم کیا۔ مجھے ابھی بھی یقین نہیں آ رہا کہ تم میرے سامنے ہو۔ میں نے تمہیں بہت ڈھونڈا مگر تم ملتے ہی نہیں تھے۔”
موحد کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ وہ خود ہی ریعان کے گلے لگ گیا اور کافی دیر باپ کے سینے پہ آنسو بہاتا رہا۔
“آپ ہی میرے بابا ہیں۔ مجھے کل ہی پتا چل گیا تھا مگر ماما۔۔۔”
وہ اس سے الگ ہوا۔
“کیا ہوا انہیں؟”
“وہ میری وجہ سے اس حال میں ہیں۔ میں بہت برا ہوں۔”
“شش ایسے نہیں کہتے۔ وہ ٹھیک ہو جائیں گی۔ میں اس عورت کا کسی بھی طرح شکریہ ادا نہیں کر سکتا۔”
“ٹھیک کہا آپ نے۔ آپ کبھی ان کا شکریہ ادا نہیں کر سکتے کیونکہ اس عورت نے اپنی خوشیاں آپ کے بیٹے پہ قربان کر دیں پھر بھی آپ کا بیٹا اس عورت کو موت کے دہانے پہ لے آیا ہے۔”
“کیا بات ہے موحد؟”
موحد نے انہیں عقیدت اور ادیان کے بارے میں مختصراً بتایا اور کل جو کچھ ہوا، وہ بھی۔
“تم پریشان نہ ہو۔ وہ ٹھیک ہو جائیں گی۔”
اتنے میں ادیان بھی آ گیا۔
“یہ ادیان انکل ہیں۔”
“انکل یہ۔۔۔”
ادیان نے ریعان سے ہاتھ ملایا۔
“جانتا ہوں میں۔ یہ ریعان ہیں۔ آئی ایم سوری مسٹر ریعان۔ میں جانتا تھا کہ موحد آپ کا بیٹا ہے مگر کسی کی خوشی کے لیے خود غرض ہو گیا تھا۔”
“نہیں آپ مجھے شرمندہ کر رہے ہیں۔ جو قسمت میں ہو، وہ تو ہو کر رہتا ہے۔”
“ڈاکٹر ادیان وہ پیشنٹ کو ہوش آ گیا ہے۔”
نرس نے آ کر بتایا تو سب اندر چلے گئے۔
موحد بھاگ کر عقیدت کے پاس گیا اور اس کے سینے سے جا لگا۔
“آئی ایم سوری ماما۔ میں نے آپ کو بہت ہرٹ کیا۔ پلیز مجھے معاف کر دیں۔ میں آئندہ کبھی ایسے بات نہیں کروں گا۔”
عقیدت نے آنکھیں بند کر لیں۔ آنسو اس کی پلکوں سے ٹوٹ کر گرنے لگے۔
“ماما۔”
اس نے آنکھیں کھول دیں۔
“تم نے ٹھیک کہا تھا موحد میں تمہاری ماما نہیں”
“ماما پلیز ایسے نہ کہیں۔ آپ ہی میری ماما ہیں۔ پلیز فورگو می۔”
“نہیں موحد جو سچ ہے وہ جھٹلایا نہیں جا سکتا مگر پلیز ماما سے دور نہ جانا۔ عقیدت موحد کے بغیر کچھ نہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ ایسی کونسی کشش ہے جو مجھے تم سے الگ نہیں ہونے دیتی۔ جو بھی ہے تم بس مجھے معاف کر دینا کہ میں نے تم سے چھپایا کہ میں تمہاری ماں نہیں۔”
“موحد اب پیچھے بھی ہٹو۔ میں نے بھی ملنا ہے آنٹی سے۔”
علیشہ نے کہا تو وہ عقیدت سے الگ ہوا۔ علیشہ عقیدت کے پاس آئی۔
“آپ نے بیمار ہو کر اچھا نہیں کیا۔ دو لگاتیں اس موحد کو۔”
“عقیدت۔”
ادیان نے اسے آج اتنے سالوں بعد مخاطب کیا تھا۔
“ان سے ملیں۔ یہ ہیں علیشہ کے چاچو اور موحد کے والد ریعان حیدر۔”
“آپ؟”
ادیان نے مختصراً اسے سب بتایا۔
“مس عقیدت میرے پاس الفاظ نہیں ہیں کہ میں آپ کا شکریہ ادا کر سکوں۔ آپ نے میری غالیہ کی امانت۔۔۔”
“غالیہ کون؟”
عقیدت اور موحد اکٹھے بولے تو سب ان کی طرف دیکھنے لگے۔
“غالیہ میری وائف۔ موحد کی ماما۔”
“ان کا پورا نام؟”
یہ موحد تھا جس نے پوچھا۔
“غالیہ ریعان۔”
“وہ تو بعد میں ہوا نا۔ پہلے ان کا کیا نام تھا؟”
“کیا بات ہے موحد؟”
“بابا بتائیں پلیز۔”
“غالیہ شاہمیر۔”
ریعان نے بتایا تو عقیدت کو یقین نہ آیا کہ اس کی ماں کے خطوط میں پایا جانے والا اور اس شخص کی بیوی کا نام ایک یے۔
“میرے نانا کے گھر کا ایڈریس کیا ہے؟”
“موحد۔”
اب عقیدت نے اسے پکارا تھا۔
“ماما سوری مگر میں آپ کی ڈائری پڑھ چکا ہوں۔”
“مگر”
“بابا بتائیں نانا کے گھر کا ایڈریس۔”
ریعان نے بتایا تو ان دونوں کو یقین نہ آیا کی یہ وہی خط والی غالیہ تھی۔
“کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ غالیہ ان کی سگی اولاد تھی؟”
پھر ریعان نے انہیں بتایا کہ غالیہ اس کے چچا کی پہلی بیوی سے تھی۔ علیشہ نے شاہمیر کو فون کر کے پہلے ہی سب بتا دیا تھا۔ وہ بھی سب گھر والوں سمیت وہاں آن پہنچے۔ سب کی سب غلط فہمیاں دور ہو چکی تھیں۔
“ریعان”
شائق نے آج اسے اتنے سالوں بعد پکارا تھا۔
“قاشی بھائی۔”
وہ آگے بڑھ کر اس کے گلے لگا۔
“مجھے معاف کر دیں قاشی بھائی۔”
“یار میری گڑیا کیا گئی، تم بھی مجھ سے روٹھ گئے۔”
“آئی ایم سوری بھائی۔”
“چلو اب بس کرو۔”
شائق نے موحد کو ماتھے پہ پیار کیا اور عقیدت کی طرف گیا۔
“تم تو میری گڑیا کی کاپی ہو۔”
اس نے اس کے سر پہ ہاتھ رکھا۔ عقیدت کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اچانک سے اتنے رشتے مل جانے پر وہ کیسے خوش ہو۔
“بیٹا میں غالیہ کا باپ سہی مگر تم نے اپنی بہن کی نشانی کی جیسے حفاظت کی ہے اس کے لیے میں بہت شکر گزار ہوں۔”
“انکل آپ۔”
“تم مجھے بابا بلاؤ گی تو مجھے لگے گا کہ میری غالیہ واپس آ گئی ہے۔”
عقیدت ان کے سینے سے لگ کر خوب روئی۔
آہستہ آہستہ سب کمرے سے چلے گئے۔ اب اندر صرف عقیدت، موحد اور ادیان باقی تھے۔ موحد عقیدت کے پاس آیا۔
“ماما آپ نے آج تک صرف میرے بارے میں سوچا ہے مگر میں چاہتا ہوں کہ اب آپ اپنے بارے میں سوچیں۔ ہمیشہ آپ نے میری خوشی کو اہمیت دی ہے۔ آج اپنی خوشی کو دیں۔”
عقیدت جانتی تھی کہ وہ کیا کہنا چاہ رہا ہے۔
“میری خوشی تم ہو موحد۔”
“اس بات میں کوئی شک نہیں ماما مگر آپ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ میں کیا کہہ رہا ہوں۔ پلیز۔ آپ اپنے ساتھ انکل کو بھی بہت سزا دے چکی ہیں۔”
یہ کہہ کر موحد باہر چلا گیا۔ کچھ دیر کمرے میں خاموشی چھائی رہی۔ پھر ادیان نے بات کا آغاز کیا۔
“کیسا محسوس کر رہی ہیں آپ؟”
“اچھا۔”
وہ فقط اتنا ہی کہہ سکی۔
“سمجھ نہیں آ رہا کہ کیا کہوں مگر میرے کان میری دوست کے منہ سے آدی سننے کو ترس گئے ہیں۔ میری وہ دوست جس کی وجہ سے میں نے سکول میں ہر ٹیچر سے مار کھائی۔ وہ دوست جس سے میں نے مسکرانا اور خوش رہنا سیکھا۔ وہ دوست جس کے ساتھ مل کر میں نے ہر الٹی سیدھی شرارت کی ہے۔ وہ دوست جو مجھے جانے کیوں پرایا کر گئی۔ وہ دوست جس نے مجھ پہ بھروسہ نہیں کیا۔”
ادیان اس کے بیڈ کے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھا کہہ رہا تھا۔
“بس کر دو آدی۔ بس کر دو۔”
اس میں مزید سننے کی ہمت نہ تھی۔ وہ چہرے پہ ہاتھ رکھ کر رونے لگی۔
“سوری۔ آپ آرام کریں۔ میں چلتا ہوں۔”
“ادیان۔”
وہ اٹھ کر جانے لگا جب عقیدت نے اسے روکا۔
“جی؟”
“میں آپ کو آج اس وعدے سے آزاد کرتی ہوں۔”
“تھینک یو عقیدت۔ تھینک یو سو مچ۔”
__________________________________________
دو ہفتے بعد عقیدت ادیان کی ہو گئی۔ شاہمیر اور ماحسا نے اسے اپنے گھر سے رخصت کیا تھا۔موحد نے عقیدت کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا جس پہ ریعان نے کوئی اعتراض نہ کیا۔ شائق نے بھی اپنی بیٹی سے اپنے گزشتہ رویے کی معافی مانگی۔ اریج یہ سب دیکھ کر بہت خوش تھی کہ دیر سے ہی سہی مگر شائق پہلے جیسا ہو گیا تھا۔
(ختم شد)
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...