” تم نے میری شرٹ کو ہاتھ بھی کیسے لگایا اگر آیندہ میری چیزوں کے قریب بھی پھڑکی تو میں اس جلتی استری سے ہی تمہارا وجود خاک کردوں گا ”
ان کی شادی کو ہوئے ایک ہفتہ گزر گیا تھا اور اگر کوئی بیا سے پوچھتا کے وقت کیا ہے تو وہ چیخ چیخ کر کہتی کے وقت ظالم ہے جس نے اسکی روح تک کو زخمی کر دیا تھا اس ایک ہفتے میں تائی نے کھل کر اس پر اپنی نفرتوں کا اظہار کیا مگر اسے اتنی اجازت بھی نا تھی کے وہ لبوں پر شکوہ لاتی حمزہ کا رویہ اسکے ساتھ کبھی بارش کی پڑتی ہلکی پھوار جیسا ہو جاتا تو کبھی تپتی دھوپ کی طرح اور اب بھی وہ اس پر برس رہا تھا
” حمزہ اتنے سفاک نا بنیں یہ نا ہو کے کل آپکو کوئی پچھتاوا ہو اور آپ اپنی ان غلطیوں کا ازالہ بھی نا کرسکیں ”
نا چاہتے ہوئے بھی اسکے آنسو اس کے گال پر بہہ نکلے جن کو اس نے بے دردی سے رگڑ ڈالا
” کونسی غلطیوں کی بات کرہی ہو ہاں ……….خود پر غور کرو بیا انوار تمہارا تو پور پور ان غلطیوں میں ڈوبا ہے ”
حمزہ نے سختی سے اسکے بازو پکڑ اسکی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا
” آپ بہت پچھتائیں گے حمزہ ………..”
وہ اسکی شرٹ وہیں استری سٹینڈ پر پٹخ کر چل دی وہ رونا چاہتی تھی اسے تنہائی کی ضرورت تھی اس لیے وہ وہاں سے بھاگ آئی
” پچھتا تو رہا ہوں بیا غور سے دیکھو میں پچھتا رہا ہوں میں ، تم سامنے ہوتی ہو تو میرا وجود ایسے ہوتا ہے جیسے کوئلوں کی بھٹی میں جل رہا ہو ”
وہ وہاں دیکھتے ہوئے بڑبڑایا جہاں سے ابھی ابھی وہ نکل کر گئی تھی
اس دشتِ بےکراں کے سفر میں
انتہا دونوں نے کی
اک نفرت کی انتہا پر تھا
اک ضبط کی انتہا پر تھا
*******************
” بیا بیٹا جاو جاکر کچن دیکھ لو تمہاری تائی وہیں ہیں اگر تمہارے تایا آگیے تو راہیلہ کو تمہیں زلیل کرنے کا ایک اور موقع مل جائے گا”
دادو آزردہ سی بولیں وہ اپنے فیصلے پر پچھتا رہی تھیں____ انہوں نے کیوں بیٹے کی آخری خواہش پوری کرنے کے لیے بیٹے کی ہی بیٹی کی زندگی جہنم بنا دی وہ دیکھ چکی تھی گھر میں سب ہی جب دیکھو بیا کو زلیل کرتے رہتے تھے
” دادو ایسا کچھ نہیں ہے جب مجھ سے کچھ غلط ہوتا ہے تائی جان تبھی غصہ کرتی ہیں ورنہ یقین کریں وہ مجھ سے بہت پیار کرتی ہیں ”
وہ جانتی تھی کے اسکی دادو اپنے فیصلے پر شرمندہ ہیں اس لیے انہیں حوصلہ دینے کے لیے وہ کڑوے سچ کو میٹھے شیرے میں بھگو رہی تھی
” بس بس میں جانتی ہوں کے تمہاری تائی کتنی اچھی ہیں میرے سامنے اسکی طرف داری کرنے کی قطعی ضرورت نہیں ہے جیسے میں جانتی نہیں کے اس عورت کو ناجانے تم سے کیسا خدا واسطے کا بیر ہے ”
دادو نے اسکی بات پر اسے گھرکا انہیں پوتی کی یوں بلاوجہ اس عورت کی تعریف کرنا پسند نا آیا اس لیے ہی خفا لہجے میں بولیں
” اچھا دادو آپ ناراض تو نا ہوں میں جا تو رہی ہوں ”
یہ کہتے ساتھ ہی اس نے اٹھ کر چپل پاوں میں پھنسائی اور دادو کے کمرے سے نکل کر کچن میں آ گئی اس نے کچن کے باہر روک کر ایک گہری سانس لی اور خود کو تائی کی باتوں کے لیے تیار کیا کیونکہ وہ اسے جب جب دیکھتی تو اپنی زبان کے جوہر دیکھانے سے روکتی نہیں تھیں
” لائیں تائی امی میں آپکی ہیلپ کردوں ”
وہ انکی طرف آئی تاکہ انکے مدد کرسکے مگر وہ ہمیشہ کی طرح بگڑ گئی
” ارے بی بی رہنے دو سارا کام تو میں کرتی ہوں تم کیا کرتی ہو آ کر زرا سا کام ہلاو گی اور میاں کو کہو گی کے سب تم نے کیا ہے ہٹو میں سب سمجھتی ہوں تم جیسیوں کے کرتوت ”
وہ سامنے پڑی ٹرے میں چھری پٹخ کر اٹھ گئی
بیا کچھ بھی بولے بغیر خود ہی انکی مدد کرنے لگی وہ ایک لفظ دوبارہ نہیں بولی وہ جانتی تھی جواب میں اسے اپنے بارے میں ہی کچھ اور سننے کو ملے گا اس لیے خاموشی سے ہی انکی مدد کرنے لگی
” امی چائے تو بنا دیں ”
حمزہ کچن میں داخل ہو اور ماں سے چائے کا مطالبہ کیا حالانکہ وہ بیا کو دیکھ چکا تھا مگر پھر بھی بیا سے نہیں کہا بلکہ پاس بیٹھی ماں سے کہا
” بھئی اپنی بیوی سے کہو یہ ہی بنا کر دے گی سارا کام تو میں نے کیا ہے اب کیا یہ لڑکی چائے بھی نہیں بنا سکتی ”
وہ بیٹھے ہی بولیں
” تائی امی آپ رہنے دیں میں ہی بناتی ہوں ”
حمزہ کچن سے جا چکا تھا اس نے تائی کو اٹھتے دیکھ کر کہا
” تو بی بی جی آپ ہی بنائیں گی میں اور اب اس گرمی میں نہیں بیٹھ سکتی ، ایسا کرو سب کی بنا لاو میں اماں کے کمرے میں جا رہی ہوں تمہارے تایا بھی وہیں ہیں حمزہ بھی وہیں آ جائے گا ”
وہ حکم دے کر نکل گئی جبکہ بیا اتنی گرمی میں پھر سے چولہے کے آگے کھڑی ہو گئی اس نے جلدی سے چائے کا پانی چڑھایا اور کیبنٹ سے کپ نکال کر ٹرے میں سیٹ کیے اس نے چائے تیار کر کپوں میں ڈالی اور اٹھا کر دادو کے کمرے میں لے آئی اس نے دیکھا حمزہ نے اسے دیکھتے ہی اپنا چہرہ موبائل پر جھکا لیا تھا وہ ٹرے لے کر آگے آئی
” افشاں بچے تم اٹھو اور سب کو چائے پکڑاو بچی کا تو گرمی میں کام کر کے بیڑا غرق ہو گیا ہے ”
دادو نے انکے پاوں دباتی افشاں کو کہا انکے کہتے افشاں نے اٹھ کر اس سے ٹرے تھامی اور سب کو سرو کرنے لگی بیا آکر دادو کے پاس بیٹھ گئی
” اماں رہنے دیں کیا کیا ہے اس نے کچن کا تو سارا کام میں نے کیا ہے ایک چائے بنا کر یہ احسان کر رہی ہے ہم پر ”
راہیلہ بیگم کو ساس کا بیا کی حمایت کرنا ایک آنکھ نا بھایا اس لیے جلی کٹی سنانے لگی انہوں نے یہ لحاظ بھی نا کیا کے عمران سلیم اور حمزہ بھی وہیں بیٹھے ہیں
” بس کر جاو بہو تم ہر وقت بچی کے پیچھے پڑی رہتی ہو کبھی تو یہ بھی سوچا کرو کے وہ انسان ہے اگر کچھ بولتی نہیں ہے تو اس کا یہ مطلب تو نہیں کے تم ہر وقت اسے بے زبان جانور سمجھ کر ظلم ہی کرتی رہو ”
وہ آج خاموش نا رہ سکیں اس لیے بیٹے کے سامنے ہی بہو کو کھری کھری سنا دی ۔۔۔۔۔۔۔۔عمران سلیم انکی باتوں سے تنگ آکر اٹھ کر باہر آگئے وہ جانتی تھی یہ باتیں تو کبھی ختم نہیں ہونی اسی وجہ سے بےزار ہو کر باہر اٹھ آئے
” اماں آپ نہیں جانتی میں کیسے اس لڑکی کو برداشت کر رہی ہوں یہ لڑکی اس قابل نہیں ہے کے یہ میرے بیٹے کی زندگی میں آتی ، ارے جیسی لڑکیاں بیویاں نہیں بنتی بلکہ کوٹھوں پر بیٹھتی ہیں ”
وہ زہرخندہ لہجےچمیں بول رہی تھیں جبکہ انکی آخری بات پر ناچاہتے ہوئے بھی بیاں کی آنکھوں سے اشک بہہ نکلے بیا نے حمزہ کی طرف دیکھا کے شاید وہ کچھ بولے مگر وہ خاموش رہا اسی لمحے افشاں نے بیا کی طرف دیکھا اور یہاں افشاں کی بس ہو گئی وہ کسی یتیم کی اور آہ نہیں لے سکتی تھی
” امی بس کر دیں آپ اتنے غلط الفاظ کیسے بول سکتی ہیں جبکہ یہ لڑکی آپکے بیٹے کی بیوی ہے اور بھائی آپ تو ایسے نہیں ہیں پھر کیسے یہ سب برداشت کر سکتے ہیں ”
وہ آرام سے بات کر رہی تھی مگر راہیلہ کو اسکا بیٹے کے سامنے بیا کی حمایت کرنا ایک آنکھ نا بھایا
” تم خاموش ہو جاو ان معملات میں تمہیں بولنے کی ضرورت نہیں ہے جانتی ہی کیا ہو تم یہ لڑکی ہے گھٹیا کردار کی ”
راہیلہ غصے سے بولیں
” امی بس کردیں آپ سچ نہیں جانتی میں بتاتی ہوں آپکو سچ یہ جو آپ اس معصوم لڑکی کے کردار کی دھجیاں اڑاتی رہتی ہیں اگر اسکے کردار کی مظبوطی جان لیں تو دنگ رہ جائیں گی تو سنے پھر اس دن _________”
وہ بول رہی تھی جب بیا نے آگے بڑھ کر اسکا ہاتھ پکڑ لیا اور اسکی طرف دیکھ کر سر نفی میں ہلایا
” نہیں بیا آج میں خاموش نہیں رہوں گی میں اب اور بوجھ نہیں اٹھا سکتی میں تمہاری اور گناہ گار نہیں بن سکتی ”
اس نے بیا کے ہاتھ پیچھے کر دیے اور بولنا شروع کیا
” اس دن بیا عادل سے ملنے میری وجہ سے گئی تھی اسے عادل سے بات کرنے کے لیے میں نے مجبور کیا تھا ”
وہ بول رہی تھی جبکہ حمزہ جو کب سے خاموش تماشائی بنا ہوا تھا اس کی بات پر جھٹکے سے اٹھا
” یہ کیا بکواس کرہی ہو تم”
حمزہ غرایا ایک لمحے کو تو افشاں ڈر گئی اس کا دل کیا خاموش ہو جائے اور بھاگ جائے یہاں سے مگر پھر خود کو مظبوط بنا کر بولنا شروع کیا
” بھائی بیا کا کوئی قصور نہیں تھا اسے میں نے عادل کے پاس بھیجا تھا کیونکہ میں عادل سے پیار کرتی ہوں اور ……… ”
اس کی بات بیچ میں ہی رہ گئی جب حمزہ کا فضا چیرتا ہاتھ اسلے گال پر پڑا وہ اسے ایک اور تھپڑ لگانے ہی والا تھا جب بیا بیچ میں آگئی
” حمزہ دوبارہ یہ غلطی مت کرنا اگر آپکو زندگی میں میرا کوئی بھی عمل پسند آیا ہے تو اس کی وجہ سے افشاں کو معاف کردیں کیونکہ میں آپ کو محبت کا واسطہ تو دے نہیں سکتی وہ تو شاید زندگی میں آپ نے محھ سے کبھی نہیں کی ”
وہ اسکا ہاتھ نیچے جھٹک کر پرنم لہجے میں بولی اس کی بات پر حمزہ تڑپ اٹھا
“بیا تم ………”
حمزہ نے کچھ بولنا چاہا مگر الفاظ ساتھ چھوڑ گیے وہ بنا کچھ بولے ہی باہر نکل گیا جبکہ دادو نے پرسکون ہو کر پیچھے بیڈ کراون سے ٹیک لگا لی انکی پوتی آج ہر الزام سے بری الزاماں ہو گئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔راہیلہ بیگم بیٹی کے منہ سے نکلے آواز سن کر بے دم ہو کر صوفے پر بیٹھ گئی تھیں
افشاں تشکر بھری نگاہوں سے بیا کو دیکھ رہی تھی جس نے آج حقیقی معنوں میں دوستی کا حق نبھایا تھا
*********************
” تائی امی لائیں میں کر دیتی ہوں ”
اس نے جب تائی کو پاوں پر درد دور کرنے والی دوا لگاتے دیکھا تو انہیں اپنی خدمت پیش کی
” بی بی رہنے دو تم سب جانتی ہوں مجھے نیچا دیکھانے کے لیے کرتی ہو یہ سب ”
راہیلہ بیگم نے اسے پیچھا دھکا دیا وہ جو گھٹنوں کے بل انکے پاس بیٹھی تھی پیچھی کو لڑھک گئی
” نہیں تائی امی ایسا کچھ نہیں ہے ”
وہ اپنے اوپر لگے الزام پر نفی میں سر ہلاتی ہوئی بولی
” رہنے دو کچھ نا ہی بولو تو بہتر ہے …….. تمہیں کیا لگتا ہے کے اگر افشی کہی گے تو ہم مان لیں گے وہ تو ہے ہی میری بھولی بچی تم نے ہی باتوں میں لے لیا ہوگا ”
اس کے بولنے پر وہ تڑخ کر بولیں وہ بیا کو کسی صورت اس گناہ کے لیے جو اس نے کیا ہی نا تھا کو معاف کرنے کے لیے قطعی تیار نا تھیں
” امی کیا ہو گیا اب تو بیچاری کا پیچھا چھوڑ دیں آخر اسکا جرم کیا ہے جس کی آپ اسے اتنی سخت سزا دے رہی ہیں ”
افشاں نے اسے سہارا دے کر اٹھاتے ہوئے کہا اور افسوس سے ماں کو دیکھنے لگی
” بھئی اس گھر میں تو اب سب ہی میرے دشمن ہوگئے ہیں پتہ نہیں کیا جادو کیا ہے اس لڑکی نے ”
وہ گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر اٹھی اور بولتے بولتے وہاں سے چلیں گئی
” بیا مجھے معاف کردو پتا نہیں کیوں سچ جاننے کے بعد بھی امی اور بھائی کا رویہ تم سے کیوں اتنا برا ہے ”
وہ افسردہ سی بولی
” تم پریشان مت ہو افشی یہ سب اللہ کی آزمائش ہے اور دیکھنا وہ ہی اسے ختم کرے گا”
ہمیشہ کی طرح اسکے چہرے پر ایک دلکش مسکراہٹ تھی شاید اس نے دکھوں میں خوش رہنے کا ہنر سیکھ لیا تھا
” بیا تم بہت صابر ہو اللہ تمہیں اس کا اجر ضرور دے گا ”
وہ اسکے ہاتھ پکڑ کر سچے دل سے بولی
” چلو اب ان سب باتوں کو چھوڑو تمہارے اینگری بھیا آگئے ہوں گے میں انہیں چائے دے آوں ”
وہ اسکے سوالوں کے جواب نہیں دے سکتی تھی اس لیے اسکے پاس سے خاموشی سے اٹھ آئی ______ کچن میں جا کر حمزہ کے لیے چائے بنائی اور کپ میں انڈیل کر کمرے کی طرف آئی ہمیشہ کی طرح اس نے خود کو باہمت ظاہر کرنے کے لیے گہری سانس لی اور کمرے میں داخل ہوئی کمرے کے سب پردے گرا کر اندھیرا کیا ہوا تھا بس ہلکی ہلکی زیرو بلب کی روشنی تھی وہ صوفے پر نیم دراز تھا آنکھوں پر بازو رکھا ہوا تھا
” حمزہ چائے پی لیں ”
اس نے مدھم سی آواز میں کہا اور کمرے کی خاموشی میں اس کی آواز جیسے کسی ساز کی طرح بجی تھی
” مجھے نہیں چاہئے تمہارے ہاتھ کی چائے لے جاو اسے ”
وہ آنکھوں پر بازو رکھے رکھے ہی سخت آواز میں بولا
” پلیز حمزہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
اب کی بار اسکی آواز آنسوں میں گھلی تھی مگر حمزہ پر کوئی اثر نا ہوا
” میں نے کہا نا کے________”
وہ ایک بار پر سخت لہجے میں بول رہا تھا جب اسے اپنے پاوں پر بیا کی نرم انگلیوں کا لمس محسوس ہوا وہ ایک دم پاوں کھینچ کر سیدھا ہو بیٹھا
” یہ تم کیا کرہی ہو____”
وہ پریشان سا بولا کیونکہ بیا اسکے سامنے ہاتھ جوڑے بیٹھی تھی
” خدارا ایک دفعہ مج….مجھے میرا ج……جرم بتا دیں جس کی مجھے س….سزا دیں رہے ہیں پھر میں اف تک نہ……نہیں کروں گی لیکن اسط…..اسطرح سے مجھ سے یہ س….سزا نہیں کٹ رہی ”
وہ ہاتھ جوڑے جوڑے ہی روتے ہوئے ہوئے بولی مگر اس کی تھکاوٹ اتنی تھی کے آواز بکھر رہی تھی
” بیا تم …..تم رو تو مت اور اٹھو یہاں سے اوپر آو یہاں بیٹھو ”
حمزہ اسکی بکھرتی حالت دیکھ کر ایک دم گھبرا گیا اسے نیچے سے اٹھا کر اپنے پاس بیٹھایا اور اسکے ٹھنڈے ہاتھ اپنی ہاتھ میں لے کر انہیں حدت پہچانے لگا
” بیا تم کیوں معافی مانگ رہی ہو گنہگار تو میں ہوں تمہارا ”
وہ سر جھکا کر اسکے سفید ہاتھوں کو دیکھ کر بول رہا تھا _______ایک لمحے کو خاموش ہو کر اس نے بیا کی طرف دیکھا جو حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی
” ہاں بیا ہاں میں ہوں تمہارا مجرم تم نہیں اتنے دن سے میں تم سے شرمندہ تھا مجھ میں ہمت ہی نہیں تھی کے تمہاری ان آنکھوں میں دیکھتا اور اگر تم مجھ سے کوئی سوال کر لیتی تو میں کیا کرتا ”
وہ بے بسی سے بولتا ہوا اسکے چہرے سے بال ہٹاتے ہوئے بولا
“آپ ایک دفعہ میرے پاس آتے تو میں آپ سے کیوں کوئی سوال کرتی ”
وہ روتے ہوئے ہی بولی اس نے اپنے ہاتھ کھنچنے چاہے مگر حمزہ نے اور گرفت سخت کردی
” جانتی ہو میں بہت محبت کرتا ہوں تم سے اور اپنی اس محبت میں بہت جلا ہوں میں کیونکہ یہ آگ میری ہی لگائی ہوئی تھی جب تم صرف تیرہ سال کی تھی میں جب سے تم سے محبت کرتا ہوں ”
وہ بول رہا تھا جب بیا کی حیرت سے پھٹی آنکھیں دیکھیں تو مسکرا دیا
” ہاں بیا جب سے میں نے شعور کی طرف قدم بڑھائے تمہاری محبت بھی پروان چڑھتی گئی اور پھر ایک حادثاتی معجزہ ہوا تم بن مانگے ہی مجھے مل گئی ”
وہ بول رہا تھا جب بیا نے اس سے ٹوک دیا اور بے یقینی سے بولی
” آپ حھوٹ بول رہے ہیں نا …….”
اس کی بات پر حمزہ کا قہہقہ چھت پھاڑ تھا
” آپ ایسے کیوں ہنس رہے ہیں اب ایسا کیا کہہ دیا میں نے ”
وہ نروٹھے پن سے بولی شاید یہ حمزہ کا اعتراف محبت ہی تھا جس نے اسے یہ حوصلہ دیا
” نہیں آج میں کوئی جھوٹ نہیں بول رہا میں نے ہمیشہ تم سے محبت کی ہے ہاں مگر امی کی باتوں سی میری محبت کو بہت ازیت ہوتی تھی جب وہ تمہارا نام کسی اور کے ساتھ جوڑتی تھیں تو میں غصے سے پاگل ہونے لگتا اور اس دن تمہیں عادل کے ساتھ دیکھ مجھے ایسا لگا جیسے امی کی سب باتیں سچ ہوں اور پھر میں غلطی پر غلطی کرتا چلا گیا ……..مجھے معاف کردو بیا”
اس نے بولتے بولتے باقاعدہ ہاتھ جوڑ لیے اور بیا سے معافی مانگنے لگا مگر بیا نے جھٹ اسکے ہاتھ کھول دیے
” ایسا مت کریں پلیز بیا آپ سے ناراض تھی ہی نہیں بس شکر اس بات کا ہے کے آپ نے دیر نہیں کی ورنہ پھر شاید میں آپکو معاف نا کر پاتی ”
وہ روتے ہوئے بولی حمزہ نے ہاتھ بڑھا کر اسے بازوں کے حلقے میں لیا اور آہستہ آہستہ اسکے سر پر ہاتھ پھیرنے لگا بیا نے پرسکون ہو کر آنکھیں موند لیں اب اسکی زندگی میں حمزہ کی محبت تھی تو پھر وہ کیوں مایوس ہوتی وہ حمزہ کے سنگ تائی کی نفرت جھیل لے گی اور لازمی تو نہیں کے ہر ایک کو پوری خوشی ملے کسی کی خوشیاں اداس بھی ہو سکتی ہیں
ختم شد
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...