کب تک کھڑی رہو گی یہاں اور سمندر کی لہروں کو دیکھتی رہو گی
رمیشہ کب سے سمندر کنارے سمندر کی موجوں کو اٹھتے دیکھ رہی تھی
بس میں یہ دیکھ رہی ہوں کنارے پر آتی ہیں ہمارے پاؤِں چھو کے واپس چلی جاتی ہیں وہ ساتھ کھڑی امبر سے بولی مگر نظریں اسکی سمندر کی آتی جاتی لہروں پر تھیں
چلو بس کردو وہ دیکھو امی پاپا کب سے تمہیں دیکھ رہے ہیں کہ تمہارا دل یہاں سے بھر گیا،تو چلیں واپس
ہاں چلیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رمیشہ اور امبر دونوں بہنیں تھیں
رمیشہ امبر سے 2 سال بڑی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کب لینا ہے تمہیں گریجویشن میں ایڈمیشن؟
رمیشہ کی امی صابرہ بیگم نے رمیشہ سے پوچھا جو لاؤنج میں بیٹھی تھی
امی میں نے نہیں پڑھنا آگے
بس پڑھ لیا جتنا پڑھنا تھا
تمہارا دماغ ٹھیک ہے اچھی بھلی ہو پڑھائی میں پھر پڑھائی کیوں چھوڑ رہی ہوّ؟
صابرہ بیگم غصے سے بولی
تمہارے پاپا کیا بولیں گے وہ کبھی نہیں مانیں گے کہ تم آگے نہ پڑھو ویسے ہی تم نے جو کرنا تھا کر چکی ہو اپنی عزت ان کے سامنے خراب کر چکی ہو اب ہمارا دماغ یہ باتیں کر کے خراب نہ کرو
جو ہونا تھا ہوگیا
اب تم اپنا سوچو کسی کے پیچھے لگ کے وقت برباد کرنے کا کوئی فائدہ نہیں
صابرہ بیگم نے صوفے پر بیٹھی رمیشہ کو سمجھایا
جو فرش کو دیکھ رہی تھی
امی میں نے نہیں پڑھنا میں بتا چکی ہوں بات ختم
پڑھائی زبردستی نہیں کروائی جاتی
آپ بول دیں پاپا کو میں نے نہیں پڑھنا اور
وہ یہ بات کہتی ہوئی اپنے کمرے میں چلی گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیوں کیا تم نے میرے ساتھ ایسا آخر کیوں کیا قصور تھا میرا امجد تم نے آخری وقت پر میرا ساتھ چھوڑا جب سب کو پتہ لگ گیا تم اس وقت بیچ راستے میں مجھے چھوڑ گئے وہ اب رو رہی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کل تمہاری پھوپھو جرمنی سے آرہی ہیں
فیصل کے لیے لڑکی پسند کی ہے اس کی شادی کی تاریخ لے لی ہے شاید ہم سب کو جانا ہو لاہور شادی میں
تمہارے چچا کو چھٹیاں نہیں مل رہیں کمپنی کی طرف سے ورنہ وہ بھی آتے
رمیشہ کے چچا،سعودی عرب میں اپنی فیملی کے ساتھ رہتے تھے ان کے دو بیٹے تھے
ایک رمیشہ سے 1 سال بڑا
اور ایک امبر سے 2 سال چھوٹا
صابرہ بیگم رمیشہ اور امبر کو بتا رہیں تھیں
ٹھیک ہے امی چلیں گے پھوپھو کو آنے تو دیں
کافی وقت ہوگیا انجوائے نہیں کیا اسی بہانے انجوائے کرلیں گے امبر نے صابرہ بیگم۔سے کہا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امجد سے رمیشہ کی دوستی جب ہوئی جب رمیشہ سیکنڈ ائیر میں پڑھتی تھی وہ اسی کے علاقے میں رہتا،تھا،
رمیشہ کے گھر سے دس منٹ کی واک پر اسکا گھر تھا
رمیشہ جب کالج سے واپس آتی امجد اپنے گھر کے گیٹ پر کھڑا ہوتا پہلے تو رمیشہ کو عجیب محسوس ہوتا تھا مگر پھر نظریں مل جاتی دونوں کی
امجد کی پرسنیلٹی بہت اچھی لگتی تھی رمیشہ کو
نظریں ملنے سے بات آگے گئی ایک دن رمیشہ کالج سے واپس آرہی تھی تب ایک لڑکا،رمیشہ کے پاس آیا اور بولا امجد بھائی کہہ رہے ہیں 3 بجے کال کریے گا
اور ایک پرچہ رمیشہ کے ہاتھ میں پکڑا،کے چلا گیا
رمیشہ نے وہ پرچہ راستے میں تو نہیں کھولا،مگر گھر آکے جب پڑھا،اس میں فون نمبر لکھا ہوا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کبھی کبھی غلط انسان کا،انتخاب بھی ہمارے لیے تجربہ ہوتا ہے کہ ہم دوبارہ ایسی کوئی غلطی نہ کریں یہ ہی حال رمیشہ کا ہونے والا تھا
اس کو نہیں معلوم تھا کہ اس کا انتخاب غلط ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فیصل کی شادی اگلے ہفتے ہے تمہاری پھوپھو نے کہا ہے سب جائیں گے ہیں ہی کتنے لوگ
صابرہ بیگم رمیشہ اور امبر کو بتا رہیں تھیں جو دونوں ٹی وی دیکھ رہیں تھیں
……
کیسے جائیں گے امی ٹرین سے یا بائی ائیر؟ امبر نے پوچھا
ہم ہیں ہی کتنے لوگ کراچی سے جانے والے
تمہاری پھوپھو پھوپھا
یوسف اسکی بیوی اس کے بچے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔
یوسف پھوپھو پھوپھا کے ساتھ بائی ائیر جائے گا باقی سب ٹرین میں چلیں گے تم دونوں اپنی تیاری کرو جو کپڑے لے کے جانے ہیں وہ بیگ میں رکھو شادی میں پہننے والے الگ اور دوسرے الگ
امبر اور رمیشہ دونوں خوش تھیں
ماحول چینج ہو تو رمیشہ کے رویے پر اثر ہو صابرہ بیگم نے یہ سوچا تھا
وہاں شادی والے گھر میں اس کی طبیعت بہل جائے گی وہ جانتی تھیں کہ وہ کافی ٹینشن لے چکی ہے ایک غلطی کرکے
زندگی کی ایک غلطی آپکی ساری زندگی کی عزت پر ایک پل میں داغ لگا دیتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...