(Last Updated On: )
وہ پھول جو بر__سوں سے ان کیاریوں میں لگے اپنی نا قدر__ی پر_ خاموش تھے۔ جب بہار_ آئی ان کی کونپلیں بھی پھوٹیں پھول بھی کھلے لیکن ان کے ر_نگ پھیکے رہے ان کے کھلنے پر__ پھر_ کسی نے گر_م جوشی کا اظہار__ نہ کیا۔
بر_سوں بعد آج پھر_ لاکھانی لاج میں بہار_ آئی تھی ۔ ویسی ہی خاموش بہار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ویسی ہی بے زار کن انہی پھتر_یلی آنکھوں نے اس کا استقبال کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ کونپلیں جو سال بھر_ ترستی تھیں آج پھر_ اسی نفرت نے ان کو خوش آمدید کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہر چیز ابھی تک اس جادو کے زیر اثر تھی جو برسوں پہلے پھونکا گیا تھا ۔ جن احساسات کو برسوں پہلے منجمد کیا گیا وہ آج بھی برف کی انہی تہوں کے نیچے دبے آنکھوں کو موندے آرام فرما رہے تھے۔ لیکن کب تک ؟ کب تک کوئی یہ دھول نہ جھاڑتا ؟ کب تک وہ پھولوں کی کیاریاں اپنے ٹھکرائے جانے کا غم مناتی رہیتں ؟ آخر کب تک یہی سلسلہ جاری رہتا؟
اس صبح طلوع ہونے والے سورج کی کرنوں میں عجیب سی چمک تھی۔ چڑیوں کی چہچہاہٹ بھی انوکھی تھی ان کے شوروغل نے سب کو حیران کر دیا تھا لاکھانی لاج کے در و دیوار پر قوس قزاح کے رنگ بکھر رہے تھے۔ یہ چہل پہل یہ رونق یہ ان دیکھی خوشی ایک خوشگوار تاثر لیے سورج اپنی کرنیں پھیلاتا جا رہا تھا ۔
” سویا ہوا محل ” میں سو سال بعد کسی شہزادے کی آمد پر جیسے ہر ایک چیز حرکت میں آ گئی تھی ۔ وہی عالم اس لمحے لاکھانی لاج کا تھا۔ جادو کا زور ٹوٹ چکا تھا۔
” زرغم عباسی واپس آ گیا۔” یہ وہ خبر تھی جس نے صبح صبح ہر فرد کے دل میں خوشی کی لہر دوڑا دی تھی اور وہ اکیلا نہیں تھا اپنے ساتھ اپنی پہچان بھی لایا تھا۔ اپنے ساتھ اپنی ماں کی خوشیاں بھی لایاتھا۔ بھلے وہ خوشیاں ماند پڑ چکی تھیں بھلے وہ بوڑھی ہو چکی تھیں بھلے ہی ان پر وقت و حالات کی دھول جمی تھی لیکن یہ دھول محبت کے نرم ٹھنڈے میٹھے جھرو سے دھوئی جا سکتی تھی۔
” قمر عباسی ۔۔۔۔۔۔۔۔” لاکھانی لاج کے ہال میں سب جمع تھے اور قمر عباسی لاغر وجود شرمندہ نگائیں لیے مجرم کی مانند کٹہرے میں کھڑے ہر فرد کی تلخ و طنزیہ نگاہوں کی زد میں تھے کہ علی الحسن نے اس خاموشی کو توڑا۔
” آپ کی آمد ان آنسوؤں، رسوائیوں اور ذلتوں و تنہائیوں کا مداوا نہیں کر سکتی جو آپ کی بدولت ہماری بہن کی قسمت میں لکھی گئی تھیں۔” علی الحسن کی سپاٹ آواز ہال میں گونجی۔
” آج ہماریے پاس کوئی اختیار نہیں قمر عباسی اگر سعیدہ آپ کو معاف کرتی ہے تو لاکھانی لاج کا ہر فرد دل سے آپ کو اپنائے گا علاوہ ازیں ہماریے پاس کوئی رستہ نہیں۔” علی الحسن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فیصلے کا سارا اختیار سعیدہ کی جھولی میں ڈال کر خاموش ہو گئے۔
وہاں موجود ہر ایک نفوس اب سعیدہ کے بولنے کا منتظر تھا لیکن وہ سر جھکائے گہری سوچوں میں یوں ڈوبی تھیں جیسے وہاں موجود ہی نہ ہوں۔ کتنے ہی پل اسی انتظار میں بیت گئے قمر عباسی اپنی سزا سننے کے منتظر تھے زرغم بے چینی سے پہلو بدل رہا تھا بیلہ اس کی بے چینی کو محسوس کر رہی تھی لیکن اس وقت وہ ایک لفظ نہ بول سکتی تھی۔
” بھائی صاحب میرے خیال میں ہمیں یہاں سے اٹھ جانا چاہیے ان کو گلے شکوے دور کر لینے کا اکیلے میں موقع دینا چاہیے ۔ ” مجیدالحسن نے علی الحسن کے کان میں سرگوشی کی جس سے وہ متفق ہوئے۔
” تم یہیں رکو زرغم۔۔۔۔۔۔۔۔” آہستہ آہستہ ہر ایک فرد وہاں سے نکلتا چلا گیا۔ جب چند پل کی خاموشی کے بعد سعیدہ اور قمر عباسی کے درمیان کوئی گفتگو نہ شروع ہوئی تو زرغم نے بھی وہاں سے جانے کی ٹھانی تو سعیدہ نے اس کو روک لیا۔ اس نے قمر عباسی کی طرف دیکھا جو ابھی تک اسی پوزیشن میں بیٹھے تھے۔
” تم اس شحص کو کس کی اجازت سے اس حویلی میں لائے ہو زرغم؟” اس کے واپس اپنی جگہ بیٹھے ہی سعیدہ سپاٹ لہجے میں بولی تو زرغم نے ان کی طرف دیکھا۔ جو کرخت تیوروں سے قمر عباسی کی طرف دیکھ کر اس سے استفار کر رہی تھیں۔
” کسی کی اجازت سے نہیں اپنی مرضی سے لایا ہوں۔ ان کی اپنی مرضی کے بغیر۔۔۔۔۔۔۔۔” زرغم اٹھ کر قمر عباسی کے پاس جا بیٹھا اور ان کے یخ بستہ ہاتھوں پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے بولا۔
انہوں نے سر اٹھا کر اس کو دیکھا تو ان کی آنکھوں سے جھانکتی بے بسی پر اس کا دل کٹ کر رہ گیا۔ اس نے سعیدہ کو دیکھا جو ضبط کی آخری حدوں کو چھو رہی تھیں۔
” اگر یہ آنا نہیں چاہتے تھے تو پھر کیوں لائے انہیں یہاں ؟ کہہ دو ان سے کہ چلے جائیں یہاں سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آج مجھے ان کی ضرورت نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔” سعیدہ غصیلے کرخت اور سپاٹ لہجے میں بولتی رخ موڑ گئی۔
” نہیں ! آپ جھوٹ بول رہی ہیں مما۔” زرغم نے ” مما ” پر زور دے کر کہا تو انہوں نے یک دم اس کی طرف دیکھا۔
” نہیں ہوں میں تمہاری مما.”
” آج ہم سب کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے مما۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ کے کہنے سے سچائی بدل نہیں جاتی۔ میں آپ کا بیٹا ہوں اور یہ ایک اٹل حقیقت ہے۔ جس کو کوئی بھی نہیں جھٹلا سکتا۔” زرغم اٹھ کر ان کے پاس آیا اور اس کے کندھوں پر اپنے دونوں ہاتھ رکھ کر ان کا رخ اپنی طرف کرتے ہوئے بولا تو دوسرے پل وہ اس کے ہاتھ جھٹکتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئیں۔
” آج نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے کسی کی ضرورت۔۔۔۔۔۔۔اب وقت گزر چکا ہے اور ضرورتیں بھی بدل چکی ہیں۔ اب ہم اکیلے رہنے کے عادی ہو چکے ہیں ان سے کہوں یہاں سے چلے جائیں ۔” ہر ایک کے دکھ پر دکھی ہونے والی سعیدہ اس لمحے انتہائی سفا کی سے رخ موڑ رہی تھیں۔
” یہ سچ نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے تو ضرورت ہے آپ دونوں کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔” زرغم ان کے سامنے جا کھڑا ہوا۔
” تم اب کوئی دودھ پیتے بچے نہیں جو تم کو اب ہماری ضرورت ہو گی ۔” سعیدہ ایک بار پھر تلخ انداز میں بولیں۔
” واقعی سچ نہیں ہے سعیدہ بیگم مجھے تب بھی آپ کے ساتھ کی آرزو تھی اور آج بھی آپ ہی کا ساتھ چاہیے۔” قمر عباسی برسوں بعد بھی اسی دلربا انداز میں گویا ہوئے تو سعیدہ نے ان کی طرف پہلی بار نظر بھر کر دیکھا۔
بالوں میں چمکتے چاندی کے تار تھکا تھکا انداز جھکی نظریں دونوں ہاتھوں کو ایک دوسرے میں پھنسائے بیٹھے تھے ان کے ہر ایک انداز سے شرمندگی ندامت اور پچھتاوا ظاہر ہو رہا تھا۔ سعیدہ کا دل ان کی اس حالت پر کٹ کر رہ گیا لیکن وہ بھی کیا کرتیں ؟ ایک کڑا وقت گزارا تھا اس لیے اس نے بھی لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ تب نہ آئے پھر جب سب ٹھیک ہوا تو قمر کے پیغامات بھی آنا شروع ہوئے تھے جن کو علی الحسن نے رد کیا تھا آج ایک لمبی مدت کے بعد وہ پھر آگئے۔
” مما معاف کر دیں پاپا کو آپ کی طرح انہوں نے بھی بن باس ہی کاٹا ہے آپ کے ساتھ تو سب تھے لیکن انہوں نے تن تنہا بغیر کسی سہارے کے یہ سفر کاٹا ہے۔”
بالآخر زرغم نے مداخلت کی۔
” مما۔۔۔۔۔۔۔اس سب میں نہ آپ کا قصور تھا اور نہ ہی پاپا کا دوسرے لوگوں نے آپ دونوں کے درمیان فاصلوں کو بڑھایا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پلیز مما اب بس یہ جنگ ختم کریں اپنے لیے نہ سہی میرے لیے ہی سہی مجھے لا وارثوں کی طرح جینے سے بچا لیں پلیز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔” زرغم ان دونوں کے سامنے ہاتھ جوڑتا آنسو بہاتا ان کی منتیں کر رہاتھا۔ اپنے لیے ایک مضبوط سہارے کی کوشش میں لگا تھا لیکن سعیدہ اور قمر عباسی دونوں ہی خاموش تھے زرغم کچھ دیر وہاں رکا اور پھر لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہال کا دروازہ عبور کر گیا۔ تو ان دونوں کی نظروں نے اس کا تعاقب کیا دوسرے لمحے ان کی نظریں ملی تو دلوں کے تار بھی محبت کی تال پر جھومنے لگے وہ محبت جو غلط فہمی کی اوٹ میں منہ چھپائے بیٹھی تھی نفرت و غلط فہمی کے بادل چھٹتے ہی پھر سے انگڑائیاں لینے لگیں۔
” یہ کیا حالت بنا رکھی ہے آپ نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔” سعیدہ دھیمی رفتار میں قدم اٹھاتی ان کے پاس جارکی اور بھرائی آواز میں فکر مندی سے گویا ہوئی۔
” تم نہیں تھیں ناں اس لیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔” اس کی طرف دیکھتے مدھم مسکان کے ساتھ بولے۔
” مجھے معاف کر دو سعیدہ میری نا اہلی کی وجہ سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
” نہیں آپ کی کوئی غلطی نہیں حالات ہی کچھ اس طرح کے تھے کہ ہم ایک دوسرے کا ساتھ نہ نبھا سکے۔” ان کی بات کاٹ کر سعیدہ صلح جو شگفتہ لہجے میں بولتی باہر کھڑے زرغم کو مطمئن کر گئیں۔
غلط فہمیوں کو جتنا بڑھایا جائے وہ بڑھتی ہی چلی جاتی ہیں۔ دو لوگوں کے درمیان جب باہر کے لوگ انوالو ہونے لگتے ہیں تو اس رشتے کی ڈوران کے ہاتھوں میں چلی جاتی ہے اور پھر وہ اپنی سوچ اور سمجھ سے ہینڈل کرواتے ہیں اور پھر وہاں پیار و محبت کی بجائے نفرت کی دیواریں بلند ہونے لگتی ہیں دوریاں ان کا مقدر بن جاتی ہیں یہی کچھ سعیدہ اور قمر عباسی کے ساتھ بھی ہوا تھا۔ لیکن اب۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب نہ وہ وقت تھا نہ وہ حالات اور نہ ہی درمیان میں دوریاں پیدا کرنے والے لوگ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب صرف وہ دونوں تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور دونوں پھر سے عہدو پیمان باندھ رہے تھے۔ پھر سے ساتھ نبھانے کی قسمیں کھا رہے تھے۔
زرغم کچھ دیر وہاں کھڑا رہا اور پھر سر شار سا وہاں سے بھاگا اور سب کو یہ خوش خبری سنانے کے لیے علی الحسن کے کمرے کا رخ کیا جہاں سب منتظر بیٹھے تھے سعیدہ کے فیصلے کا انتظار کر رہے تھے۔
” مما آپ کیوں نہیں سمجھ رہی ہیں یہ سب ناممکن ہے۔” زرغم راہداری سے گزرتا علی الحسن کے کمرے کی طرف جا رہا تھا کہ ساریہ کے کمرے سے آتی آواز پر ٹھٹک کر رک گیا۔
” اس کا مطلب ساریہ اور فاطمہ آنٹی سب کے ساتھ نہیں ہیں۔” پر سوچ انداز میں خود کلامی کرتے وہ علی الحسن کے کمرے کی بجائے ساریہ کے کمرے کے دروازے پر ناک کرتا اندر بڑھا تو دونوں چونک اٹھیں۔ فاطمہ بیڈ پر منہ پھلائے بیٹھی تھیں اور ساریہ ان کے پاس نیچے ان کے گھٹنوں پر ہاتھ رکھے ان سے کچھ کہہ رہی تھی کہ زرغم کے اندر داخل ہوتے ہی اٹھ کھڑی ہوئی۔ فاطمہ نے بھی پہلو بدل کر رخ دوسری طرف پھیر لیا۔ زرغم معاملے کی نوعیت سمجھ تو گیا تھا پھر بھی آگے بڑھا۔
” کیا بات ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور آپ لوگ یہاں اکیلی کیوں بیٹھی ہو؟” وہ ان کے پاس آکر رکا تو فاطمہ نے اس کی طرف دیکھا۔
” کچھ نہیں جاؤ تم یہاں سے اب کیا لینے آئے ہو؟”
وہ ناگواری سے تلخ لہجے میں بولتی اس کو حیران اور ساریہ شرمندہ کر گئی۔
” مما خاموش رہیں آپ پلیز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زرغم تم چلو تایا ابا کے کمرے میں چلتے ہیں۔ رہنے دو ان کو اکیلا۔” ساریہ زرغم کو کہتی باہر کی جانب بڑھنے لگی۔
” تم جاؤ میں آنٹی کے پاس ہوں ان کو لے کر آتا ہوں۔” زرغم کے جملے پر ساریہ نے پلٹ کر اس کو دیکھا تو اس نے اشارے سے اس کو تسلی دی تو وہ وہاں سے نکل گئی۔
” کیا بات ہے آنٹی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ساریہ کیا کہہ رہی تھی آپ سے؟ اور آپ مجھ سے کیوں خفا ہیں؟” ساریہ کے باہر نکلتے ہی وہ ان کے پاس آ بیٹھا۔
” ہمیشہ میں ہی کیوں؟ میرے ساتھ ہی کیوں زیادتی کی علی الحسن نے؟” ان کے صبر کا پیمانہ چھلکنے لگا۔
” کیوں کیا ہوا؟” زرغم ان کے لب و لہجے پر سٹپٹا گیا۔
” تمہاری شادی صرف اور صرف ساریہ سے ہو گی۔ تم ایسا ہی کرو گے ناں؟ میں اپنی بچی کو ایسے نہیں دیکھ سکتی میں جانتی ہوں ٹھکرائے جانے کا غم کتنا ہوتا ہے روح تک کو گھائل کر دیتا ہے لیکن زخم نظر نہیں آتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔” وہ اس کی طرف مڑی اس کا ہاتھ پکڑے عجیب ہزیانی ہو رہی تھیں زرغم ان کو بے سروپا فرمائش پر ہکا بکا ان کو دیکھے گیا۔
” بولو ناں تم ایسا ہی کرو گے ناں؟” وہ اپنے ہاتھ چھڑا کر دونوں ہاتھوں سے اس کا چہرہ تھام کر پھر سے گویا ہوئیں۔
” یہ پانی پئیں آپ ۔” دوسرے لمحے وہ خود کو نارمل کرتا ان کے ہاتھ اپنے چہرے سے ہٹاتا گلاس میں پانی ڈال کر ان کو پلا رہا تھا۔
” آنٹی آپ خود سوچیں کیا صحیح ہے ؟ کیا ساریہ اس بات سے خوش ہو گی کہ آپ نے منتیں کرکے مجھے اس کے لیے مانگا ہے ؟ وہ دھیمی آواز میں ان سے بولنے لگا تو ان سے برداشت نہیں ہوا اور وہ زار و قطار آنسو بہانے لگیں۔
” آنٹی آپ خود سوچیں جو رشتے دل سے جوڑے جاتے ہیں وہ پائیدار ہوتے ہیں کہ جو ضد سے جوڑے جاتے ہیں وہ ؟” ان کے آنسو صاف کرتا پھر بولا تو وہ بھیگی پلکوں سے اس کی طرف دیکھنے لگیں۔
” آنٹی آپ کے ساتھ کسی نے کوئی نا انصافی نہیں کی جو کچھ بھی ہوا وہ آپ کی اپنی ہی ضد کی وجہ سے ہوا ہے۔ اگر اس وقت آپ حالات سے سمجھوتا کر لیتی تو آج آپ اپنی نا قدری کا نا رونا نہ رو رہی ہوتیں اور آج پھر آپ اپنی ضد کی وجہ سے ساریہ کو فاطمہ بنا دینا چاہتی ہیں؟” وہ خاموشی سے اس کو دیکھے جا رہی تھیں۔ آج پہلی بار کوئی انہیں آئینہ دیکھا رہا تھا سچ واقعی ہی کڑوا ہوتا ہے لیکن اس کو سن لینا بعض دفعہ کار آمد ثابت ہوتا ہے لیکن اس کو سن لینا بعض دفعہ کار آمد ثابت ہو سکتا ہے۔
” دیکھیں آنٹی یہ قسمت کے فیصلے ہوتے ہیں ساریہ کے لیے یقینا کچھ اچھا ہو گا لیکن اس کے لیے آپ کو اپنی ضد چھوڑنی ہو گی۔ ساریہ کو شرمندہ نہ کریں ۔ وہ سمجھدار اور پڑھی لکھی ہے کوئی اس کو ٹھکرا نہیں رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہ
ہی کسی نے آپ کو ٹھکرایا تھا۔ یہ دل کے معاملے ہوتے ہیں آنٹی ۔ جن کو بروقت سمجھ لینے میں ہی سب کی بہتری ہوتی ہے ۔ اور میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
” بس زرغم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے معاف کر دو۔” شاید یہ لمحہ آگہی کا تھا فاطمہ زرغم کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی ندامتوں میں گھری اپنے کیے کی معافی مانگنے لگیں تو زرغم نے ان کی طرف دیکھا آنسوؤں سے تر آنکھیں بالوں میں چمکتی سفیدی چہرے پر ندامت ماتھے پر شرمندگی کی جھریاں کتنا وقت گزر گیا ۔ فاطمہ نے کون سی خوشی دیکھی ؟ زرغم سوچ کر رہ گیا۔
” نہیں آنٹی معافی کی ضرورت نہیں ۔” زرغم کو ان پر ترس آنے لگا۔
” چلیں آنٹی بہت اکیلا رہ لیا آپ نے آج سے آپ بھی سب میں شامل ہوں گی اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
” نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں ٹھیک ہوں۔” وہ اس کی بات کاٹتی ہوئی بولیں۔
” ٹھیک ہوتی ناں تو میں یہاں رکتا ہی نہیں جب مما پاپا کو معاف کر سکتی ہیں تو انکل آپ کو کیوں نہیں ؟ بس چلیں آپ .” زرغم بضد لہجے میں بولتا ان کے نہ نہ کرنے کے باوجود ان کو لیے علی الحسن کی جانب بڑھتا چلا گیا-