(Last Updated On: )
“میرے خدا !!ٓ سانحہ بعد سانحہ ؟ یہ کیسی ترتیب ہے آپکی؟،،مجھے جس سانحہ نے توڑ ڈالا اب وہی مجھے جوڑ رہا ہے۔۔۔؟
میں لڑتی رہی آپسے ،شکووں کے بیج بوتی رہی۔۔۔۔لیکن اسکے بدلے آپنے کیا کیا میرے ساتھ؟
مجھے تو عزتوں کی ٹوکڑی ہی تھما دی۔۔۔کیا میں اس قابل تھی۔؟
وہ آج بھی مصلہ بچھائے اپنے اللہ جی سے باتوں میں مصروف تھی، اسے یقین ہی نہ تھا کہ جو کچھ ہوا ہے وہ ایک حقیقت ہے یا کوئی بہترین سا خواب۔۔۔۔
اسے خضر کی جس محبت نے جینا سکھایا ، تہذیب کے نئے قائدے پڑھائے ، قدموں کی آہٹوں کے ڈھنگ بٹھایا،
ماں باپ کی عزمتوں کے گن سکھائے اور پھر اس سب کے ساتھ ساتھ۔۔۔۔اسے اللہ سے محبت کرنا سکھایا
آج اسی کی بدولت وہ اپنی زندگی کا ایک ایسا خواب پورا کرنے جا رہی تھی جسکا وہ صرف خواب ہی دیکھ سکی تھی۔۔۔۔کبھی تمنا نہ کر سکی تھی
دعاووں میں ہر بار کی طرح اسنے اپنے لئے اس ذات کو مانگا جسکے چلے جانے سے اسکو کچھ تو حصل ہو گیا تھا مگر زندگی کے سارے رنگ اب پھیکے سے لگنے لگے تھے
آجکی خوشی پر بھی اسے جتنا خوش ہونا چاہیئے تھا وہ اتنی خوش دکھائی نہ دیتی تھی
“خوشیوں کا محسوس ہونا انہی لوگوں لے سنگ جڑا ہوتا ہے جنکی بدولت وہ خوشیاں پائی گئ ہوں “
اور پھر خضر کی وجہ سے ملنی والی خوشیاں جبتک اس کے ساتھ مل کر نہ منائی گئی ہوں ۔۔۔۔۔کیسے پوری ہو سکتی تھیں۔۔؟
معمول کی طرح بھیگی پلکوں اور لب پر دعا سجائے وہ سو گئی تھی
******** “””””””” ******* “””” ******
“امی آج اپ بھی چلیں نا ہمارے ساتھ
۔۔ورنہ یہ لڑکی تو جتنا بڑی ہوگئی ہے اتنا ہی بچپنا دکھانے لگی ہے،،معلوم ہے؟ کل بھی میری قمیص کا کونا پکڑے بیٹھی رہی تھی
ناجانے کون سے خوف کھاتے ہیں اسے۔۔۔۔
صبح اردو کہانی پلیٹ فارم کے آفس جانے کی تیاریوں کے دوران بھائی نے امی جان سے کہا
“میں تو پہلے ہی معذرت کرتی ہوں، تمہارا لحاظ کرتی ہوئے صرف قمیص کا کونا پکڑا تھا۔۔۔۔میرے ساتھ تو ہاتھ چھڑائے بھاگے گی”
امی نے پھر دامن جھاڑتے ہوئے کہا
“اف۔۔۔۔ایک تو آپ ماں بیٹی کی کہانی میری سمجھ سے باہر ہے۔۔۔۔۔چلو مریم !
اٹھاو وہ اجازت نامہ اور میرے ساتھ ہی چلو”
بھائی نے کہا اور وہ آج بھی اسی طرح بھائی کے پیچھے چل پڑی
دستخط شدہ اجازت نامہ سویرا خان کو تھمایا اور اگلے مراحل سے گزرتے ہوئے اب آخر وہ دن اگیا تھا جسکا سب کو بےصبری سے انتظار تھا
اس دعوت اردو ادب کی محفل میں عادل بھائی بھی شامل رہے۔۔۔۔۔خوب زوروشور سے پذیرائی ملی۔
حیرت اس بات پر تھی کہ عمر کچھ بھی نہی اور لفظ شیریں تھے۔۔۔۔
بےنام محبت کا خلاصہ سنانے جب اسے سٹیج پر دعوت دی گئی تو اب کی بار بھائی کی آستین کاکونا پکڑے بیٹھی رہی
“ارے اٹھو، جاو تمہیں بلایا جا رہا ہے۔۔۔۔آستین تو چھوڑ دو میری۔۔”
بھائی نے اس سے کہا
وہ سہمتی سہمتی اٹھی اور کانپتی ٹانگوں سے وہاں تک پہنچی اور بولنا شروع کیا
“میں تو کچھ نہی جانتی، ابھی بہت چھوٹی ہوں نا۔۔۔۔
ادب کے دائرے میں رہ کر محبت بیان کرنا میں کیا جانوں ،بس اپنے دل میں قید ایک شخص کی ذات کو میں لکھتی گئی۔۔۔۔اور یہ نمونہ ہاتھ آیا، اپنی محبت کو تاعمر زندہ رکھنے کی خاطر اس نمونے کی کاپی کروانے گئی۔۔۔۔کہ پیسے نہ ہونے کے سبب یہاں تک آپہنچی
میرے ماں باپ بھی یہیں تشریف فرما ہیں اود بھائی بھی۔۔۔۔ارے ہاں ایک میرے دوست بھی۔۔!
اپنی محبت کا یوں تذکرہ کرنا مجھے ذرا شرم دلا رہا ہے۔۔۔۔لہذا مجھے اتنے خلاصے پر ہی ٹھہر جانا چاہہئے۔۔۔ویسے بھی ابھی چھوٹی ہوں نا نہی جانتی خلاصہ کیسے کرتے ہیں۔۔
وہ اٹھ کر جانے لگی تو پیچھے بیٹھے ایک ادیب نے کہانی کے عنوان پر سوال اٹھایا۔۔۔جس پر اسنے کچھ یوں تبصرہ کیا
“بےنام محبت ،ہاں میری بےنام محبت۔۔۔۔۔جسکا کوئی نام نہیں ہے،نہ کوئی وجود۔۔۔۔بےعکس ،بےنقش، جسکی آواز ہے صرف،میرے دل کے ہر کونے میں
جسکا احساس ہے صرف میرے ذہن کے ہر حصے میں ،جسکی تہذیب کی نرمی ہے میرے پاس۔۔۔جسے میں ہر لمحہ خود میں پرو کر میں اتنی بلندیوں کو چھو رہی ہوں۔۔۔۔
کہاں میری عمر سے زیادہ لوگ اب میرا نام جانتے ہیں ،بس میری بےنام سی محبت۔۔۔۔جس دن مل گئی اسی دن نام دے دوں گی
اور اسی نام کو عنوان دے کر نئی کہانی لکھوں گی۔۔۔”
” لوگ یہ بھی کہتے ہیں یہ کیسی محبت ہوئی کہ جسے دیکھا نہیں اسے چاہ بھی لیا۔؟۔۔۔کوئی مذاق ہے شائد؟میں انسے کہوں اک بات؟
میری محبت بے نام سہی۔۔۔۔۔پر آجکل کے چہروں پر مرنے والی مریم نہی ہوں میں
جنکی رنگت کے لوگ دیوانے ہیں تو ساتھ انہی کے دل کی سیاہی کے گن بھی گاتے ہیں
مجھے فخر ہے اپنی محبت پر،جسے مینے کنھی دیکھا تو نہیں پر پھر بھی محبت بےانتہا کرتی ہوں۔۔”
اسنے اپنی تقریر مکمل کی اور مایئک سویرا خان کی طرف بڑھا دیا
” کامیابی کا تعلق عمروں سے نہی ہوا کرتا۔۔۔یہ تو اللہ کی دین ہے۔۔۔جس موڑ پر ملے اٹھا کر بس چلتے بنو،
ہاں مگر یہ ضرور دیکھ لینا کہ تمہاری کامیابی سے اگلے یا پچھلے بندے کو کوئی ٹھوکر تو نہی لگی۔۔؟،
اگر یوں ہوتا دیکھ لو تو کامیابی کو سرِراہ چھوڑ کر راستہ بدل دینا۔۔کامیابی کسی درخت کی چھاوں کی مانند اپنے لیئے پڑی پاو گے”
سویرا نامی وہ خاتون شائد فرشتہ صفت تھی جنکا ملنا نہ صرف مریم کیلئے ایک استاد کی کمی پوری کرتا تھا بلکہ اب اسکی کامیابی کا سہرا بھی انھی کے سر جاتا تھا
عادل بھائی جو سب کے ساتھ بیٹھے مریم اور باقی سب کی پراثر باتیں سن رہے تھے۔۔۔۔دعوت کے اختتم پر امی کو چپکے سے کہنے لگے
“دیکھا ممانی۔۔جن سوالوں کے جواب طلب کرنے سے مینے آپکو روکا تھا ،انکا جواب اسنے بنا سوالوں کے ہی دے دیا
مجھے یقین ہے اپ اسکے سر پر شفقت بھرا ہاتھ پھیریں گی،اور پھر ایک وعدہ لئے جاتا ہوں مزید سوالات سے گریز کیجئے گا۔۔۔
صحت یابی کے لئے ضروری ہے۔۔۔”
امی کو اپنی نصیحت کا اچھا انجام سنا کر وہ اسی دعوت سے اپنے گھر کو روانہ ہو گئے۔۔
ان سارے قصوں اور معاملات کو ہونے میں یونیورسٹی بھی اپنے اختتام کو آگئی تھی
چھ ماہ اور تھے اگر مریم ان میں پورے دھیان سے پڑھ لے تو مریم سے ڈاکٹر مریم کہلائے گی۔۔۔۔
بیٹی کے باپ صاحب،اب تو میری سن لیں
اسکے امتحانات بھی نزدیک ہیں، اور نکاح والی بات بھی دو سال پرانی ہو چکی ہے۔۔۔ایک خاتون ہیں میری نظر میں ،انہوں نے اطلاع دی ہے
ایک پڑھا لکھا خاندان ملک سے باہر رہتا ہے
انہیں ڈاکٹر بہو چاہہیے ،میں مریم کی بات وہاں کرنے کی حامی ہوں۔
آپ بھی کچھ مشورہ میری ہمایت میں کردیں تو کیا خوب جمے گی ہماری۔۔۔۔؟”
امی نے ایک بار پھر مریم کی شادی کی بات شروع کردی تھی، آخر بیٹی کی ماں جو ٹھہری۔۔۔۔۔کیسے نہ پریشان ہوتیں
“بیٹی کی اماں صاحبہ، پہلے ہی ہمایت کے پھل اکٹھے کرنا شروع کردہیے؟ بیٹی سے تو پوچھ آو، بےنامی محبتوں پر کون آباد رہتا ہے؟
کس کے قصیدوں پر پوری کتاب لکھ ڈٖالی۔۔۔
کہیں ایسا نہ ہو دوسرا نکاح بھی ٹھکرایے بستر پر پڑی ہو؟”
بابا کی بات سن کر امی بے ساختہ کانوں کو ہاتھ لگائے بولیں
“اتنے کھلے دل و دماغ کے ماں باپ اللہ کسی کو نہ دے سید صاحب !
بیٹی کی محبت کا تذکرہ کر رہے ہیں ،وہ بھی بنا کسی شرمساری کے؟”
“ہاں تو سگی ہے۔۔۔۔سوتیلی ہوتی تو ایک دو ہاتھ میں بھی صاف کر آتا
مگر اپنی ہی بیٹی ہے، دل موم ہو جاتا ہے
اب محبت ہے تو ہے اور مزے کی بات ہے کہ بےنام ہے
جاو بیگم جاو ،باتیں نہ بناو۔۔۔جا کر اس بے نامی کا نام ہی پوچھ آؤ”
باپ کی بھی یہ محبت ہی تو تھی۔۔۔۔کوئی اور باپ ہوتا تو غیرت کے نام پر قتل ہونا ہی اس کا نصیب ہوتا۔۔۔
***** “”””””” ******* “””””””” *********