(Last Updated On: )
طاہر عدیم
غیر ممکن تھا مگر کاٹ کے رکھا ہوا ہے
جیسے تیسے یہ سفر کاٹ کے رکھا ہوا ہے
سُنتے آئے ہیں کہ یہ عشق بلا ہے تو جبھی
نشترِ دل سے جگر کاٹ کے رکھا ہوا ہے
کشتِ افکار میں اک سمت فقط تیرے لیے
ریشمِ فصلِ ہنر کاٹ کے رکھا ہوا ہے
چاہیے دل تو بصد شوق اِدھر طشت میں ہے
چاہیے سَر تو اُدھر کاٹ کے رکھا ہوا ہے
اپنی سانسوں سے جسے باندھ رکھا تھا تُو نے
وقت نے آج وہ گھر کاٹ کے رکھا ہوا ہے
اُس کو معلوم ہے گُزروں گا گلی سے میں بھی
اُس نے اک جگہ سے در کاٹ کے رکھا ہوا ہے
وقت اِک لاشہِ بے گورو کفن ہے جس پر
زیست کا دیدہِ تر کاٹ کے رکھا ہوا ہے
صرف اُس ذات سے ڈرنے کے عمل نے طاہرؔ
ساری اقسام کا ڈر کاٹ کے رکھا ہوا ہے