میرے کمرے میں تمہیں بنا دستک داخل ہونے کی اجازت ہے۔۔۔ جب سے تم آئی ہو میں نے کمرے کو کنڈی کرنا چھوڑ دیا ہے۔
کیوں۔؟؟ زینہ حیران ہوئی۔۔
تم حقیقتاً معصوم بھولی بھالی ہو یا مجھے لگتی ہو۔؟؟
میں تو ایسی ہی ہوں بیوقوف ۔! اسی لیے شاید آپ روٹھ گئے تھے۔! زینہ نے غم سے منہ بنایا۔۔۔
آپ بتائیں دروازہ کیوں کھلا چھوڑتے ہیں ۔؟؟
بیوقوف لڑکی کہ اگر رات کو ماسی کی وجہ سے تمہیں مجھے بلانا پڑ جائے تو آسانی سے دوڑ لگا کر میرے سر پر آن دھمکو۔!!!
اس کے لیے تو میں آپ کو فون بھی کر سکتی ہوں۔!
جی بالکل جیسے فون پر میرے ساتھ بڑے گہرے روابط قائم کیے بیٹھی ہو ۔!! فون پر تو میرے ساتھ بڑی دوستی گانٹھ رکھی ہے۔روحیل نے شکوہ کیا۔۔
اسی دوران زینہ نے شب باشی کالباس نکالا اور سوال طلب نظروں سے روحیل کو دیکھنے لگی
میں جاؤں۔؟؟
ہاں جاؤ۔!!!
آپ صبح ناشتے میں کیا کھائیں گے۔؟؟؟
گوبھی کے پراٹھے جو تم نے میرپور مجھے پہلی مرتبہ کھلائے تھے۔
ٹھیک ہے صبح میں آپ کو اٹھانے آؤں گی ان شاءاللہ۔۔
جلدی سے اٹھ جائیے گا۔!! زینہ نے الماری کے پاس کھڑے کھڑے تمام ضروری معلومات دیں اور کمرے سے نکلنے کے لیے پر تولنے لگی۔۔
سارا دودھ پی لیجئے گا ورنہ پھپھو نے میرا حشر بگاڑ دینا ہے۔!
تم فکر نہ کرو اور اب جاؤ اس سے پہلے کہ میرے ارادے بدلنے لگیں اور میں تمہیں نئی سزا سنا دوں۔!!
زینہ نے سنتے ساتھ دروازے کی طرف دوڑ لگا دی۔۔
زینہ کی پھرتیوں پر روحیل کا قہقہہ بلند ہوا۔
******************************************
ہائے بی بی جی آپ اتنی جلدی اٹھ گئیں ہیں۔؟ وہ شریفاں خالہ آپ کے صاحب کے لئے پراٹھے بنانے ہیں تو گوبھی کے سالن کی عدم دستیابی پر مجھے تازہ سالن بنانا پڑ گیا ہے اس لیے فجر کے بعد باورچی خانے میں چلی آئی۔۔
آپ بے فکر رہیں میں نے گوبھی کا سالن تیار کر لیا ہے ،اور ساتھ میں باقی سب کے لئے حلوہ بھی تیار ہے۔ آج سب کو حلوہ پوریاں کھلاتے ہیں۔ روحیل تو گوبھی کا پراٹھا کھانا چاہتے ہیں۔!
زینہ نے تیز تیز ہاتھ چلاتے ہوئے تمام معلومات شریفاں کے گوش گزار کیں۔۔
بی بی جی سچی آپ بہت اچھی ہیں۔
ارے شریفاں خالہ آپ کو بولا ہے کہ مجھے بیٹی بولا کریں۔!
اچھا آئندہ یاد رکھوں گی۔! عادت نہیں ہے۔
اور آپ سب کام چھوڑ کر ادھر کرسی پر بیٹھ جائیں ،آج کے بعد کھانا بنانے کی زمہ داری میری ہے۔۔۔
ارے نہیں بیٹی ۔! بڑی بیگم صاحبہ جب بھی آتی ہیں ، ہم سب کو کھینچ کر جاتیں ہیں، ویسے دل کی اچھی ہیں صرف ذرا سخت مزاج ہیں ۔۔آج بھی اگر انہوں نے مجھے بیٹھے دیکھ لیا تو میری خیر نہیں ہے۔۔
خالہ آپ پریشان نہ ہوں، میں انہیں بول دوں گی کہ میں نے منع کیا ہوا ہے بلکہ آپ کٹائی والا کام کر لیا کرنا۔۔ساری پکوائی میرے ذمے ہے۔!!
بیٹی آپکو نہیں پتا بڑی بیگم صاحبہ بڑے نرالے مزاج والی ہیں سال میں ایک بار تو لازمی آتیں ہیں اور اس گھر میں چڑیا کو پر نہیں مارنے دیتی ہیں۔۔شریفاں نے قریب آ کر زینہ کے کان میں سرگوشی کی۔۔۔
زینہ کا نقرئی قہقہہ بلند ہوا۔۔۔
آپ بےفکر ہو جائیں۔!!
یہ باورچی خانے میں صبح نو بجے کونسی کھسر پھسر ہو رہی ہے۔؟؟ پھپھو نے باورچی خانے میں داخل ہوتے ہی کاٹ دار لہجہ اپنایا۔۔۔
السلام علیکم پھپھو۔!!
کیسی ہیں آپ۔؟؟
رات ٹھیک سے نیند ہو گئی۔؟؟ زینہ نے فرمانبرداری اور احترام میں ایک ہی سانس میں سارے سوال پوچھ ڈالے۔
ہاں سب ٹھیک تھا۔!
تم ایسا کرو جلدی سے مجھے گاجر کا جوس بنا دو ۔!
جی بہتر۔!!
کیا بنایا ہے۔؟پھپھو نے پتیلی کا ڈھکن اٹھا کر معائنہ شروع کر دیا۔۔
تازہ پکی گوبھی کے اوپر گرم مصالحے کی مہک پھپھو کو متاثر کر گئی ، پھر حلوے کی طرف بڑھ گئیں۔۔
تازہ حلوے کی لبھاتی شکل دیکھ کر پھپھو دل سے متاثر ہوئیں مگر چہرے پر ناگواری کا خول چڑھائے زینہ کو ہراساں کرنے لگیں۔ زینہ جوکہ جوس کا حکم ملتے ہی گاجروں کو چھیلنا شروع ہو گئی تھی۔
پھپھو کے چہرے پر ناگواری دیکھ کر دل بیٹھنے لگا مگر دل ہی دل میں اذکار مسنونہ کا ورد شروع کر دیا۔۔۔
حلوے کے ساتھ پوریاں بنانی آتی ہیں۔؟؟ جی بنا لیتی ہوں۔!
ہممم۔ چلو کبھی کبھار تو ٹھیک ہے مگر یہ آئے روز نہ بنانا شروع کر دینا ، میں نہیں چاہتی میرے بھتیجے اور بھائی بیماریاں جمع کر لیں۔۔!
جی بہتر ۔!! زینہ کی ہمت جواب دینے لگی۔۔۔
ہر کام ، ہر بات میں نقص پھپھو کی فطرت میں شامل تھا۔۔
زینہ نے گاجروں کو چھیل کر دھونا شروع کر دیا اور شریفاں سے جوسر کے استعمال کا طریقہ پوچھنے لگی۔۔۔
تمہیں جوسر استعمال کرنا نہیں آتا ہے۔؟؟ پھپھو نے باورچی خانے میں پڑی کرسی پر بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
نہیں مجھے نہیں آتا ہے۔
کیوں تم لوگوں کے گھر نہیں تھا جوسر۔؟؟
نہیں۔! ہمارے گھر نہیں تھا۔! زینہ نے آنکھوں میں امڈ آنے والے آنسو پیئے۔۔۔
******************************
ناشتے سے فراغت کے بعد زینہ برتن سمیٹنے میں جت گئی جبکہ روحیل کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اسے تنہائی میں بلا کر چند باتیں کر لے۔۔
ڈیڈ مجھے اور عاصم کو اکھٹے دوبئی جانا پڑے گا۔!!
یہ کیا بات ہوئی ۔؟؟ رات بیٹھے بٹھائے کیا سوجھی ہے ۔؟؟
ڈیڈ ترکی والے قالین کے سپلائرز قالین میں کچھ گڑ بڑ کر رہے ہیں لہذا ہمیں خود جانا پڑے گا تاکہ تمام صورتحال کو قابو میں کیا جا سکے۔۔۔ تیار شدہ مکانات میں غیر معیاری قالین کی شکایتیں موصول ہو رہی ہیں ۔۔آپ تو جانتے ہیں جب لوگ کروڑوں میں جائیداد بناتے ہیں تو پھر معیاری اشیاء کا حصول بھی چاہتے ہیں۔۔۔
دبئی سے شاید مجھے ترکی بھی جانا پڑ جائے۔۔۔
میز پر سے پلیٹیں اٹھاتی زینہ کے ہاتھوں میں لرزش کو دیکھ کر روحیل کا دل کچھ دیر کے لئے ڈوبا۔۔۔
محبت بھی نہیں کرتی اور میرے گھر سے چلے جانے پر گھبرا بھی رہی ہے۔۔
عجیب لڑکی ہے۔۔۔
زینہ نے تمام پلیٹیں ٹرے میں رکھیں اور خاموشی سے باورچی خانے میں چلی گئی۔۔
عاصم کے اکیلے چلے جانے سے کام نہیں چلے گا کیا ۔؟ ارشاد صاحب نے بےچینی سے پوچھا۔۔
ڈیڈ عاصم دبئی میں ٹھہر کر حالات کو سازگار بنائے گا اور میں قالین سازوں کی طبیعت صاف کروں گا ، ہم انکے پرانے خریدار ہیں تو وہ کیسے ہمارے ساتھ اتنا بڑا دھوکہ کر سکتے ہیں۔ سننے میں آ رہا کہ انکا بھجوایا گیا قالین بہت پتلا اور غیر معیاری ہے۔۔۔
وہ سب تو ٹھیک ہے مگر زینہ پیچھے اکیلے رہ جائے گی۔۔
ڈیڈ کی بات پر پھپھو نے منہ مروڑا۔۔ بھائی جان زینہ کوئی باہر جھگی میں تو نہیں بیٹھی ہوئی ہے۔؟؟؟ اس عالیشان گھر میں ہر سہولت موجود ہے، اسکے ایک اشارے پر نوکر چاکر ہر چیز اسکے قدموں میں ڈھیر کر دیں گے۔۔۔
مردوں کا کام ہے باہر کے کام نپٹانا، اب روحیل زینہ کے گھٹنے کے ساتھ لگ کر بیٹھنے سے تو رہا۔۔
روحیل کاروباری خاندان سے ہے تو دوسرے ممالک تو سفر کرنا پڑے گا۔۔۔
شمیم یہ بات نہیں ہے اصل میں زینہ کو یہاں آئے ہوئے ابھی چند دن گزرے ہیں تو شوہر ایک دم ملک چھوڑ کر چلا جائے گا تو محسوس کرے گی، اسکی ماں بھی محتاج بیمار ہے ، پھر فزیو کا گھر میں آنا ہے ، یہ دونوں خود موجود ہیں تو تمام حالات کو احسن طریقے سے سنبھال رہے تھے ۔۔ڈیڈ نے حکمت سے سب واضح کیا۔۔۔
ڈیڈ آپ اور پھپھو گھر پر ہی ہیں اور میں صرف دو ہفتوں کے لئے تو جا رہا ہوں۔
ویسے بھی مجھے واپس آ کر زینہ کی یونیورسٹی کا کچھ کرنا ہے۔ میں نے بات تو کی ہوئی ہے ، میرپور سے اسلام آباد ٹرانسفر میں شاید کچھ وقت لگے گا، اسی اثناء میں یہ گھر پر پڑھائی جاری رکھے گی۔۔۔
تو پھر تم ایسا کرو زینہ کو اپنے ساتھ ہی دبئی لے جاؤ۔!
ڈیڈ نا زینہ کے پاس پاسپورٹ ہے اور نا ہی ویزہ ہے۔! میں اسے اتنی مختصر مدت میں ساتھ نہیں لے جا سکتا ہوں۔
یہ تمام کام وقت لیں گے جو کہ ہمارے پاس بالکل بھی نہیں ہے۔ اس سے پہلے کہ ہماری کمپنی کی ساکھ خراب ہو، ہمیں یہ تمام کام نپٹانے ہیں۔۔۔
منیجر نے ہم دونوں کی کل رات کی سیٹیں بک کروا دیں ہیں۔۔
چلو ٹھیک ہے پھر جیسے تم دونوں کو بہتر لگے۔۔ مگر روحیل اگر کام سے جلدی فارغ ہو گئے تو جلدی لوٹ آنا بیٹا ۔۔ !
ڈیڈ عاصم کو بھی تو پاکستان میں رکنے کی ضرورت ہے۔۔بیچارا دو سال سے وہاں پر رل رہا ہے۔۔
خاموش بیٹھے عاصم نے گلا کھنکارا۔
بھیا جی میرے خیال میں ابھی آپ کے اوپر دہری ذمہ داریاں ہیں لہٰذا مجھے دبئی چند ماہ رہنے دیں جب تک زینہ امتحانات سے فارغ نہ ہو جائے پھر آپ اسے اپنے ساتھ لے جایئے گا اور جتنا عرصہ جی چاہے وہاں رک لیجئے گا اور میں پاکستان ڈیڈ کے پاس ٹھہر جاؤں گا۔۔۔اب ڈیڈ دبئی رہنا پسند نہیں کرتے تو پھر ہم میں سے کسی ایک کو تو انکے پاس رکنا پڑے گا۔۔
چلو ٹھیک ہے عاصم ۔!! فی الحال تو جانا مجبوری ہے ۔تم سے ترکوں نے قابو نہیں آنا ہے۔۔!
جی بہتر۔!
عاصم نے روحیل کی ہاں میں ہاں ملائی۔۔۔
تم دونوں یہاں سے جا رہے ہو اور میں یہاں پر مکھیاں مارنے آئی ہوں۔؟؟؟
پھپھو آپ بھی ہمارے ساتھ چلی چلیں۔! گھر کا پکا کھانا تو ملتا رہے گا۔! روحیل نے مسکا لگایا۔۔
بھتیجوں کے کھانے کے لیے میں دوسرے ملک رلتی رہوں اور یہاں پر جو نئی بہو صاحبہ آئی ہیں انکو رہن سہن کون سکھائے گا۔؟؟
پھپھو زینہ سمجھدار لڑکی ہے وہ سب سنبھال لے گی ، آپ ویسے ہی اسکی فکر میں ہلکان ہو رہی ہیں۔ عاصم فورا بول پڑا۔۔
ہاں ہاں تم جو اسکے چمچے ہو۔!
بہن ہے میری اور مجھے بہت عزیز بھی ہے ۔! عاصم اترایا۔۔
ہاں ہاں ہم تو سارے اسکے جانی دشمن ہیں اس پر تلواروں اور نیزوں کی برسات کرتے ہیں۔!!
پھپھو جانی آپ ہر بات کو فوراً دل پرلے جاتیں ہیں ، پتا نہیں جیمی بیچارے کا کیا بنتا ہو گا۔؟ عاصم نے افسردہ شکل بنائی۔۔۔اسکی شکل دیکھ کر سب کا مشترکہ قہقہہ بلند ہوا۔۔۔
روحیل نے سب کو خوش گپیوں میں مصروف دیکھا تو موقع غنیمت پاتے ہی باورچی خانے کی طرف چل دیا جہاں پر زینہ نل کھولے برتنوں کو دھونے میں محو تھی۔۔
زینہ۔!! روحیل نے عقب سے آواز دی تو زینہ اچھل کر رہ گئی۔مجھے سمجھ نہیں آتی تم چھوٹی چھوٹی باتوں پر ڈر کیوں جاتی ہو۔؟
وہ دراصل میں اپنے دھیان میں تھی تو اچانک آپ کی آواز سے چونک گئی۔۔ زینہ نے ہاتھ میں پکڑی پلیٹ کو کھنگال کر رکھا۔۔
یہ سب بند کرو اور میرے ساتھ اوپر آؤ ۔! تم سے کچھ ضروری باتیں کرنی ہیں۔
اچھا مجھے برتن دھو لینے دیں ورنہ پھپھو کو اچھا نہیں لگے گا ۔۔
زینہ نے ملتجی دھیما لہجہ اپناتے ہوئے گزارش کی ۔
روحیل نے آگے بڑھ کر نل بند کیا اور غصے سے گھورا۔۔
تمہیں میں نے کل رات کیا بولا تھا۔؟؟ بھول گئی ہو۔؟؟
ننننہیں بھولی نہیں ہوں مگر پھپھو نے شریفاں خالہ کو سبزی منڈی بھجوایا ہے اور مجھے برتنوں کی دھلائی ختم کرنی ہے پلیز۔۔ پھپھو نے بولا ہے باورچی خانے میں ایک بھی ان دھلا برتن دکھائی نہ دے لہذا آپ ادھر ہی بات کر لیں، دیکھیں میں جلدی سے سارے برتن دھو لوں گی۔! زینہ نے دوبارہ سے پلیٹ ہاتھ میں تھام لی۔۔
تمہیں سیدھی بات سمجھ نہیں آتی ہے۔ روحیل نے جواب سنے بغیر زینہ کے ہاتھ سے پلیٹ لے کر سینک میں رکھی اور فوراً زینہ کو اپنی باہوں میں بھر لیا۔۔
ہائے اللہ۔!!! یہ کیا کر رہے ہیں۔؟؟ کسی نے دیکھ لینا ہے۔ پلیز مجھے نیچے اتار دیں۔!! زینہ مچلنے لگی۔۔۔
پھپھو نے دیکھ لیا تو میری گیچی مروڑ دیں گی۔کوئی ملازم بھی تو دیکھ سکتا ہے ۔ وہ سب کیا سوچیں گے۔؟؟؟ زینہ گھٹی گھٹی آواز میں بھرپور احتجاج جاری رکھے ہوئے تھی جبکہ روحیل اپنی دھن میں مگن زینے چڑھنے لگا۔۔۔ آپ ایسے شدت پسند کیوں ہیں ۔؟؟ روحیل نے بنا جواب دیئے ادھ کھلے دروازے کو پاؤں سے دھکیلا اور زینہ کو کمرے کی دہلیز پار کرتے ہی نیچے اتار کر عقب میں دروازے کو کنڈی چڑھا دی۔۔۔
فوراً جیب سے فون نکال کر پھرتی سے پیغام رسانی کرنے لگا۔۔۔
زینہ روحیل کی عجیب و غریب کاروائی پر حیران و پریشان تھی۔۔۔نجانے اب کیا ہو گا۔؟؟
روحیل نے ہاتھ میں تھاما فون پتلون کی جیب میں ڈالا اور زینہ کو دیوار کے ایک کونے میں پڑے گداز صوفے پر بیٹھنے کا حکم نامہ جاری کر دیا۔۔ زینہ بنا چوں چراں کے خاموشی سے صوفے پر ٹک گئی اور پھٹی پھٹی آنکھوں سے روحیل کی پرسرار چپ پر گھبرانے لگی۔۔۔
روحیل نے کرسی کھینچ کر زینہ کے سامنے لا کر رکھی اور زینہ کے سامنے بیٹھ گیا۔۔
زینہ نے فوراً پلکوں کی باڑ اٹھا کر روحیل کو دیکھا جو اسے گھور رہا تھا۔۔
وووووہ میں آپ سے معافی چاہتی ہوں۔! آپ کو برا لگا ہے تو مجھے معاف کر دیں۔۔ دراصل میں پھپھو کو شکایت کا کوئی موقع نہیں دینا چاہتی ہوں۔۔
ہمممم ۔ اور مجھے بیشک شکایت کا موقع ملتا رہے۔؟؟ روحیل نے آنکھیں گھمائیں۔۔
میں کوشش کرتی ہوں کہ آپ کو بھی موقع نہ ملے مگر میرے سے غلطیاں سرزد ہو جاتیں ہیں بس ۔! زینہ نے ہتھیلیوں کو مسلتے ہوئے روحیل کی طرف چور نظروں سے دیکھا۔
روحیل نے زینہ کے ہاتھ تھام لیے اور بولا۔۔
تمہیں پتا ہے میں نے تمہیں یہاں پر کیوں بلایا ہے۔؟؟
ننننہیں۔؟!
زینہ۔!!
جی۔؟؟
تمہیں پتا ہے مجھے تم سے کس قدر محبت ہے۔؟؟
جی صحیح طرح سے پتا تو نہیں ہے مگر ابھی کچھ کچھ اندازہ ہو رہا ہے۔۔!!
اس اندازے سے کیا نتیجہ نکالا ہے ۔؟؟
جی ۔؟ زینہ کی ہمت جواب دینے لگی۔۔ میں سمجھی نہیں ہوں۔
یہی نا کہ میں تمہیں دل و جان سے قبول کر چکا ہوں اور تمہیں اپنے اس گھر میں وقت گزاری کے لیے نہیں لایا ہوں بلکہ تمہارے تاعمر ساتھ کا متمنی ہوں۔۔!
جی۔۔!! زینہ نے دھیمے لہجے میں بولا۔۔
روحیل نے لمبی سانس کھینچی۔
زینہ تمہیں پتا ہے کہ میرا اس وقت ملک سے باہر جانا بہت ضروری ہے۔! میں تمہیں ایسے تنہا چھوڑ کر نہیں جانا چاہتا ہوں مگر میری مجبوری ہے۔۔!
جی۔!
مجھے پتا ہے کہ تمہیں میرے جانے پر افسوس تو نہیں مگر گھبراہٹ ضرور ہو رہی ہے ۔؟؟
کیا میرا یہ اندازہ درست ہے۔؟؟
جججی ۔! ویر بھی تو جا رہا ہے ، مجھے بہت اکیلا پن محسوس ہو گا ۔!
شاید مجھے اتنے بڑے گھر میں ڈر لگے گا۔! زینہ نے جھرجھری لی۔
تم بہت پاگل لڑکی ہو ۔! تمہیں پتا ہے۔؟؟؟
نہیں ۔! میں پاگل تو نہیں ہوں۔!
اچھا تو ڈرپوک ضرور ہو پھر ؟؟ روحیل نے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔۔
جی شاید۔ زینہ نے بول کر گردن جھکا لی۔۔
زینہ اس سے پہلے تم ماسی امی کے لئے پریشان ہو ، میں نے کمرے میں داخل ہوتے ہی عاصم کو بتا دیا ہے کہ تم میرے ساتھ ہو ۔!
ہائے اللہ۔!! زینہ نے اپنے دونوں ہاتھ چھڑا کر چہرہ چھپا لیا۔
ویر کیا سوچتا ہوگا ۔؟؟ مجھے بہت شرم آرہی ہے۔!
روحیل کا قہقہہ بلند ہوا۔تم بہت بیوقوف ، پاگل اور شرمیلی لڑکی ہو۔!
اسکا جو جی چاہے سوچے تم اپنے محرم اپنے شوہر سے ہمکلام ہو ۔
پھر بھی پھپھو نے غصہ کرنا ہے ، میں برتنوں کی دھلائی ادھوری چھوڑ کر یہاں چلی آئی ہوں۔
تمہیں باقیوں کی فکریں ہر وقت ستاتی ہیں مگر جس کی فکر سر فہرست ہونی چاہئے ، اسے تم نظر انداز کرتی ہو۔! روحیل کی لو دیتی نظریں زینہ کو جز بز کرنے لگیں۔۔
آپ مجھے عجیب نظروں سے دیکھتے ہیں مجھے شرم آتی ہے۔ زینہ نے لال انگارا ہوتا چہرہ چھپا لیا۔۔
روحیل کا جی چاہا اپنا سر دیوار پر دے مارے۔۔
زینہ تم یہ اپنی آنکھ مچولی کھیلنا بند کرو اور میری باتوں کو بغور سنو۔۔
پہلے آپ وعدہ کریں کہ میری طرف ایسے نہیں دیکھیں گے۔
میں کیسے دیکھتا ہوں؟؟
جیسے ابھی کچھ دیر قبل دیکھ رہے تھے۔ زینہ نے ہتھیلیوں سے ڈھکے چہرے کے اندر سے بولا۔۔
زینہ چہرے سے ہاتھ ہٹاؤ ورنہ پھر سزا مل جائے گی۔!
آپ ہر وقت مجھے دھمکیاں بھی دیتے رہتے ہیں، زینہ نے چہرے سے ہاتھ ہٹا کر منہ بسورا۔۔
بے ساختہ روحیل کی ہنسی چھوٹ گئی۔۔
تم میری زندگی کا سب سے مشکل ترین ہدف ہو زینہ۔! میں نے کسی چیز ، کسی شخصیت کے حصول کے لیے اتنی تگ و دو نہیں کی ، جتنا تم مجھے تڑپا رہی ہو۔
دیکھا آپ پھر معنی خیز باتیں کرنے لگے ہیں۔!
کیا میں دیواروں سے ایسی باتیں کیا کروں ؟؟ ظاہر سی بات ہے اپنی حلال بیوی سے ہی کروں گا۔!
آپ بات بتائیں مجھے کیوں اٹھا کر لائے تھے۔؟ زینہ نے دھیمے لہجے میں احتجاجاً پوچھا۔۔
اگر کہوں کہ کوئی خاص بات نہیں تھی تو پھر کیا بولو گی ؟؟
پھر میں واپس جا کر برتنوں کی دھلائی مکمل کروں گی۔! زینہ نے اٹھتے ہوئے بولا۔
خبردار ۔!
جہاں پر بیٹھی ہو ، وہاں پر بیٹھی رہو۔!
آپ سمجھتے کیوں نہیں ہیں۔؟؟ پھپھو چاہتی ہیں کہ میں سارے گھر کا نظام فوراً سنبھال لوں۔
مگر میں یہ نہیں چاہتا ہوں۔!
میں چاہتا ہوں تم صرف مجھے سنبھالو۔!
آپ کیسی عجیب گفتگو کرتے ہیں .؟؟ آپ بچے تھوڑی ہیں جو میں آپکو سنبھالتی پھروں۔ زینہ نے نشیلی آنکھوں کو گول گول گھمایا۔۔۔
زینہ۔! بس بیٹھ جاؤ پلیز اور اپنے اس بھوسی بھرے دماغ پر زیادہ زور نہ ڈالو۔۔
روحیل نے زچ ہو کر گردن جھٹکی۔۔
زینہ نے خوف زدہ ہو کر حکم کی تعمیل فوراً کی۔۔
روحیل نے بستر سے ملحق دراز میں سے نیا فون نکال کر زینہ کے ہاتھ میں تھمایا۔۔
ابھی اپنا پرانا فون استعمال نہیں کرنا، اسکے اندر نئی سم موجود ہے جس میں عاصم ، ڈیڈ ، زید ،پھپھو اور میرا نمبر محفوظ ہے ۔ آج سے تم یہ فون استعمال کرو گی۔!
مجھے ہر روز پیغام صوتی بھیجو گی.!! کبھی کبھار تحریری پیغام رسانی کرنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے مگر مجھے ہر روز تمہاری آواز سننی ہے۔ !
سمجھ آئی ہے۔؟؟
جی سمجھ آ گئی ہے مگر مجھے نئے فون کی ضرورت نہیں ہے۔۔ !
زینہ جو بولا ہے اس پر عمل کرو ۔! میں اس فون سے ویڈیو کال پر بات کیا کروں گا صبح اور شام روزانہ بلکہ جب میرا جب جی چاہے گا ، میں تمہیں فون کروں گا ان شاءاللہ۔۔
میں نے کوئی بہانا نہیں سننا کہ فلاں پاس اور فلاں دور ہے۔! یہ فون ہر وقت تمہارے پاس موجود ہونا چاہئے اور تمہاری طرف سے جوابی تاخیر بھی برداشت نہیں کروں گا۔!!
اور کبھی میں غسل خانے میں ہوئی تو ۔؟؟ تو غسل خانے میں جانے سے قبل مجھے پیغام بھیج کر جاؤ گی۔!!
ہائے اللہ۔!! زینہ نے حیرت سے منہ کھول کر آنکھیں پھیلائیں۔۔ آپ وہاں پر کام کرنے کے لیے جا رہے ہیں یا میرے ساتھ پیغام رسانی کے لیے جا رہے ہیں۔۔ ؟؟
جو بھی سمجھو۔!!
ابھی میری بات ختم نہیں ہوئی ہے۔
جی کب ختم کریں گے۔؟ زینہ نے دبے لفظوں میں بولا جسے روحیل نے سن لیا۔ دوبارہ تگڑی گھوری سے نوازا۔۔
زینہ سمٹ کر رہ گئی۔۔۔
دیکھو زینہ زندگی اور موت کا کچھ بھروسہ نہیں ہے پتا نہیں مجھے دوبارہ موقع میسر ہو یا نہ ہو ، میں اپنے دل کی تمام باتیں تمہیں بتا کر جانا چاہتا ہوں تاکہ کسی قسم کی غلط فہمی یا تشنگی باقی نہ رہے۔!
کمرے میں فوراً سوگواری چھا گئی۔
آپ ایسی باتیں کیوں کر رہے ہیں۔؟؟ زینہ کی آنکھیں نمکین پانی سے جھلملانے لگیں، اسے خود سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کس جذبے کے تحت وہ روحیل کی اس بات پر غمزدہ ہو گئی ہے۔! شاید جذبہ ہمدردی سر اٹھانے لگا ہے ۔زینہ نے سوچا۔۔
تم پریشان ہو رہی ہو ۔؟
جی ۔!
کیوں۔؟؟ تمہیں میرے ساتھ محبت ہو گئی ہے کیا ۔؟؟
زینہ نے نفی میں گردن جھٹکی۔۔
تمہیں پتا ہے سفر میں دعائیں قبول ہوتیں ہیں اور میں شدت سے دعا کروں گا کہ تمہیں مجھ سے ٹوٹ کر محبت ہو جائے۔
اور اگر کبھی مجھے آپ سے محبت نہ ہوئی تو ۔؟؟ تو کیا آپ مجھے چھوڑ دیں گے۔؟؟ خدشات نے سر اٹھایا۔۔
روحیل کے سانس کی ڈوری ٹوٹ جائے گی مگر زینہ کو نہیں چھوڑے گا۔!
مجھے سمجھ نہیں آتی ہے ، آپ کی باتوں میں اتنی شدت کیوں ہے ۔؟؟
کیوں کہ زینہ حیات تم نے کبھی محبت کی جو نہیں ہے۔ ! جب کوئی آپ کی روح میں تحلیل ہو جائے تو وہ آپ کی سانسوں میں آکسیجن کا طرح دوڑتا ہے۔ بس تمہارا میرے آس پاس رہنا آکسیجن کی فراہمی ہے ۔!!
زینہ کا نقرئی قہقہہ بلند ہوا۔۔
آپ بہت عجیب باتیں کرتے ہیں۔!
میں اس سے بھی عجیب باتیں کر سکتا ہوں تم موقع تو دو۔!
دیکھا ہے نا آپ فوراً پٹڑی سے اتر جاتے ہیں ۔ زینہ نے افسوس سے گردن جھٹکی۔۔
لڑکیاں مرتی ہیں اس قسم کی گفتگو سننے کے لئے ، پتا نہیں تم کس مٹی سے بنی ہوئی ہو ۔؟!
وقت بتائے گا میں کس مٹی سے بنی ہوں ۔زینہ نے روحیل کو چڑایا۔۔۔
خیر وہ وقت دور نہیں ہے ان شاءاللہ۔ روحیل نے پرامید لہجے میں بولا۔۔
آپ جلدی سے ضروری بات بتائیں اس سے پہلے کہ مجھے پھپھو سے ڈانٹ پڑ جائے۔
آج میری خاطر ڈانٹ کھا لو نجانے پھر یہ دن نصیب ہو گا بھی یا نہیں۔۔
آپ بار بار ایسی باتیں کیوں کر رہے ہیں۔؟؟
زینہ میں نے اچانک موت کو بہت قریب سے دیکھا ہے ۔ یہ باتیں آج تک میں کسی سے نہیں کر پایا ہوں ،تم میری بیوی ہو لہٰذا مجھے اپنے سینے کا بوجھ اتارنے دو پلیز۔۔
میں نے منیب اور اپنے دو قریبی دوستوں کو موت کے شدید نرغے میں دیکھا ہے ، میں نے انکو سکرات الموت میں تڑپتے دیکھا ہے ، میں انکے ساتھ ویڈیو کال پر تھا جب زلزلہ اللہ کا عذاب نازل ہوا تھا۔
میرے وہ دوست نجانے برزخی زندگی میں کس حال میں ہوں گے۔۔؟ زینہ منیب کے بہت غلط ناجائز قسم کے ذرائع ابلاغ کے ساتھ رابطے تھے جو ابھی تک اسکے نام پر فحش مواد اسکے اکاؤنٹ سے منسلک لوگوں کو ای میل کرتے ہیں، وہ فحش مواد والی ویب سائٹس کے ساتھ رجسٹرڈ تھا ، میں نے بہت کوشش کی ہے کہ اسکا اکاؤنٹ بند کروا سکوں مگر میں نہیں کر پایا ہوں۔ میں ابھی تک کوشاں ہوں مگر وہ کانٹریکٹ پر کام کرتے ہیں۔ میں نے بارہا کوشش کی ہے مگر ناکام رہا ہوں۔۔ زینہ میں نے انکے بھیانک چہرے دیکھے ہیں جن پر اللہ کا قہر برس رہا تھا۔۔ میں غیب نہیں جانتا ہوں مگر انکی ظاہری حالت بہت خوفناک تھی۔۔ جیسے عمل الصالح صدقہ جاریہ بنتے ہیں ویسے انکے سرکردہ گناہ جاریہ بن رہے ہیں۔۔ میں نے جان توڑ کوشش کی ہے کسی طریقے سے میں منیب کے روابط والی ویب سائٹس سے منیب کا اکاؤنٹ منجمد کر سکوں مگر نہیں کر پایا ہوں ۔۔زینہ میں نے اس قیامت خیز واقعہ سے عبرت پکڑی ہے ۔۔میں بھی اسی غلاظت کا حصہ تھا، میں نے بھی منیب کی شہ پر آنکھوں کا زنا شروع کر دیا تھا ، حالانکہ میرے لیے نکاح کی سہولت موجود تھی۔۔مگر بری صحبت انسان کو لے ڈوبتی ہے۔۔ میں آج اپنا دل کھول رہا ہوں، مجھے مایوس نہ کرنا زینہ۔!!!
میں اللہ کا بار بار شکر گزار ہوں کہ اس نے مجھے توبہ کا موقع فراہم کیا ہے۔۔مجھے آج صرف تمہیں یقین دہانی کروانے کے لیے منیب اور باقی دوستوں کی موت کے بارے میں بتانا پڑ رہا ہے وگرنہ میں کبھی بھی کسی کو نہ بتاتا۔۔ صرف عاصم کو تمہارے بارے میں بتایا تھا مگر باقی تفصیلات چھپا گیا تھا کہ مرنے والوں کے بارے میں بات نہیں کرنی چاہئے ، مرنے والوں کی پردہ پوشی کرنی چاہئے اور عبرت پکڑنی چاہیئے مگر تمہارے ساتھ بات کرنا میری مجبوری سمجھو یاپھر اشد ضرورت سمجھو ۔۔ زینہ مجھے تمہارا ساتھ چاہئیے، میں چاہتا ہوں تم میری وہ تمام سیاہ کاریاں میرے دماغ سے کھرچ ڈالو جو مجھے آئے دن بےچین رکھتی ہیں۔
مجھے صرف تم جیسی صالحہ عورت کا ساتھ درکار ہے زینہ۔۔!!! میں جب بھی تمہیں اللہ کے احکامات کی پاسداری کرتے دیکھتا ہوں تو میرے دل میں اطمینان اترتا ہے۔ زینہ مجھے بری صحبت لے ڈوبی ہے ، میرا بھی قصور ہے میں کیوں ان لوگوں کی باتوں سے متاثر ہوا اور اپنی جنسی تسکین پوری کرنے لگا۔؟ زینہ بت بنی بیٹھی تھی ، اس کے لیے روحیل کی باتوں کو ہضم کرنا نہایت کٹھن مرحلہ تھا۔
’’اور اپنے آپ کو انہی کے ساتھ رکھا کر جو اپنے پروردگار کو صبح شام پکارتے ہیں اور اسی کے چہرے کے ارادے رکھتے (رضامندی چاہتے)ہیں،خبردار! تیری نگاہیں ان سے نہ ہٹنے پائیں۔‘‘ (سورة الکھف: 28)
یعنی ان لوگوں کے ساتھ بیٹھ جو صبح وشام اللہ کو یاد کرتے ہیں ،تسبیح وتحمید بیان کرتے ہیں ،تہلیل وتکبیرکرتے ہیں،اورصرف ایک اللہ سے مانگتے ہیں خواہ غریب ہیں یا امیر ،کمزور ہیں یا قوی۔
نیکو کاروں کی صحبت اختیار کرنے میں بے شمار فوائد ہیں۔ان کے پاس بیٹھنے سے علمی اور اخلاقی فوائد ملتے ہیں۔اور یہ نیک لوگوں کی دوستی کل قیامت کو بھی قائم رہے گی جبکہ باقی سب دوستیاں ختم ہوجائیں گی۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’اس دن گہرے دوست بھی ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے سوائے پرہیز گاروں کے۔‘‘(سورة زخرف:67)
دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’اور اس دن ظالم شخص اپنے ہاتھوں کو چبا چبا کر کہے گا ہائے کاش کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی راہ اختیار کی ہوتی۔ہائے افسوس کاش کہ میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا۔اس نے تو مجھے اس کے بعد گمراہ کر دیا کہ نصیحت میرے پاس آپہنچی تھی اور شیطان تو انسان کو (وقت پر) دغا دینے والا ہے۔‘‘(سورة الفرقان:28؛29)
ظالم شخص غم اور افسوس سے اپنی انگلیوں کو کاٹے گا کہ اس نے غلط اور شریر شخص کو اپنا دوست بنا لیا جس نے اسے ہدایت اورصراط مستقیم سے ہٹا کر ضلالت و گمراہی اور بد بختی کے رستے پر لگا دیالیکن اس وقت یہ افسوس کسی کام نہیں آئیگا کیونکہ ہاتھ سے نکلاہوا وقت واپس نہیں آتا ۔
اسی طرح جہنمی جہنم میں ندامت کا اظہار کریں گے کہ کاش ہم اپنے سرداروں اور بڑوں کی اطاعت نہ کرتے جنہوں نے ہمیں گمراہ کر دیااور صراط مستقیم سے ہٹا دیا، کاش کہ ہم اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کا دامن تھام لیتے اور آج اس ذلت آمیز عذاب سے بچ جاتے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اس دن ان کے چہرے آگ میں الٹ پلٹ کئے جائیں گے۔(حسرت وافسوس سے) کہیں گے کہ کاش ہم اللہ تعالیٰ اور رسول کی اطاعت کرتے۔اور کہیں گے اے ہمارے رب!ہم نے اپنے سرداروں اور اپنے بڑوں کی مانی جنہوں نے ہمیں راہ راست سے بھٹکا دیا۔‘‘(سورة الاحزاب :66)
اس سے معلوم ہوا کہ برے لوگوں کی صحبت نہ صرف علمی واخلاقی فوائد سے محروم کر دیتی ہے بلکہ انسان کو اسفل سافلین تک جا پہنچاتی ہے۔
زینہ میں تمہیں یہ سب ایک خاص مقصد کے لیے بتا رہا ہوں تاکہ تم مجھے آسانی سے سمجھ سکو ۔میں نہیں چاہتا ہوں کہ تم میری زندگی میں یا پھر میری موت کے بعد یہ باتیں سن کر بدگمان ہو جاؤ اور سمجھو میں نے تمہارے ساتھ دھوکا کیا ہے۔۔!!
زینہ میری محبت کا آغاز تمہارے اس ویڈیو اور تم سے یونیورسٹی ملاقات پر ہوا تھا ، میرے پاس تمہاری تمام ریکارڈنگز موجود ہیں جنہیں میں بلا ناغہ سنتا اور دیکھتا رہا ہوں اور تمہارا ایک ویڈیو تو میں اسی رات فیس بک پر اپلوڈ کرنے والا تھا جس دن منیب کی موت واقع ہوئی تھی۔
کونسا ویڈیو۔؟؟؟ زینہ کی آنکھیں خوف سے پھیل گئیں۔۔
روحیل نے جیب سے فون نکال کر چند ماہ قبل کا ریکارڈڈ ویڈیو چلا دیا۔۔
یہ آپ کے پاس کیسے آیا ہے ۔۔؟؟ زینہ کے چہرے کا رنگ اڑ گیا۔ ایسے لگ رہا تھا کہ اگلے ہی لمحے بیہوش کر گر پڑے گی ، کمرے کی چھت گھومتی ہوئی محسوس ہونے لگی۔ آنسو بلا روک ٹوک لڑیوں کی صورت میں نکلنے لگے۔۔۔
سسکتی بلکتی زینہ ویڈیو میں واضح طور پر نظر آ رہی تھی۔۔
زینہ کی حالت غیر ہونے لگی ۔ روحیل نے فوراً لپک کر اسے اپنی آغوش میں لے لیا۔۔
زینہ پلیز ہوش کرو۔! کچھ نہیں ہوا ہے ، میں تمہارے پاس ہوں ۔ روحیل نے فوراً کمرے میں پڑے جگ سے پانی انڈیل کر چہرے پر چھینٹے مارنے شروع کر دیئے، زینہ کو شانوں سے پکڑ کر جھنجھوڑا۔۔
یا ربی۔! یہ لڑکی کب سدھرے گی۔؟؟ اتنے کٹھن حالات سے گزر کر بھی کس قدر نازک دل رکھتی ہے۔۔
زینہ میری جان۔! ہوش میں آؤ۔!
روحیل نے تنگ آکر زینہ کے کندھوں کے درمیان ، شانے کے پیچھے سے ایک نس زور سے دبائی تو زینہ نے دھیرے سے آنکھیں کھول دیں۔۔
یا اللہ تیرا شکر ہے۔
پانی پیو زینہ۔! روحیل نے زینہ کو اپنے حصار میں لے کر پانی زینہ کے لبوں سے لگایا۔۔
تم کیوں اتنی کمزور دل ہو یار۔؟؟
ویڈیو دیکھ کر تمہیں اتنا بڑا جھٹکا لگا ہے اور اگر فیس بک پر چلا جاتا تو تم ادھر ہی فوت ہو جاتی۔۔!
میری آغوش میں آنے کا زیادہ شوق ہے اس لیے بار بار بیہوش ہو جاتی ہو۔؟؟؟
اب یاد رکھنا جس طریقے سے میں تمہیں ہوش میں لایا ہوں اس کا درد تمہیں چند دن محسوس ہوگا بلکہ ورم رہے گا ۔۔ اور پتا ہے یہ طریقہ بھی تمہارے ہسپتال میں بیہوش ہونے کی وجہ سے واپس اسلام آباد آکر سیکھا ہے تاکہ زوجہ محترمہ کو بروقت طبی امداد پہنچا سکوں۔۔۔
سنتے ساتھ ہی زینہ اچھل کر اٹھ بیٹھی۔۔
زینہ کے آنسوؤں کی لڑیاں روحیل کو پچھتاووں کی دلدل میں دوبارہ دھکیلنے لگیں۔۔۔
دائیں بائیں نفی میں سر جھٹکتی زینہ کرب و الم کی کیفیات سے دوچار تھی۔
روحیل ندامت اور شکستگی سے زینہ کا ہاتھ تھامنے لگا ۔۔۔
زینہ مجھے معاف کر دو پلیز ۔! مجھے نہیں تھا پتا کہ تمہیں یہ سب حقائق اذیت سے دوچار کریں گے، میں تو تمہیں اپنی ان مدفون خواہشات کے کھوکھلے پن سے آگاہ کرنا چاہتا تھا، میں نے اس جرم کی دنیا میں رہتے ہوئے سوائے ذلت و گمراہی کے اور کچھ حاصل نہیں کیا ہے ، زینہ اس موج مستی نے مجھے خالی ہاتھ کر دیا ہے، میں اپنی تمام دولت لٹا کر بھی وہ وقت واپس نہیں لا سکتا ہوں۔۔۔
میری اس بھٹکی روح کو تمہاری متقی پناہوں کی اشد ضرورت ہے۔! مجھے کبھی بھی خالی ہاتھ نہ لوٹانا..!
میری محبت کے اس پاکیزہ جذبے کو ریاکاری نہ سمجھنا۔۔
میرا ہاتھ تھام لو زینہ۔!!
محبت نہیں کر سکتی ہو ، لیکن ساتھ تو نبھاہ سکتی ہو یار۔!!
زینہ غم زدہ سوگوار آنکھوں سے روحیل کے چہرے پر ٹکٹکی باندھے بے حس وحرکت بیٹھی تھی۔۔۔
روحیل نے ہمت کر کے زینہ کا ہاتھ تھام لیا۔
بولو میرا ساتھ دو گی نا ۔؟؟ مجھے اس تاریک ماضی سے نکال کر صراطِ مستقیم پر چلنے میں ساتھ دو گی نا ۔؟؟؟
لمبی گفتگو کے بعد کمرے میں سکوت چھا گیا۔
زینہ کی نظریں روحیل کے چہرے کا طواف کرنے لگیں۔۔خوبرو روحیل کے چہرے پر بیقراری ، بےکلی اپنے عروج پر تھی۔۔۔
زینہ جواب دو ۔!!!
زینہ کی زبان گویا تالوں کے ساتھ چپک گئی، بالآخر خالی خالی نظروں سے اثبات میں گردن جھٹک کر رہ گئی۔
روحیل۔!!!!
نکاح کے بعد آج کتنے دنوں بعد زینہ کی زبان سے روحیل اپنا نام سن کر خوشی سے پھولا نہ سما رہا تھا۔۔
زینہ تم نے آج مجھے میرے نام سے پکارا ہے۔؟؟
آج مجھے میرے نام سے انسیت ہو گئی ہے۔!!
زینہ مجھے میرے نام سے دوبارہ پکارو پلیز۔!! تمہاری زبان سے ادا ہوتا میرا نام کس قدر بھلا لگتا ہے۔!! روحیل جو نجانے کتنے دنوں سے کانٹوں پر لوٹ رہا تھا ، آج زینہ کے پکارنے پر خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرنے لگا۔۔
روحیل ۔!!
جی روحیل کی جان۔!!
چند لمحوں میں روحیل کی بیقراری اطمینان میں بدل گئی۔۔
روحیل میرا ویڈیو اور کس کس نے دیکھا تھا۔؟؟
منیب نے اپنے فون سے ریکارڈ کیا تھا جو کہ غالباً اس وقت تم گھبراہٹ اور بے چینی میں بےخبر تھی۔۔
منیب کے علاوہ اور کس نے دیکھا تھا۔؟؟ زینہ تھکے ماندے لہجے میں پوچھنے لگی۔۔
ہمارے دو دوستوں نے۔!! روحیل نے شرمندگی سے حقیقت بتائی۔۔۔
روحیل آپ کو پتا ہے مجھے اس ویڈیو نے کس قدر اذیت پہنچائی ہے۔؟
نجانے منیب اور آپ کے ان دو دوستوں کے دل و دماغ میں کیا چل رہا ہوگا جب انہوں نے مجھے دیکھا ہو گا۔؟؟
روحیل مجھے اپنا چہرہ جلتا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔
نجانے ان تمام لڑکوں نے مجھے کتنی شہوت سے دیکھا ہوگا۔؟ نجانے انکے دل میں کس قسم کے غلیظ خیالات نے جنم لیا ہو گا۔؟ اور نجانے فیس بک پر کتنے مرد مجھے دیکھ کر اپنے دل کے مرض پر قابو نہ رکھ پاتے۔؟ نجانے میں کتنوں کے لیے باعث فتنہ بن جاتی اور نجانے میں اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا کتنا عرصہ کاٹتی۔؟
زینہ کچھ دیر کے لئے رکی اور سانس بحال کی ۔۔
ہمارا رب غفور الرحیم ہے وہ اپنے مومن موحدین بندوں کو تنہا نہیں چھوڑتا ، وہ اپنی رحمت سے انہیں ڈھانپ لیتا ہے۔۔!!
میں کہیں کی نا رہ جاتی روحیل۔!! زینہ دھیمے ٹوٹے سوگوار لہجے میں روحیل کو اپنا حال دل سنا رہی تھی۔۔
روحیل آپ نے تو مجھے سر راہ بد صورتی کا فتویٰ دے دیا تھا مگر وہ رب تو خوبصورت دلوں کو دیکھتا ہے اور ویسے بھی حسن تو دیکھنے والے کی آنکھ میں ہوتا ہے۔۔!!
آپ نے کبھی سنا ہے یا پڑھا ہے کہ پردہ صرف گوری چٹی لڑکیوں پر فرض ہے یا پردہ صرف دل کا ہوتا ہے۔؟؟؟
نہیں نا ۔؟؟
میں اپنے دل کے پردے کی ذمّہ دار ہو سکتی ہوں مگر راہگیر مرد کے دل کی کون گارنٹی اٹھا سکتا ہے ۔؟؟ وہ مرد جو ہر گلی کے نکڑ پر کھڑا ملے گا، کوئی ہے جو اسکے دل کی پاکیزگی کا ثبوت دے سکے ۔؟؟؟
روحیل.!
جی روحیل کی جان۔! روحیل مکمل محویت سے زینہ کے ایک ایک لفظ کو اپنی ترکیز کا مان دے رہا تھا۔۔روحیل زینہ کی زبان سے نکلے ایک ایک لفظ کو ازبر کر رہا تھا۔۔
روحیل کیا ہمارا دل صحابیات مطہرات رضوان اللہ علیہن اجمعین سے زیادہ پاکیزہ ہو سکتا ہے۔؟؟(معاذ اللہ)
آپ کو پتا ہے کائنات کی پاکیزہ ترین عورتوں نے پاکیزہ ترین مردوں سے پردہ کیا تھا۔ پھر ہم کیوں پردے سے اتنی نفرت کرنے لگے ہیں۔؟ ہم کیوں اپنے برملا ، کھلے دشمن “ابلیس” کے نقش قدم پر چلنے کی چاہ میں اپنے آپ کو عریاں کر کے جدت پسندی کی ڈگریاں لینے لگ گئے ہیں۔؟؟
قبر کا چند گز کا ٹکڑا سبھی کا ایک جیسا ہو گا، سبھی کو ایک جیسی مٹی میں جانا ہے، امیر غریب سبھی ایک سفید کفن میں جائیں گے ۔
روحیل مجھے عذاب قبر سے بہت خوف آتا ہے۔پیارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کی روشنی کو چھوڑ کر ہم کیوں تاریکیوں کو اپنا محور ومرتبہ بنانے لگ گئے ہیں۔؟؟
تڑپتی زینہ کے آنسوؤں کی لڑیاں دوبارہ بےمہار ہونے لگیں
” انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا گزر بنو نجار کے ایک کھجور کے باغ سے ہوا ، وہاں آپ نے ایک آواز سنی ، تو صحابہ سے سوال کیا : یہ کیا ہے ؟ صحابہ نے جواب دیا کہ یہ ایک شخص کی قبر ہے جسے عہد جاہلیت میں دفن کیا گیا ہے ، نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : اگر یہ خوف نہ ہوتا کہ تم لوگ مردے دفن کرنا ترک کردو گے تو میں اللہ تعالی سے دعا کرتا کہ تمہیں بھی وہ عذاب قبر سنا دے جو مجھے سنایا ہے” ۔
(صحیح ابن حبان:2883، مسند احمد3/201)
تشریح : عذاب قبر برحق اور اہل سنت و جماعت کے عقیدے کا ایک جزء ہے ، اس سلسلے میں وارد حدیثیں متواتر اور شک و شبہ سے بالاتر ہیں، بلکہ قرآن مجید کی بعض آیتوں سے بھی عذاب قبر کا ثبوت ہوتا ہے ، چنانچہ فرعون سے متعلق ارشاد باری تعالی ہے کہ :
“اور فرعونیوں پر برا عذاب الٹ پڑا ، آگ ہے جس کے سامنےیہ صبح و شام لائے جاتے ہیں اور جس دن قیامت قائم ہوگی حکم ہوگا کہ فرعونیوں کو سخت ترین عذاب میں ڈالو” ۔(سورہ المؤمن:45٫46)
یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم صحابہ کو عذاب قبر سے بکثرت متنبہ کیا کرتے تھے ،ایک بار آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسے ہی ایک موقعہ پر جو زیر بحث حدیث میں وارد ہے فرمایا : یہ امت اپنی قبروں میں آزمائی جائے گی ، اگر یہ خوف نہ ہوتا کہ تم لوگ اپنے مردے دفن کرنا چھوڑ دو گے تو میں اللہ تعالی سے دعا کرتا کہ جو عذاب قبر میں سنتا ہوں وہ تمہیں بھی سنا دے ، پھر اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا : عذاب قبر سے اللہ کی پناہ چاہو ، صحابہ نے کہا : ہم عذاب قبر سے اللہ تعالی کی پناہ چاہتے ہیں ، آپ نے فرمایا : عذاب قبر سے اللہ تعالی کی پناہ چاہو ، صحابہ نے کہا : ہم عذاب قبر سے اللہ تعالی کی پناہ چاہتے ہیں ، آپ نے پھر فرمایا : عذاب قبر سے اللہ تعالی کی پناہ چاہو ، صحابہ نے عرض کیا : ہم عذاب قبر سے اللہ تعالی کی پناہ چاہتے ہیں ، آپ نے فرمایا : ظاہری و پوشیدہ ہر فتنے سے اللہ تعالی کی پناہ چاہو ، صحابہ نے کہا : ہم ظاہر وپوشیدہ ہر فتنے سے اللہ تعالی کی پناہ چاہتے ہیں ، آپ نےفرمایا : دجال کے فتنے سے اللہ تعالی کی پناہ چاہو ، صحابہ نے کہا : ہم دجال کے فتنے سے اللہ تعالی کی پناہ چاہتے ہیں ۔
{ صحیح مسلم وغیرہ بروایت زید بن ثابت } ۔
اس حدیث سے عذاب قبر کی شناعت اور اس سے بچنے کی فکر کا اندازہ ہوتا ہے ،چنانچہ ہر قسم کے فتنے من جملہ دجال کے فتنے سے بچنے کیلئے تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک ایک بار پناہ مانگنے کے لئے فرمایا جبکہ عذاب قبر سے تین بار فرمایا ۔
اہل سنت و جماعت کے عقیدے کے مطابق عذاب قبر اسی دنیاوی قبر میں موجود جسم کو بھی ہوتا ہے صرف روح ہی کے ساتھ عذاب خاص نہیں ہے جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے ، کیونکہ روح قبر میں نہیں ہوگی بلکہ وہ علیین و سجین میں ہوتی ہے ، البتہ جسم خاکی کے ساتھ اس کا ایک گونہ تعلق جوڑ دیا جاتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے قبر کے عذاب کی آواز سنی ، نیز عذاب قبر کی جو شکلیں حدیثوں میں وارد ہیں ان سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ برزخ میں عذاب صرف روح کے ساتھ ہی خاص نہیں ہے بلکہ اس جسم خاکی کو بھی اس کا حصہ ملتا ہے ، جیسے” کافر و منافق مرد کے کندھے پر لوہے کے گرز اتنی زور سے مارا جاتا ہے کہ جب وہ چیختا ہے تو اس کے چیخنے کی آواز جن و انس کے علاوہ سبھی چیزیں سنتی ہیں “۔
{ صحیح بخاری : 1338 – صحیح مسلم : 2870، بروایت انس } ۔
“پھر زمین اس قدر تنگ ہوجاتی ہے کہ اس کی پسلیاں ایک دوسرے کے آر پار ہو جاتی ہیں” ۔
{ سنن الترمذی : 1071 ، بروایت ابو ہریرہ } ۔
“پھر آسمان سے ایک ندا دینے والا ندا دیتا ہے کہ اس نے جھوٹ بولا ہے ، اس کے لئے آگ کا بستر بچھا دو ، اسے آگ کا لباس پہنا دو ، اس کی طرف آگ کا دروازہ کھول دو جس سے جہنم کے آگ کی گرمی اور لو اس کی طرف آتی ہے اور قبر اس قدر تنگ کردی جاتی ہے کہ اس کی ہڈیاں ایک دوسرے میں داخل ہوجاتی ہیں ، پھر اس پر ایک اندھا اور بہرا فرشتہ مسلط کردیا جاتا ہے جس کے ہاتھ میں لوہے کا ایک گرز ہوتا ہے کہ اگر اس گرز کو کسی پہاڑ پر مارا جائے تو وہ ریزہ ریزہ ہوجائے ، اس ضرب سےمردہ اتنی زور کی چیخ مارتا ہے کہ جن و انس کے علاوہ مشرق ومغرب کی ساری چیزیں سنتی ہیں ، اس مار کے اثر سے وہ مٹی ہوجاتا ہے ، پھر اس کے جسم میں روح دوبارہ واپس کی جاتی ہے “۔( #ماخوذ)
{ سنن ابو داود : 4753 – سنن النسائی :4/78 – سنن ابن ماجہ : 1549 ، بروایت براء } ۔
#Zaynah_Hayyat
زینہ کی دل سوز گفتگو روحیل کے رقت آمیز دل پر کاری وار تھے۔۔ ایک مضبوط مرد روحیل اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکا تو ندامت کے آنسو لڑھکنے لگے۔۔
زینہ تمہیں پتا ہے میں امی کی وفات کے بعد سے لے کر کبھی بھی نہیں رویا تھا مگر جب سے اللہ کا خوف دل میں جاگزیں ہوا ہے ، میں ندامت کے مارے اپنے رب کے حضور بارہا رو چکا ہوں۔۔
اور پتا ہے اب اکثر تمہاری محبت رلاتی ہے۔! روحیل نے آنکھوں کو رگڑتے ہوئے ٹوٹے لہجے میں بولا۔۔
پتا ہے تمہارا یہ ویڈیو میں بلا ناغہ روزانہ بارہا دیکھتا تھا اور ہوں۔۔
ابھی بھی دیکھتے ہیں؟
ہاں۔!!
ابھی تو دیکھنے کے لئے میں آپ کے سامنے پائی جاتی ہوں تو پھر ویڈیو کی کیا ضرورت ہے۔؟
تم ابھی نہیں سمجھو گی زینہ۔!
روحیل۔! آپ کو ایک نامحرم کو روزانہ دیکھتے ہوئے اللہ کا خوف نہیں تھا آتا کیا۔؟؟
خوف کے لئے ہی تو دیکھتا تھا کہ ایک اس نازک سی لڑکی کو اپنی عزت ، اپنی غیرت کس قدر عزیز ہے ، اتنی مفلسی کے باوجود بھی یہ لڑکی ایمان کی دولت سے مالا مال ہے۔۔
ہم نے یہی سوچا تھا کہ یا تم یونیورسٹی چھوڑ دو گی یا پھر پردہ کبھی بھی نہیں کرو گی۔۔
مگر تم نے ہم سب دوستوں کے اندازوں کو مٹی میں ملا دیا۔۔
نا تم نے پڑھائی ترک کی اور نا تم اپنے پروردگار کے حکم کے سامنے لڑکھڑائی۔
مجھے جب تم نے یونیورسٹی کی ملاقات پر کھری کھری سنائیں تھی ، وہ بھی ایک ایک لفظ ازبر ہے اور میرے فون میں ریکارڈ ہے۔۔ زینہ کوئی دن ایسا نہیں گزرا تھا کہ جس دن میں نے تمہارے ان ریکاڈڈ ووئس نوٹس کو نا سنا ہو۔! یہ لو ابھی تم بھی سنو۔! روحیل کے موبائل میں محفوظ زینہ کی کھنکتی غصیلی آواز کمرے میں چند ماہ قبل کی اذیت تازہ کرنے لگی۔۔
“یہ آپ کے اندر پنپنے والے عشق کی سازش بھی تو ہو سکتی ہے۔ آپ کی عاشقانہ زبان کی پھسلن میں نجانے کتنے دل مچلتے پھرتے ہیں۔
خیال رکھیئے گا کہیں اس عاشقی کی پھسلن میں آپ کی اپنی ہڈیوں کا سرمہ نہ بن جائے۔!
سفید چمڑی والے سیاہ اور داغ دار سوچ کے حامل ہیرو کی کبھی بھی تمنا نہیں رہی ہے۔
اپنی اس اجڑی اور بوسیدہ گفتگو کو کسی اور دوشیزہ پر وار دیجئے۔! میں ایسی تکرار کی دلدادہ نہیں ہوں ۔! دل پھینک لوگ مجھے زہر سے بھی کڑوے لگتے ہیں۔!
میرا نام زینہ حیات ہے۔! غیر ذمہ دار اور مردہ دلوں سے میرا کوئی واسطہ نہیں ہے۔!
زینہ منہ کھولے روحیل کو حیرت سے دیکھنے لگی۔ آپ کتنے گھنے تھے۔ زینہ نے منہ بسورا۔۔ بھلا میری آواز کو ریکارڈ کر کے آپ کو کیا ملا۔؟ نامحرم کی گفتگو کو بار بار سننا کوئی ثواب کا کام تھا بھلا ۔؟
بس مجھے تم سے محبت ہوگئی تھی ناچاہتے ہوئے بھی میرے سے رہا نہ گیا۔ تم نہ ملتی تو کم از کم تمہاری چند باتیں ، چند یادیں میرے مردہ ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی تھیں۔۔
زینہ عورت کا زیور اسکی حیا ہے۔!! اور تم اس نعمت سے مالامال تھی جو مرد کی ہر میلی آنکھ پر نا جھکتی ہے اور نا بکتی ہے۔!!
بکاؤ مال تو میں تھا یا میری صحبت تھی جو شیطان کے نرغے میں اپنے آپ کو گروی رکھوا کر نفس کے پجاری بن چکے تھے۔!! ہمارے ہاتھ کیا آیا۔؟؟؟ وقتی لذت اور ہمیشہ کے پچھتاوے۔!!
زینہ صاف کردار کا سودا مہنگا ضرور ہے مگر گھاٹے کا نہیں ہے۔!
مجھے تمہارے مضبوط کردار نے تم سے محبت کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔۔
بیشک پاکیزہ عورتوں کے لئے پاکیزہ مرد ہوتے ہیں، اسی لیے میں نے سچی توبہ سے اپنی سیاہ کاریوں کو دھونا شروع کر دیا۔ سچی توبہ کرنے والا اللہ تعالیٰ کو بہت زیادہ پسند ہے زینہ۔!!