آئس برگ جب پگھلتے ہیں نا تو آس پاس کی زندگیوں کو ہمیشہ کیلئے نگل لیتے ہیں …..اس سے پہلے نہ جانے کتنی صدیوں تک یوں ہی موسم کی شدتوں سے بظاہر بے پروس اپنی جگہ کھڑے رہتے ہیں مگر حقیقت یہی ہوتی کہ اندر ہی اندر وہ گھل رہے ہوتے ہیں اور وقت آنے پہ سب ختم کرڈالتے ہیں
مہرماہ سیال جسے نیہا ساری زندگی آئس برگ کی مانند سمجھتی آئی تھی جس پہ بقول اسکے کچھ اثر نہیں ہوتا تھا آج وہ آئس برگ پگھل گیا تھا
اور سیلاب بس آیا ہی چاہتا تھا……!!!!!!
مہرماہ کیلئے یہ بالکل غیر متوقع صورتحال تھی اور میر ہالار جن نظروں سے اسے دیکھتا ہوا باہر نکلا تھا
مہرماہ جیتے جی مرگئی تھی
کتنی حقارت تھی اسکے دیکھنے میں…!!!!
آج سے پہلے اگر ان آنکھوں میں اس کیلئے محبت نہ تھی تو کم از کم حقارت بھی تو نہ ہوتی تھی
نیہا نے یہ کیا کیا تھا….!!!!
کیوں تقدیر کو ہاتھ میں لیا تھا…!!!!
کتنے پل وہ یوں ہی کھڑی رہی تھی
یہ کیا ہورہا تھا؟؟؟؟
ہمیشہ وہی کیوں؟؟؟؟
وہ مہرماہ تھی!!!!
ایک انسان…..!!!!
کیوں اسے بھیڑ بکریوں کی طرح ٹریٹ کیا جاتا تھا
وہ جیتی جاگتی سانس لیتی مخلوق تھی اسکے بھی تو کچھ خواب تھے
کچھ امان تھے
جو ہمیشہ اس نے ان لوگوں کیلئے قربان کئے تھے!!!!!!
آج تک انہوں نے جو کہا اس نے کیا تھا
انکی خوشنودی کیلئے
انکی رضا کیلئے
وہ جھلی یہ نہیں جانتی تھی
بھلا انسان بھی کبھی جی بھر کے خوش ہوئے ہیں ….!!!!!
اور
یہ جو اب نیہا نے کہا تھا اسکی برداشت ختم ہوگئی تھی
” کیا میں اتنی گئی گزری ہوں…..!!!!!”
مہرماہ نے ایک جھٹکے سے نیچے گرے تھال کو پیچھے کیا تھا
اور نیہا کے مقابل آن کھڑی ہوئی تھی جو انس کے ساتھ الجھی تھی
” تم نے ابھی کیا کہا ہے نیہا….”
مہرماہ اب بھی بے یقین تھی
” تم سن چکی ہو….اور نہیں سنا تو اب سن لو تمہارا اور میر ہالار کا نکاح ہے”
نیہا نے جوش سے کہا
” نیہا…..تم یہ نہیں کرسکتیں…..تمہیں کس نے حق دیا ہے میری توہین کا”
مہرماہ غصے سے بولی تھی
انس نے آگے بڑھ کے کچھ کہنا چاہا تھا وہ پہلے ہی نیہا کی باتوں پہ الجھ رہا تھا
اور اب مہرماہ کا یہ انداز…..!!!!!!
” انس…..آپ پلیز دور رہیں….جائیں یہاں سے …مجھے نیہا سے بات کرنی ہے….”
مہرماہ اسکی طرف بغیر دیکھے بولی تھی
” ماہ…”
انس نے کہا
” پلیز….انس فار گاڈ سیک…”
مہرماہ کی رگیں ابھر آئیں تھیں
انس اسکی کیفیت سمجھ رہا تھا یہ بات جتنی ان کے لئے حیران کن تھی اتنی ہی مہر ماہ کیلئے بھی
” بولو نیہا ….کیوں کیا تم نے ایسا؟؟؟؟” مہرماہ کی اونچی آواز آج پہلی بار اس گھر کی دیواروں نے سنیں تھیں
” مہر ماہ ….کرنے دو مجھے جو کچھ کررہیں ہوں میں یہی ایک راستہ ہے تم دونوں کو ملانے ….میں نے اس دن کا انتظار بڑی شدت سے کیا ہے….تمہیں تمہاری سترہ برس کی محبت ملنے جارہی ہے….!!!”
نیہا نے اسکے ہاتھ پکڑے
” سترہ برس کی محبت…..”
اندر آتا ہالار پل بھر کو ٹھرا تھا
” ہنہ محبت…. نیہا…تمہیں کس نے حق دیا ہے یہ ….بولو تم کیا سمجھتی ہو تم جو کہو گی میں وہی کروں گی….نہیں نیہا ایسا نہیں ہوسکتا…”
مہرماہ نے قطعیت سے انکار کیا
محبت اپنی جگہ!!!!
مگر
عزت نفس سے زیادہ نہیں….!!!!
کچھ بھی نہیں …کبھی بھی نہیں
بھیک ملے سکے تو قبول ہوسکتے ہیں….مگر محبت نہیں
” نہیں مہرماہ….نہیں….تم سے آج تک جو کہا ہے جو کچھ منوایا ہے وہ سب بہترین تھا ….اور یہ بھی ….میر ہالار کا اور تمہارا نکاح ہوگا ….یہ طے ہے….تمہاری محبتوں کا قرض ایسے ہی اتار سکتے ہیں….بدلے میں تمہاری محبت تمہیں دے کے….”
نیہا نے خلوص سے کہا تھا
” میرا قرض….میرا بدلہ….”
مہرماہ نے عجیب سے لہجے میں کہا تھا
” ہاں ماہ….تم نے جس طرح میر ہالار کو میرے لئے چھوڑا ….اپنا درد سب سے چھپایا ….تم ہی ڈیزرو کرتی ہو یہ سب….”
نیہا اپنی بات پہ زور دے کے بولی تھی
مہر ماہ نے آنسو صاف کئے اپنے
اب بات حساب کی جو آگئی تھی
” تو صرف اس ایک قربانی کے بدلے…..تم میر ہالار سے میرا نکاح کرا رہی ہو….”
” آف کورس….”
” تو نیہا سفیر….تمہیں لگتاہے کہ تم میری قربانیوں کا صلہ دے سکتی ہو….تو چلو شروع سے حساب کرتے ہیں…دے سکتی ہو نیہا سفیر تو دو….”
مہر ماہ پھٹ پڑی تھی
ایسا تازیانہ لگا تھا اسکی عزت نفس پہ کہ وہ سہہ ہی نہیں پائی تھی
نیہا ٹھٹکی تھی ….یہ مہرماہ کے تو انداز نہ تھے
” کہنا کیا چاہتی ہو ماہ…..”
” سن سکتی ہو ….تو سنو….تمہیں بہت شوق ہے نا ریورڈ دینے کا….احسان کا بدلہ دینے کا….دے سکتی ہو دو بالکل شروع….”
مہرماہ دیوانگی سے بولی تھی
” آؤ نیہا….بچپن سے حساب کرتے ہیں…اس وقت سے جب جب اپنے حصے کی چیزیں تمہیں دیں…نو عمری میں اپنے خوابوں کی تعبیر تمہیں دی….کیا میرے خواب نہ تھے….اگر تم انجینئر بننا چاہتی تھی تو کیا میں کچھ نہیں بن سکتی تھی….بن سکتی تھی کتنا بڑا خواب تھا میرا کہ میں ڈاکٹر بنوں….اے ون گریڈ تھا میرا….سفید گاؤن والے ڈاکٹرز مجھے کتنا اٹریکٹ کرتے تھے ….مگر میں نے یہ شوق بھی چھوڑ دیا تاکہ تم پڑھ سکو….تمہاری محبت میں اس گھر کی خوشی اور آرام کیلئے سب کیا….آدھی آدھی رات تک بیٹھ کے تمہاری فرمائش پہ کبھی سوٹ سیا تو کبھی کوئی ڈش بنائی….بولو نیہا دے سکتی ہو میرے ٹوٹے خوابوں کا حساب….میرے بہائے گئے آنسو کا کفارا….”
نیہا چپ کی چپ رہ گئی تھی
اور باہر کھڑے اس ساحر کی ساری جادوگری جیسے ہوا میں تحلیل ہوگئی تھی
” ماہ….اسی لئے تو میں چاہتی ہوں کہ تمہاری اور میر ہالار کی شادی ہوجائے….اسکا ساتھ تمہارے سارے درد ختم کردے گا….سارے غم ختم ہوجائیں گے…..میں اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کرسکتی….”
نیہا نے آگے بڑھ کے اسے تسلی دینے کی کوشش کی تھی
” دیکھا کوئی جواب نہیں….کوئی بدلہ نہیں تو پھر یہ کیوں….میں ہی کیوں قربانی کا بکرا بنتی ہو….اور تم کہتی ہو کہ میر ہالار کا ساتھ میرے سارے درد مٹادے گا …نیہا سفیر….ایک بار اگر اسکی آنکھوں میں جھانک کے دیکھ لیتیں نا تم تو تمہیں پتہ چل جاتا میرا مقام اسکی زندگی میں…..اتنی حقارت…کیا تعین ہوگا اسکا میری زندگی …ایک بوجھ ایک ان چاہا وجود….”
مہر ماہ تڑپی تھی
” سب ٹھیک ہوجائے گا….کچھ وقت لگے گا…سترہ برس اس شخص سے تم نے محبت کی ہے….اسکی ایک ایک بات تمہیں آج تک یاد ہے….ماہ یہ بھی تو دیکھو”
نیہا نے کہا تھا
میں اتنا چاہا گیا ہوں….باہر کھڑا ہالار شاکڈ تھا
کیسا دن تھا یہ
” نہیں نیہا نہیں….تم مجھے مجبور نہیں کرسکتیں….ہالار سے محبت اپنی جگہ اور جن سے محبت کی جاتی ہے انہیں اپنے ساتھ باندھا نہیں جاتا….میر ہالار تمہارا نصیب ہے تمہیں ہی مبارک ہو….”
مہرماہ نے سختی سے کہا تھا
” نہیں ماہ نہیں…یہ نکاح تو تمہیں کرنا ہوگا….میں شادی افورڈ ہی نہیں کرسکتی…اس مقام پہ اور اس شخص سے تو بالکل نہیں جس کے خواب تم نے دیکھے ہیں….”
نیہا نے انکار کیا تھا
” یہ تمہارا مسئلہ ہے نیہا….مگر اب میں نہیں اور نہیں….تم ماموں اور ہالار کو اس نکاح کیلئے جیسے تیار کرسکتی ہو ویسے انکار بھی کرسکتی ہو….تم نیہا سفیر ہو جو سب کرسکتی ہے….”
مہرماہ کبیدگی سے بولی تھی
” مہرماہ میں اپنی جان پہ کھیل جاؤں گی…..” نیہا نے دھمکی دی
” شٹ اپ نیہا….اتنا اوور ریکٹ مت کرو…”
” تم بھول رہی ہو..کہ تم نے بھی مجھے اسی طرح منایا تھا”
نیہا نے یاد دلایا تھا
” میری زندگی کسی کام کی نہیں نیہا سفیر…. اگر اس زندگی کے بدلے میر ہالار کو اسکے دل کی خوشی ملتی ہے تو ایسی دس زندگیاں قربان اس پہ”
مہرماہ نے یاسیت سے کہا تھا
” واٹ…..شٹ اپ….مہرماہ…بلکہ آپ دونوں….آپ دونوں نے آج ثابت کیا ہے کہ تم عورتیں ہوتی ہی بے وقوف ہیں….مجھے سینڈوچ بنا کے رکھ دیا ہے آپ دونوں نے”
ہالار کا ضبط ختم ہوا تھا اندر آتے ہوئے وہ بولا تھا
” آپ….!!!!!” مہرماہ ٹھٹک کے رکی تھی
تو کیا ہالار سن چکا ہے سب….!!!!!!!
” یہ فیصلہ آپکا اپنا تھا ہالار صاحب میں نے نہیں کہا تھا کہ آکے مجھ سے شادی کریں….آپکو اچھی خاصی مہرماہ نطر نہیں آئی تھی ”
نیہا نے جھٹ سے کہا تھا
” مس نیہا سو باتوں کی ایک بات ہے…..ہمیں جب اپنا آئیڈیل ملتا ہے تو اسکے آگے کچھ نظر نہیں آتا ….میں مہرماہ کے جذبات کی قدر تو کرسکتا ہوں مگر انکی پذیرائی نہیں….اس دل نے صرف آپ سے محبت کی ہے اور آپ نے میرے جذبات کی ناقدری کی ہے صرف اور بس…..!!!!” ہالار نے تلخی سے کہا تھا
” آپ فکر نہ کریں….ہالار صاحب میں اپکے اور نیہا کے بیچ میں نہیں آؤں گی….”
مہرماہ نے اسے تسلی دی تھی
” بیچ میں تو آپ آہی چکی ہیں مہرماہ…..انسان کو اتنا بھی کسی پہ انحصار نہیں کرنا چاہئیےکہ
وہ آپکی زندگی کا ہر فیصلہ خود کرنے لگے ….”
ہالار نے اسکی غلطی بتائی تھی
” میں نے ان لوگوں سے بہت محبت کی….انکا احسان تھا مجھ پہ ”
” کیا احسان تھا….اپکو پالنا….تو ایسا کیا انوکھا تھا…ایسا تو سب کرسکتے ہیں”
ہالار بے نیازی سے بولا تھا
” مگر اس میں قصور آپکی ماں کا بھی تھا….اس رات اگر سمعیہ پھوپھو کے لئے آپکی ماں برے الفاظ نہ نکالتیں تو مہرماہ یوں ہم سب ڈپینڈ کرنے والی نہ ہوتی…جس طرح وہ آج تک کرتی رہی ہے”
نیہا چمک کے بولی تھی
” غلط کیا جو سب پہ ڈپینڈ کیا….بہت سے لوگ ہوتے ہیں دنیا میں جن کے ماں باپ نہیں ہوتے مگر وہ اپنی زندگی کی ڈوریں یوں دوسروں کے ہاتھ میں نہیں دیتے ….مہرماہ کو بھی اتنا ہی حق حاصل تھا جتنا باقی سب کو”
ہالار نے کہا تھا
اسی پل انس اندر آیا تھا
” ہالار… ”
” کیا ہوا….”
ہالار چونکا
” آپ زرا باہر آئیں گے…..!!!!”
انس نے کہا
پریشانی اسکے چیرے سے ہویدا تھی
” از ایوری تھنگ اوکے…..”
” نو..ایکچوئلی ناٹ آپکے دادا کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے…..” انس نے بتایا تھا
ہالار باہر کی طرف دوڑا تھا
_____________________________________
دو دن ہوچکے تھے میر برفت اب تک اسپتال میں تھے
” بیٹھے بٹھائے….رنگ میں بھنگ ڈال دیا….بڑے میاں نے….میرے بچے کی خوشی برداشت نہیں ہوئی ”
مونا بیگم نے میر جاذب کو سنایا تھا
” اماں جان….یہ کوئی وقت ہے ان باتوں کا….دادا جان ٹھیک ہوجائیں پھر شادی کا کیا ہے ہوتی رہے گی”
ہالار میر برفت کی فائل میر جاذب کو دیتے ہوئے بولا تھا
” ہنہ بھلے سے بڑے میاں گزر ہی جائیں ….” مونا بڑبڑائیں تھی
میر برفت کی طبیعت کی خرابی کی وجہ سے شادی ملتوی کردی گئی تھی
فی الحال سب کو یہی بتایا گیا تھا
گو کہ میر جاذب نے کہا تھا کہ نکاح تو کرہی لیتے ہیں ورنہ سفیر صاحب کہاں جواب دیتے پھریں گے …..مگر وہ اندر کی بات سے جو ان تینوں کے درمیان تھی اس سے ناواقف تھے
اندر ہی اندر ہالار بھی الجھ گیا تھا
کہ
کیا اس کا انتخاب درست تھا….!!!!
نیہا واقعی خوش شکل….پراعتماد لڑکی تھی
مگر اسکی اس دن کی جذباتیت نے جیسے سوالیہ نشان چھوڑا تھا
_____________________________________
” چلو یہ ٹینشن تو گئی ….” نیہا نے سکون کا سانس لیا تھا
” مطلب…..” ماوی نے پوچھا
” چھوڑو کچھ نہیں….مہرماہ کہاں ہیں…” نیہا نے پوچھا
” وہ تو انس کے ساتھ اسپتال گئی ہیں….اپنے دادا کو دیکھنے….”
ماوی نے بتایا پھر خیال آنے پہ چونکی
” آپ کیوں نہیں گئیں ….آخر کو وہ آپکے سسر کے ابو ہیں….”
” ہاں….وہ میں چلی جاؤں گی….ابھی کچھ مناسب نہیں لگا….اور سنو تم یہ انس کو بھائی کیوں نہیں بولتیں….اتنے بڑے ہیں وہ تم سے…”
نیہا نے اس پہ چڑھائی کی
” مہر ماہ جی بھی تو نہیں بولتیں نا….”
ماوی نے عجیب دلیل دی
” یہ کیا بات ہے….تمہارا اور مہرماہ کا کیا مقابلہ……”
نیہا نے کہا
” ہاں واقعی میرا اور انکا کیا مقابلہ…..”
ماوی نے عجیب سے لہجے میں کہا تھا
وہ دیکھتی تھی کہ کیسے انس کی آنکھیں چمک جاتیں تھیں مہرماہ کو دیکھ ک
محبت کرنے والوں کو تو یہ سب بہت محسوس ہوتا ہے
اس دن کے بعد سے نیہا اور مہرماہ کی بات نہیں ہوئی تھی
سفیر صاحب بھی اس سے بات نہیں کررہے تھے
نیہا کو لگ رہا تھا سب اسے ہی قصور وار سمجھ رہے ہیں
جب کہ اس نے سب کا بھلا چاہا تھا
_____________________________________
” کچھ دیر اور رک جاؤ بیٹا پھر چلی جانا….” میر جاذب نے پیار سے کہا تھا
” نہیں تایا ابو…..میں اب چلوں گی…انس کو بھی دیر ہوجائے گی” مہرماہ نے معذرت کی تھی
” تو بیٹا آپکو ڈرائیور چھوڑ آئے گا….” میر ہمدان نے کہا تھا
"نہیں…..چاچو…مناسب نہیں لگتا سفر جن کے ساتھ شروع ہو ختم بھی اگر انکے ساتھ ہو تو تشنگی کا احساس نہیں ہوتا …..” مہرماہ کا لہجہ اتنا دھیما تھا کہ با مشکل انس ہی سن سکا تھا
مہرماہ کی یاسیت اور دکھ سے واقف تھا وہ…..
_______________________,,,,,____________
"کیا سوچ رہے ہو …..” ثمر نے اسکے شانے پہ ہاتھ رکھا تھا
” کچھ بہت خاص…..” ہالار گہری سانس لیتا ہوا پیچھے ہوا
” کیا….؟؟؟؟”
ثمر نے پوچھا
” میرے سامنے دو راستے ہیں….ان فیکٹ دو ہمسفر….ایک وہ جو مجھے پسند ہے دوسری وہ جس کی سترہ سال کی محبت ہے میرے لئے….”
ہالار نے سوچا تھا مگر کہا تو بس اتنا
” نیہا سے شادی کے بارے میں….”
” ہاں یار تو دولہا بنتے بنتے رہ گیا….اس کا مجھے بھی افسوس ہے….” ثمر نے یوں سر ہلایا جیسے کسی کی مرگ ہوگئی ہو
” ذیادہ نہیں اچھا….وہ تو دادا کی وجہ سے میں نے پوسٹ پون کیا شادی کو….وہ اسپتال سے آجائیں تو انہیں دگنی خوشی دوں گا”
ہالار نے اسے ایک دھپ لگاتے ہوئے کہا تھا
” اللّه کرے…..” ثمر نے چڑانے والے انداز میں کہا تھا
_____________________________________
” ماہ….اس دن جو بھی ہوا اس سے پریشان ہو….” انس نے گاڑی چلاتے ہوئے پوچھا تھا
” نہیں میں پریشان نہیں…. ” مہرماہ نے انکار کیا تھا
” اچھی لڑکی غلط بیانی تم پہ سوٹ نہیں کرتی……” انس نے افسوس سے سر ہلایا
” انس…..” مہرماہ نے آنکھیں اٹھا کے اسے دیکھا تھا کوئی اسے نہیں سمجھ پاتا تھا
اور ایک انس تھا جو بن کہے اس کی ہربات جان جاتا تھا
مہرماہ کی سیاہ آنکھوں میں نمی پھیل گئی تھی
” کہو ماہ…..” انس نے سکون سے کہا تھا
” انس…آپ کیسے جان لیتے ہیں سب…..” مہرماہ نے پوچھا
” اچھی لڑکی….جن سے محبت کرتے ہیں ان کے بارے میں سب خبریں رکھتے ہیں…..”
انس نے جذب سے کہا تھا
” مگر میں نے تو کبھی آپکے جذبوں کی پذیرائی نہیں کی ….” ماہ نے بات ادھوری چھوڑی تھی
” مہرماہ….محبت کو بدلے کی ضرورت نہیں ہوتی بس محبت کا ہونا کافی ہے…..”
انس کا ضبط واقعی کمال کا تھا
اس نے جذبات میں آکے کبھی محبت کی دجھیاں نہیں اڑائیں تھیں آج کل کے نوجوانوں کی طرح
اس میں کچھ ہاتھ اسکی ٹریننگ کا اور سب سے بڑھ کے اسکی نیک فطرت کا بھی تھا
انس مہرماہ کے حق میں ہمیشہ اچھا رہا تھا
” انس……” مہرماہ نے دوبارہ پکارا
وہ گھر تک پہنچ گئے تھے……
” اب کیا ہوا…..” انس اسکی طرف مڑا
” انس اب آپ ….ماموں سے بات کرسکتے ہیں….مجھے مانگ سکتے ہیں میری طرف سے اجازت ہے ”
مہرماہ نے جیسے کوئی اسم پھونکا تھا
انس اسے دیکھ کے رہ گیا تھا
"کیا کہا اے ہم نشین میرے!!!!!!
زرا پھر سے کہو!!!!!
دھڑکنوں میں کچھ شور سا ہوا ہے!!!!
شاید تم نے اقرار کا اذن دیا ہے!!!!!
انس یک بیک بہت سی کیفیات کا شکار ہوا تھا
بے یقینی…..بے پایاں خوشی اور سحرانگیز کیفیت کا
آج برسوں بعد اسکی محبت کے صحرا میں اقرار کا بادل آنکلا تھا
اب محبت کے پھول کھلنے تھے
” تم سچ کہہ رہی ہو مہرماہ……”
انس نے جیسے یقین چاہا
” جی ….انس….میں نے غلط کیا آپکا دل توڑا…..مگر اب میں آپ جیسے اچھے شخص کو نہیں کھونا چاہتی ….میرے ہاتھ بالکل خالی ہیں میرے دل کی طرح….شاید آپکی بے لوث رفاقت میرے دل کے صحرا میں محبت کا نخلستان اگا سکے…..میں اب مزید کچھ اور نہیں کھو سکتی انس…..!!!!!!!”
مہرماہ کا لہجہ تھکا تھکا سا تھا
اس مسافر کی طرح جو برسوں سفر میں رہا ہو اور پھر بھی منزل سے محروم رہا ہو
” نہیں….اچھی لڑکی اب اور نہیں….میں تم سے وعدہ کرتا ہوں تمہارے سارے دکھ اب سے میرے اور میری ساری خوشیاں تمہاری……”
انس نے ہمیشہ کی طرح اسکے آنسو پونچھے تھے
اسے تسلی دی تھی
مہرماہ کو انس سے ذیادہ اور کوئی نہیں سمجھتا تھا اور مہرماہ سیال ساری زندگی یہی بات نہیں سمجھ سکی تھی
_____________________________________
” بابا…..”
انس نے سفیر صاحب کو پکارا جو کتاب میں مگن تھے
” ارے انس…..آؤ میرے پاس….”
سفیر صاحب نے اسے اپنے پاس بلایا آج کتنے دنوں بعد انس انکے پاس آیا تھا
” بابا….نیہا سے آپ ناراض ہیں….”
انس نے پوچھا
” دیکھو انس….اگر یہاں یہی بات کرنی ہے تو تم جاسکتے ہو…..ہاں اگر کوئی بات کرسکتے ہو تو کرو…..”
سفیر صاحب بےگانگی سے بولے تھے وہ نیہا سے اب تک ناراض تھے
اسے کس نے حق دیا ہے ان سب کی عزت داؤ پہ لگانے کا…..؟؟؟؟
” بابا پلیز…..آپ نیہا کی بھی تو سنیں ….وہ کیا چاہتی ہے….” انس نے بہن کی سائیڈ لی
” وہ جو چاہتی تھی وہ میں سن چکا ہوں….اسے کس نے حق دیا ہے اس یتیم بچی کے ساتھ ایسا کرنے کا …..کیا اسکی یہی زندگی رہ گئی ہے کہ جیسا ہم بولیں وہ ایسا ہی کرے….”
سفیر غصے سے بولے
” بابا وہ اس نے مہرماہ کے بھلے ہی کیلئے کیا ہے….”
” کیسا بھلا….. ایک بات یاد رکھو انس ہم مرد کبھی اس عورت کو عزت نہیں دے سکتے جو ہم پہ زبردستی مسلط کی جائے عزت تو بہت دور کی بات ہے…..” سفیر صاحب نے تلخی سے کہا تھا
” آپ ٹھیک کہتے ہیں بابا…. مجھے آپ سے کچھ کہنا ہے….” انس نے تمہید باندھی
” کہو….” سفیر صاحب نے اسے بغور دیکھا
” بابا آپ نے مجھ سے مہرماہ کیلئے پوچھا تھا…..اس وقت مجھے لگتا تھا کہ میں کوئی نیا رشتہ کیری نہیں کرسکوں گا…..مگر اب جب کہ میرا پرموشن ہوچکا ہے آئی فیل مجھے اب شادی کرلینی چاہئیے…..میں مہرماہ سے شادی کو تیار ہوں”
انس نے کہا
” مہرماہ سے اب…..!!!!!!” سفیر صاحب نے بات اچنبھے سے کی
” مطلب….” انس نے انہیں دیکھا
” میں اور تمہاری اماں ماوی کیلئے سوچ رہے تھے کیونکہ مہرماہ کیلئے تم منع کرچکے تھے ”
سفیر صاحب نے بتایا
” بابا پلیز ماوی کبھی نہیں….وہ ایک آدھے دماغ کی لڑکی ہے…میں اس وقت شادی نہیں کرنا چاہتا تھا تو اسکا مطلب یہ نہیں کہ مہرماہ سے ہی نہیں….مہرماہ ہمارے گھر کا حصہ ہے اور سب سے خاص …..اور سب سے بڑھ کے وہ میری ہم مزاج ہے…..” انس نے بے ساختہ کہا تھا
” انس پہلے اگر تم مان جاتے تو سب ہوجاتا مگر اب یہ تھوڑا مشکل ہوگا …..” سفیر صاحب نے گہری سانس لی تھی
” اسکا کیا مطلب ہوا….”
انس نے پوچھا
” مہرماہ صرف ہماری ذمہ داری نہیں جلد یا بدیر اسکے دادا اسے لے جائیں گے …..اور وہ ایک انتہائی ضدی انسان ہیں….تمہارے رشتے کی بات ان سے منوانا کافی مشکل ہوگا…”
سفیر صاحب نے الجھن بیان کی تھی
” بابا پلیز…..وہ کوئی خدائی فوجدار نہیں….اور سب سے بڑھ کے مہرماہ کی رائے اہمیت رکھتی ہے کہ وہ کہاں رہنا چاہتی ہے ….اور کیا کرنا چاہتی ہے….بابا اس لڑکی کو تھوڑا اسپیس چاہئیے اب ساری زندگی وہ دوسروں کے بتائے ہوئے راستوں پہ چلی ہے….کم ان بابا وہ مٹی کا مادھو نہیں ہے….” انس نے دکھ سے کہا تھا
اسکی اچھی لڑکی کے دل میں اتنے درد تھے کہ انکی داستان پڑھتے پڑھتے انس جیسے بہادر جوان کی آنکھیں بھی بھیگ جاتیں تھیں
” یو ار رائٹ…..میں جلد ہی مہرماہ سے بات کرکے اسکے گھر والوں کو بتاتا ہوں…..” سفیر صاحب نے نیم رضامندی سے کہا تھا
” بابا نیہا نادان ہے….اسے معاف کردیں مانا کہ اس نے بیوقوفی کی ہے….لیکن اگر ہم بڑے ہی اپنے چھوٹوں کی غلطیوں پہ انہیں نہیں سنبھالیں گے تو پھر وہ مسلسل غلطیاں کرتے ہیں اور اپنے آپ کو صحیح سمجھتے ہیں…..” انس نے انکے کاندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تھا
” انس…..نیہا میری بیٹی ہے ….مجھے اسکی فطرت معلوم ہے…..میں اس سے ناراض رہ ہی نہیں سکتا….مگر تم.مجھ سے وعدہ کرو انس… مہرماہ کا بہت خیال رکھو گے….”
سفیر صاحب نے اس سے وعدہ مانگا
” وعدہ رہا بابا….” انس نے دونوں ہاتھوں سے انکا ہاتھ تھاما تھا
ساری زندگی اسکے آنسو اس شخص نے پونچھے تھے
ساری زندگی وہ اس لڑکی کو خوش کرتا رہا تھا
جس سے اسے عشق تھا ….!!!!!
جو اسکے دل کی خواہش تھی ….!!!!!
بصد شوق …..بصد احترام….!!!!!
انس کے دل نے ہمیشہ مہرماہ سیال کی ہسفری کی خواہش کی تھی
_____________________________________
” مہری جی …..آپکو نیچے ڈرائنگ روم میں بلا رہے ہیں…. ”
ماوی نے بالکونی کے پودوں کو پانی دیتی مہرماہ کو پکارا
” کون ہے ماوی….” مہرماہ نے پلٹ کے پوچھا
” آپکے کزن اور چچی…..” ماوی نے بتایا
” کونسے کزن…” مہرماہ نے پوچھا
” بس وہ نہ ہو…..”
مہرماہ نے یہی سوچ کے پوچھا تھا
” وہی جن سے نیہا کی شادی ہورہی تھی….” ماوی نے بتایا
” سسی….”
مہرماہ کے وجود میں ایک کانٹا سا اترا
سترہ برس وہ میر ہالار جاذب نامی سراب کے پیچھے بھاگی تھی اب واپس پلٹنا بہت مشکل تھا …..
مگر اسے یہ کرنا تھا…..اپنی بقا کیلئے
اپنی عزت کیلئے وہ بوجھ بن کے نہیں رہ سکتی تھی
” آرہی ہوں چلو تم…..” مہرماہ نے دوپٹہ سنبھالتے ہوئے کہا
” السلام علیکم…..”
مہرماہ کے سلام کی آواز پہ بھوری آنکھیں اٹھیں تھیں…..شاید چمکیں بھی تھیں
” یہاں آؤ بیٹا…..” ہمدان کی بیگم عائشہ نے اسکے سلام کا جواب دیتےہوئے کہا
” جی…..” مہرماہ انکے پاس ٹک گئی تھی
” مہرماہ ….ہم.تمہیں لینے آئے ہیں”
ہالار جاذب نے اسے پکارا تھا
” کاش کہ آپ واقعی مجھے لینے آتے…..”
مہرماہ نے یاس سے سوچا ….
” مگر….کیوں” مگر جب وہ بولی تو اسکا لہجہ صاف تھا
دل میں لاکھ طوفان ہوں مگر چہرہ سمندر کی گہرائی کی مانند پرسکون تھا
” کیا مطلب….وہ آپکا گھر ہے….” ہالار نے یاد دلایا
” میرا گھر یہی ہے ہالار صاحب….جہاں مجھے پیار عزت مان سب ملا…..” مہرماہ کیا جتانا چاہتی تھی نہ جانے…
” اسکی فکر نہ کریں….پیار اور محبت آپکو وہاں بھی ملے گا ….” ہالار کا لہجہ کچھ آنچ دیتا ہوا تھا
سامنے بیٹھی لڑکی نے سترہ برس اس سے محبت کی تھی…..پتھر کو کچھ تو جونک لگنی تھی
” بیٹا تمہارے دادا گھر آچکے ہیں…..وہ تمہیں بلارہے ہیں ….کچھ دن وہاں رہو اور پھر یہاں بھی آتی جاتی رہنا تم دونوں گھر اب تمہارے ہیں کیوں عالیہ…..” عائشہ بیگم نے طریقے سے بات کی تھی
” یہ مہرماہ کا ہمیشہ سے گھر ہے عائشہ…..اسی کا گھر ہے….ماہ بچے اگر تم جانا چاہتی ہو تو چلی جاؤ انکا بھی حق ہے…..”
عالیہ نے رسان سے کہا تھا
” لیکن مامی….آپکا کیا ہوگا….آپ کیسے مینج کریں گی ….” مہر ماہ کو نئی فکر لاحق ہوئی تھی
” اسکی آپ ٹینشن نہ لیں میں ہوں نا میں اور نیہا دیکھ لیں گے…..” ماوی نے اسے تسلی دی
” تم ہو یہی تو فکر ہے…..” مہرماہ ہلکے پھلکے لہجے میں بولی تھی اسے ماوی کی لاپرواہ فطرت سے واقفیت تھی
” نیہا کیا یونیورسٹی سے نہیں آئی اب تک…..” عائشہ نے پوچھا
” آنے والی ہوگی اب تو…..” ماوی نے گھڑی دیکھتے ہوئے کہا
” چلیں چچی دیر ہورہی ہے….اٹھو مہرماہ…” ہالار فورا کھڑا ہوتے ہوئے بولا تھا
"یہ نیہا کا کیوں انتظار نہیں کررہے….شاید ناراض ہیں اس دن کی بات سے….مگر انہیں تو نیہا سے محبت ہے…..” مہرماہ نے سوچا
” نہیں ابھی نہیں تھوڑا صبر کریں میں کچھ چیزیں دیکھ لوں….” مہرماہ نے کہا
” کیا مطلب…..اپکو کونسے کام ہیں اب….”
ہالار کچھ ناگواری سے بولا
” میر صاحب یہ گھر ہے ….اور یہاں میری کچھ ذمہ داریاں ہیں….یہ گھر میرے لئے بہت اہم ہیں….اس لئے برائے مہربانی کچھ صبر کیجئے….” مہرماہ نے نہ جانے کسے جتائی تھی یہ بات اپنے آپکو یا میر ہالار جاذب کو
” اوکے….بیٹا ہم ویٹ کررہے ہیں…” عائشہ بیگم نے جلدی سے کہا تھا
_________________,,,,__________________
” آنے میں اتنا وقت لگا دیا….” میر برفت نے اس سے شکوہ کیا تھا
” دادا….آج کچھ کام تھا….وہاں اسپتال میں تو روز ہی آتی تھی….” مہرماہ نے بتایا
” بس اب تم یہیں رہوگی ہمارے پاس ہمیشہ…..” میر برفت کے شفقت بھرے لہجے میں بھی تحکم تھا
” دادا….پلیز میں یہاں صرف اپکی وجہ سے آئی ہوں…..مگر میں اس گھر کو نہیں چھوڑ سکتی….اور اس گھر میں نہیں رہ سکتی….” مہرماہ نے بے بسی سے کہا تھا
” اس گھر میں کیا مسئلہ ہے….”
” یہ اپکا گھر نہیں….”
” یہ میرے پوتے کا گھر ہے….تو میرا بھی تو ہوا نا….”
” آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں…مگر میرا تو نہیں ہوا نا یہ گھر ….”
مہرماہ نے کہا یہاں اتنا اجنبی پن تھا….اور مونا کی آنکھوں کا سرد پن ….مہرماہ یہ سب نہیں برداشت کرسکتی تھی
” تو ٹھیک ہے جب ہم واپس اپنی حویلی جائیں گے تو تم ہمارے ساتھ چلوگی….”
میر برفت نے اسکا حل بتایا
” یہ سب باتیں ہم بعد میں کریں گے….ابھی آپ سوپ پئیں پھر میں آپکی زیتون کے تیل سے مالش کروں گی تو آپ دیکھئے گا آپ کتنی میٹھی نیند سوتے ہیں….” مہرماہ نے بات پلٹتے ہوئے کہا تھا
مگر اندر ہی اندر وہ انہیں منع کرنے کا سوچ چکی تھی
” لیکن میں آج سونا نہیں چاہتا میری بیٹی گھر آئی ہے آج تو میں تم سے خوب باتیں کروں گا….” میر برفت بچوں کے سے انداز میں بولے تھے
” اوہوں…..میں کہیں بھاگی تو نہیں جارہی …بس آپ پہلے آرام کریں کل ہم جب دھوپ میں بیٹھیں گے نا تو پھر آپ مجھ سے ڈھیر ساری باتیں کیجئے گا….” مہرماہ نے انہیں پچکارا تھا
” پکا….” انہوں نے یقین دہانی چاہی
” ایک دم پکا….چلیں اب آپ سوپ پئیں اور مجھے بتائیں کہ آپکو کونسا ادب پڑھنا ذیادہ پسند ہے ….آج وہی پڑھیں گے…..” مہرماہ نے انکا نیپکن سیٹ کرتے ہوئے ان سے پوچھا تھا
وہ ایک نرم دل مسیحا تھا ….انس اسے یوں ہی تو نیک روح نہیں کہا کرتا تھا
جو دل کا اندر تک پڑھ لیتے ہیں اور اسے حکایت سمجھ کے یاد رکھتے ہیں
_____________________________________
انس گھر لوٹا تو آج وہ کونا سنسان تھا جہاں بیٹھ کے وہ اچھی لڑکی اسکا انتظار کرتی تھی
” آج اتنا سناٹا کیوں ہے….” انس نے پوچھا
” بھائی پہلے یہاں کونسے پٹاخے پھٹتے ہیں….” نیہا بیزاری سے بولی تھی
” یہاں محترمہ نیہا رہتیں ہیں جو پٹاخوں سے ذیادہ خطرناک واقع ہوئی ہیں اس لئے پٹاخے بھی ان سے پناہ مانگتے ہیں…” انس شگفتگی سے بولا تھا
” بھائی…..تم….” نیہا چڑی
” ارے ہٹو بھی….آج میری بچی گھر میں نہیں کتنا سونا سونا لگ رہا ہے گھر….” عالیہ افسردگی سے بولیں
"مہرماہ کہاں گئی….” انس نے پوچھا
” دادا کے ہاں….” ماوی نے بتایا
” تو اس میں اداس ہونے والی کیا بات ہے اماں آجائے گی….وہ…”
انس نے تسلی دی
” نہیں بیٹا اب اتنی آسانی سے کہاں….” عالیہ بیگم رنجیدگی سے بولیں
"تو ٹھیک ہے پھر مستقل بندوبست کرلیتے ہیں مہرماہ کو یہاں لانے کا…..ہمیشہ کیلئے….” انس نے برجستگی سے کہا
” کیا مطلب…..” نیہا نے آنکھیں نکالیں
” بھئی مہرماہ کو بھابھی بنا دیتے ہیں تمہاری…..” انس نے کہا
” سچ انس…..” عالیہ بیگم بے یقینی سے بولیں
انس مان گیا تھا شادی کیلئے…..
” ہاں اماں….” انس نے انہیں یقین دیا
” کیا …..!!!!!”
نیہا اور ماوی دونوں ایک دوسرے کو دیکھنے لگیں تھیں
انس اور مہرماہ سے شادی ان دونوں کیلئے ناقابل قبول تھی ……
” انس بھائی تم ایسا نہیں کرسکتے…..” نیہا نے نفی میں سر ہلایا تھا
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...