مغربی ممالک میں ادب کے نام پر جعلسازی کا فروغ
چند وضاحتیں اور اصل ادبی مسئلہ
تشکیل کراچی کے شمارہ نومبر ۲۰۰۴ء میں کرشن مہیشوری کا مضمون شائع ہوا تھا۔کرشن مہیشوری اس انداز کی تحقیق کرنے اور اسی طرز کے مضامین لکھنے میں مسلسل پیش رفت کر رہے ہیں۔ان کے اس نوعیت کے مضامین شب خون الہ آباد،شاعر بمبئی اور کائنات مغربی بنگال تک چھپ چکے ہیں۔جدید ادب میں بھی ان کا ایک ایسا مضمون شائع کیا گیا تھا۔تشکیل میں چھپنے والے مضمون میں جو اصل مسئلہ پیش کیا گیا تھا،وہ یہ تھا کہ جرمنی میں مقیم سید اقبال حیدر نامی شخص قطعاََ شاعر نہیں ہے،اور اس کے لئے جو شواہد پیش کیے گئے تھے،ان کا جواب تاحال کسی نے نہیں دیا ۔البتہ اب لاہور کے ایک ماہنامہ ادب دوست میں لندن کے ادبی مافیا کے ایک صاحب نے کرشن مہیشوری کے مضمون کا مصنف مجھے قرار دیتے ہوئے میرے خلاف زہر فشانی فرمائی ہے۔اس سلسلے میں پہلے اس الزام جیسے ایک اور الزام کا قصہ بھی ریکارڈ پر لے آؤں۔چند برس پیشتر لندن کے ماہنامہ پرواز نے ایک مضمون ادب کے کھیپیے شائع کیا تھا(یہ مضمون بھی اشاعت کے لیے ساتھ ہی بھیج رہا ہوں)۔مضمون نگار کا نام پروفیسر لطیف اللہ ۔کراچی درج تھا۔اس میں لندن کے ادبی مافیا کے اس صاحب کا علمی و ادبی حدود اربعہ علمی اور ادبی زبان میں کھول کر بیان کیا گیا تھا۔رسالہ چھپنے کے بعد مجھے پرواز کے ادارہ کی ایک اہم شخصیت نے فون کرکے بتایا کہ طباطبائی کہتا پھر رہا ہے کہ میرے خلاف مضمون حیدر قریشی نے لکھا ہے۔میری فارسی کا خانہ خالی ہے اس لیے اتنا ہی کہا کہ کاش میں ایسا علمی مضمون لکھ سکتا۔اب انہی طباطبائی صاحب نے جعلی شاعر سید اقبال حیدر کے دفاع کے لیے الزام لگایاہے کہ سید اقبال حیدر کے خلاف مضمون حیدر قریشی نے لکھا ہے۔مجھے اس الزام کو بھی خود پر سجا لینے سے انکار نہیں ہے لیکن یہ حقیقتاََ کرشن مہیشوری کی محنت کے ساتھ زیادتی ہوگی۔
جہاں تک مغربی ممالک میں ادبی جعلسازیوں کے خلاف آواز اٹھانے کا تعلق ہے میں ایک عرصہ سے اس کے بارے میں لکھ رہا ہوں اور وہ لکھا ہوا اتنا زیادہ ہے کہ میری اس وضاحت اور پروفیسر لطیف اللہ کے مضمون کے برابر وہ سارے اقتباسات ہو جائیں گے۔ضرورت پڑی تو کبھی ایسے سارے اقتباسات یکجا کر دوں گا۔میں نے اپنے سچ کی قیمت بھی ادا کی ہے اور طباطبائی کے قبیل کے سارے چوروں اور جعلی شاعروں اور ادیبوں کو بخوبی علم ہے کہ انہوں نے میرے سچ کے جواب میں کیا گھناؤنا کھیل کھیلا تھا۔اس کھیل سے خوش وقتی تو ہو گئی لیکن علمی اور ادبی سطح پر میرا وہ سارا لکھا آج یونیورسٹی لیول پر استفادہ کے لیے منگایا جا رہا ہے ۔طباطبائی نے اصل مسئلہ سے توجہ ہٹانے کے لیے میرے خلاف جو زہر افشانی کی ہے مجھے ان میں سے صرف چند اہم امور کے سلسلہ میں وضاحت کرنا ہے۔
***میری ماہیا نگاری پر ان کی ساری طبع آزمائی سو سنار کی کہلا سکتی ہے اور اس پر ایک ہی جواب صرف یہ ہے کہ اس ادبی مافیا کے گاڈ فادر نے میرے موقف کی معقولیت کو نہ صرف تسلیم کیا تھا،ایک اخبار میں نہ صرف میری حمایت میں لکھا تھا بلکہ اپنے ماہیوں کا مجموعہ اشاعت سے پہلے نظر ثانی کے لیے مجھے بھیجا تھا۔میری بعض ترامیم کو قبول کیا تھا۔ خاص طور پر فرمائش کرکے اپنے مجموعہ ”سوچ سمندر“کا پیش لفظ مجھ سے لکھوایا تھا۔نہ صرف میرے لکھے پیش لفظ کو کتاب میں شامل کیا تھا بلکہ اسی کا ایک اقتباس اہتمام کے ساتھ کتاب کی پشت پر درج کیا تھا۔جبکہ اپنے شہر لندن میں موجود اپنے خادم” نقاد“طباطبائی سے کسی قسم کی رائے لینا بھی گوارا نہیں کیا تھااور نہ ہی جعلی شاعر سید اقبال حیدر کی رائے لینے کا سوچا تھا۔
***کوئی بندہ علمی سطح پر مکالمہ کرنے کے لائق ہو تو اس کے ساتھ بات کی جا سکتی ہے۔میری جتنی سوجھ بوجھ ہے،اس کے مطابق میری مختلف تحریروں سے میرے فکری رجحانات کو بخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔ لیکن مذہبی انتہا پسندوں کی طرح محض مذہبی ایکسپلائٹیشن کی جائے تو اس کا کیا جواب دیا جا سکتا ہے ۔ اسلام کا نام استعمال کر کے اشتعال انگیزی پیدا کرنے والوں نے ہی آج مسلمانوں کو ایسے تکلیف دہ دن دکھائے ہیں۔تاہم طباطبائی نے جو دو باتیںلکھی ہیں کہ میں ہندوستان میں گیا تو وہاں جا کر ہندو ہو گیا اور یہ کہ میں نے اقبال حیدر سے اپنی ماہیا نگاری پر مضمون لکھنے کے لیے کہا تو یہ ایسے گھٹیا،بے بنیاد اور جھوٹے
الزام ہیں کہ ان کا جواب دینا بھی اپنی توہین سمجھتا ہوں۔
ان وضاحتوں کے بعد میں کرشن مہیشوری کے مضمون کے اصل حقائق کی طرف آتا ہوں۔جن کی طرف سے توجہ ہٹانے کے لیے میرے خلاف گرد اڑائی گئی ہے۔تشکیل میں چھپنے والے مضمون کے مطابق سید اقبال حیدرکے شاعر ہونے نہ ہونے کا فیصلہ ان حقائق کی صحت یا عدم صحت پر ہو سکتا ہے۔ یہاں کرشن مہیشوری کے مضمون کا ایک اہم اقتباس درج کر رہا ہوں۔
”ان (جرمنی والے اقبال حیدر)کے بارے میں سب سے پہلے ماہنامہ ”کتاب نما“ دہلی کے شمارہ ستمبر ۲۰۰۱ءکے صفحہ نمبر 85-86 پر راشد انور راشد کا ایک تبصرہ دیکھنے کو اور پڑھنے کو ملا ،اس تبصرہ کے ذریعے ان صاحب کا ایک انوکھا تعارف سامنے آتا ہے۔راشد انور راشدرقمطراز ہیں:
”دیارِ غیر میں رہ کر شعرو ادب سے دیرینہ اور جذباتی رشتہ برقرار رکھنے والوں میں سید اقبال حیدر بھی شامل ہیں۔فی الوقت وہ جرمنی میں مقیم ہیں لیکن بنیادی طور پر ان کا تعلق ہندوستان سے ہے۔تقسیم ہند کے دوران وہ اترپردیش کے ضلع بجنور سے ہجرت کرکے پاکستان چلے گئے لیکن اپنے ساتھ شاعری کا وہ ذوق بھی لے گئے جو انہیں وراثت میں ملا تھا۔پاکستان میں قیام کے دوران بھی اقبال حیدر ادبی سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے اور پھر جرمنی منتقل ہونے کے بعد بھی تخلیقی عمل کا سلسلہ جاری رہا۔“
اس میں تین جھوٹے دعوے کرکے ایک جعلی شاعر کواصلی اور اہم شاعر ظاہر کرنے کی بد دیانتی کی گئی ہے۔اس کے لئے تبصرہ نگار نے کتنا مال کھایا ہے ،یہ وہی جانتے ہوں گے۔میں ان کے تینوں جھوٹ وضاحت کے ساتھ نشان زد کر رہا ہوں۔
۱)پہلا جھوٹ یہ کہ شاعری ان کو وراثت میں ملی۔ان کے گھر میں کون شاعر تھا؟یہ وضاحت کرنا اب راشد انور راشد پر واجب ہے۔
۲)دوسرا جھوٹ یہ کہ پاکستان چلے جانے کے بعد بھی ان کی ادبی سرگرمیاں جاری رہیں۔ اقبال حیدر کے جرمنی جانے سے پہلے تک کوئی ایک حوالہ بھی ایسا نہیں مل سکتا کہ یہ صاحب کسی قسم کے شاعر ہیں اور ان کی اس حوالے سے کوئی ادبی سرگرمی رہی ہے۔کوئی ایک چھوٹاسا حوالہ بھی نہیں ہے۔
۳)تیسرا جھوٹ اور سفید جھوٹ یہ کہ جرمنی منتقل ہونے کے بعد بھی ان کا تخلیقی عمل کا سلسلہ جاری رہا۔وہ لگ بھگ گزشتہ پچیس سال سے زائد عرصہ سے جرمنی میں مقیم ہیں۔اس دوران 1999 ءتک ان کی کوئی ادبی سرگرمی سامنے نہیں آئی۔صرف ایک سرگرمی سامنے آئی۔انہوں نے ڈیلی جنگ لندن میں محسن نقوی کاسلام اپنے نام سے چھپوالیا۔اس پر اگلے ہی شمارے میں انگلینڈ کے ایک ادیب نے اس کا نوٹس لیا اور لکھا کہ یہ کون چور اقبال حیدر ہے۔اس کے لئے علاوہ کوئی ایک ادبی سرگرمی کا ریکارڈ 1999 تک نہیں ملتا۔
بس ادھر نئی صدی 2000 شروع ہوئی اور ساتھ ہی سید اقبال حیدر یک دم شاعر بن کر سامنے آگئے۔ان کی سب سے پہلی غزل جو شائع ہوئی وہ جرمنی کے ایک رسالہ ”فورم انٹرنیشنل“ کے اپریل،مئی 2000 کے شمارہ میں صفحہ نمبر 37 پر شائع ہوئی۔یہ چار اشعار پر مشتمل ایک کمزور سی غزل بالکل ویسی ہے جیسے کسی نو آموزشاعر کی غزل کسی استاد کے ہاتھوں سے گزرنے کے بعد ہوتی ہے ۔“
اب انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ ان حقائق کا سامنا کیا جائے اور ان کے مطابق سید اقبال حیدر کی بحیثیت شاعر اصلیت کو پرکھا جائے۔طباطبائی کے پورے مضمون کو دیکھ لیجیے ان حقائق کے جواب میں کچھ نہیں لکھا گیا۔میرے خلاف جتنا گند اچھال لیجیے،اگر سید اقبال حیدر خود شعر نہیں کہتے تو وہ شاعر نہیں ہیں ۔ کرشن مہیشوری کے سوالات اپنی جگہ اہم ہیں انہیں سے اخذ کرکے مزید وضاحتِ احوال کے طور پر میں بھی از سرِ نو ان نکات کو یہاں ترتیب دے دیتا ہوں،ادب اور تہذیب کے ساتھ ان کا معقول جواب دیا جائے تو کسی کو بھی موصوف کے شاعر ہونے پر اعتراض نہیں ہوگا۔لیکن اگر حقائق بالکل واضح ہیں تو پھر ادب کے نام پر ’ ’غنڈہ گردی“ کرکے ان کو شاعر منوانا ممکن نہیں ہے۔
پہلا نکتہ یہ ہے کہ ۱۹۹۹ءتک سید اقبال حیدر کی شاعری کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ۱۹۹۹ء تک کے زمانہ میںصرف ایک بار ان کے نام سے ایک سلام روزنامہ جنگ لندن کے ادبی صفحہ پر چھپا اور فوری طور پر وہاں ایک قاری نے خط چھپوایا کہ یہ کون چور ہے جس نے محسن نقوی کا سلام اپنے نام سے چھپوا لیا ہے۔
تیسرا نکتہ یہ ہے کہ موصوف کی سب سے پہلی غزل وہی ہے جواپریل مئی ۲۰۰۰ءمیں شائع ہوئی۔گویا پچاس سال کی عمر کے لگ بھگ ،شاعری کا آغاز کیا گیا اور دو برسوں میں تین مجموعے چھپ گئے۔
چوتھا نکتہ یہ کہ اقبال حیدر کے مجموعوں کے کلام میں سے کوئی بحر لے کر اس کا قافیہ ردیف تبدیل کرکے مقتدر شعراءکی موجودگی میں ان سے وزن میں دوچار شعر لکھنے کا ٹیسٹ لیا جائے۔حقیقت یہ ہے کہ ایسا ٹیسٹ اقبال حیدر کی شاعری کا ڈی این اے ٹیسٹ ثابت ہوگا۔
ان چاروں نکات میں موجود الزامات کی صحت ثابت ہوجائے تو ظاہر ہوجاتا ہے کہ اقبال حیدر شاعر نہیں ہیں ۔میری اطلاع کے مطابق انہیں لکھ کر دینے والے انڈیا میں بیٹھے ہیں اور فی غزل ،یا فی نظم ریٹ میں اشعار کی تعداد کو بھی مدِ نظر رکھا جاتا ہے۔انہیں بجنوری بنانا بھی زیادتی ہے کہ ان کی پیدائش ان کے والدین کے پاکستان میں آنے کے بعد ہوئی تھی۔ اقبال حیدربجنور سے ہجرت کرکے نہیں آئے تھے۔
ادب سے ہٹ کر بہت سارے حقائق مجھے بہت سے دوستوں نے فراہم کیے ہیں۔خود اقبال حیدر اور طباطبائی کے قریبی لوگوں نے بھی بہت سے ”حقائق“ بھیجے ہیں۔یہ حقائق انڈیا،ایران اور گوجرانوالہ تک کے علاقوں سے بھی متعلق ہیں اور بعض اور مقامات سے بھی۔لیکن ان سارے معاملات کا ادب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس لیے میرے لیے وہ ساری معلومات بے معنی ہے۔ ادبی طور پر کوئی اختلاف رائے ہے تو اس کا جواب ادبی سطح پر دینا ہی مناسب ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ ان جعلی لوگوں اور ادبی چوروںکے لیے ممکن نہیں کہ علمی سطح پر سنجیدگی کے ساتھ رک کر حقائق کا سامنا کر سکیں کیونکہ حقائق انہیں بخوبی معلوم ہیں۔اس لیے یہ لوگ آخر کار اپنی اسی گندگی کی طرف ہی لوٹ جائیں گے جو ان کی بنیادی شہرت ہے۔جن لوگوں کو اس مافیا کی بنیادی شہرت کا علم نہیں ہے ان کی معلومات کے لیے لکھ رہا ہوں کہ ان کا اصل میدان تگ و تاز اپنے مخالفین کے خلاف فحش اور غلیظ تحریریں گمنام طور پر ریلیز کرنا ہے۔اس سلسلے میں لندن میں نہ صرف ہاتھا پائی ہوئی بلکہ معاملہ کورٹ کچہری تک بھی چلا گیا۔ میرے خلاف بھی جو گمنام مراسلہ بازی ہوئی تھی اس میں یہی ادبی مافیا ملوث تھا اور میں نے تب ہی ان سب کے نام لکھ کر نشاندہی کر دی تھی۔سو میں اب بھی ان کی طرف سے ایسے کسی اوچھے وار کا سامنا کرنے کے لیے تیار بیٹھا ہوں!
سید اقبال حیدر اگر شاعر ہیں تو سر آنکھوں پر ! لیکن اگر پیسے دے کر مجموعے لکھواتے ہیں تو پھر انہیں سنجیدہ ادبی حلقوں میں بطور شاعرنہیں مانا جاسکتا۔
(مطبوعہ جدید ادب جرمنی جولائی تا دسمبر ۲۰۰۵ء)