فرانس کا ممتاز ادبی تھیورسٹ ژیرار ژینت سال 1930میں پیدا ہو ا۔بچپن ہی سے اس کے ا ساتذہ اس کی ذہانت کے معترف تھے ۔اس نے پیرس میں ایکول میںاعلا تعلیم کے مدارج طے کیے جہاں اسے ژاک دریدا (Jacques Derrida,B:15-7-1930,D:8-10-2004)) اور پئیر بوردائی(Pierre Bourdieu B:01-8-1930,D:23-01-2002) کی رفاقت میسر آئی۔ ان فطین ساتھیوں کی رفاقت نے سونے پر سہاگے کا کام کیا اوراس کی صلاحیتوں میں نکھار پیدا ہوتا چلا گیا۔اس کا شمار عہدِ حاضر کے نام ور ادبی مفکرین، ماہرین لسانیات ،مایہ نازدانش وروں اور ساختیاتی تھیوری کے اہم علم برداروں میں ہوتا ہے۔تخلیق ِفن کے لمحوں میں اس نے پہلے سے رو بہ عمل لائے جانے والے بیانیہ(Narratology)کی اہمیت کو اُجاگر کرتے ہوئے اس کی ترویج و اشاعت پر اپنی توجہ مرکوز کر دی۔اس نے بیانیہ کی افادیت اوراہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے اس بات پر اصرار کیا کہ مطالعہ اور تنقید کے لیے بیانیہ ہی موزوں ترین جولاں گا ہ ہے ۔بیانیہ کی توضیح و توسیع ہمیشہ اس کا مطمح نظر رہا اور اس کے لیے اس نے انتھک جد و جہد کی۔ اس کی دلی تمنا تھی کہ بیانیہ کو رنگ ،خوشبو اور حُسن و خُوبی کے سبھی استعاروں کا امین ہو نا چاہیے۔ایک زیرک تخلیق کار خونِ دِل میں انگلیاں ڈبو کر اپنے دل پہ گزرنے والی ہر کیفیت کو زیبِ قرطاس کر کے بیانیہ کو مقاصد کی رفعت کے اعتبار سے ہم دوش ِ ثریا کر سکتا ہے ۔اس نوعیت کے بیانیہ کی آفاقیت اور ہمہ گیری کا ہر سطح پر اعتراف کیا جاتاہے او ر قلب اورروح کی اتھا ہ گہرائیوں میں اُتر جانے والی اثر آفرینی کا کر شمہ دامنِ دل کھینچتا ہے۔ ایسے بیانیہ کی مسحور کُن جاذبیت سنگلاخ چٹانوں ،جامد و ساکت پتھروں اور بے حس مجسموں کوبھی موم کر دیتی ہے ۔ اپنی عملی زندگی میںاس یگانۂ روزگار فاضل نے ایک مصنف،نقاد،معلم،ماہر لسانیات اور فلسفی کی حیثیت سے اپنی صلاحیتوں کالو ہا منوایا۔اس کی علمی ،ادبی اور تدریسی خدمات کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ فرانس کے ممتازتعلیمی اداروںایکول اور سوبورن میں اس نے طویل عرصہ تک تدریسی خدمات انجام دیں۔ سال 1963میں وہ سوبورن میں تدریسی خدمات پر مامور ہوا اس کے بعدسال 1961میں اس نے مستقل طورپر ایکول کی ملازمت اختیار کر لی ۔اس نے تودوروف اور ہیلن سکسوس کے ساتھ مل کر سال 1970میں رجحان ساز تحقیقی مجلے (Pierre Poetique) کی اشاعت کاآغاز کیا۔اس مجلے نے ساختیات اور پس ساختیات کو پروان چڑھانے میںاہم کردار ادا کیا۔ ژیرار ژینت نے اپنے شاگردوں کو ایک ولولۂ تازہ عطا کیا اور انھیں افکار ِ تازہ کی مشعل تھام کر جہانِ تازہ کی جانب روشنی کا سفر جاری رکھنے پر مائل کیا ۔
اپنے عہد کے زیرک ،فعال اور مستعدادبی تھیورسٹ کی حیثیت سے ژیرار ژینت نے ساختیاتی فکر کو بہ نظر تحسین دیکھتے ہوئے اس کی ترویج و اشاعت پر ہمیشہ توجہ مرکوز رکھی۔اس کے منفرد اسلوب پر رولاں بارتھ اور کلاڈ لیوی سٹراس کے اثرات نمایا ں ہیں ۔ اس نے اپنے افکار کا قصرِ عالی شان تعمیر کرتے وقت مارسل پروست کے افکار کو اپنے قلب و نگاہ میں جگہ دی۔اس کے اسلوب سے یہ تاثر قوی ہو جاتا ہے کہ اس نے روسی ہئیت پسندوں سے گہرے اثرات قبول کیے ۔جہاں تک کہانی اور پلاٹ میں پائے جانے والے افتراقات کاتعلق ہے ژیرار ژینت کے افکار میںروسی ہئیت پسندوں کے افکار کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔اس نے افسانوی ادب کا مطالعہ کرتے وقت فکشن کے فن پارے کو کہانی،ڈسکورس اور بیانیہ پر مشتمل سطحوں میں پیش کر کے ان کا عمیق مطالعہ کرنے کی راہ دکھائی۔ادبی تخلیقات کے متن کے اظہار ،ابلاغ اور ترسیل و تفہیم کے بارے میں اس کے خیالات کی ہر مکتبۂ فکر کے دانش وروں نے ہر مقام پر اور ہر زمانے میں تحسین کی اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے ۔ژیرار ژینت کا قوی استدلال،اصابت رائے ،مستقل مزاجی اور عزم صمیم جہاں اس کی مستحکم شخصیت کی پہچان ہیں وہاں اس کے منفرد اسلوب کے امتیازی اوصاف بھی ہیں ۔اس نے جس شدت اور خلوص کے ساتھ ادب کی درجہ بندی پر توجہ دی اور ادبی تمثیلات کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا اس کے اعجاز سے اسے بے پناہ مقبولیت نصیب ہوئی۔ساختیاتی فکر کے بارے میں بے لاگ رائے دینے والے اس حق گواور بے باک نقاد کو تمام دانش وروںنے با لعموم اور بیانیہ سے دلچسپی رکھنے والے ماہرین لسانیات نے با لخصوص اپنے عہدکا رجحان ساز ادیب قرار دیا۔ایک ذہین مصنف کی حیثیت سے اس کی تصانیف کا شدت سے انتظار رہتا ہے ۔اس کی وقیع کتب قارئین میں بہت مقبول ہوئیں ۔اس کی اہم کتب درج ذیل ہیں:
سال اشاعت تصانیف
1.Narrative Discours 1980
2.Palimpsests:Literature in the second degree 1981
3.Fiction Diction 1992
4.The Architext An Introduction 1992
5.Mimlogics 1994
6.Paratexts 1997
7.The Work Of Art 1997
8.The Aesthetic Relation 1999
9.Essays in Esthetics 2005
10.Figures Of Literary Disc 1982
بیانیہ کوژیرار ژینت نے دوہرے تفاعل پر مبنی ایسی ترتیب سے تعبیر کیاہے جس سے دنیاوی زندگی میں ہر شخص کا واسطہ پڑتا ہے ۔مستحکم شخصیت کا مالک انسان ایام کا مرکب بننے کے بجائے ایام کا راکب بن کر زندگی گزارتا ہے ۔ وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ ہر بات کہنے کا ایک وقت مقرر ہے ۔ایسے سخت مقامات جہاں بات پر زبان کٹتی ہو وہاں بھی مقررہ وقت پر دل کی بات لبوں پر لانی ہی پڑتی ہے ۔ اسی طرح بیانیہ کا بھی ایک خاص وقت معین ہے ۔مفہوم نما اور مفہوم کا تصور اپنے مقررہ اوقات کے مطابق دل کے بے خواب کواڑوں پر دستک دیتا ہے اورلوح ِ دِل پر ثبت یادوں کے نقوش اجاگر کر کے فکر و نظر کو مہمیز کرتا ہے ۔دل کی بات جب لبوں پر آجاتی ہے اس کے بعد بیانیہ کا دوہرا تفاعل جوزماں اور مکاں کی قیود سے بے نیاز ہے عجب گُل کھلاتا ہے ۔اس کی قوت پرواز کی کوئی حد ہی نہیں یہ تو سرحدِ ادراک سے بھی آگے بڑھ کر نسل در نسل ذہن و ذکاوت کو صیقل کرنے کا وسیلہ ثابت ہوتا ہے ۔اس عالمِ آب و گِل میں انسان زبان و بیان کی لغزشوں کے باعث بعض اوقات کٹھن مسائل سے دو چار ہو جاتا ہے ۔اظہار و ابلاغ کی راہ میں حائل متعدد دشواریاں فرد کو کئی لغزشوں ،عارضی اور وقتی کجیوںاور تکلیف دہ حالات سے دو چار کر دیتی ہیں ۔بیانیہ ان تمام مشکلات پر قابو پانے کی استعداد سے متمتع ہے ۔تکراری کیفیات اور لمحاتی کج روی سے جنم لینے والی کیفیات سے نکالنے میںبیانیہ اہم کردار ادا کرتا ہے ۔بیانیہ کے بارے میں اس نے لکھا ہے :
“The study of temporal order of a narrative is to compare the order in which events or temporal sections are arranged
in the narrative discourse with the order of succession these same events or temporal segements have in the story ,to the extent that story order is explictly indicated by the narrative itself or inferable from one or an other indirect clue.”(1).
روسی ہیت پسندی کے علم بردار ادبی تنقید کی نمائندگی کرتے ہیں جنھوں نے جو تخلیق ادب میں متن اور مواد کے بجائے ہیت کو زیادہ اہمیت دی۔ تنقید کا یہ مکتبہ فکر پہلی عالمی جنگ کے دوران سویت یونین میں پھلا پھولا۔ روسی ہیت پسند ی سے وابستہ نقادوں نے پلاٹ اور کہانی کے امتیاز پر تو جہ دی ۔ پلاٹ میں کہانی کو بیانیہ کے قالب میںکیسے ڈھالاجا تا ہے اور کہا نی میں تما م واقعات کو دوبارہ (Chronologocally )شمار کیا جاتا ہے۔ کہا نی کو پلاٹ کے قالب میں ڈھالنا تخلیق کار کی محنت کا آئینہ دار ہے یہی تخلیقی معالیت کہانی کی تخلیق ترفع عطا کرتی ہے۔ روسی ہیت پسندی کے فروغ میںاہم کردار ادا کرنے والے تخلیق کاروںکے نام درج ذیل ہیں:
ؓBoris Eichenbaum
Roman Jakopson
Yuri Tynyanonv
Jan Mukarovsky
Boris Tomashevsky
جب روس میں ادبی تخلیق کاروں کے اظہار اور ابلاٖغ پر قدغنیں عائد کر دی گئیں اور اس مکتبۂ فکر کو دبانے کی کوشش کی گئی تو یہ دوسرے علاقوں میں نمو پانے لگا ۔ چیکو سلوا کیا میں اسے پذیرائی ملی ۔1940 میں رومن جیک سن کی امریکہ آمد کے بعد اسے امریکہ میں قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا ۔ روسی ہئیت پسندوںکے زیرِ اثر امریکی ادبی تھیوری میں اسلوبیات اور بیانیہ پردُوررس اثرات مرتب ہوئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے امریکہ میں ہئیت پسندی اور نئی تنقید کی سب تابانیاںروسی ہئیت پسندی کی ضیا پاشیوں کے سامنے ماند پڑ گئیں۔
ساختیات کے علم برداروں نے نوع انسان سے وابستہ اس عالمِ آب و گِل کے جملہ نشیب و فراز اور ارتعاشات کو ایک ایسی تھیوری سے تعبیر کیا جس میں انسانی کلچر سے تعلق رکھنے والے تمام عناصر کا ایک خاص نظام بل کہ سائنس کے ساتھ انسلاک کرکے اشارات کی مدد سے حقائق کی گرہ کشائی کی جا سکتی ہے۔ بعض ناقدین کی رائے ہے کہ جدید یت کے ردعمل کے طورپر ساختیات نے رنگ جما یا ۔عالمی جنگوں کے مسموم اثرات نے فکری اعتبار سے انسانیت کو مکمل انہدام کے قریب پہنچا دیا۔ محاذ جنگ کی تباہیاں ، پسپا ئیاں، انسانیت کی تو ہین ، تذلیل ، تضحیک اور بے تو قیری اور زندگی کو در پیش خطرات کو جدیدیت نے پیش نظر رکھا ۔ اس کے بعد تنہائی اور یاس و ہراس کا زہر معاشرتی زندگی میں سرایت کر گیا ۔ ان لر زہ خیز اور اعصاب شکن حالات میںمغرب میں یہ خیال تقویت پا نے لگا کہ فکر و خیال کی ایسی دنیا آباد کی جا ئے جہاں زندگی کی افادیت اور جا معیت کے نئے آہنگ قلب و نگاہ کے سنگ چلیں ۔فرانس میں گزشتہ صدی کے چھٹے عشرے میں ساختیاتی فکر نے نمو پائی اور مختلف شعبہ ہا ئے زندگی جن میںعلم بشریات اور ادبی تنقید شا مل ہیں پر گہرے اثرات مر تب کیے ۔ اشارات کی سائنس (Semiotics)کو یورپ میں قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا رومن جیکب سن ، کلاڈی لیوی سٹراس اور رولاں بارتھ نے اس موضوع پر افادیت سے لبریز فکر انگیزمباحث کا آغاز کیا اور سا ختیاتی فکر کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔
ژیرار ژینت نے اپنی تخلیقی فعالیت کو جدت اورتنوع سے مزین کیا۔اس کا خیا ل تھا کہ افسانوی اسلوب میں ساختیاتی فکر حقائق کی گرہ کشائی میں معاون ثابت ہو سکتی ہے ۔ افسانوی اسلوب میں کہانی کے موضوع کے حوالے سے ژیرار ژینت نے داستان،انداز بیان اور بیانیہ پر فکر پرور خیالات پیش کر کے اپنے منفرد اسلوب سے اہل نظر کو چو نکا دیا۔ساختیاتی فکر کے مطابق اس معاشرے میں افراد جس فعالیت اور مشغلے میں حصہ لیتے ہیںیا اظہار و ابلاغ کے لیے جو بھی وسیلہ استعمال کرتے ہیں وہ ایک اشارہ ہوتا ہے۔ژیرار ژینت نے کہانی کے کرداروں کے اعمال و افعال،شکل و صورت اور لب و لہجہ کو زیر بحث لاتے ہوئے ان تینوں عوامل کوکلیدی اہمیت کا حامل قرار دیا ۔بیانیہ پر ژیرار ژینت کے تنقیدی کام کوقارئین ادب نے قدر کی نگاہ سے دیکھا۔بیانیہ کے موضوع پر اس کے جامع تحقیقی کام کی اہمیت کا اندازہ اس کے اہم مضمون سے لگایا جا سکتا ہے:”Narrative Discourse:An Essay”اس مضمون میں اس نے بیانیہ کے موضوع پر متعدد چشم کشا حقائق کی جانب اشارہ کیا ہے۔
ژیرار ژینت کے کثیر المقاصد ،متنوع اور ہمہ گیر تنقیدی کام کا تجزیاتی مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ادبی شعریات پر اس نے مسلسل تیس سال تک جو وقیع کام کیا اس میں کوئی اس کا شریک و سہیم نہیں ۔ اس کے خیالات سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ ادبی شعریات کی تفہیم کو اس نے فروغ ادب کے لیے ہمیشہ نا گزیر سمجھا۔اس کی دلی تمنارہی کہ ادبیات کی تمام ارفع صفات اور اقدار و روایات کی تک قارئین تک رسائی کو ہر حال میں یقینی بنایا جا ئے ۔ اس کا استدلا ل یہ رہا کہ ادبیات کی فیض رسانی صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب ادب کی جملہ صفات قارئین کی دسترس میں ہوں یا انھیں ان سے فیض یاب ہونے کے فراواں مواقع میسر ہوں ۔ان تمام صفات کو جو یاتوقارئین میں تقسیم ہو چکی ہیں یا وہ قابل تقسیم نوعیت کی حامل ہیں ادب کی شعریات ہی ہیں ۔یہ بات بلاخوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ ژیرار ژینت کی واحد ، سب سے اہم اور نمایاں ترین شناخت بیانیہ پر اس کا فکر پرور اور بصیرت افروز عالمانہ کام ہے۔بیانیہ پر اس کام کے لیے اسے رولاں بارتھ نے مائل کیا ۔اس کے بعد اسے رولاں بارتھ کی مشاورت حاصل رہی۔جہاں تک ڈسکورس کا تعلق ہے جدید ادب میں اسے اہم مقام حاصل ہے ۔جدید دور میں ادبیات کی نئی تھیوری کے بارے میں ڈسکورس کا سب سے زیادہ حوالہ دیا جاتا ہے ۔سچ تو یہ ہے کہ بیانیہ کے سلسلے میں ڈسکورس نے جس جامعیت کے ساتھ حقائق کی گرہ کشائی کی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ اقتضائے وقت کے مطابق ڈسکورس نئے زمانے میں نئے خیالات کا نقیب بن کر فکر و نظرکو نہایت مؤثرانداز میںمہمیز کرنے کا وسیلہ ثابت ہو رہا ہے ۔ژیرار ژینت نے ڈسکورس کو درج ذیل پانچ عنوانات کے تحت زیر ِ ِبحث لا کرخوب دادِ تحقیق دی ہے ۔
۱۔ وقت( Time)۔۲۔دورانیہ،سپیڈ (Duration/Speed)۔۳۔فریکوئنسی(Frequency)۔۴۔موڈ(Mood) ۔۵۔زاویہ نگاہ(Perspective)
رخش حیات مسلسل رو میں ہے اور بیانیہ بھی تیزی سے نئے رنگ اور آہنگ اختیار کر رہا ہے ۔ زندگی کے اس سفر میں انسان کے رنگ و روپ میں موسموں کے مانند تغیر و تبدل کاغیر مختتم سلسلے جاری رہتا ہے۔ ژیرار ژینت کی بات دل سے نکلتی ہے اور سیدھی قاری کے دِل میں اُتر جاتی ہے ۔بیانیہ کے تجزیاتی مطالعہ میں اس نے مُوڈ اورزاویۂ نگاہ کے حوالے سے جو معنی خیز بات کی ہے وہ ہر حساس قاری کے دِل کی آواز ہے۔مُوڈ بدلنے سے نہ صرف زاویۂ نگاہ منقلب ہو جاتا ہے بل کہ روّیے بھی مکمل طور پر بدل جاتے ہیں۔ اس صورتِ حال سے بیانیہ بے نیاز نہیں رہ سکتا۔مُوڈ کی خرابی کے باعث اظہار تمنا کی سب راہیں مسدود ہو جاتی ہیں۔لفظ سُو جھتے ہیں تو معانی کی بغاوت اظہار مدعا کی راہ میں سدِ سکندری بن کر حائل ہو جاتی ہے ۔ اس دنیا میں انسان کا ہر فعل ایک و اضح اشارہ ہے۔ اس اشارے کی تفہیم اور اس سے وابستہ حقائق تک رسائی ہی ساختیات کا اہم موضوع اور ہدف ہے۔ خزاں کے سیکڑوںمناظر سے انسان کا واسطہ پڑتا ہے۔اس لیے طلوعِ صبح بہاراںکے بارے میں کسی فریب نظر کو خاطرمیں نہیں لانا چاہیے ۔ انسان اکثر فریب خیال کے بہکاوے میں آکر منزل سے بھٹک جاتا ہے ۔ان حالات میں اشارات کی معنویت کو سمجھنا وقت کا اہم تر ین تقا ضا ہے ۔ اپنی نوعیت کے اعتبار سے زندگی کی کہا نی بھی بہت معنی خیز ہے۔ زندگی کی کہا نی میں کردار کے کا م ، شکل و صورت اور اعمال پر کڑی نظر رکھنا نا گزیر ہے ۔ جب ایک تخلیق کا ر کسی بھی مو ضوع پر اپنی گل افشانی گفتار سے قارئین کو متا ثر کر تا ہے تو یہ اس کا بیا نیہ کہلا تا ہے ۔ اس کے بر عکس جب ایک زیرک تخلیق کار اپنا مافی الضمیرخود بیان کر نے کے بجائے کہانی کے کسی کردار سے اپنی مطلوبہ باتیں کہلواتا ہے تو تخلیقی اعتبار سے اسے نقالی کہاجاتا ہے ۔ اشارات کے نظام کوایک گنبد یا چھتری کے مانند سمجھنا چاہیے جس کی خنک چھائوں میںزندگی جاوداں ،پیہم رواں اور ہر دم جواں دکھائی دیتی ہے ۔زندگی کی ہر جنبش اور فعالیتوں کے تغیر و تبدل کی سب کیفیتیں یا تو حقائق کی جانب اشارہ کر تی ہیں یا کسی نقالی کی صورت میں سامنے آتی ہیںیا ان کا کسی جانب اشارہ ہوتا ہے ۔ ساختیات نے اس بات پر اصرار کیا کہ اشارات کا جو نظام ہمارے شعر و ادب میں جلوہ گر ہے ان میں اشارات اور اُن کی تفہیم من مانے طریقے سے کی جاتی رہی ہے ۔صدیوں سے ہمارے معاشرے میں مختلف اشارات سے جو معانی اخذ کیے جاتے رہے ہیں بہ ظاہران کا کوئی جواز دکھائی نہیں دیتا۔مثال کے طور پر کسی سے ملتے وقت مصافحہ کرنا یا ہاتھ ملانا یا الوداع کہتے وقت ہاتھ ہلانا عام آدمی کے لیے کیا معنی رکھتا ہے ۔اسی طرح غصے میں دانت پیسنا اور عالم رنج و غم میں دامن چاک کرنا ایسے اشارات ہیں کہ ان کی معنی خیزی کے لیے جو قابلِ تعین ضوابط وضع کیے گئے ہیںوہ سرا سر من مانی نوعیت کے ہیں۔ژیرا رژینت نے ا شارات کی اس معنی خیزی کے بارے میں اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا۔اس کا خیال تھا کہ اشارات کی یہ من مانی توضیح ساختیاتی فکر کے نزدیک نہ صرف بے معنی ہے بل کہ ہر اعتبار سے لائقِ استرداد بھی ہے ۔عالمی ادبیات میں اشارات کے استعمال کا رجحان مسلسل بڑھ رہا ہے ۔شعر و ادب میں اشارات کا یہ نظام زندگی کے دھنک رنگ مناظر پیش کرتا ہے ۔سماجی اور معاشرتی زندگی میں اشارات کی تہہ میں موجود مفاہیم کی سحر آفرینی عجب رنگ دکھاتی ہے ۔کسی مقام سے پرندوں کا لمبی اُڑان بھر کر کُوچ کر جانا آفاتِ ناگہانی کا اشارہ سمجھا جاتا ہے جب کہ کسی آبادی میں زاغ و زغن ،کرگس، بُوم و شپر کا غول در غول اُمڈ آنا وہاں رُتوں کے بے ثمر ہونے اور مستقبل کی بربادیوں کا اشارہ خیال کیا جاتا ہے۔
ژیرار ژینت نے واضح کیا کہ ایک حساس تخلیق کار جب اپنی کتابِ زیست کا گوشوارہ مرتب کرتاہے تو اس کی نگاہوں میں ایام گزشہ سے وابستہ متعدد علامات ،نشانات،بیانات ،حالات و واقعات اور نشیب و فراز کے مظہرمتعدد تاثرات اشارات کی صورت میں گُھومنے لگتے ہیں۔ معاً اس کے دل میں احتساب ذات کا خیال نمو پاتا ہے اور وہ عہدِ ماضی کی تلخ یادوں ماضی،تکلیف دہ حالات،جان لیوا صدمات ،سانحات و واقعات سے وابستہ کئی کرداروں کو حذف کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ تذ بذب کے اس عالم میں وہ اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ کچھ نشانات اس قدر انمٹ نقوش چھوڑ جاتے ہیں کہ انھیں کتابِ زیست سے حذف کرناسراسر خسارہ ہی خسارہ ثابت ہوتاہے۔جنھیں ہم دیکھ کرجیتے ہیںجب وہ آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں تو لوحِ دِل پر ان کی یادوں کے نشانات ہمیشہ کے لیے ثبت ہو جاتے ہیں۔ ادبی نشان سے مراد ایسی چیز ہے جو کسی اور چیز کو ظاہر کرے۔ سماجی اور معاشرتی زندگی اورادبیاتِ عالم میںمختلف نو عیت کے نشانات اور علامات مستعمل ہیں۔ جب آسمان پر گھنگھور گھٹا چھا جائے تو یہ جلد موسلا دھار بارش ہونے کا اشارہ ہے ،جب کسی عمارت سے دھواں آسمان کی بلندیوں کو چُھو رہا ہو تو یہ آتش زدگی کا اشارہ ہے ۔اشارات کا معانی کے ساتھ کوئی فطری یا موروثی ناتہ نہیں بل کہ سماجی اور ثقافتی شعبوں میں ان اشارات سے جس مفہوم کا انسلاک کر لیا جاتا ہے وہ من مانی کیفیت کا مظہر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ رنگ بھی متکلم ہوتے ہیں اور ان سے اظہار و ابلاغ کی نئی راہیں کُھلتی چلی جاتی ہیں۔ سمندروں میں رواں دواںبادبانی کشتیاں اور جہاز جب مختلف رنگوں کے پرچم لہراتے ہیں تو ان سے خاص پیغام پہنچائے جاتے ہیں جو دنیا بھر میں سمجھے اور پہچانے جاتے ہیں۔مثال کے طور پر سرخ رنگ کو خطرے کی علامت سمجھا جاتا ہے ،سفید رنگ کاپرچم جنگ بندی یا ہتھیار ڈالنے کا اشارہ ہے ،سبز رنگ سے پیش قدمی مرا دہے ،نارنجی رنگ تباہی کا اشارہ ہے ،زرد رنگ جبری حراست اور کالا رنگ ہلاکت ،سوگ اوراحتجاج کو ظاہر کرتا ہے ۔ژیرار ژینت کے خیال میں آوا ز اور اشارات کے سائے اور ان کے آہنگ سے وابستہ معانی سب کے سب من مانے انداز فکر کے حامل ہیں ۔
بیانیہ ڈسکورس میں جن اشاروں کو جگہ دی جاتی ہے ان کی وضاحت کرتے ہوئے ژیرار ژینت کہتا ہے اب وقت آ گیا ہے کہ نقاد پامال راہوں سے بچ کر نئے آفاق کی جانب عازم سفر ہو ۔کہانی اور بیانیہ میں جن اشارات اور ارتباط کی گنجائش ہے ان کو زیر بحث لانا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے ۔اس کے تنقیدی خیالات کا مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ اس کے خیال میں وہ معتبر ،مؤقر اور ہمہ گیر اثر آفرینی سے متمتع وسیلہ جو تخلیق کار اور ادبی تخلیقات کی شان کی نمائندگی کی فراواں استعداد سے متمتع ہے وہ ڈسکورس ہی ہے ۔بیانیہ ڈسکورس کے تجزیاتی مطالعہ کے بارے میںاس نے لکھا ہے :
“Analysis of narrative discourse will thus be for me,essentially,a study of the relationship between narrative and story,between narrative and narrating,and (to the extent that they are inscribed in the narrative discourse) between story and narrating.This position leads me to propose a new democration of the field of study.” (2)
اپنے اسلوب میں ژیرار ژینت نے بیانیہ کی مختلف جہات پر نہایت جرأت مندانہ موقف اپنایا ہے۔اس نے اس موضوع پر جو طرزِ ادا اپنائی وہ اوروں سے تقلیداً بھی ممکن نہیں۔جہاں تک اعمال ،افعال اور اشکال کا تعلق ہے ان میں جو ربط ہے اسی کے اعجاز سے الفاظ گنجینۂ معانی کا طلسم بن جاتے ہیں۔ اس نے قارئین کو اس جانب متوجہ کیا کہ جہاں تک تخلیقات کی توضیحات ،تشریحات اور بیانیہ کی تفصیلات اور ان کے فرق کا تعلق ہے تو ان سب کی تفہیمات کے لیے بحرِ مشمولات کی غواصی ناگزیر ہے ۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتاکہ الفاظ کی خاموشی بھی متکلم ہوتی ہے اور جان دار الفاظ بیانیہ کے مفاہیم کی توضیحات کے بارے میں کوئی ابہام نہیں رہنے دیتے۔ ژیرار ژینت نے بیانیہ اور اظہار و ابلاغ کے ربط کی صراحت کرتے ہوئے اس نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے :
“The study of the relations between the narrative and the descriptive amount ,then,in essence,to considerationof the diegetic functions of description, that is to say, the role played by the descriptive passages oraspects in the general economy of narrative.Without attempting to go into the detail of such a study here,one could at least mention,in the “classical” literary tradition(from Homer to the end of nineteenth century),two relatively distinct functions.The first of what might be called a decorative kind………………..The second major function of description , and the most obvious in our own day because it was imposed,with Balzac,on the tradition of the novel,is both explanatory and symbolic.(3)
ژیرار ژینت کے قصر تنقید کی عمارت جدت کی اساس پر استوار ہے ۔ اس نے ساختیاتی شعریات ، بیانیہ اورادبی ڈسکورس کو جس وسعت اورتنوع سے آ شنا کیا وہ اس کی انفرادیت کا منھ بولتا ثبوت ہے ۔ اس نے بیانیہ کی تحقیق کی نئی اور متنوع راہیں کھول دیں اور بولنے والے اور اس کے اعمال و افعال کاباریک بینی سے احوال پیش کرنے پر اصرار کیا۔اس شعبے میں اس کے وقیع کام کی بنا پر اس کا شمار رولاں بارتھ اور تودوروف کی صف میں کیا جاتا ہے ۔ بیانیہ کے تجزیاتی مطالعہ کو کلیدی اہمیت کا حامل سمجھتے ہوئے سال 1972میں اس نے تناظر(Perspective)کی جگہ ماسکہ میں لانے (Focalization)کی اصطلاح وضع کی جو اس کی جدت پسند طبیعت کا ثبوت ہے۔ماسکہ میں لانے کے عمل کو اس نے تین مدارج میں تقسیم کیا ہے ۔ اس نے سدا نئی منزلوں اور نئی راہوں کی جستجو کو اپنا شعار بنایا۔اس نے اس جانب توجہ دلائی کہ کسی بھی موضوع کا عمیق مطالعہ اس کو محدب عدسے کے ماسکہ میں لانے کے مترادف ہے۔ وہ اس بات کا آرزو مند دکھائی دیتا ہے کہ کہانیوں کے طلسم ہوش ربا کی دنیا کا بہ نظرِ غائر جائزہ لینا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے ۔کہانی کی دنیا میںکسی موضوع کو خاص حدود میں رکھتے ہوئے مرکزِ نگاہ بنانا اور بیانیہ سے متعلق سب احوال بیان کرنے والے کی فراہم کردہ معلومات،تعلقات،تجربات ،تاثرات اور جذبات و احساسات کی کرداروں اور دوسرے حوالوں سے جانچ پرکھ کرنا تنقیدی عمل کے لیے نا گزیر ہے۔ اس تمام عمل کو اس نے ماسکہ میں لانے کے عمل سے تعبیر کیا اور اسی کو مطمح نظر بنا کر کہانیوں کے تجزیاتی عمل میں کوہ سے کاہ تک کو دیکھنے کے لا محدود تفتیشی وتحقیقی عمل کو آگے بڑھانے کی سعی کی ۔اس کے معترضین کا خیال ہے کہ قحط الرجال کے موجودہ زمانے میںاس جہان سے سرسری گزرنے والوں کا ازدحام ہے ۔ہر جا جلوہ گر جہانِ دگر کی طرف کون دیکھتا ہے ،جب کوئی سننے والا اور دیکھنے والا ہی نہ ہو تو یہ سب کچھ قبر میں شور بپا کرنے کے مترادف ہے ۔حالیہ برسوںمیں افق ادب پر ضوفشاں اس کے افکار کے ستارے کی چکاچوند ماند پڑ گئی ہے ۔
مآخذ
1.Gerard Genette:Narrative Discourse,Translated by Jane E.Levin,Cornell University Press New York ,1980,Page 35
2.Do Page 29
3.Gerard Genette:Figures Of Literary Discourse,Columbia University Press New York,1982 Page134