مریم عمر سے باتوں میں مصروف تھی صائم بھی پاس بیٹھا پڑھ رہا تھا جبکہ زائر سامنے بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا۔ سائیڈ پر بیٹھی ملیحہ بظاہر ٹی وی دیکھ رہی تھی مگر اس کی نظریں مریم کے ادرگرد ہی طواف کر رہی تھی۔ مریم کو اپنی پشت پر اس کی چھبتی نظریں محسوس ہو رہی تھی مگر وہ نظر انداز کیے عمر کے ساتھ باتیں کر رہی تھی۔ مریم نے نامحسوس انداز میں پیچھے مڑ کر اُسے دیکھا وہ بھی اسے ہی دیکھ رہی تھی مریم کے دیکھنے پر وہ ہلکا سا مسکرائی مریم کا حلق تک کڑوا ہو گیا کچھ بھی کہے بغیر اس نے منہ پھیر لیا۔ مگر ایک نظر زائر کو دیکھنا نہیں بھولی تھی جو مگن سا اخبار پڑھ رہا تھا۔ اُس دن کے بعد سے وہ زائر سے نہیں بولی تھی ۔ اس کے سوالوں کے جواب ہوں ، ہاں میں دیتی تھی۔
“ویسے آپی ایک بات تو بتائیں ؟؟”۔ صائم نے اپنی کتاب پر سے سر اٹھا کر سرگوشی کی۔
مریم نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
“جب یہ آئیں ہیں ( اُس کا اشارہ ملیحہ کی طرف تھا) آپ اتنی خاموش خاموش کیوں رہتی ہیں ؟؟”۔ اس کی بات پر عمر نے مسکراہٹ چھپائی۔
“جو لوگ دوسروں کے گھروں میں ڈیرے ڈال کر بیٹھ جائیں وہ مجھے بلکل بھی اچھے نہیں لگتے۔۔۔”۔ مریم نے زائر کو سنانے کے لیے قصداً اونچی آواز میں کہا جو باآسانی اس کے کانوں تک پہنچ گیا تھا۔ مگر وہ نظر انداز کیے اخبار میں گم رہا ۔
مریم کے کچھ کہنے سے پہلے ہی زائر نے صائم کو وہاں سے اٹھا دیا۔ مریم تلملاتے ہوئے عمر کو گھورنے لگی جو مسلسل ہنس رہا تھا۔
“تمہارے دانت بہت نکل رہے ہیں “۔ وہ دانت پیستے ہوئے بولی۔
“میں اس ملک کا ایک آزاد شہری ہوں جو چاہے کروں “۔
“دو تھپڑ پڑے نا ساری آزادی نکل بھاگے گی تمہاری ۔۔۔۔ آزاد شہری!! ہونہہ”۔
“آپ کسی اور کا غصہ مجھ پر تو مت نکالیں “۔ وہ برا سا منہ بنا کر بولا۔
“تم نا زیادہ مت بنو اچھا جتنے ہو اتنے ہی رہو اور چلو تم بھی پڑھو فائنل پیپرز ہیں نا تمہارے چلو شاباش !!”۔ مریم کے کہنے پر وہ برا سا منہ بنا کر اٹھ گیا۔
※••••••※
“مجھے امید تھی تم ایسی کوئی گھٹیا کوشش ضرور کرو گے مگر تم نے تو دیر کر دی یہ سب بہت پہلے نہیں کرنا چاہیئے تھا تمہیں ؟؟”۔ زائر طنز سے گویا ہوا۔
“اس کی بات پر اصغر خان نے قہقہہ لگایا۔
میں تمہیں وقت دے رہا تھا کہ تم اپنی غلطی سدھار لو ۔۔۔ پھر میں نے سوچا چلو ایک اور موقع دیتے ہیں ۔۔۔ “۔
“میں نے یہ آخری موقع بھی ضائع کیا اصغر خان تم نے جو کرنا ہے کر لو ۔۔۔ میں بھی تو دیکھو کتنا دم ہے تم میں “۔ زائر سرد آواز میں بولا۔
“مجھے تم سے کوئی دشمنی نہیں ہے زائر میں صرف یہ چاہتا ہوں تم کیس واپس لے لو ۔۔۔۔ کیس ہوتے ہوئے میں پاکستان نہیں آ سکتا ۔۔۔ جیسی ڈیل کرنا چاہتے ہو کر لو تمہاری جو بھی شرائط ہوں گی میں ماننے کے لیے تیار ہوں ۔۔۔ بدلے میں تم کیس واپس لے لو !!”۔ اس کی بات سن کر زائر کے ہونٹوں پر ایک تلخ مسکراہٹ ٹھہر گئی۔
“ٹھیک ہے میں تمہاری بات ماننے کے لیے تیار ہوں مگر تمہیں میری ایک شرط ماننا ہو گی “۔
“ٹھیک ہے میں مانو گا بس تم کیس واپس لے لو “۔وہ تیزی سے بولا۔
“تم عدالت کے سامنے نہیں پیش ہونا چاہتے ٹھیک ہے مگر تم نے جن لوگوں کو دھوکا دیا ہے تم ان سب کے سامنے اپنے جرم کا اقرار کرو گے ائیر پورٹ پر ہی ۔۔۔ کیونکہ ۔۔۔ مجھے تم پر بلکل بھی بھروسہ نہیں ہے ۔۔۔ بولو منظور ہے ؟؟”۔زائر کی بات پر اس نے لب بینچ لیے ۔
“مجھے لگتا ہے تم اپنے گھر والو سے بلکل بھی پیار نہیں کرتے”۔ اس کے لہجے میں چھپی دھمکی کو سمجھ کر زائر نے بمشکل اپنا غصہ ضبط کیا۔
“میں تمہیں دو دن مزید دے رہا ہوں خوب سوچ بیچار کر لو کیونکہ اس کے بعد میں تمہیں کوئی موقع نہیں دوں گا “۔ وہ مزید بولا۔
“میرا انکار ہے تب بھی اور ابھی بھی ۔۔۔۔”۔ زائر سرد لہجے میں بولا۔
” تم جانتے ہو نا انصاف کتنا مہنگا ہے یہاں ۔۔۔ میں تمہیں ایسے ہزاروں کیس بتا سکتا ہوں جن کو بیس سال بعد بھی انصاف نہیں ملا ۔۔۔ اپنی ساری جمع پونجی بھی لٹا دیتے ہیں بیچارے لوگ ۔۔۔۔ چچ چچ ۔۔۔۔ اور دھکے بھی کھاتے ہیں ساری زندگی اپنے پیاروں کے لیے مگر پھر ہار مان کر ایک دن چپ چاپ بیٹھ جاتے ہیں ۔۔۔۔ تم بھی ساری زندگی انصاف کے لیے دھکے کھاؤ گے نا تب بھی تمہیں انصاف نہیں ملے گا زائر عباس۔۔۔۔ کیونکہ عنقریب تمہیں بھی عدالت جانے کی ضرورت پڑے گی ۔۔۔ اپنے بھائی کے لیے یا شاید ۔۔۔ اپنی بیوی کے لیے میں تمہارا مستقبل ایسے دیکھ رہا ہوں “۔ اس کے مسکراتے لہجے پر زائر کی رگوں میں ڈورتا خون ایک لمحے کے لیے جیسے رک سا گیا۔ اور پھر زائر ہنسا اور ہنستا ہی گیا ۔ اس نے بمشکل اپنی ہنسی پر قابو پایا۔
” پہلی بات تو یہ کہ میں واقعی ڈر جاتا اگر میری قسمت تم لکھتے تو ۔۔۔ چچ چچ اصغر خان تم واقعی صدمے سے پاگل ہو گئے ہو اور دوسری بات انصاف واقعی بہت مہنگا تھا کچھ تم جیسے لوگ اس ادارے میں بھی ہوتے ہوں گے ۔۔۔۔ مگر تم بھول رہے ہو تو میں یاد کروا دوں حالیہ کیسسز کا فیصلہ ۔۔۔ ٹی وی تم دیکھتے ہو گے نا ۔۔۔۔ اگر لوگوں کو انصاف نا ملتا نا تو آج ہر کسی کی نظر کورٹس پر نا ہوتی ۔۔۔۔ ہر غریب آج بھی انصاف کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے ۔۔۔۔ وہ ہلکا سا مسکرایا۔
جو مستقبل تم مجھے دیکھا رہے تھے نا میں اس سے بدتر مستقبل تمہارا دیکھ رہا ہوں اصغر خان !! یہ وہ زمانہ نہیں ہے جب امیر لوگ ظلم کر کے بھی آزاد گھومتے تھے ، مظلوم کو دھمکیوں سے ڈرا کر چپ کروا دیتے تھے، تم نے جو کچھ بھی کیا ہے تمہیں اس کا پھل ضرور ملے گا اور بہت جلد ملے گا ۔۔۔۔”۔ فون ہاتھ میں پکڑے وہ کھڑکی کے پاس جا کھڑا ہوا اس کی آنکھوں میں گہری سوچ کی پرچھائیاں تھی۔
※••••••※
مرسلین گھر آیا تو سارا کو اپنے انتظار میں جاگتے پا کر وہ شرمندہ سا ہو گیا۔
اسلام علیکم!! آپ کیوں جاگ رہی ہیں امی؟؟ مومل کہاں ہے ؟؟
“وعلیکم اسلام !! وہ تو کب کی سو چکی ۔۔۔ اور میں کیوں نہیں جاگ سکتی بچہ گھر سے باہر ہوتا ہے تو کس ماں کو نیند آتی ہے “۔ وہ اسے لیے کچن میں آ گئی۔
مرسلین نے سر ہلا دیا۔
“مجھے تم سے بات بھی کرنی تھی “۔ سارا اُس کے آگے کھانا رکھتے ہوئے بولی۔
“جی حکم کریں “۔
بھابھی ہادیہ کے رشتے کے لیے سوچ رہی ہیں اس کے ماموں اپنے بیٹے کے لیے کہہ رہے تھے شاید۔۔۔۔ اور بھابھی سنجیدگی سے سوچ رہی ہیں اس رشتے کے لیے!!”۔ مرسلین کا منہ تک جاتا ہاتھ رکا۔
“آپ کیا چاہتی ہیں ؟؟”۔ اس نے سنجیدگی سے پوچھا۔
“جو تم چاہتے ہو “۔ وہ برجستہ بولی۔
مرسلین یکدم ہنس دیا۔
“تم سمجھتے ہو تمہاری ماں تم سے غافل ہو گئی ہے ،ہر وقت اس کو تنگ ایسے ہی تو نہیں کرتے تھے تم ۔۔۔”۔ وہ مسکراتے ہوئے بولی۔
“آپ میری جاسوسی کر رہی تھی کیا؟؟”۔
“ماں بھی تو تمہاری ہوں “۔ وہ ہنستے ہوئے بولی۔
“کل بھابھی سے بات کرو گی میں ۔۔۔ یوسف بھائی اور تمہارے ابو بھی گھر پر ہوں گے اور نبیلہ آپا بھی کل آئے گی ۔۔۔۔اچھا ہے سب کے سامنے بات ہو جائے!!”۔
“پھوپھو کیوں آئیں گی ؟؟”۔
“بہت دنوں سے نہیں آئی شہر سے باہر تھیں کہہ رہی تھی کل آئیں گی “۔ ان کے بتانے پر مرسلین نے فقط سر ہلانے پر ہی اکتفا کیا۔
“تو پھر تمہاری طرف سے ہاں ہے نا ؟؟”۔ انہوں نے چائے کا کپ اس کو پکڑاتے ہوئے شرارت سے کہا۔ مرسلین نے قہقہہ لگایا۔
“ماں جی جیسے آپ کی مرضی ۔۔۔۔ مشرقی لڑکوں کی خاموشی میں ہی ہاں ہوتی ہے !!”۔ وہ بھی جواباً شرارت سے بولا۔
“ہاں تمہاری خاموشی تو میں چار سال سے دیکھ رہی ہوں “۔ ان کے کہنے پر وہ ایک بار پھر ہنس دیا۔
“چائے پی سو جانا ، اب کوئی کام کرنے کی ضرورت نہیں ہے اچھا!!”۔
“جی ماں جی جیسے آپ کا حکم !!”۔ وہ اسے شب خیر کہتے ہوئے وہاں سے چلی گئی۔ مرسلین کے ہونٹوں پر آسودہ مسکراہٹ ٹھہر گئی۔ اس نے موبائل نکال کر ہادیہ کا نمبر ملایا اور مسکراہٹ دبائے انتظار کرنے لگا۔ بیل جا رہی تھی ، رات کا ایک بج رہا تھا وہ فون اٹھانے کا انتظار کرنے لگا۔ ایک ، دو ، تین ،چار،۔۔۔۔!!
فون نا اٹھانے پر وہ جھنجھلایا پھر بات صبح پر ڈالتا وہ سونے کے لیے اٹھ گیا۔
※••••••※
ملیحہ کو بلال صاحب اپنے گھر لے گئے تھے اور اس بات کی سب سے زیادہ خوشی مریم کو ہوئی تھی۔ اس بلا کے ٹلنے پر اس نے شکر ادا کیا تھا۔ رات کے گیارہ بج چکے تھے مگر زائر ابھی تک گھر نہیں آیا تھا۔ عمر ٹی وی پر مووی دیکھ رہا تھا اسے گیٹ کھولنے کی تاکید کر کے وہ سونے چلی گئی۔ حالانکہ زائر کے پاس ایک چابی ضرور ہوتی تھی۔ صائم بھی اُس کے پاس آ کر بیٹھ گیا۔
زائر رات کے ایک بجے گھر میں داخل ہوا تھا تھکن اس کے چہرے سے واضح تھی ۔ لاک کھول کر وہ اندر داخل ہوا۔ عمر صوفے پر بیٹھا ٹی وی دیکھ رہا تھا۔ زائر نے ایک نظر اسے دیکھا اور صوفے پر بیٹھ کر آنکھیں موند لی۔
“کیوں دیر گئے گھر آئے ہو،سجنی سے کرو گے بہانا کیا؟؟”۔ عمر نے مسکراہٹ دبا کر شعر پڑھا۔
زائر نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا کافی کا کپ لاتا صائم اس کے حسب حال شعر پڑھنے پر اپنا قہقہہ نہیں روک سکا تھا۔
“بتا دو بھائی کون سا بہانا کرو گے ؟؟”۔ صائم اسے کپ پکڑا کر شرارت سے بولا۔
“مجھے بہانا کرنے کی کیا ضرورت ہے جو سچ ہے وہی بتاؤں گا “۔ زائر کافی پیتے ہوئے بولا۔
“کیا سچ ہے “۔ عمر نے تجسس سے پوچھا۔
“اتنا فری نہیں کیا میں نے تمہیں کہ اب اپنے سیکرٹس تمہیں بتاؤں “۔
“ہاں اب مجھے کیوں بتائیں گے ۔۔۔۔ یہ ہوتے ہیں وہ بھائی جن کے خون سفید ہو جاتے ہیں “۔ وہ اپنے نادیدہ آنسو صاف کرتے ہوئے بولا۔
“میرا خون لال ہی ہے ڈونٹ وری “۔ وہ مزے سے
بولا۔
“تمہاری آپی کہاں ہے ؟؟”۔ ادھر اُدھر نظر ڈوراتے ہوئے اس نے سرسری انداز میں پوچھا۔
“اپنے کمرے میں ہیں سو رہی ہیں “۔ اس نے فقط سر ہلا دیا۔ اور خالی کپ رکھ کر اٹھ گیا۔
“تم لوگ بھی اٹھ جاؤ اب بہت رات ہو گئی ہے “۔
“آپ جائیں ہم بس ایک گھنٹے بعد اٹھ جائیں گے “۔ صائم ٹی وی میں گم بولا۔
زائر نے بس گھورنے پر ہی اکتفا کیا۔
زائر نے کمرے کی لائٹ جلائی مریم سوتے ہوئے نظر آئی۔ اسے دیکھ کر بےاختیار اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آئی۔ اسے دکھ ہوا تھا جب اُس نے مریم کے ساتھ غصے سے بات کی تھی اس کے بعد موقع ہی نہیں ملا کے وہ اس سے تفصیل سے بات کرتا۔ وہ جانتا تھا کہ مریم ملیحہ کو پسند نہیں کرتی اور ملیحہ کی فیور کرنے پر ہی وہ زائر سے ناراض تھی۔ اس کا بےاختیار دل چاہا کہ وہ اسے اٹھائے مگر پھر اس کی نیند خراب ہونے کی وجہ وہ دل مسوس کر رہ گیا۔ اور فریش ہونے چلا گیا۔
※••••••※
“کیا امی یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ ؟؟؟ مجھے نہیں کرنی شادی اُس کے ساتھ ۔۔۔”۔ وہ جھنجھلائے ہوئے انداز میں کہہ رہی تھی۔ سارا کے بات کرنے پر وہ سب ہی بہت خوش ہوئے تھے زارا کی خوشی کا تو کوئی ٹھیکانا ہی نہیں تھا۔ مرسلین تو ویسے ہی انہیں بہت پسند تھا۔ انہوں نے اسی وقت ہاں کر دی تھی مگر سارا کے کہنے پر انہوں نے ہادیہ سے بات کی تھی۔ یہ بات سنتے ہی وہ اچھل پڑی۔
“کیوں کیا برائی ہے اُس میں ارے گھر کا بچہ ہے لاکھوں میں ایک ہے اور تمہارے ابو کو بھی بہت پسند ہے یہ رشتہ خبردار کوئی ایسی ویسی بات کی تو !!”۔ زارا نے اسے آڑے ہاتھوں لیا۔
“مجھے نہیں کرنی شادی اُس سے بس “۔
“ہادیہ تمہارے باپ نے فیصلہ کر لیا ہے اتنا اچھا بچہ ہے اور تم ہو کہ ناشکری کر رہی ہو “۔
ہادیہ خاموشی سے لب بینچ گئی۔
رات کے کھانے پر وہ جب اپنے کمرے سے نہیں نکلی تو مرسلین اس کے کمرے میں چلا آیا۔
“یار تم شرما کیوں رہی ہو مجھ سے ابھی تو صرف رشتے کی بات چلی ہے کون سا شادی ہو گئی ہے آج آفس سے بھی جلدی اٹھ آئی تھی تم ویسے خیریت ہے نا ۔۔۔”۔ وہ کمرے میں آتے ہی شروع ہو گیا تھا۔ آخر میں لہجہ سرسری بنا کر بولا۔ ہادیہ نے ایک نظر اسے دیکھا اور دروازے کی طرف اشارہ کیا۔
“وہ باہر جانے کا راستہ تم جا سکتے ہو “۔ وہ کہہ کر پھر سے کتاب میں گم ہو گئی۔ اس کی بےمروتی پر مرسلین کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔
“حد ہے مشرقی لڑکی اتنی بدتمیز کب سے ہو گئی ہے “۔ وہ جل کر بولا۔
“جب سے تم ہوئے ہو “۔ وہ برجستہ بولی۔
“شرم تو نہیں آئی رشتہ بھیجتے ہوئے ” ۔ اسے سارا سے پتہ چلا تھا کہ اس رشتے میں مرسلین کی بھی خواہش تھی۔ اس کی بات پر مرسلین ہنسا اور پھر ہنستا ہی گیا۔ ہادیہ نے ناگوار نظروں سے اسے دیکھا جو پاگلوں کی طرح ہنس رہا تھا۔
بمشکل اپنی ہنسی پر قابو پا کر معذرت خواہ نظروں سے اسے دیکھا۔
“ہادیہ یوسف آپ بتانا پسند کریں گی اس میں بےشرمی کی کیا بات ہے؟؟”۔ وہ مسکراہٹ دبائے اس سے پوچھ رہا تھا۔
“ہونہہ، میں تم سے بحث نہیں کرنا چاہتی “۔ وہ لاجواب ہوئی۔
“چلو ٹھیک ہے اس بحث کو چھوڑو ، اور خوشی خوشی شادی کی تیاریاں کرو ، انتظار کروں گا میں تمہارا!!”۔ چمکتی آنکھیں اُس پہ جمائے وہ خوبصورت مسکراہٹ لیے بولا۔
“سوچ کے بتاؤ گی “۔ وہ مسکراہٹ دبائے بولی۔
اتنا بھی مت سوچنا ۔۔۔۔ بعد دفعہ زیادہ سوچتے ہوئے بھی انسان بہت سی اچھی چیزیں کھو دیتا ہے “۔ اس کا اشارہ اپنی طرف تھا۔
“بہت فلسفہ نہیں بولنا آ گیا تمہیں ؟؟”۔ وہ طنز سے بولی۔
“آپ کی محبت کی مہربانی ہے ورنہ یہ ناچیز کس کام کی ۔۔۔”۔ وہ گہری سانس بھرتے ہوئے بولا۔
“میرا خیال ہے اپنے دماغ کا علاج کرواؤ اور ہاں ڈومیسٹک violence کے ٹاپک پر مجھے مٹیریل چاہیئے کل تک ۔۔۔۔۔ “۔
“جو حکم میم !! کل تک کام ہو جائے گا”۔
“اب تم جا سکتے ہو “۔
“بڑے بےآبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے”۔ اس کے شعر پڑھنے پر ہادیہ بےساختہ ہنس دی۔۔۔
وہ گھر آیا تو مرسلین اور احمد آئے ہوئے تھے۔ زائر مسکراتے ہوئے ان سے بغل گیر ہوا۔
“تم نے تو کراچی جانا تھا ابھی تک گئے نہیں ؟؟”۔
“جانا تھا مگر اس نے ٹکٹ کینسل کروا دی اور ادھر لے آیا”۔ احمد نے مرسلین کو گھورا۔ زائر نے حیرت سے مرسلین کو دیکھا۔
“میں شادی کر رہا ہوں “۔ اُن دونوں کے کچھ کہنے سے پہلے ہی مرسلین بول اٹھا۔
“چچ چچ کس بیچاری کی قسمت پھوٹ رہی ہے ۔۔۔۔ میری ساری ہمدردیاں اُس کے ساتھ ہیں ۔۔۔ “۔ زائر کے کہنے پر مرسلین نے خشمگیں نظروں سے اسے گھورا۔
“ماں باپ نے کتنے ارمانوں سے اپنی بیٹی کا رشتہ “اِس” کو دیا ہو گا مگر حقیقت کا ان لوگوں کو کیا پتا۔۔۔۔ کاش میں ان کے لیے کچھ کر سکتا۔۔۔”۔ مرسلین نے صبر سے ان دونوں کی بکواس سنی اور پھر سکون سے بولا۔
“میری شادی ہادیہ یوسف سے ہو رہی ہے “۔ زائر اور احمد کے منہ کھلے۔
“میسنے ،گھنے گھر کی لڑکی پہ نظر رکھی ہوئی تھی ویسے تو اس سے بڑی دشمنی تھی تمہیں ۔۔۔” زائر نے اسے لتاڑا۔
مرسلین مسلسل مسکرا رہا تھا۔
“دشمنی محبت میں کب بدلی پتا ہی نہیں چلا !!”۔اس کی بات پر زائر کو حیرت کا جھٹکا لگا۔
“تم کہاں گم ہو ؟؟”۔ زائر اس کی آنکھوں کے سامنے چٹکی بجا کر بولا۔
احمد نے مرسلین کو گھورا۔
“میرے بھائی مجھے بھی اس سانحے کی کچھ دن پہلے ہی خبر ہوئی تھی ، اس گھنے نے ہمیں واقعی پتا نہیں چلنے دیا مجھے تو اتفاقاً پتا چل گیا تھا”۔
مرسلین مسلسل مسکرا رہا تھا۔
“بھائی آج کہیں تمہارے دانت ہی نا ٹوٹ جائیں اتنا جو مسکرا رہے ہو “۔ احمد جل کر بولا۔
“تم جل ککڑے ، جل کیوں رہے ہو تم بھی کر لو شادی ۔۔۔ کس نے روکا ہے مگر دوسروں کو تو نظر نا لگاؤ”۔
“میں کیوں کروں شادی ۔۔۔۔ ابھی میری عمر ہی کیا ہے ۔۔۔۔ یہ تو تم دونوں کو ہی جلدی تھی شادی کی ۔۔۔ مفت کی ذمہ داریاں !!”۔
“ابھی مریم نے سن لیا نا تو آج سے اس گھر میں تمہارا داخلہ ممنوع ہو جانا ہے !!”۔
“اپنے دل کی بات مت کرو ۔۔۔ میں جانتا ہوں بھابھی بہت اچھی ہیں “۔
“اچھا اس بحث کو چھوڑو اور شادی کی تیاریوں میں میری مدد کرو بہت دعائیں ملے گی ۔۔۔ “۔ مرسلین کی بات پر احمد نے قہقہہ لگایا۔
“مجھے نہیں چاہیئے ایسی دعائیں “۔
“تم جیسا بےمروت انسان میں نے آج تک نہیں دیکھا”۔
“دیکھو گے بھی نہیں !!”۔ زائر نے لقمہ دیا۔
※••••••※
اُن دونوں کے جانے کے بعد زائر کمرے میں آیا تو مریم کو دیوارگیر الماری میں گھسے دیکھ کر ٹھٹھک گیا۔ دروازہ کھلنے کی آواز پر مریم نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر سے اپنے کام میں مصروف ہو گئی۔ زائر نے گہرا سانس لیا اور صوفے پر بیٹھ کر شوز اتارنے لگا۔ چینج کرنے کے بعد وہ کمرے میں آیا تو مریم اس کی کافی رکھ کر اب سائیڈٹیبلیز کی درازیں کھنگال رہی تھی۔
“آہم ” ۔۔۔۔ زائر نے کھنکھار کر اسے متوجہ کیا مگر وہ نظر انداز کیے اپنے کام میں مصروف رہی۔
“کیا ڈھونڈھ رہی ہو ؟؟”۔ زائر کے پوچھنے پر بھی وہ چپ رہی ۔ زائر کی تیوریاں چڑھی۔
“کیا ہوا ہے کیا گم گیا ہے ؟؟”۔ اس کا بازو پکڑ کر اسے اپنی طرف متوجہ کیا۔
مریم نے سنجیدگی سے اسے ایک نظر دیکھا ۔ اور ایک نظر اس کے ہاتھ پر ڈالی جس کی گرفت میں اس کا بازو تھا ۔
“وہ دوست ہے میری اور تم بیوی ۔۔۔ وہ چاہتے ہوئے بھی اس مقام تک کبھی نہیں پہنچ سکتی جہاں تم ہو ۔۔۔۔ مجھ سمیت میری ہر چیز پر صرف اور صرف تمہارا حق ہے ۔۔۔۔ میرے ساتھ بہت ساری لڑکیاں کام کرتی ہیں ان سے بات چیت بھی ہوتی ہے ۔۔۔۔ ان میں سے کوئی بھی تمہارا مقابلہ نہیں کر سکتی ۔۔۔ اور نا ہی باہر سے کوئی آ کر تم سے تمہاری جگہ چھین لے گا۔۔۔۔ اس لیے ڈئیر وائف آپ کو پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔”۔ مریم نے گہری سانس لی۔ کچھ سکون حاصل ہوا تھا باقی اس چڑیل کے چلے جانے کے بعد ہی آئے گا۔۔۔!!
“اس کی وجہ سے آپ نے مجھ سے بدتمیزی کی تھی “۔ اُس کی شرٹ کے بٹن کو گھوماتے ہوئے وہ بولی۔
“بدتمیزی ؟؟ خدا کا خوف کرو لڑکی۔۔۔ صرف ایک بات کہی تھی اگر میں نا کہتا تھا نا تو اب تک میڈیم نے اسے گھر سے ہی نکال دینا تھا”۔
“وہ واپس کب جائے گی ؟؟”۔ مریم نے سر اٹھا کر آہستگی سے اُس سے پوچھا۔
اس کے انداز پر زائر نے بےساختہ امڈ آنے والی مسکراہٹ کو چھپایا۔
“پتا نہیں ۔۔۔”۔ اس کے جواب پر مریم نے خفگی سے اسے دیکھا۔ زائر ہنس دیا۔
“یار مجھے واقعی نہیں پتا مگر میں اسے جلد بھیج دوں گا اس کی وجہ سے میرا گھر خراب ہو رہا ہے ۔۔۔۔ “۔
“اسے شاپنگ بھی کروائی تھی ؟؟ اور مجھے ابھی تک جوتے کا سٹریپ بھی لے کر نہیں دیا”۔ آخری بات وہ دل میں بولی تھی ۔ اُسے سب سے زیادہ دکھ اسی بات کا تھا۔ احمد کے گھر جانے سے پہلے زائر نے اسے ڈھیروں شاپنگ کروائی تھی۔
“وہ مہمان تھی یار اور ہم مہمان نواز قوم ہیں ۔۔۔۔ ہماری روایت ہے یہ اس لیے اسے شاپنگ کروائی تھی۔ !!” وہ اپنی صفائی میں بولا۔
“مجھے تو کبھی نہیں کروائی !!”۔ وہ ایکدم بولی اور پھر شرمندہ ہوتے ہوئے زبان دانتوں تلے دبا لی۔
زائر زور سے ہنس دیا۔
“تو اصل دکھ اس بات کا ہے اور ملیحہ بیچاری کا نام ویسے ہی لیا جا رہا تھا”۔ زائر کے ہنسنے پر مریم نے اپنا ہاتھ چھڑوایا۔
“میں نے ویسے ہی بات کی تھی “۔ وہ شرمندہ ہوتے ہوئے بولی۔
“نہیں یار غلطی میری ہی ہے مجھے کبھی خیال ہی نہیں آیا ۔۔۔اچھا چلو کل چلتے ہیں مارکیٹ ریڈی رہنا!!”۔
“نہیں اتنا ضروری نہیں ہے میرے پاس سب کچھ ہے وہ تو بس ویسے ہی ۔۔۔۔!!”۔ اس کے کہنے پر زائر ایک بار پھر ہنس دیا۔
“تم ریڈی رہنا!!”۔ اسے تاکید کر کے وہ لیپ ٹاپ پر کام کرنے لگ گیا۔ جبکہ مریم اپنے آپ کو کوستے ہوئے اپنا کھویا ہوا بریسلیٹ ڈھونڈھ رہی تھی جو زائر نے اسے شادی پر گفٹ کیا تھا۔
※••••••※
پھر سب کچھ بہت جلدی میں ہوتا گیا تھا۔ رشتے کے لیے ہاں کیا کی پورا گھر شادی کی تیاریوں میں گم ہو گیا تھا ۔ روزانہ بازاروں کے چکر لگتے ہر چیز مرسلین کی پسند کو مد نظر رکھ کر خریدی جا رہی تھی۔۔۔۔۔ مرسلین کے کہنے پر ہی شادی اتنی جلدی ہو رہی تھی ۔ سارا کے اتنی جلدی شادی کا شور مچانے پر وہ پرسکون انداز میں بولا۔۔۔۔!!
امی مجھے اُس لڑکی پر بلکل بھی بھروسہ نہیں ہے میں اُسے بچپن سے جانتا ہوں اگر اس نے شادی کے لیے ہاں کی ہے نا تو کل کو چھوٹی سی بات پر وہ ناں بھی کر سکتی ہے ۔۔۔۔ معاف کیجئے گا مگر شادی کو اور لیٹ نہیں کر سکتا!!”۔ اُس کے جواب پر سارا نے ہنستے ہوئے اس کے کندھے پر دھپ ماری۔
پورے گھر کو برقی قمقموں سے سجایا گیا تھا۔یوں لگتا تھا جیسے پورا شہر اس کی خوشیوں میں شریک ہونے ہو آ گیا ہو۔۔۔۔ نکاح کے بعد مسکراہٹ تو جیسے اس کے ہونٹوں سے چپک گئی تھی۔
“مرسلین دانت اندر کرو ورنہ لوگوں نے سمجھنا ہے بیچارے کی بڑی ہی مشکل سے شادی ہوئی ہے “۔ زائر نے سامنے بظاہر مسکرا کر دیکھتے ہوئے دانت پیس کر کہا۔ احمد نے بمشکل اپنا قہقہہ کنٹرول کیا تھا۔
“یار کیسے نا مسکراؤ ۔۔۔۔ سچ میں میں بہت بہت خوش ہوں آج ۔۔۔۔ مسکراہٹ خودبخود میرے چہرے پر آ رہی ہے ۔۔۔ میں کوئی جان بوجھ کر تھوڑی دانت نکال رہا ہوں “۔ آخر میں وہ خفگی سے بولا۔
“اچھا اچھا زیادہ چھچھورے مت بنو اور چپ کر کے بیٹھو انکل یوسف ادھر ہی آ رہے ہیں “۔ ( کمینہ ایک تو اتنا ہینڈسم لگ رہا ہے اور رہی سہی کسر مسکرا کر نکال رہا ہے ۔۔۔۔ نظر ہی نا لگ جائے ) احمد کے کہنے پر وہ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ آخری بات وہ صرف سوچ کر رہ گیا۔
یوسف صاحب اپنے دوستوں کے ہمراہ آئے تھے۔ یوسف صاحب کی خوشی کا تو کوئی ٹھیکانہ ہی نہیں تھا۔ مرسلین بلکل ان کے بچوں کی طرح تھا۔ بہت سالوں کی خواہش تھی جو آج پوری ہوئی تھی۔ وہ مسکرا کر ان کے دوستوں سے بات کر رہا تھا جب ہادیہ کو جب سٹیج پر لایا گیا ان سے بات کرتے ہوئے مرسلین ایک لمحے کو ٹھٹھک گیا۔ بمشکل اپنی نظریں اس پر سے ہٹا کر وہ ارسل صاحب کی طرف متوجہ ہوا تھا۔ جو اسے مبارکباد دے رہے تھے۔
ڈیپ ریڈ کلر کے دیدہ زیب لہنگا پہنے ، خوبصورتی سے میک اپ کیے وہ نظر لگ جانے کی حد خوبصورت لگ رہی تھی ۔
سب کھانے کے لیے اٹھ گئے تو مرسلین بظاہر سامنے دیکھتے ہوئے اس کی طرف متوجہ تھا۔
“آج تو تم بہت خوبصورت لگ رہی ہو۔۔۔۔۔ پہلے تو سر جھاڑ منہ پھاڑ پھرتی رہتی تھی ۔۔۔۔ تم واقعی اتنی خوبصورت لگ رہی ہو یا میرے ساتھ ہونے کا کمال ہے “۔ مرسلین آہستگی سے بولا۔
ہادیہ اُس کے پہلی بات وہ آہستگی سے مسکرائی مگر دوسری بات سنتے ہی اس کی مسکراہٹ غائب ہوئی۔ اُس نے دانت پیسے ۔۔۔۔ “تمہیں تو میں بتاؤں گی اب مرسلین حیدر خود تو جیسے اپالو ہے نا۔۔۔۔”۔ (اپالو یونانی دیومالا کا حسین ترین دیوتا تھا)۔
“آج تو بہت چپ چپ ہو کہیں میری ہی نظر نا لگ جائے “۔ وہ مسکراہٹ دبائے بولا۔ ہادیہ چپ رہی اتنے سارے لوگوں کے درمیان وہ اسے کچھ کہہ نہیں سکتی تھی مگر خیر بعد میں بدلہ لوں گی اس سے !! وہ سوچ کر رہ گئی۔
※••••••※
مرسلین نے جب کمرے میں قدم رکھا تو وہ گھونگھٹ اوپر کیے پورے کمرے کا جائزہ لے رہی تھی۔ مرسلین نے جیسے سر پیٹ لیا۔ وہ سرشاری سے چلتا ہوا اس کے پاس آیا۔
“کیسے مزاج ہیں دشمن بیوی کے ؟؟”۔ وہ اپنی حرکتوں سے ابھی بھی باز نہیں آیا تھا۔
“ٹھیک ہوں “۔ وہ جواباً آہستگی سے بولی۔
یہ رہا تمہارا گفٹ “۔ اس نے خوبصورت سی انگوٹھی اسے پہنائی۔
“اس دن کا میں نے بہت انتظار کیا تھا۔ اس کمرے میں کئی بار تمہیں چلتے پھرتے دیکھا تھا میں نے۔۔۔۔ تمہیں تنگ کرنے کا مقصد صرف تمہیں اپنی طرف متوجہ کرنا تھا۔۔۔۔ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ تمہاری محبت میرے دل میں اتنی گہری ہو جائے گی۔۔۔۔ کبھی کبھی تو مجھے یقین نہیں آتا تھا کہ میں تمہاری محبت میں پاگل ہو گیا ۔۔۔۔”اُس کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لیے وہ چمکتی آنکھیں اس پر جمائے کہہ رہا تھا۔
“یہ تو ہو گئی افسانوی باتیں اب اصل بات بتاؤ “۔ہادیہ بہت انہماک سے اس کی باتیں سن رہی تھی اس کے خاموش ہونے پر وہ آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے بولی۔
مرسلین نے خشمگیں نظروں سے اسے دیکھا جو مسکراہٹ چھپانے کی کوشش کر رہی تھی۔
“اور کیا کہہ رہے تھے کچھ دیر پہلے ، میں سر جھاڑ منہ پھاڑ پھرتی تھی ، اور میری خوبصورتی تمہارے ساتھ ہونے کی وجہ سے ہے “۔ ہادیہ کے ساری باتیں دہرانے پر مرسلین ڈھٹائی سے ہنس دیا۔
“میں ہر حال میں سچ بولتا ہوں جھوٹ بولتے ہوئے میری زبان میرا ساتھ نہیں دیتی مجبوری ہے یار !!”۔ وہ ہنستے ہوئے بولا۔ ہادیہ نے اسے گھورا اور اسے ہنستے دیکھ کر خود بھی ہنس پڑی۔
※••••••※
“کیا پروگرس ہے موسیٰ؟؟ “۔ اصغر خان کل ہی واپس آیا تھا اور آج اس نے موسیٰ کو طلب کر لیا تھا۔
“سر اُس شخص کا سارا ریکارڈ بلکل صاف ہے مجھے ڈھونڈھنے سے بھی اُس کے خلاف کچھ نہیں ملا مگر ہم ابھی بھی اُس کے پیچھے ہیں امید ہے کچھ نا کچھ مل جائے گا اُس کے خلاف !!”۔ موسیٰ کے بتانے پر وہ پرسوچ انداز میں بولا۔
“اور اس کی فیملی کے بارے میں ؟؟”۔
“نہیں سر اُن لوگوں کے بارے میں بھی کچھ نہیں ملا جسے ہم اس کے خلاف استعمال کر سکیں “۔
“اچھا ٹھیک ہے تم جاؤ “۔ اس کے کہنے پر موسیٰ الٹے قدموں باہر نکل گیا۔
اصغر خان کی پرسوچ نظریں سامنے دیوار پر ٹکی تھی۔ عمیر کچھ دیر بعد آفس میں آیا۔
“کیا ہوا پاپا ؟؟ آپ پریشان لگ رہے ہیں ؟؟”۔ اس کے سامنے بیٹھتے ہوئے وہ بولا۔چ
اصغر خان نے نظریں اٹھا کر اپنے خوبرو بیٹے کو دیکھا جو آنکھوں میں الجھن لیے اپنے باپ کو ہی دیکھ رہا تھا۔
“تمہارے پاس زائر کے خلاف کوئی ثبوت ہے ؟؟ “۔ اصغر خان اپنی پوسوچ نظریں اس پہ جمائے بولا۔
عمیر مسکرایا۔
“بلکل ہے اور ایسا ثبوت ہے کہ اُس کی راتوں کی نیندیں بھی اڑ سکتی ہیں”۔
“تم شیور ہو اس بارے میں ؟؟”۔
“جی پاپا ہنیڈرڈ اینڈ ون پرسنٹ شیور ہوں “۔ وہ مسکراتے ہوئے بولا۔
“میرا خیال ہے یہ کام آج ہی کر دینا چاہیئے اپنے دشمن کو کبھی زیادہ ٹائم مت دو کہ وہ تمہیں ہی کمزور سمجھ لے ۔۔۔”۔
“اونہہ !! عمیر نے نفی میں سر ہلایا۔
“یہ کام تب تک نہیں ہو گا جب تک میں پاکستان نہیں جاؤں گا ۔۔۔۔ میری موجودگی وہاں بہت ضروری ہے “۔
“مگر ۔۔۔” عمیر اُس کی بات کاٹ کر بولا۔
“پاپا نیب( NAB نیشنل اکاونٹیبیلٹی بیورو) نے ابھی کیس صرف اوپن کیا ہے تحقیقات کرتے کرتے تقریباً چار ، پانچ مہینے تو لگ ہی جائیں گے اور تب تک میں اپنا کام کر کے واپس آ جاؤں گا ڈونٹ وری کچھ نہیں ہو گا اور رہی این جی او والی بات تو اس میں ، میں انوالو نہیں ہوں اس لیے مجھے کوئی خطرہ نہیں ہے “۔ وہ کندھے اچکا کر بولا۔
“اوکے تین دن تک تمہاری سیٹ کنفرم ہو جائے گی تم تیاری کر لو اپنی !!”۔ اصغر خان کے سنجیدگی سے کہنے پر عمیر سر ہلا کر اٹھ گیا۔
※••••••※
شادی سے واپسی پر وہ سب ہی بہت تھکے ہوئے تھے گھر پہنچنے پر سب اپنے اپنے کمروں میں گھس گئے۔
مریم چینج کر کے فوراً سونے کے لیے لیٹ گئی۔
“کتنے اچھے لگ رہے تھے نا دونوں ؟؟”۔ زائر بولا۔
“ہاں “۔ مریم بڑبڑائی۔
“مرسلین بہت خوش ہے مجھے واقعی یقین نہیں تھا کہ وہ ہادیہ سے شادی کرے گا اس گھنے نے ہمیں خبر بھی نہیں ہونے دی ۔۔۔ ہمارے سامنے تو لڑتے رہتے تھے دونوں ۔۔۔ بغیر کسی وجہ سے ہی ہر وقت لڑنے مرنے کے لیے تیار !!”۔ زائر مسکراتے ہوئے بولا۔
“ہاں “۔ وہ نیند میں ہی بڑبڑائی۔
ہماری شادی کے وقت مرسلین نے بہت مذاق اڑایا تھا میرا ۔۔۔۔ تمہیں پتا ہے مرسلین کو ۔۔۔۔ زائر ایکدم سے کروٹ بدل کر اس کی جانب متوجہ ہوا جو گہری نیند میں تھی ۔
زائر کو جھٹکا لگا تب سے وہ پاگلوں کی طرح خود سے ہی باتیں کر رہا تھا ، حد ہے یار ۔۔۔ وہ بڑبڑایا۔
اُسے خوشی سے نیند ہی نہیں آ رہی تھی۔ اُس نے ہلکی سی چپت مریم کے سر پر لگائی اور پھر گہری سانس لے کر خود بھی سونے کی کوشش کرنے لگا۔
نیند نا آنے پر وہ جھنجھلاتے ہوئے اٹھ بیٹھا ایک نظر مریم کو دیکھا جو گھوڑے بیچ کر سو رہی تھی اور پھر موبائل لے کر ٹیرس پر نکل آیا۔ احمد کا نمبر ملاتے ہوئے وہ جانتا تھا کہ احمد بھی نہیں سویا ہو گا۔
“شیطان آدمی ابھی تمہیں ہی یاد کر رہا تھا “۔احمد کی چہکتی آواز پر وہ ہنس پڑا۔
“مجھے تو زیادہ تھکن ہو جائے تو نیند نہیں آتی جلدی تم کس خوشی میں جاگ رہے ہو ؟؟”۔
“یار میں سیریسلی سوچ رہا ہوں اپنے اماں ،ابا کو بہو نام کی چیز سے فیض یاب کر ہی دوں کب تک بیچارے دوسروں کی بہووں کو دیکھ کر خوش ہوتے رہیں گے؟؟ “۔ اس کے انداز پر زائر نے خوش دلی سے قہقہہ لگایا۔
“اماں ، ابا سے زیادہ تمہیں جلدی ہے میں جانتا ہوں ۔۔۔ فکر مت کرو کل بات کرو گا انکل سے کہ آپ کا بیٹا بڑا ہو گیا ہے “۔ زائر کے شرارت سے کہنے پر وہ ہنس دیا۔
“میں سوچ رہا تھا کہ مرسلین جیسے گدھے کو اتنی اچھی لڑکی مل گئی ہے تو مجھے بھی بہت اچھی لڑکی مل جائے گی “۔
“ہاں تم بھی تو گدھے ہی ہو “۔ زائر ہنستے ہوئے برجستہ بولا۔
“تم بھی کم نہیں ہو ہمارے قبیلے سے ہی ہو بیٹا “۔ احمد بھی برجستہ بولا۔
زائر ہنس دیا۔
“ملیحہ واپس کب تک آئے گی ؟؟”۔ ملیحہ ناردن ایریاز گئی ہوئی تھی دوہفتوں سے اس کے دوست بھی اس کے ساتھ تھے بہت کوشش کے باوجود بھی اس تقریب میں شامل نہیں ہو سکی تھی۔
“ایک ہفتے تک آئے گی “۔
کچھ دیر اور باتیں کرنے کے اُس نے فون بند کر دیا اور ایک بار پھر سونے کی کوشش کرنے لگا جو کہ کامیاب ہوئی تھی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...