“اب کھڑی کیا ہو میرا شوہر تمھیں دھکے دیکر نکالے گا ۔”
زارا نے اُترا کر کہتے ہوئے مالکانہ لہجے میں کہا
“تم کو بتاوں گی میں ۔”
“ہاں بتائیں میں سُن رہی ہو ۔”
اچانک معید صاحب گھر کے اندر داخل ہوئے اور زارا کو بیٹھے ہوئے جبکہ لائیزا کو کھڑے چکر کاٹتے ہوئے دیکھا
زارا نے مڑ کر معید کو دیکھا جو اسے نہیں لائیزا کو دیکھا
“آگیا اس ڈول کا رومیو ۔”
لائیزا نے معید کو دیکھا اور اس پر چھپٹی “ہاو کُڈ یو ڈو دس ٹو می میں دو دن چھٹیوں میں کیا گئی تم نے شادی کر کی ۔”
زارا کو ہنسی آئی اور معید نے اسے خونخوار نظروُں سے دیکھا اب بتاتا ہے اس کو
“یا لائیزا آئیم سوری میں نے شادی کر لی ۔”
معید کو صفائی پیش کرنے کے بجائے اس کے جھوٹ پہ تائید کرنے پہ جھٹکا لگا اور وہ منہ کھولے معید کو دیکھنے لگی جو اب اس کو سبق سکھانے والا تھا۔۔۔۔۔۔۔
زارا کا منہ کھل گیا وہ اس جواب کا توقع ہرگز نہیں کررہی تھی وہ تو اس سے دو ہاتھ آگئے گیا ۔
“دیکھو لائیزا میں نے ہمیشہ دوست مانا لیکن میں نے محبت زارا سے کی ہے آئی مین میری بیوی کو دیکھو کتنی خوبصورت ہے ۔”
زارا کا چہرہ لال پتا نہیں شرم سے ہوا تھا یا غصے سے
لیکن یہ تو بہت کمینہ نکلا
“اس عام سی شکل میں کیا جو تم نے مجھ جیسی کو ریجیکیٹ کیا ۔”لائیزا رونے لگی معید نے مصنوعی گھوری دکھائی ورنہ ہنسی بڑی آرہی تھی ایک تو زارا کی حالت بھی بڑی مزے دینے والی تھی
“لائیزا تم میرے گھر میں میری وائف کو ایسے نہیں کہہ سکتی ۔”
وہ بولتا ہوا زارا کی طرف بڑھا زارا کو لگا اب یہ اپنا ڈرامہ کو اگلے لیول پہ لیکر جائے گا وہ چلنے لگی جب معید نے اس کے کمر میں اپنے بازو ڈالے اور اپنے ساتھ لگایا
“دیکھو کتنی خوبصورت ہے میں تو اس کو دیکھتے ہی پہلی نظر میں دیوانہ ہوگیا خود پہ اختیار نہ رکھ سکا تو شادی کی آفر کر ڈالی اب مجھ جیسے ہینڈسم کو کون انکار کرتا بھلا اس لیے تم بھی کوئی اچھا سا پارٹنر ڈھونڈو اور خوش رہو ۔”
زارا کا دماغ ماوف ہوگیا چہرہ لٹے کے مانند سفید ہوگیا اس نے ہاتھ ہٹانا چاہا لیکن گرفت مزید مضبوط ہوگئی اسے لگا جو کل اس کے ساتھ واقع ہوگا آج بھی یہی ہوگا ۔
اس نے آہستہ سے بولا
“معید پلیز مجھے چھوڑو !۔”
وہ کانپتے لہجے میں بولی
معید پیچھے ہوکر زارا کو اپنے گھیرے میں لیے گیا اور اپنے گال اس کے ساتھ مس کیے تب تو لگا وہ وہی بے ہوش کر گر جائے گی وہ ہٹنے لگی تب وہ اور جڑتا گیا
“اب جاو بھی ہماری وائف ہم سے ناراض ہے میں اس کو زرا مناؤں گا ۔”
وہ اس انگلش میں لعنت بھیج کر چلی گئی معید فورن اس سے الگ ہوا اور زارا نے غصے سے مڑی اور ایک تھپڑ مارنے والی تھی کے معید نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا
“تھپڑ مارنے سے پہلے سوچ لینا یہ تمھارا ہی عمل نامہ ہے میرے گھر میں رہو گی اور مجھے ہی پھنساو گی ایسے تو نہیں چلے گا میں نے تمھاری مدد کی اور تم میرے لیے مشکل بنا رہے تھے ۔”
آنسو زارا کی آنکھوں میں سیلاب کی طرح آئے معید اور جھلا گیا
“رونے سے میں نرم نہیں پڑ جاو گا اس لیے اپنے کپڑے بدلو اور جاو یہاں سے میری طرف سے تمھیں پولیس سٹیشن میں عمر قید ہوجائیں یا پھانسی ہو جائے آئی ڈونٹ کیر بہت کر لے تم جیسے چوروں کی مدد ۔”
“صحیح کہہ رہے ہو مجھے اس درندہ صفت دُنیا میں رہنا ہی نہیں چاہیے اس سے ہزار گناہ محفوظ میں پولیس سٹیشن یا قبر میں رہو گی جہاں نہ ڈر ہوگا نہ فکر ہوگی بس آپ آزاد نہیں ہوگے اگر یہ آزادی رشتے احساس میری عزت نگل لیتی ہے تو بھاڑ میں جائے ایسی دُنیا ایسی دولت ایسی آزادی ۔”
اس کے لہجے میں گہرا کرب تھا اور چہرے بالکل سپاٹ
معید کو ایک دم کچھ ہوا یہ کیا کہہ رہی ہے ۔
“اور مجھے پولیس اس بات پہ پکڑ رہی ہے کیونکہ میں نے دو الیگل کام کیے ہے جو مجھ جیسے بیوقوف زہن کو خود نہیں معلوم تھے اور جب معلوم ہوئے تو یہاں سے بھاگ آئی تھی مجھ خود سے گھن ہورہی تھی کے زارا تم ایسے کام کرسکتی ہوں خیر آپ کے کپڑے آپ کو واپس کرتی ہو تب تک آپ پولیس کو کال کریں ۔”
وہ جانے لگی جب معید نے اس کا ہاتھ پکڑ کر روکا اس نے ہاتھ نکالنا چاہا لیکن معید نے گرفت مضبوط کر لی
“بتاو کیا ہوا تھا مجھے پتا ہے تم اپنے اس جولی والے روپ میں اپنا درد چھپا رہی ہو میں بھی کوئی بچہ نہیں ہو اُنتیس سالا مرد ہوں اتنی تو دنیا میں نے دیکھ رکھی اور جو میرے ساتھ ہوا مجھے لوگوں کے احساسات کا ان کے چہرے پڑھ لیتا ہو اگر تم واقی چور یا ڈان یا جو بھی ہوتئ تو کیا میں تمھیں اندر آنے دیتا کیا میں تمھیں اتنا بیوقوف لگتا کے ایک تو اس لڑکی کو اپنے کپڑے گھر میں جگہ ناشتہ ایکسکیٹرا دیتا جو ایک مجرم ہوتی ,نہیں ! کیونکہ مجھے معلوم ہے تم ایسی نہیں ہو اب بولو ہوسکتا میں تمھاری مدد کرسکتا ہوں ۔”
وہ مڑی اور معید نے اسے صوفے پہ بیٹھنے کا اشارہ کیا
******************
ابا اور حسیب کو گزرے ڈھائی سال ہوگئے اور وہ اماں کے کہنے پر مجبوراً انھیں اس کی نانی کے گھر جانا پڑا جہاں اس کے ماموں رہتے ہیں ماموں تو خوش تھے ان کو اپنے ساتھ رکھنے پر لیکن ممانی اور ان کے بچے کچھ خاص نہیں خوش ہوئے تھے اور یہ چیز زارا نے بہت محسوس کی تھی اماں تو بس ہاتھ میں تسبی اور اپنے نمازیں تویل کر کے اللّٰلہ کی ہوکر رہ گئی اس لیے اتنا محسوس نہیں ہوا وہ زارا کے آنے جانے پر پڑھائی کرنے پہ اور کھبی کھبار ایسی ہی فارغ بیٹھنے پہ خار کھانے لگے پہلے تو چُپ تھے لیکن اب ان کی زبانیں بھی خوب چلنے لگی جو زارا کی برداشت سے باہر تھی اس لیے شام کو اس کی کلاسس ہوتی تو صبح وہ کسی سکول میں انٹرویو دیں کر بچوں کو کمپیوٹر پڑھانے لگی
جس سے وہ اپنا اور اماں کا خرچہ اُٹھانے لگی ماموں کو اس کی نوکری سے اعتراض تھا لیکن اس نے دبے لفظوں میں بتادیا کے مامی اور بچوں کو نہیں پسند آپ کے پیسوں پر پلنا اور ویسے بھی امی کی زمہ داری اس پر زیادہ ہے ۔ماموں آگئے سے کہا کہتے زیادہ زور بھی نہیں دیں سکتے وہ ایک دن پڑھا رہی تھی جب کلاس ختم ہونے کے بعد اس کی ایک سٹوڈنٹ اس کے پاس آئی
اور بولی
“مس میرے چاچو آپ سے ملنا چاہتے ہیں ۔”
زارا جو اپنے کلاس میں ہی بیٹھ کر کاپی چیک کرنے لگی کیونکہ بریک کے بعد بھی اسی کی کلاس تھی وہ ایک دم ایک کاپی چیک کرتے ہوئے چونکی اور بولی
“کیوں دعا ؟ خیریت ہے آپ کو میں صحیح نہیں پڑھا رہی ۔”
جتنا بھی وہ زمہ دار اور سمجھدار بن گئی تھی لیکن ابھی بھی اس کے اندر سادگی اور بھولاپن تھا
“نہیں مس وہ تو آپ کی بہت تعریف کرتے ہیں کے آپ اتنا اچھا کمپیوٹر پڑھاتی ہے اور اوپریٹ بھی کتنا اچھا آتا ہے جب میں نے انھیں بتایا کے آپ تھری ڈی ڈئزاینز اور ویب سائٹس بھی بنا لیتی تو انہوں نے کہا کے وہ آپ سے ملنا چاہیے گے ۔”
“او ! پر ان کو مجھ سے کیا کام ۔”
“آج چاچو مجھے لینے آئے گے تو آپ ان سے مل لیجیے گا ۔”
وہ بیچاری سمجھی اس کوئی اور نوکری مل جائے گی پیسے بھی اچھے خاصے مل جائے گے اس لیے وہ راضی ہوگئی
وہ بعد میں بھول گئی اور گھر کی لیے نکلنے لگی جب دعا کی آواز آئی
“مس مس آپ کہاں جارہی ہماری گاڑی تو یہاں ہے ۔”
وہ کہتے ہوئے اس کے پاس آئی اور زارا مڑی تو اس نے دیکھا اس کے چاچو کھڑے ہوئے تھے بلیک سوٹ اور بلیک ہونڈا میں وہ کوئی خوش شکل آدمی تھا وہ چلتا ہوا اس کے پاس آیا
“آپ ہے گلِ زارا دعا کی کمپیوٹر کی ٹیچر ۔”
گلِ زارا نے سر اثبات میں ہلایا
“اور میں نے سُنا آپ کرافگ ڈیزانگ پڑھ رہی ہے ۔”
“جی سر آپ کو کوئی کام تھا ۔”
“تھینک گاڈ مجھے کوئی تو ملا آپ کیا مجھے ایک اچھی سی ویب سائٹ کا ڈیمو دیں سکتی ہے یہ رہا میرا کارڈ اینڈ ایمیل ایڈرس مجھے کوشش کیجیے کے آپ چار دن میں دیں دے مجھے اپنے کام کے لیے بہت ضرورت ہے اگر مجھے آپ کا کام پسند آیا میں چاہوں آپ میری آسٹریلیا کی کمپنی کے لیے کام کریں ۔”
زارا ایک دم شاک ہوگئی آسٹریلیا کی کمپنی کی نوکری ۔
*************
میں نے چار دن میں کیا دو دن کے اندر ویب سائٹ بنا کر بھیج دی اماں کو بتائیں بغیر جب تک کچھ فائینل نہیں ہوجاتا میں ایسے منہ اُٹھا کر تو نہیں کہہ سکتی تھی اماں مجھے نوکری مل جائے گی اگر نہ ملتی تو مامی نے میرا مزاق بنانا تھا اس لیے چُپ کر کے کام میں لگی رہی اور ایک اچھے سے دو قسم کے ویب سائٹ بنا کر انھیں ایمیل کردیں اور پورے پندرہ منٹ بعد ان کا رئیپلائی آگیا انھیں میرا کام پسند آیا مجھے ان کی اتنی جلدبازی اور بالکل ان فورمل ریپلائی ہضم تو نہیں ہوا لیکن بہرحال مجھے انہوں نے انٹرویو کے لیے بلوایا اور میں بھی اس بار اماں کو بغیر بتائی انٹرویو دیں آئی انہوں نے کہا وہ مجھے ملبیورن بھیج رہے تھے رہاش ،ٹکٹ کھانے کا سب خرچہ وہ اُٹھائے ساتھ میں تین لاکھ کی تنخواہ دیں گے میری قسمت کے اتنے پلٹنے میں حیرت میں رہی اور میں جلدی سے مٹھائی اور کچھ تحفے لیکر گھر آئی اور سب کو خوشخبری سُنائی سب کا تو حیرت سے منہ کھل گیا بس اماں اور ماموں خاموش تھے وہ مجھے اتنے دور اور وہ بھی سات سمندر پار بھی راضی نہیں ہوئے لیکن میرا مقصد صرف اماں کو راضی کرنا تھا وہ تب بھی نہ ہوئی وہ پہلے ہی ابو اور بھائی کو کھو چکی تھی اب مجھے بھی خود سے دور کرنا گوارا نہیں تھا اس لیے ممانی ہی سب کچھ کرسکتی تھی ان کے پاس کہی اور انہیں کہا اگر وہ ماموں کو منا لے تو میں انھیں ہر مہینے لاکھ روپے بھیجا کرو گی ممانی کا تو منہ کھل گیا اس بات پر اتنے تو ماموں ان کو نہیں دیتے ہوگی جتنا میں دوں گی وہ راضی ہوگئی اور اماں اور ماموں کو منوا کر ٹھانی اور وہ راضی ہوگئی دعاوں کے ساتھ مجھے انہوں نے بھیجا لیکن شاہد قسمت ہی پھوٹی تھی شروع میں تو میں ایک مہنگے ہوٹل میں ٹکرایا گیا اس کے بعد کچھ جگہ گھمائی پھیرائی مجھے لگا میں جنت میں آگئی ہوں لیکن یہ مضنوعی جنت کے پیچھے ایک دلدل تھی جو مجھے جہنم کی آگ کی طرف دکھیل رہی تھی شروع میں تو ویب سائٹس بنواتی رہی اور وہ کسی میڈیکل کمپنی ،کیفے ، اور کلوتھنگ اوٹ لیٹ تھی بعد میں انہوں نے ایک سافٹ ویر بنانے کو کہا جو مجھے معلوم نہیں تھا وہ الریڈی ہے یہاں پر اور کافی نام ہے اس کا بہرحال مجھے کچھ ہی وقت لگے اور میں نے ان کی ڈیمانڈ کردہ سوفٹ ویر بنادیں اس کے بعد میری ایک دوستی مائرہ سے ہوگئی اور میں نے انہیں تفصیل بتائی تو وہ پہلے میرا منہ دیکھتی رہی پھر بولی
“زارا یہ کیا کیا تم نے !۔”
میں جوس کا سپ لیتے ہوئے چونکی
“کیا کیا ہے میں نے ہائے ربا کمال کیا ہے یار میں سوچ نہیں سکتی تھی میں کوئی اچھا کام کرسکتی ہوں ۔”
“اُف سٹوپڈ لڑکی انہوں نے تمھارے بھولے پن کو فائدہ اُٹھایا اُف اُف تمھیں نہیں پتا یہ سوفٹ ویر آسٹریلیا کی سب سے مہنگی اور مشہور ترین سوفٹ ویر ہے سٹوپڈ لڑکی دس از پائرسی ! تمھیں جیل ہوجائے گی ۔”
اس کی بات سُنتے ہی میرے پیروں تلے زمیں ہی نکل گئی سفید چہرہ لیے میں ایک دم گھبڑا گئی اس نے کہا کوشش کرو تو میں یہاں سے بھاگ سکتی ہوں لیکن میرا بیوقوف دماغ نے مجھ سے مزید خرابی کروانی تھی اس لیے ان کے آفس پہنچ گئی اور لڑنے لگی انہوں نے میرا منہ اس طرح بند کروایا ایک تو میں ایلیکگل طور پہ آگئی ہو دوسرا میں نے بہت سی پائریٹٹ ویب سائٹس اور سوفٹ ویر بنائی ہے جس سے عمر بھر کی جیل میں ایک منٹ کے لیے تو وہ ساکت ہوگئی ابھی مجھ سے مزید غم نہ برداشت ہوا تھا کے انہوں نے عجیب گندی ویب سائٹس بنانے کو کہا اور اگر میں نہ مانی ایک تو میں اپنی عزت کے ساتھ ساتھ جیل کی سلاخوں میں ہوگئ سُن دماغ لیے میں فورن مائرہ کے گھر گئی اس نے مجھے تسلی دیں اور کہا چُپ کر کے جاوں اور سیدھا اِدھر سے پاسپورٹ اور کچھ ضروری سامان جو پوکٹ میں ڈالا جاسکے میں چُپ کر کے چلی گئی اور گھر اکر ایک لقمہ اپنے اندر نہیں اُتارا یہ سب حرام شہہ تھی میرے لیے رات کے ایک بجے تو چھپکے سے سب کچھ نکال رہی تھی جب رات کے وقت زور زور سے دستک ہوئی میں گھبڑا گئی مجھے سمجھ آگئی انھیں پتا چل گیا سیدھا واش روم میں گھس کر میں نے مائرہ کو کال کی وہ اُٹھا ہی نہیں رہی تھی اتنی بار کال تبھی نہ اُٹھے میرا رو رو کر بُرا حال ہوگیا پھر دروازہ ٹوٹنے کی آواز آئی اب تو مزید حالت غیر ہوگئی۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...