کبیر کی آنکھوں کے سامنے اندھیرہ چھا گیا اور اندھیرے کی سیاہی اتنی بڑھ گئی کہ اسے کچھ سجھائی نہ دیا۔۔اس نے اپنی آنکھوں کو بند کیا اور پھر اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنی آنکھوں کو رگڑ ڈالا‘پھر وہ تصویر دیکھی۔۔۔
وہ بلاشبہ ستارہ ہی تھی۔۔۔
وہی شہد رنگ آنکھیں‘‘ اور بائیں آنکھ کے کنارے پہ واضح تل جو کہ اس کے حسن کو دوچند کر دیتا تھا۔۔۔
کبیر کے دماغ میں چھکڑ چلنے لگے۔۔۔
‘تو یہ حقیقت ہے تمہاری مس ستارہ۔۔۔۔!!! (اس نے خود کلامی کی)
‘‘ تو وہ سب جھوٹ تھا جو تم نے مجھے دکھایا‘‘ کیوں۔۔ آخر کیوں ستارہ؟؟؟
میں تو پہلے ہی اپنا سب کچھ ہار چکا تھا پھر تم نے مجھے ہی کیوں چنا اتنی بڑی آزمائش کے لیئے۔۔۔۔
ستارہ تم نے میرے ساتھ اچھا نہیں کیا۔۔۔ تم نے ایک بار پھر مجھے دوراہے پہ لا کھڑا کیا ہے۔۔ جو لاکھوں دلوں کی دھڑکن ہو وہ میرے دل میں کیسے آ سکتی ہے۔۔۔ پھر تم نے مجھے ہی کیوں چنا ستارہ۔۔۔
میں تم سے حساب ضرور لوں گا۔۔۔۔ تمہیں جواب دینا ہو گا۔۔۔میرے ایک ایک سوال کا جواب تم دو گی مجھے۔۔۔
(وہ اپنے حواسوں میں نہیں تھا‘ اخبار کو ساتھ لیئے وہ اندھادھند ہسپتال کی طرف بھاگا)
آئی سی یو کے باہر نرسیں اور ڈاکٹر کھڑے کچھ فائلز ہاتھ میں پکڑے باتوں میں مصروف تھے۔۔۔۔
ان میں سے ایک نرس نے کبیر کو دیکھ لیا‘ اور اسے اشارے سے پاس بلایا۔۔۔
اب کبیر بھی اس گروہ میں موجود تھا۔۔۔
‘‘مسٹر شاہ۔۔۔!!! (
سرجن ڈاکٹر ہاشم خان نے اسے مخاطب کیا)
آپ کے لیے ایک اچھی خبر ہے اور ایک بری خبر ہے ہمارے پاس۔۔۔ آپکی وائف کے حوالے سے‘‘
دیکھیں آپکو میری بات بہت حوصلے اور تحمل سے سننی ہو گی۔۔۔
(کبیر کا عضو عضو کان بن گیا‘اس کی سماعت اسکے کانوں میں دھڑکنے لگی)
گڈ نیوز تو یہی ہے کی آپکی وائف کو ہوش آگیا ہے‘اور وہ ماشآلله بلکل ٹھیک ہیں ‘ جسمانی طور پر‘‘
آپ سمجھ رہے ہیں نہ میں کیا کہہ رہا ہوں؟؟؟
جی ڈاکٹر صاحب آپ بولیں میں سن ہا ہوں۔۔۔۔
(کبیر نے بمشکل کہا)
‘‘ خدا نے تمہاری بیوی کو نئی زندگی عنایت کی ہے‘ ہم جتنی کوشش کر سکتے تھے ہم نے کی۔۔ وہ جسمانی طور پر ٹھیک ہے اور کچھ دنوں تک وہ خدا کے فضل سے چلنے پھرنے لگیں گی۔۔ لیکن ۔۔۔۔!!! (سرجن رکا‘ اور کبیر کی جانب دیکھا‘‘پھر آنکھیں چرا لی )
‘‘لیکن کیا سر؟؟؟ ‘‘
‘‘مجھے نہایت افسوس سے آپکو یہ بتانا پڑ رہا ہے کہ آپکی وائف کی ذہنی حالت اب پہلے جیسی نہیں ہے۔۔۔ انکے ٹیسٹ ٹھیک نہیں آئے‘ انہیں شدید ذہنی صدمہ ہوا ہے جس کی وجہ سے اسکی یاداشت متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ سوچنے سمجھنے کی قوت بھی متاثر ہوئی ہے۔۔۔۔
آپکو انکی بہت کیئر کرنی ہو گی۔۔۔انہیں ریکور ہونے میں ایک دن بھی لگ سکتا ہے اور ایک سال بھی۔۔۔۔ آپکو بہت صبر سے کام لینا ہو گا۔۔۔۔ ‘‘
‘‘یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ڈاکٹر؟؟؟؟
(کوئی بم تھا کہ جو کبیر کے سر پہ پھاڑا گیا تھا۔۔ وہ تو کیا سوچ کہ آیا تھا اور آگے کیا ماجرا ہو گیا۔۔۔ )
ڈاکٹر نے اس کے کندھے کو تھپکا۔۔۔۔
‘‘میں آپکے جذبات کو سمجھ سکتا ہوں۔۔۔ دیکھیں آپ کو اپنی وائف کی کیئر کرنی ہو گی‘وہ انشآلله ٹھیک ہو جائیں گی۔۔۔ باقی ہم سب ہیں یہاں پہ آپکی مدد کرنے کے لیئے۔۔ پہلے یہ اس بیماری سے ریکور کر لیں پھر آپ کسی دماغی ڈاکٹر سے رابطہ کر لیں‘ وہ آپکی زیادہ بہتر مدد کر دیں گے‘‘
آپ چاہیں تو ان سے مل سکتے ہیں اب‘ بٹ چسٹ فور ٹین منٹس‘‘
(ڈاکٹر نے ایک ہمدردانہ مسکراہٹ اسکی جانب اچھالی اور لبمی راہداری عبور کر کے پتا نہیں کس سمت گم ہو گیا‘‘ باقی نرسیں اور جونیئر ڈاکٹر بھی اپنی اپنی سمتوں میں نکل گئے)
اسے لگا کہ شائید اس کے لیئے کہیں کوئی جائے پناہ نہیں ہے۔۔
آیی سی یو کے دروازے پہ لگے شیشے سے اس نے اندر جھانکا۔۔۔
‘وہ‘ بستر پہ لیٹی ہوئی تھی او اسکی آنکھیں خلا میں کسی نادیدہ نقطے پہ مرکوز تھیں۔۔۔
شہد رنگ آنکھیں آج بہت بجھی بجھی سی لگ رہی تھیں‘ اس کے منہ پہ نیل اور خراشوں کے نشان اب واضح ہو رہئے تھے۔۔شائد اسے تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا تھا۔۔۔۔
اسکے ماتھے پہ بھی گہری چوٹ کا نشان تھا۔۔۔
کبیر نے اندر جانے کے لیئے دروازہ کھولا۔۔ مگر اسکی ہمت نہ ہوئی اور وہ واپس باہر آگیا۔۔۔۔
——————————————————–
رات کا نجانے کون سا پہر تھا‘وہ آئی سی یو کے باہر بنے پنج پہ لیٹا ہوا اونگھ رہا تھا‘ موسم میں خنکی بڑھ گئی تھی۔۔اس نے اپنی شال کو اپنے کندھوں پہ لپیٹ لیا اور آنکھیں موند لیں۔۔۔۔
ڈیوٹی پہ مامور نرسیں بھی اند کہیں دبکی بیٹھی تھیں۔۔۔۔ پوری گیلری سنسان تھی۔۔۔۔
کبیر کی آنکھ لگ گئی تھی‘سارے دن کی خواری اور پھر زہنی ٹینشنز ۔۔۔وہ جلد ہی نیند کی آغوش میں چلا گیا۔۔۔
اسکی میٹھی نیند میں پہلا کنکر ایک نسوانی آواز نے پھینکا۔۔۔ وہ آواز تھی کہ کوئی بیھانک چیخ۔۔۔
کبیر نے پہلو بدلا۔۔۔۔ وہ ہسپتال میں تھا‘اور ہسپتال میں رونے پیٹنے اور چیخنے کی آوازیں بہت کامن ہوتی ہیں یہی سوچ کہ اس نے آنکھیں پھر بند کر لی۔۔۔۔
آواز دوبارہ آئی تھی۔۔۔ اور پہلے سے بھی زیادہ دردناک۔۔۔
کبیر اٹھ بیٹھا۔۔۔
گیلری میں کوئی نہ تھا۔۔۔
اس کی چھٹی حس نے اسے ہوشیار کیا۔۔وہ ایک جھٹکے سے اٹھا اور کمرے کی جانب بھاگا۔۔۔۔
بلاشبہ وہ چیخ ستارہ کی تھی۔۔۔۔
کبیر نے دروازے سے دیکھا۔۔۔
‘اسکی آنکھیں بند تھیں‘‘ اور سانس بہت تیزی سے چل رہی تھی۔۔۔۔
وہ دروازے سے اندر داخل ہوا اور بیڈ کے قریب پہنچا۔۔۔۔
نہیں مارو مجھے۔۔
خدا کے لیئے مجھے نہ مارو۔۔۔
(یہ ستارہ کس سے مخاطب تھی‘کبیر دم سادھے کھڑا اسے دیکھتا رہ گیا)
باجی۔۔۔
مجھے بچا لو نہ۔۔۔
باجی میں تو تمہاری بیٹی جیسی ہوں۔۔۔۔گڈی باجی۔۔۔۔ تمہیں خدا کا واسطہ۔۔۔۔
(ستارہ اپنا سر تکیے کے اوپر یوں پٹخ رہی تھی جیسے مچھلی کو پانی سے نکال دوں تو وہ اپنا سر زمین پہ مارتی ہے)
کبیر سے برداشت نہ ہوا۔۔۔
اس نے ستارا کے ماتھے پہ ہاتھ رکھ کہ دباؤ ڈالا اور اسے آواز دینے کی کوشش کی۔۔۔۔
‘‘مس آنکھیں کھولیں آپ۔۔۔۔۔
یہاں کوئی نہیں ہے مس۔۔۔۔آپکو کوئی نہیں مار رہا۔۔۔
مس ستارہ۔۔آننکھیں کھولیں پلیز۔۔۔۔ ہوش کریں آپ۔۔۔۔
،،،،،
ستارہ پہ مطلق کوئی اثر نہ ہوا۔۔۔
وہ پنا سر اسی طرح تکیے پہ پٹختی رہی۔۔۔
کبیر کو واقعی تشویش نے گھیر لیا تھا۔۔۔ وہ باہر نکلا اور نرسوں کے کمرے کی طرف بھاگا ۔۔۔
نرس اس کے ساتھ آئی تھی اور اس نے آ کہ ستارہ کو انجکشن لگایا تھا‘ تھوڑی دیر بعد وہ پھر گنودگی میں چلی گئی۔۔۔۔
ہسپتال کی سنسان راہداری میں بیٹھا کبیر شاہ دیوار سے ٹیک لگائے‘ آنکھیں موندے۔۔۔۔
‘‘یا خدا یہ کیسا امتحان ہے۔۔
زندگی ایک بار پھر مجھے آزمآ رہی ہے۔۔۔ یا خدا مجھے راستہ دکھا۔۔۔ اے میرے رب مجھے ہمت دے کہ میں تیری اس آزمائش میں پورا اتر سکوں۔۔‘‘
——————–
وہ ہاتھ میں پھلوں کا شاپر پکڑے کمرے میں داخل ہوا۔۔۔ ستارہ بستر پہ بیٹھی ہوئی تھی‘
‘‘ کیسی ہیں آپ؟؟
کبیر نے نگائیں جھکا کے پوچھا تھا۔۔۔۔
ستارہ نے ایک نظر اس پہ ڈالی۔۔۔ مگر جواب نہیں دیا۔۔۔
ڈاکٹر کہہ رہے ہیں کہ اب آپ کو چلنے کی کوشش کرنی چاہیے‘ تا کہ آپ جلد از جلد ٹھیک ہو کر اپنے گھر جا سکیں۔۔۔۔ ‘
میں نرس کو کہتا ہوں وہ آپکی مدد کر دے گی واک کرنے میں۔۔ اور اگر آپکو آپ کے گھر کا پتہ یا فون نمبر یاد ہو تو وہ مجھے دے دیں ‘ مجھے آپکے گھر پہ اطلاع کرنی ہے کہ آپ یہاں ہیں۔۔ ‘‘
(کبیر نے اس دوران ایک سیب بھی کاٹ لیا تھا اور وہ پلیٹ میں رکھے ستارہ کی طرف موڑا)
ستارہ ابھی تک اسی حالت میں بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔ یوں لگتا تھا کہ اس نے کوئی بات سنی ہی نہیں ہے۔۔۔
کبیر اس کے قریب آگیا۔۔۔
مس ستارہ۔۔۔!!!
آپ سن رہی ہیں میں آپ سے کیا کہہ رہا ہوں؟؟؟
ستارہ نے اسکی طرف دیکھا۔۔۔
اسکی نگاہ میں کچھ تھا‘کبیر کو اسکی سرد نطروں سے خؤف محسوس ہوا۔۔۔۔
میرا گھر۔۔۔۔۔
کہاں ہے میرا گھر؟؟؟
مجھے نہیں جانا اپنے گھر۔۔۔
میرا نہیں ہے کوئی وہاں۔۔۔۔
مر گئی میں سب کے لیئے۔۔۔ میں اور نہیں بک سکتی۔۔۔
(اسے پھر دورہ پڑا تھا۔۔۔ شاہ جی تو گھبرا ہی گئے تھے)
مجھے نہیں رہنا یہاں۔۔۔ وہ۔۔۔۔وہ لوگ مجھے پھر ماریں گے۔۔۔
مجھے جانے دوں یہاں سے۔۔۔
(وہ دیوانہ وار چیختی اپنے بازو پہ لگی ڈرپ آتارنے لگی۔۔۔ )
کبیر گھبرا کے نرس کو بلایا۔۔۔
بمشکل دو نرسوں نے اسے سنبھالا تھا اور نے ہوشی کا ٹیکہ لگا کہ اسے لیٹا دیا تھا۔۔۔۔
وہ
آنکھیں بند کئے بھی کچھ بڑبڑا رہی تھی۔۔۔
کبیر کو نئی پریشانی نے گھیر لیا تھا۔۔۔ وہ اپنا سر پکڑے باہر نکل آیا۔۔۔۔
رات کو اس نے گھر فون کیا تھا اور وہاں سے کسی قابل بھروسہ عورت کو بلایا تھا مدد کے لیئے۔۔۔۔
فون کر کے وہ واپس آیا۔۔۔ رات گہری ہو رہی تھی۔۔۔
اس نے کمرے میں دیکھا ستارہ گہری نیند سو رہی تھی۔۔۔
وہ باہر آ گیا۔۔۔
اور بینج پہ آکے لیٹ گیا۔۔۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ سو چکا تھا۔۔۔۔
خلاف معمول صبح اسکی آنکھ دیر سے کھلی۔۔۔صبح کے سات بج رہے تھے۔۔۔
اس نے اٹھ کے منہ وغیرہ دھویا اور ستارہ کے لئے ناشتا لینے چلا گیا۔۔۔
جب وہ واپس آیا اس وقت آٹھ بج رہے تھے۔۔۔
وہ کمرے میں داخل ہوا۔۔۔ ہاتھ میں ناشتے کا شاپر پکڑے۔۔۔
کبیر کا دل کسی نے مٹھی میں لے لیا۔۔۔
ستارہ کا بستر خالی تھا۔۔
وہ کمرے میں نہیں تھی۔۔۔۔
کبیر کو محسوس ہوا کہ اسکے سر پہ آسمان پھٹ گیا ۔۔
کبیر نے اپنی ہمتوں کو یکجا کیا اور کمرے سے ملحقہ باتھ روم میں دیکھا۔۔۔ وہ بھی خالی تھا۔۔۔
ستارہ کی جسمانی حالت کوئی خاص بہتر نہیں تھی‘ ابھی وہ ٹھیک سے چل نہیں سکتی تھی‘اور زخم بھی ابھی مندمل نہیں ہونے پائے تھے۔۔۔
‘‘کہیں وہی غنڈے تو ساترہ کو نہیں لے گئے ساتھ‘‘
(ایک سوچ کبیر کے دماغ میں بجلی کی طرح کڑکی ۔۔۔ اسے لگا کہ اسے دماغ کی رگ آنِ واحد میں پھٹ جائے گی۔۔۔ )
‘‘لیکن میں کیوں سوچ رہا ہوں اس کے بارے میں اتنا۔۔۔۔ کیا رشتہ ہے میرا اس سے؟؟
اگر وہ چلی گئی ہے تو مجھے کیوں اتنی پریشانی ہو رہی ہے۔۔۔
اچھا ہوا جان چھوٹ گئی۔۔۔۔
ایسی عورتوں کا انجام ایسا ہی ہوتا ہے۔۔۔
(کبیر نے خود کلامی کرتے ہوئے غصے سے ہاتھ میں پکڑا ہوا شاپر زمین پہ پٹخ دیا)
پھر اپنے بالوں کو سختی سے پکڑ کر سے پکڑے زمین پہ ہی بیٹھ گیا۔۔۔ دیوار سے ٹیک لگائے اسکی کیفیات اتنی عجیب تھیں کہ وہ خود نہ سمجھ سکا۔۔۔
‘یہ کیا ہو گیا ہے مجھے۔۔۔۔ ؟؟
یا خدا میری مدد فرمائے۔۔۔ کس سے پوچھوں اسکا۔۔۔۔ کہاں چلی گئی ہے وہ۔۔۔ کیوں لیتی ہے وہ میرے امتحان‘ کس حق سے وہ آزمآ رہی ہے مجھے۔۔۔۔۔۔
کمرے کا دروازہ کھلا۔۔۔
کمرہ ایک دم چمک اٹھا تھا۔۔۔۔
وہ کمرے میں داخل ہوئی۔۔۔ دو نرسوں نے اسے پکڑ رکھا تھا۔۔ ۔
ایک نرس کے ہاتھ میں کچھ رپورٹس وغیرہ بھی تھیں۔۔۔
(کبیر نے اپنا ماتھا پیٹ لیا۔۔۔۔ افف خدا یہ خیال مجھے کیوں نہیں آیا۔۔۔ یہ تو ہسپتال ہے ‘اسے ایکسرے کے لیئے لے کے گئے ہوں گے۔۔۔ )
ایک سکون کی لہر تھی جو اس کی رگ رگ میں سما گئی تھی ستارہ کو دیکھ کہ۔۔۔
ستارہ نے بھی اسے دیکھ لیا تھا۔۔۔
ستارہ کے چہرے پہ جاندار مسکراہٹ ابھر آئی۔۔۔
نرسیں اسے بیڈ پہ لیٹا کے چلی گئیں۔۔۔
وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور ددیمے قدموں سے چل کے اس کے قریب آ گیا۔۔۔
‘‘کہاں گئی تھیں آپ؟؟؟؟
آپکو پتا ہے میں کتنا پریشان ہو گیا تھا۔۔۔ مجھے بتا کے بھی تو جا سکتی تھی نا۔۔۔ لیکن آپکو کیا فرق پڑتا ہے میری پریشانی سے۔۔۔ ‘‘
اب جب تک میں واپس نہ آجاؤں یہاں سے ہلنا بھی مت۔۔۔ !!!
(ستارہ اس کا منہ دیکھے جا رہی تھی‘اور وہ خود اسے حکم دے کر کمرے سے باہر نکل گیا)
منہ پہ پانی کے چھینٹے مارتے ہوئے بھی اس کے کان غصئے سے تمتما رہئے تھے۔۔ اسے خود نہیں معلوم تھا کہ وہ کیوں اتنا ایموشنل ہو رہا ہے۔۔۔
جب وہ واپس کمرے میں آیا تو ستارہ ابھی تک اسی حالت میں بیٹھی ہوئی تھی۔۔
اسے دیکھ کے کبیر کو بے ساختہ ہنسی آگئی‘اس کا سارا غصہ ہوا ہو گیا۔۔
‘‘مس آپ تو بڑی فرمابردار ہیں۔۔۔واہ ‘‘
اس نے بآوازِ بلند کہا۔۔۔۔
ستارہ نے کوئی جواب نہ دیا اور چپ چاپ لیٹ کہ آنکھیں بند کر لیں۔۔۔۔ اس نے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔۔۔
کبیر سمجھ گیا۔۔۔
شام کو بابا فضل آگیا تھا اس کے ساتھ ایک ادھیڑ عمر عورت بھی تھی۔۔۔
اس عورت نے اب ستارہ کے ساتھ رہنا تھا‘ کبیر بے فکر ہو گیا۔۔۔۔ اب وہ آرام سے ستارہ کے گھر والوں کو ڈھونڈ سکتا تھا۔۔۔
اگلے دن وہ اخبار کے دفتر پہنچا۔۔ اور وہ خبر دیکھائی جو کہ اخبار میں اس نے پڑھی تھی۔۔۔
‘جناب یہ خاتون زندہ ہیں ‘اور آپ نے غلطی سے اخبار میں غلط خبر شائع کر دی ہے۔۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ اس خبر کی تردید کریں‘اور ان خاتون کو بحفاظت ان کے گھر پہنچانے میں میری مدد کریں‘‘
یہ عورت۔۔۔
!!!! (ایڈیٹر صاحب نے یہ کو ذرا کھینج کہ ادا کیا)
کہاں ہے یہ عورت؟؟؟
یہ میرے پاس ہیں اور خیریت سے ہیں۔۔۔آپ میری مدد کریں میں انکی فیملی کو تلاش کرنا چاہتا ہوں‘وہ سب پریشان ہوں گے اس کے لیئے‘‘ (
کبیر نے صدقِ دل سے کہا)
‘‘ہاں پریشان تو سب ہی ہیں ان کے لیے۔۔۔۔۔
‘‘ (ایڈیٹر صاحب نے ٹھنڈی آہ بھری)
کبیر کی رگوں میں خون کی جگہ زہر دوڑنے لگا۔۔۔
‘‘اگر آپ میری کوئی مدد نہیں کر سکتے تو مجھے صاف بتا دیجئے‘یہاں اور بھی بہت سے دفتر ہیں اخبار کے‘میں کہیں اور چلا جاؤں گا‘‘
ایڈیٹر نے عینک کو ناک پہ سیٹ کیا اور سر کھجاتے ہوئے ایک پرانا رجسٹر کھولنے لگا۔۔
‘‘ میرے پاس اس کے گھر کا جو پتا موجود ہے وہ میں آپکو دے سکتا ہوں‘ ویسے ان لوگوں کا کوئی ایک ٹھکانہ تو ہوتا نہیں ہے۔۔۔۔ ‘‘
کبیر نے ایڈریس لیا اور مطلوبہ جگہ پہ جا پہنچا۔۔۔
وہ کوئی گھر تھا یا محل‘ کبیر فرق نہ کر سکا۔۔۔
دروازے پہ دستک دے کہ وہ انتظار کرنے لگا۔۔۔
اندر سے ایک باوردی گاڈ نے دروازہ کھولا تھا۔۔۔
‘‘جی کس سے ملنا ہے‘‘ ؟؟
یہ ستارہ میڈم کا گھر ہے؟؟؟
(کبیر نے پوچھا)
‘‘آپ کون؟؟؟
(گاڈ محتاط ہو گیا تھا)
‘‘ مجھے انکی فیملی کے کسی بھی ممبر سے ملنا ہے‘جو بھی گھر پہ ہو‘‘
گاڈ نے اسے سر سے پاؤں تک دیکھا۔۔۔۔۔
تھوڑا ویٹ کریں آپ۔۔۔۔۔ !!
گاڈ اس محل میں کہیں گم ہو گیا تھا۔۔۔
کبیر باہر ہی انتظار کرنے لگا۔۔۔۔ گاڈ تھوڑی دیر کے بعد واپس آیا اور اسے اندر بلا کیا۔۔۔ اور ساتھ لے کر ایک بڑے سے ہال میں داخل ہوا۔۔۔
وہ ایک عورت بیٹھی ہوئی تھی‘ اس کے حلیئے سے لگ رہا تھا کہ شاید وہ کسی شادی پہ جا رہی ہے یا پھر کسی کی شادی سے آرہی ہے۔۔۔
اس نے کبیر کو بیٹھنے کا بولا۔۔۔اور خود فون پہ مصروف ہو گئی۔۔۔
‘‘ جی جی آپ کا کام ہو جائے گا۔۔۔
آپ فکر نہ کرئیں حضؤر وہ آج رات کی فلائیٹ سے واپس آرہی ہے۔۔۔
جی آپ کل آ سکتے ہیں ملنے کے لیئے۔۔۔
اچھا وہ آپ نے پلاٹ کے جو پیپرز بھیجے تھے ان کے لیئے بہت بہت شکریہ‘ یہ آپ جیسے قدردان لوگ ہی ہیں جن کی وجہ سے یہ فن زندہ ہے۔۔۔ ‘‘
( وہ عورت نہایت عجیب باتیں کر رہی تھی ‘ اسکی آنکھیں‘ہاتھ‘ پاؤں سب ہی تو بول رہئے تھے۔۔۔۔ کبیر کو اب اسکی باتوں سے بوریت ہونے لگی )
اس نے کلائی پہ بندھی گھڑی کو دیکھا۔۔۔ دن کے ساڑھے تین بج رہئے تھے۔۔۔ اسے ستارہ کا خیال آیا۔۔۔ پتا نہیں وہ کیا کر رہی ہو گی۔۔۔۔
‘‘گڈی جابی نے فون رکھا اور کبیر سے مخاطب ہوئی۔۔۔
آپکو پہلے کھبی دیکھا نہیں ادھر۔۔۔ آپ کیسے جانتے ہیں ستارہ کو؟؟؟
کبیر نے اندازہ لگایا کہ یہ عورت کافی شاطر ہے۔۔۔
‘‘وہ میں آپکو بعد میں بتاؤں گا۔۔ پہلے آپ یہ بتائیں کہ آپ کا کیا رشتہ ہے مس ستارہ سے۔۔‘‘
گڈی سنبھل گئی۔۔
‘‘میرا اس سے کوئی رشتہ نہیں ہے۔۔۔ وہ یہاں جاب کرتی تھی‘ اب اس نے جاب چھوڑ دی ہے‘‘
میں پوچھ سکتا ہوں کہ کس نوعیت کی جابز ہوتی ہیں آپ کے یہاں؟؟؟
(کبیر نے سوال کیا)
دیکھو لڑکے۔۔۔۔!!!
اب تم اتنے بھی منے مت بنو۔۔کیا تمہیں پتا نہیں کہ تم کہآں پہ بیٹھے ہو۔۔۔ تمہورے جیسے تو میں نے اپنی گود میں کھلائے ہیں۔۔۔ سیدھی طرح بتاؤ کس مقصد سے آئے ہو ادھر؟؟
کبیر اس عورت کے نقوش دیکھ رہا تھا۔۔
کچھ تھا اس چہرے میں‘کبیر بے چین ہو گیا۔۔۔
اسے لگا کہ وہ اس عورت کو بہت اچھی طرح جانتا ہے۔۔۔ مگر کیسے اور کہاں یہ اسے یاد نہ آیا۔۔۔
‘‘ دیکھیں مجھے ستارہ کے سلسلے میں بات کرنی ہے بہت ضروری۔۔۔ لیکن آپ نے کہا کہ وہ یہاں سے جاب چھوڑ چکی ہیں تو پھر آپ مجھے اس کی فیملی کا پتا بتا دیں۔۔ مجھے بہت ضروری اطلاع دینی ہے انہیں‘‘
کبیر نے وضاحت کی،،،
اسکی فیملی کا مجھے نہیں پتا۔۔۔ نہ کھبی اس نے بتایا‘نہ میں نے پوچھا ۔۔۔اسے جاب کی ضرورت تھی‘میں نے دے دی۔۔۔ (گڈی باجی نے بات بنائی)
‘‘چلیں پھر مجھے اجازت دیں۔۔ مجھے اسکی فیملی کو تلاش کرنا ہے۔۔۔ ‘‘
کبیر اٹھ کھڑا ہوا اور باہر کی جانب چل پڑا۔۔۔۔
گڈی باجی نے کچھ سوچ کے اسے آواز دی۔۔۔
سنو لڑکے۔۔۔۔!!!
ادھر آؤ۔۔۔۔۔
کبیر پلٹا۔۔۔
کیا نام ہے تمہارا؟؟؟ اور کہاں سے آئے ہو؟؟؟
گڈی کی کھوجتی نگائیں کبیر کے چوڑے وجود میں کچھ تلاشنے لگیں۔۔۔۔
شادی شدہ ہوِِِ؟؟؟؟
کبیر کی تیوری پہ پڑے بلوں میں اضآفہ ہو گیا۔۔۔ اسے کچھ کچھ یاد آنے لگا تھا۔۔۔
اس نے جواب نہ دیا اور باہر چل دیا۔۔۔ پھر کچھ سوچ کے پلٹا اور گڈی کے مقابل کھڑا ہو گیا۔۔۔ اسکے اونچے لمبے وجود کے سامنے گڈی کا چھوٹا قد چھپ سا گیا تھا۔۔۔
‘‘ وقت نے ایک بار پھر تمہں میرے سامنے کھڑا کر دیا ہے۔۔۔
بیگم گلشان آراء۔۔۔۔
تم سے تو بہت سے حساب نکلتے ہیں میرے۔۔۔لگتا ہے اب حساب چکانے کا وقت آ گیا ہے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...