(Last Updated On: )
کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ اس دنیا بارے غور و فکر کرتے ہوئے شاعر انہونی کے خوف میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ایک دوست کے نام خط میں ریمباد ٭نے کہا تھا کہ شاعر کے لئے ’غیب دان ہونا ضروری ہے‘ اس کا غیب دان بننا ضروری ہے۔ شاعر احساس کے طویل، گہرے اور منطقی فساد کے تجربے سے گزرتا ہے تو غیب دان بنتا ہے…… وہ نامعلوم پر عبور حاصل کر لیتا ہے، لیکن احساس اور سوچ کا تعامُل ہی نہیں ہوتا جو کسی غیب دان کو جنم دیتا ہے۔ اپنے ماحول کا علم بھی ضروری ہوتا ہے کہ سوچ ماحول کی مٹی میں ہی زرخیز ہوتی ہے۔
1823ء موسم گرما کی بات ہے، پرشیا میں ابھی ان امتیازی قوانین کے بننے میں ایک سال باقی تھا جن کے مطابق سکولوں اور یونیورسٹیوں میں یہودیوں کا بطور استاد تقرر منع کر دیا گیا تھا، ہنرک ہن٭٭ (جو بعدازاں یہودیت چھوڑ کر پروٹسٹنٹ بن گیا) نے اپنے ایک دوست کو لکھا کہ وہ یہودیوں کے شہری حقوق کا کھل کر دفاع کرے گا اور آنے والے سخت حالات، جن کا آنا لازمی امر بن چکا ہے، کا مقابلہ۔ جرمن عوام میری آواز ضرور سنیں گے اور میری آواز کے جواب میں آوازیں جرمن مے خانوں اور حویلیوں اندر گونجیں گی۔
تاریخ کی سوجھ بوجھ رکھنے والے شاعروں کو عموماً خدشے لاحق رہتے ہیں۔ وہ کبھی مایوسی کا شکار نہیں ہوتے، امید کا دامن مسلسل تھامے رکھتے ہیں، وہ ماضی کے جرائم کا حوالہ دیتے ہوئے حال کے مجرموں کو تنبیہہ کرتے ہیں، وہ اپنے قارئین کو ان آفتوں بارے خبردار کرتے ہیں جو ایسے لوگوں پر نازل ہوتی ہیں کہ جو خاموش رہ کر قاتل کے شریکِ جرم بنتے ہیں۔ عبرانی شاعر اہیرون شباتی اپنے ہم وطنوں سے درخواست گزار ہے کہ وہ ماضی بارے محض مظلوم کے نقطۂ نظر سے مت سوچیں بلکہ اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں کہیں انہوں نے لاشعوری طور پر اپنے اوپر ظلم ڈھانے والے ظالم کی کچھ خصلتیں تو مستعار نہیں لے لیں۔ تاریخ بارے پیش گوئی کرنا ممکن نہیں۔ فلسطین اوپر جو استعماری ظلم آج ڈھایا جا رہا ہے عین ممکن ہے کل اسرائیل کو اس کا جواب عدالتی کٹہرے میں کھڑا ہو کر دینا پڑے:
میرے پیارے قاری!
جب یہ کھیل اپنے انجام کو پہنچے گا
کسے معلوم کون کس بنچ پر بیٹھے گا
وہ جن کا نعرہ تھا ’مرگ برعرب‘
اور وہ جو کہتے تھے ’ہم لا علم تھے‘2
حکومت چاہے کسی کی بھی تھی، بیسویں صدی میں عرب دنیا اندر شاعر چاہے آزاد تھے یا نہیں، شاعری کو خوب آزادی میسر تھی۔ یہ کیسے ممکن ہوا؟ باآسانی یاد ہو جانے کے باعث کیفے میں بیٹھے لوگ نظمیں دہراتے،یہ نظمیں گیتوں میں ڈھل کر زبان زد عام ہو جاتیں، کوئی سرحد ان کے راستے میں حائل نہ ہو سکتی تھی یوں یہ نظمیں شہر شہر بلا خوف و خطر گھوما کرتیں۔ جہاں تک شاعروں کا تعلق ہے، ان پر کڑا وقت گزرا۔ انہیں زبردستی جلاوطن کیا گیا۔ جب عوامی سچ پر پہرا بٹھا دیا جائے تو سمجھو موقع پرستوں کا وقت آن پہنچا۔
دربار کی زینت بننے والے گیدڑ شاعر (یا صحافی اور دانشور) ایسی باتوں کا تمسخر اڑاتے ہیںکہ شاعر رہنما بھی ہو سکتے ہیں، وہ دانشور کو مسخرے کے طور پر پیش کرتے نہیں تھکتے۔ ہاں مگر آمر، وہ عقل سے کسی حد تک پیدل ہی کیوں نہ ہوں، حقیقت کے قائل ہوتے ہیں۔ وہ ان گیدڑوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں جنہیں کسی بھی ملک کی مخبرات (خفیہ) والے خرید سکتے ہیں۔
اختیار کُل کے مالک رہنما (جو بعض اوقات بغیر کسی حزب اختلاف کے منتخب رہنما بھی ہو سکتے ہیں) سمجھتے ہیں کہ وہ عقل کل ہیں، پیکر حسن و خوبی ہیں اور نتیجتاً ان کی خواہش ہوتی ہے کہ عوام میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جانے والے شاعر ان کی حکومت کے قصیدے لکھیں۔ 1938ء کی دہائی کے اوائل میں اوسپ مینڈل سٹام نے مجبوراً سٹالن کی شان میں ادبی لحاظ سے چند بہت بری نظمیں منظوم کیں۔ اوسپ کو معلوم تھا یہ نظمیں بہت بھیانک ہیں۔ لازمی تھا کہ وہ تزکیہ نفس کے لئے ان نظموں کا اثر زائل کرنے کی سعی کرے۔ اس نے سٹالن کے خلاف نظم لکھی جس میں سٹالن کا کٹھا چٹھا اتار دیا گیا، وہ یہ نظم اپنے قریبی دوستوں کے حلقے میں سناتا اور اس حلقے کے اندر بھی وہ یہ نظم سرگوشیوں میں پڑھتا۔ شاعر بھول گیا (یا شاید نہ ہی بھولا ہو) کہ ایک بار نظم اپنے قفس…… شاعر کے دماغ…… سے فرار ہو جائے، چاہے تحریری شکل میں یا زبانی، تو پھر اسے دوبارہ گرفتار کرنا ممکن نہیں رہتا۔ مینڈل سٹام کی بدقسمتی کہ اس کی نظم کو واپس بلانا ممکن نہ تھا۔ نظم نے پورے سویت روس کا سفر کیا، مقامی زبانوں میں ترجمہ ہوئی، یوکرائن اور جارجیا سے لے کر آذربائیجان اور ازبکستان تک پہنچی۔ ایک روز یہ نظم کریملن جا پہنچی اور سٹالن نے بھی سنی۔ سٹالن جو اب ان داتا بن چکا تھا، کسی زمانے میں خود بھی معمولی شاعر تھا۔ اس نے یہ نظم یقینا بار بار پڑھی ہو گی اور سوچا ہو گا کہ دور دراز کے دیہاتوں میں لوگوں کا ردِ عمل کیا ہو گا اور ہاں! اس سے بھی اہم بات کہ کہیں اس کی پیٹھ پیچھے پولٹ بیورو کے کسی رکن کی ہنسی تو نہیں نکلی ہو گی۔ نظم تو امر ہو گئی البتہ شاعر کو زندگی سے ہاتھ دھونا پڑے3۔
عراق ہمیشہ سے خود پر نازاں ملک رہا ہے۔ یہ احساسِ فخر عراق کے سرکش اور ثابت قدم شاعروں کی شاعری اندر بھی نظر آتا ہے جو کسی صورت جھکنا نہیں جانتے۔ اس کتاب میں آگے چل کر میں تاریخ عراق کا جائزہ لوں گا جس کی مدد سے معصوم اور ظالم، دونوں کو یہ بات سمجھنے میں مدد ملے گی کہ عراقی اس تازہ سامراجی قبضے سے اس قدر نفرت کیوں کرتے ہیں۔ پہلے مگر میں چند سطور عراقی شاعروں بارے تحریر کرنا چاہتا ہوں۔ 1979 ء میں جب صدام حسین مختارِ کل بن گئے تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ عراقی بائیں بازو کی باقیات کا بھی خاتمہ کر ڈالیں۔ شاعر سعدی یوسف جو بری نظمیں نہیں لکھنا چاہتے تھے، بغداد سے فرار ہو گئے۔ یہ ممکن نہ تھا کہ نئی سرکار سے سمجھوتہ بھی ہو اور تخلیقی کام بھی۔ انہوں نے بصرہ و بغداد کو خیرباد کہا اور بیروت میں جا پناہ لی۔ اسی سال اپریل میں انہوں نے ’’دوستی‘‘ کے عنوان سے نظم لکھی اور اپنے شاعر دوست ادونس کے نام منسوب کر دی:
ربع صدی گزری تو پتہ چلا
ابنِ تیمیہ4
تشدد خانوں کا سربراہ بن چکا ہے
اور الموافِق 5
آج بھی غلاموں کی سرکشی کچلنے میں مصروف ہے۔
دمشق کی پولیس
عراقی پولیس
عرب امریکی پولیس
انگریزی اور فرانسیسی
ایرانی اور عثمانی پولیس
فاطمی خلفاء کی پولیس
ہمیں ٹھوکریں رسید کرتی ہے
ہمارے خاندان
ہمیں ٹھوکریں رسید کرتے ہیں
ہمارے سادہ لوح، نیک دل خاندان
ہمارے قاتل خاندان۔
ہم پاگل پن کی اولاد ہیں
آئو وہ کر گزریں جو جی میں آتا ہے6
جس ہفتے سقوطِ بغداد ہوا، میں نے سعدی یوسف کو ملاقات کے لئے اور اگر اُن کے لئے ممکن ہو تو لنچ کے لئے، فون کیا۔ سعدی یوسف کو عہدِ جدید کے عظیم عرب شاعروں میں شمار کیا جاتا ہے، ان دونوں وہ لندن کے مضافاتی علاقے اوکسبرج میں عارضی جلاوطنی گزار رہے ہیں، اوکسبرج ہیتھرو ائرپورٹ سے قریب مگر بصرہ کے قریبی گائوں ابوالخصیب سے بہت دور ہے جہاں سعدی یوسف 1934ء میں پیدا ہوئے، بغداد سے بھی بہت دور جہاں انہوں نے عفوانِ شباب کا عہد گزارا۔ میں ان کی یہ بات سن کر مسکرا دیا کہ وہ ائرپورٹ کے قریب رہتے ہیں۔ مجھے جلاوطنی اور ہجرت پر بریخت کی نظم یاد آ گئی:
جھوٹا سا لگتا ہے جو نام انہوں نے ہمیں دیا ہے: مہاجر
یعنی وہ لوگ جو اپنا گھر بار چھوڑ آئے ہیں، مگر ہم
اپنی مرضی سے تو گھر بار چھوڑ کر
دیارِ غیر میں نہیں آن بسے، نہ ہی ہم آئے تھے
کہ تمام عمر، موقع ملے تو، دیارِ غیر میں ہی گزر جائے
ہم تو فرار ہوئے تھے۔ نکال دئیے گئے، پابند کر دئیے گئے
چنانچہ ہم، بے چین، سرحدوں کے قریب ڈیرے ڈالے رہتے ہیں7
اگلے روز سوہو اندر نیولیفٹ ریویو کے دفتر میں ان سے ملاقات ہوئی۔
’کیا کھانا پسند کریں گے؟‘
’اوہ‘ انہوں نے بے پرواہی سے کندھے اچکائے، ’کچھ بھی‘
گلی گلی گھومتے، ایک طعام گاہ کے بعد دوسری کا معائنہ کرتے ہوئے، چینی، ویت نامی، جاپانی یا تھائی ریستوران جانے کی میری ہر پیش کش رد کر دی گئی۔
’مشرق بعید کے ریستوران سے تو پرہیز ہی کیجئے۔‘
نئے سرے سے تلاش کے بعد بھی ناکامی ہوئی تو میں نے ان سے کہا کہ طعام گاہ کا فیصلہ آپ خود ہی کیجئے۔
’کیا قریب کوئی عرب کیفے وغیرہ ہے؟‘
گریک سٹریٹ پر ایک تھا۔ کیفے خالی پڑا تھا اور وہیں ہم نے کھانا کھایا۔ سعدی نے ویٹر کے الجزائری لہجے کو فوراً بھانپ لیا۔ میوزک خاصے زور سے نج رہا تھا اور ہم نے ان سے آواز کم کرنے کی درخواست کی۔
’یہ نظار قبانی کی نظم تھی‘ انہوں نے بتایا۔ ’ آپ نظار قبانی کو پسند کرتے ہیں‘؟
پسند تو تھے مگر آواز ہنوز بہت زیادہ تھی۔ ہم نے کچھ دیر نظار قبانی اور پاکستانی شاعر فیض احمد فیض بارے بات کی، سعدی یوسف ربع صدی قبل فیض سے بیروت میں مل چکے تھے جہاں دونوں جلاوطنی کاٹ رہے تھے۔ وہ فیض کے مداح تھے اور مجھ سے پوچھنے لگے کہ فیض کا پاکستانی کلچر پر کیا اثر ہے۔ میں نے انہیں بتایا: ’میرے ایسے بہت سے لوگ جو آمریت کے زیر سایہ پلے بڑھے، ہمارے لئے فیض پاکستانی کلچر تھا‘۔ قبانی اور فیض، دونوں اب اس دنیا میں نہیں مگر ان کی شاعری زندہ ہے اور زندہ رہے گی۔ سعدی یوسف نے مجھے بتایا کہ وہ وہٹمین، قوافی، رِٹ سُوس، انگریتی اور لورکا ایسے شاعروں کا عربی ترجمہ کر چکے ہیں۔ میں نے ان سے ان کے اپنے کام اور مقام بارے پوچھا تو ان کا اصرار تھا وہ ایسے اہم شاعر نہیں عراق کے پاس بہت سے شاعر ہیں۔
’پرانی نسل سے ہم تین تھے: الجواہری، مظفر النواب اور میں۔ ہم تینوں کے مقدر میں جلاوطنی تھی۔ میرے خیال میں الجواہری سو سال کے تھے جب چند سال پہلے (1997ء میں) ان کا دمشق میں انتقال ہوا۔ انہیں بغداد دوبارہ دیکھنا نصیب نہ ہوا۔ صدام ہمارے پاس پیغامبر بھیجتا رہتا۔وہ ہم تینوں کو بغداد میں مشاعرے کی دعوت بھیجتا رہتا۔ معلوم اسے بھی تھا اور ہمیں بھی خبر تھی کہ ایسے کسی بھی مشاعرے میں پانچ لاکھ سے بھی زیادہ لوگ شریک ہوں گے۔ اپنے پیغامبروں کے ذریعے وہ ہمیں کہلاتا: مجھے معلوم ہے آپ سب کیمونسٹ ہو اور میرے خلاف ہو مگر خدارا سمجھنے کی کوشش کیجئے کہ آپ ہمارا قومی ورثہ بھی ہو۔ واللہ لوٹ آیئے۔ میں آپ کی حفاظت کی ضمانت دیتا ہوں۔ یہ ضمانت زیادہ قابل بھروسہ نہ تھی۔ آخر ہمارے بے شمار کامریڈ تشدد کا نشانہ بنے اور کئی جان سے ہاتھ دھو چکے تھے۔ صدام نے یہ ظلم امریکہ سے سودے بازی کے نتیجے میں کیا۔ وہ ہمیں صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتا تھا اور صرف ہمیں ہی نہیں۔ بعث پارٹی میں بھی بعض بہت مخلص اور اچھے لوگ تھے۔ وہ بھی مٹا دیئے گئے۔ لہٰذا ہم بغداد نہیں گئے۔ اب بغداد پر پھر قبضہ ہو چکا ہے‘۔
جلاوطنی ان شاعروں کو سدھانے میں ناکام رہی۔ ان کی شاعری ان کے ملک میں گھومتی اور ان کی تیزابی نظموں کو خوب سراہا جاتا۔ حکومت اور حکومت کے مغربی حامیوں نے جو بھی کچھ کیا، ان شاعروں کے حوصلے پست نہ ہوئے نہ ہی وہ مایوسی کا شکار ہو کر سعودی سخاوت سے بہرہ مند ہونے والے پرانے غداروں کی قطار میں لگے۔ وطن کی یاد میں مظفر النواب نے جو کہا وہ جلاوطنوں کی ایک پوری نسل کی آواز ہے:
میں قسمت کا لکھا تسلیم کرچکا ہوں
میری قسمت کسی پنچھی ایسی ہے
میں نے سب سہہ لیا
مگر تذلیل کے سوا۔
میرا دل سلطان کے محل میں گروی پڑا ہو
یہ کبھی گوارا نہ کیا۔
لیکن یا خدایا!
پرندے بھی گھروں کو لوٹتے ہیں
میں سمندروں سمندروں اڑتا پھرتا ہوں
ایک جیل سے دوسری جیل سے تیسری جیل تک
محض دراوغے بدلتے رہتے ہیں8
سعدی یوسف نے نیا سگریٹ سلگاتے ہوئے لمحے بھر کو توقف کیا۔ وہ بصرہ میں رہائش پذیر اپنی دو بہنوں کو 1978ء سے نہیں ملے۔ کیا وہ دونوں ہنوز وہیں ہیں؟ لوگوں کی یاد اور تاریخ پر ڈاکہ ڈالا جا رہا تھا۔ بغداد میوزیم میں ایسے نادر نمونے موجود تھے جن کا تعلق میسو پوٹیمیا کی ابتدائی تہذیبوں سے تھا (لکھنے کی ابتداء 3500 ق م میں یہیں ہوئی تھی)۔ ٹینک کے گولے نے جو داخلی دروازے کو تباہ کر ڈالا تو چور اور جی آئز ٭ (انٹرنیٹ پر موجود تصاویر کے مطابق) میوزیم اندر گھس کر لوٹ مار کرنے لگے، بغداد لائبریری ایک مرتبہ پھر نذرِ آتش کی گئی اور عہد عثمانیہ کے نادر نسخے باہر فٹ پاتھ پر جلے پڑے تھے۔ پرانے شاہی شہراُر کی تاریخی عمارتوں پر امریکی فوجیوں نے گریفٹی٭٭ بنا دی تھی۔ جنوب میں ذرا مزید پرے برطانوی سپاہی عراقی مرد و خواتین پر تشدد کرتے ہوئے اور جنسی حملے کرتے ہوئے تصویریں اتروا رہے تھے۔ یہ تاریخ کا ناقابلِ تغیر چہرہ تھا۔ فوجی قبضہ، اقتصادی استحصال، جنسی و ثقافتی تذلیل ہر نئی پرانی سلطنت کا آزمودہ طریقہ کار رہا ہے۔ ایک ملک پر ورنہ قبضہ کیسے ممکن ہو؟ 1919ء میں برطانیہ نے عرب آزادی کا سوانگ رچایا تھا لیکن اصل طاقت برطانیہ کے قبضے میں ہی تھی۔ نتیجہ بہت برا نکلا۔ تاریخ کو ہو بہو دہرانا تو ممکن نہیں تھا البتہ انتخاب بھی محدود تھا۔
بارن اگین٭٭٭ مسیحی بنیاد پرست کے طور پر جارج بُش بابل قدیم (عہد نامہ قدیم میں اسے پسندیدہ نظر سے دیکھا گیا ہے) کی سفاکی اور اس سے متعلقہ آیتوں بارے ضرور آگاہ ہوں گے۔ امید ہے انہیںیہ بھی معلوم ہو گا کہ اس شہر کے آثار میسو پوٹیمیا میں پائے جاتے تھے جو اب عراق کہلاتا ہے، مگر کیا بش کو اس کے علاوہ بھی کچھ معلوم ہے؟ کیا کسی نے جارج بش کو بغداد اور اس شہر کی تاریخ بارے کوئی سبق دیا۔ کیا جارج بش کو معلوم ہے کہ امریکی سپاہیوں کو نئے منگول ، کیوں کہا جا رہا تھا۔ کیا ان میں سے کسی کو معلوم تھا کہ تیرہویں صدی میں جب ہلاکو خان کے جنگجو شہر کا محاصرہ کئے بیٹھے تھے تو محاصرے کا کیا نتیجہ نکلا تھا؟ منگول قوم کے پاس تحریری کلچر نہیں تھا لہٰذا وہ کتابوں، نسخوں اور کتب خانوں سے خوف کھاتے تھے۔ 1258ء میں جب ہلاکو خان کے جنگجوئوں نے بغداد کا کتب خانہ جلایا تو ان کا احمقانہ خیال یہ تھا کہ کتب خانے میں موجود کتابیں ان کے خلاف کام آ سکتی ہیں۔ بربریت کے اس عمل کا نتیجہ یہ نکلا کہ پرانی یونانی تحریروں کے ترجموں سمیت نادر نسخے ضائع ہو گئے۔ یہ بات قابل بحث ہے کہ کیا بغداد یا اسکندریہ کے جلائے جانے والے کتب خانوں میں ارسٹوفینز کے کچھ کھیل بھی شامل تھے یا نہیں۔ اس بابت البتہ کسی بحث کی گنجائش نہیں کہ اسلامی اور عالمی ثقافت کو زبردست نقصان پہنچا۔ یادیں تو شائد کسی ایک شہر کے میوزیم اندر کسی طاق میں سنبھال کر رکھی جا سکتی ہیں مگر یہ یادیں ساری دنیا کا مشترکہ ورثہ ہوتی ہیں۔ منگولوں کے ہاتھوں بغداد میں اور کیتھولک عیسائیوں کے ہاتھوں غرناطہ میں کتابوں کا جلنا اسلامی دنیا کے دو ناقابلِ فراموش واقعات ہیں۔
2003ء میں بغداد پر قبضہ کرنے والی امریکی فوج کے جرنیلوں کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس کے ثقافتی خزانوں کی حفاظت کرتے۔ وہ اس میں بری طرح ناکام رہے۔ شائد اس کی وجہ یہ تھی کہ جرنیل اپنے سپاہیوں کو حملے سے قبل عراقیوں بارے بتا رہے تھے کہ یہ ’خردماغ‘ ہیں، غیر مہذب جنگلی اور گیارہ ستمبر کے ذمہ دار ہیں،لہٰذا اب یہ بتانا ممکن نہ رہا ہو کہ ’خردماغ‘ ایک ثقافتی ورثے کے مالک ہیں۔ وجہ کچھ بھی ہو، کیا کچھ بھی نہیں گیا۔
چند لمحوں کے بعد سعدی یوسف یوں سرہلاتے گویا انہیں یقین نہ آ رہا ہو: ’کسے خبر تھی کہ مغرب پھر واپس آ جائے گا‘۔ اس کے بعد وہ اپنے عوام پر بھرپور اعتماد کا اظہار کرتے: ’ہماری مزاحمت کی لمبی تاریخ ہے۔ کیا آپ کو معلوم ہے الجواہری کے بھائی 1948ء میں برطانیہ کے خلاف سرکشی میں شدید زخمی ہو گئے تھے؟ انہوں نے دجلہ پر بنائے گئے شہداء پل، جہاں انہیں گولیاں لگیں، کے پاس الجواہری کی باہوں میں دم توڑ دیا۔ خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد؟ تازہ قبضہ بھی زیادہ دیر نہیں چلے گا۔ ان کی کٹھ پتلیاں بھی زیادہ عرصہ تماشا نہیں کر پائیں گی‘۔
1948ء میں ہونے والی برطانیہ مخالف سرکشی بارے الجواہری نے ایک نظم لکھی تھی اور جس ہفتے سقوطِ بغداد ہوا، ہر شخص کے لبوں پر اس نظم کی ابتدائی سطور تھیں:
میرے پیشِ نظر ہے خون آلوداُفق
اور بے شمار اندھیری راتیں
ایک نسل گئی، ایک نئی نسل آئی
آگ ہے کہ دہکتی رہی
اس نظم کو قاہرہ میں جلاوطن نئی نسل کے شاعر سنان انتون نے تازہ کیا، وہ الاہرام کے قارئین کو بتاتے ہیں کہ کس طرح:
عراق ایران جنگ (1980-88) کے آخری چند سال ہماری نوجوان نسل کے سرپرمسلط ہیں اور ہماری زندگیوں میں تشکیک پسندی لے آئے ہیں۔ اُن دنوں ابو نواس سٹریٹ کے تاریک بے کیف شراب خانے ہماری پناہ گاہ تھے، ہم نے شاعرانہ جوش سے غداری کی نہ اس نالۂ سرود سے جس میں حال کا دکھ بیان کیا جاتا تھا، اس کے ساتھ ساتھ حال کے دکھ سے نمپٹنے کے لیے شگفتگی، دل لگی اور ہڈن ازم بھی موجود رہتا۔ ہم رات گھر کی راہ لیتے تو باغی عراقی شاعر مظفر النواب ہمارے خضرِ راہ ہوتے۔ اُن کی حشر انگیز نظمیں، جن پر پابندی تھی، کیسٹوں پر عراق اندر سمگل کی جاتی تھیں اور خفیہ طور پر دوست ان کا تبادلہ کرتے۔ ان دوستوں میں سے کچھ تو عراق میں ہی رہے، پہلے پابندیوں کا جبر سہتے رہے اب ایک نئی جنگ دیکھ رہے ہیں جبکہ بہت سے دوست کسی نہ کسی شکل میں جلاوطنی کاٹ رہے ہیں۔
اب عرب قوم کو ایک نئی شکست ہو چکی تھی۔ ایک آزاد خود مختار عرب ریاست پر حملے کے بعد قبضہ ہوا اور چونکہ بالخصوص بغداد میں مزاحمت نہ ہوئی لہٰذا اس شکست نے پرانے زخم بھی تازہ کر دیئے۔ 1258ء میں بغداد پر منگول قبضے کے بعد منگول رہنما ہلاکو خان اور مسلمانوں کے رہنما آخری عباسی خلیفہ المعتصم کے مابین ایک مکالمہ ہوا۔ اس عہد کے جیّد تاریخ دان کہتے ہیں کہ شکست کی بڑی وجہ تیاری کی کمی اور مسلمان اشرافیہ کے درمیان شیعہ سنی تفرقہ بازی تھی۔ بعض لوگ الزام لگاتے ہیں کہ موصل کا گورنر اور وزیر خاص وزیر المقامی، جو ایک شیعہ تھا، منگولوں کے ہاتھ بک گیا تھا اور اس نے اپنے حکمرانوں سے غداری کی۔ تاریخ دان ال اثیر کا کہنا ہے کہ یہ وزیر کا خلیفہ کو مشورہ تھا کہ فوج کی تعداد میں کمی کر کے محض 10,000 سپاہیوں کی مدد سے 200,000 منگول سپاہ کا مقابلہ کیا جائے۔ کچھ لوگ کردوں پر انگلی اٹھاتے ہیں جو ماضی میں بھی منگول مہم جوئی میں ان کا ساتھ دے چکے تھے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ بغداد تفرقہ بازی کا شکار تھا اور ہر فرقے کے سر پر کسی نہ کسی حکمران کا ہاتھ تھا۔ خلیفہ کو شیعائوں نے دھوکا دیا یا کردوں نے یا خود اس نے اپنے آپ کو دھوکا دیا۔ ایک بات جس پر بہر حال عرب اور غیر عرب ذرائع متفق ہیں وہ فلسفی نصیرالدین الطُوسی (وفات 1274) کا بیان کردہ واقعہ ہے جو ہلاکو خان اور المعتصم کے مابین مکالمے کی بابت اس نے بیان کیا ہے۔ یہاں یہ بات تسلیم کرنی پڑے گی کہ ’وحشی‘ ہلاکو نے جس سیاسی فراست کا مظاہرہ کیا وہ اس کے ہارے ہوئے دشمن سے کہیں بہتر تھی باوجود اس کے کہ خلیفہ کے ارد گرد دنیا کے بہترین عالم موجود تھے۔ الطوسی کے مطابق:
بادشاہ (ہلاکو خان) نے خلیفہ کی رہائش گاہ کا بغور معائنہ کیا۔ خلیفہ کو بلایا گیا اور حکم دیا گیا کہ وہ تحفے تحائف پیش کرے۔ جو بھی کچھ پیش کیا گیا، بادشاہ نے فوراً سارے تحائف اپنے وزیروں، مشیروں، سالاروں اور وہاں موجود افراد میں بانٹ دیئے۔ اس کے بعد اس نے سونے کی طشتری خلیفہ کو پیش کرتے ہوئے کہا: ’کھائو‘۔
’اُسے کھایا نہیں جا سکتا‘؟ خلیفہ نے کہا۔
’تو پھر آپ نے اسے سنبھال کیوں رکھا ہے‘ بادشاہ نے کہا، ’اسے اپنے سپاہیوں کے حوالے کیوں نہیں کیا۔ اور یہ جو لوہے کے دروازے آپ نے بنا رکھے ہیں، ان کو تیرکمان میں ڈھال کر آپ نے دریا کا رخ کیوں نہ کیا تاکہ مجھے دریا پار کرنے سے روکا جا سکے‘؟
’خدا کی یہی مرضی تھی‘ خلیفہ نے جواب دیا۔
’آپ کا جو انجام ہو گا‘ ، بادشاہ نے کہا ’وہ بھی خدا کی مرضی ہو گی‘۔
بغداد اس شکست سے کبھی جانبر نہ ہو سکا۔ منگولوں کا بغداد میں رکنے کا کوئی ارادہ نہ تھا۔ انہوں نے لوٹ مار کی، قتل و غارت کا بازار گرم کیا مگر واپس لوٹ گئے، جاتے جاتے خزانہ اور بے شمار عورتیں بھی لے گئے۔ اس شکست کے بعد فارس کا شہر تبریز تجارت کا مرکز بن گیا جبکہ بصرہ کی جگہ ہرموز خطے کی اہم ترین بندرگاہ بن گیا۔ 1258ء کے بعد سے بغداد معمولی سا شہر بن کر رہ گیا جس کی آبادی کم ہو رہی تھی، جہاں آئے روز سیلاب آتے یا کوئی اور آفت ٹوٹ پڑتی جبکہ بغداد پر منگول، فارس، عثمانی اور آخرکار برطانوی (جنہوں نے یہاں بادشاہت استوار کی) حکومت کرتے رہے۔ غیر ملکی استبداد سے نجات سات صدیاں بعد 1958ء میں نصیب ہوئی…… 1958ء میں عرب قوم پرستی اپنے انتہائی عروج پر تھی…… اور یہ فوج تھی جو ہر معنی میں قوم پرستی کا مجسم اظہار بنی۔ مگر یہ کیسے ممکن ہو سکا؟1948ء میں کمزور اور منقسم عرب افواج (جن کی اکثریت برطانیہ کی مٹھی میں تھی) اسرائیل کے خلاف جنگ میں جھونک دی گئیں۔ شکست لازمی تو نہ تھی البتہ صیہونی قیادت کے بالکل برعکس عرب رہنما جیت کے ارادے سے ہی عاری تھے۔ صیہونیوں کو پیچھے ہٹتی ہوئی سلطنتِ برطانیہ نے مسلح کیا تھا اور انہوں نے اپنے حامیوں کی خوب تربیت بھی کی اور انہیں منظم بھی کیا۔ ادھر عرب قوم پر حاکم بدعنوان اشرافیہ نے اسے اپاہج اور غیر مسلح رکھا۔
سعودی ناول نگار عبدالرحمن منیف اپنی خود نوشت میں اومان اندر گزرے ہوئے اپنے بچپن اور عہد جوانی کا ذکر کرتے ہیں۔ ان کی والدہ کا تعلق عراق سے تھا اور ان کی نانی اماں اکثر بغداد سے ہو کر آتیں تو سرپر عجیب سی چُنی اوڑھے ہوتیں اور سنانے کو اُن کے پاس کئی کہانیاں ہوتیں۔ منیف نے سنا کہ کس طرح 1941ء میں ہونے والے بغاوت کے رہنمائوں پر سرجان گلب نے قابو پایا اور پھر ان رہنمائوں کو بغداد لایا گیا جہاں انہیں پھانسی دے دی گئی۔ گلب اومان میں بھی رہا اور یہاں بھی اس کے سورمائوں نے ہر چیز تہس نہس کی۔ 1947-48ء میں فلسطین کے حق میں ہونے والے مظاہروں کو سختی سے کچل دیا گیا البتہ دریائے اردن کے اس پار موجود فلسطینیوں کے لئے ہمدردی کو نہیں کچلا جا سکا۔ منیف اپنے سکول کے ماحول بارے لکھتے ہیں:
بعض اوقات یوں ہوتا کہ دیگر عرب ملکوں میں موجود شہروں کے نام آپس اندر گڈ مڈ کر دیئے جاتے لیکن جب بھی معلم پوچھتا کہ فلسطین کے پانچ شہروں کے نام کون گنوا سکتا ہے تو سارے طالب علم ہاتھ کھڑا کر دیتے۔ ہر کوئی دوسرے سے زیادہ اونچی آواز میں پکارتا: یروشلم، جافا، حیفہ، غزہ، لدہ، راملہ، عکا، سفاد، رملہ، ہیبرون…… فلسطین محض زمین اور لوگوں کا نام نہ تھا۔ ہر عرب کے ذہن میں فلسطین نسل در نسل سینہ بہ سینہ منتقل ہونے والا ایک خاص معنی، ایک خاص علامت اور ایک خاص مفہوم ہے۔9
عراقی سپاہیوں کا پہلا دستہ اومان پہنچا، دستے کی مجوزہ منزل فلسطین تھی، تو اومان کے باسیوں نے جی جان سے عراقیوں کا استقبال کیا، ان استقبال کرنے والوںں میں عبدالرحمن منیف کی نانی ماں بھی شامل تھیں جنہوں نے اسمعیٰل نامی ایک دور کے رشتہ دار کو بھی پہچان لیا۔
اہل اومان نے عراقی سپاہیوں کو بلامعاوضہ کھانا بھی دیا اور گھر میں رہنے کے لئے جگہ بھی دی اور جب ’عراقی فوج مارچ پاسٹ کرتے تو لوگ ان پر چاول گندم اور پھول نچھاور کرتے‘۔ پہلے دستے کے بعد البتہ باقی عراقی فوج نہ پہنچی۔ فوجی افسروں نے دستوں کی نقل و حرکت میں اس قدر تاخیر کر دی کہ بہت دیر ہو گئی۔ امید پہلے پریشانی اور پھر غصہ میں بدل گئی۔ اسمعٰیل اس غداری کے ہاتھوں شل ہو کر رہ گیا:
’بے غیرت‘، وہ چلایا۔ ’کیا بے غیرتی ہے۔ کہاں گئے تمہارے نقشے، کہاں گئے تمہارے منصوبے، کیا ہوا وہ سب؟ ہمیں یہاں بھیج کر انہوں نے کہا ’’تمہیں نئے آرڈر ملیں گئے‘‘۔ ہمیں کچھ بھی تو نہیں بتایا گیا۔ ہمیں حملہ کرنا تھا یا دفاع؟ ہمیں مورچہ بند ہو کر اپنی حفاظت کرنی تھی یا بوریا بستر باندھ کر لوٹ جانا چاہئے تھا؟‘
نانی ماں نے اس کی ڈھارس بندھانے کی کوشش کی: ’اسمعٰیل! پریشان نہ ہو بیٹا۔ ایسے کاموں میں دیر سویر تو ہو جاتی ہے۔ تھوڑا اور دیکھ لو‘۔
’مطلب تھوڑا اور رک جائیں تاکہ کتے کی موت مارے جائیں‘۔
’اللہ نہ کرے……‘
’تو پھر وہ کہاں ہیں جنہوں نے سینوں پر تمغے سجا رکھے ہیں؟ کہتے تھے ہم دو دن میں فلسطین کو آزاد کروا لیں گے‘۔
ایسے ہزاروں اسمعٰیل تھے جن کے ساتھ ہر محاذ پر یہی ہوا۔ 15 مئی سے 21 جون (1948ء) تک، جب پہلی جنگ بندی کا اعلان ہوا، شہر فتح ہو چکے تھے، ہزاروں قتل اور لاکھوں بے گھر ہو چکے تھے۔
اس شکست نے پوری عرب دنیا اندر ترقی پسندی کے عمل کو تیز کیا۔ لوگوں کو یہ بتانے کی ضرورت نہ تھی کہ عرب فوجیں تباہی کا راستہ کیوں نہ روک سکیں۔ انہیں معلوم تھا کہ جرنیل برطانیہ کی مٹھی میں تھے اور وہ محض فلسطین کی میت کو کندھا ہی دے سکتے تھے۔ یہ خیالات بازار تک ہی محدود نہ تھے۔ ہر عرب فوج اندر قوم پرست ذہن رکھنے والے افسروں کا ایک حلقہ موجود تھا جو اس شکست پر سیخ پا تھا اور یہ حلقے اندرون خانہ خفیہ طور پر منظم ہو رہے تھے۔ وہ سامراج کی اس غلامی سے نجات پانے کے لیے بے چین تھے جس نے ان کے مقدر میں تباہی لکھ دی تھی۔ مصر اور عراق میں برطانیہ نواز بادشاہتوں کا خاتمہ کرنے والے فوجی انقلابات 1948ء کی شکست کا نتیجہ تھے۔
2003ء میں بغداد پر بمباری شروع ہونے سے ایک ہفتہ قبل، میری ویسٹ منسٹر برج پر اتفاقاً کچھ عرب دوستوں سے ملاقات ہو گئی، یہ جگہ اُم الپار لیمان سے زیادہ دور نہیں اور اُم الپارلیمان جلد ہی ایک نئی سامراجی جنگ کی منظوری دینے والی تھی۔ میرے لئے یہ ملاقات حقیقی اطمینان کا باعث بنی گو میرے دوستوں کو اس کا اندازہ نہ ہوا ہو گا۔ میں بی بی سی ٹیلی ویژن پر عراق کے موضوع پر ہونے والی کسی حد تک گھٹن کا شکار بحث میں حصہ لے کر واپس آ رہا تھا۔ واشنگٹن سٹوڈیو سے رچرڈ پرل کی عفریت نما شبیہہ آبرو باختہ انداز میں مسکرا رہی تھی، برطانوی وزیر خارجہ (پرانا راسو) یہ یقین دلا رہے تھے کہ عراق پر حملے کا مقصد محض عراق کو نہتا کرنا ہے، حکومت کی تبدیلی ایجنڈے کا حصہ نہیں۔ دوسرے کونے میں جزیرہ نما عرب کے دوشہزادوں ، ایک کا تعلق ہاشمی اور دوسرے کا تعلق سعودی شاہی خاندان سے تھا، کے درمیان ہلکی سی گرما گرمی ہو رہی تھی10 ۔ بحث میں شامل ہم چند ہی لوگ تھے جو اینگلو امریکی اسٹیبلشمنٹ کے مابین پائے جانے والے اتفاقِ رائے کو محدود میں لفظوں میں چیلنج کر پائے۔
اس بحث کے بعد گلی کوچوں کے باسی عربوں سے ملنا ایک خوش گوار تجربہ تھا۔ ہم نے ممکنہ جنگ بارے بات کی، اس کے اثرات پر غور کیا، اس بابت سوچا کہ مزاحمت ہو گی یا نہیں، وغیرہ وغیرہ۔ میں فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا کہ کھانے کی دعوت قبول کروں یا نہ کروں تا آنکہ گھر دعوت پر بلانے والے دوست نے کہا: ’ہم نے دو ویڈیو خریدی ہیں جن میں جمال عبدالناصر کی پرانی ریکارڈنگ موجود ہے‘۔ میں اب خوش تھا کہ مجھے جمال عبدالناصر کو دیکھنے کے لیے نائٹس برج لے جایا جا رہا تھا۔ یہ تجربہ پر اسرار بھی تھا اور پرجوش بھی۔پر اسرار اپنے وقت کے اعتبار سے۔ جنگ سویز کے نصف صدی بعد ایک اور عرب ملک پر دو ایسی سامراجی قوتیں حملہ کرنے والی تھیں جنہیں اسرائیل کی پشت پناہی حاصل تھی۔ اس بار البتہ فرانس کی جگہ امریکہ نے لے لی تھی۔ پر جوش کیونکہ یہ ویڈیوڈ اکومنٹری جمال عبدالناصر کی جلسے جلوسوں والی سیاست کے گرد گھومتی تھیں، ان میں دکھایا گیا تھا کہ کس طرح جمال عبدالناصر بوڑھے برطانوی شیر کو للکارتے ہوئے (’سامراجیوں کو غصے میں جلنے دو‘) نہرسویز کو قومی ملکیت میں لینے کا اعلان کرتے ہیں …… اس موقع پر خوشی سے پاگل ہوتی عوام کے مناظر اس دستاویزی فلم میں شامل ہیں۔ یہ وہ عرب رہنما تھا جو تمام تر کمزوریوں کے باوجود عوام میں سچ مچ مقبول تھا، بعد میں آنے والے احمقوں اور عفریتوں کا اس سے کیا مقابلہ۔ عرب دنیا اندر عوامی بیداری کے یہ مناظر حیران کن تھے۔ 1967ء کی شکست کے بعد عوام کا جمال عبدالناصر کا استعفیٰ رد کرنا، ان کے جنازے پر عوام کا حقیقی دکھ کیونکہ لوگوں کو جبلی طور پر پتہ چل گیا تھا کہ ان کی تاریخ کا ایک اہم باب اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے۔ فلمیں ختم ہوئیں تو کوئی زیادہ بات نہ ہو سکی۔ کہنے کو تھا ہی کیا؟ اور اس کے باوجود ہم سب سوچ رہے تھے کہ دنیا کس قدر بدل گئی ہے۔ جب 1956ء میں برطانیہ، فرانس اور اسرائیل نے مصر پر حملہ کیا تو اس حملے کو عرب قوم پر پیشگی حملہ سمجھا گیا۔ نہر سویز کی رسد بندی کر دی گئی، عراق اور شام اندر تیل کی پائپ لائنیں اور پمپنگ اسٹیشن اڑا دیئے گئے، سعودی عرب والوںں نے فرانس اور برطانیہ کے ٹینکروں کو تیل کی فراہمی روک دی جبکہ سعودی آئل فیلڈز سے بحرین کو تیل کی سپلائی مکمل طور پر رک گئی۔ کویت، جو ان دنوں بھی سامراجی پٹرول اسٹیشن تھا اور آج بھی، اندر بھی تیل کی تنصیبات آتش گیر مادے سے اڑانے کی کوشش کی گئی اور اب کی بار؟ کیا عرب ریاستیں عراق پر جارحیت کرنے والوں کے خلاف کوئی معمولی سا اقدام بھی اٹھائیں گی؟ ایسا کوئی سوال اٹھانا بھی بے معنی بات تھی۔
دوسرا پیشگی حملہ 1967ء میں تن تنہا اسرائیل نے کیا۔ مصری قوم پرست اس حملے پر ششدر تھے اور عرب قوم پرستی اس کاری حملے کے وار سے کبھی جانبر نہ ہو پائی۔ جمال عبدالناصر کی وفات کے ایک عشرے بعد جمال عبدالناصر کے وارث انور سادات نے غداری کرتے ہوئے ملک کو امریکی سلطنت کے ہاتھوں بیچ دیا۔ سودا یہ ہوا کہ مصر میں نیئولبرل ازم لاگو کیا جائے گا اور اسرائیل کو تسلیم کیا جائے گا۔ سودے کی قیمت سادات نے اپنے خون سے ادا کی۔ ایک رسمی پریڈ کے موقع پر اسلام پرستوں نے بندوقوں میں نقلی کی جگہ اصلی گولیاں بھریں اور سادات کو سرِعام گولیوں سے اڑا دیا۔ اس واقعہ نے ہر آمر کو گڑ بڑا دیا۔ ایسی تقریبات کے موقع پر اب فوجیوں پر کڑی نگاہ رکھی جاتی ہے۔
ایک اور پیشگی حملہ، اب کی بار براہ راست، اور عراق پر قبضہ ہو گیا۔ منصوبہ یہ تھا کہ ’مارکیٹ بنیاد پرست‘ اقتدار قائم کیا جائے جو ’تین ماہ‘ کے اندر اسرائیل کو تسلیم کر لے مگر اس عمل میں تاخیر ہو گئی ہے کیونکہ عراقیوں کی اکثریت ملی بھگت پر تیار نہیں۔ عراق میں آئندہ پانچ سالوں میں جو ہو گا اس کا اثر اکیسویں صدی پر مرتب ہو گا۔ 1928ء میں جب عراق پر برطانوی قبضہ تھا، عراقی شاعر جمیل صدقی الزاہوی اپنے ہم وطنوں کی خاموشی سے سخت نالاں تھے، جہالت میں ڈوبے تقدیر پرستوں سے تو وہ خاص طور پر ناراض تھے، انہوں نے غصے میں اپنے ہم وطنوں کو للکارتے ہوئے کہا کہ مزاحمت سے روکنے والی ہر شے سے بغاوت کر دو:
دستور کہنہ ہے بغاوت کر دو
کاتب تقدیر کا لکھا بھی مٹا ڈالو
آج جمیل صدقی کے وارث سعدی یوسف اور مظفر النواب دور بیٹھے اپنے ملک کو دیکھتے ہیں اور سوچتے ہیں۔ کیا سوچ رہے ہیں؟ 2003ء کی جنگ کے موقع پر ادھر اینگلو امریکی سیاستدان اور ان کے پروردہ صحافی ہر اختلافی بات کو جھوٹ کے طوفان بدتمیزی میں غرق کر رہے تھے، ادھر لندن کے ایک ہوٹل میں بعد از ’آزادی‘ عراق کے مستقبل بارے بحث کے لئے احتیاط سے منتخب کئے گئے غداروں کا اجلاس ہو رہا تھا۔ اس منظر کو دیکھ کر شاعر کو ’گیدڑوں کی بارات‘ یا دآئی۔ جنوبی عراق میں، گرمیوں کے موسم میں دیہی علاقوں کے لوگ دن بھر کی گرمی سے نجات حاصل کرنے کے لیے کھلے آسمان تلے سوتے ہیں۔ ان لوگوں کے سکون میں گیدڑ خلل ڈالتے ہیں جو بستی میں آ کر مل رہے ہوتے ہیں، کچھ اپنی باری کے انتظار میں چلا رہے ہوتے ہیں جبکہ بعض گیدڑ محض جھگڑے میں مصروف ہوتے ہیں۔ گھنٹے بھر میں یہ منظر اپنے عروج پر پہنچتا ہے۔ اس اثناء میں شور اور بدبو اپنے عروج پر پہنچ چکی ہوتی ہے۔ اچانک گیدڑ غائب ہو جاتے ہیں۔ اگلی بار کسی اور جگہ ملیں گے لیکن جہاں بھی اور جب بھی یہ ملیں گے گائوں کے لوگ حقارت سے ان راتوں کا ذکر کریں گے جن کا سکون ’گیدڑوں کی بارات‘ نے غارت کیا تھا۔
سعدی یوسف نے نئی نظم لکھی، نظم میں دمشق اندر جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے شاعر دوست کو مخاطب کیا اور نظم کو عنوان دیا ’گیدڑوں کی بارات‘:11 ۔
اومظفر النواب!
میرے دیرینہ دوست
اس گیدڑوں کی بارات کا کیا کریں؟
یاد ہیں وہ پرانے دن:
شام کی خنکی میں
بانس کی چھت تلے
نرم روئی سے بھرے تکیوں سے ٹیک لگائے
چائے کی چسکیاں لینا (ایسی چائے دوبارہ نہیں پی)
دوستوں کے ہمراہ……
کھجور کے درختوں کے تاج تلے
رات یوں نرمی سے ڈھلتی ہے جیسے الفاظ
اور مٹی سے دھوئیں کے مرغولے اٹھ رہے ہیں
ایسی باس، گویا کائنات طلوع ہو رہی ہو……
پھر……
لمبے گھاس اور کھجور کے درختوں کی اوٹ سے
کٹ کٹ کا شور آتا ہے___
گیدڑوں کے بارات!
اومظفر النواب!
آج گزرا ہوا کل نہیں
(سچ اتنی جلد مرجھا جاتا ہے گویا کسی بچے کا خواب ہو)
سچ یہ ہے کہ ہم ان گیدڑوں کی دعوت ولیمہ میں آئے ہیں
اُن کا دعوت نامہ پڑھا ہے:
ہم دہانے12کے پاس سے خالی ہاتھ گزرتے ہیں
جاتے ہوئے دریں13 ہمارے بٹوے اشرفیوں سے بھرے ہیں
’اب لوگ اپنے کاموں مصروف ہیں
زوریک14 ان کو لومڑی کی طرح تیزی سے لوٹ لو‘
اومظفرالنواب!
آئو اِک معاہدہ کرتے ہیں:
تمہاری جگہ ان سے ملنے میں جائوں گا
(دمشق اس خفیہ ہوٹل سے بہت دور ہے)
میں گیدڑوں کے منہ پر تھوکوں گا
میں ان کی فہرستوں پر تھوکوں گا
میں انہیں بتائوں گا کہ ہم اہلِ عراق
ہم جو اس دھرتی کی تاریخ کے وارث ہیں
ہمیں اپنی بانس کی معمولی چھت پر فخر ہے
انٹرنیٹ کے برپا کردہ انقلاب نے اس بات کو یقینی بنایا کہ نظم منظوم ہونے کے چند ہی منٹ بعد بغداد اور بصرہ پہنچ چکی تھی اور وہاں سے عراق میں قریہ قریہ گھومی۔ کتنے ہی لوگ تھے جنہوں نے یہ نظم سنی اور سردھنا کئے۔ وہ بھی شاعر کو اتنی اچھی طرح سمجھتے ہیں جتنی اچھی طرح شاعر ان کو سمجھتا ہے۔ گیدڑ نظم کا مقابلہ تو کر نہیں سکتے تھے لہٰذا انہوں نے شاعر پر نفرت کے تیر برسانے شروع کر دیئے۔ اپنے کینے کا انہوں نے سرِعام اظہار کیا۔ سعدی یوسف پر مستقل طعن و تشنیع روزنامہ گیدڑ، آزاد گیدڑ نیوز اور باقی کے اس گیدڑ پریس کا وطیرہ بن گیا جو ایسے لوگوں کا آلۂ کار تھا جو عراق پر تسلط جمانے کے خواب دیکھ رہے تھے اور اس خواب کی تعبیر وہ عراقی عوام کے دل جیت کر نہیں، قابض فوجوں کے کندھوں پر سوار ہو کر کرنا چاہتے تھے اور چلا رہے تھے کہ قابض قوتیں جائز حکمران ہیں۔ کچھ لعنتی گیدڑ تو وہ تھے جو شاعر کو ڈرانے دھمکانے لگے: دھمکی آمیز ای میل اور نامعلوم ٹیلی فون کالز روز مرہ کا معمول بن کر رہ گئیں۔ دمشق میں مقیم شاعر کا پرانا رفیق بھی طعن و تشنیع کا نشانہ بنا۔
ایک گیدڑ نے الزام لگایا کہ مظفر النواب حقیقی عراقی نہیں کیونکہ اس کا خاندان دراصل ہندوستان میں واقع کشمیر سے تعلق رکھتا ہے۔ اس بات کو چھوڑیئے کہ سعدی یوسف کا خاندان ہندوستان سے کہاں گیا۔ اس بات کا ذکر بھی رہنے دیجئے کہ شاعر نے اپنے نظریات کے لیے جیل کی ہوا بھی کھائی اور تشدد بھی سہا۔ وہ شیر کی طرح لڑا تا آنکہ انہوں نے شاعر پر قابو پا لیا۔ یہ رائے کہ محض ’حقیقی‘ عراقی یعنی گیدڑ ہی عراق کی ترجمانی کر سکتے ہیں حیران کن طور پر ایسے لوگوں کی طرف سے سامنے آ رہی ہے جو عراق پر سامراجی قبضے پر بغلیں بجا رہے تھے۔ ہاں مگر نظم پر گیدڑوں نے جو پیچ و تاب کھائے وہ خاصے انکشاف انگیز ہیں۔ کیا عرب دنیا میں آج بھی شاعری کے طاقتور ہونے کا اس سے بہتر اظہار ممکن تھا؟ مارچ 2003ء میں دمشق سے مظفر النواب نے جنگی تیاریوں اور اپنے ملک پر از سرِ نو استعماری قبضے کے منصوبوں کا جائزہ لیا اور ایک سنجیدہ تنبیہہ کی:
کیا تم لاش کو روندتے مجمع کو اس لئے معاف کردو گے
کہ اس نے تمہاری ساکت لاش
پھانسی گھاٹ سے اتاری تھی؟
اور ہاں کبھی ایسے مجاہد آزادی پر اعتبار نہ کرنا
جو ہتھیار سے مسلح نہ ہو
یقیں کرو میں اس مَسان میں جل چکا ہوں۔
سچ تو یہ ہے کہ تم اتنے ہی بڑے ہو جتنی تمہاری توپیں
چھریاں چمچے لہراتا ہوا ہجوم
محض اپنے پیٹ بارے سوچتا ہے
دھرتی کی محبت میں گرفتار لوگو!
میں دروازے پہ آئے وحشیوں سے خوفزدہ نہیں
میں ڈرتا ہوں اندرونی دشمن سے:
آمریت، مطلق العنانی، سکھا شاہی
جنرل ٹومی فرینکس کے نام ایک قبل از وقت خط
سعدی یوسف (میسو پوٹیمیا کا ایک شاعر)
سر، جنرل
پہلے تو میں تمام تر ایمانداری سے یہ کہنا چاہوں گا کہ ٹی وی پر آپ کی بابت تمام خبریں میں سن رہا ہوں: آپ کے سپاہیوں بارے‘ آپ کے خاندان ساتھ، آپ کے صدر کے ساتھ وغیرہ وغیرہ…… جب میں تفریقی انداز میں تاریخ کا مطالعہ کرتا ہوں تو محسوس کرتا ہوں کہ میں اپنے ان آبائو اجداد کی پیروی کرنا پسند کروں گا جنہوں نے شام میں تیمور لنگ کے ہاتھوں ایک شہر تباہ ہونے سے بچایا تھا۔
سر، جنرل آپ بغداد میں داخل ہونے والے ہر پیش رو کی طرح فاتح بن کر داخل ہوں گے…مگر چونکہ آپ خود بھی کبھی ایک مفتوح قوم تھے لہٰذا آپ کو علم ہو گا کہ قومیں ناقابل فتح ہوتی ہیں۔
حکمرانوں کو شکست دی جا سکتی ہے۔ پہلے ہمارے حکمران کو شکست ہو گی۔ مجھے اس پر خوشی ہو گی کیونکہ اس فاتر العقل نے مجھے تیس سال سے زیادہ عرصہ میرے وطن کی ہوائوں سے محروم رکھا۔
آپ کو جولیس سیزر پسند نہیں: آپ کا کہنا ہے کہ وہ جنرل تھا مگر لمبی تقریریں کرتا تھا لہٰذا مارا گیا۔
میں، ایک شاعر، مختصر بات کروں گا۔
سر جنرل، آپ بغداد میں داخل ہوں گے، کیا میں آپ کے سامنے دہرائوں کہ عمرؓ (حضرت محمدؐ کے دوسرے خلیفہ) نے عراق کے لیے اپنے جنرل کو روانہ کرتے ہوئے کیا نصیحت کی تھی؟
انہوں نے کہا تھا ایک درخت بھی مت کاٹنا۔
آج حالات مختلف رخ اختیار کر رہے ہیں، کہا جا رہا ہے کہ آپ وطن لوٹنے والے عراقیوں کا راستہ روکنا چاہتے ہیں۔ افواہ یہ ہے کہ آپ کے کارندوں نے ایسے دوہزار عراقیوں کی فہرست تیار کی ہے جن کی وطن واپسی پر پابندی ہے کہ ان کی عراق واپسی آپ کے قبضے کو مشکلات سے دوچار کر سکتی ہے۔
میں چونکہ اس افواہ سے متاثر ہوتا ہوں لہٰذا میں اسے آسانی سے رد نہیں کر سکتا۔
الموتمر (عربی جریدہ جو امریکی خرچے پر لندن سے شائع ہوتا ہے) نے حال ہی میں ایک خط شائع کیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ میں شاعر، سعدی یوسف، عراق کی ’آزادی‘ کے بعد وطن واپسی کے حق سے محروم رکھا جائوں۔
میں آپ سے اور ہمارے مستقبل کے گورنر جنرل جان ابی زید سے پوچھتا ہوں کہ عراق پر قبضے کے بعد انسانی حقوق کی کیا صورت حال ہو گی۔
لندن ، یکم مارچ 2003 ء
یہ خط انگریزی میں یہ خبر ملنے کے بعد لکھا گیا کہ ناپسندیدہ لوگوں کی فہرست میں شاعر کا نام بھی شامل ہے۔
دریں اثناء جولائی 2003ء میں بغداد اندر گیدڑوں کی ایک اور بارات آئی۔ من پسند میڈیا کے سامنے ہر طرح کے گیدڑوں پر مشتمل، امریکہ کی نامزد کردہ ’عراقی گورننگ کو نسل‘ کی تقریب رونمائی ہوئی۔ عراقی کمیونسٹ پارٹی کی موجودگی پر کوئی حیرت کی بات نہ تھی۔ قبضے کے بعد سے کمیونسٹ پارٹی کے رہنما پال بریمر سے ملاقاتوں میں مصروف تھے۔ اپنے مشرقی یورپی بھائی بندوں کے برعکس اس جماعت نے اپنا نام تبدیل نہیں کیا مگر اپنی سیاست کے اعتبار سے وہ کسی صورت پولینڈ اور بلغاریہ کی کمیونسٹ پارٹیوں سے مختلف نہیں، اس بات کا اظہار بغداد کی ایک دیوار پر لکھے نعرے سے ہوتا ہے: آئی سی پی= عراقی کو لیبریٹرز پارٹی٭۔
’گورننگ کونسل‘ میں پرانے عراقی سیاستدان عدنان پچاچی کی موجودگی بہرحال ایک سیاسی قلابازی ہے۔ جنگ سے چند روز قبل، 3 مارچ 2003ء کے فنانشل ٹائمز میں عدنان پچاچی نے اعلان کیا تھا کہ عراقی قوم پرستی ایک متحرک قوت ہے اور:
یہی وجہ ہے کہ میں نے بعداز صدام عراق کے حوالے سے ہونے والے انتظامات میں کوئی نمایاں کردار ادا نہیں کیا…… میرے انکار کی تین وجوہات تھیں۔ اول، میں ایسے کسی گروہ یا اس کی نمائندہ حیثیت بارے سنجیدہ شکوک و شبہات رکھتا ہوں۔ دوم، کسی بھی ایسے ادارے کے پاس عبوری دور میں مشاورانہ ذمہ داریاں ہوں گی نہ کہ انتظامی۔ کسی بھی ایسے ادارے کے لیے کام کرنا جو امریکی فوجی انتظامیہ سے تعلق رکھتا ہو نا قابل قبول اور نقصان دہ ہے۔ سوم، ایسے کسی گروہ کے ڈھانچے اور رکنیت سازی بارے میرے خدشات موجود ہیں۔
چار ماہ بعد تمام خدشات دور ہو گئے البتہ اعتراضات آج بھی درست ہیں۔ ’گورننگ کونسل‘ غیر مستحکم ڈھانچہ ہے اور اگر مزاحمت میں اضافہ ہوا تو اس کا تیا پانچہ بھی ہو سکتا ہے اور اس کے کئی رکن از سرِ نو سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ عراقی مزاحمت کا نصب العین یہ ہے کہ قابض فوجوں پر روزانہ بنیادوں پر حملے کئے جائیں۔ امریکی فوجیوں کی جگہ اقوامِ متحدہ کے بھیجے ہوئے کرائے کے سپاہیوں سے بھی مسئلہ حل نہ ہو گا۔ گیدڑ اور گیدڑوں کے پیر آخرِکار ناکام ہوں گے۔