’’آج کون سی کہانی سنائیں گے کہانی انکل؟‘‘
’’آج میں گائے اور راکشش کی کہانی سناؤں گا۔‘‘
’’راکشش کی؟‘‘
’’ہاں راکشش کی۔‘‘
’’انکل! راکشش تو بڑا ڈراؤنا اور خطرناک ہوتا ہے۔‘‘
’’ہاں، سچ مچ راکشش کی شکل بڑی ڈراؤنی اور بھیانک ہوتی ہے۔ اور وہ خطرناک بھی ہوتا ہے۔‘‘
انکل! ہم نے سنا ہے کہ اس کے سر پر سینگ بھی ہوتے ہیں؟‘‘
’’تم نے بالکل صحیح سنا ہے۔‘‘
’’کہانی انکل! کیا وہ بچوں کو سچ بچ اٹھا لے جاتا ہے؟‘‘
’’بچے کیا، راکشش تو بڑوں کو بھی اٹھا لے جاتا ہے۔‘‘
بچے راکشش کا نام اور اس کا کام سن کر سہم گئے۔
’’کیا تم لوگ ڈر گئے؟‘‘ کہانی انکل نے ان کی آنکھوں کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔ بچے سنبھل کر بولے :
’’نہیں تو، ہم راکشش واکشش سے بالکل نہیں ڈرتے۔‘‘
’’تو کہانی شروع کرو؟‘‘
’’ہاں، ہاں، شروع کیجیے۔‘‘
بہت پرانی بات ہے کسی گاؤں میں ایک بہت ہی گھنا اور سایہ دار برگد کا پیڑ تھا۔ پیڑ کے نیچے جڑ کے پاس اُجلے رنگ کی ایک بہت بڑی لمبی چوڑی گائے بندھی رہتی تھی۔ گائے کے تھن بھی کافی بڑے بڑے اور موٹے تگڑے تھے۔ ان تھنوں میں اتنا دودھ بھرا رہتا تھا کہ گاؤں کے سبھی لوگوں کو دودھ مل جاتا تھا۔ اس گائے کا دودھ اس قدر گاڑھا، میٹھا اور اچھّا تھا کہ اس کے پینے میں مزا تو آتا ہی تھا اس سے لوگوں کی صحت بھی ٹھیک رہتی تھی۔
گائے اس لیے زیادہ دودھ دیتی تھی کہ اسے چارہ بہت ملتا تھا اور چارہ بھی کیسا، بالکل اس کی پسند کا۔ گاؤں کے تمام لوگ مل جل کر اس کے چارے کا انتظام کرتے تھے۔ کوئی ہر اور ملائم پتّے لاتا تو کوئی اس کے آگے نرم اور تازہ گھاس ڈال جاتا۔ کوئی کُٹی کاٹ کر رکھ جاتا، تو کوئی بھس میں کھلی ملی ہوئی سانی اور نمک ملا ہوا پانی پیش کر جاتا۔ اچھے کھان پان سے گائے بیلوں سے بھی زیادہ اونچی دکھائی دیتی تھی۔ گاؤں والے روزانہ اسے نہلاتے بھی تھے جس سے وہ ہر دم صاف ستھری رہتی تھی اور اس کی اجلی کھال بگلوں کے پر کی طرح چم چم چم چم چمایا کرتی تھی۔ کیڑے مکوڑے اور مچھّر مکھّی سے بچانے کے لیے اس کے اردگرد خوشبو دار دھونی بھی دی جاتی تھی۔
اس گائے کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ سال بھر دودھ دیتی تھی کبھی بکین نہیں ہوتی تھی۔
جس گاؤں میں وہ گائے رہتی تھی اس گاؤں میں طرح طرح کے رنگ روپ والے لوگ آباد تھے۔
کوئی گورا تھا۔ کوئی کالا۔ کوئی لمبا تو کوئی ناٹا کوئی دبلا تو کوئی موٹا۔ کسی کی ناک کھڑی تھی تو کسی کی چپٹی مگر سبھی دودھ کے رشتے میں بندھے ہوئے تھے۔ سب کی رگوں میں اس گائے کا دودھ خون بن کر جاری و ساری تھا۔
گاؤں والے روزانہ صبح سویرے گائے کے پاس جمع ہوتے اور اپنی اپنی ضرورت کے مطابق گائے کا دودھ دوہ کر لے جاتے۔ کسی کو کبھی دودھ کم نہیں پڑتا تھا۔
اس دودھ کا کمال یہ تھا کہ گاؤں کے کسی بھی آدمی کو کوئی بیماری نہیں تھی۔ سبھی تندرست اور چست درست تھے اور اپنے اپنے کام کاج میں مستعدی سے مگن رہتے تھے۔
ایک دن ایک عجیب و غریب واقعہ ہوا۔ صبح سویرے جب گاؤں کے لوگ گائے کے پاس پہنچے اور اسے دوہنے کے لیے ہاتھ بڑھا کر تھنوں کو دبایا تو تھنوں سے دودھ نہیں نکلا۔ پوری طاقت سے زور لگا کر دبانے کے بعد بھی تھنوں سے جب ایک قطرہ بھی دودھ باہر نہیں نکلا تو گاؤں کے لوگ حیران ہو اٹھے اور گھبرا کر ایک دوسرے کا منہ تاکنے لگے۔
تھنوں سے دودھ نہ نکلنے کے سبب پر سب نے اپنے اپنے ڈھنگ سے غور کیا تو کسی کی سمجھ میں یہ آیا کہ شاید گائے کو کوئی بیماری لگ گئی ہے۔ کسی کے خیال میں گائے نے کوئی الٹی سیدھی چیز کھا لی تھی جس سے دودھ کا بننا بند ہو گیا تھا۔ کسی نے یہ شبہ ظاہر کیا کہ گائے کو کسی کیڑے مکوڑے نے کاٹ لیا ہے جس کی وجہ سے اس کے تھنوں میں دودھ نہیں اتر رہا ہے۔ کسی نے دودھ نہ دینے کا سبب یہ بتایا کہ گائے بکین ہو گئی ہے۔ کسی نے یہ کہا کہ ہو سکتا ہے آج کسی وجہ سے گائے کو دودھ نہ اترا ہو ممکن ہے کل سے پھر اپنے آپ اترنے لگے۔
آنے والے کل کا بے چینی سے انتظار کیا گیا مگر دوسرے دن بھی گائے نے دودھ نہیں دیا۔ تیسرے اور چوتھے دن بھی تھنوں سے دودھ نہیں نکلا۔
گاؤں کے لوگ گھبرا کر گائے کو ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔ ڈاکٹر نے گائے کو اچھّی طرح دیکھا۔ اوپر سے نیچے تک اور باہر سے اندر تک اس کا معائنہ کیا اور خوب اچھّی طرح جانچ کر لینے کے بعد بولا:
’’گائے کو کوئی بیماری نہیں ہے۔ یہ بالکل ٹھیک ہے اور ہمیشہ کی طرح اس کے اندر دودھ بھی بن رہا ہے اور وہ دودھ تھنوں میں اتر بھی رہا ہے۔‘‘
ڈاکٹر کی یہ بات سن کر گاؤں والے چونک پڑے اور حیران ہوتے ہوئے بولے ’’پھر اس کے تھنوں سے دودھ باہر کیوں نہیں نکل رہا ہے؟‘‘
ڈاکٹر نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا
’’تھنوں سے دودھ باہر بھی نکل رہا ہے۔ میرے خیال سے ضرور اسے کوئی آپ لوگوں سے پہلے آ کر دوہ لے جاتا ہے۔‘‘
ڈاکٹر کا خیال سن کر گاؤں والے ایک دوسرے کی طرف آنکھیں گڑا کر دیکھنے لگے۔ ان کے دلوں میں طرح طرح کے خیالات سر ابھارنے لگے۔ دماغوں نے الٹا سیدھا سوچنا شروع کر دیا۔
گوروں نے سوچا:
’’ہو سکتا ہے ہم سے پہلے کالے لوگ گائے کو دوہ لے جاتے ہوں۔‘‘
کالوں نے گوروں کے خلاف سوچا۔ ان کے خیال میں یہ کام گوروں کا ہو سکتا تھا۔
اسی طرح کھڑی ناک والوں نے چپٹی ناک والوں پر شبہ کیا اور چپٹی ناک والوں نے کھڑی ناک والوں کو شک کی نظر سے دیکھا۔
سب کے دماغوں میں شک پلنے لگا۔ شک پلنے اور دودھ نہ ملنے کی وجہ سے گاؤں کے لوگ پیلے پڑنے لگے۔ ان کے صحت مند بدن کمزور پڑنے لگے۔ کمزوری کے سبب جسم میں طرح طرح کی بیماریاں پیدا ہونے لگیں اور بیماریوں نے انھیں چڑچڑا بنا دیا۔ چڑچڑے پن اور جھنجھلاہٹ کے کارن بات بات میں ایک دوسرے کے بیچ تو تو میں میں ہونے لگی۔ پھر تو تو میں تکرار اور جھگڑے میں بدل گئی۔ بعد میں جھگڑنے مار پیٹ کی صورت اختیار کر لی۔ خون خرابہ ہونے لگا۔ لوگوں کا چین چھِن گیا۔ گاؤں والوں کا جینا دشوار ہو گیا۔
گاؤں کے بڑے بوڑھوں کی رنجش اور لڑائی جھگڑے کا بچّوں پر بھی اثر پڑا۔ ایک میدان میں ایک ساتھ کھیلنے والے بچے ٹولیوں میں بنٹ گئے اور میدان کے بجائے زمین کے چھوٹے ٹکڑوں کے اندر سمٹے ہوئے تنگ دائرے میں کھیلنے پر مجبور ہو گئے۔ ماں باب کے دباؤ نے بچّوں کے کھیلنے کودنے کے جذبے کا گلا بھی دبا دیا۔ ساتھیوں کا ساتھ چھوٹ جانے کے غم نے ان کے جوش اور امنگ کو بالکل ٹھنڈا کر دیا۔
ایک دن باغ میں جہاں گائے بندھی رہتی پھر ایک عجیب و غریب واقعہ پیش آیا۔ کسی نے رات کے پچھلے پہر اندھیرے میں باغ کی طرف رفع حاجت کے لیے جاتے ہوئے دیکھا کہ گائے پاس کوئی بھاری بھرکم جانور جھکا ہوا ہے اور اس کے سرپر ان گنت جگنو بیٹھے چمک رہے ہیں اور گائے کے پاس سے چُسُر چُسُر کی آواز بھی نکل رہی ہے۔ اس آدمی نے جب غور کیا تو معلوم ہوا کہ ان گنت آنکھوں والا کوئی راکشس جھک کر گائے کے تھنوں کو چوس رہا تھا۔ وہ آدمی چھپ کر دیکھنے لگا۔ گائے کا دودھ پی لینے کے بعد اس راکشس نے سر اُٹھایا تو اس کے منہ کو دیکھ کر وہ آدمی سر سے پیر تک کانپ اٹھا۔ راکشس بڑا ہی بھیانک تھا اس کے دانت آروں کی طرح نکیلے تھے۔ ناخن برچھیوں کی طرح لمبے اور تیز تھے۔ اس کے سر پر چاروں طرف آنکھیں تھیں جن سے تیز اور نکیلی روشنی پھوٹ رہی تھی۔ اس روشنی کو دیکھتے ہی آنکھیں چندھیا جاتی تھیں۔ ایسا لگتا تھا جیسے اس کے سر پر ان گنت بلب جلا دیے گئے ہوں۔
راکشس آگے بڑھ کر غائب ہو گیا اور وہ آدمی حاجت رفع کیے بنا ہی گاؤں کی طرف دوڑ پڑا۔
اس آدمی نے صبح ہوتے ہی گاؤں والوں کو جمع کیا اور ان سے بتایا کہ گائے کا دودھ کوئی راکشس پی جاتا ہے مگر گاؤں والوں کو اس کی بات پر یقین نہیں آیا۔ تب اس آدمی نے ان سے کہا کہ آج رات گاؤں والے خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔ چنانچہ آدھی رات کے بعد لوگ باغ میں جا کر چھپ گئے۔ رات ڈھلتے ہی راکشس نمودار ہوا اور گائے کے پاس پہنچ کر اس کے تھنوں سے اس نے اپنا بھیانک منہ لگا دیا۔
اپنی آنکھوں سے اپنی تباہی و بربادی کا منظر دیکھ لینے کے بعد گاؤں والے بہت شرمندہ ہوئے اور ان کے بیچ کی نفرت کی دیوار بھَر بھَر ا کر گر پڑی۔
اب لوگوں نے مل جل کر اس آفت سے چھٹکارا پانے کا راستہ سوچنا شروع کیا مگر راکشس کو مارنا ان کے بس میں نہیں تھا۔ مارنے کی بات تو الگ راکشس کو دور سے دیکھ کر ہی لوگوں کی حالت خراب ہو جاتی تھی۔ گاؤں والوں کے دماغوں میں یہ ڈر بیٹھ گیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ راکشس گاؤں میں گھس کر ان کے جان و مال کو بھی تہس نہس کرنا شروع کر دے۔ جان کے خوف سے گاؤں کے بڑے بوڑھے دبک کر گھروں میں بیٹھ گئے مگر ان کے بچّوں سے چُپ چاپ بیٹھا نہیں گیا۔ وہ اٹھتے بیٹھتے کھیلتے کودتے ہر وقت راکشس کو مارنے کا پلان سوچنے لگے مگر کوئی طریقہ ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کس طرح وہ اس دشٹ راکشس کو ماریں؟ کیا کریں کہ اس مصیبت کا خاتمہ ہو جائے؟ کون سی ترکیب تلاش کریں کہ وہ اور ان کے ماں باپ اس آفت سے چھٹکارا پاجائیں؟
ایک دن وہ گاؤں کے بڑے میدان میں کھیل رہے تھے کہ اچانک ان کے کانوں میں بھوں بھوں کی آوازیں پڑیں اور ان کے پاؤں رک گئے۔ مُڑ کر دیکھا تو ایک بہت بڑے کُتّے کو چھوٹے چھوٹے کتّے گھیرے کھڑے تھے۔ وہ بڑا کتّا کہیں باہر سے آ گیا تھا۔ اس کی غرّاہٹ بڑی خطرناک تھی۔ جس طرف غرّا کر لپکتا تھا چھوٹے کتّے پیچھے ہٹ جاتے تھے مگر چھوٹے کتّوں کا بھونکنا اور پیچھے ہٹ کر پھر آگے بڑھ جانا کم نہیں ہوتا تھا۔ باہری بڑے کتّے نے لاکھ گھُڑکیاں دیں اور ڈرا دھمکا کر نرغے سے باہر نکل جانا چاہا مگر چھوٹے کتّوں نے اسے نکلنے نہیں دیا۔ کچھ دیر بعد سارے چھوٹے کتے تیزی سے بھوں بھوں کر کے دوڑ کر بڑے کتّے پر جھپٹ پڑے اور ہاتھ، پاؤں، دانت سے اندھا دھند وار کرنے لگے۔ دیکھتے ہی دیکھتے گاؤں کے چھوٹے کتّوں نے باہر کے بڑے کتے کو زمین پر گرا لیا اور اُسے بھنبھوڑ بھنبھوڑ کر بے دم کر دیا۔
اس واقعے نے بچّوں کے دلوں میں جوش بھردیا۔ وہ راکشس سے ٹکّر لینے پر آمادہ ہو گئے۔
ایک جگہ بیٹھ کر بچّوں نے راکشس کو مارنے کا پلان بنایا اور اس رات جب ان کے بڑے بوڑھے بستروں میں گھس کر خرّاٹے لے رہے تھے تو وہ اپنے اپنے بستر سے اٹھ کر دبے پاؤں گھر سے نکل پڑے اور باغ میں جمع ہو کر برگد کے آس پاس کے پیڑوں پر چڑھ کر بیٹھ گئے۔
آدھی رات ڈھل جانے کے بعد راکشس دکھائی پڑا۔ مستی میں جھومتا اور اپنی آنکھوں کے بلب چمکاتا ہوا وہ گائے کے قریب پہنچا اور جھک کر اس نے اپنا منہ تھنوں سے لگا دیا۔
پیڑوں پر بیٹھے ہوئے بچّوں نے اپنی اپنی جیبوں سے غلیلیں نکال کر راکشس کی آنکھوں کی طرف تان لیں۔ راکشس کی تمام آنکھیں غلیلوں کی زد میں آ گئیں۔ ’’مارو‘‘ ایک ساتھ میں بہت سارے ہونٹوں سے یہ آواز نکلی اور اس آواز کے نکلتے ہی نشانہ لگا کر بچّوں نے وار کرنا شروع کر دیا۔ تنی ہوئی غلیلوں سے گولیاں نکل کر راکشس کی آنکھوں پر پڑنے لگیں۔ جلتے ہوئے بلب بجھنے لگے۔ ہڑبڑا کر راکشس نے گائے کے تھنوں کو چھوڑ دیا۔ اس کی بچی ہوئی آنکھیں غصّے میں دہک اٹھیں۔ سینگ ہوا میں لہرانے لگے۔ بھیانک دانت دکھائی دینے لگے۔ اس کی سمجھ میں نہ آ سکا کہ اس پر گولیاں کدھر سے برس رہی ہیں۔ گھبرا کر اس نے بھاگنا چاہا مگر غلیلوں کی گولیوں کی بوچھار نے اس کی تمام آنکھیں پھوڑ ڈالیں۔ اندھا ہو کر وہ بھاگا تو اِدھر اُدھر کے پیڑوں سے ٹکرا ٹکرا کر زمین پر لڑھک گیا۔ اس کے لڑھکتے ہی بچّے پیڑوں کی ڈالیوں سے سرک کر زمین پر بندروں کی طرح کود پڑے اور خوشی میں ناچنے اور نعرے لگانے لگے۔
’’مار دیا۔ مار دیا۔ ہم نے راکشس کو مار دیا۔‘‘
نعروں کی آواز سن اور سمجھ کر گاؤں والے اپنی اپنی لالٹینیں اور ٹارچ لیے باغ کی طرف دوڑے۔ دیکھا تو سچ مچ راکشس زمین پر گر پڑا تھا۔ اس کی آنکھوں کے بلب بجھ گئے تھے اور دیدے بہہ کر باہر آ گئے تھے۔ خوشی میں وہ بھی جھوم اٹھے۔ دیر تک جھومتے رہنے کے بعد اچانک ان کے پاؤں رک گئے اور سب کی آنکھیں گائے کے تھنوں کی طرف مرکوز ہو گئیں۔
گائے کے چاروں کے چاروں تھن دودھ سے بھرے پڑے تھے۔ اسی وقت گاؤں سے بالٹیاں منگائی گئیں۔ دودھ دوہنے والی انگلیاں تھنوں کے پاس پہنچ گئیں۔ تھنوں سے سانپ کی زبانوں کی طرح دھاریں لپلپانے لگیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے سفید گھاڑے دودھ سے بالٹیاں بھرنے لگیں۔
دودھ کی سفیدی گاؤں والوں کے چہروں پر بھی جھلملانے لگی۔
————
کہانی سنا کر اس نے بچوں کی طرف دیکھا تو اسے لگا
جیسے ان کے اندر کہانی کے بچے داخل ہو گئے ہوں۔
٭٭