۔۔۔۔گیارہ ستمبر ۲۰۰۲ءکونیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سنٹرکی جڑواں عمارتوںکی تباہی کے واقعہ کو ایک سال پورا ہوچکاہے۔ گزشتہ سال جن ہوائی حملوں کے باعث یہ عمارتیں تباہ ہوئیں،تاحال دنیا کو اس کے اصل مجرموں کے بارے میں کوئی تسلی بخش ثبوت نہیں دئیے جا سکے۔محض القاعدہ اور طالبان پر الزام تراشی کرکے اور دنیا کے غریب ترین،کمزور ترین اور ہر لحاظ سے پسماندہ ترین ملک افغانستان پر حملے کئے گئے ۔اپنے نئے اسلحہ کے تجربات کو عملاً آزمایا گیا اور اسی کو اپنی طرف سے مبینہ دہشت گردی کے خلاف مہم قرار دے دیا گیا۔
۔۔۔۔میں نے اس موضوع پر بہت پہلے بھی لکھا تھا کہ اگر واقعی القاعدہ اور طالبان نے مل کر ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی دونوں عمارتیں تباہ کی تھیں تو افغانستان کے خلاف اپنی تمام تر انسانیت سوز کاروائیوں کے باوجود امریکہ ان کاروائیوں میں حق بجانب ہے۔ہمارے محلوں اور شہروں کے کسی بڑے آدمی کو کوئی سر عام اس طرح ذلیل کر دے تو وہ بھی غصے سے پاگل ہو کر کیا کچھ کر بیٹھتا ہے۔یہ تو پھر دنیا کی بظاہر سب سے بڑی طاقت کے ساتھ ہاتھ ہوا تھا۔اور ہاتھ بھی دنیا کے سب سے کمزور ترین ملک میں رہنے والوں نے کیا تھا۔یہ میں اس مفروضے کی بنیاد پر بات کر رہا ہوں جسے امریکی حکومت ابھی تک شواہد کے ساتھ ثابت نہیں کر سکی ۔ایسے شواہدجسے خود امریکی عدالتیں بھی قبول کر سکیں۔
۔۔۔۔اب امریکہ کو برا بھلا کہہ کر یا صدرِ امریکہ بُش جونئیر کی عالمی دہشت گردی کا نشانہ بننے والوں سے ہمدردی کرکے بات ختم نہیں ہو رہی۔دنیا ایک نئے سامراجی دور میں داخل ہو چکی ہے۔اقوام متحدہ کا وجود خطرے میں پڑنے لگا ہے۔ایسا کسی نئی اقوام متحدہ کی تشکیل کے احساس کے باعث نہیں بلکہ امریکی دھونس کے باعث ہونے لگا ہے۔ضرورت تو اس امر کی تھی کہ تیسری دنیا کے ممالک بعض ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ مل کر ایسی نئی اقوام متحدہ بناتے جو انہیں امریکی جارحیت کا سامنا کرنے کے لئے یک جا کر دیتی۔لیکن معاملہ اس کے بر عکس ہورہا ہے ،امریکہ خود اقوام متحدہ کو دھمکی کے انداز میں کہہ رہا ہے کہ عراق کے سلسلے میں جلدی فیصلہ کر لو ورنہ میں اقوام متحدہ کی کسی رائے کے بغیرہی حملہ کر دوں گا۔ایسے حالات میں بھی باقی ساری دنیا ابھی تک اپنی اپنی مصلحتوں میں اسیر ہے۔ آج دنیا کے مختلف اہم ممالک اور خطے کن مصلحتوں یا مخمصوں کا شکار ہیں؟ ان سب کی مجبوریوں اور مصلحتوں سے امریکہ کس طرح فائدہ اٹھا رہا ہے؟اور نئے عالمی امکانات کیا ہیں؟
آج اسی حوالے سے کچھ بات ہوگی۔
۔۔۔۔بُش خاندان کے ذریعے عالمی امریکی کردار کے باعث مجھے ہمیشہ سوویت یونین روس کے ٹوٹنے کا افسوس رہے گا۔چند اسلامی ممالک کے سوا سارے اسلامی ممالک ہمیشہ سے امریکہ نواز رہے۔بے شک اس میں امریکہ کے بعض مثبت اقدامات اور دوستانہ رویوں نے بھی بنیادی کردار ادا کیا۔امریکہ سے دوستی اور محبت کا سلسلہ چلنا چاہئے تھا لیکن اتنا نہیں کہ اس دوستی میں اسلامی ممالک ”یک طرفہ عشق“کے مقام تک پہنچ کر سوویت یونین سے مکمل بگاڑ پیدا کر لیتے۔ گزشتہ نصف صدی میں سوویت یونین اور امریکہ کی سرد جنگ میں اسلامی ممالک نے نفسیاتی طور پر ہراول دستے کا کام کیا۔سوویت یونین کو خدا کا منکر کہہ کر اس کے خلاف مسلمانوں میں شدیدنفرت پیدا کر دی گئی ۔اتنی نفرت تو خود امریکی بھی سوویت یونین سے نہیں کرتے تھے۔پھر افغانستان کے مسئلہ پر جس طرح سارا عالم اسلام امریکہ کی سرپرستی میں متحدہوا،ویسا اتحاد تو اب شاید ہی کبھی دیکھنے میں آسکے۔میرا خیال ہے کہ سوویت یونین قائم رہتا تو دنیا کے مختلف خطوں میں چھوٹی موٹی گڑ بڑ تو ہوتی رہتی لیکن دو بڑی طاقتوں کے درمیان کشمکش سے دوسرے ممالک نسبتاً محفوظ و مامون رہتے۔کم از کم اتنے برے حالات کبھی نہ ہوتے جیسے اب امریکہ کے ہاتھوں ہوتے جا رہے ہیں۔
۔۔۔۔اب عالم اسلام کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے تمام مصائب اور دکھوں کا علاج اس کے مکمل اتحاد میں ہے لیکن یہ قوم ”اتحاد عالم اسلام“کی دوا پینے کے لئے ہرگز تیار نہیں ہے۔بڑی سطح کے اتحاد کو تو چھوڑیں۔۔۔۔ہرمقامی سطح پر بھی مسلمان اتنے تقسیم در تقسیم ہو چکے ہیں کہ ایک موثر علاج موجود ہونے کے باوجود بیماری کا علاج ممکن ہی نہیں ہے ۔ایسے حالات میں کیا اسلامی ممالک باری باری امریکہ کا نشانہ بن کر ”افغانستان“ بنتے رہیں؟میرا خیال ہے کہ اگر سارے اسلامی ممالک نے افغانستان بننا ہے تو ایک ہی بار بن لیا جائے۔ورنہ مصلحت اور حکمت سے کام لے کر امریکہ سے کسی بھی الجھاوے سے بچنے کی کوشش کی جائے۔اور یہ جان لیا جائے کہ خصوصی طور پر گزشتہ نصف صدی میں اسلامی ممالک کے حکمرانوں نے جو سنگین قائدانہ غلطیاں کی ہیں اب اگلی نصف صدی تک ان سب غلطیوں کا ادراک کرتے ہوئے ان کی موثر تلافی کی جائے۔ اسلام کے آفاقی اصولوں کے مطابق اپنے شہریوں کو جدید علوم کی اعلیٰ تعلیم کی سہولتوں سے لے کر علاج معالجہ اور بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی تک کو اپنی ترجیحات میں شامل کریں۔(بیشتر مغربی ممالک انہیں”اسلامی اصولوں“پر از خود عمل کر رہے ہیں)۔
۔۔۔۔اگر اسلامی ممالک امریکہ کے معاملات سے بالکل الگ تھلگ ہو جاتے ہیں تو پھر بظاہر امریکہ کے سامنے چین اور روس کی فوجی قوت اور جاپان کی اقتصادی قوت کسی نہ کسی رنگ میں چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے۔امریکہ تیل کے جن ذخائر پر اپنے ڈھیلے ڈھالے قبضے کو مکمل قبضہ کی صورت دینا چاہتا ہے ،(اسرائیل کے مخصوص عزائم کی تکمیل کے باوجود)اس میں امریکی اضافی مقصد در اصل ایک طرف چین اور روس پر اپنی فوجی دھاک بٹھانا ہے تو دوسری طرف جاپان کی اقتصادی قوت کا مقابلہ بھی کرنا ہے۔
۔۔۔۔افسوس یہ ہے کہ روس کے ساتھ بیشتر اسلامی ممالک کے تعلقات ”عدم اعتماد“میں گھرے ہوئے ہیں۔ چین کے بھی گزشتہ چند برسوں سے اسلامی جہادی گروپوں کی سرگرمیوں کے باعث اسلامی ممالک کے معاملے میں بہت سے تحفظات ہیں۔اپنی داخلی پالیسی کے حوالے سے یہ چین کا حق بھی ہے کہ وہ ایسے تحفظات رکھے۔ افغانستان میں طالبان کے آخری دنوں میں گوتم بدھ کے عظیم تاریخی مجسمہ کی مسماری نے جاپان جیسے بھلے مانس ملک کو بھی اسلام اور اسلامی ممالک سے خاصا متنفر کردیا۔ان حالات میں ان میں سے کسی ملک سے یہ توقع رکھنا فضول ہے کہ وہ ایک منتشر عالمی اسلامی بلاک کے لئے امریکہ سے کوئی پنگا کرے ۔
۔۔۔۔اس کے باوجود امریکہ کے لئے ایک نیا اور بڑا چیلنج ابھر کر سامنے آرہا ہے۔یہ نہایت آہستگی سے ابھرنے والا چیلنج یورپی ممالک کی طرف سے ہے۔یورپی ممالک پر امریکہ کے بہت سے احسانات ہیں۔جنگ عظیم دوم کے بعد بعض یورپی ممالک کی تعمیر نو میں امریکہ نے بہت مدد کی تھی۔اسی احسان کے باعث یورپی ممالک ابھی تک امریکہ کی بہت سی جائز ،ناجائز مانتے آرہے ہیں۔برطانیہ کا امریکہ کی حمایت کا عالمی کرداراگرچہ بہت سے لوگوں کے نزدیک تمسخر کا نشانہ بنا ہے لیکن اگر دیکھا جائے تو برطانیہ ایک عجیب ”سیاسی ثقافتی بحران “ سے دوچار ہے،وہ یورپی یونین کا حصہ بنا رہنا چاہتا ہے کیونکہ وہ اسی یورپی خطے سے تعلق رکھتا ہے۔دوسری طرف پورا یورپ برطانیہ کے لئے اجنبی زبانوں کا ایسا خطہ ہے جہاں وہ خود کو اجنبی محسوس کرنے لگتا ہے۔اس کے برعکس امریکہ سے جغرافیائی فاصلے پر ہونے کے باوجود،برطانیہ کے لسانی اور بہت سے ثقافتی رشتے امریکہ سے بنتے ہیں اور واقعی بنتے ہیں۔اس لئے برطانیہ ،یورپ اور امریکہ کی کشمکش میں کوئی فیصلہ کن کردار ادا کرنے کے باوجود ذہنی طور پر گومگو کی کیفیت میں رہے گا۔
۔۔۔۔برطانیہ کو چھوڑ کر باقی یورپ کی عمومی صورتحال یورپی یونین کے ساتھ جڑ کر چلنے کی ہے۔اس وقت فرانس اور جرمنی کی حکومتوں کے طرز عمل کو یورپ کے عمومی مزاج کا ترجمان کہا جا سکتا ہے۔فرانس کی حکومت نے حالیہ دنوں میں ایران سے تعلقات سمیت متعدد عالمی امور میں اپنے قومی مفادات کے مطابق فیصلے کئے ہیں اور ا س سلسلے میں امریکہ کی خواہشات کو بڑے ڈپلومیٹک طریقے سے نظر انداز کیا ہے۔یاد رہے کہ گیارہ ستمبر۲۰۰۱ءکے بعد سے اب تک فرانس سے تین ایسی کتابیں چھپ چکی ہیں جن میں یہ بتایا گیا ہے کہ گیارہ ستمبر کا سانحہ ”کسی اور“کی سازش ہے۔
۔۔۔۔جرمنی کی تعمیر نو میں امریکہ کا بہت بڑا حصہ ہے۔جرمن قوم نے جنگ عظیم میں ا مریکی حملوں کو تو کسی حد تک بھلا دیا ہے لیکن جنگ کے بعد امریکی احسانات کو یاد رکھا ہوا ہے۔یہی وجہ ہے کہ بہت سی امریکی خواہشات کو پسند نہ کرنے کے باوجود جرمن حکومت امریکہ کا ساتھ دیتی رہی ہے۔مشرقی جرمنی اور مغربی جرمنی کا ملاپ بظاہر توسوویت یونین کی شکست اور امریکہ کی فتح تھا لیکن اس کے بعد کے اثرات مسلسل امریکہ کے بنیادی مفادات کے خلاف جا رہے ہیں۔اس اتحاد کے باعث جرمن قوم پرستی کا جذبہ ایک بار پھر سر اٹھا رہا ہے۔ نیو نازی تحریک کی صورت میں ہٹلر کے دور کو یاد کیا جانے لگاہے۔ابھی تک جرمن حکومت ایسے افراد کی حوصلہ شکنی کر رہی ہے۔بظاہر یہ تحریک جرمنی میں مقیم تمام غیرملکی افراد کے خلاف ہے۔اسی وجہ سے بعض ترک خاندان بھی اس تحریک کا نشانہ بنے۔لیکن میرے نزدیک یہ تحریک پہلے ہی کی طرح اینٹی یہودی تحریک ہے۔ اس سلسلے میں چند بنیادی نوعیت کے شواہد سامنے آئے ہیں۔مثلاً متعدد بار ایسا ہوا کہ یہودی قبرستان میں ان کی قبروں کو ادھیڑا ہوا پایا گیا جو یہودیوں سے گہری نفرت کا اظہار ہے۔جرمنی کے مشرقی حصہ برلن میں ایسا کئی بار ہو چکا ہے(یہی علاقہ نیو نازی تحریک کا گڑھ ہے)لیکن اب فرینکفرٹ کے علاقہ میں بھی ایسا واقعہ ہو چکا ہے۔خیال رہے کہ فرینکفرٹ کثیرالقومی انٹرنیشنل شہرہے اور عمومی طور پر ہر طرح کے انتہا پسندانہ تعصبات سے بچا ہوا ہے۔یہاں ایسے وقوعہ کا ہونا زیادہ تشویشناک ہے۔۔۔۔کولون کے قریب کسی علاقہ میں ایک بار یہودی عبادت گاہ میں آتش زنی کا چھوٹا سا سہی لیکن تخریبی واقعہ ہو چکا ہے۔۔۔جرمنی میں یہودیوں کی تنظیم کے سربراہIgnaz Bubis (جو اَب وفات پا گئے ہیں)ایک جرمن ٹی وی چینل پر انٹرویو دیتے ہوئے بتا رہے تھے کہ انہیں ایسی ٹیلی فون کالز آتی ہیں جن میں یہودی ہونے کی بنا پر گالیاں دی جاتی ہیں ۔ بعض کالز میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہٹلر نے تم لوگوں کے ساتھ ٹھیک کیا تھا اور اب ہٹلر کے حامی پھر آرہے ہیں۔وغیرہ۔۔۔۔
۔۔۔۔اس قسم کے واقعات کو ابھی یہاں عام طور پر ”مسلمان دہشت گردوں“کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے،لیکن حکومت خود بھی بخوبی جانتی ہے کہ یہ سب نیو نازی تحریک والے لوگ کر رہے ہیں۔ایک طرف جرمنی کے اندر اس طرح کا لاوا پک رہا ہے دوسری طرف جرمن حکومت اب امریکی خواہشات کا مزید ساتھ دینے سے انکار کر رہی ہے۔عراق کے حالیہ قضیہ میں ابھی تک امریکی حکومت کے کڑے تیوروں میں کوئی تبدیلی تو نہیں آئی لیکن یہ حقیقت ہے کہ جرمنی اور فرانس کے رد عمل اور یورپی یونین کے عمومی کردار کے باعث امریکہ کو ڈپلومیٹک سطح پر سخت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اسی ڈپلومیٹک ہزیمت کے باعث ہی ا مریکہ اقوام متحدہ پر برہمی ظاہر کررہا ہے۔ عراق کا یکایک اسلحہ کے معائنہ کے لئے اقوام متحدہ کے انسپکٹروں کو غیر مشروط طور پر انسپکشن کی اجازت دے دینا اور اس پرفوری مثبت عالمی رد عمل در حقیقت یورپی یونین کا کارنامہ ہے۔
۔۔۔۔امریکہ کو اب اصل چیلنج یورپ سے ملے گا اور امریکہ کا مقابلہ بھی یورپ ہی کر سکے گا۔اقتصادی میدان میں ”یورو “نے پہلے ہی ڈالر کو زد پر لے رکھا ہے۔ڈپلومیٹک سطح پر امریکہ اب اپنے رویے میں بہتری لائے گا یا چڑ کر مزید جارحانہ انداز اختیار کر لے گا؟اس کا اندازہ جلد ہی ہو جائے گا۔وقتی طور پر اگر عالم اسلام اب خاموشی اختیار کرلے تو آنے والے وقت میں امریکہ اور یورپ کا ٹکراؤہی برابر کی ٹکر والا ہوگا۔لیکن کتنا اچھا ہو کہ امریکی دانشور اور عوام اپنی حکومت کو امن،محبت ،عدل و انصاف اور بھائی چارے کی عالمی فضاقائم کرنے والا کردار ادا کرنے کے لئے زور دیں۔امریکہ دنیا کا بڑا بھائی یا باپ بننا چاہتا ہے تو اب کسی کو اس پر اعتراض نہیں ہوگا۔اعتراض صرف اس بات پر ہوگا کہ اس بڑے بھائی یا باپ کو انصاف کرنا نہیں آتا۔اور بڑے کا جتنا ظرف بڑا ہونا چاہئے وہ اس کے بالکل بر عکس ظرف کا مظاہرہ کررہا ہے۔
٭٭٭