جی بھائی جی
آ پ نے بلا
قاسم جو فہد کے کمرے میں بولتے ھوئے داخل ھو رھا تھا مگر پھر فہد کو کسی سے فون پر بات کر تے ہوئے دیکھ کر فوراً چپ کر گیا اور چپ چاپ کھڑے ھو کر فہد کے فارغ ھونے کا انتظار کرنے لگا
ھاں رضا تم دو تین گواہوں کا انتظام کرو اور شام 5 بجے سے پہلے انھیں میرے فارم ھاؤس پر لے کر آ جاؤ
وہ تمہیں پتہ چل جائے گا
زیادہ باتیں کرنے کی ضرورت نہیں ہے جو میں بول رھا ھوں صرف وہی کرو
اوکے
ٹھیک 5 بجے تم سب گواہوں سمیت ادھر موجود ھو نے چاھیئے
ٹھیک ہے بائے
فہد نے دو ٹوک انداز میں فون پر بات کی اور پھر کال کاٹ کر قاسم کی طرف مڑا
قاسم شام تک مولوی کا انتظام کرو
اور جا کر اپنی بہن کو بھی ادھر لے کر آ ؤ تاکہ وہ عیلی کو تیار کر سکے
جلدی کرو زیادہ وقت نہیں ہے میرے پاس
اور جو کپڑے میں نے تم سے منگوائے تھے وہ لے آ ے ھو نا
فہد نے سنجیدگی سے قاسم کو دیکھتے ہوئے کہا جبکہ قاسم نے حیرانگی سے کچھ دیر فہد کے روشن چہرے کو دیکھا جو کل تک تو روشن نہیں تھا مگر آ ج کچھ زیادہ ہی چمک رھا تھا
اور پھر نظریں جھکا کر بولا
بھائی جی چھوٹا منہ بڑی بات
مگر آ پ کیا اس لڑکی سے نکاح کر رھے ھیں
مطلب بھائی جی آپ تو اس لڑکی سے بدلہ لینا چاہتا تھے مگر اب اسے اپنی عزت بنا رھے ھیں
قاسم نے ڈرتے ڈرتے فہد سے یہ بات کی جبکہ فہد کچھ دیر تک تو قاسم کی بات سن کر خاموش رھا کیونکہ یہ بات تو اسے خود بھی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ آ خر وہ عیلی سے نکاح کیوں کر رھا ھے
وہ کیوں عیلی کو دیکھ لینے کے بعد اپنے مقصد (جو کہ عیلی سے اسد کی موت کا بدلہ لینا تھا) سے پیچھے ہٹ رھا ھے آ خر کیوں وہ عیلی کو ٹارچر نہیں کر رھا
ان سب کیوں کو فہد سمجھنے سے قاصر تھا کیونکہ اس وقت صرف ایک ہی بات اس کے دل اور دیہن پر سوار تھی کہ اسے بس عیلی سے نکاح کر کے اسے اپنے پاس رکھنا ھے
جیسے اگر اس نے عیلی سے نکاح نہ کیا تو عیلی اس سے ہمیشہ کے لئے دور ھو جائے گی اسی وجہ سے بس اپنے دل کی مانتے ھوئے فہد عیلی کو خود پر حلال کرنا چاہتا تھا
اور وہ اس وقت صرف یہی ایک بات ماننا چاہتا تھا اسی وجہ سے وہ شام کو عیلی سے نکاح کر رھا تھا
تمہیں جو کہا ھے وہ کرو قاسم
اب جاؤ یہاں سے
زیادہ دیر مت کرو
فہد نے بغیر قاسم کی کسی بات کا جواب دیے اسے اپنے کمرے سے نکال دیا
جبکہ خود ابھی بھی سمجھ نہیں پا رھا تھا کہ اسے ھو کیا گیا ھے جو عیلی کے لئے دل میں نفرت کی جگہ اب محبت لے رہی ھے
مگر فہد اس بات سے انجان تھا کہ محبت تو اس کے دل میں عیلی کے لئے کبھی ختم ھوئی ہی نہیں تھی یہ تو بس وقتی عضہ تھا عیلی پر
کیونکہ جن سے ہمیں محبت ھوتی ھے ان سے ہم کبھی نفرت نہیں کر سکتے
مگر فہد یہ باتیں سمجھنے سے قاصر تھا اس لئے فلحال خود کو ریلیکس کرتے ہوئے شام کا ویٹ کرنے لگا
بی بی جی یہ کھانا کھا لیں
عیلی جو بیڈ پر دروازے کی طرف کروٹ لیے لیٹی تھی کہ اچانک کسی کے بولنے کی آ واز پر اٹھتے ہوئے دروازے کی طرف دیکھا جہاں سے ایک اڈھیر عمر عورت کھانے کی ٹرے اٹھائے کمرے میں داخل ھو رہی تھی
عیلی کچھ دیر تک بغیر کچھ بولے اس عورت کو دیکھتی رہی جو کہ اب کھانے کی ٹرے کو عیلی کے پاس بیڈ پر رکھ چکی تھی
وہ جی آ پ یہ کھانا کھا لیں ورنہ چھوٹے سائیں جی ہم پر غصہ کریں گے
اس عورت نے جب عیلی کو ایک ہی پوزیشن میں بیٹھے ھوئے دیکھا تو جانے سے پہلے التجائیہ اندازہ میں عیلی سے بولی جبکہ عیلی نے غور سے اس عورت کو دیکھا جو کہ شاید کافی عرصے سے فہد کے پاس ملازمہ تھی
آ نٹی آ پ کا نام کیا ھے
عیلی نے اس عورت کو دیکھتے ھوئے اچانک سوال کیا عیلی کے اچانک بولنے پر وہ عورت گھبرا کر عیلی کو دیکھنے لگی کہ ریلی اس کا نام کیوں پوچھ رہی ھے کیا اس سے کوئی غلطی ھو گئی ھے جو ریلی اس کا نام پوچھ کو فیس کو اس کی شکایت لگانا چاہتی ھے مگر پھر عیلی کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھ کر وہ عورت کچھ حد تک سنبھل کر بولی
سنجھا نام ھے میرا
لیکن آ پ کیوں پوچھ رہی ھیں بی بی جی
سنجا بی نے عیلی کے مسکراتے ہوئے چہرے کو دیکھ کر کہا
میرا نام عیلشاہ ھے آ نٹی
لیکن زیادہ تر لوگ مجھے عیلی کہتے ھیں
آ نٹی کیا آ پ میرے ساتھ کھانا کھا سکتی ھیں
اصل میں آ نٹی مجھے اکیلے کھانے کی عادت نہیں ھے تو مجھ سے اس طرح کھانا نہیں کھایا جائے گا
عیلی نے معصومیت سے سنجا بی سے جھوٹ کہا جبکہ پہلے تو سچ میں عیلی سے اکیلے کھانا نہیں کھایا جاتا تھا مگر پھر دعا اور فیصل صاحب کے جانے کے بعد عیلی نے اپنی بہت سی عادتوں کو چینج کیا تھا
مگر اس وقت عیلی سنجا بی کا بھروسہ جیت کر اس کی مدد سے یہاں سے نکلنا چاہتی تھی
اس لئے سنجا بی کے سامنے جھوٹ بول رہی تھی جو کہ وہ بہت کم بولا کرتی تھی
بی بی جی میں کیسے
مطلب جی میں نوکر ھوں جی اس گھر کی
اور ویسے بھی جی میں کھانا کھا چکی ھوں
اس لئے آ پ کھا لو جی
سنجا بی احساس کمتری سے بولی جبکہ عیلی نے مسکراتے ہوئے سنجا بی کا ھاتھ پکڑ کر اسے بیڈ پر بیٹھایا اور پھر اپنائیت سے بولی
آ نٹی جی پلیز ایسے مت بولیں آ پ بزرگ ھیں میری اور ٹھیک ھے آ پ مت کھائیں کھانا اگر آ پ کو بھوک نہیں ھے تو مگر جب تک میں کھانا کھا رہی ھوں تب تک میرے پاس ہی بیٹھ جائیں
اور بارے میں کچھ بتائیں آ نٹی کہ آ پ کب سے یہاں پر ھیں
عیلی نرمی سے سنجا بی کو دیکھ کر بول رہی تھی جبکہ سنجا بی عیلی کی خود کو اتنی اہمیت دینے پر پھولے نہیں سما رہی تھیں اسی لئے مسکرا کر عیلی سے بولنے لگیں
وہ بی بی جی میں بڑی بی بی جی (فہد کی ماما) کے ساتھ جب ان کی شادی ھوئ تھی تب ان ساتھ ادھر آئ تھی اور اس بات کو 37 سال ھو چکے ھیں جی تب سے میں ادھر ہی ھوں
بس جی 2 سال پہلے بڑی بی بی کا انتقال ہوا تو سائیں جی نے بولا کہ اگر میں جانا چاہتی ھوں تو چلی جاؤں یہاں سے مگر جی دل لگ گیا ھے یہاں پر
اب تو یہی اپنا گھر لگتا ھے اور ویسے بھی مجھے چھوٹے سائیں جی سے لگاؤ بھی بہت ھے جی
اپنے بچے کی طرح لگتے ھیں مجھے چھوٹے سائیں جی
اس لئے انھیں چھوڑ کے نہیں جانا چاہتی ھوں
عیلی خاموشی سے سنجا بی کی باتیں سن رہی تھی جبکہ سنجا بی بھی بے تکلفی سے عیلی کے ساتھ باتیں کیے جا رہی تھیں
عیلی تھی ہی اتنی معصوم اور پیاری کہ کوئی بھی صرف ایک نظر اسے دیکھ کر اس کا دیوانہ ھو جاتا اسی لئے سنجا بی بھی عیلی کی شخصیت سے متاثر ہو کر اس سے باتیں کر رہی تھیں
چھوٹے سائیں جی غصے کے بہت تیز ھیں جی
زرہ زرہ سی بات پر انھیں غصہ آ جاتا ھے مگر وہ پہلے ایسے نہیں تھے جی پہلے بھی وہ زیادہ بولتے یا ھنستے نہیں تھے مگر پھر اسد سائیں جی کی موت کے بعد وہ غصہ بھی کرنے لگے ان چھے مہینوں میں میں نے کبھی انھیں مسکراتے ہوئے نہیں دیکھا مگر کل رات جب وہ آ پ کو اٹھا کر ادھر آ ے تھے نا جی تب وہ مسکرا رہے تھے
مجھے نہیں پتہ جی کہ انھیں آ پ کہاں ملیں اور وہ آ پ کو کیوں زبردستی لے کر آ ے مگر میں اتنا جانتی ھوں جی کہ وہ آ پ سے نکاح کر رھے ھیں اور یہ بہت بڑی بات ھے
کیونکہ میں نے آ ج تک چھوٹے سائیں جی کو کسی لڑکی کے آ س پاس بھی نہیں دیکھا وہ تو جی کسی لڑکی سے بات تک نہیں کرتے مگر آ پ سے نکاح کر رھے ھیں
لگتا ھے جی کہ آ پ سے محبت ھو گئ ھے چھوٹے سائیں جی کو
سنجا نان سٹاپ بولے ہی جا رہی تھی جبکہ سنجا بی کی باتوں سے ہی عیلی کا پیٹ بھر گیا اس لئے کھانے کی ٹرے سنجا بی کی طرف بڑھاتی ھوئی بولی
آ نٹی جی مجھے تھوڑا پانی مل سکتا ھے کیا عیلی نے ٹرے میں پڑے خالی گلاس کی طرف دیکھ کر کہا کیونکہ اس گلاس میں موجود پانی تو عیلی کھانے سٹارٹ کرنے سے پہلے ہی پی چکی تھی اور اب سنجا بی کی خوفناک باتوں (جو کہ عیلی کے لئے خوفناک تھیں کیونکہ وہ فہد کے متعلق تھیں )سے گھبرا کر عیلی کا دل گھبرا رھا تھا اس لئے اس نے سنجا بی سے پانی مانگا تھا
کیا ھوا بی بی جی
آ پ ٹھیک تو ھیں
مجھے لگتا ھے آ پ کی طبیعت ٹھیک نہیں ھے
رکیں جی میں چھوٹے سائیں جی کو بلا کر لاتی ھوں
سنجا بی نے جلدی سے بیڈ سے اٹھ کر کہا جبکہ عیلی نے ڈر کر سنجا بی کی طرف دیکھا اور پھر جلدی سے سنجا بی کا ھاتھ پکڑ کر بولی
پلیز پلیز آ نٹی
سائیں جی کو مت بلائیں
میں ٹھیک ھوں بس مجھے پانی چاھیے آ پ پلیز وہ لا دیں
اور پلیز سائیں جی کو میرے بارے میں کچھ مت کہیے گا
عیلی نے ڈر سے کانپتی ھوئی آ واز سے سنجا بی کو کہا تو وہ عیلی کی حالت دیکھ کر سر کو ھاں میں ہلا کر کمرے سے باہر نکل گئی
جبکہ عیلی یہ سوچ سوچ کر پاگل ھو رہی تھی کہ آ خر وہ یہاں سے کیسے نکلے کیونکہ فہد سے نکاح تو وہ نہیں کر سکتی تھی
لیکن عیلی کو اتنا سوچنے کے بعد بھی کوئی حل کوئی وسیلہ نظر نہیں آ رہا تھا
زینب ارے او زینب کہاں ھے تو
قاسم زینب کو پکارتے ہوئے گھر میں داخل ھوا تو زینب جو ابھی ابھی آ ٹا گوندھ کر ہٹی تھی
قاسم کے پکارنے پر گیلے ھاتھ اپنے دوپٹے سے خشک کرتی ھوئی صحن میں آ کر بولی
ھاں ادا سائیں
کیا ھوا تم مجھ کو اس طرح کیوں بلا رھا ھے
زینب اپنی ٹوٹی پھٹی اردو میں قاسم کو دیکھ کر بولی جو کہ سوجھے ھوئے چہرے کے ساتھ صحن میں کھڑا تھا
بھائی جی نے کہا ھے کہ تجھے لے کر آ ؤ
اس لئے چادر لے اور چل میرے ساتھ
قاسم صحن میں پڑی چارپائی پر بیٹھتے ھوئے بھاری آواز میں زینب سے بولا
جبکہ فہد کا نام سن کر زینب کاچہرا اچانک سے روشن ھو گیا کیونکہ ویسے تو زینب فہد سے کتنے ہی سال چھوٹی تھی یعنی کے 23 سال کی تھی جبکہ فہد 36 سال کا
لیکن پھر بھی وہ فہد کے بارے میں انوکھے جذبات رکھتی تھی
یعنی صاف لفظوں میں وہ فہد سے محبت کرتی تھی لیکن فہد نے اس سے محبت تو کیا کرنی تھی
کبھی زینب کو دیکھنا بھی گوارہ نہیں کیا تھا
لیکن اس بات سے زینب کو زیادہ فرق نہیں پڑتا تھا کیونکہ وہ اس بات سے مطمئن تھی کہ اگر فہد اسے اہمیت نہیں دیتا تو کسی دوسری لڑکی سے بھی اس کا تعلق نہیں ھے
اور اب جب اسے قاسم نے آ کر کہا کہ فہد اسے بلا رھا ھے تو زینب کو یہ خوش فہمی ھونے لگی کہ فہد بھی اس کے جذبات سے آ گاہ ھو کر اسے پسند کرنے لگا ھے تبھی تو فہد نے قاسم کو اسے بلانے کے لئے بھیجا ھے
کیا ھو گیا ھے تجھے
ایسے کیوں کھڑی ھے
بھائی جی انتظار کر رہے ھوں گے
جلدی چادر لے کر آ
میں باہر تیرا انتظار کر رہا ہوں
ٹھیک ہے ادا
قاسم بولتا ھوا باہر نکل گیا تو زینب بھی جلدی سے مسکرا کر قاسم کی بات کا جواب دیتی ھوئی اندر چادر لینے چلی گئی
کیا کروں میں کیسے نکلوں یہاں سے
پتہ نہیں یہ آ نٹی بھی میری مدد کریں گی یا نہیں
عیلی سنجا بی کے کمرے سے جاتے ہی اٹھ کر بے چینی سے بولتے ہوئے کمرے میں چلنے لگی
یا اللّٰہ پلیز میری مدد کریں
پلیز اللّٰہ مجھے سائیں جی سے ہمیشہ کے لئے دور کردیں
میں ان کے ساتھ نہیں رہ سکتی ھوں
آ پ تو جانتے ھیں نا کہ سائیں جی کتنے برے انسان ھیں
وہ مجھے بھی مار دیں گے جس طرح انھوں نے میرے بابا اور آ پی کو مار دیا
یا اللّٰہ میرا اب آ پ کے سوا کوئی نہیں ھے
صرف آ پ ھیں جو مجھے سائیں جی سے بچا سکتے ھیں
میری مدد فرما دیں اللّٰہ
پلیزز
عیلی دونوں ھاتھوں سے اپنا چہرہ چھپا کر روتے ھوئے اللّٰہ سے دعا کر رہی تھی
جبکہ اچانک اسے اپنے پاس شیشہ ٹوٹنے کی آواز سنائی دی جس پر چونک کر عیلی نے اپنا چہرہ اٹھا کر دیکھا تو اسے سنجا بی خود سے کچھ فاصلے پر کھڑی نظر آئیں
جبکہ ان کے ھاتھ میں جو پانی کا گلاس تھا وہ اب زمین پر گر کر بکھرا پڑا تھا شاید سنجا بی کے ھاتھ سے گر کر ٹوٹ گیا تھا
آ نٹی جی کیا ھوا آ پ اتنی خوفزدہ کیوں لگ رہی ھیں
عیلی نے نم آ نکھوں کے ساتھ سنجا بی سے اچانک خوفزدہ ھونے کی وجہ جاننی چاہی جبکہ سنجا بی عیلی کی بات سن کر تیزی سے چلتی ھوئیں عیلی کے پاس آئیں
اور پھر بہت آ ہستہ آ واز میں بولیں
بی بی جی ابھی جو آ پ نے کہا جی وہ سچ ھے کیا چھوٹے سائیں جی نے آ پ کی بہن اور
سنجا بی اتنا بول کر چپ ہو گیں جبکہ عیلی نے اپنی سرخ آ نکھوں سے سنجا بی کی طرف دیکھا جو کہ رونے کی وجہ سے سرخ ھو چکی تھیں اور پھر اپنے سر کو ھاں میں ہلایا
جبکہ سنجا بی شوکڈ سی کھڑی عیلی کے چہرے کو دیکھتی رہیں اور پھر اچانک عیلی کو پکڑ کر اپنے سینے سے لگا لیا سنجا بی کے ایسا کرتے ہی عیلی نے زور زور سے رونا شروع کر دیا
کب سے عیلی کو کسی ایسے ہمدرد کی ضرورت تھی جو اب اسے سنجا بی کے روپ میں ہمدرد مل گیا تھا تو عیلی نے اپنا سارا درد سجنا بی کے سینے لگ کر آ نسووں کے ذریعے بہانا شروع کر دیا
بی بی جی اتنی سے عمر میں آ پ نے کتنی تکلیف سہی ھے جی
اتنی سی عمر میں ہی اکیلی ھو گئیں ہیں آ پ
چھوٹے سائیں جی ایسے بھی ھو سکتے ھیں میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا
بس کریں جی مت کریں خود کو ہلکان
صبر سے کام لیں جی
اللّٰہ سب بہتر کریں گے
سنجا بی نے عیلی کو خود سے الگ کر کے اس کے آ نسو صاف کرتے ھوئے کہا
جبکہ عیلی اب ہلکی ہلکی ہچکیاں لے رہی تھی پھر کچھ دیر تک خود کو سنبھالنے کے بعد عیلی نے سنجا بی کو دیکھتے ہوئے کہا
آ نٹی جی کیا آ پ میری مدد کر سکتی ھیں یہاں سے بھاگنے میں
میرے پاس ٹائم بہت کم ھے آ نٹی جی
شام کو سائیں جی مجھ سے نکاح کر رھے ھیں
میں یہ نکاح نہیں کر سکتی ھوں آ نٹی جی
آ پ پلیز میری مدد کر دیں یہاں سے بھاگنے میں
میرے ایک انکل ھیں پولیس میں
میں اگر ایک بار ان کے پاس پہنچ گئی نا تو پھر سائیں جی مجھے پکڑ نہیں پائیں گے
آ پ سمجھ رہی ھیں نا آ نٹی جی کہ میں کیا کہہ رہی ھوں
عیلی اب سنجا بی کے ھاتھوں کو پکڑ کر بہت امید سے بول رہی تھی جبکہ سنجا بی بس خاموشی سے عیلی کی بات سن رہی تھیں
پلیز آ نٹی جی میری مدد کر دیں
میں آ پ کا یہ احسان کبھی نہیں بھولوں گی
آ پ نہیں جانتی آ نٹی جی سائیں جی مجھے جان سے مار دیں گے
روزانہ ٹاچر کریں گے مجھے
موت سے بھی بڑھ کر زندگی ھو گی میری
اور اگر آ پ نے میری مدد نہ کی نا آ نٹی جی تو میں خود کشی کر لوں گی مگر سائیں جی کے ساتھ نکاح کبھی نہیں کروں گی
عیلی نے درد سےچور لہجے میں کہا تو بے اختیار سنجا بی نے اپنا ھاتھ عیلی کے منہ پر رکھ دیا
ایسا نہیں بولو بی بی جی اللّٰہ نہ کرے آ پ کو کچھ ھو
وہ جی میں کچھ کرتی ھوں آ پ کے لئے
کیونکہ یہ تو مجھے بھی پتہ ھے کہ چھوٹے سائیں جی غصے کے بہت تیز ھیں
تو آ پ پر بھی غصہ کریں گے وہ
پلیز پلیز آ نٹی جی مجھے اس جہنم سے نکال دیں
عیلی نے دوبارہ سنجا بی کے گلے لگ کر کہا تو سنجا بی عیلی کے بالوں میں ھاتھ پھیرتے ہوئے اسے تسلی دینے لگی اس بات سے انجان کے ان کے کمرے کے دروازے کے باہر زینب کھڑی سب باتیں سن چکی ھے
ارے یہ لڑکی کون اے
جو سنجو کے ساتھ ادھر سے بھاگنا چاہتی ھے
مطلب دھوکہ دے رہی ھے یہ فہد سائیں کو
فہد سائیں کے خلاف جا رہی ھے
زینب اپنے ھونٹوں کو چباتی ھوئی عیلی کے کمرے کے سامنے سے ہٹ کر چلتی ھوئی بول رہی تھی
ایسے کیسے بھاگنے دوں اسے
ابھی بتاتی ھوں فہد سائیں کو
پھر پوچھیں گے فہد سائیں اسے بھی اور اس سنجو کو بھی اور
اور فہد سائیں مجھ سے کتنے خوش ھو جائیں گے کہ میں نے ان کی کتنی مدد کی ھے
ھاں میں فہد سائیں کو بتاتی ھوں
زینب خوش ھو کر خود کو داد دیتی ھوئ فہد کے کمرے کی طرف جانے لگی
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...