گرمیوں کی آمد آمد تھی۔ آج موسم خاصا گرم ہو رہا تھا۔ دھوپ بھی جسم کو چبھ رہی تھی۔ مرتضٰی سیاہ ٹراؤزر پر لائٹ براؤن ڈھیلی ڈھالی شرٹ پہنے لاؤنج میں داخل ہوا تو سامنے ہی سارہ اور نمرہ بیٹھی نظر آئیں۔ کچھ ہی فاصلے پر ایل ای ڈی آن تھی جہاں شاید کوئی کورین ڈرامہ چل رہا تھا۔ سارہ صوفے کی پشت سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی جبکہ نمرہ نے کشن گود میں رکھا تھا اور دونوں کہنیاں اس پر ٹکائے چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں لیے بڑی محویت سے ڈرامہ دیکھ رہی تھی۔
“تم دونوں سے کتنی مرتبہ کہا ہے کہ کورین ڈرامے مت دیکھا کرو۔ کسی بات کا اثر کیوں نہیں ہوتا تم لوگوں پر؟؟” مرتضٰی کا موڈ بگڑا تھا انہیں اتنا محو دیکھ کر۔ تبھی اس نے سارہ کے ہاتھ سے ریمورٹ لیتے ہوئیے ایل ای ڈی آف کی۔ سارہ اسے سامنے دیکھ کر سٹپٹائ تھی جبکہ نمرہ جو ڈرامہ میں اتنی کھوئ ہوئی تھی کہ اسے مرتضٰی کے آنے کی خبر بھی نہ ہوئی وہ ایل ای ڈی آف ہوتے ہی تڑپ اٹھی۔
“مسئلہ کیا ہے تمہارے ساتھ؟؟ ہر بات پر اعتراض ہوتا ہے تمہیں۔ کبھی ہم نے تمہیں کسی کام سے روکا ہے؟؟ کبھی تم سے کہا ہے کہ اپنے ان آوارہ اور نکمے دوستوں سے ملنا جلنا چھوڑ دو؟؟” نمرہ اس کی اس حرکت پر بھڑک اٹھی تھی۔
“تو تمہاری طرح ایسی واہیات چیزیں تو نہیں دیکھتا میں۔ اگر کچھ دیکھنا ہی ہے تو کوئی سبق آموز چیز دیکھو جس سے سیکھنے کو کچھ ملے۔” مرتضٰی کو نہ جانے کیوں سخت چڑ تھی کورین ڈراماز سے۔ ٹھیک ہے انٹرسٹنگ ہوتے تھے ڈرامے لیکن کہیں کہیں ان میں خاصی بے باکی دکھائ دیتی تھی۔ جو کچے ذہنوں پر برا اثر چھوڑ سکتی تھی۔
“تم آنکھیں بند کر لیا کرو پھر۔ ہمیں ان میں سے بھی بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ ریمورٹ دو۔” نمرہ نے اچک کر اس کے ہاتھ سے ریمورٹ لینے کی کوشش کی۔
“نہیں دوں گا میں۔” مرتضٰی نے ریمورٹ دوسرے ہاتھ میں منتقل کیا۔ نمرہ نے جواباً خشمگیں نگاہوں سے اسے گھورا۔
“تایا ابا۔۔۔” وہ جانتی تھی کہ اس سے الجھنا بےکار ہے تبھی اس کی کمزوری کی طرف ہاتھ بڑھایا تھا اور رونی شکل بنا کر مصطفٰی صاحب کو آواز دیتی ان کے کمرے کی جانب لپکی تھی جب مرتضٰی فوراً اس کے سامنے آیا۔
“دیکھو بابا کو مت بلاؤ۔ یہ لو ریمورٹ۔۔۔” ویسے تو وہ ہر وقت ان دونوں پر رعب جھاڑنے کی کوشش کرتا رہتا تھا لیکن جہاں بات بابا کی آتی تھی وہیں بھیگی بلی بن جاتا تھا۔ مصطفٰی صاحب کا خاصا رعب تھا اس پر۔ ویسے بھی وہ کونسا جانتے تھے کورین ڈرامے کس طرح کے ہوتے ہیں۔ اگر نمرہ ان کے پاس چلی جاتی تو انہوں نے بغیر کچھ سوچے سمجھے مرتضٰی کی عزت افزائ کر دینی تھی۔
“اب آئے نا لائن پر۔ ہونہہ۔۔۔” نمرہ نخوت سے کہتی ریمورٹ پکڑ کر سارہ کے ساتھ جا بیٹھی۔ ساتھ ہی فاتحانہ نگاہوں سے سارہ کو دیکھا۔ سارہ نے آنکھ بچا کر اسے انگوٹھا دکھاتے ہوئیے ویلڈن کا اشارہ کیا۔
“ایک سائیڈ پر ہو جاؤ تم بھی موٹو! کھا کھا کر دن بہ دن موٹی ہوتی جا رہی ہو۔ سارا صوفہ گھیر رکھا ہے۔” مرتضٰی کو غصہ نکالنے کا اور کوئی طریقہ نہ ملا تو سارہ پر ہی چڑھ دوڑا۔
“میں نے کیا کہا آپ کو؟؟” وہ روہانسی ہو کر رہ گئ۔ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا تھا۔ وہ نمرہ کا غصہ اسی پر اتارتا تھا۔ سارہ نے منہ بسورتے ہوئیے ایک جانب ہو کر اسے جگہ دی تو وہ دھپ سے صوفے پر گرتا سیل فون لے کر بیٹھ گیا۔ ساتھ ہی کن اکھیوں سے نمرہ کو دیکھا جو پھر سے ڈرامے میں غرق ہو چکی تھی۔
“اف اللّہ! نیلی آنکھیں۔۔۔ ہائے میں صدقے جاؤں۔” اچانک ڈرامہ دیکھتے دیکھتے وہ اچھل پڑی۔ مرتضٰی نے حیرت سے اسے دیکھا پھر ایل ای ڈی کو جہاں ایک نیلی آنکھوں والا لڑکا جو شاید ہیرو تھا، ہیروئین کا راستہ روکے کھڑا تھا۔ وہ گہری سانس لے کر رہ گیا۔ ساری دنیا کے ہیرو اس جھلی کو دکھائ دیتے تھے بس ایک اپنے ہیرو پر نظرِ کرم نہیں کرتی تھی۔
“پاگل۔۔۔” وہ بڑبڑا کر رہ گیا۔
“سارہ تمہیں پتا ہے سونا کو بھی تو نیلی آنکھیں پسند تھیں۔ اور ایک شادی میں اسے نیلی آنکھوں والا لڑکا شاہ ملتا ہے۔ اللّہ! اتنا زبردست ناول تھا وہ۔ لیکن مجھے شاہ پر غصہ بہت آیا تھا جب وہ سونا پر نیویارک میں ظلم کرتا ہے۔ اور اسے فرائیڈ فش کھانے کو کہتا ہے جس سے سونا کو الرجی تھی۔ تمہیں پتا ہے سونا مرتے مرتے بچی تھی تب۔ لیکن غلطی شاہ کی بھی نہیں تھی۔ پریشے نے اسے دھوکا ہی ایسا دیا تھا کہ وہ پاگل ہو کر رہ گیا۔ ہائے! میری بھی خواہش ہے کوئی نیلی آنکھوں والا لڑکا مجھے بھی کہیں ملے،میرے عشق میں گرفتار ہو جائے، ہر جگہ میرا پیچھا کرے۔ پھر وہ میرا کوئی دور پار کا رشتہ دار نکلے اور مجھ سے کوئی پرانا بدلہ لینے کے لیے شادی کرے۔ لیکن شادی کے بعد اسے دھیرے دھیرے مجھ سے محبت ہو جائے اور پھر ہماری کہانی کی بھی ہیپی اینڈنگ ہو جائے۔ ” وہ ڈرامہ دیکھتے دیکھتے ناول کو یاد کر کے اب حسرت بھرے لہجے میں سارہ سے اپنی خواہشیں بیان کر رہی تھی جبکہ مرتضٰی کا اپنا ماتھا پیٹنے کو دل چاہا تھا۔ ہر ناول کو پڑھنے کے بعد وہ یونہی اس ناول کے ہیرو کی محبت میں گرفتار ہو جاتی تھی۔
“یار ایک بات تو بتاؤ۔ یہ تم لوگوں کے ناولز میں ہر ہیرو اتنا ظالم، اتنا وحشی اور درندہ ٹائپ کیوں ہوتا ہے جو ہیروئین کو ہر وقت مارتا پیٹتا رہتا ہے۔ نہیں، میرا مطلب اگر ہیرو ایسا ہوتا ہے تو پھر ولن کسے کہتے ہیں؟؟ عام روٹین میں اگر کوئی مرد کسی عورت کو ایک تھپڑ بھی مار دے تو اس پر ہزار بار لعنت بھیجی جاتی ہے اور لڑکی سب چھوڑ چھاڑ کر میکے جا چکی ہوتی ہے۔ تمہاری ہیروئینیں کیا کوئی خلائ مخلوق ہیں جو مار پیٹ سہتی ہیں، کئ کئ دن بھوکی رہتی ہیں، ہیرو کی وجہ سے موت کے منہ تک پہنچ جاتی ہیں، جبکہ ان کی کوئی غلطی بھی نہیں ہوتی، یہاں تک کہ کچھ ناولز میں ہیرو صاحب ان کا ریپ بھی کر چکے ہوتے ہیں، انہیں ان کے گھر والوں کی نظروں میں گرا چکے ہوتے ہیں پھر بھی وہ اتنی فرمانبردار اور سیدھی سادھی ہیں کہ ہیرو صاحب کی خدمت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتیں۔ اور ہر طرح کا ظلم روا رکھنے کے بعد اختتام میں ہیرو صرف ایک سوری کہتا ہے اور ہیروئین میڈم سب کچھ بھول کر اسے معاف کرتی ہیں اور ہنسی خوشی رہنے لگتی ہیں۔ کیا کوئی تک بنتی ہے ایسے ناولز کی؟؟ کہاں سے لاتے ہو یار ایسے غنڈے نما ہیرو اور اتنی سادھو ٹائپ ہیروئنیں؟؟ عام عورتیں سب حقوق ملتے ہوئیے بھی ‘میرا جسم میری مرضی’ اور ‘ہمیں ہمارے حقوق دو’ جیسے نعرے بلند کر رہی ہوتی ہیں تو کیا یہ ہیروئینیں اپنے حقوق سے بالکل بے خبر ہیں؟؟ اور ایسے ہیرو؟؟ واللّہ ناولز نے تو ہیرو اور ولن میں فرق ہی ختم کر کے رکھ دیا ہے۔ ” مرتضٰی اسی وجہ سے ان ناولز سے خائف رہتا تھا کیونکہ وہاں بہت سی غلط چیزوں کو بھی فروغ دیا جا رہا تھا جو نمرہ جیسی اور نہ جانے کتنی لڑکیوں کے دماغ میں خناس بھر دیتے تھے۔
“رائیٹر کا پین، رائیٹر کی مرضی۔” نمرہ کو اس کا یہ تبصرہ کچھ زیادہ پسند نہیں آیا تھا تبھی منہ مروڑ کر جواب دیتی واپس ڈرامے کی جانب متوجہ ہو گئ۔ ہاں البتہ مرتضٰی کی باتوں نے سوچوں کے کچھ نئے در کھولے تھے۔ مرتضٰی بھی اس کی بات پر سر جھٹک کر اٹھ گیا کہ اسے سمجھانا بالکل بے کار تھا۔
“مرتضٰی! میرے ساتھ آؤ۔ مجھے نا ایک کام ہے تم سے۔” وہ ہمیشہ کی طرح اپنے حلیے سے بے پروا پورے گھر میں اسے ڈھونڈتی بالآخر ٹیرس پر چلی آئ تھی۔
“کیا کام ہے یار؟؟ ابھی میں مصروف ہوں۔” مرتضٰی نے لیب ٹاپ کی اسکرین سے نگاہ ہٹا کر اسے دیکھا اور ٹیبل پر رکھا چائے کا کپ اٹھا کر ایک گھونٹ بھرا۔ کورونا وائرس اب تقریباً ختم ہو چکا تھا۔ پاکستان کے حالات بھی معمول پر آ چکے تھے تبھی کل سے ان کا آفس بھی کھل جانا تھا۔ اسی سلسلے میں وہ کچھ کام کر رہا تھا۔
“مجھے نا تمہارے ساتھ ایک رومینٹک سین کی پریکٹس کرنی ہے۔ ” وہ بڑے جوش و جذبے کے ساتھ بول رہی تھی جبکہ مرتضی کو اچھو لگ گیا۔ چائے کا کپ رکھتے ہوئیے وہ بری طرح کھانسنے لگا تھا۔
“کیا۔۔۔ کیا کہا تم نے؟؟” تھوڑا سنبھلتے ہوئیے اس نے تعجب سے دوبارہ سوال کیا کہ کہیں اسے سننے میں غلطی تو نہیں ہو گئ۔
“ارے! ایک تو تم سمجھتے نہیں ہو۔ وہ جو ناول میں ہیرو ہیروئین رومینٹک گفتگو کرتے ہیں نا۔ اور ہیرو پیار سے ہیروئین کے چہرے کے سامنے آئے بالوں کو پیچھے کرتا ہے، اس کے جھمکے کو چھوتا ہے، پیاری پیاری باتیں کرتا ہے جن سے ہیروئین کا چہرہ سرخ پڑ جاتا ہے۔ اس کے ماتھے پر مہر محبت ثبت کرتا ہے۔۔۔ نہیں نہیں۔۔۔ مہر محبت کو رہنے دو، بس جھمکے کو چھونے تک ہی ٹھیک ہے۔ تو بس ویسے سین اور ویسی ہی رومینٹک سی باتیں کرنی ہیں مجھے۔” وہ بیوقوفوں کی سردار آج ایک نئ بیوقوفی لے کر اس کے سامنے حاضر تھی۔ مرتضٰی کا دل چاہا اپنا سر پیٹ لے۔
“اور یہ رومینٹک سینز کی پریکٹس کرنے کا خیال کیسے آیا آپ کے دماغ شریف میں؟؟” مرتضٰی نے طنزیہ نگاہوں سے اسے دیکھا۔ ناولز نے اس لڑکی کا دماغ خراب کر رکھا تھا۔ ہمیشہ کچھ نہ کچھ الٹا سیدھا کرتی رہتی تھی۔
“وہ کیا ہے نا۔ جب میری شادی ہو جائے گی تو میرا دلہا بھی تو مجھے سے ایسے ہی رومینٹک باتیں کرے گا نا۔ لیکن اس سے پہلے مجھے شرمانا آنا چاہیے، اپنے چہرے کو سرخ کیسے کرنا ہے یہ بھی آنا چاہیے۔ میرے چہرے پر کیسے تاثرات ہوں گے وہ سب تو پریکٹس کرنے سے ہی آئے گا نا۔ تم تو میرے دوست اور کزن ہو نا اسی لیے میں سوچ رہی ہوں پہلے تمہارے ساتھ پریکٹس کر لوں تاکہ مجھے شرمانا،لجانا آ جائے اور بعد میں آسانی رہے۔” وہ بڑے بھولے پن سے مرتضٰی سے اپنی رومینٹک سین کی پریکٹس کے پیچھے کارفرما وجہ شئیر کر رہی تھی۔
“واٹ؟؟ تم پاگل تو نہیں ہو۔۔۔؟؟ دماغ خراب ہو گیا ہے کیا تمہارا؟؟ عجیب اول فول سوچتی رہتی ہو ہر وقت۔ عقل کیا گھاس چرنے گئ ہے تمہاری؟؟ ” اس کی بے تکی باتوں پر مرتضی ایک دم بھڑک ہی تو اٹھا تھا۔ جبکہ وہ جو اس بات پر خوش تھی کہ پریکٹس کے لیے ایک عدد پارٹنر مل گیا تھا اسے، اب آنکھوں میں آنسو لیے کھڑی یہ سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی کہ مرتضٰی کو غصہ کس بات پر آیا تھا۔
“یہ فضول کی ڈرامے بازیاں چھوڑ دو تو بہتر ہو گا تمہارے لیے۔ اور آج چچی جان سے کہہ کر تمہارے یہ ناولز تو میں بند کرواتا ہے۔ عجیب خناس بھرتا جا رہا ہے تمہارے دماغ میں۔ کبھی محترمہ ہیرو کی موت پر اشکبار ہوتی ہیں، کبھی ہیرو ہیروئین کے بریک اپ پر بھوک ہڑتال کی ہوتی ہے اور اب رومینٹک سین کی پریکٹس کرنی ہے۔ اللّہ! پتا نہیں کب عقل آئے گی اس لڑکی کو۔” وہ بھنا کر اٹھا تھا اور اپنا لیب ٹاپ اور چائے کا کپ لیے اس کی سائیڈ سے گزرتا سیڑھیوں پر دھپ دھپ کرتا نیچے چلا گیا جبکہ وہ معصوم چہرہ لیے اب بھی ٹسوے بہانے میں مصروف تھی۔
رات کے ساڑھے آٹھ بج رہے تھے۔ وہ گھر میں داخل ہوا تو لاؤنج میں ہی گھر کے سب افراد پر نگاہ پڑی۔
“السلام علیکم! ” اس نے سب کو مشترکہ سلام کیا۔ جواباً ‘وعلیکم اسلام’ کی چند آوازیں ابھریں۔
“آئم سو سوری! لیٹ ہو گیا میں۔ بس دو منٹ میں چینج کر کے آتا ہوں پھر چلتے ہیں ہم۔۔۔” وہ عجلت میں کہتا سیڑھیوں کی جانب بڑھ گیا۔ کل ہی اسے اپنی پرموشن کی خبر ملی تھی اسی خوشی میں وہ آج سب گھر والوں کو ڈنر کے لیے لے کر جا رہا تھا۔ صبح آفس جاتے وقت وہ سب سے کہہ گیا تھا کہ آٹھ بجے تک تیار رہیں اور اب خود آدھا گھنٹہ لیٹ ہو گیا تھا۔
“چلیں۔۔۔” ٹھیک دو منٹ بعد ہی وہ کلائ پر گھڑی باندھتے ہوئیے سیڑھیاں اترتا دکھائ دیا۔ سفید شلوار قمیض پہنے وہ خاصا وجیہہ لگ رہا تھا۔
“کیا ہوا؟؟ ” جب کوئی بھی اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوا تو وہ حیران ہو کر انہیں دیکھنے لگا۔ جب غور کیا تو کسی کی کمی محسوس ہوئی تھی۔
“نمرہ کدھر ہے؟؟ ” اس نے سوال کیا۔ لیکن دوسری جانب بدستور خاموشی تھی جیسے سب ناراض ہوں اس سے۔۔۔
“کیا ہوا ہے آخر؟؟ کچھ بول کیوں نہیں رہے آپ لوگ؟؟ نمرہ کدھر ہے؟؟ کیا ابھی تک تیار نہیں ہوئی؟؟” مرتضٰی نے مڑ کر اوپر کی جانب دیکھا جہاں نمرہ کے کمرے کا دروازہ بند تھا۔
“نمرہ نہیں جا رہی۔ اور ہم سب بھی کہیں نہیں جا رہے اس کے بغیر۔۔۔” باقی تو کسی فرد نے بولنے کی زحمت نہ کی تھی البتہ سارہ نے ہی جواب دیا تھا۔ لہجہ روٹھا روٹھا سا تھا۔
“لیکن کیوں؟؟ میرا مطلب۔۔۔ نمرہ کیوں نہیں جا رہی؟؟ پہلے تو ہر وقت بے چین رہتی ہے کہ یوں باکر کہیں جانے کا موقع ملے۔” وہ حیرت زدہ تھا اس بات پر۔
“وہ کہہ رہی ہے اس نے تم سے کوئی فرمائش کی تھی جو تم نے پوری نہیں کی۔ اب وہ نہ تم سے بات کرے گی اور نہ ہی تمہارے دئیے گئے کسی ڈنر پر جائے گی۔ اور اس کے بغیر ظاہر ہے ہم بھی کہیں نہیں جا رہے۔” دادو نے ساری بات اس کے گوش گزار کی۔
“فرمائش؟؟ کونسی فرمائش؟؟” وہ چونکا۔ پھر الجھا۔ پچھلے ایک دو دن سے نہ تو اس سے سامنا ہوا تھا نہ ہی کوئی بات ہوئی تھی اس سے۔ بلکہ وہ اس کے سامنے ہی نہیں آ رہی تھی۔ مرتضٰی کو لگا شاید اپنی سرگرمیوں میں مصروف ہو گی وہ اور ناولز پڑھ رہی ہو گی۔ یہ اندازہ ہی نہ تھا کہ وہ ناراض ہے اس سے۔
“اوہ!” اس کے ذہن میں جھماکہ سا ہوا۔اس بے وقوف لڑکی کی ناراضگی کی وجہ سمجھ میں آ گئ تھی۔ وہی رومینٹک سین کی پریکٹس کی فرمائش اور مرتضٰی کا ڈانٹنا اور صاف انکار۔ شاید اسی بات کا برا منا گئ تھی وہ۔
“جی فرمائش۔ برخوردار آپ کو پہلے بھی ایک مرتبہ سمجھایا تھا میں نے کہ گھر کے واحد لڑکے ہیں آپ۔ اس گھر کی دونوں لڑکیوں کی خواہشیں، ان کی فرمائشیں پوری کرنا آپ کا فرض بنتا ہے۔ اگر گھر میں لڑکیوں کی خواہشیں نظر انداز کی جائیں تو وہ چور راستے اپناتے ہوئیے باہر سہارے ڈھونڈنے لگتی ہیں اور غلط لوگوں کے ہتھے چڑھتی ہیں۔ لیکن لگتا ہے بات آپ کی سمجھ میں نہیں آئ۔” بابا اپنے کمرے سے نکل رہے تھے تبھی اسے وہاں موجود دیکھ کر اس کی کلاس لینے اسی طرف چلے آئے۔ وہ گڑبڑا کر رہ گیا ان کی بات پر۔
“لیکن بابا۔۔۔” اس نے کچھ کہنے کی کوشش کی تھی۔
“ویسے تو الحمدللّہ ہم نے اپنی بچیوں کی کوئی خواہش ادھوری نہیں رہنے دی۔ ان کے ماں باپ زندہ ہیں ابھی اور انہوں نے کبھی کسی بات کے لیے تمہارے اوپر انحصار نہیں کیا لیکن کیا میں یہ جان سکتا ہوں کہ ایسی کونسی خواہش تھی جو صرف تم پوری کر سکتے تھے۔ کونسی بات منوانا چاہتی تھی وہ تم سے جو تمہارے لیے ناممکن تھی اور جس پر تم نے صاف انکار کر دیا۔ بلکہ انکار کرنے کے ساتھ ساتھ اچھا خاصا ڈانٹا بھی اسے۔۔۔ تمہیں پتا ہے بچی نے رو رو کر حشر کر لیا ہے اپنا۔” مصطفٰی صاحب نے کڑی نگاہوں سے اسے گھورا تھا۔ باقی سب افراد بھی سوالیہ نگاہوں سے اسی کی طرف دیکھ رہے تھے جیسے اس خواہش کے بارے میں جاننا چاہ رہے ہوں۔
مرتضٰی نے تھوک نگلا۔ اب وہ کیسے بتاتا سب کو اس کم عقل لڑکی کی فرمائش کے بارے میں۔ کیا کہتا کہ وہ اس کے ساتھ رومینٹک سین کی پریکٹس کرنے کو کہہ رہی ہے تاکہ شادی کے بعد اپنے شوہر کے رومینس کرنے پر شرما سکے؟؟ کتنا آکورڈ لگے گا یہ سب۔۔۔ اف! کہاں پھنس کر رہ گیا تھا وہ۔
“کک۔۔۔ کچھ نہیں بابا۔ وہ بس ایک ناول کا کہہ رہی تھی۔ میں نے کہا ابھی چند دن مصروف ہوں، بک اسٹور کا چکر نہیں لگے گا۔ پھر کسی دن لا دوں گا تو شاید اسی بات پر ناراض ہو گئ وہ۔” مرتضٰی نے عقل کے گھوڑے دوڑاتے ہوئیے بالآخر ایک مناسب بہانہ تلاش کر ہی لیا۔
“ہاں تم منسٹر ہو نا اس ملک کے جس کے اگر پانچ منٹ ضائع ہو گئے بک اسٹور کی طرف جانے میں تو ملک کا سارا نظام درہم برہم ہو کر رہ جائے گا۔۔۔” مصطفٰی صاحب نے گہرا طنز کیا تھا اس پر۔ مرتضٰی خون کے گھونٹ پی کر رہ گیا۔
“نمرہ کی بچی! تمہاری تو میں جان لے لوں گا۔۔۔” وہ دل ہی دل میں نمرہ سے مخاطب ہوا تھا جو ہمیشہ گھر والوں کی نظروں میں معتبر بن کر اسے ڈانٹ پڑوا دیتی تھی۔ اس کا چہرہ سرخ پڑنے لگا تھا بے عزتی کے احساس سے۔
“اب یوں منہ اٹھائے کھڑے کیا ہو؟؟ جاؤ جا کر مناؤ اسے۔۔۔ اسے بتاؤ کہ تم اسے ناول لا کر دو گے۔ اور جو وہ کہے گی ہمیشہ اس کی بات مانو گے۔ اگر وہ راضی ہو جاتی ہے، اپنی خفگی ختم کر دیتی ہے تو اسے کہو تیار ہو کر آ جائے نیچے ورنہ پھر سب گھر بیٹھو۔ کوئی کہیں نہیں جائے گا۔” مصطفٰی صاحب قطعی لہجے میں کہتے وہاں سے جا چکے تھے جبکہ وہ کلس کر رہ گیا تھا ان کی بات پر۔ اتنا اچھا موڈ تھا آج اس کا لیکن یہ نمرہ کی بچی ہمیشہ اس کے موڈ کا ستیاناس کر کے رکھ دیتی تھی۔ وہ سب پر شکایتی نظر ڈالتا پاؤں پٹختا نمرہ کے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔