گرمیوں کے دن تھے دونوں ماں بیٹا چھوٹی سی چھت پر کرسیوں پر آمنے سامنے بیٹھے تھے… قریب قریب کی سب ہی چھتوں سے آوازیں آ رہی تھیں… گرمی بہت بڑھ گئی تھی… پچھلے تین گھنٹے سے بجلی نہیں آ رہی تھی… رات ایک بجے کا وقت تھا… نیند تو اسے بہت آ رہی تھی… لیکن وہاں بیٹھے رہنے پر مجبور تھا…
“پاکستان میں اب زیادہ ہی گرمی نہیں ہونے لگی؟”
“پہلے بھی اتنی ہی تھی…” وہ ساتھ ہاتھ کا پنکھا اسے بھی جھل رہی تھیں…
“لیکن ماما! پہلے مجھے اتنی گرمی نہیں لگتی تھی…”
وہ ہنسیں… “تب تم ایک کینال کی کوٹھی میں رہتے تھے… جس کے آگے ایک کھلا لان تھا… بہت سے درخت اور پودے تھے گھر میں اور آرکیٹیکٹ نے گھر کو ایسے ڈیزائن کیا تھا کہ وہ گرمیوں میں ٹھنڈا اور سردیوں میں گرم ہوتا تھا…”
“اچھا….! ہمارے مالک مکان کو بھی ایسے ہی گھر ڈیزائن کروانا چاہیے تھا… دیکھیں! کتنا گرم گھر ہے ان کا… اتنی جلدی گرمی آ جاتی ہے لاہور میں…”
“چار مرلے کے گھر کو وہ کیا ڈیزائن کرواتا… پھر یہاں زیادہ تو لوگ موسم کو دیکھے بنا ہی گھر بنوا لیتے ہیں اور تم یہ بھی بھول رہے ہو کہ ہمارے گھر میں ایر کنڈیشنڈ تھا ہر کمرے میں… سارا گھر ہی ٹھنڈا تھا… جس کار سے تم اسکول جاتے تھے…. وہ بھی…. تمہارا اسکول بھی…. تو بیٹا! ایسے لوگوں کو کیا معلوم کہ پاکستان میں کتنی گرمی اور سردی ہوتی ہے… یہ سب تو کسی اور کو ہی معلوم ہوتا
ہے…”
“یعنی غریبوں کو……”
“غریب ہونا برا نہیں……”
“لیکن مشکل ضرور ہے… یہ جو ہمارے پڑوس میں آنٹی رہتی ہیں نا….. بازار سے آ رہی تھیں… سچ ماما! گرنے کے قریب تھیں… شاید بلڈ پریشر کا مسئلہ تھا انہیں… میں نے انہیں بائیک پر بٹھا کر گھر تک چھوڑنے کے لیے کہا تو کہتی ہیں… “بھائی! میرے شوہر نے مجھے چھتر مار کر گھر سے نکال دینا ہے…” میں نے پوچھا… “آنٹی! چھتر کسے کہتے ہیں تو بولیں کہ “یہ جو تم نے پیروں میں پہن رکھے ہیں…” میں نے کہا… ” یہ تو……. شوز ہیں…” تو وہ بولیں… “انہیں چھتر بھی کہتے ہیں…”
مسز گوہر اتنا اونچا قہقہہ لگا کر ہنسیں کہ آواز ایک دو قریب کی چھتوں تک تو ضرور ہی گئی ہو گی…
“کیوں اس کا اتنا سر کھایا تم نے…. پاگل….”
“میرا اپنا دماغ گرمی سے گھوما ہوا تھا… پانی کی جو بوتل میں پینے کے لیے ساتھ رکھتا ہوں… وہ میں نے سر پر ڈال لی… ایک چھوٹا لڑکا بازار میں برف والا پانی بیچ رہا تھا… دس روپے میں اس سے بوتل بھروا لی اور لڑکے سے کہا کہ تم ضرور بڑے ہو کر کسی بڑے ادارے کی باگ دوڑ سنبھالو گے…”
“کیوں آس دلائی اسے؟ ایسے تو ہمارے ملک میں ہزاروں بچے ہیں… کہاں ان کے مستقبل بنتے ہیں…”
“ارے ماما! اس کا ضرور بنے گا… اسکول کے یونیفارم میں تھا… تین روپے کا گلاس دے رہا تھا… میں نے کہا کہ “دس کا تو بیچو… اتنی گرمی میں بیٹھے ہو…” کہنے لگا… “ستر روپے کی برف آئی ہے… پانی مفت کا ہے… ساٹھ گلاس نکل جائیں گے آرام سے… اتنا منافع کافی ہے… مجھے ملک میں اور مہنگائی نہیں کرنی…
“بہت خوب…. کمال کا بچہ تھا…”
“واپسی پر پیدل جاتا ملا…. میں نے اسے گھر چھوڑ دیا…”
“بہت خوب…..تم بھی کمال کے بچے ہو…” وہ ہنسیں…
“اتنی بار اسپرے کیے ہیں میں نے… لیکن یہ مچھر آخر جاتے کیوں نہیں؟” وہ بار بار ریکٹ سے مچھر مار رہا تھا…
“اسپرے سارے علاقے میں ہو گا تو ہی مچھر ختم ہوں گے وہ بھی شاید…….” وہ تیزی سے پنکھا جھلنے لگیں تا کہ مچھر فرزام سے دور ہی رہیں…
“اتنے پیسے نہیں ہیں میرے پاس کہ سارے علاقے میں اسپرے کروا دوں… لیکن اگر علاقے کے لوگ تعاون کریں تو میں پیسے اکٹھے کر کے کروا سکتا ہوں…”
“فرزام! یہ عام لوگ ہیں… ان کی زندگیوں میں اتنے مسائل ہیں کہ یہ لوگ مچھر جیسے مسئلے پر سوچ ہی نہیں
سکتے… یہ مچھر’ مکھیاں’ گرمی’ بجلء کا نہ ہونا… یہ سب ان کے لیے معمول کے اور معمولی مسئلے ہیں…”
“مسئلے حل کرنے سے حل ہو جاتے ہیں… ختم نہیں ہوتے تو کم ضرور ہوتے ہیں…”
“جن کی زندگیوں میں روٹی کا مسئلہ ہو… وہ اور مسئلوں پر کیسے توجہ دیں؟”
“چلیں مان لیا….. روٹی’ مہنگائی’ بےروزگاری…. یہ مسئلے ہیں’ لیکن ماما! گندگی….. یہ تو مسئلہ نہیں ہے نا… غریب لوگ غریب ہیں… ٹھیک ہے… لیکن وہ گندے کیوں ہیں… کیا صفائی ستھرائی میں بھی پیسے لگتے ہیں… گھروں کے سامنے گند ہے….. اندر گند ہے….. بچے گندے ہیں…… میں نے گلیوں میں بغیر نیکر کے گندے سندے کپڑوں میں بہت بار بچوں کو دیکھا ہے….. ماما! عورتوں کو ان سب کا تو خیال رکھنا چاہیے نا؟ گھروں کے آگے کوڑا پھینکنا کہاں کی عقل مندی ہے… ایک گلی کو صاف رکھنے میں کتنے پیسے لگتے ہیں….. اور میں جب جب پائپ لگا کر گھر کے آگے دور تک کا حصہ صاف کرتا ہوں تو ساتھ والی آنٹی کے سارے بچے آ کر میرے سر پر کھڑے ہو جاتے ہیں… ایک دو چھتوں سے لڑکیاں بھی مجھے دیکھتی ہیں… سچ ماما! میں بہت شکرگزار ہوں برطانیہ کا… اس نے میری بہت سے معاملات میں بہت اچھی تربیت کی ہے…”
اس تربیت کا اس نے ذرا سا استعمال کیا اور گھر گھر جا کر پیسے لیے… وہ ہر ایک کے دروازے پر جاتا… مچھر اور مچھر کے کاٹنے پر لیکچر دیتا… سب دروازوں کی پردوں کی اوٹ میں کھڑی سنتی رہتیں… کچھ پیسے پکڑا دیتیں… کچھ کہتیں کہ “ان کے ابو آئیں گے تو ہی جواب دیں گی…” ایک آنٹی کو فرزام نے کہہ دیا کہ “کیا مچھر آپ کو آپ کے ابو سے پوچھ کر کاٹتا ہے…” وہ تو ہنسیں… ساتھ کے گھروں کی تین اور آنٹیاں بھی دل کھول کر ہنسیں…
اسپرے پر آنے والی کل لاگت فرزام نے لگا لی تھی… گھر بھی گن لیے تھے… اب ہر ایک کو ایک جیسی رقم دینا تھی’ پیسے اتنے زیادہ بھی نہیں تھے… کم از کم وقفے وقفے سے تین بار اسپرے ہونا تھا… کچھ نے بحث کر کے پیسے دیے کچھ نے بنا بحث کے دے دیے اور کچھ نے سرے سے دیے ہی نہیں… جنہوں نے نہیں دیے… ان کے فرزام نے اپنے پاس سے ڈال لیے… اس کے پاس بھی زیادہ پیسے نہیں تھے… لیکن اس نے سوچا کبھی تو آ ہی جائیں گے… فی الحال مچھروں کو نہیں آنا چاہیے… وقفے وقفے سے تینوں اسپرے ہو گئے… کشادہ گلی میں سڑک کی طرف نکڑ پر ان کا گھر تھا… اندر سے اندر اور گلیاں نکلتی تھیں…
اسپرے سے انقلاب تو نہیں آیا… لیکن مچھروں کی تعداد بہت گھٹ گئی… جنہیں برداشت کیا جا سکتا تھا… گلی میں رہنے والی ایک آنٹی اسے ملیں تو بہت پیار سے بولیں…
“بڑا چنگا ایں تو کاکے!” (بہت اچھے ہو تم لڑکے)
انہیں آرڈرز بھی مل رہے تھے اور وہ کام بھی کر رہے تھے… لیکن مسئلہ یہ تھا کہ منافع زیادہ نہیں ہو رہا تھا… منافع جنریٹر کے پیٹرول میں نکل رہا تھا… ہر مٹیریل کی قیمت ڈبل سے ٹرپل ہو چکی تھی… نیو سیشن میں بھی وہ ایڈمیشن نہیں لے سکا… اگر وہ ایڈمیشن لے لیتا تو آرڈرز اور سپلائی کا کام کون کرتا… کسی اور ورکر کو وہ فی الحال افورڈ نہیں کر سکتے تھے… کڈز گارمنٹس کے لگژری اسٹورز سے بھی بات چیت چل رہی تھی… لیکن وہ اکیلا یہ کام نہیں کر سکتا تھا… گلبرگ اور ڈیفنس میں کچھ اسٹورز ایسے تھے جن کے ساتھ بات چیت میں کئی گھنٹے گزر
جاتے… وہ گھنٹوں بٹھا کر یہ سمجھاتے رہے کہ انہیں کس طرح کے فیشن کے کپڑے چاہئیں… کن رنگوں کے اور کس کام کے ساتھ…
فرزام نوٹ کر لیتا تھا… آ کر ماں کو بتا دیتا تھا… لیکن سپلائی کے وقت وہ نقص نکالتے کہ آرڈر ویسا نہیں ہے اگر اتنے گھنٹے ماں ضائع کریں گی تو کٹنگ کا کام کون کرے گا اور اگر اتنے ہی گھنٹے فرزام ان سب کو نوٹ کرنے میں لگائے گا تو باقی کا کام کون کرے گا… لیکن وہ ان اسٹورز کو ہاتھ سے جانے بھی نہیں دینا چاہتے تھے… ان سے انہیں بروقت ادائی ملتی اور قریب قریب ان کی پسند کی ملتی…
دونوں نے آپس میں مشورہ کر کے اخبار میں ایک ورکر کے لیے اشتہار دے دیا…
……… ……………… ………
ایڈ میں صاف صاف لکھا ہے کہ ہمیں ایک گریجویٹ کی ضرورت ہے’ جو روانی سے انگلش بول سکے…
“میں گریجویشن کر رہی ہوں…”
“لیکن لیڈی! آپ ہیں تو نہیں نا…”
“نہیں…… لیکن ہو جاؤں گی…”
“لیکن…..” وہ زچ ہو گیا… “دیکھیے! میں سمجھاتا ہوں کہ ہمیں گریجویٹ ہی کیوں چاہیے… کیونکہ اس ملک میں ایک گریجویٹ ہی اچھی انگریزی بول سکتا ہے…”
“میری ایک بھابھی بی اے ہیں… وہ تو انگلش نہیں بول سکتیں…” اس نے اتنی بےچارگی سے سچ بولا کہ فرزام اسے دیکھ کر رہ گیا…
“یہ انٹرویو اسی لیے تھے کہ معلوم کیا جا سکے کہ میرے پاس آنے والا بی اے انگلش بول سکتا ہے کہ نہیں…”
“ایڈ میں لکھا ہے کہ اسے ڈیزائننگ کی سمجھ بوجھ ہونی چاہیے… تو مجھے بوجھ ہے… میں کسٹمر کی ڈیمانڈ کو آسانی سے سمجھ سکتی ہوں…”
“میں سمجھ سکتا ہوں… لیکن لیڈی! آپ کو کسٹمر سے ڈیل نہیں کرنا… آپ کو کچھ گروپس سے ڈیل کرنا ہے… جہاں سے آرڈرز لینے ہیں’ وہ اسٹورز گلبرگ اور ڈیفنس میں ہیں… کچھ سوسائٹیز میں ہیں… عام روٹین میں بھی ان لوگوں کو عادت ہوتی ہے انگلش میں ہی بات کرنے کی… ایڈ میں میل فی میل ضرور لکھا ہے’ لیکن ہماری ترجیح لڑکا ہے’ جو اپنی کنوینس پر آ جا سکے…”
“مجھے کڈز گارمنٹس میں بہت اچھا تجربہ ہے… میں جانتی ہوں’ میں آپ کے لیے بہت فائدہ مند ثابت ہوں گی…” اس بار اور بےچارگی سے کہا گیا…
“میں سمجھ سکتا ہوں کہ آپ کو ایک اچھی جاب کی ضرورت ہے… لیکن…..” اس کی شکل پر چھائی مایوسی دیکھ کر اسے دکھ ہوا…
“اچھی جاب کی نہیں’ ایک شریف جاب کی……” اسے لگا لڑکی رونے ہی والی ہے بس…
“یہ جگہ میرے گھر سے قریب ہے… میں یہاں پیدل آ سکتی ہوں…”
“میں آپ کے لیے ضرور کچھ کرتا… اگر کر سکتا……” اس کی بےچارگی پر اسے ترس آیا…
وہ چلی گئی… وہ وہاں آئی دس لڑکیوں اور پانچ لڑکوں میں سے چھٹی لڑکی تھی’ ایک فریش گریجویٹ لڑکے کو فرزام نے اوکے کر دیا… انٹرویو ان کے گھر میں ہی ہوئے تھے… جہاں ایک کمرے میں انہوں نے ایک میز اور دو کرسیاں رکھ کر اسے آفس بنا لیا تھا…
رات کو وہ ماں سے اس لڑکی کا ذکر کرنا نہیں بھولا…
“اس نے کہا کہ اسے ایک شریف جاب کی ضرورت ہے… لگتا ہے بہت برے حالات دیکھے ہیں اس نے….. کہہ رہی تھی کہ کڈز گارمنٹس کی اسے بہت سمجھ بوجھ ہے… مام! اسے اپنے ساتھ ہیلپر کیوں نہیں رکھ لیتیں…”
“ہم ایک اور ورکر کی تنخواہ کہاں سے نکالیں گے…..؟”
“ہو سکتا ہے’ ابھی وہ کم پیسوں پر مان جائے… پھر آنے والے وقت میں ہم اسے زیادہ دے سکیں… میرے انکار پر وہ رونے والی ہو گئی تھی… کچھ کیجئے مام…..”
“دیکھ لو….. ابھی ہم اتنے منافع میں نہیں جا رہے…” نیچے آ کر اس نے وہ فہرست نکالی… جس پر ہر امیدوار کا نمبر لکھا تھا… اس نے نمبر کو موبائل میں محفوظ کر لیا… تا کہ صبح اسے کسی بھی وقت فون کر سکے… پھر اسے خیال آیا کہ یقیناً آج وہ بہت مایوس ہو گی… اگر وہ ابھی فون کر دے تو شاید یہ اس کے لیے اچھا ہی ہو… اس نے فون کیا… وہ اس لڑکی کی آواز تو بالکل نہیں تھی… فرزام نے اپنا تعارف کروایا…
“مجھے افق عبدالقدوس سے بات کرنی ہے… آج وہ میرے پاس انٹرویو کے لیے آئی تھیں…”
……… ……………… ………
اسے نو بجے آنے کے لیے کہا گیا تھا… وہ سوا آٹھ بجے ہی وہاں تھی… مسز گوہر خود فجر کے بعد نہیں سوتی تھیں… اپنا کام کرنے لگتی تھیں… اسے وقت سے اتنا پہلے دیکھ کر انہیں حیرانی ہوئی… البتہ انہوں نے اسے کام سمجھا دیا… پہلے اسے ہر مٹیریل کو دیکھ کر فہرست بنانا تھی کہ کون سا مٹیریل کتنا ہے… بڑے کمرے میں سب مٹیریل رکھا ہوتا تھا… اس نے نو بجے یہ کام کر لیا… مسز گوہر حیران
ہوئیں… وہ اچھی خاصی پھرتیلی تھی…
“تم نے اس سے پہلے کہاں کام کیا ہے افق؟” اس کی پھرتی کو دیکھ کر انہیں خیال آیا کہ وہ کسی بڑے ادارے میں کام کرتی رہی ہے…
“میں……” وہ بتاتے ہوئے شرمندہ ہو گئی… “دو دن پہلے تک میں ایک ریسٹورنٹ میں کام کرتی رہی ہوں…”
“ٹھیک ہے…” انہیں محسوس ہوا کہ وہ اس بارے میں زیادہ بات کرنا نہیں چاہتی…
چھوٹے سے جس ریسٹورنٹ میں وہ کام کرتی رہی تھی… اس میں اس سمیت دو اور لڑکیاں تھیں… دو لڑکے تھے’ جو آرڈر لیتے تھے… وہ کاؤنٹر کے پیچھے کھڑی ہو کر فاسٹ فوڈ کو ٹرے میں رکھ کر آرڈرز لانے والے بوائز کو دیتی تھیں… آنے والے کسٹمر خود بھی کاؤنٹر تک آکر اپنی ٹرے لے سکتے تھے اور تین لڑکیاں جب کاؤنٹر کے پیچھے کھڑی ہوں تو وہاں تک آنا کسی کو برا نہیں لگتا تھا… افق ہر روز کاؤنٹر سے اٹھ کر دس بارہ وزیٹنگ کارڈز ڈسٹ بن میں پھینکتی تھی… یہی حال دوسری لڑکیوں کا بھی تھا’ انہیں ان کی خوب صورتی کی بنا پر رکھا گیا تھا…
اس سے پہلے اس نے قذافی اسٹیڈیم میں نئے نئے بنے ہائپر اسٹار شاپنگ سینٹر میں نوکری کی تھی… وہاں بھی اس کے ساتھ یہی ہوا تھا… اس کا کام ریکس کو چیک کرتے رہنا اور ان میں رکھی گئیں مصنوعات کی کمی پر انہیں وہاں لا کر رکھنا تھا’ وہ سارا وقت لوگوں کی نظروں میں رہتی… آتے جاتے اس کے ہاتھوں کو’کمر کو مَس کیا جاتا…بہانے سے اسے کارڈز دیے جاتے… یہ سب تو کم تھا… اس کے ایک کولیگ لڑکے نے اس کا ہاتھ پکڑ کیا… وہ کئی ہفتوں سے اس کا نمبر مانگ رہا تھا… ریسٹورنٹ کی جاب ملتے ہی اس نے شاپنگ سینٹر کی جاب چھوڑ دی…
اس جاب میں ایک اور مسئلہ تھا… اسے دو بسیں بدل کر انارکلی سے قذافی اسٹیڈیم آنا پڑتا… اس کی آدھی تنخواہ کرایہ میں ہی نکل جاتی… اماں کی گھر واپسی کے بعد انہوں نے ایک وقت کا کھانا کھانا بھی شروع کر دیا تھا… ڈاکٹر کی ہدایت تھی کہ انہیں گرمی نہ لگنے دی جائے… انہوں نے سیدھا سیدھا اے سی کے لیے کہا تھا… علاج کے سارے اخراجات دانیہ نے اٹھائے تھے تو جو پیسے جمال کے پریس کے مالک اور اسکول کی میڈم نے دیے تھے… اس سے انہوں نے ایک سیکنڈ ہینڈ اسپلٹ اے سی لگوا لیا تھا… اماں نے بہت نہ’ نہ کی… لیکن اس نے بھابھی کے شوہر کو پیسے دے دیے… وہ اماں کی زندگی کے لیے زمین آسمان ایک کر سکتی تھی…
اماں کی بیماری جا چکی تھی… لیکن زندگی جیسی بیماری ابھی ساتھ تھی… وہ اماں کے اسکول میں گئی… لیکن وہاں اسے تین ہزار میں ٹیچر رکھا جا رہا تھا… ایف اے پاس لڑکی کو اتنے ہی مل سکتے تھے… تین ہزار میں تو بجلی’ گیس کا بل بھی ادا نہیں ہونا تھا… اماں کے لیے جو مخصوص خوراک آنی تھی’ وہ الگ……. اس مقام پر ایسا ہوا کہ افق ان سب کی اماں بن گئی… اپنی اماں کی بھی اماں….. پہلے وہ صرف کام کرتی تھی… اب اسے کام کے ساتھ ساتھ سب کچھ سنبھالنا بھی تھا… اسے صرف دو وقت کی روٹی ہی نہیں چاہیے تھی… اسے دو وقت کی روٹی جمع بھی کرنا تھی… اماں پر جو وقت آیا اور پھر اسے بھیک مانگنی پڑی… اس نے اسے بہت کچھ سمجھا دیا… جس پل پر سے وہ گزر کر آئی تھی… اس کے اختتام پر ایک عبارت لکھی تھی…
“خود کو روندے جانے کے لیے تیار مت کرو…”
اور افق اب کی بار کسی دکھ’ تکلیف یا انسان کے ہاتھوں روندے جانے سے ڈرتی تھی… زندگی میں صرف جینا ہی نہیں آنا چاہیے… اگر پیچھے سیلابی ریلا آ جائے تو بھاگنا آنا چاہیے اور اگر ریلا آ ہی جائے تو تیرنا آنا چاہیے… زندگی میں صرف کھانا اور سونا ہی نہیں آنا چاہیے…
انسان کوئی جانور نہیں ہے کہ شیر صرف دھاڑ ہی سکتا ہے اور مچھلی صرف تیر ہی سکتی ہے… کوئل گائے گی اور سانپ پھنکارے گا… بندر درختوں پر چڑھے گا اور خرگوش صرف زمین کھود کھود کر سرنگ اور گھروندے بنائے گا… یہی سب تو انسان کو جانور سے الگ کرتا ہے کہ انسان کیا کچھ نہیں کر سکتا… اسے فطرت نے ایک خاص خوبی تک پابند نہیں کیا… پھر بھی لوگ جانوروں کی طرح خود پر بوجھ لدوا لیتے ہیں’ چابک کھاتے ہیں اور اپنے ہی جیسے انسانوں کے پیر تک چاٹتے ہیں…
افق نے تین ہزار کی وہ اسکول کی نوکری کر لی… ساتھ ساتھ وہ دوسری نوکری کے بارے میں معلومات کرنے لگی… اگلی نوکری اسے ساڑھے تین ہزار میں ایک لیڈی ڈاکٹر کے کلینک پر ملی… اسے کاؤنٹر پر بیٹھ کر ٹوکن دینے ہوتے’ فون ریسیو کرنے ہوتے اور باری باری ہر ٹوکن نمبر کو اندر بھیجنا ہوتا… پھر اسے شاپنگ سینٹر کی جاب کے بارے میں معلوم ہوا… وہاں اسے دس ہزار دیے جا رہے تھے… جیسے تیسے اس نے وہ جاب کی اور پھر گوالمنڈی میں بنے ایک نئے ریسٹورنٹ میں آ گئی’ یہاں اسے صرف چھ ہزار ملتے تھے’ لیکن جمال اسے سائیکل پر یہاں چھوڑ جاتا تھا… جمال نے اسکول چھوڑ دیا تھا… جمال نے کہا کہ وہ پرائیوٹ پڑھ لے گا اور پڑھنے کا کیا ہے زندگی میں کبھی بھی پڑھا جا سکتا ہے…
رات کو دونوں بھائی پریس جاتے اور دن میں جمال ایک کپڑے کی دکان پر کام کرتا… اماں گھر میں اکیلی ہوتیں… بھابھی ہی آ آ کر پوچھتی رہتیں… مسز گوہر کے یہاں بھی وہ انہی کے ساتھ آئی تھی… انہی کے شوہر نے اخبار میں وہ ایڈ دیکھ کر دونوں کو بھیجا تھا… ریسٹورنٹ کے ماحول سے وہ عاجز آ چکی تھی… اب وہ چند ہزار کے لیے خود کو ہر روز نیلام نہیں کر سکتی تھی… مسز گوہر نے اس سے کہا کہ منافع زیادہ ہوتے ہی وہ اس کی تنخواہ بڑھا دیں گی… ایک بند گھر میں ایک عورت کے ساتھ اسے کام کرنا تھا اور اسے بہت سکون تھا…
جب وہ فیکٹری جایا کرتی تھی… تب ہی سے اس کی خواہش تھی کہ وہ بھی ڈیزائنر بنے… اماں نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ حالات اچھے ہوتے ہی وہ اسے ایک چھوٹا سا کورس تو ضرور ہی کرا دیں گی… ایک دو بار اس نے ایک دو خاکے فیکٹری کی ڈیزائنر کو دکھائے تھے…چند تکنیکی تبدیلیاں کر کے ڈیزائنر کے وہ کپڑے ڈیزائن کر دیے تھے… اس میں سیکھنے کی زبردست صلاحیت تھی…
اس نے گھر سے نکلنے سے پہلے بہت سے کام کیے تھے… فرما’ گوند لگے خاکی لفافے’ کاج’ بٹن’ ریڈی میڈ کپڑوں پر کالر لگانا’ ڈیکوریشن پیسز کی تیاری’ جیولری’ ہینڈ بیگ’ ڈیزائنر جوتوں پر اسٹون لگانے کا کام… وہ ہر کام تیزی سے کرتی… نفاست سے مکمل کرتی… یہی ماضی کا تجربہ تھا کہ مسز گوہر کی مدد کرنا اس کے بائیں ہاتھ کا کام تھا… مسز گوہر کپڑرے کی ہر سائز کی کٹنگ کرتی تھیں… اس پر پھر ایمبرئیڈی اور اسٹون ورک ہونا’ پھر انہیں سلائی کیا جانا’ آخری کام انہیں اچھی طرح دیکھ کر ٹانکوں کو چیک کر کے’ سائز کو پھر سے ناپ کر پیک کرنے کا ہوتا’ ہر آرڈر کو الگ الگ پیک کرنا ہوتا… کس رنگ’ مٹیریل’ ڈیزائن کے نمونے کتنے بنیں گے… یہ بھی الگ الگ فہرست میں درج کرنا ہوتا… آرڈر ڈلیور کرنے کی تاریخ ذہن میں یاد رکھنی ہوتی’ مسز گوہر کا اصول تھا کہ وہ ایک بھی دن آرڈر لیٹ نہیں کرتی تھیں… اکثر رات رات بھر بیٹھ کر وہ اور فرزام کام کرتے…
افق ماضی میں اتنے سارے کام کر چکی تھی… اسے یہاں کوئی مسئلہ درپیش نہ ہوا… فیکٹری میں جو اس نے تھوڑی بہت کٹنگ سیکھی تھی… وہ یہاں کام آ گئی… وہ پانچ ماہ کی بچی کی شلوار قمیض آرام سے کاٹ لیتی… ماسٹر جی سلائی کرتے… وہ اگر فارغ ہو جاتی تو تیسری مشین پر بیٹھ کر سلائی کرنے لگتی… قمیصوں پر….. چھوٹے چھوٹے شراروں پر تھوڑے بہت اسٹونز لگنے ہوتے تو وہ اٹھتے بیٹھتے آرام سے لگا لیتی… مسز گوہر کو شرمندگی ہوتی… ٹھیک ہے’ وہ ان کی مدد کے لیے ہے… لیکن مدد سے ان کا مطلب اوپر کا کام تھا… کاریگروں والا کام نہیں….. وہ گھر اس وقت نہیں جاتی تھی’ جب وقت پورا ہو جاتا تھا… وہ اس وقت جاتی تھی’ جب کام پورا ہو جاتا تھا… پہلے وہ صبح آٹھ بجے آتی تھی… پھر وہ سات بجے ہی آ جاتی…
“میرا بیٹا کہتا ہے کہ میں بہت محنت کرنے والی خاتون ہوں… لیکن افق! تم بہت بہت محنت کرنے والی لڑکی ہو… تم تو جن ہو… تم تھکتی نہیں….. کیا کھاتی ہو؟”
“انسان کو کام نہیں’ صدمات تھکا دیتے ہیں اور اب کام میرے لیے صدمہ نہیں… آپ کو نہیں معلوم’ مجھے اس کام میں کتنا مزا آتا ہے… ہم روز نیا کام کرتے ہیں… نئے ڈیزائن پر’ نئے رنگ پر’ نئے کپڑے پر… رات بھر یہ رنگ میری آنکھوں میں گھومتے رہتے ہیں… میں صبح تک ان سے ملنے کے لیے بےچین رہتی ہوں…”
“ایسا ہی میرے ساتھ تھا… میرے شوہر گاؤں سے آئے تھے… انہوں نے اپنی محنت سے تعلیم مکمل کی اور جاب کی اور پھر مجھ جیسی عام سی لڑکی سے شادی کی… میں صرف بارہ جماعتیں پاس تھی… جس آفس میں وہ کام کرتے
تھے… میں وہاں آپریٹر تھی… لیکن مجھے ڈیزائنر بننے کا بہت شوق تھا… جب ہم اپنا گھر بنا چکے تو انہوں نے میرا شوق پورا کر دیا… مجھے بتایا کہ کیسے میں گھر پر رہ کر اپنا کام کر سکتی ہوں اور واقعی ایسا ہو گیا… میرے بنائے ملبوسات کو پسند کیا جانے لگا… میں ایک بڑے نام کی ڈیزائنر نہیں تھی… لیکن جو بھی تھا… میں خوش تھی… میں اپنی مرضی سے ڈیزائن کرتی اور اسے پسند کیا جاتا… اتنے سال برطانیہ میں’ میں نے اس شوق کو دبائے رکھا… رنگ مجھے بےچین کر دیتے… میرے ہاتھوں میں آنے کے لیے مچلتے…… اب میں اس چھوٹے گھر میں رہ کر چھوٹے سے پیمانے پر بہت محنت سے کام کر رہی ہوں… لیکن میں بہت خوش اور مطمئن ہوں… میں تمہاری کیفیت سمجھ سکتی ہوں… تم اپنے ذہن میں آنے والے کسی بھی ڈیزائن کا خاکہ مجھے دکھا سکتی ہو… اچھا ہوا تو ہم اس پر کام کر لیں گے… کتابیں پڑھ کر ہی سب کام نہیں آتے…”
افق مسکرانے لگی… ایک لمبے عرصے کے بعد اسے یہ پہلی خوش خبری ملی تھی… اس نے زندگی بھر کام کیا تھا… خواب نہیں دیکھے تھے… خواہش نہیں کی تھی وہ اپنی چادر کو جانتی تھی… لیکن ایک آدھ خواب ضرور پالنا چاہیے… اس خواب کے پیچھے ضرور بھاگنا چاہیے… اس خواب کے لیے جان توڑ کوششیں ضرور کرنی چاہیے… اگر یہ خواب نہ دیکھے جاتے تو دنیا کبھی اتنی ترقی نہ کرتی… اب افق نے پیسے’ ضرورت سے ہٹ کر ایک خواب دیکھا… اپنے کامیاب ہونے کا…
آدھے سے زیادہ کام وہ گھر لے جاتی تھی… کپڑوں کے تھان کے تھان وہ جمال کی سائیکل پر رکھ کر گھر بھجوا دیتی اور رات بھر بیٹھ کر چھوٹے سائز کے کپڑرے کاٹ لیتی… پیپر پر خاکے بناتی کہ کس پر کس ڈیزائن کا کام ہونا
چاہیے… کس رنگ کا… کس اسٹون کا… یہاں اسے فیکٹری میں کام کا تجربہ مدد دینے لگا… وہاں ایک ایک کام کو تفصیل میں اور ترتیب سے کیا جاتا تھا… کالر کس رنگ کا ہو گا… بٹن کس رنگ’ سائز کے ہوں گے کہاں کہاں لگے گے… پاکٹ کہاں ہو گی’ زپ کہاں… کس رنگ کے ساتھ کس رنگ کی میچنگ ہو گی…
وہ ایک چھوٹے لیول کی لوکل فیکٹری تھی… لیکن اس اتنی سی فیکٹری میں کام بہت ترتیب سے ہوتے تھے… کوالٹی کا خیال رکھا جاتا تھا… فیبرک کو چیک کیا جاتا تھا… ایک انچ کی کمی بیشی نہیں کی جاتی تھی… ایسے پیسز جن میں کمی بیشی ہو جاتی تھی… انہیں ادھیڑ کر نئے سرے سے سلائی کروایا جاتا تھا… اس معاملے میں ڈپارٹمنٹ کی ہیڈ کا ایک ہی اصول تھا… وقت اور قوت کتنی ہی صرف ہو… کوالٹی میں فرق نہیں آنا چاہیے… رات بھر بیٹھ کر وہ کٹنگ کرتی… خاکے بنا لیتی… خاکے پر بنیادی باتیں لکھ دیتی اور صبح پہلے خود جاتی… پھر جمال سائیکل پر سامان چھوڑ جاتا… مسز گوہر چیک کر لیتیں… کمی بیشی دور کر کے’ اوکے کر کے کاریگروں کے سپرد کر دیتیں… آرڈرز کی تیاری میں تھوڑی سی تیزی آ گئی… مسز گوہر وقت کی کمی کی وجہ سے زیادہ آرڈرز نہیں لیتی تھیں… اب ایک دو آرڈرز اور لینے لگیں… فارغ وقت میں وہ گلبرگ اور ڈیفنس کے اسٹورز میں جا کر ڈسکس کر لیتیں کہ ان کی ڈیمانڈ کیا ہے… اس طرح انہیں آسانی رہنے لگی… وہ وہی ڈیزائن کر دیتی جو ان کی ڈیمانڈ ہوتی’ جو انہیں چاہیے ہوتا…
ایک دن شام گئے انہیں گلبرگ کے ایک اسٹور سے فون آیا کہ ایک میڈم ہیں… انہیں انارکلی فراک تین مختلف سائزز اور رنگوں میں چاہیے… میڈم کو ان کا نمبر دے دیا گیا… مسز گوہر نے ان سے بات کی… اگلے دن ان کے کزن کی بارات تھی اور انہیں وہ انارکلی فراکیں اپنی بھانجیوں کے لیے چاہیے تھیں… اسٹور پر موجود ایک وہ اپنی بیٹی کے لیے لے چکی تھیں… ان کی بھانجی کو بھی وہی پسند آ گئی تھی… لیکن اس کے سائز کی اور موجود نہیں تھی… مسز گوہر کو یہ پہلا ذاتی آرڈر مل رہا تھا اور ان کا ماننا تھا کہ کبھی بھی کسٹمر کو “نو” نہیں کہنا چاہیے… لیکن ان کے پاس وقت نہیں تھا… کاریگر جانے والے تھے… مٹیریل موجود تھا… فراکوں کے دامن اور گلے پر اسٹون ورک ہوا تھا… صرف اسٹون ورک کے لیے ہی انہیں آٹھ گھنٹے چاہیے تھے… معذرت کے ساتھ انہوں نے انکار کر دیا…
“آپ کو انہیں انکار نہیں کرنا چاہیے تھا…” افق کو انکار پر اعتراض تھا…
“کیا کرتی…… دو گھنٹے تک سب ہی کاریگر چلے جائیں گے… انہیں کل دن میں بارہ بجے تک چاہیے…”
“آپ ان سے بات کریں اور ان سے کہیں کہ اگر اسٹون ورک تھوڑا ہلکا ہو جائے تو……. آپ جانتی ہیں کہ بچے ایک چیز پسند کر لیں تو انہیں وہی چاہیے ہوتا ہے…”
“تو بھی ہم کیسے کام کریں گے افق……. وقت نہیں ہے…”
“آپ کاریگروں سے بات کریں میڈم! اگر وہ آج رات کام کر لیں گے تو آپ انہیں کل کی چھٹی دے سکتی ہیں…”
“اگر کل انہیں چھٹی دے دی افق! تو باقی آرڈر کون تیار کرے گا… ہم صرف تین بچوں کے لیے اتنا کچھ کیوں کریں گے؟”
“ہو سکتا ہے’ وہی میڈم ہمیں اور آرڈز بھی دے دیں… وہ ہماری باقاعدہ کسٹمر بن جائیں… ہمیں ان سے آرڈر ملتے رہیں…”
“لیکن ایسا بھی تو ہو سکتا ہے کہ ہمیں کوئی فائدہ نہ ہو…”
“فائدہ ہو بھی سکتا ہے… ہماری فیکٹری میں ایسے آرڈر کو بہت اہمیت دی جاتی تھی…”
کافی دیر تک سوچنے کے بعد انہوں نے بیگم کو فون کیا… انہیں تفصیل میں بتایا کہ انہیں کتنے کام میں فراکیں مل سکتی ہیں… اس نے ہاں کہہ دی… اپنی مرضی کے تین مختلف رنگ بتا دیے… رنگ سازی مسز گوہر خود ہی رک لیتی تھیں… رنگ ساز افورڈ نہیں کر سکتی تھیں… ایک مقامی ادارے میں دو گھنٹے ہر روز جا کر انہوں نے رنگ سازی سیکھ لی تھی… سفید شیفون کو انہوں نے بیگم کے بتائے رنگوں میں رنگا… اس دوران افق نے چوڑی دار پاجامے کاٹ دیے… سلائی ماسٹر وہ پاجامے سینے لگے… سارے کاریگر رات بھر کام کے لیے مان گئے تھے… اگلے دن کی چھٹی بھی انہیں مل رہی تھی اور رات کے کام کے الگ پیسے بھی… گھر فون کے افق نے اپنے کام کے بارے میں بتا دیا تھا… مسز گوہر ایک بار اس کے گھر جا کر اماں سے مل آئی تھیں… دونوں ایک دوسرے کے لیے اجنبی نہیں رہی تھیں…
رات بھر کام ہوتا رہا… دونوں کاریگروں نے مل کر پہلے ایک کو اڈے پر لگایا… اس پر کام کیا… پھر دوسری کو…… اس دوران سلائی ماسٹر ان کی ڈبل سلائی کرتے رہے… مسز گوہر اور افق دوپٹوں پر دوسری مشینوں سے بنارسی فیتہ لگاتی رہیں… مسز گوہر نے ہی انہیں کھانا منگوا دیا تھا… درمیان میں آدھے گھنٹے کے وقفے سے وہ لوگ باری باری آرام کرتے رہے تھے… صبح فجر کے وقت دونوں کاریگر اپنے کام سے فارغ ہو کر چلے گئے… اگلے تین گھنٹوں میں ماسٹر صاحبان بھی چلے گئے… آخری مراحل میں دونوں نے سلائیاں چیک کیں… سائز کو ناپا… انہیں استری کیا اور پیک کر دیا…
جمال’ افق کو لے کر گھر چلا گیا… بارہ بجے بیگم اپنے ڈرائیور کے ساتھ آ کر سائز اور کام چیک کر کے لے گئیں… بیگم وہی قیمت دے گئی تھیں’ جو مسز گوہر نے مانگی تھی… انہوں نے ایمرجنسی کام کیا تھا… مسز گوہر نے ڈبل قیمت مانگی تھی… وہ ڈبل ہی دے گئی تھیں…
“بس بچے ہیں نا… جو چیز دیکھ لیتے ہیں’ وہی مانگتے
ہیں… میں کل ہی اٹلی سے آئی تھی… خریداری کرنے نکلی تو ایک ہی فراک بیٹی کو پسند آ گئی اور وہی بھانجی
کو……. میری سسٹر نے کہا کہ اب باقی سب بھی ایسی ہی مانگیں گی… میرے لیے تو بہت مشکل ہو جاتا……. پھر اتنا روتی ہیں نا یہ سب….”
یہ ان کا پہلا آرڈر تھا’ جسے انہوں نے راتوں رات مکمل کیا تھا… مسز گوہر کا خیال تھا کہ شاید انہیں ایسا کچھ فائدہ نہیں ہوا… الٹا کاریگروں کو چھٹی دینی پڑی اور اب اگلے آرڈر لیٹ ہو جائیں گے…
دو دن وہ اسی پچھتاوے میں رہیں… افق سے بھی ذکر
کیا… وہ شرمندہ ہوئی کہ شاید اسی کے مشورے کی وجہ سے یہ سب ہوا ہے… لیکن ایسا ہوا کہ کچھ اچھا نہیں ہوا… بلکہ بہت اچھا ہو گیا… وہی بیگم ایک ہفتے بعد اپنی بہن کے ساتھ ان کے پاس موجود تھیں… دو ماہ بعد ان کی بہن کے دیور کی شادی تھی برطانیہ میں… بہن بھی وہیں کی رہنے والی تھیں…بہن نے اپنی دو بیٹیوں’ نند کی تین’ جیٹھ کی ایک بیٹی کا سائز لکھوا دیا… رنگ اور ڈیزائن نوٹ کروا
دیے… لہنگے’ چولی’ انارکلی’ چوڑی دار’ گھیردار شلوار وغیرہ… انہوں نے الگ الگ سب کے لیے تفصیلات بتا دیں… چار فنکشنوں کے لیے چھ بچیوں کے کپڑوں کا آرڈر مل گیا… بجٹ وہ بتا گئیں اور اچھا خاصا ٹھیک ٹھاک بجٹ تھا وہ… صرف اپنی ہی بیٹی کے لیے بارات کی انارکلی فراک وہ چالیس ہزار کی بنوا رہی تھیں… آرڈر تیار کرنے کے لیے ان کے پاس ایک ماہ تھا… وہ آرام سے بنا سکتے تھے… کاریگروں کے ساتھ مسز گوہر کا بونس کا وعدہ تھا… اس آرڈر پر انہوں نے ہر کاریگر کو بونس دیا…
چند ڈیزائن جو وہ منتخب کر گئی تھیں… ان میں سے ایک شرارے کا ڈیزائن تھا’ جو افق کا تیار کیا گیا تھا… شرارہ بہت ہلکا پھلکا سا تھا… فیروزی رنگ کا شرارہ تھا اور ہلکے گلابی رنگ کی کُرتی تھی… کُرتی پر سفید اسٹونز کا چھن تھا… دوپٹا فیروزی اور گلابی رنگ کا تھا اور اس پر بھی سفید اسٹونز کا چھن تھا…
پندرہ دن میں انہوں نے اپنے کام کے دوران ان کا آرڈر بھی تیار کر دیا… اپنا پہلا فارن آرڈر… سارا سامان برطانیہ بھجوا دیا…
شپ منٹ وصول کرتے ہی انہوں نے تین اور بچیوں کے سائز نوٹ کروائے… ایک ہفتے بعد چھ اور بچیوں کے……. مسز گوہر تین سال سے بارہ’ تیرہ سال کی بچیوں کے کپڑے بناتی تھیں… لیکن پرزور درخواست کے ساتھ انہوں نے چھ ماہ’ نو ماہ’ ڈیڑھ سال’ ڈھائی سال کی بچیوں کے لیے بھی کپڑے بنوا لیے… انہوں نے شاید شادی میں شرکت کرنے والے ہر خاندان میں موجود ہر بچی کا سائز انہیں لکھوا دیا تھا… اسی آرڈر سے منسلک ان سے تین’ چار مختلف لڑکیاں فون پر گاہے بگاہے بات کرتی اور بتاتی رہتیں کہ انہیں کس طرح کے کپڑرے چاہئیں… ان کا پہلا فارن آرڈر جس سے انہیں ایک بڑا منافع ملا… برطانیہ جیسے ملک میں جہاں شادی بیاہ کے روایتی کپڑوں کی خریداری مشکل کام ہے اور چھوٹی بچیوں کی تو بہت ہی مشکل ہے… اس میں ان کے ہاتھ ایک لوکل ڈیزائنر آ گئی جو کہ ان کے نزدیک بہت مناسب قیمت پر اچھے کپڑے بنا کر دے دیتی تھیں…
اس آرڈر کو تیار کرنے میں انہیں ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ اب آئے دن انہیں وہاں سے فون کالز آنے لگیں اور وہاں سے گاہے لگائے آرڈرز ملنے لگے… وہ ایک دوسرے کا ریفرنس دے دے کر کہتیں کہ انہیں فلاں نے ان کا نمبر دیا ہے’ فلاں نے دیا
ہے… ایک سے دو اور دو سے کئی دوسرے کسٹمرز انہیں آرڈر دینے لگے…
……… ……………… ………
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...