آج پھر پورے چاند کی رات ہے۔
کچے بادام اور خوبانیوں کی خوشبو ہر طرف پھیلی ہوئی ہے۔ پہاڑ پر پھیلے ہوئے لمبے چوڑے درختوں کے سبھی پتے گر چکے ہیں اور وہ برف کے خوف سے خود بخود سہمے سہمے سے کھڑے ہیں۔ کسی کسی درخت کا آخری پتہ ابھی تک اس کی ڈال پر کپکپا رہا ہے۔ زندگی کے راستوں کی طرح یہ پہاڑی ٹیڑھے میڑھے راستے بھی بے حد دشوار گزار ہیں۔ پتا نہیں لوگ اتنا کیسے ہنس لیتے ہیں۔ میں نے پاس بیٹھے ہوئے ان دونوں لڑکوں کو دیکھا جو کئی بار مجھ سے بات کرنے کی کوشش کر چکے تھے اور اب ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر کسی بات پر بے تحاشہ ہنس رہے تھے۔ میں نے بے دھیانی میں ان کا چہرہ دیکھا پھر جیسے آنکھوں میں دھند سی سمانے لگی سب کچھ دور محسوس ہونے لگا۔ زندگی بہہ رہی ہے بہتی جا رہی ہے ڈَل جھیل کی لہریں ایک دوسرے سے سرگوشیاں کرتی آگے بڑھ جاتی ہیں۔ پانی پر ٹھہرے بلبلے ایک پل میں بکھر جاتے ہیں۔ پرانی زندگیاں ختم ہو جاتی ہیں ایک لہر مرتی ہے دوسری سامنے آتی ہے۔ پیلی سرسوں کے پیلے پھول جب میں اس کے بالوں میں سجا کر اسے گھما دیتا تھا دیکھ دیکھ کتنی پیاری لگتی ہے جیسے سرسوں کا کھیت…یا پیلی پیلی سرسوں، اور وہ وقت گزر گیا۔ وہ وقت گزرا نہیں بلکہ مرگیا… سارے لمحے مر گئے، بچپن مرگیا، بے فکری زندہ دلی مر گئی، وہ پھول وہ بال سب ختم ہو گئے۔
پھر دوسرا وقت آیا وہ محبتیں وہ شرم وہ ایک دوسرے کو دیکھ کر دل میں اٹھتی لہریں، وہ سارے سمندر سوکھ گئے، وہ سارا وقت جو مرگیا۔ پرانی زندگی ختم ہوتی ہے نئی زندگی سامنے آتی ہے۔ نئے حالات سخت چٹیل دھول بھرے میدان جیسے حالات۔ میں …وہ سب جو آس پاس چل پھر رہے ہیں کیا وہ زندہ ہیں …بس صرف آج زندہ ہے …آج جس میں اپنا کچھ نہیں ہے۔ بس ایسا ہی ہے۔ اسی آج سے سب کو جوجھنا ہے۔ سامنے بہتے ہوئے پانی کو دیکھ رہا ہوں پانی کے بلبلوں میں میری زندگی کے میری خوشیوں کے سارے دن چمکتے ہیں …وہ دن جب وہ میرے ساتھ تھی، وہ دمکتے دن، وہ روشن راتیں اس کی خوشبو، اس کا لمس، اس کا احساس سب کچھ چھوڑ کر میں چلا گیا…اساکیلے پن میں کوئی نہیں جو مجھے میرے کاندھے پر سر رکھ کر چھوٹے چھوٹے قصے سنائے جو ہاتھوں کے پیالے میں اپنا چہرہ رکھ کر میری باتیں دھیان سے سنے، میرا دل بہلانے کے لئے تاش اٹھا لائے، دیر تک میرے ساتھ رمی کی بازیاں کھیلے اور میں جان جان کر ہارتا جاؤں، اس کا چہرہ جیت کی خوشی سے دمکنے لگے۔
دل کی نازک شاخ یادوں کے بوجھ سے جھکتی جاتی ہے۔ ننھی سی نجو…ہر طرف نظر آتی ہے۔ نام تو اس کا نجم السحر تھا مگر میں تو اسے ہزاروں ناموں سے بلاتا تھا نجّو…نجّی…نجمی اور بھی کئی نام رکھے تھے میں نے اس کے۔
جب اس کی امی کا انتقال ہوا تو وہ بے حد بیمار تھی۔ تیز بخار سے چہرہ تپ رہا تھا۔ پڑوس میں گھر ہونے کی وجہ سے اس کے پاپا اسے سوتا ہوا کندھے سے لگائے میرے گھر لے کر آئے تھے۔ روتے روتے ان کی آنکھیں سرخ تھیں۔ انہوں نے بخار میں تپتی نجم السحرکو ممی کے پاس لٹاتے ہوئے کہا تھا :
’’گھر پر بہت کہرام ہے۔ پلیز اس کا خیال رکھئے گا۔ ‘‘اور ممی نے اسے اپنے آنچل میں لے لیا تھا۔ جب اسے سوتا دیکھ کر ممی اُس کے گھر کی طرف چلی گئیں تو میں اس کی چار پائی کے ارد گرد گھومتا رہا اس کا بخار سے تپتا چہرہ میرے اندر آگ برسا رہا تھا۔ پھر اس نے آنکھیں کھول دیں۔
آنکھیں کھول کر مجھے دیکھا اور تڑپ کر اٹھ گئی…
’’وجّو میری اماں ……‘‘
’’کیوں کیا ہوا آنٹی کو وہ تو ٹھیک ہیں ‘‘ میں نے اس کے بال سہلائے۔
’’تم لیٹ جاؤ۔ ‘‘
اس نے سکون سے آنکھیں بند کر لیں میں اس کے ماتھے پر پسینے کی بوندیں اپنے دامن سے صاف کرتا رہا۔ اس کے بالوں کو سمیٹتا رہا اس کے دکھوں کو اپنے ننھے سے ذہن میں سمیٹتا رہا۔
زندگی باہیں پھیلائے ہمیں بُلا رہی تھی ہم زندگی کو قریب سے دیکھتے دیکھتے ایک دوسرے کے قریب آ گئے۔ جیسے ان پہاڑوں کے سلسلے ایک دوسرے کو چھوتے ہوئے مگر صاف شفاف سفید اور پاکیزہ جیسے ہمارے جذبے۔
وقت بہت آگے بڑھ آیا ہے اور وہ…کب کی بچھڑ چکی ہے۔ میں خود ہی اس پیارے چمکتے ہوئے پہاڑی سلسلوں کو چھوڑ کر انسانوں کے جنگلوں میں بھٹکنے نکل آیا ہوں۔ پتہ نہیں کیسی جستجو ہے کیسی کھوج ہے کہ قرار نہیں۔ نہ جانے کتنے پڑاؤ سامنے آئے کتنی محبتوں نے راستہ روکا مگر دل میں اک پھانس سی کھٹکتی رہی وہ مجھے یاد کرتی ہو گی، روتی ہو گی، انتظار کرتی ہو گی، اس کی یادوں کی کچی کلیاں ہر شب تکیہ کے پاس رکھ کر سوتا رہا اسی کے خواب دیکھتا رہا……
معاشرے میں اپنا مقام بنانا بھی کوئی آسان بات نہیں ہے۔ نجمی کو اچھا مستقبل دینے کے لئے یہ تو کرنا ہی تھا…
زندگی کو حقیقتوں کی نظر سے دیکھنا تھا۔
ہمیشہ یہی سمجھتا رہا کہ وقت میرے ہاتھ میں ہے۔
مگر جب دس برس بعد واپس آیا تو…سرسوں کے پھول سوکھ چکے تھے، مر چکے تھے، اس کی شادی اپنے خالا زاد بھائی سے ہو گئی تھی۔ اس ان دیکھے شخص سے مجھے شدید نفرت محسوس ہوئی اور یہ شکوہ بھی لبوں پر خود ہی آ گیا۔
’’تھوڑا انتظار تو کیا ہوتا……‘‘
پھر خود ہی جواب دے لیا۔
میں نے انتظار یا اعتبار کا ایک بھی پھول تو اس کی جھولی میں نہیں ڈالا تھا۔ ہر طرف اس کی یادیں بکھری تھیں۔ تمام جھیلوں کا پانی شل شل بہہ رہا تھا وہاں پر اس کی سسکی کی آواز سنی میں نے …لمبے چوڑے چیڑ کے سفید درخت کے تنے پر چاقو سے کھدے ہوئے دو نام…نجّو، وجّو…وہ اسی درخت سے ٹیک لگائے اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپائے روتی روتی نظر آئی مجھے …وہ میرے جاتے وقت دوڑ کر پیچھے نہیں آئی۔ اسے اپنا وقار اپنی عزت میری دربدری سے زیادہ عزیز تھی۔ وہیں پیڑ سے لپٹی روتی رہی وہ چیڑ کا سفید درخت…
آج کٹ چکا تھا……
اس کی جڑوں کے پاس کی مٹی گیلی تھی جیسے اس کے آنسو اب تک نہ سوکھے ہوں۔ میں زمین پر بیٹھ گیا ہوں۔ کہیں سے آ کر مجھے گلے لگا لو۔ میرے آنسو سوکھ چکے ہیں میں پتھر کا ہوتا جا رہا ہوں، سینے میں سخت درد محسوس ہو رہا ہے …
یہ مندر والی پہاڑی کے نیچے اتنا مجمع کیوں ہے …؟
یہ تو شایدماسٹر جی کا گھر ہے میں جلدی جلدی نیچے اترنے لگتا ہوں …دروازے پر کافی بھیڑ ہے …
’’کیا بات ہے صاحب…؟‘‘
میں نے ایک بزرگ سے پوچھا…وہ مڑے …
’’وہ ماسٹر جی تھے ‘‘
ان کی آنکھوں میں حسرتوں کے آئینے ٹوٹ رہے تھے …آنکھیں آنسوؤں سے لبالب بھری تھیں …
’’اب آئے ہو بیٹا…‘‘
انھوں نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا…
’’نجم السحر بٹیا ختم ہو گئیں …‘‘
دھڑ دھڑ میرے اندر اک الاؤ سا جلنے لگتا ہے۔ دروازے پر ایک چار سال کی بچی ایک صاحب کے پیروں سے لپٹی کھڑی سسک رہی ہے
’’ابو…امی کو کیا ہو گیا…‘‘
دکھوں سے نڈھال وہ شخص دیوار سے ٹیک لگائے کھڑا تھا۔ پانچ سال کی نجم السحر مجھ سے پوچھ رہی ہے …
’’میری امی کو کیا ہو گیا وجّو………؟‘‘
میں اس چھوٹی سی بچی کو گود میں اٹھا لیتا ہوں وہ حیرت سے مجھے دیکھ رہی ہے …اور تب آنسو کو راستہ مل جاتا ہے …اسے سینے سے لگا کر میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتا ہوں۔
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...