میں پاپا وغیرہ کو چھوڑ کر آفس چلا جاؤں گا وہ شیشے کے سامنے کھڑا ٹائی ٹھیک کرنے میں مصروف تھا شیشے میں اس کا عکس دیکھتے ہوئے بولا –
اور ہاں لانچ میرا بھی تیار رکھنا آج میں گھر آ کر کرؤں گا –
اب چلو ملکہ عالیہ سب ناشتہ پر ہمارا انتظار کر رہے ہوں گے –
وہ اس وقت براؤن تھری پیس میں ملبوس تھا –
ہوں حکم کیسے چلا رہا ہے مجھے پر
وہ اس کے سامنے بیڈ کے قریب آتے ہوئے بولا –
آپ ہر روز کی طرح آج بھی اس سادہ سے کاٹن کے سوٹ میں ملبوس بہت پیاری لگ رہی ہیں وہ اسے دیکھتے ہوئے بولا –
ایمان نے غصے سے اسے گھورا –
یہ غصہ بعد میں کر لینا اب چلیں پاپا انتظار کر رہے ہوں گے –
ہوں چلو وہ بیڈ سے اٹھتے ہوئے غصے سے بولی –
السلام علیکم پاپا وہ دونوں چیئر کھنچ کر ڈائننگ ٹیبل کے سامنے بیٹھتے ہوئے بولے –
وعلیکم السلام بھئی کیسے ہو آپ دونوں
ٹھیک پاپا وہ مسکراتے ہوئے بولا –
چلو ناشتہ کرؤ سکندر پھر ائیرپورٹ پر بھی تم نے چھوڑنے جانا ہے –
“جی پاپا ”
***************
ٹھیک ہے بیٹا اب ہم چلتے ہیں کچھ دنوں تک آ جائیں گے تم دونوں اپنا خیال رکھنا –
اس وقت سب گیٹ کے پاس موجود تھے
ماما آپ ہماری فکر نہ کریں ہم اپنا خیال رکھ لیں گے وہ مسکراتے ہوئے ایمان کو دیکھتے ہوئے بولا لیکن ایمان نے اسے نظر انداز کرتے ہوئے اپنے نظروں کا رخ دوسری طرف کرلیا –
“بھابی جس دن بھائی کوئی جھگڑا کریں آپ نے مجھے کال کرنی ہے وہ ایمان کے گلے ملتے ہوئے بولی ایمان مسکرا دی ”
بھئی فاطمہ میرے بچے کیوں جھگڑا کریں گے ماشاءاللہ سے دونوں بہت اچھے ہیں -وہ پیار سے دونوں کو دیکھتے ہوئے بولیں –
“وہی تو ماما پتہ نہیں آپ کی بیٹی کو ایسا کیوں لگتا ہے وہ ناراض سے لہجے میں بولا ”
بھائی میں تو اپنی بھابی سے مذاق کر رہی تھی وہ مسکراتی ہوئی بولی –
اچھا اب آ پ کار میں بیٹھ جائیں فلائٹ کا ٹائم ہونے والا ہے وہ کار کے لاک کو کھولتا ہوا بولا –
ٹھیک ہے ایمان بیٹا خداحافظ وہ ایمان کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولے –
” خداحافظ پاپا ”
بشیر چاچا گیٹ کھول دیں وہ کار چلاتے ہوئے چوکیدار کو بولا –
***********
ہر چیز کمرے میں بکھری پڑی ہے آج تو صفائی کرنی پڑے گئی میرے خیال میں بیڈ شیٹ بھی تبدیل کر دؤں یہ تو میلی لگ رہی ہے –
بیڈ شیٹ تو ہو گئی ہے تبدیل اب ٹھیک لگ رہی ہے –
سکندر شاہ کو تو بالکل تمیز نہیں یہ گیلا تولیہ صوفے پر ہی ڈال کر ہی چلا گیا وہ کمرے کی صفائی کرتے ہوئے ساتھ ساتھ خود کلامی کر رہی تھی –
ہوں یہ تو وہی ڈائری لگ رہی ہے جو وہ اکثر رات کو بیٹھ کر لکھ رہا ہوتا ہے-
دیکھو تو سہی کیا لکھتا رہتا ہے رائٹنگ ٹیبل کی صفائی کرتے ہوئے اس کی نظر ڈائری پر پڑی جو آج باہر رہے گئی تھی –
سکندر شاہ ” پیاری ڈائری ”
پیاری ڈائری تو کیسے لکھ رکھا ہے چلو آگے پڑھتی ہوں اس میں یہ بھی لکھا ہو گا کتنی لڑکیوں کو آج تک بیوقوف بناتا رہا ہے چلو آج تو ثبوت بھی مل گیا آج اس کو بتاؤ دؤں گئی بہت شریف بنتا ہے ناں –
کتنی بورنگ ہے آج کالج میں یہ کیا وہ کیا پاپا کے ساتھ گھومنے گئے یہاں تو کچھ بھی خاص نہیں لکھا ہوا ہے –
چلو آگے دیکھتی ہوں یونیورسٹی کے دنوں کی شاید وہاں کچھ ایسا مل جائے اور سکندر کی اصلیت سامنے آ جائے
ایمان سکندر کی ڈائری لے کر رائٹنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھ کر پڑھنے لگی –
***********
جیسے جیسے وہ ڈائری پڑھتی گئی اس پر انکشاف ہوتا گیا ہے وہ واحد ہی لڑکی ہے جس سے سکندر شاہ صرف محبت کرتا ہے اسے تو یہ جان کر بھی حیرانگی ہوئی کہ وہ بھی نہیں جانتا تھا کہ اس کی شادی اس لڑکی سے ہو رہی ہے جس سے وہ محبت کرتا تھا –
اس کا مطلب ہے آج تک میں نے اس کے ساتھ جو کچھ کیا غلط کیا وہ تو صرف مجھ سے سچی محبت کرتا ہے میں تو آج تک اس کی محبت کے جواب میں ہمیشہ نفرت کرتی آئی ہوں ہمیشہ اپنی باتوں سے میں نے اس تکلیف پہنچائی ہے میں کتنی بری ہوں اتنی محبت کرنے والے شوہر سے نفرت کرتی آئی ہوں –
میں نے آج تک اس کا کوئی کام ٹھیک سے نہیں کیا کوئی کام کہتا تھا بھی تو غلط کر دیتی تھی –
مجھے سے اللہ میاں بھی ناراض ہوں گئے میں اتنے اچھے شوہر سے ہمیشہ برا سلوک کرتی آئی ہوں -ڈائری پڑھ کر اسے افسوس ہو رہا تھا –
اس نے جو کچھ کیا سکندر کے ساتھ وہ غلط کیا کیونکہ اس میں اس کی کوئی غلطی نہیں تھی –
” اب میں کیا کرؤں ”
“ہاں میں سکندر سے معافی مانگ لوں گئی وہ ضرور معاف کر دے گا پھر اللہ میاں بھی مجھے معاف کر دیں گے ”
اف لیکن معافی کیسے مانگو گئی وہ کیا سوچے گا کہ اب ایسا کیا ہوا ہے جو مجھے اس کی محبت پر یقین آ گیا ہے –
فائزہ سے بات کرتی ہوں لیکن نہیں وہ میرے بار میں کیا سوچے گئی کہ جب میں بتاؤں گئی کہ میں نے سکندر شاہ کو ابھی تک شوہر تسلیم نہیں کیا –
یوں کرتی ہوں آج سکندر کی پسند کا لانچ تیار کرتی ہوں دیکھتی ہوں وہ کیا کہتا ہے پھر –
***************
منیجر صاحب یہ لیں فائل ان سب پر میں نے سائن کردیا ہے –
اور تو کوئی کام نہیں ہے نا ؟
” نہیں سر”
سکندر اس وقت آفس میں بیٹھا ہوا منیجر سے بات کر رہا تھا –
ٹھیک ہے میں چلتا ہوں پھر وہ گھڑی پر ٹائم دیکھتے ہوئے بولا اب کل بات ہوتی ہے کوئی کام ہو تو مجھے کال کر دینا –
“اوکے سر ”
وہ کار میں بیٹھ رہا تھا کہ ایک بچہ پاس آتے ہوئے بولا –
صاحب جی یہ پھولوں کے ہار تو لے لیں صرف بیس روپے میں ہیں –
کچھ سوچتے ہوئے اس نے بچے کو پانچ سو روپے کا نوٹ دے دیا یہ سب مجھے ہی دے دؤ –
وہ لینا تو نہیں چاہتا تھا لیکن بچے کو دیکھ کر اس نے خرید لیے تھے –
یہ لیں صاحب لیکن میرے پاس کھولے پیسے نہیں ہے –
کوئی بات نہیں آپ رکھ لو وہ اس بچے سے پیار سے بولا –
شکریہ صاحب بچہ خوشی سے وہاں سے جاتے ہوئے بولا –
*************
ایک مہینہ تو گزر گیا ہے جنید کو گئے ہوئے کب آرہا ہے –
منیجر سے میری بات ہوئی تھی آج صبح بس دو دن تک وہاں کام ختم ہو جائے گا پھر آ جائیں گے –
آپ کو اپنے بیٹے کی آج یاد کیسے آ گئی وہ ان کو دیکھتے ہوئے بولے تھے –
میرا بیٹا ہے کیا میں اب اسے یاد بھی نہیں کر سکتی –
نہیں کرؤ مجھے تو خوشی ہوئی کہ آج آپ کو اپنے بیٹے کا خیال آگیا –
کاش کے آپ بچپن میں اس کا خیال کرتیں اور اس کی پرورش خود کرتیں تو آج وہ اتنا لاپرواہ نہ ہوتا وہ افسردہ لہجے میں بولے –
لندن میں گئے ہوئے اس کو مہینہ ہو گیا ہے اس نے صرف دو مرتبہ کال کی آپ کو پتہ ہے وہ کیوں دور ہے آپ سے ؟
ہاں میں جانتی ہوں آج میں تسلیم کرتی ہوں میری ہی غلطی ہے میں نے آج تک کبھی اسے وقت نہیں دیا وہ شکست خور لہجے میں بولیں آج ان کو احساس ہو رہا تھا کہ بچوں کو وقت دینا ضرور ہوتا ہے ورنہ وہ بگڑ جاتے ہیں –
وہ دونوں اس وقت لاؤنج میں بیٹھے ہوئے تھے –
یوسف آفندی کی بیٹی کی تو شادی ہو گئی ہے نا میں نے سننا ہے-
جی ہو گئی ہے جنید جو باز نہیں آ رہا تھا اس لیے ان لوگوں کو کرنی پڑی ہے-
وہ اخبار کو رکھتے ہوئے بولے میں نے جنید کو بھی اس لیے لندن بھیج دیا تھا تاکہ وہ شادی میں رکاوٹ نہ بنے-
یعنی اس کا مطلب آپ پہلے سے جانتے تھے وہ حیرانگی سے بولیں –
” جی ”
آپ نے یہ سوچا ہے جب وہ واپس آئے گا تو اسے پتہ جب چلا تو وہ کچھ بھی کر سکتا ہے آپ جانتے ہیں اپنے بیٹے کو-
وہ کچھ نہیں کر سکتا کیونکہ اس کی شادی ہو گئی کچھ کیا بھی تو میں دیکھ لوں گا وہ کچھ سوچتے ہوئے بولے –
**********
بیگم صاحبہ سامنے تو نظر نہیں آ رہی ہیں روم میں ہوں گئی –
لاؤنج میں بھی نہیں ہے کہاں ہو سکتی ہے کیا پتہ کچن میں ہو وہاں بھی دیکھ لیتا ہوں –
اس وقت سکندر کے ہاتھ میں کوٹ تھا اور وہ ایمان کو ڈھونڈتا پھر رہا تھا –
ہوں یہ خوشبو تو بریانی کی ہے یعنی آج لانچ بھی تیار ہے وہ بھی میری پسند کا حیرانگی ہے –
پھر روم میں ہو گئی –
وہ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اس کے بارے میں سوچ رہا تھا –
وہ دستک دے کر روم میں داخل ہوا تھا
سامنے تو نہیں ہے پانی گرنے کی آواز آرہی ہے مطلب نہا رہی ہے –
ہوں میرا لانچ جو آج تیار کرنا تھا گرمی لگ گئی وہ اس کے بارے میں سوچ کر مسکراتے ہوئے شوز اتار کر ٹائی ڈھیلی کرتے ہوئے بیڈ پر لیٹ گیا –
صوفے پر سو نے کی جو عادت ہو گئی ہے آج تو بیڈ پر سونا عجیب لگ رہا ہے لیکن اچھا لگ رہا صوفے پر سو کر تو گردن کے درد کا مریض بن گیا ہوں پتہ نہیں اس محبت کے لیے اور کیا کرنا پڑے گا –
***********
پتہ نہیں یہ کب آیا ہو گا سکون سے سویا ہوا ہے –
ہاں بیچارہ اتنے دونوں بعد بیڈ پر سو رہا ہے نیند تو آنی تھی پتہ نہیں صوفے پر ٹھیک نیند آتی ہو گئی بھی نہیں –
آج اسے سکندر کی فکر ہو رہی تھی
میری خاطر کہ میں بے سکون نا ہو جاؤں صوفے پر سو کر اس لیے خود صوفے پر سوتا رہا میں کتنی پاگل ہوں اللہ میاں نے اتنا خیال کرنے والا اور پیار کرنا والا شوہر دیا ہے میں نے اس کی قدر نہیں کی –
آج اسے اپنی غلطی کا بھی احساس ہو رہا تھا –
واش روم سے نہا کر بالوں پر تولیہ لپیٹے ہوئے وہ باہر نکلی تو اس کی نظر سکندر پر پڑی جو اس وقت سو رہا تھا –
سوتے وقت یہ کتنا مصوم سا لگ رہا ہے
فائزہ ٹھیک کہتی ہے کہ سکندر بہت ہینڈسم ہے وہ بیڈ کے قریب کھڑی اس کو غور سے دیکھنے میں مصروف تھی –
************
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...