سمیرا نقوی(فیصل آباد)
وہ خاموشی سے پُل پر آ کر بیٹھ گیا۔۔۔ پکی ہوئی گندم کی باس اُس کی سانسوں میں تحلیل ہو رہی تھی۔۔۔ چند روز، فقط چند روز اور پھر گندم کٹ جائے گی اور اُس کا سنہراپن زمین پر باقی رہ جائے گا۔ اُس نے نظر بھر کر سر اُٹھاتی سونے جیسی گندم کی بالیوں کو دیکھا جو دانوں کے بوجھ سے دُہری ہو رہی تھیں۔
فضا خاموشی کا سرنامہ تحریر کر رہی تھی۔ اُس سے چند قدم کے فاصلے پہ چلتا ٹیوب ویل بھی جب اچانک بند ہو گیا تو ایک پل کو اُسے اپنی سانسوں کی آواز بھی بوجھ محسوس ہونے لگی۔ بلندپروازوں سے تھکے پرندے اُس کے سر کے قریب سے بغیر شور کیے گزر گئے۔
سورج چوری چوری درختوں کے پیچھے جا چھپا تھا۔۔۔ مگر روشنی ابھی باقی تھی۔ شام ڈھلی نہیں تھی پر ڈھلنے والی تھی۔۔۔ یہی وقتِ مقرر تھا۔۔۔ اب تک اُنھیں آ جانا چاہیے۔۔۔ یہ سوچ کر اُس نے اپنا رُخ گاؤں سے آنے والے رستے کی طرف پھیر لیا۔۔۔ کسی بھی چہرے پہ جب اُسے شناسائی کی جھلک دِکھائی نہ دی تو وہ اُکتا کر اُٹھ کھڑا ہوا۔
پُل سے ٹیوب ویل تک راستے میں آنے والے درخت گننے لگا۔ کہنہ سال شجر جن پہ بہار میں بھی روئیدگی نہ ہونے کے برابر ہوتی تھی۔ اِن بوڑھے درختوں کے ہر تنے کی چھال چوکور کٹی ہوتی تھی اور کالے رنگ سے اُن پر نمبر تحریر تھے، جیسے جیل میں قیدیوں کے لباس پر ہوتے ہیں 915-436۔جب چار چکر کاٹ لینے پر وہ درختوں کی گنتی بار بار بھولنے لگا تو تھک کر بیٹھ گیا۔ اب اُس نے آنکھیں موند لیں اور انتظار کے لیے سماعتوں کو بیدار کر دیا۔
دُور دُور تک کوئی چاپ نہیں تھی۔ وہ کچھ دیر یونہی آنکھیں بند کیے بیٹھا رہا۔ پاس سے کوئی سائیکل سوار گزرا تو اُس کی شکستہ سائیکل کی کھڑ،کھڑنے اُس کی آنکھیں کھول دیں۔ ایک بار پھر اُس نے بڑی آس سے اُس رستے کو دیکھا جہاں سے وہ آنے والے تھے۔ ہر چہرے کو دیکھ کر اب وہ التباس کا شکارہو رہا تھا۔
اُفق پر سرخی سی گھل گئی تھی، پھر اِسی سرخی کو دھیرے دھیرے اندھیرے نے نگل لیا۔ اِکا دُکا آنے والے کسانوں کی آمدورفت بھی ختم ہو گئی۔ اب پیڈل پر پیڈل مارتے سائیکل سوار تھے جو قریبی شہر سے محنت مزدوری کر کے لوٹ رہے تھے یا پھر خاموش ہوا تھی اور پتوں کے اشارے تھے۔
’’وہ آج بھی نہیں آئے۔۔۔‘‘
وہ آس کا دَر بند نہیں کرنا چاہتا تھا پر جب دُور اُفق پر ایک ستارہ ٹمٹمایا تو اِس کے انتظار نے بھی پر سمیٹ لیے۔
mmm
وہ تعداد میں چار تھے، مگر اُن کے دِل ایک ہی لے میں دھڑکتے تھے۔ ذات پات، برادری کے دائروں میں سمٹے اِس گاؤں میں وہ یک جہتی کی انوکھی مثال تھے۔ اگر ایک چھٹی کرتا تو باقیوں کے بستے بھی سرہانے دھرے رہتے۔۔۔ ماں کا پیار اور باپ کی ڈانٹ بھی اُنھیں سکول جانے پر راضی نہ کر پاتی۔
پھر جیسے ہی سکول کا وقت بیت جاتا تو وہ چاروں گاؤں کی چاروں سمتوں کو ایک کر دیتے۔۔۔ نہر کے پانیوں سے لے کر امرودوں کے باغ تک۔۔۔ وہ کوئی جگہ نہ چھوڑتے۔ جہاں اُن کے چھوٹے چھوٹے پاؤں پیوست نہ ہوتے۔ کچھ بچے شرارتیں پالنوں میں چھوڑ دیتے ہیں اور کچھ بستوں میں ساتھ لیے پھرتے ہیں۔
سکول کی چاردیواری نے کئی سال تک اِن کی شرارتوں کے قصے محفوظ رکھے اور آنے والوں کو سنائے۔ پرائمری پاس کر کے وہ تحصیل کے ہائی سکول میں داخل ہو گئے۔ اب زندگی تھوڑی سی بدل گئی۔ سارا دِن کھیتوں کو پھلانگتے اِن بچوں کے لیے دو میل کا فاصلہ زیادہ تو نہ تھا۔ پر اب اُنھیں صبح سویرے اُٹھنا پڑتا، جب روشنیاں دُھند میں راستہ تلاش کر رہی ہوتیں تب وہ چاروں پل پر اکٹھے ہو کر ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے سکول جاتے۔
ایک ہی سکول، ایک ہی بنچ، قربتیں خون کے ساتھ پروان چڑھنے لگیں۔ مڈل کا امتحان پاس کر کے وہ ہائی سکول چلے گئے۔،پہ شرارتیں نہ گئیں، راستے کے سارے درخت اور سنگ ریزے اُن سے پناہ مانگتے۔ نہر کا پانی اُن کی تختیوں کی اُتری ہوئی سیاہیوں سے گدلا رہنے لگا تھا، جب سے ہائی سکول گئے تھے۔ تختیاں اُٹھانے کی مشقت ختم ہو گئی تھی۔
صبح کے وقت وہ سکول جانے والے رستے کے تنہا مسافر تھے۔ واپسی پر تو کافی لوگ اُن کے ساتھ مِل جاتے۔۔۔ پہ وہ چاروں تو خود ہی قافلہ تھے۔ آگے پیچھے چلتے، خود ہی ایک دوسرے کے رہبر تھے۔ اِس ترتیب میں فرق تب آیا جب روز پو پھٹے اُن سے پہلے اپنی ماں کے ساتھ ایک لڑکی پل پر کھڑی ہوتی، جیسے ہی وہ چاروں پُل کے قریب پہنچتے ماں بیٹی کو خداحافظ کہہ کر گاؤں لوٹ جاتی۔ وہ شاید گاؤں کے سکول سے مڈل پاس کر کے آئی تھی۔ وہ اُن سے دس پندرہ قدم کے فاصلے پر اُن سے آگے چلتی رہتی، وہ پیچھے۔
کچھ روز وہ اُس موضوع پر بات کرنے سے کتراتے رہے، پھر ایک دِن اُس کے منہ سے نکل گیا ’’وہ لڑکی!‘‘
بس اِتنا کہنے کی دیر تھی کہ تینوں اُس کے گرد گھیرا ڈال کے بیٹھ گئے اور سوال پر سوال پوچھنے لگے۔
’’کون ہے؟
کہاں سے آتی ہے؟
کس کی بیٹی ہے؟‘‘
اور وہ بیچارہ ایک لفظ منہ سے نکال کر پچھتا رہا تھا۔ ڈور کی طرح اُس لمحے کو واپس لپیٹنا چاہ رہا تھا، جب اُس نے کہا! ’’وہ لڑکی‘‘۔جانتا وہ بھی کچھ نہ تھا۔۔۔ وہ تو پوچھنا چاہتا تھا مگرساروں نے اُس کے گرد سوالوں کی فصیل کھڑی کر دی تو وہ چپ رہا۔۔۔آتے سمے وہ اُن سے آگے چلتی رہتی۔ وہ اُس کے پیچھے، جب سے وہ اُن کی راہ میں آن کھڑی ہوتی تھی وہ بھی سرگوشیوں میں گفتگو کرنا سیکھ گئے تھے۔ سکول سے چھٹی ہو جاتی وہ چاروں ایک دوسرے سے نظریں چراتے وہیں کھڑے رہتے۔۔۔ کوئی گھر جانے کی جلدی نہ مچاتا، جیسے طے شدہ تھا کہ گھر تاخیر سے جانا ہے۔ جونہی وہ لڑکی سکول سے نکل کر گاؤں جانے والے رستے کی طرف مڑتی وہ چاروں بھی دھیرے دھیرے گھر جانے کے لیے َپر تولنے لگتے۔
نویں جماعت کا سارا سال یونہی بیت گیا۔ وہ لڑکی چپ چاپ، پکی سڑک چھوڑ کر کچے رستے پہ جہاں خودرو گھاس اُگی ہوتی، درختوں سے لپٹی دھیرے دھیری چلتی رہتی۔ایک دِن تینوں نے اُسے اُکسایا کہ وہ اُس سے بات کرے، رسم و راہ بڑھائے۔ اُن کی بات سن کر وہ نوبیاہتا لڑکیوں کی طرح شرمانے لگا۔ وہ اُسے حوصلہ دیتے رہے ۔ پورا ہفتہ بیٹھ کر اُنھوں نے سکھایا کہ اُس نے بات کیسے شروع کرنی ہے؟
’’اندازِ گفتگو کیسا ہونا چاہیے؟‘‘
اُوپر سے تو وہ نہ، نہ کرتا رہا۔ پراندر سے وہ گفتگو کے تمام ہنر سیکھتا رہا کہ جب اُس سے گفتگو ہو تو کوئی لکنت نہ رہے۔ہفتہ کا دِن مقرر ہوا۔ تاکہ اِس پیش قدمی کا انجام اگر بُرا ہو تو گھر بیٹھ کر شرمندگی کو مٹایا جا سکے۔ سکول سے چھٹی ہو گئی۔ چاروں بستہ اُٹھائے سکول سے باہر آ کر بیٹھ گئے۔ وہ شاگرد بن گیا اور وہ تینوں اُستاد۔۔۔ جیسے ہی لڑکی گاؤں جانے والے رستے کی طرف مڑی وہ چاروں بھی اُٹھ کھڑے ہوئے۔ کچھ دیر تو وہ معمول کے مطابق چلتے رہے تاکہ آس پاس سے گزرنے والوں کو شک نہ ہو جائے، جونہی وہ سڑک پر اکیلے رہ گئے تو اُس نے اُن تینوں سے سبقت کی اور لڑکی کے برابر چلنے لگا۔
چاروں میں فاصلہ ضرور تھا مگر گردش کرتے خون کی رفتارمیں کوئی فرق نہیں تھا۔ خوف ایک، ایک خلیے میں جاگزیں تھا کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے؟۔۔۔ ہوا کچھ بھی نہ تھا۔۔۔ سوائے اُن کی حیرت میں اضافہ ہونے کے۔ نہ لڑکی نے آنکھ اُٹھا کے دیکھا۔ نہ وہ رُکی۔ وہ اُس کے برابر، اُس کے قدم سے قدم مِلا کے چلتا رہا۔اُس کے حوصلے بس یہیں تک تھے۔ حلق خشک ہو گیا اور جرأتِ گفتار دم توڑ گئی۔
اگلے کئی روز تک یہ سلسلہ اِسی طرح خاموشی سے جاری رہا۔ اُس کو لگا کہ اُس کی زندگی کا مقصد صرف اور صرف اُس سے قدم مِلا کے چلنا ہے اور بس! اِس سے زیادہ کی اُس میں طلب تھی اور نہ جرأت۔ دوستوں کے اُکسانے پر اُس نے پھر ہمت کی۔ ایک روز چلتے چلتے بولا:
’’میرا نام نیاز ہے۔ میں۔۔۔!‘‘
وہ اٹک گیا۔ ’’میں‘‘ سے آگے کے لفظ ٹوٹ گئے، وہ جوڑ جوڑتا رہا۔ اِتنے میں گاؤں کے درودیوار نظرآنے لگے۔ وہ خاموشی سے آگے بڑھ گیا۔ پر ایک فیصلہ کر کے بڑھا کہ کل آریا پار۔ کل وہ سب کہہ دے گا جو وہ اِتنے دِن سے کہنا چاہتا ہے۔ نئے سرے سے لفظ ترتیب دیئے گئے۔ پر جب گفتگو کی باری آئی اُس کے وجود میں زلزلہ سا آ گیا۔ قرینے سے سجے حرفِ آرزو درہم برہم ہو گئے۔ زبان لڑکھڑا گئی۔ اُس نے سنا وہ کہہ رہا تھا۔
’’میرا نام نیاز ہے۔ دسویں جماعت میں پڑھتا ہوں اور آپ سے محبت۔۔۔‘‘یہ جملہ پورا کرنے کے لیے اُس نے پوری قوت گویائی صرف کر دی لیکن ’’محبت‘‘ پہ آ کے اُس کا سانس ٹوٹ گیا۔
اِس ادھورے جملے پہ لڑکی کے چہرے پر پہلی مرتبہ کسی تاثر کی جھلک نظر آئی اور وہ تاثر تھا حیرت کا۔۔۔ اُس کے قدم رُک گئے۔۔۔ اِس سارے عرصے میں یہ اُس کے قدموں میں پہلا تعطل تھا۔۔۔ مگر یہ تعطل اور تاثر لمحاتی تھے۔ اُس کے قدم فوراً حرکت میں آئے اور چہرے سے تاثر بھی یوں غائب ہو گیا جیسے سیاہ سلیٹ پہ سفید چاک سے لکھے حروف کو کوئی گیلے کپڑے سے صاف کر دے تو حرفوں کا ہلکا سا نقش بھی باقی نہیں رہتا۔ صاف اور سپاٹ۔جب لڑکی نے اُسی طرح چلنا شروع کر دیا تو وہ دوبارہ بولا:
’’کیا میں آپ کا نام پوچھ سکتا ہوں؟‘‘
اب نہ تو لڑکی نے سر اُٹھایا اور نہ سوال کا جواب دینے کے لیے لب کھولے وہ چادر سنبھالے اُسی طرح چلتی رہی، جیسے چلنے کے سوا اُسے کوئی کام نہیں۔ نہ کوئی منظر راہ میں اِس قابل ہے کہ وہ اُس پر نگاہ ڈالنے کی زحمت گوارا کرے۔چلتے چلتے نہر کا پُل آ گیا۔ پُل سے اُترتے ہی گاؤں نظر آنے لگتا تھا۔ فاصلہ تو کافی تھا پر لگتا یونہی تھا جیسے بالکل سامنے ہے۔ وہ ایک، دو تین کہہ کر بھاگیں گے اور اُسے ُچھو لیں گے۔
گاؤں نظر آتے ہی اُن کی ترتیب پھر بدل گئی۔ افراد کا دائرہ ختم ہو گیا۔ وہ پُل پر بیٹھ کر رواں پانی کو دیکھنے لگے۔ لڑکی خاموشی سے گزر گئی، جب درمیانی فاصلہ کافی ہو گیا تو وہ بھی بیگ اُٹھا کر چل دیئے۔ سب سے پہلے امّاں سردار بیگم کا ڈیرہ تھا۔ بڑا سا لمبا کمرہ، جس کی پچھلی دیوار ہمیشہ اُپلوں سے بھری رہتی۔ کبھی سارے گیلے ہوتے، کبھی آدھے خشک، آدھے گیلے، کمرہ کے سامنے بھینس، گائے اوربکریاں بندھی ہوتیں۔ ایک خشک سا درخت تھا جسے اُوپر سے کاٹ دیا گیا تھا۔ اُسی کی تین موٹی شاخوں پر ہمیشہ سلور کے برتن اوندھے پڑے ہوتے، جن میں شام کو جاتے ہوئے امّاں اور اُس کا شوہر دُودھ بھر کر لے جاتے۔
اگلا دِن اتوار تھا۔سارا دِن وہ ڈرتے رہے۔ہر بار دروازہ کھلنے پر اُنھیں لگتا کہ لڑکی کی ماں آئی ہے، پھر اُن چاروں کی خیر نہیں۔ نیاز نے تو سارا دِن کمرے میں گزارا۔ اباجی کے سامنے آنے سے بھی گریز کیا۔شام ڈھلتے ہی وہ چاروں پُل پر آ کر بیٹھ گئے اور نیاز پر سوالوں کی بوچھاڑ کر دی۔وہ اُس سے بہت کچھ پوچھ رہے تھے۔ پر اُس کے پاس بتانے کے لیے کچھ نہ تھا۔ صرف ایک تاثر۔۔۔ ایک تعطل۔۔۔ وہ اُس پہ پوری کہانی کی بنیاد نہیں رکھ سکتا تھا۔ اُس نے خاموشی کو اپنا پردہ بنایا۔ یہ کہہ کر اُن کا دھیان بدل دیا کہ ’’اب آگے بتاؤ کیا کرنا ہے؟‘‘
نئی دریافت۔۔۔نیا تجربہ۔۔۔
شوق کی زمین سے پھوٹتا پہلا جذبہ۔۔۔ کوئی پاس ہوتا تو وہ سونگھتا ۔اِن کی باتوں میں وہی مہک تھی جیسی بارش کا پہلا قطرہ گرنے کے بعد زمین سے اُٹھتی ہے۔۔۔ یا پھر کچی مٹی سے بنا برتن جب بھٹی سے پک کر باہر نکلتا ہے تو اُس کے کورے وجود سے بھی ایسی ہی مہک اُٹھتی ہے۔اُس کے سوال کرنے کی دیر تھی۔ چاروں نے پھر سرجوڑ لیے۔ رنگ، رنگ کے مشورے آنے لگے۔ اطہر بولا’’کسی فلم سے ڈائیلاگ چرا ئے جائیں۔‘‘
محمود نے کہا’’کوئی گیت۔۔۔‘‘
احسن نے مشورہ دیا’’اچھے سے اشعار یاد کر لو۔‘‘
نیاز نے کہا’’اب مجھ میں گفتگو کی تاب نہیں کوئی اور ذریعہ تلاش کرو۔ پتہ نہیں وہ سنتی بھی ہے یا نہیں۔ کیونکہ وہ سرجھکائے خاموشی سے چلتی رہتی۔ اب کیا پتہ جو کہا جا رہا ہے وہ سُن بھی رہی ہے۔
’’اچھا یوں کرتے ہیں، خوبصورت اشعار لکھ لیتے ہیں۔ نہ مخاطب کا نام لکھاجائے گا اور نہ مخاطب کرنے والا کا۔‘‘ یہ احسن تھا۔
اِس کا مشورہ پسند کیا گیا۔ نیاز کی بھابھی شہر سے بیاہ کر آئی تھی۔ اُس کے پاس بہت سی علمی اور ادبی کتابوں کا ڈھیر تھا۔ وہ گھر گیا چوری چھپے دو رسالے اُٹھالایا۔ اُس میں سے اشعار کا انتخاب کیا گیا۔ نویں جماعت پاس کرنے کا ایک فائدہ ہوا تھا کہ وہ غزل، شعر اور نظم کا فرق جان گئے تھے۔ چارصفحات پر اشعار لکھے گئے۔ پرچیاں بنا کر نیاز کو دیں۔ اُس نے پڑھے بغیر جیب میں رکھ لیں۔ وہ سارے صبح سکول جانے کے عہد کے ساتھ پُل پر سے اُٹھ آئے۔رات کو جب سارے گھر والے سو گئے۔ نیاز چپکے سے اُٹھا۔ پرچیاں کھول کر پڑھنے لگا۔
کیسی محبت، کیسی چاہت ، سب کچھ ہم پر روشن تھا
یونہی ذرا سا شوق ہوا تھا آؤ! دِل برباد کریں
دوسری پرچی کھولی تو لکھا تھا:
اُس نے جب پلکوں کو جنبش دی عدمؔ
رائیگاں سب گفتگو کے فن گئے
وہ ایک، ایک کر کے پرچیاں کھولتا گیا۔ تیسری پرچی پر ایک نظم تھی:
’’آؤ اُس جہاں میں چلیں
جہاں محبت زمین ہو
محبت آسمان ہو
جو سود وزیاں کا حساب کرے
وہ شیطان ہو۔‘‘
جب آخری پرچی کانپتے ہاتھوں سے کھولی تو اُس پہ لکھا تھا۔
ہم خوشبو کے سوداگر ہیں اور سودا سچا کرتے ہیں
جو گاہک پھولوں جیسا ہو ہم بن داموں بک جاتے ہیں
اِن میں سے اکثر اشعار کے معنی سے وہ خود بھی آشنا نہیں تھے، جس میں محبت اور حسن کا ذِکر آیا ،بغیر سوچے سمجھے لکھ ڈالے۔ نیاز کے سامنے ایک نیا مسئلہ تھا۔ کل کونسی پرچی لے کر جائے۔ سوچ، سوچ کر اُس کی کن پٹی میں درد سا ہونے لگا۔ آنکھیں دُکھنے لگیں۔اُس نے ساری پرچیاں پھر تہہ کیں۔ مٹھیوں میں گھمایااور میز پر پھینکی، پھر آنکھیں بند کر کے پرچی اُٹھائی۔
کیسی محبت، کیسی چاہت۔۔۔
بقیہ تین اُٹھاکر بستے کی اندرونی جیب میں رکھ لیں اور یہ پرچی جیب میں رکھ لی۔ ساری رات خواب میں اشعار اُلٹ پلٹ ہوتے رہے۔خلافِ معمول وہ پُل پر بھی تاخیر سے پہنچا۔ اِدھر اُدھر کے قصے سناتے وہ سکول پہنچے۔ آج سب کو چھٹی کا شدت سے انتظار تھا۔ وہ اپنے نئے تجربے کا نتیجہ دیکھنا چاہتے تھے۔آج اُن کا ارادہ آگے پیچھے چلنے کا نہ تھا۔ آج وہ خاموشی سے سڑک کے سنسان ہونے کا انتظار کرتے رہے، جب سڑک پر لڑکی اکیلی رہ گئی تو وہ پرچی اُس کے پیروں میں پھینک کر آگے بڑھ گئے یہ دیکھے بغیر کہ وہ اُٹھاتی ہے یا نہیں۔
لڑکی کے پیروں سے جب پرچی ٹکرائی تو اُسے یوں لگا جیسے اُس کے پیروں میں بے جان کاغذ کا ٹکڑا نہیں بلکہ کسی کا جیتا جاگتا، سانس لیتا لمس ہے۔ سارے جسم کا خون اُس کے پیروں میں اکٹھا ہو کر شدت سے اُوپر کی طرف بہنے لگا۔ گردش کرتے خون میں چھوٹی چھوٹی پھلجھڑیاں سیُ چھوٹ رہی تھیں۔وہ ٹھہر گئی۔۔۔ ہوا،پھول، رستے اور بیلیں سب شور مچا رہے تھے کہ’’ رُکنا نہیں، اگر رُک گئی توُتو یہیں گڑ جائے گی۔‘‘ وہ دو قدم چلی۔ اُس نے زیرلب کہا’’نیاز۔۔۔‘‘ پھر پلٹ آئی۔۔۔ پلٹنے والے اپنے کب رہتے ہیں وہ تو پتھر کے ہو جاتے ہیں۔وہ پلٹ کر جھکی اور سبزگھاس میں اٹکے اُس کاغذکو اُٹھانے لگی۔ اُس کا ہاتھ کاغذ سے پہلے خشک گھاس سے ٹکرایا۔۔۔ تو گویا وہ نیند سے چونکی ماں کا آنسوؤں سے تر چہرہ۔۔۔ بندھے ہوئے ہاتھ۔ کاغذ پس منظر میں چلا گیا۔ ماں کہہ رہی تھی:
’’عورت تو اُس ظرف کی طرح ہے جسے نرم مٹی سے بھر دیا گیا ہے کیونکہ اِس میں نسلوں کا بیج بویا جاتا ہے۔‘‘
اتنا کہہ کر ماں رُک گئی۔ بیٹی کا چہرہ اپنے بوڑھے ہاتھوں میں سما کر کہنے لگی’’بیٹی سن! تن اور مَن کا برتن پاک رکھنا ورنہ نسل بھی عیب دار ہو گی۔‘‘
بڑھے ہوئے ہاتھ رُک گئے۔
پر وہ کیا کرتی؟ بیج تو بویا گیا۔۔۔
درخت سے لپٹی اَمربیل اُس کے وجود سے لپٹ گئی۔ سارے وجود پہ مکڑی کا جالا سا تن گیا۔ سوالوں کی دُھند سی تھی جو چاروں طرف پھیل رہی تھی۔
کیا بیج گرنے کے بعد بیل نہیں اُگے گی؟
بیل پھیلے گی تو کیا پھول نہیں کھلیں گے؟
پھول کھلیں گے تو کیا خوشبو نہیں پھیلے گی؟
پھر وہ خوشبو کو کیسے روکے گی؟
وہ کانپنے لگی۔۔۔ جذبوں کی پہلی وحی اُتر رہی تھی۔۔۔ لرزنا تو تھا۔۔۔ ایسے میں تو ضرورت تھی، کسی دستِ مہربان کی۔۔۔ کسی آشنائے راز کی۔۔۔ کسی محرمِ حال کی۔۔۔ پر وہ سڑک پر تنہا تھی۔۔۔ اور کانپ رہی تھی۔ جیسے بخار چڑھنے سے پہلے سردی سے وجود کانپتا ہے۔ اُسے اپنے ہڈیوں کا ساز بجتا سنائی دے رہا تھا۔ کچھ دیر وہ یونہی درخت کو آسرا بنائے اَمربیل کے زرد لچھوں سے اُلجھتی رہی۔۔۔
پھر اُسے گھر کی دہلیز پر دو بوڑھی آنکھیں نظر آئیں، جو گزرتے لمحوں کے ساتھ خوف سے پھیلتی جا رہی تھیں۔
وجود کی لرزتی عمارت کو سمیٹا کہ اُسے گھر پہنچنا تھا۔۔۔ ماں کے خدشوں کو زبان ملنے سے پہلے گھر کے آنگن میں کھڑے ہو کر ماں کو آواز دینی تھی۔ سو وہ چل پڑی۔ قدم رکھتی کہیں تھیں۔ پڑتے کہیں اور تھے۔۔۔ نظر کہیں تھی ، پر وہ دیکھتی کچھ اور تھی۔۔۔ دھیان کہیں تھا پر وہ سوچتی کچھ اور تھی۔ لرزتی، کانپتی وہ گھر کی دہلیز پر آ کر ڈھے گئی۔
’’امّاں!‘‘ کونسی کہانی اِس پکار میںُ چھپی تھی کہ کھانا پکاتی ماں تڑپ کر اُٹھی۔وہ دُھوپ سے سائے میں آ گئی۔بوڑھا وجود اُسے سمیٹ کر اندر لے گیا۔ ماں کے لب پر تو کوئی سوال نہ تھا پر نظریں کھوج رہی تھیں۔۔۔ ٹٹول رہی تھیں، جیسے پوچھ رہی ہوں’’کچھ کھو تو نہیں گیا۔‘‘
پر آج تو چڑھتے بخار نے سارا بھرم رکھ لیا۔ کسی سوال، جواب کی نوبت ہی نہ آئی۔ بخار تو جیسے ہڈیوں کے اندر اُتر گیا تھا۔ کئی دِن اُسے چارپائی سے اُٹھنے نہ دیا، پھر بخار تو اُتر گیا مگر جاتے جاتے اُس کے سارے حوصلے بھی سمیٹ کر لے گیا۔ ماں روزبازو تھام کر اُٹھاتی کہ ’’آ تجھے پُل پر چھوڑ آؤں۔‘‘تو وہ رونے لگتی۔
بالآخر اُس نے کہا!’’امّاں مجھ سے نہ اِتنا چلا جاتا ہے، نہ موسم کی سختیاں برداشت ہوتی ہیں، تو مجھے شہر لے جا۔ میں وہیں پڑھوں گی۔ خالہ کے گھر جہاں میں پہلے رہتی تھی۔‘‘ کچھ روز تو ماں اُس کی خواہش کو تولتی رہی، پھر اُس نے بھی ارادہ باندھ لیا۔گھر کو تالا لگایا۔ تھوڑی سی زمین تھی اُسے ٹھیکے پر دے کر وہ شہر آ گئی، جو اثاثہ تھا اُسے دو حصوں میں تقسیم کر کے ایک بہن بہنوئی کو دیا کہ اُسے بوجھ بننا گوارا نہ تھا اور ایک اپنے پاس محفوظ کر لیا۔
اُدھر وہ روز پُل پر اُس کا انتظار کرتے رہے۔ وہ پرچی تو اُنھیں اگلے ہی دِن اوس سے بھیگی، گھاس سے چپکی، اُسی طرح تہہ شدہ مِل گئی۔ مگر لڑکی دوبارہ نظر نہ آئی۔ دو،چار دِن وہ اُن کی باتوں میں رہی۔ دو،چار ماہ ذہنوں میں۔۔۔ مگر نیاز کئی دِن اِس خلش میں جیتا رہا کہ ایک لڑکی اُس کی وجہ سے اپنا رستہ چھوڑ گئی۔ اُسے لگتا اُس نے کسی کی راہ کھوٹی کر دی ہے۔ اِتنی جرأت بھی نہ تھی کہ وہ پتہ کرتے کہ وہ گاؤں کی کس گلی کی، کس نکڑ سے آتی ہے؟ اور اب کیوں نہیں آئی؟
پھر جس طرح موسم بدلنے پر سوکھی ٹہنیوں پر نئے پتے آتے ہیں تو پرانے کہیں غبارآلود، گستاخ ہواؤں کی زد میں ہوتے ہیں۔ اِسی طرح وہ بھی غبارآلود خیال بن گئی۔ کبھی کبھی احساس تازیانہ بن کر سوچ کو زخمی کرتا۔۔۔ مگر بس ذرا دیر کو۔۔۔ رفتہ رفتہ یہ بھی ختم ہو گیا۔
سکول کا زمانہ ختم ہوا۔ کالج کی وسیع اور مصروف زندگی نے شوق کے نئے راستے متعین کر دیئے۔ پر یہ چاروں سارے رستے گھوم کر بھی قربت کے ایک ہی رستے پر تھے۔ زندگی قدم بہ قدم آگے بڑھتی رہی۔۔۔ نوکریاں۔۔۔ مصروفیات۔۔۔ ذمہ داریاں۔۔۔ انھوں نے روز، روز کا ملنا مشکل کر دیا۔۔۔ پر اتوار کو شام ڈھلے جب سب گھروں کو لوٹ رہے ہوتے تو وہ چاروں پُل پر اکٹھے ہوتے، پھر باتوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا۔آنکھیں نیندسے بوجھل ہونے لگتیں، پر خلوص کی بساط پر بچھی اِس محفل کو چھوڑ کر جانے کو دِل کسی کا بھی نہ کرتا۔
چاندنی راتوں میں تو خیر روشنی واپسی کے رستوں کو آسان کر دیتی مگر اماوس کی راتیں بھی وہ اِسی پُل پر گزارتے اور گرتے پڑتے دیواریں ٹٹول، ٹٹول کر گھر پہنچتے۔
سب سے پہلے اطہر نے اِس محفل سے غیرحاضر ہونا شروع کیا۔ شروع شروع میں تو انھوں نے نظر انداز کیا کہ نئی نئی شادی ہے، مصروف ہو گا، مگر جب وہ ہر اتوار کو بہانے بنانے لگا تو انھوں نے گاؤں کی اُس نکڑ کی طرف دیکھنا چھوڑ دیا جہاں سے وہ آتا تھا۔ پر کن اکھیوں سے کبھی کبھی وہ اِس آس سے اُدھر دیکھ لیتے کہ شاید وہ آتا ہو۔۔۔ انتظار نہیں کرتے تھے، پھر بھی کان اُس کی چاپ کے منتظر رہتے۔
ابھی پُل پر وہ اطہر کے بیٹھنے کے انداز، اُس کی آواز کی بازگشت کو نہیں بھولے تھے کہ محمود بھی ہاتھ چھڑانے لگا۔ دوستی کی مثلث رہ گئی تھی۔ وہ بھی ٹوٹ گئی۔ اب نیاز اور احسن آدھا وقت اُن رستوں کو تکتے جن سے اُن کی آمد کے آثار ہو سکتے تھے۔ آدھا وقت ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے اُن لمحوں کو یاد کرتے جب نہر کے پانیوں میں ایک دوسرے کا تعاقب کرتے چار پتھر گرتے تھے۔ یہ پتھر نہیں گرتے تھے بلکہ یہ پُل پر اُن کی کلاس کی حاضری تھی، جب پتھر گر کر نہر کے پانیوں میں گول دائرہ بناتے اور ہلکے سی آواز اُبھرتی اُسے وہ ’’حاضر جناب‘‘ کی آواز کہتے۔
اب چار کی جگہ جب دو پتھر گرتے تو اُنھیں لگتا نہر کا ‘رواں پانی بھی اُن کی غیرحاضری پر اُداس ہے، جس دِن وہ دونوں گھر کی چاردیواری سے بھاگ کر پُل پر آ جاتے اُس دِن نیاز اور احسن کی خوشی چھپائے نہ چھپتی۔ اُن کا بس نہ چلتا کہ وہ وقت کو ساکن کر دیں۔ قربت کے اِن لمحات کو سانسیں دے کر طویل کر دیں۔ وہ بھی جب آتے احسن اور نیاز سے شرمندہ، شرمندہ نظر آتے۔ حالانکہ انھوں نے غیرحاضری کا سبب کبھی نہیں پوچھا تھا۔ کیونکہ وہ جانتے تھے اُن کے ہاتھ میں کوئی نہ کوئی درخواست ضرور ہو گی۔۔۔ بیماری کی یا پھر ضروری کام کی۔۔۔
پھر احسن کی شادی کی تاریخ بھی طے ہو گئی۔ صرف گندم کے کٹنے کا انتظار تھا۔ وہ جانتا تھا اب تنہائی اُس کا مقدر بننے والی ہے۔ اطہر اور محمود کے بعد اب احسن بھی پُل سے غیرحاضر ہو گا۔
شادی اُن کو پھر ایک دوسرے کے قریب لے آئی۔تینوں احسن کی بیٹھک میں آ جاتے۔ڈھولک بجائی جاتی، آنے والے خوبصورت دِنوں کا ذِکر کر کے احسن کو چھیڑا جاتا۔ کبھی اُس کے سامنے گھریلو زندگی کا خوفناک نقشہ کھینچا جاتا۔ ایک دِن باتوں باتوں میں اطہر کہنے لگا!
’’احسن اب نیاز کانمبر لگانا۔ اپنی بچی ہوئی مٹھائی اِس کو کھلانا۔ اب اِس کو بھی چاردیواری میں قید کرنا ہے۔‘‘
پھر نیاز کو مخاطب کر کے بولا !’’ہمارا خیال تھا تیری شادی پہلے ہو گی؟‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’تو ہم سب سے زیادہ خوبصورت ہے۔ نوکری سب سے پہلے تجھے ملی اور محبت بھی سب سے پہلے تو نے کی۔‘‘ بڑے عرصے کے بعد آج اوس میں بھیگی پرچی کی تہیں کھل گئیں۔
’’میں نے محبت کی نہیں تھی، تم لوگوں نے مِل کر کروائی تھی۔‘‘
’’بہرحال تو آگے تو بڑھا تھا۔‘‘
آج اِتنے سال گزرجانے کے بعد وہ اُسے وہاں لے جانا چاہ رہے تھے جن راہوں کی دھول بھی اب اُس کے لیے اجنبی تھی۔ پچھتاووں کے چھوٹے چھوٹے ناگ اُس کے وجود میں سرسرانے لگے۔ وہ بوجھل دِل کے ساتھ وہاں سے اُٹھ آیا۔رات کافی بیت گئی تھی۔ پر اُس کی ماں اُس کے انتظار میں جاگ رہی تھی، جیسے ہی اُس نے قدم رکھا۔ بیٹے کے درد میں ڈوبی آواز آئی۔
’’نیاز!‘‘ اُس کے اپنے کمرے کی طرف بڑھتے قدم رُک گئے۔ وہ ماں کی چارپائی پہ آکے بیٹھ گیا۔ ماں نے تکیے کے نیچے ہاتھ پھیرا اور سیاہ دھاگے میں لپیٹا ایک تعویذ اُس کے ہاتھ میں تھما کر کہا۔
’’میرے لال اِسے بازو سے باندھ لے۔ ساتھ والے گاؤں میں بڑے پہنچے ہوئے پیر جی آئے تھے۔ اُن سے تعویذ لے کر آئی ہوں۔ وہ بتا رہے تھے کہ بڑا سخت وار کیا ہے۔ کسی کی بددُعا کا اثر ہے۔ یہ تعویذ سارے وار کاٹ دے گا۔ لابازو بڑھا۔ میں باندھ دوں۔‘‘
’’امّاں! میرا تکیہ رنگ برنگ تعویذوں سے بھر گیا ہے۔ یہ میرا بازو ہے کسی دربار پہ اُگا منت کا درخت نہیں، جسے رنگ برنگ دھاگوں سے بھر دیا جائے، مجھ پہ کوئی جادو نہیں ہوا۔ کوئی وار نہیں۔ یہ تقدیر ہے، جو صرف دُعا سے بدل سکتی ہے تو بس میرے لیے دُعا کر۔
اُس کا یہ اُکتایا ہوا لہجہ بھی ماں کی مامتا کو کم نہ کر سکا۔
’’تو یہ پہن لے، پھر اِس کا اثر دیکھ۔ اب جو رشتہ آئے گا۔ دیکھنا بات بن جائے گی۔ ورنہ میرے لال میں کوئی خامی ہے۔ پورے گاؤں میں میرے بیٹے جیسا سوہنا کوئی نہیں۔ لا بازو ادھر کر۔‘‘
اُس نے خاموشی سے بازو بڑھا دیا۔ وہ ماں کو سمجھا سکتا تھا مگر اُس کی مامتا کوسمجھانا اُس کے بس کا روگ نہ تھا، جب سے احسن کی شادی کا شور اُٹھا تھا۔ سارا گھر اُس کے لیے پریشان ہو گیا تھا۔ ہر کوئی اُس کے لیے کوشش کر رہا تھا۔ بہن تو کوئی تھی نہیں مگر بھابھیاں بھی اُسے بیاہنے کے لیے یہ ہنرآزما رہی تھیں۔ بھائی اپنے تعلقات استعمال کر رہے تھے، مگر نتیجہ۔۔۔ وہی تنہائی۔
احسن دُلہا بن گیا۔ وہ تینوں خصوصی باراتی تھے۔ دُلہن گھر آ گئی۔ اطہر اور محمود تو خوش تھے اب ملاقات یونہی گلیوں میں آتے جاتے ہو گی۔۔۔ کبھی دروازے سے نکلتے ہوئے۔۔۔ کبھی بازار آتے جاتے۔۔۔ مگر وہ پُل پر چھا جانے والی خاموشی سے خوفزدہ تھا۔پھر وہی ہوا کہ جس کا ڈر تھا۔۔۔ کبھی احسن آ جاتا، کبھی اطہر اور کبھی محمود۔۔۔ وہ چاروں کبھی ایک ساتھ اکٹھے نہ ہو پاتے۔۔۔ کبھی یوں بھی ہوتا کہ وہ اکیلا ہی نہر میں چا رپتھر پھینکتا۔ یہ پتھر کے بعد بننے والا حیرت کا گرداب بن جاتا۔ وہ اِس گرداب میں ڈوب ڈوب جاتا۔
وقت اِسی طرح آنکھ مچولی کھیلتے آگے بڑھتارہا۔ اطہر اور محمود کے بچے سکول جانے لگے۔ احسن بھی صاحبِ اولاد ہو گیا۔ ماں اُس کو آباد دیکھنے کی خواہش میں کسی دوسرے دیس جا آباد ہوئی۔اُس کے مٹی میں جانے کی دیر تھی۔ اُس کی ذات بھی دوسروں کے لیے مٹی ہو گئی۔ وہ بے نیازیوں کی گرد میں دبتا چلاگیا۔ لاپرواہیوں کی بے تحاشا سوئیاں اُس کے وجود میںُ چبھتیں۔اِن سوئیوں کے ُچبھنے پر شروع شروع میں وہ چیختا رہا، احتجاج کرتا رہا، پھر یہ احتجاج ایک ہلکی سی ’’سی‘‘ تک محدود ہو کر رہ گیا۔
وہ بھی کیا کرتا ۔ اُسے انھی لوگوں کے ساتھ رہنا تھا۔ اُس کے ساتھ رہنے کے لیے آسمان سے فرشتے تو آنے سے رہے۔ وہ بھی بدصورت رویوں میں جینے کا عادی ہو گیا۔ خواب اُس کی واحد پناہ گاہ تھے، جو گزرتے وقت کے ساتھ تیز دُھوپ کی زد میں آتے جا رہے تھے۔ کبھی وہ یونہی بے سبب تلخ ہو جاتا۔ اُس کی تلخی کو کم کرنے کے لیے نہ تو ماں کی نرم آغو ش تھی اور نہ کسی کااعجاز مسیحا لمس۔۔۔ نہ دوستوں کی قربت۔
وہ بکھرتا گیا۔ اُسے سمیٹنے والا کوئی نہ تھا۔ نوکری اُس کے ذہنی توازن کو برقرار رکھنے کا سب سے بڑا وسیلہ تھا۔ پیسہ ہاتھ میں ہو تو بہت سے بے نیاز لوگ بھی نیازمند ہو جاتے ہیں، یا پھر وہ پُل اور اُس پُل سے وابستہ یادیں، جہاں جا کر وہ اُن خواب آسا لمحوں کو یاد کرتا، جب اُس کے گرد اُس جیسے تین ہمزاد اُس کی یادوں میں نہیں ہاتھوں میں بستے تھے۔آج بھی وہ اُن تینوں کے بے ثمر انتظار کے بعد گھر لوٹ آیا۔
’’نیاز!‘‘اس کی بڑی بھابی نے اسے پکارا
’’جی‘‘ وہ کھلی ہوا میں لیٹنے کے ارادہ سے چھت پہ جا رہا تھا کہ رُک گیا۔
’’نیاز! انعم کو اپنی اُستانی سے کچھ پوچھناہے۔ تم اِسے ساتھ لے جاؤ۔‘‘
’’بھابھی رات کافی ہو گئی ہے۔ اندھیرا پھیل رہا ہے۔‘‘
انکار سن کر انعم کے چہرے پہ سیاہ رات سے بھی زیادہ اندھیرا پھیل گیا۔۔۔ مایوسی کا۔۔۔
’’اچھا ٹھیک ہے۔ فوراً چلو۔‘‘
وہ بھاگ کر گئی۔کمرے سے ایک پلیٹ جسے سفید رومال سے ڈھانپا گیاتھا۔ پلیٹ کے نیچے ایک کتاب تھی، جو وہ صرف اُسے دِکھانے کے لیے لے جا رہی تھی۔ اصل مُدّعا تو سفید رومال کے نیچے تھا۔
اُس کی معصوم رہبر اُس کی اُنگلی تھامے مانوس اور نامانوس گلیوں میں لے کر پھرتی رہی۔ گاؤں کی آخری نکڑ پر ایک گھر تھا جس کے دروازے پہ اُس نے دستک دی۔ کچھ دیر خاموش رہی، پھر ُکنڈی ہلنے کی آواز آئی۔ وہ دروازے سے چند قدم کے فاصلے پہ کھڑا تھا۔دروازہ دھیرے سے کھلا انعم اندر چلی گئی۔ دوچارمنٹ تو وہ وہیں دروازہ کے سامنے کھڑا رہا پھر چلتا ہوا گلی کی نکڑ تک آ گیا۔وہاں چھوٹی سی کریانہ کی دُکان تھی۔ دُھندلا سا بلب دُکان کی خستہ حالی پہ نوحہ کناں تھا۔ دُکان کے باہر دوبنچ رکھے تھے۔ وہ انھی میں سے ایک پر بیٹھ گیا، لیکن نگاہ اُسی دروازے پہ رکھی جہاں سے اُس کی بھتیجی باہر آنے والی تھی۔
زنجیر پھر ہلی۔ وہ اُٹھ کھڑا ہوا۔ اِتنے میں انعم کی آواز آئی۔
’’مس!میرے چچا نظر نہیں آ رہے۔ پتہ نہیں کہاں گئے۔‘‘
وہ جلدی جلدی قدم اُٹھانے لگا۔
اِتنی دیر میں دونوں گھر سے نکل کر گلی میں آ کر اُسے تلاش کر رہی تھیں۔
چاند اچانک اُن دونوں کے سر پہ آ پہنچا۔
ساری گلی دُودھیا روشنی میں نہا گئی۔ کھٹ! کھٹ! کھٹ کئی کیمروں کے فلش بہ یک وقت چمکے۔
ساری روشنی کا مرکز وہ چہرہ تھا۔
یادداشت کے پرت کھلنے لگے۔
بستے کی جیب میں رکھی پرچیاں اُڑنے لگیں۔۔۔