(Last Updated On: )
“سید صاحب کچھ خبر ہے؟may کا مہینہ بھی اپنے ختتام کو پہنچتا ہے، مریم کی انٹر کی تعلیم بھی ختم ہونے کو ہے
آپکے بیٹے صاحب بھی اب تو اچھی تنخواہ ہاتھ میں رکھ دیتے ہیں
نیز آنے والے فروری میں نکاح کا جو ارادہ ہے
وہ یونہی ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے سے تو نہیں انجام پائے گا”
ساتھ ساتھ کپڑے بھی سمیٹتی رہیں
“ارے سنتے بھی ہیں؟ بیٹے اور بیٹی کو ساتھ بیاہنا ہے،کچھ تیاری بھی تو کر لیں نا”
تھوڑی دیر بعد پھر بولیں
“سید صاحب تھوڑی زبان چلایئے اور کاموں کے ارادوں کی تفصیل سنایئے۔۔۔۔یوں خاموشی کو میں کیا سمجھوں؟”
امی ،بابا جانی سے مخٓاطب تھیں، مگر وہ تو کسی اور ہی دنیا میں تھے۔۔۔۔شائد کسی گہری سوچ نے انھیں گھیر رکھا تھا
“میرا خیال ہے صورت حال ذرا گھمبیر ہے
کیا مجھ سے اپنا مسئلہ بیان کرنا چاہیں گے؟”
امی نے بابا کو حیرانی سے دیکھتے ہوئے کہا
“ارے بیگم صاحبہ ! صورت حال پیچیدہ تو نہیں ہے فلحال ،مگر کچھ ایسا ضرور محسوس ہوا ہے جو قدرِمختلف تھا”
گہری سانس لیتے ہوئے کمر پیچھے تکیئے سے ٹکاتے ہوئے کہنے لگے
” کیا مریم کے چہرے کی بدلتی ہوئی رنگت آپکو بھی دکھائی دی ہے”
امی نے جب یہ سنا تو بے ساختہ کہنے لگیں
” برا نہ مانئے گا مگر آپکی سوچ کے قدم بڑی تاخیر سے چل رہے ہیں البتہ میں تو اسی وہم میں تھی کہ کہیں آپ اپنی اس تاخیر سے چلنے والی سوچ کا ہاتھ تھامے مریم کو کوئی نئے پڑوسیوں کے گھر نہ لے جایئں”
” آپ کی بات میں کافی گہرائی معلوم ہوتی ہے، اور مسلہ یہ ہے کہ اب میں اس گہرائی میں ڈوب رھا ہوں
مجھے بچا لیجئیے اور بات کو تفصیل سے بیان کیجیئے”
انھوں نے امی کی بات پر حیرت ظاہر کی اور تفصیل جاننا چاھی
“بات سیدھی سی ہے۔۔۔۔ مجھے یہ شک ٹھرا ہے کہ مریم کا یشفہ کے گھر جانا غیر معمولی باتوں کو تقویت دے رھا ہے
میں امید کرتی ہوں کہ آپ اپنے انداز الفت سے اسے محتاط کر دیں گے “
امی جان نے ایک بار پھر بابا کو ڈھکی چھپی سی تفصیل بتائی اور ساتھ ہی کمرے کی صفائی ہو جانے پر سونے کیلئے لیٹ گیئں
اب یہ بابا پر منحصر تھا کہ مریم کہ بڑھتے ہوے قدم کیسے روکنے ہیں اور روکنے بھی ہیں یا بے جا آزادی کے زمرے میں آنے والی ان حرکات کو مزید بڑھنے کیلئے چھوڑ دیا جائے
****** “””””””” ******* “”””””””””” ****
” امی میں یشفہ کے گھر جا رہی ہوں، ایک گھنٹے تک واپس آجاوں گی”
مریم شام کے وقت خوب تیار ہو کر یشفہ کے گھر چل پڑی تھی
“پہلے تو یہ تشویش دور کرو کہ تم مجھے بتا رہی ہو یا منہ پر مجھے چڑھا رہی ہو”
امی جو کچن میں کھانا پکا رہی تھیں ،کہنے لگیں
“ایک تو امی اپکی تنزیہ باتیں روز محشر بھی شائد جاری رہیں گی۔۔۔۔آپکی اجازت ہو تو اب میں جا سکتی ہوں؟”
“ہاں بیشک چلی جاو ۔۔۔۔۔اب ہم تمہیں روک بھی لیں تو تب بھی تم رکنے والی نہیں ہو
کیونکہ تم جا نہی رہی بلکہ جا چکی ہو”
امی نے جواب دیا اور منہ پھیر کر دوبارہ کاموں میں لگ گیئں
ٹھیک ہے میں کہیں نہی جا رہی۔۔۔لیں خوش ہو لیں آپ
کہتے ہوئے مریم پاوں پٹختی اپنے میں چلی آئی
ابھی سانس بھی نہ لے پائی تھی کے اسکے ہاتھ میں موجود موبائل اپنے full volume میں بج اٹھا
“اففف۔۔۔۔ایک تو یہ فون کال
اب انھیں کوب سمجھائے کہ میں روز روز یشفہ کے گھر جاکر بات نہیں کر سکتی ہوں”
اپنے آپ سے ہی کہ کر اسنے کال ریسیو کی اور باتوں میں مگن ہو گئی
“السلام علیکم یار آج امی کا موڈ بہت خراب تھا جس پر مینے سوچا کہ اج یشفہ کی طرف نہ جانا ہی بہتر رہے گا”
مریم کی بات پوری ہوئی تو دوسری جانب سے جواب آیا
“چلو یہ تم نے اچھا کیا
میں بھی تمھیں تھوڑا وقت دے دیتا ہوں۔۔۔امی کی مدد کرو آج تم
مجھے یقین ہے وہ تمہیں بھی اپنے ساتھ کچن میں ہاتھ بٹاتا دیکھنا چاہتی ہونگی۔۔۔۔۔بالکل ویسے ہی جیسے تم پہلے انکا ہاتھ بٹایا کرتی تھیں”
اس شخص نے مریم کو جو ہدایت کی تھی وہ تو برائی سے ذرا دور ہی تھی اور مریم نے بھی ہامی بھر کر رضامندی ظاہر کی
“چلو اب، بیٹھی کیا ہو؟ جاو امی کے پاس۔۔۔”
دوسری جانب موجود شخص نے پھر کہا اور فون بند کرنے کا حکم دیا
“لیکن میں بات کرنا چاہتی ہوں”
مریم نے اداس لہجے میں کہا
“بات ہم پھر کر لیں گے۔۔۔امی کی ناراضی زیادہ اہم ہے
جاو انہیں مناو”
تاکید پر تاکید ہوئی تو وہ بھی اداس چہرہ لیئے امی کے پاس چلا آئی
” کچھ ہاتھ بٹا دوں امی؟” اسنے کچن میں جاتے ہی پوچھا
“ہاتھ بٹانے سے میرا بوجھ کم نہی ہوگا۔۔۔۔۔۔ہو سکے تو میرا غم بٹا دو”
امی اس سے بےحد ناراض نظر آتی تھیں
“امی آخر اپکی پریشانی کیا ہے؟ آپ نے زبردستی کا رشتہ میرے سر پر تھوپ دیا ،کیا میں اس پر شکوہ کر سکی؟
آپ نے بابا جانی کو میرے خلاف کیا ،کیا میں اس پر شکوہ کر سکی؟ آپ مجھے میری مرضی کے ہر کام سے روکتی ہیں۔۔۔۔کیا اس پر بھی میں کچھ کر سکی؟
ان سب باتوں کا ایک ہی جواب ہے “نہیں” تو اب میں ایسا کیا کروں کہ آپ مجھ سے یوں خفا نہ رہیں؟”
مریم نے مایوسی سے کہا
“تم اب کچھ کرنے کہ قابل کہاں رہی ہو؟پھر بھی اگر اپنے زور بازو پر میرے لیئے کچھ کرنے کی خواہش ہے تو جاو میرے لیئے میری مریم واپس لے آؤ
وہ مریم جسے جھوٹ بولنا نہیں آتا تھا، اور وہ جو دھوکہ دینے میں ایسے کچی تھی جیسے کوئی چھوٹا بچہ پینسل پکڑنے میں ہو”
امی کام کرتی رہیں اور ساتھ ہی بے بسی سے کہتی بھی رہیں
امی کیا جھوٹ بولا مینے آپ سے؟ کیا دھوکا دیا ہے؟
یہ کہ میں نے بنا کسی کی اجازت لئیے فیسبک استعمال کی۔۔۔۔یا بابا سے فرمایش کر کے موبائل فون منگوایا؟ یا پھر اور کچھ؟
“فیسبک استعمال کرنا جرم تو نہیں تھا ، ہاں پر اب جرم کے زمرے میں آگیا ہے
اور رہا جھوٹ تو محترمہ یہ جھوٹ نھیں تھا ،یہ دھوکہ دہی تھی
جھوٹ تو وہ تھا کہ جب تم نے مجھ سے وعدہ کیا تھا اور اسے توڑتے وقت جوں بھی تمھارے کانوں پر نہ رینگی”
پھر ماتھے پر ہلکا یاتھ مار کر کہنے لگیں
“دیکھو تو ذرا ! غصے میں میرا محاورہ بھی آگے پیچھے ہو گیا۔۔۔اب تم بھی چلی جاو کہیں میں کچھ اور ہی نی کہ دوں”
امی نے اسے باھر جانے کو کہا اور وہ بھی غصے میں پیر پٹختی باہر آگئی
اپنے کمرے میں پہنچ کر اسنے موبائل اٹھایا اور کوئی شبہ نہیں کہ اسی شخص کو کال ملا دی جس نے کچھ دیر پہلے اسے امی کا ہاتھ بٹانے کا مشورہ دیا تھا
“دیکھا !! میں کہ رہی تھی نہ کہ امی کو میری ان باتوں سے کوئی فرق نھیں پڑتا ،انھیں صرف مجھ پرغصہ نکالنے کے بہانے چاہیئے۔۔۔”
ابھی مریم کی بات جاری تھی کہ دوسری جانب موجود شخص کی بھاری آواز اسے سنائی دی
“ایکسکیوز می!! فون دوبارہ ملاو مجھے اور اب کی بار پہلے سلام پھر کوئی بات !”
اتنا کہنا تھا کہ لائن منقطہ کردی گئی۔۔۔۔مریم بھی ہکہ بکہ رہ گئی کہ یہ آخر کیا ہوا؟
پھر کال ملائی اور اب کی بار پہلے سلام کیا
“السلام علیکم ! مل گئی تسلی؟ ہاں تو کیا بتا رہی تھی میں؟۔۔۔۔۔”
مریم نے پھر بنا سانس لیئے اپنی بات وہیں سے شروع کردی تھی کہ ایک بار پھر دوسری جانب سے رابطہ منقطہ کر دیا گیا
اسکا غصہ اب امی کی طرف سے ہٹتا ہوا اس شخص کی طرف ہو چکا تھا
تیسری بار فون ملانے کا ارادہ کیا اور اب کی بار اسے ٹھیک ٹھاک سنانے کا بھی
” السلام علیکم ۔۔۔۔کیا سمجھتے ہو تم خود کو؟ چار دن آرام سے بات کیا کر لی تم تو سر پر ہی چڑھ گئے ہو۔۔۔”
مریم نے پچھلی ہی بار کی طرح اس بار بھی بنا سانس لئیے بولنا شروع کردیا
اس دفعہ بھی دوسری جانب سے اسی بھاری آواز مگر دھیمے لہجے والے شخص نے اسکی بات کاٹنے میں ذرا دیر نہیں لگائی
“پہلے سلام ، پھر میرا جواب ، پھر ہال پوچھو اور ہال سناو
اسکے بعد باقی باتیں کرنا”
ان مختصر پانچ جملوں کی دیر تھی کہ لائن پھر disconnect کر دی گئی
مریم کو اس قسم کے رویے کی عادت نہ تھی۔۔۔۔یہ اسکے لیئے ایسا تھا گوئا اسکے غصے کا مذاق اڑایا جا رہا ہو اور پھر اسکے ہاتھوں مذاق بنانے والے کا قتل ہو جائے
پر وہ بندہ اسکے سامنے موجود نہ تھا اور شائد یہی اسکی خوش قسمتی تھی
دو منٹ مریم اپنے حواسوں کو قابو میں لانے کیلئے رکی اور پھر کال ملا دی
“السلام علیکم! “
مریم سلام کہ کر اسکے جواب کا انتظار کر رہی تھی
“وعلیکم السلام” دوسری طرف سے جواب ایا
“کیا حال ہے؟”اسنے اپنا سارا غصہ دانتوں میں دبایا ہوا تھا اور نجانے کیوں اسکی کہی گئی باتوں پر عمل کر رہی تھی
” اللہ کا بےحد کرم ہے۔۔۔۔تم ٹھیک ہو؟”اس نے پھر جواب دیا
“اللہ کا بےحد کرم ہے” مریم کو اس قدر غصہ تھا کہ اسنے اپنا حال بھی اسی کے لفظوں کو دہرا کر بیان کیا
“جی تو کیا معاملہ درپیش ہے؟ امی نے کیا کہا اور تم نے انہیں کیا کہا؟”
اس شخص نے اوپر درج چار بنیادی باتوں کے بعد اصل بات شروع کی
“اب ضرورت نہیں ہے مجھے، کہ تمہیں کچھ بتاوں”
مریم نے ایک بار پھر اپنا غصہ اس پر نکالنا چاھا تو جواب ملا
“یہ پہلی بار ہے اس لیئے تم معافی کی حقدار ہو ، بس اتنا کہوں گا کہ مجھ سے بات کرتے وقت اپنا غصہ سائڈ پر رکھی ہوئی دراز میں بمعہ تالا رکھ دیا کرو”
وہ شخص اپنے لہجے میں جتنا ٹھہراو رکھتا تھا ، مریم نے اس ٹھہراو میں کبھی کوئی کمی یا زیادتی نہ پائی تھی ۔۔۔۔۔
چاھے بات کی نوعیت کتنی ہی سنجیدہ کیوں نہ ہو۔۔۔۔ہفتہ بھر بھی نہ گزرا تھا کہ مریم نے اسکا یہ چہرہ دیکھ لیا تھا یا یوں سمجھ لیجئے کہ اس بندے نے مریم کو اپنا یہی چہرہ دکھایا تھا
یشفہ کے گھر ایف بی کی کثرت نے مریم کو اس شخص سے ملوایا تھا
جس سے مریم اب اکثر بات کیا کرتی تھی اور جس نے آج سے ہہلے اسکی ہر مشکل کو چٹکیوں میں حل کردیا تھا
نجانے پھر آج کیوں اسنے مریم سے اتنے سخت لہجے میں بات کی تھی۔۔۔
اس شخص کی قربت میں وہ یہ بھی بھولتی جا رہی تھی کہ اسکی رسی کسی اور کے کھونٹے سے باندھی جا چکی تھی
بدلتے موسموں کی طرح اس شخص کا رویہ تھا۔۔۔۔کبھی گرم جاڑے کی دھوپ کی طرح ،تو کبھی ایک دم ٹھنڈا سردیوں کی دھوپ سا۔۔۔
بھول سے نہ بھولیئے گا کہ یہ وہ شخص تھا جسکو نہ مریم جانتی تھی اور نہ ہی کبھی اسے دیکھا تھا
کبھی خواہش ظاہر کر دیتی تو اسکے خاموش وار سے اسکے جواب کا اندازہ کر لیتی
(چلتی ہوئی کال منقطہ ہو جاتی)
******* “”””””””””” ********** “””””””” **********