“میں کہہ رہی ہوں تم سے ہادی! کشمیر جاؤ گے تو صوفیہ سے ملنے ضرور جانا.” کھانا کھاتے ہادی نے احتجاج طلب نظروں سے بابا جان کی طرف دیکھا تھا، لیکن وہ یوں انجان بن گئے جیسے کچھ سنا ہی نہ ہو. بھلا انھیں کیا پڑی تھی ماں بیٹے کے معاملے میں ٹانگ اڑا کر توپوں کا رخ اپنی جانب کرواتے؟ چپ چاپ گرم چائے کی چسکیاں لیتے رہے.
” ماما جان! میری پوسٹنگ وہاں کشمیر میں بارڈر پر ہوئی ہے، رہائشی علاقہ اس سے کافی دور ہے. میں کیسے جاؤں گا “صوفیہ خالہ” سے ملنے؟” اس نے صوفیہ خالہ پہ خاصا زور دیا تھا. وہ فوج میں کیپٹن تھا، کشمیر کے علاقے میں پوسٹنگ ہوئی تھی. آرڈر جاری ہونے سے پہلے پندرہ دن کی چھٹی پہ گھر آیا تھا، اب آج آخری چھٹی تھی تو سعدیہ کو اچانک اپنی چچازاد بہن کا خیال آ گیا جو عرصہ دراز سے کشمیر میں مقیم تھیں.
“کمال کی بات کرتے ہو ہادی! بارڈر پہ کون سا کرفیو نافذ ہو گا کہ تم رہائشی علاقوں کا چکر نہیں لگا سکو گے؟ اشیائے خورد و نوش لینے کے لیے بھی تو بازار ہی آؤ گے، یا بازار بھی بارڈر پہ ہی ہو گا؟؟” طنز کرنے میں بھی ان کا کوئی جواب نہیں تھا. ابراہیم نے بمشکل اپنی ہنسی ضبط کی تھی. ہادی بھی کھسیا سا گیا.
” میں یہ کب کہہ رہی ہوں کہ وہاں پہنچتے ہی صوفیہ سے ملنے چلے جانا.. کچھ دن ٹھہر کر ہی سہی لیکن جانا ضرور.!” انھوں نے تاکید کی تھی. اور چائے کے خالی برتن سمیٹنے لگیں
“بڑا بہناپا تھا ہم دونوں میں، ہر وقت ساتھ رہتی تھیں، ہر کام میں ساتھ… یہ تو بس شادی کے بعد میں یہاں اسلام آباد میں آ بسی اور وہ کشمیر چلی گئی.” وہ جیسے خود سے مخاطب تھیں.
” عدی اور تم چھوٹے تھے تو چکر لگتا ہی رہتا تھا اب زندگی کی مصروفیت اور کچھ یہ جوڑوں کا درد… کتنا ہی عرصہ ہوا ملاقات نہ ہو پائی. فون پہ ہی کبھی کبھار رابطہ ہو جاتا ہے.” وہ پھر سے بیٹے کی طرف متوجہ ہوئیں
” اب جا رہے ہو تو ضرور ملنا..”
“میں کوشش کروں گا کہ ملنے چلا جاؤں. لیکن وہ کون سا ہماری سگی خالہ ہیں ماما جان! جو ملنا اہم ہے؟ ” ہادی نے کہا، وہ دل سے وہاں جانے پہ رضامند نہیں تھا.
“رشتے سگے یا سوتیلے نہیں ہوتے بیٹا.! رشتے بس رشتے ہوتے ہیں، اپنائیت اور محبت کا احساس لیے” ابراہیم نے گفتگو میں حصہ لیا
” آپ کی ماما جان کی خواہش ہے تو آپ مل آئیے گا صوفیہ سے، آپ کی ماما جان خوش ہوں گی ہی، وہ بھی ضرور اچھا محسوس کریں گی کہ دیر سے ہی سہی، انھیں یاد تو رکھا گیا.” ہادی نے کچھ سوچ کر اثبات میں سر ہلایا تھا، سعدیہ کے چہرے پہ در آنے والی مسکراہٹ بہت خوبصورت تھی.
**…**…**…**…**..**
” موتیا.!” اپنے نام کی پکار سنتے ہی وہ اچھل ہی گئی تھی، صد شکر کہ زیادہ بھی نہیں اچھلی، ورنہ درخت کی موٹی شاخ نے سر میں آلو تو بنا ہی دینا تھا.
“موتیا..!! کتنی بار سمجھایا ہے تمھیں کہ بندروں کی طرح درخت پہ چڑھنا چھوڑ دے.” صوفیہ اسے آوازیں دیتیں خود ہی صحن میں چلی آئی تھیں، وہ ایک جست لگا کر زمین پہ آ رہی، دوپٹے میں تین بڑے سرخ اور خوبصورت سیب چھپا رکھے تھے.
“امی جان.! سیب کھائیں گی؟” وہ ان کے غصے کو خاطر میں نہ لائی اور ایک سیب کا بڑا سا ٹکڑا دانتوں سے توڑ کر چبانے لگی
” کب بڑے ہونا ہے تم نے موتیا.؟؟ تئیس برس کی ہو چکی ہو، لیکن بچپنا ہے کہ جانے کا نام نہیں لیتا.” اس بات پر اس کا دل بےحد برا ہوا
“امی جان! پلیز میری زندگی کے ماہ و سال کسی باہر والے کے سامنے مت گنوانے بیٹھ جائیے گا.” خفگی سے کہہ کر وہ صحن میں بچھی چارپائی پہ بیٹھ گئی، زبان روانی سے چلنے لگی:
“پتا نہیں ہماری امیوں کو ہماری عمر کا راز فاش کرنے کا اتنا شوق کیوں ہوتا ہے؟ ہر کسی کے سامنے اعلان کرنے لگتی ہیں کہ اس سال اتنے برس کی ہو کر اتنے میں لگ گئی یا شناختی کارڈ بنے تو چار سال ہو گئے.” صوفیہ نے ہلکی سی دھپ اس کے کندھے پہ لگائی اور قینچی کی طرح چلتی اس کی زبان کو روکا.
“کتنا بولتی ہے تو موتیا! میں بھول ہی گئی کہ کہنا کیا تھا؟ “انھوں نے سر پہ ہاتھ مارا
“میں تو آپ کے گھر کی چہکتی چڑیا ہوں، کب بولتی ہوں زیادہ.؟” اس نے شرارت سے آنکھیں نچائیں.
” یاد آیا..! تمھاری خالہ سعدیہ کا فون آیا تھا.”
“وہ اسلام آباد والی؟”
“یہ اسلام آباد والی کیا بات ہوئی؟” انھوں نے بیٹی کو گھورا: “سعدیہ نام کی ایک ہی چچازاد بہن ہے میری، تو اسی کا ذکر کروں گی نا! اس کا بیٹا فوج میں ہے، کشمیر پوسٹنگ ہوئی ہے.”
“آاھااا فوجی…!” وہ خوشی سے چہکی” آپ نے پہلے کبھی بتایا ہی نہیں کہ ہمارا کوئی رشتہ دار فوجی بھی ہے”
“کیسے بتاتی؟ جب مجھے خود ہی علم نہیں تھا، یہ تو سعدیہ نے فون پہ اب بتایا کہ اس نے ہادی کو بطور خاص ہدایت کی ہے کہ مجھ سے ملنے ضرور جائے. اسی لیے تمھیں کہنے آئی تھی کہ پچھلے حصے والا کمرہ کل دن میں اچھی طرح صاف کر لینا. کیا پتا وہ کس دن ملنے آ جائے؟”
“ہم کبھی اسلام آباد کیوں نہیں گئے امی جان؟”
“تم چھوٹی تھی تو کئی بار چکر لگتا تھا، اب تمھارے ابو کی طبیعت ایسی ہے کہ لمبا سفر نہیں کر پاتے اور سعدیہ بھی جوڑوں کے درد کی وجہ سے آ نہیں پاتی.” صوفیہ بھی جیسے ماضی میں گم گئی تھیں. چونکیں تو اس وقت، جب اسے گھر کے داخلی دروازے کی طرف بھاگتے پایا.
“میں ابھی جا کر فارہہ کو بتاتی ہوں کہ میرا بھی ایک کزن ہے جو فوجی ہے.” ان کے روکنے سے پہلے ہی وہ پڑوس میں اپنی بچپن کی سہیلی کے گھر پہنچ بھی چکی تھی. ایسی ہی چھلاوہ تھی.
“خدا جانے کب عقل آئے گی اس لڑکی کو.” وہ اپنا سر پیٹ کر رہ گئی تھیں.
**…**…**…**…**..**
“یاد آ گئی ماں کی!؟” عدی کی کال ریسیو کرتے ہی ان کی زبان پہ اپنا مخصوص شکوہ آیا تھا، جس سے عدی بہت چڑتا تھا.
“اوہ ماما جان.! کم از کم اب تو مجھے اس ماماز بوائے یا گھر سے دوری پہ افسردگی والے احساس سے نکلنے دیا کریں.”
“مجھے تو حسرت ہی رہی عدی کہ کبھی تم میں یہ سارے احساسات ہوتے. تم تو بچپن سے ہی ایسے ہو..”
“جی جی بالکل.! اب کہیے کہ بورڈنگ میں رہتے، یا یونیورسٹی ٹائم میں ہاسٹلز میں رہتے میں نے کبھی نہیں کہا کہ ماما جان آپ یاد آ رہی ہیں یا گھر میں اپنے بستر کے بغیر نیند نہیں آ رہی…” وہ شگفتگی سے ان ہی کے کہے کئی پرانے جملے دہرانے لگا. سعدیہ کو اپنے بڑے بیٹے سے یہی تو گلہ تھا کہ وہ جذبات و احساسات کا اظہار نہیں کرتا تھا.
“ہادی ہے نا ماما جان! آپ کی ساری حسرتیں دور کرنے کے لیے.”عدی نے ان کا دھیان بٹایا تھا.
” اس کی تو بات ہی نہ کرو، جب بھی چھٹی گزار کر واپس جاتا ہے، ایسے روتا ہے جیسے لڑکیاں رخصتی پہ روتی ہیں.” عدی کا قہقہہ بےساختہ تھا. ہادی ایسا ہی تھا، گھر پہ ہوتا تو ماں کے گھٹنے سے لگا رہتا، اور پیشہ بھی وہ چنا جس میں ماں سے ملنے کے لیے دو دو مہینے انتظار کرنا پڑتا تھا
“پتا نہیں یہ لڑکا گھر سے اتنی دور، اتنا عرصہ کیسے گزار لیتا ہے؟”
“بنتا ہے ماما جان!” اس کا لہجہ شرارت لیے ہوئے تھا.
“خیر یہ بتاؤ، کب واپسی ہو رہی ہے؟” عدی نے کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی سے ایم بی بی ایس کی ڈگری لی تھی، اب اسپیشلائزیشن کے سلسلے میں چار سال سے جرمنی میں مقیم تھا.
“بس تین یا چار ماہ باقی ہیں ماما جان! کچھ عرصہ یہاں کے ہاسپٹل میں پریکٹس کے بعد ہی پاکستان آؤں گا. آپ بےفکر رہیے میرا یہاں سیٹل ہونے کا کوئی ارادہ نہیں ہے. آپ کے پاس ہی واپس آؤں گا ان شاء اللہ.” اس نے انھیں تسلی دی، ماں کے دل کا حال بخوبی جانتا تھا، وہ تو اسے جرمنی جانے ہی نہیں دینا چاہ رہی تھیں مبادا وہ وہیں سکونت اختیار کر لے، پہلے ہادی کا فوج میں جانا، اس کے بعد عدی کا جرمنی جانے کا فیصلہ کرنا، گھر خالی سا ہو کر رہ گیا تھا، شدت سے انھیں بیٹی نہ ہونے کا شکوہ ستاتا تھا کہ بیٹی ہوتی تو اکیلے پن کا احساس تو نہ ہوتا. لیکن اللہ کی مرضی میں کسے اختیار تھا؟. اب وہ عدی کے واپس آنے کی منتظر تھیں کہ وہ آئے تو اس کی شادی کرکے گھر میں بہو لائیں. جبکہ عدی کا ابھی شادی کا کوئی ارادہ نہیں تھا. وہ فی الحال پوری طرح اپنے کیریئر پہ توجہ دینا چاہتا تھا. یہی وجہ تھی کہ ہمیشہ شادی کا ذکر چھڑتے ہی کمال مہارت سے موضوع بدل دیتا تاکہ اس کے انکار سے نہ ماما جان کا دل برا ہو اور نہ ہی اس کا مزاج بگڑے. شادی کا تذکرہ ہمیشہ ہی اس کا مزاج خراب کر دیتا تھا.
**…**…**…**…**..**
ہادی کو کشمیر آئے آج ایک ہفتہ ہو چکا تھا، لیکن نئی جگہ پوسٹنگ، بہت سے آفیشل کام اور سب سے بڑھ کر گھر سے دوری پہ ہونے والی افسردگی… وہ اب جا کر معمول پہ آیا تھا، اس کے ساتھ ہمیشہ ایسے ہی ہوتا تھا جب بھی گھر سے باہر نئی جگہ جاتا کئی دن طبیعت اداس رہتی تھی. اب بھی یہی تو ہوا تھا. جاتی گرمیوں کے دن تھے، رات کافی خنک تھی، اسلام آباد کی نسبت یہاں کا موسم خاصا پرسکون تھا. وہ نیند کے انتظار میں کروٹیں بدل رہا تھا جب موبائل فون وائبریٹ ہوا، وہ عموماً رات کو فون وائبریشن پہ لگا دیا کرتا تھا.
“عدی کالنگ!” عدی کا نام سکرین پہ جگمگا رہا تھا، اس کی ساری افسردگی ساری کلفت ایک لمحے میں ہوا ہوئی تھی.
“السلام علیکم! کیسے ہیں بھائی؟”
“وعليكم السلام! میری خیریت چھوڑو، اپنی بتاؤ، گھر سے دوری کیسی محسوس ہو رہی ہے؟ ماما جان کہہ رہی تھیں کہ رخصت ہوتے وقت لڑکیوں کو بھی مات دیتے ہو…” اس علاقے میں موبائل نیٹ ورک کے سگنلز کا بہت مسئلہ رہتا تھا، اب بھی اسے عدی کی بات سمجھنے میں کافی دقت کا سامنا کرنا پڑا تھا.
“ایک تو ماما جان بھی نا.!” وہ مصنوعی خفگی سے بولا.
“کب جا رہے ہو صوفیہ خالہ کی طرف..؟” عدی نے ایک اور دکھتی رگ چھیڑی.
” کل، اتوار ہے، کل ہی ہو آؤں گا. اب ان دو بچھڑی بہنوں کے درمیان میں رابطے کے پل کا کام کروں گا.”
“میرا خیال ہے کہ تمھاری طرف نیٹ ورک ٹھیک سے کام نہیں کر رہا، ہم پھر بات کریں گے، مجھے بھی ہاسپٹل جانا ہے.” عدی کو بھی آواز سننے میں مسئلہ پیش آیا تو اس نے جلدی ہی فون بند کر دیا. ہادی نے کوفت سے موبائل کو دیکھا، فور جی نیٹ ورک تو دور تھا، ٹو جی ہی آ جاتے یہی غنیمت تھا. اس نے سر جھٹک کر الارم لگایا اور آنکھیں موند کر سونے کی پر زور کوشش کرنے لگا.
**…**…**…**…**..**
“ایک اکلوتا آپ کا بھانجا ہی تو آ رہا ہے امی جان! اس ایک جی کے لیے اتنا کچھ الا بلا بنانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟” حلوے کے لیے سوجی بھونتے وہ مسلسل برے برے منھ بنائے جا رہی تھی.
“پہلی بار آ رہا ہے وہ، اور مہمان کی خاطر داری تو سنت بھی ہے، اور آنے والا اپنا رزق ساتھ لاتا ہے.”
“آنے والا رزق لفافے میں ساتھ باندھ کر تو نہیں لاتا.! پکانا تو ہمیں ہی پڑتا ہے.” وہ بڑبڑائی. پستے بادام کی ہوائیاں کترتے صوفیہ نے اس کی بڑبڑاہٹ سن کر اسے خوب لتاڑا.
“بہت زبان چلتی ہے تیری.” وہ منھ بنائے تیزی سے چمچ چلانے لگی تھی، سوجی کی سوندھی سوندھی خوشبو سارے باورچی خانے میں پھیلی ہوئی تھی.
“صوفیہ چاچی.! باہر کوئی لڑکا آپ کو بلا رہا ہے، کہہ رہا ہے سعدیہ کا بیٹا ہادی ابراہیم ہوں.” فارہہ کا گیارہ سالہ بھائی اونچی آواز میں بولتا وہیں چلا آیا.
“پہنچ بھی گیا،” انھوں نے جلدی سے ہاتھ دھوئے اور اسے حلوے کا دھیان رکھنے کا کہہ کر باہر جانے لگیں
“میں نے بھی دیکھنا تھا نا امی فوجی کو.” وہ جلدی سے بولی مبادا وہ بھاگ ہی تو جائے گا
“پہلی بات تو یہ کہ وہ وردی میں نہیں آیا ہو گا. دوسری بات، خبردار جو اس کے سامنے تم نے کوئی اول فول بات کی تو… اور تیسری بات، کہیں بھاگا نہیں جا رہا وہ، حلوہ پکانے کے بعد مل لینا.” صوفیہ اسے لتاڑ کر باہر جا چکی تھیں، فارہہ کا بھائی حسن بھی کھی کھی کرتا ان کے پیچھے ہی بھاگا تھا، وہ بھی ایک فوجی سے ملنے کے لیے بےچین تھا.
صوفیہ بہت جوش سے اپنے بھانجے سے ملی تھیں، وہ سعدیہ کا پرتو تھا. نظریں جھکا کر بات کرتا، ٹھہرا ہوا لہجہ، انھیں بچپن والا شرارتی سا ہادی یاد آیا. وہ تو بالکل ہی بدل گیا تھا.
“بچپن میں تو بہت شرارتی ہوا کرتے تھے تم ہادی! اب لگتا ہے کافی سنجیدہ ہو گئے ہو.”
“اتنی جلدی کسی کے بارے میں رائے قائم نہیں کرتے امی جان.! کیا پتا یہ آپ کے سامنے بن رہے ہوں؟” اس سے قبل کہ وہ کچھ بول پاتا، کھنکتی، شوخ آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی.
“موتیا..!” صوفیہ نے خشمگیں نگاہوں سے اسے گھورا..
“یہ میری بیٹی ہے معتداء.. پیار سے سب موتیا کہتے ہیں.”
“لیکن امی جان ہمیشہ غصے سے ہی کہتی ہیں، ابھی ملاحظہ تو کیا ہو گا آپ نے.؟”وہ صوفیہ سے دور، کرسی پہ بیٹھی بول رہی تھی. تاکہ ان کے ہاتھوں سے محفوظ رہ سکے. ہادی بہت دلچسپی سے اسے دیکھ رہا تھا.
“اس کی باتوں پہ مت جانا، اسے عادت ہے ایسے بولنے کی. تم اٹھو، میں کمرہ دکھا دیتی ہوں، نہا کر تازہ دم ہو لو، پھر باتیں کرتے ہیں” وہ اپنا چھوٹا سا سفری بیگ اٹھائے ان کے پیچھے چل دیا، موتیا نے اٹھ کر پیچھے سے اسے خوب سر گھما گھما کر دیکھا تھا. اور اس کی اس حرکت نے ہادی کو اچنبھے میں مبتلا کیا تھا.
ہادی کا اس سے دوبارہ سامنا کھانے کی میز پہ ہوا تھا، لیکن اب وہ سارا وقت چپ ہی رہی، شاید ڈانٹ ڈپٹ کر خاموش رہنے کو کہا گیا تھا. صوفیہ نے ہر چیز بصد اصرار اسے کھلائی تھی، وہ نہ نہ ہی کرتا رہ گیا. لیکن اس کی ایک نہ چلی.
“ابو جان! لگتا ہے امی جان، اپنے بھانجے کو پہلی ہی ملاقات میں ہمیشہ کے لیے بھگا دینا چاہتی ہیں،” اس نے جھک کر باپ کے کان میں سرگوشی کی تھی، “اتنی شد و مد سے اسے ہائی کیلوریز والا کھانا کھلا رہی ہیں کہ اس کا وزن بڑھا ہی بڑھا، اب بھلا موٹے فوجی…!!” اپنی بات پہ وہ خود ہی کھلکھلا کر ہنسنے ہی والی تھی کہ حیدر نے فوراً تنبیہ کی.. وہ خود بھی چوکنی ہو کر سیدھی ہو رہی، صوفیہ اور ہادی کی نظریں اسی پہ تھیں، اس نے خوب باچھیں پھیلا کر دونوں کو دیکھا اور سر جھکا کر مسکراہٹ دباتے کھانا کھانے لگی. حیدر کھانے کے بعد قیلولہ کے عادی تھے، وہ اٹھ کر چلے گئے اور صوفیہ بھی چائے بنانے جا چکی تھیں، وہ میز پہ رکھے برتن سنک میں رکھ کر واپس آئی تو اسے اکیلا بیٹھے دیکھ کر پوچھ بیٹھی
“بات سنیں! کیا آپ واقعی فوجی ہیں؟”
“واقعی فوجی… کیا مطلب؟” وہ چونکا
“جی ہاں! میں پاک فوج میں ہی ملازمت کرتا ہوں. لیکن اس سوال کا مقصد.”
“اس سوال کا مقصد یہ ہے کہ میری سہیلی کو آپ فوجی لگ نہیں رہے.” فارہہ عین وقت پہ اندر داخل ہوئی تھی.
“فوجیوں کے سر پہ سینگ نہیں ہوتے محترمہ.! وہ بھی عام انسانوں جیسے انسان ہی ہوتے ہیں.” وہ ہنس دیا تھا.
“میں بھی اسے یہی سمجھاتی ہوں، لیکن یہ سمجھتی ہی نہیں ہے. دراصل میری سہیلی پاکستان کی ان اسی فیصد لڑکیوں میں شامل ہے جو فوجیوں پہ مرتی ہیں.”فارہہ نے اس کی گھوریوں اور ہوا میں لہراتے مکے کی چنداں پروا نہ کی تھی.
“پھر تو آپ کی سہیلی نجانے روزانہ کتنی بار مرتی ہو گی، کیونکہ اس علاقے میں فوجیوں کی آمد و رفت اکثر ہی جاری رہتی ہے.” اس کا انداز شرارت پہ آمادہ تھا
“جی نہیں.!” وہ چڑ کر گویا ہوئی تھی. ہادی اور فارہہ دونوں ہی ہنس دیے تھے. وہ غصے سے فارہہ کو دیکھ رہی تھی جو اس وقت پوری کی پوری میر جعفر بنی ہوئی تھی.
“مجھے تو اتنے اچھے نہیں لگتے فوجی، کیا آپ کو اچھے لگتے ہیں؟ فارہہ اب ہادی سے پوچھ رہی تھی.
“بالکل بھی نہیں.!” ہادی نے زور و شور سے نفی میں سر ہلایا، دونوں حیران ہی رہ گئیں کہ یہ پاک فوج کا کیسا جوان تھا جسے فوجی پسند نہیں تھے؟ ہادی ان کی نظروں کا مفہوم سمجھ گیا،
“میں خود ایک فوجی ہوں، بھلا اپنے ہوتے مجھے کوئی دوسرا فوجی کیسے اچھا لگ سکتا ہے.”
“اچھا فوجی تو دیکھو… ہونہہ..” موتیا نے منھ بنا کر فارہہ کو مخاطب کیا:
“فوجیوں کے اچھا لگنے کے لیے انسان کا محب وطن ہونا ضروری ہے.”
“اچھااااااا..؟؟؟” فارہہ ہنسی، اپنا وہ ایف اے میں لکھا مضمون یاد ہے،؟ “پاکستان کا قیام ناگزیر تھا.” اسے جیسے ہی یاد آیا اس نے اشارے سے فارہہ کی منت کی کہ ہرگز نہ بتائے، وہ بھی شاید سمجھ گئی کہ پہلی بار ملے اس کے کزن سے اتنی راز کی باتیں کرنا اچھا نہیں، جانے کیا سوچے گا کہ یہ دونوں پاگل ہیں. فارہہ چپ ہو گئی، ہادی نے بھی کریدنا مناسب نہ سمجھا تھا.
موتیا کو اب بھی یاد تھا کہ سیکنڈ ایر میں اردو کی میم نے “پاکستان کا قیام ناگزیر تھا” کے عنوان پہ مضمون لکھنے کا کہا تھا، اس کی اردو شروع ہی سے قدرے کمزور تھی، ناگزیر میں نا کے لفظ سے اس نے یہ مطلب اخذ کیا کہ پاکستان بننا ہی نہیں چاہیے تھا، بس یہی سوچ کر اس نے اپنے تئیں خوب دلائل دے کر تین اوراق پہ مشتمل لمبا سا مضمون لکھ دیا، کہ پاکستان نہیں بننا چاہیے تھا، ہم وہیں رہتے تو ٹھیک تھا وغیرہ وغیرہ… اس کے بعد اگلے دن میم نے جو سنائیں کہ بس اللہ دے اور بندہ لے… آج بھی وہ بے عزتی یاد تھی، وہ جھرجھری لے کر رہ گئی. پھر صوفیہ کے چائے لانے تک وہاں خاموشی ہی رہی تھی.
**…**…**…**…**..**
ایک رات صوفیہ خالہ کے گھر رہ کر ہادی واپس آ گیا تھا، سبھی بہت اچھے تھے، خصوصاً ان کی بیٹی معتداء عرف موتیا…
زندگی اپنی ڈگر پہ چل پڑی تھی، دن رات کے تھکا دینے والے معمولات میں جب کبھی وہ صوفیہ خالہ کے گھر کا چکر لگا آتا، اس کے بعد کئی کئی دن موتیا اور فارہہ کی باتوں کو یاد کرکے ہنستا رہتا تھا. سچ کہتی تھیں خالہ کہ اس کا بچپنا ابھی تک نہیں گیا تھا. گزشتہ دو مہینوں میں وہ ایک مرتبہ اچانک وردی میں ہی ان کے گھر چلا گیا تھا، اور وہ اسے دیکھ کر بچوں کی طرح خوش ہوئی تھی. اس دن بھی موتیا کی باتیں یاد کرتے دفعتاً ایک خیال بجلی کے کوندے کی طرح اس کے ذہن میں چمکا تھا. اس خیال کے آتے ہی ایک مسکراہٹ نے اس کے لبوں کو چھوا تھا اور اپنے اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اس نے فوری طور پر سعدیہ کو فون ملایا تھا.
“ملتے رہتے ہو صوفیہ خالہ سے؟ بہت تعریف کرتی ہے تمھاری.” حال احوال کے بعد سعدیہ نے بات چھیڑی. “بتا رہی تھی کہ موتیا بہت تنگ کرتی ہے تمھیں،”
“ارے نہیں ماما جان! کوئی تنگ ونگ نہیں کرتی، بس اسے فوجی بہت پسند ہیں اور وہ اپنی اس پسندیدگی کا اظہار بھی برملا کر دیتی ہے. اور ماما جان.! کزنز میں اتنا تو چلتا ہی رہتا ہے.” وہ کچھ سوچ کر مسکرا دیا. وہ جلد از جلد ذہن میں در آئے خیال کو الفاظ کا رنگ دے کر ان کے گوش گزار کرنا چاہتا تھا. “اچھا ماما جان سنیے نا.! میں نے یہ بتانے کے لیے فون کیا تھا کہ میں نے عدی بھائی کے لیے ایک لڑکی پسند کی ہے.” وہ بےتابی سے بتانے لگا
“ایک لڑکی پسند کی ہے. ” سعدیہ بس یہی سن پائی تھیں
**…**…**…**…**..**
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...