پتہ نہیں لوگ اسے گڑ ماما اور اس کی بیوی کو گڑ مامی کیوں کہتے تھے۔
گڑ مامی کا اصل نام صغراں تھا۔ وہ چودھوان سے دس میل دور گاؤں جنڈی میں اپنے ماں باپ کیساتھ رہتی تھی۔ اس کا باپ چرواہا تھا۔ وہ دن کے وقت جوار کی اور رات کے وقت گندم کی روٹی کھاتے تھے۔ صغراں کے پاؤں شل اور چھوٹے تھے جیسے کسی بچے کے ہوں مگر اس کا اوپر والا دھڑ اور ہاتھ ٹھیک اور مضبوط تھے۔ اس کا رنگ کالا مگر چمکدار اور خوبصورت تھا۔
صغراں کے باپ شجا کا ایک دوست فریدو، چودھوان کا رہائشی تھا۔ شجا جب بھی سودا سلف لینے چودھوان آتا تو اپنے دوست کے پاس ضرور پھیرا لگاتا۔ فریدو کا ایک بیٹا تھا جس کا نام رمضان تھا۔
رمضان کے دونوں ہاتھوں اور پاوؤں میں چھ چھ انگلیاں تھیں اور وہ لنگڑا بھی تھا۔ جنڈی میں کال آیا، تالاب سوکھ گئے اور لوگ پانی والے علاقوں کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے۔ شجا اپنی بیوی اور بیٹی کیساتھ اپنے دوست فریدو کے ہاں اٹھ آیا۔ فریدو کے گھر میں دو کچے کوٹھے تھے۔ انہوں نے ایک کوٹھا اپنے مہمانوں کو دے دیا۔
رمضان چونکہ معذور تھا اس لیے باپ نے اس کے ذمے صرف دو کام کیے تھے۔ صبح جنگل سے گدھے پر لکڑیاں لانا اور عصر کے وقت ندی سے پانی ڈھونا۔ صغراں کی ماں گھر کے دوسرے کام کرتی اور صغراں سارا دن چھپر کے نیچے بیٹھ کر کھجور کے پتوں سے چٹائیاں بناتی یا بان بنتی رہتی۔ اب شجا کھجور اتارنے کا کام کرنے لگا۔ اسے مزدوری میں پیسوں کے بجائے کھجوریں ملتی تھیں۔ جنہیں وہ بازار میں بیچتا اور جو کھجوریں بکنے سے رہ جاتیں انہیں وہ چارپائیوں پر ڈال کر دھوپ میں سکھاتے۔
رمضان لکڑیاں لانے اور پانی بھرنے کے بعد شجا کے گھر آ دھمکتا اور صغراں کیساتھ باتیں کرتا رہتا۔ وہ اس کے چھوٹے موٹے کام کرتا۔ اسے پینے کو پانی دیتا، بازار سے رنگ خرید کر دیتا اور کھجور کے پتے اٹھا کر دیتا۔
چھو ٹی عید سے ایک دن رہتا تھا۔ رمضان بے چین تھا، وہ لنگڑاتا ہوا کبھی صغراں کے گھر جاتا اور کبھی اپنے گھر چلا آتا۔ کبھی وہ بیٹھ جاتا اور کبھی صحن میں چکر لگانے لگتا۔ آخر دن کے ایک بجے جب اس کی اور صغراں کی ماں چھپر کے نیچے سو گئی تھیں اور صغراں کھجور کے رنگین پتوں سے چٹائی بن رہی تھی تو رمضان نے دائیں بائیں دیکھا، اپنی جیب سے مہندی کی پڑیا نکالی اور اس کی طرف بڑھا دی۔
“یہ لو۔ ”
“کیا ہے یہ؟”
” مہندی۔ ”
” کیوں ؟”
” کل عید ہے نا۔ ”
” تو پھر؟”
” ہاتھوں پر لگانا۔۔ ۔ میرے لیے لگانا۔۔ ۔ اور یہ یہ چوڑیاں بھی پہن لینا”۔ اسے اپنے کانوں سے دھواں نکلتا ہوامحسوس ہو رہا تھا۔ وہ خوف اور سراسیمگی چھپانے کیلئے فوراً وہاں سے چلتا بنا۔
صبح عید تھی۔ رمضان میٹھے چاول صغراں کی امی کو دینے گیا تو وہ خوشی سے پھولے نہ سما سکا۔ صغراں کے ہاتھ مہندی سے رنگے ہوئے تھے اوراس کے کالی کلائیوں پر چوڑیاں کھنک رہی تھیں۔
چار مہینے بعد بارشیں ہوئیں جنڈی کے ٹوبھوں، جوہڑوں میں پینے کا پانی جمع ہو گیا تھا۔ شجا اور اس کا خاندان واپس اپنے گاؤں جانے کیلئے بوریا بستر باندھ رہے تھے۔ رمضان اوروں سے نظریں چرا کر اپنی محبوبہ سے ملنے گیا۔
“یہ۔۔ ۔ نشانی۔۔ ۔ رکھ لو۔ “رمضان نے صغراں کے ہاتھ میں چاندی کا چھلّا تھما دیا۔
” یہ رنگین چٹائی۔۔ ۔ میں نے تیرے لیے بنائی ہے۔ اس پر سونا، بیٹھنا۔ یہ تمہیں میری یاد دلائی گی۔ ” صغراں نے کہا۔
” میں اس پر کبھی نہیں بیٹھوں گا، نہ کبھی سوؤں گا، کیونکہ ایسا کرنے سے یہ گھس جائے گی”۔
“تیری مرضی۔۔ ۔ ہمارے گاؤں آؤ گے نا ؟”
“ہاں آؤں گا ”
کوئی ڈیڑھ ماہ بعد رمضان، صغراں کو ملنے جنڈی گیا اور پورے ایک ماہ تک ان کا مہمان رہا۔ وہ گدھے پر ان کا پانی بھرتا اور لکڑیاں لاتا۔ ایک دن جب صغراں کی ماں پڑوسیوں کے گھر گئی ہوئی تھی تو رمضان نے جیب سے چھنچھناتی پائیل نکالی۔
“صغراں میں چودھوان سے تمہارے لیے پائیل لایا ہوں !”
“پائیل ؟؟؟”
“ہاں، پائیل کی چھنچھناہٹ مجھے اچھی لگتی ہے۔ ہمارے گاؤں کی ساری لڑکیاں پہنتی ہیں ”
” مگر۔۔ ۔ میں۔۔ ۔ پائیل۔۔ ۔ ”
“کیوں تمہیں پائیل اچھی نہیں لگتی ؟؟؟”
“لگتی ہے۔۔ ۔ مگر۔۔ ۔ ” رمضان اس کی بات نہ سمجھ سکا۔
ایک دن اس کا باپ اسے لینے جنڈی آیا مگر وہ نہ مانا۔ آخر ایک ہفتہ بعد اسے ماں لینے آئی تو اس نے بڑھیاسے دل کی بات کہہ ڈالی۔
شادی کے ۰ ۳سال بعد رمضان اور صغراں درابن میں ایک کچی کوٹھڑی میں رہتے تھے۔ ان کے بچے نہ ہوئے۔ لوگ اب رمضان کو گڑ ماما اور اس کی بیوی کو گڑ مامی کہتے تھے۔ گڑ ماما صبح سویرے اپنی شل بیوی کو کندھے پر رکھ کر بازار لے جاتا، جہاں وہ دونوں عصر تک بھیک مانگتے۔ لوگ ان کے کالے کاسوں میں ٹماٹر، مالٹے، مٹھائی، پیسے اور چائے ڈالتے۔
گڑ مامی کی نظر کمزور ہو گئی تھی۔ رات کے وقت تو اسے کچھ بھی نظر نہیں آتا تھا۔ وہ نسوار رکھتی اوراس کے منہ سے ہر وقت رال ٹپکتی رہتی۔ اپنے خاوند کو خوش کرنے کیلئے اب بھی وہ اپنے چھوٹے اور شل پاوؤں میں دن رات پرانی، زنگلی پائیل پہنے رہتی۔
گڑ ماما کے بال سفید ہو چکے تھے۔ وہ پہلے سے کچھ زیادہ لنگڑا کر چلتا تھا۔ وہ حقہ پیتا تھا، نسواربھی رکھتا اور کبھی کبھار اسے پینے کیلئے بھنگ کی ایک آدھ منگری مل جاتی تو اسے بھی چڑھا لیتا۔ ان کے ہاں چھ سات کتے رہتے تھے جنہیں وہ اپنی بچی کچی روٹی دیتے تھے۔
ایک دفعہ ان کی کوٹھڑی کے اندر ایک کتیا نے بچے دیے جنہیں دیکھنے کے لئے محلے کے سارے بچے دن کے وقت ان کے ہاں جمع رہتے۔ جب پلے کچھ بڑے ہوئے تو سارا دن ان کی دیگچیوں، کٹوروں، تھالیوں میں منہ مارتے رہتے۔
شیرو درابن کا ایک مشہور کردار تھا۔ جوانی میں وہ بڑے بڑے ڈاکے ڈالتا تھا۔ اپنی کرتوتوں کی وجہ سے اس کی شادی نہ ہو سکی۔ وہ بڑھاپے کے کنارے منڈلا رہا تھا۔ اب وہ چھوٹی موٹی چوریاں کر کے گزارا چلاتا۔ ایک دن عشاء کی نماز کے وقت وہ سوجی، گڑ اور گھی لئے گڑ ماما کے آستانے پر آیا۔
“آج میں تمہیں اپنے ہاتھ کا بنا ہوا حلوہ کھلاؤں گا۔ ” اس نے اپنے سامان کی نمائش کرتے ہوئے کہا۔
اس نے آگ پر کڑہائی چڑھا کر حلوہ بنایا۔ سب نے مل کر حلوہ کھایا۔ وہ رات گئے تک اپنے میزبانوں کو اپنی زندگی کے واقعات سناتا رہا۔
“گڑ ماما میرا گھر دور ہے اور سردی بھی بہت ہے۔ اگر آپ اجازت دیں تو میں یہاں سو جاؤں ؟”
” ہاں ہاں، کیوں نہیں۔۔ ۔ مگر ہمارے پاس تو صرف دو رضائیاں ہیں اور وہ بھی میلی اور پھٹی ہوئی “۔
“مجھے رضائی کی ضرورت نہیں ہے۔ میرے پاس اپنا موٹا دھُسا ہے “۔ وہ سب گول چولہے کے اردگرد زمین پر لیٹ گئے۔ بہت جلد میاں بیوی نیند میں خراٹے لینے لگے۔ شیرو نے جیب سے خنجر نکالا، گڑ مامی کے ازاربند کو خنجر سے کاٹا اور۔۔ ۔۔
گڑ مامی امید سے ہو گئی۔ اس کا وزن بڑھتا گیا۔ اب وہ صبح بھیک مانگنے بازار جاتے تو گڑ ماما کو دگنا وزن اٹھنا پڑتا مگر وہ خوش تھا۔ پھر ایک دن گڑ مامی کا بیٹا پیدا ہوا۔ گڑ ماما ایک ٹانگ پر ناچتا گلی میں آیا اور اعلان کیا” ہمارا بیٹا ہوا ہے ! ”
دیکھتے ہی دیکھتے ان کی کالی کوٹھڑی محلے کی بڑی بوڑھیوں سے بھر گئی۔ کوئی ننھے مہمان کیلئے کپڑے لا رہی ہے تو کوئی اس کی ماں کیلئے دیسی گھی اور چوزے۔ تین چار روز تک دن کے وقت ان کی کوٹھڑی میں میلہ لگا رہتا تھا۔ کچھ عورتوں نے کوٹھڑی کی صفائی کی، کچھ نے ان کے برتن دھوئے۔ ایک آدمی نے انہیں دو رضائیاں دیں۔ دوسرے نے انھیں پنگھوڑا خرید کر دیا۔
اب بھیک مانگنے گڑ ماما اکیلا جاتا۔
ان کے گھر عورتوں کی آمدورفت آہستہ آہستہ کم ہوتی گئی۔ لیکن ایک بڑھیا باقاعدگی سے صبح ان کی کوٹھڑی میں آتی، تلوّں کے تیل اور گندھے ہوئے آٹے سے بچے کی مالش کرتی، اسے شیر گرم پانی سے نہلاتی، اور اسے صاف ستھرے کپڑے پہنا کر چلی جاتی۔ بچے کی پیدائش کو ایک مہینہ ہوا ہو گا۔ ایک رات گڑ مامی نے سوتے میں بچے کو کچل دیا اور ان کی کالی کوٹھڑی بے چراغ ہو گئی۔
اب میاں بیوی بھیک مانگنے اکٹھے جاتے تھے۔
کچھ ماہ بعد گڑ مامی سخت بیمار ہوئی، اس کا شوہر اسے کندھے پر اٹھائے طبیبوں اور پیروں کے پاس پھراتا رہا مگر وہ صحت یاب نہ ہوئی۔ پھر ایک رات وہ وقت چل بسی۔ گڑ ماما بجائے اس کے کے لوگوں کو اپنی بیوی کی موت کے بارے میں بتاتا۔ وہ ایک دن اور ایک رات تک اپنی مردہ بیوی کو دیکھتا اور روتا رہا۔ دوسرے دن اس کے رونے کی آواز پر ایک پڑوسی عورت ان کی کوٹھڑی میں آئی۔ پھر سارا محلہ ان کی کوٹھڑی میں جمع ہو گیا۔ انہوں نے فوراً قبر کا بندوبست کیا، میت کو غسل دیا مگر جب اسے قبرستان لے جانے کی باری آئی تو گڑ ماما اپنی مردہ بیوی کی چارپائی سے چمٹ کر بیٹھ گیا۔ “تم اسے کہیں نہیں لے جا سکتے۔ یہ میری جان ہے۔ میں اس کے بغیر اکیلا کیسے رہ پاؤں گا ؟میری ایک ہی تو دوست تھی دنیا میں۔ تم اسے کہیں نہیں لے جا سکتے “۔
“ہم تو اسے بڑے ڈاکٹر کے پاس لے جا رہے ہیں “۔ ایک آدمی نے اسے تسلی دی۔
لوگ جنازہ لے گئے اور گڑ ماما بدستور کوٹھڑی میں بیٹھا رہا۔ جب اسے پتہ چلا کہ لوگ اس کی بیوی کو دفنا آئے ہیں تو وہ اس کی قبر پر گیا اور کئی دن تک وہاں بیٹھا رہا۔ اس دوران محلے کے گدھوں، کتوں اور بلیوں نے اس کی کوٹھڑی میں بسیرا بنا لیا تھا۔ کوئی دس دن بعد جب وہ واپس اپنے ڈیرے پر آیا تو اس کے گھر کی تمام چیزیں گڈ مڈ پڑی تھیں۔ کچھ برتن تو کتے چرا کر اپنے مالکوں کے گھر لے گئے تھے۔ گڑ مامی کی موت کے بعد اس نے بھیک مانگنا چھوڑ دیا۔ محلے کے کچھ بھلے لوگ صبح شام اس کے کالے کاسے میں کھانا ڈال کر چلے جاتے۔
گڑ مامی کو رخصت ہوئے ایک مہینہ گزر گیا ہو گا۔ گڑ ماما نے اپنی گدڑی اور چھڑی سنبھالی اور اپنے آبائی گاؤں چلا گیا۔ جب وہ چھ مہینے بعد اپنے ڈیرے پر لوٹا تو اس کی کوٹھڑی کا تالا ٹوٹا ہوا تھا۔ اس کی زیادہ چیزیں چوری ہو گئی تھیں اور صرف وہ چیزیں پڑی تھیں جو انتہائی غلیظ یا بیکار تھیں۔ اس کا جی اب نہ بھیک مانگنے میں لگتا تھا، نہ حقہ پینے میں۔ کبھی کبھار وہ دن کو سویا رہتا اور بھیک مانگنے رات کے وقت جاتا جب بازار میں کوئی آدمی نہ ہوتا اور بعض اوقات وہیں بازار میں سو جاتا۔ وہ اکثر بھیک مانگتے مانگتے رو دیتا۔ لوگ اسے زیادہ پیسے دیتے مگر وہ پیسوں کو اپنے کپڑوں سے جھاڑ کر کوٹھڑی میں آ جاتا۔ اب کچھ لڑکے اور کبھی کبھار ایک آدھ بھکاری اس کے کاسے سے پیسے اٹھا کر چلتا بنتا۔
ایک دن وہ صبح سے رات تک ندی سے پانی بھرتا رہتا۔ ایک دفعہ اسے جنگل سے لکڑیاں لانے کا جنون چڑھا۔ وہ پورے دو مہینے تک لکڑیاں ڈھوتا رہا۔ پھر اسے پرانے کاغذ اور چیتھڑے چننے کی عادت پڑ گئی۔ وہ سارا دن بازاروں گلیوں میں پھرتا، کاغذوں اور چیتھڑوں سے جیب اور جھولی بھر کر لاتا اور کوٹھڑی میں جمع کرتا۔ پھر اسے پرانے ٹوٹے ہوئے مٹی کے برتن اکٹھے کرنے کا شوق چرایا۔ وہ کمہاروں کے آوؤں سے ٹوٹے برتن لاتا اور اپنی کوٹھڑی کے اندر اور باہر اکٹھا کرتا رہتا۔ پھر سب چھوڑ چھاڑ کروہ گڑ مامی کی قبر پر بیٹھ گیا۔ اس نے قبر کے اردگرد کھجور کی چھڑیاں گاڑیں ان پر رنگ برنگے چیتھڑے ٹانک دیے۔ مٹی کے ٹوٹے برتنوں میں پرندوں کیلئے پانی اور دانہ رکھا۔ دن میں وہ ساٹھ ستر دفعہ قبر کے گرد جھاڑو لگاتا، قبر کے ہر پتھر کو بیسیوں دفعہ قمیص پر رگڑ کر صاف کرتا اور واپس اپنی جگہ پر رکھ دیتا۔ وہ دن کے وقت بھی قبر پر چار پانچ دیے جلا کر بیٹھا رہتا۔
قبر پر ایک مہینہ رہنے کے بعد وہ دوبارہ اپنی رہائش گاہ پر آیا۔ اس کی کوٹھڑی میں ٹوٹے برتنوں کے انبار میں کتیا نے بچے دیے ہوئے تھے۔ کوئی پلا ٹوٹی اوکھلی میں سویا ہوا تھا تو کوئی ٹوٹی ماٹی یا پرات میں۔ جب گڑ ماما چیتھڑوں، کاغذوں، ٹوٹے برتنوں سے بھری کوٹھڑی میں داخل ہوا تو کتیا نے اس پر حملہ کر دیا۔ اسے پنڈلی پر دو جگہوں پر سخت کاٹا مگر اس نے کتیا کو کچھ نہ کہا۔ وہ چیتھڑوں اور کاغذوں کے ڈھیر پر بیٹھ گیا۔ دوسرے دن وہ روٹی لینے پڑوسیوں کے گھر گیا۔ واپس آ کر کتیا اور پلوں کے ساتھ مل کر اس نے روٹی کھائی۔ شام کو وہ پڑوسیوں کے گھر سے ٹھیکری میں سلگتا ہوا اپلا لایا اور چولہے میں آگ جلا دی۔ وہ آگ تاپتا رہا پھر چولہے کے قریب سو گیا۔ کتیا اور پلے بھی آگ کی تپش میں مزے سے چولہے کے اردگرد لیٹے رہے۔
کئی دنوں تک گڑ ماما نظر نہ آیا۔ کچھ پڑوسی یہ سمجھ رہے تھے کہ وہ واپس اپنے گاؤں چلا گیا ہو گا اور کچھ یہ کہہ رہے تھے کہ وہ اپنی بیوی کی قبر پر بیٹھا ہو گا۔
ایک دن فیضو اپنا گدھا تلاش کرتے ہوئے گڑ ماما کی کوٹھڑی کی طرف آ نکلا۔ اس نے دیکھا کے کوٹھڑی کا دروازہ اندر سے بند ہے اور جلا ہوا ہے۔ اس نے گلی سے دو تین آدمیوں کو بلایا۔ انہوں نے دروازے کو ہلکا سا دھکا دیا۔ دروازہ خود بخود اندر کی طرف گر گیا۔
کاغذ، چیتھڑے، رضائیاں سب خاکستر ہو چکے تھے۔ کوٹھڑی ناکارہ آوا لگ رہی تھی۔ ٹوٹے برتنوں اور راکھ کے ڈھیر میں گڑ ماما کی لاش جلی پڑی تھی۔ فیضو نے اس کے بازو کو ہاتھ لگایا تو کڑک کر کے ٹوٹ گیا جیسے وہ جلے ہوئے دروازے کا حصہ ہو۔
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...