اکبر: تم نے کچھ گھوم پھر کر بھی دیکھا گاؤں کو۔
آفتاب : ہاں ابو۔۔۔ میں یہاں کے لوگوں سے بھی ملا بہت اچھے لوگ ہیں
اکبر: اس لئے تمھیں یہاں لایا ہوں کہ اپنی آنکھوں سے دیکھو۔ وہ کیسی زندگی ہے جس کے لئے ہم تڑپتے ہیں۔ گاؤں میں رہ کر انسان فطرت کے کتنا قریب ہوتا ہے، اس کا اندازہ شہر میں رہ کر نہیں لگایا جا سکتا۔
آفتاب: شہر کی بات شہر کے ساتھ، گاؤں کی بات گاؤں کے ساتھ ہے ابو۔ یہ بھی اچھا وہ بھی اچھا
اکبر: اس کا مطلب یہ ہے کہ تم نے گاؤں کو دیکھا ہی نہیں۔ دوپہر کو تمھیں کھیتوں کی سیر کراؤں گا۔ اس کے بعد اپنی زمینوں پر چلیں گے۔ زیادہ دور نہیں ہیں۔ ایک طرف لہلہاتی ہوئی کھیتیاں دوسری طرف خاک اڑاتی ہوئی ہماری زمینیں۔
(کوے کی آواز)
کوے کی آواز سن رہے ہو۔ شہر کے کوے ایسی کائیں کائیں کیا جانیں۔ یہ آواز ہی اور ہے کائیں کائیں مگر سریلی
آفتاب : (ہنس کر) آپ بھی کمال کرتے ہیں ابو۔ اب شہر کے کوؤں اور گاؤں کے کوؤں کی آواز میں بھی فرق ہو گیا۔
اکبر : یہ فرق آواز کا نہیں ماحول کا فرق ہے ہر چیز کا ایک اپنا ماحول ہوتا ہے کوئی چیز اپنے آس پاس کی چیزوں سے ہم آہنگ ہو کر بھی اپنا روپ نکھارتی ہے۔ کتنے پودے کتنے ہی پیڑ۔۔ جو ایک خاص زمین پر ہی پھولتے پھلتے ہیں۔ دوسری آب و ہوا میں مرجھا جاتے ہیں۔ ہمیں بھی بہت دنوں تک اپنی زمین اور اپنی آب و ہوا سے دور رہنا پڑا مگر ہم سخت جان تھے صرف افسردہ ہوئے مرجھائے نہیں مرے نہیں۔
آفتاب : ابو
اکبر : تم نہیں جانتے۔ کوئی نہیں جانتا کوئی بھی تو نہیں جانتا کہ بیس بائیس سال ہم نے کس تکلیف کس کرب میں گزارے ہیں۔ ہر دن نے ہمیں زخم دئیے ہیں ہر رات نے ہمیں آنسو دئیے ہیں ہم پیدا ہوئے تھے گاؤں میں رہنے کیلئے۔۔۔ فطرت سے قریب رہنے کے لئے اور ہمیں رہنا پڑا شہر میں مشینوں کے درمیان۔
آفتاب : ہاں میں جانتا ہوں ابو
اکبر: مگر لاحول ولا ہم بھی کیا تذکرہ لے بیٹھے۔ ارے بیٹے یہ ایک دن جو یہاں رہنے کو مل گیا ہے تو اس سے پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہئیے۔ آج کا ایک ایک لمحہ ایک ایک پل قیمتی ہے۔ خوشی کی گھڑیاں۔۔۔ مسرت کے لمحے جی چاہتا ہے ایک ایک درخت سے گلے ملوں۔۔۔ ہوا کے ساتھ اڑوں پانی کے ساتھ پھسلتا جاؤں۔ کھیلو کودو ہنسو گنگناؤ۔
(ہنستا ہے جاتے ہوئے)
میں ذرا چوہدری کی طرف جا رہا ہوں۔ اکھاڑے میں پٹھوں کو زور کرتے ہوئے بھی دیکھوں گا۔ تمھارا جی چاہے تو کہیں گھوم پھر آنا۔ مگر زیادہ دور نہ جانا کبھی راستہ بھول جاؤ۔ پھر اپنی زمینوں پر چلیں گے۔ ہاں ہماری زمینیں۔۔۔ (جاتا ہے)
آفتاب : (خود سے) ابھی وہ مجھے بچہ سمجھتے ہیں۔ کہتے ہیں کبھی رستہ بھول جاؤں مگر میں۔۔۔ مجھے کہیں جانا ہی کب ہے۔ میں نے کچھ ایسا غلط بھی تو نہیں کہا ابو سے کہ شہر کی اپنی خوبیاں ہیں اور گاؤں کی اپنی خوبیاں ہیں۔ مگر ابو کی خواہش، ابو کی تمنا۔ زمینوں کی نئی زندگی۔ میں ان کا یہ خواب ضرور پورا کروں گا۔ مگر پیسہ بہت پیسہ چاہئیے۔ فیکٹری میں کام کرتا ہوں۔ پوری محنت پوری جانفشانی سے۔ جیسا انکل نے سمجھایا تھا ویسا ہی۔ لیکن کیا اپنی محنت سے میں اتنی دولت کما سکوں گا اور وہ رضیہ۔۔۔ عجیب سی لڑکی۔۔۔ اتنی آزاد۔۔۔ اتنی فارورڈ
نوری: (داخل ہوتی ہے) لالی، لالی، لالی آئی ہے ادھر
آفتاب: لالی۔۔ کون لالی۔۔ آں
نوری: تم لالی کو نہیں جانتے
آفتاب : نہیں
نوری: پھر کسے جانتے ہو
آفتاب : (گھبراتا ہے) کسے۔۔۔ پھر کسے جانتا ہوں
نوری: ہاں ہاں جب لالی کو نہیں جانتے تو پھر کسی کو نہیں جانتے
(ہنستی ہے)
آفتاب : میں آج ہی یہاں آیا ہوں اس لئے
نوری: مجھے پہلے ہی پتہ ہے صبے آئے ہو تم اکبر چاچا کے ساتھ۔ تم ان کے بیٹے ہو۔ تمھارا نام آفتاب ہے۔ آفتاب سورج کو کہتے ہیں۔ مجھے تو سب پتہ ہے۔ پر تمھیں یہ بھی پتہ نہیں کہ لالی کون ہے۔ اسے تو گاؤں کی گلہری تک جانتی ہے۔
(ہنستی ہے)
آفتاب : گلہری جانتی ہو گی اسے۔۔۔ میں گلہری نہیں ہوں
نوری: میں کب کہتی ہوں گلہری ہو۔ تم تو بابو ہو
آفتاب : بابو کیا ایسے ہوتے ہیں
نوری: اور نہیں تو کیا۔۔۔ اس چشمے میں سے کیا کالا نظر آتا ہے
آفتاب: نہیں۔۔ ہرا
نوری: ہرا ہرا تو ساون کے اندھے کو نظر آتا ہے
(ہنستی ہے)
ذرا مجھے دکھانا۔۔ یہ چشمہ
آفتاب : کیا۔۔۔ یہ چشمہ
نوری: کھا نہیں جاؤں گی تمھارے چشمے کو۔ بس یہ ہے کہ مجھے شوق ہے شوق۔ بہت دنوں سے ایسے چشمے کا۔۔۔ ہائے اللہ تم سچ بول رہے تھے۔ اس میں سے تو ہرا دکھائی دیتا ہے۔ آہا۔۔۔ دھوپ بھی ہری ہو گئی۔
(ہنستی ہے)
آفتاب: کیا نام ہے تمھارا
نوری: میں نوری ہوں۔۔ چوہدری کی بیٹی۔۔ سمجھے چوہدری کی بیٹی نوری
آفتاب : نوری۔۔۔
نوری: ہوں۔۔۔ لو اپنا چشمہ
آفتاب: تجھے پسند ہے؟
نوری: نہیں۔۔۔ میں تو مذاق کر رہی تھی۔۔۔ چشمہ وہ لگائے جس کی آنکھوں میں کوئی عیب ہو۔
آفتاب : تیری آنکھوں میں کوئی عیب نہیں ہے؟
نوری: نہیں
آفتاب ؛ دیکھوں۔۔۔ ذرا دیکھ میری طرف۔۔۔ میری آنکھوں میں ہاں ہاں
نوری: لو دیکھو
(مختصر وقفہ)
آفتاب : (جذباتی) نوری
نوری: ہوں
آفتاب: نوری
نوری : ہوں
آفتاب : یہ آنکھیں نہیں ہیں دو جھیلیں ہیں گہری اور بہت ہی گہری
نوری: تمھاری آنکھیں تو لیٹ (لائٹ) (ہنستی ہے)
آفتاب : ارے ارے کہاں چلی۔۔۔ یوں ایکدم
نوری: (تھوڑے فاصلے پر) لالی کو ڈھونڈنے
آفتاب: لالی؟
نوری: ابھی نہیں پہنچانے۔۔۔ صبح جب تم اکبر چاچا کے ساتھ آ رہے تھے
آفتاب : ہوں
نوری: تو وہاں کچے راستے کے بائیں طرف لمبی لمبی گھاس ہے
آفتاب: ہے
نوری: گھاس میں نیم کا اتنا بڑا پیڑ ہے
آفتاب: نیم کا پیڑ ہے
نوری: بس تو صبح اس نیم کے پاس کھڑی تھی لالی اور میں اس کے پاس بیٹھی تھی۔ تم نے مجھے بالکل نہیں دیکھا۔ بس لالی کو دیکھتے ہوئے چلے گئے۔
آفتاب : صبح نیم کے پاس لالی۔۔ میں نے دیکھا تھا اسے۔۔ بھلا کیسے کپڑے تھے اس کے؟
نوری : کپڑے
(ہنستی ہے)
آفتاب: کیوں۔۔ اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے؟
نوری: کپڑوں کو جو پوچھا
(ہنستی ہے)
پہچان بتاؤں اس کی
آفتاب: بتاؤ
نوری: سفید پٹی چڑھی ہوئی تھی اس کے دونوں۔۔۔ سینگوں پر۔۔
آفتاب : سینگوں پر؟
نوری: ہوں
آفتاب : وہ بکری۔۔۔ لال بکری جو نیم کے پاس کھڑی تھی
(بکری کی آواز)
یہ لو وہ یہیں آ گئی
نوری: لالی تو آ گئی۔۔۔ جب میں اسے نہیں ڈھونڈتی تو یہ مجھے ڈھونڈ لیتی ہے
(دونوں ہنستے ہیں اور بکری بولتی ہے)
(میوزک)
(چینج اوور)
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...