انوار احمد قریشی نشتر
اکولہ
گانجے کا اثر
ہر گھڑی میرا خلاؤں میں گزر ہوتا ہے
پاؤں دھرتی پہ مگر عرش پہ سر ہوتا ہے
کس قدر گانجے کی پڑیا میں اثر ہوتا ہے
ڈر تھا نظروں کا تصادم نہ بنا دے پاگل
بزم جاناں میں گئے شیخ لگا کر گاگل
جیسے موٹر کی حفاظت کو ’’بفر‘‘ ہوتا ہے
وائے قسمت مجھے معشوق ملا ہے بھینگا
ٹیڑھی آنکھوں کا ہر اک تیر نظر ہے ترچھا
دل نشانہ ہے مگر چھلنی جگر ہوتا ہے
ناقدِ شعر و سخن ہوں کرو عزت میری
خام کارانِ ادب کو ہے ضرورت میری
جیسے پنسل کے مٹانے کو ربر ہوتا ہے
بوجھئے آپ بھلا کیا ہے تخلص میرا
نشر ہو حال اگر ’’تے‘‘ کا اٹھا دیں ڈیرا
نون اور شین ہٹا دینے پہ نر ہوتا ہے
۲
قرضوں کا ایک پہاڑ ہے خادم کی جان پر
بیگم کی ہے نگاہ فقط نائیلان پر
آدھی پگار اٹھتی ہے اک پاندان پر
دو بار قرقی آ چکی میرے مکان پر
جوں پھر بھی رینگتی نہیں بیگم کے کان پر
’’بَٹ‘‘ اور ’’پُٹ‘‘ کا کیوں ہے تلفظ جدا جدا
’’واک‘‘ اور ’’ٹاک‘‘ میں نہ کریں ’ایل‘‘ کو کیوں ادا
’’سی ایچ‘‘ سے نکلے ’’چے‘‘ کی، کہیں ’’کاف‘‘ کی صدا
انگلش زبان کیسی نرالی ہے اے خدا
حاوی ہو کیسے کوئی بھلا اس زبان پر
کڑکی کا سخت دور ہے تنخواہ ہوئی تمام
مہماں بھی آ گئے مرا کرنے تمام کام
طعنے بھی سن کے جانے کا لیتے نہیں ہیں نام
’’کل جائیں گے‘‘ وہ کہتے ہیں ہنس ہنس کے صبح و شام
لعنت خدا کی ایسے ’’چکٹ‘‘ میہمان پر
معشوق اس صدی کا وفا سے ہے بے خبر
آہ و فغاں کا اس پہ نہیں ہوتا کچھ اثر
عشاق کے دلوں پہ نہیں جیب پر نظر
یوں بن سنور کے بام پہ ہوتا ہے جلوہ گر
بیٹھا ہو جیسے کوئی شکاری مچان پر
نشتر ترے رقیب ہوئے جاتے ہیں کباب
پیتے گھونٹ خون کے کھاتے ہیں پیچ و تاب
باتوں کا تیری ان کو نہیں سوجھتا جواب
سر جوڑ کے بناتے ہیں منصوبے بے حساب
بیٹھے ہوں جیسے چار چغد اک چٹان پر