یار کہاں لائے ہو ۔۔۔کب سے یونہی بے مقصد چکر کٹوا رہے ہو ۔۔حزیفہ نے زچ ہوتے ہوئے کہا ۔۔
یار تابی کی سالگرہ آنے والی ہے اور مجھے اس بار اسے بہت گندا والا سرپرائز دینا ہے ۔۔۔حدید نے آس پاس نظر دوڑاتے ہوئے کہا ۔۔۔
جبھی پارکنگ ایریا کی جانب بڑھتے حزیفہ کی نظر تابین پر پڑی جو چوڑی دار پاجامے میں لونگ شرٹ پہنے گلے میں مفلر کی طرح دوپٹہ ڈالے بالوں کو کھلا چھوڑے لوگوں کے ہجوم میں کسی لڑکے کے ساتھ کھڑی باتیں کرنے میں مصروف تھی ۔۔
یکدم اسکے چہرے پر خوشگواریت ک بجائے غصے نے جگہ لے لی ۔۔
وہ مال سے نکلتے ہوئے پارکنگ ایریا کی جانب بڑھتے ہوئے گاڑی کی چابی ٹٹولنے لگی ۔۔۔کوشش کرنے کے با وجود بھی اسے چابی نہ ملی ۔۔
کہاں گئی ۔۔وہ یاد کرنے لگی ۔۔۔
اچانک اسے اپنے پیچھے کسی کی آواز سنائی دی ۔۔
سنیں ۔۔۔۔۔
وہ پیچھے کی جانب مڑی ۔۔جہاں ایک لڑکا آنکھوں پر چشمہ لگائے ۔۔پھولتی سانس کو سمبھالنے میں لگا تھا ۔۔
تم ۔۔۔تم تو وہی ہو نہ ۔۔۔تابین نے یاد آنے پر پوچھا ۔۔۔
لیکن میرا پیچھا کیوں کر رہے ہو ۔۔۔؟ شرم نہیں آتی ۔۔۔تابی اس پر چلانے لگی جبھی وہ کچھ بولنے کے قابل ہوا ۔۔۔
وہ ۔۔۔یہ آپکے بیگ سے گر گئی تھی میں نے کافی بار آواز دی مگر شاید آپ شاپنگ میں اتنی مگن تھیں جبھی سن نہ پائی۔۔وہ چابی اسکے سامنے کرتے ہوئے گویا ہوا ۔۔
اوہ ۔۔۔ہاں مجھے تو یاد ہی نہیں رہا ۔۔۔وہ شرمندہ ہوتے ہوئے بولی ۔۔
جی اکثر ایسی حالت میں چیزیں بھولنا شروع ہو جاتی ہیں ۔۔وہ اسکے ہاتھ میں پکڑے شوپنگ بیگز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا ۔۔۔
اب ایسی بھی بات نہیں اچھا ۔۔۔۔تابی ناک چڑاتے ہوئے بولی ۔۔۔
ویسے تمہارا نام کیا ہے ۔۔۔؟وہ جا ہی رہا تھا جبھی تابی نے پوچھ لیا ۔۔۔
ابھی وہ کوئی جواب دیتا اس سے پہلے اسکا موبائل بج اٹھا ۔۔۔ہیلو گڑیا ۔۔۔اس نے تابی کو ہاتھ کے اشارے سے رکنے کا بول کر فون کان سے لگایا ۔۔۔
تابی اسکا جائزہ لینے لگی ۔۔۔عام سادے سے حلیے میں آنکھوں پر چشمہ لگائے بھی وہ دیکھنے لائق لگ رہا تھا ۔۔ہاتھ میں ایپل کے بجائے نوکیا کہ موبائل دیکھ کر تابی کو حیرت ہوئی ۔۔ہم نت نئے موبائلز کے لئے لڑتے رہتے ہیں اور یہ بیچارہ بٹنوں والے سادے سے موبائل میں بھی خوش تھا ۔۔
کیا ہوا اماں کو ۔۔۔۔باسط کے چہرے کے رنگ اڑتے دیکھ کر تابی خیالات کی دنیا سے جاگی ۔۔
اچھا تم پریشان نہ ہو میں ابھی پہنچتا ہوں ۔۔۔مناہل کی روتی آواز سن کر اسکا دل دہل گیا ۔۔۔
کیا ہوا ۔۔۔؟خیریت ہے ۔۔؟فون کان سے اتارتے ہی تابی نے فوراً پوچھا ۔۔
میری اماں کی طبیعت خراب ہے مجھے جانا ہوگا ۔۔۔چشمے کے اس پار بھی اسکی نم ہوتی آنکھیں وہ با آسانی سے دیکھ سکتی تھی ۔۔۔
نہ جانے تابی کو اس سے ہمدردی محسوس ہوئی ۔۔وہ فوراً گویا ہوئی ۔۔۔چلو میں ڈراپ کر دیتی ہوں ۔۔
اسکی ضرورت نہیں ۔۔۔میں رکشہ لے کر چلا جاؤں گا ۔۔۔
ارے تمہیں وقت لگے گا ۔۔اور ویسے بھی میں اتنی گندی ڈرائیو نہیں کرتی تمہیں جلدی سے پہنچا دوں گی ۔۔۔تابی کے پر زور کہنے پر وہ ناچار بیٹھ گیا ۔۔اسے اس وقت اپنی ماں کی زندگی عزیز تھی اور کچھ نہ ۔۔۔
ابھی وہ غصے میں تابی کی جانب بڑھ رہا تھا جبھی تابی جلدی سے اس لڑکے کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر اسکی آنکھوں کے سامنے چلتی بنی ۔۔
وہ مٹھیاں بھینچ کے رہ گیا ۔۔۔
۔***************۔
دونوں گھروں میں شادی کی تیاریاں عروج پر تھیں ۔۔۔۔۔ھر طرف خوشیوں کا راج تھا ۔۔آتش بازی بھی اپنے عروج پر تھی ۔۔۔
فرحان صاحب بیٹے کی شادی میں کوئی کمی نہیں لانا چاھتے تھے ۔۔۔جبھی دل کھول کر انتظامات کئے گئے ۔۔
دولہے والے بس نکلنے ہی والے ہیں جلدی کرو لڑکیوں ۔۔۔۔
نوشین کے میک اپ کو آخری ٹچ دینا تھا جبھی نوشین کی پھوپھو نے آتے ہوئے کہا ۔۔۔
کتنی پیاری لگ رہی ہو گڑیا ۔۔۔اگر میرے یاسر کی دلہن بنتی تو بات ہی کچھ اور ہوتی ۔۔۔پھوپھو کے کہنے پر نوشین کی مسکراہٹ تھمی ۔۔۔
یاسر عمر میں نوشین سے سات سال بڑا تھا ۔۔نوشین کو دیکھتے ہی پھوپھو کی ہمیشہ سے خواہش رہی کہ وہ انکی بہو بنے ۔۔۔قادر صاحب تو رضامند بھی تھے کیوں کہ وہ اچھا بھلا کماتا ۔۔لیکن نوشین کا دل باسط کے لئے دھڑکتا ۔۔نوشین کی امی کے بھی اپنے بھانجے کے لئے بہت اچھے خیالات تھے ۔۔۔باسط کی صوبر طبیعت انھیں بھاتی تھی ۔۔
آپا ۔۔۔جلدی کریں نیچے مہمان انتظار کر رہے ہیں اور آپ باتوں میں لگی ہیں جلدی کریں ۔۔۔اتنے میں ایک خاتون آکر انھیں لیکر چلی گئیں ۔۔۔
نوشین اپنا خوشگوار موڈ بنانے کے لئے باسط کو سوچتے ہوئے ہاتھ میں چوڑیاں پہننے لگی ۔۔۔کیسا ڈیشنگ لگ رہا ہوگا نہ ۔۔۔وہ سوچ کر مسکرا دی جبھی ٹوٹی ہوئی چوڑی نے اسکی کلائی کو زخمی کر دیا ۔۔۔
تجھے سوچ کر جو زخم ملے
ہمیں اس سے بھی محبت ہے
وہ پھر سے مسکرا دی ۔۔۔
۔*************۔
اماں کی طبیعت اچانک بگڑ جانے سے وہ خود ہی محلے کی عورتوں کی مدد سے انھیں ہسپتال لائی تھی ۔۔جہاں وہ ڈرپ اور انجکشن کے زیر اثر غنودگی میں تھیں ۔۔۔
باسط ریسیپشن سے ہوتا ہوا کمرے کی جانب بڑھا۔۔۔تابی بھی اسکے ساتھ تھی ۔۔
اماں کو اکیلے لئے وہ ہسپتال تو پہنچ گئی تھی مگر آس پاس کے ماحول سے اسے الجھن ہونے لگی ۔۔۔وہ دو پٹے سے منہ کو چھپائے آنسو بہائے باسط کے انتظار میں تھی ۔۔کچھ اماں کی طبیعت بگڑ جانے کا بھی خوف تھا ۔۔
وہ پریشانی میں باسط کے پیچھے جارہی تھی جبھی اسکا موبائل بجنے لگا ۔۔۔سکرین پر "سڑیل انسان ” کے الفاظ جگمگا رہے تھے ۔۔۔
اسنے منہ بناتے ہوئے موبائل بند کر دیا ۔۔۔۔
فون بند کر دیا ۔۔۔۔۔۔وہ غصے میں بائیک کو لات مارتے ہوئے بڑبڑایا ۔۔۔
حدید کو وہیں چھوڑ کر اس نے تابی کا پیچھا کیا تھا ۔۔تبھی سے وہ ہسپتال کے باھر کھڑا اسکا انتظار کرنے لگا ۔۔۔
وہ پریشانی میں ٹہل رہی تھی جبھی باسط پر نظر پڑتے ہی اس نے خود کو باسط میں چھپا لیا ۔۔۔
بھائی ۔۔۔آپ کہاں رہ گئے تھے ۔۔میں بہت ڈر گئی تھی ۔۔اگر اماں کو کچھ ہو جاتا تو میں تو مر جاتی ۔۔۔وہ زار و قطار روتے ہوئے بولی ۔۔
میں ہوں نہ گڑیا ۔۔۔میں اماں کو کہیں نہیں جانے دوں گا ۔۔۔با مشکل آنسوؤں پر قابو پاتے ہوئے وہ اسے تھپتھپانے لگا ۔۔۔
تابی حیرانی سے انھیں تک رہی تھی ۔۔۔
اگر دیر ہو جاتی تو ہم کیا کرتے ۔۔وہ بے تحاشا خوف زدہ تھی ۔۔
میں نے کہا نہ میری جان کچھ نہیں ہوگا سب ٹھیک ہے ۔۔۔وہ اسکے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اسے سمجھانے لگا ۔۔۔
بھائی بہن کو روتے ہوئے دیکھ کر تابی کی آنکھیں نم ہو گئیں ۔۔۔ماں بھی خدا کی دی ہوئی نعمت ہے جسکی قدر شاید ہم میں سے کوئی ہی کرتا ہو ۔۔۔وہ سوچنے لگی ۔۔
تم سمبھالو خود کو میں ڈاکٹر سے مل کر آتا ہوں ۔۔باسط نے پیار سے اسے بٹھاتے ہوئے کہا ۔۔۔اور خود آگے بڑھ گیا ۔۔
سب ٹھیک ہو جائے گا ۔۔ہاں ۔۔۔اسکی سوجھی ہوئی آنکھیں دیکھ کر تابی کو اس سے ہمدردی محسوس ہونے لگی ۔۔اس نے اسکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے تسلی دینا چاہی ۔۔
آپ ۔۔۔۔تابی کو دیکھ کر مناہل کے منہ سے اچانک نکلا ۔۔۔بھائی کے ساتھ کیفے میں کام کرتی ہیں ۔۔؟
کام ۔۔۔وہ حیران ہوتے ہوئے سوچنے لگی ۔۔
مناہل کی نظریں خود پر محسوس کرتے ہوئے وہ فوراً بولی ۔۔ہاں ۔۔کام ۔۔کام کرتی ہوں میں ۔۔ہاں ۔۔وہ اثبات میں سر ہلاتے ہوئے بولی ۔۔
کیا کام کرتی ہیں آپ ۔۔۔؟ اسکا جائزا لیتے ہوئے مناہل نے اگلا سوال کیا ۔۔
ہاں ۔۔۔وہ چونکی ۔۔کام ۔۔وہ میں ۔۔۔۔
مالکن ہیں آپ کیفےکی ۔۔۔مناہل اسکا جائزا لیتے ہوئے خود ہی بول پڑی ۔۔
ہاں ۔۔وہ حیران کے ساتھ ساتھ پریشان بھی ہو گئی ۔۔کہ اب کیا جواب دے ۔۔
ارے آپ یہی ہے ہیں ۔۔اسکی مشکل باسط نے آتے ہوئے حل کر دی ۔۔
ہاں ۔۔وہ میں بس جا ہی رہی تھی ۔۔وہ کھڑے ہوتے ہوئے بولی ۔۔
چلیں آپ کو باھر تک چھوڑ دوں ۔۔باسط نے اسکی آسانی کے لئے کہا ۔۔
اچھا تو پھر ملیں گے ۔۔آ آ ۔۔۔تابی اٹک گئی ۔۔
آ مناہل ۔۔مناہل ہوں میں ۔۔مناہل نے تصدیق کروانا چاہی ۔۔
اوکے ۔۔۔بائے مناہل ۔۔۔اپنا خیال رکھنا ۔۔۔۔وہ مسکراتے ہوئے آگے بڑھ گئی ۔۔
آپکا بیحد شکریہ ۔۔۔باسط اسکے ساتھ چلتا ہوا آگے کچھ بولتا اس سے پہلے تابین گویا ہوئی ۔۔۔
میں جانتی ہوں تم آگے کیا بولنے والے ہو اس سے پہلے میں تمہیں بتا دوں کے اسکی کوئی ضرورت نہیں ۔۔انسانیت کے ناطے یہ میرا فرض بنتا ہے کہ میں کسی کی مدد کروں ۔۔۔
بہت شکریہ آپکا ۔۔۔مس ۔۔۔؟
آآ ۔۔۔تابین ۔۔۔تابین صلاح الدین ۔۔۔۔وہ مسکراتے ہوئے بولی ۔۔۔
اور تم ۔۔۔؟ وہ پوچھنے لگی ۔۔۔
عبدالباسط ۔۔۔۔
وہ بائیک سے ٹیک لگا کر تابین کے انتظار میں کھڑا تھا جبھی اسے مسکراتے ہوئے پارکنگ کی جانب بڑھتے دیکھا ۔
وہ اپنے غصے کو دباتا ہوا اسکی جانب بڑھ گیا ۔۔
یا اللہ یہ تو اندھیرا پھیل گیا ۔۔۔آسمان کو دیکھتے ہوئے تابی بڑبڑاتے ہوئے جلدی جلدی قدم اٹھانے لگی ۔۔۔
جونہی اس نے گاڑی کا دروازہ کھولا تھا اچانک حزیفہ نے اسکی کلائی اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے اسکی پشت کو گاڑی سے لگایا ۔۔۔
اچانک آنے والی افتاد سے بے خبر وہ سمبھل نہ پائی ۔۔۔حزیفہ پر نظر پڑتے ہی وہ پھٹ پڑی ۔۔۔تم ۔۔۔۔؟کیا بد تمیزی ہے یہ ۔۔۔؟
بد تمیزی میں نے ابھی کی ہی کہاں ہے ۔۔۔؟یہ بتاؤ کہ تم اس وقت یہاں کیا کر رہی ہو ۔۔؟وہ ہلکے سے غرایا ۔۔
میں تمہیں جواب دینا مناسب نہیں سمجھتی ۔۔میرا ہاتھ چھوڑو ۔۔۔۔ورنہ میں شور مچا دوں گی ۔۔۔وہ بھی اسی کے انداز میں کہنے لگی ۔۔۔
ٹھیک ہے مچاؤ شور ۔۔میں بھی دیکھوں کتنے لوگ جمع ہوتے ہیں ۔۔حزیفہ کی اس بات پر تابی کے چہرے کا رنگ فک ہو گیا ۔۔۔
لیکن میری ایک بات کان کھول کر سنو ۔۔وہ اسکی کلائی پر زور دیتے ہوئے بولا ۔۔۔
آئندہ اگر وہ ۔۔( باسط ) یا تم اسکے آس پاس بھی نظر آئی ۔۔تو حشر نشر بگاڑ دوں گا ۔۔اسکے بازو کو ایک جھٹکے سے چھوڑ کر اسے وارن کرتا ہوا وہ چلا گیا ۔۔۔
۔****************۔
تابین حد ہے ویسے ۔۔۔میں صبح سے آئی ہوئی ہوں اور تم گھر سے غائب ہو ۔۔۔رباب نے شکوہ کیا ۔۔۔
خدا کا خوف کریں پھوپھو ۔۔ شام کو تو میں گئی تھی مارکٹ تب تو آپ نظر نہیں آئیں ۔۔۔پھر کیسے صبح سے آئی ہوئی ہیں ۔۔جب سے وہ آئی تھی تبھی سے حزیفہ کو سوچ سوچ کر اسے غصے کے دورے پڑ رہے تھے با مشکل ہی اسکا موڈ بنا تھا بات کرنے کو ۔۔۔
ہاں ۔۔۔نا ۔۔۔مطلب جب سے آئی ھوں تمہارا پوچھ رہی ہوں ۔۔۔رباب نے شرمندہ ہوتے ہوئے کہا ۔۔۔
استغفراللہ ۔۔۔۔سر عام یہ تو جھوٹ بول رہی ہیں ۔۔۔میں کب سے آپ کے ساتھ بیٹھا ہوں مجال ہے جو آپ کے منہ سے تابی کا نام سنا ہو ۔۔۔حدید کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے فرینچ فرائز سے لطف لینے لگا ۔۔۔
تم تو چپ کرو ۔۔نادیدے ویلے لوگ ۔۔رباب نے لب بھینچتے ہوئے کشن اٹھا کر حدید کی طرف اچھالا ۔۔
یار کیا ہے تم کہاں غائب ہو مزہ ہی نہیں آرہا ۔۔۔منہ میں انگلی دبائے تابی کو سوچتے ہوئے پا کر رباب نے ہلکی سی چپت اسے رسید کرتے ہوئے کہا ۔۔۔
ارے ذرا یہ دیکھو تو یہ بندری کون ہے ۔۔۔؟ حدید نے تصویر ایلبم تابی کے آگے کرتے ہوئے پوچھا ۔۔
خاموش ہو جاؤ نمونے ۔۔۔مجھے بندری کہا تو شکل بگاڑ دوں گی ۔۔۔تابی بھڑک اٹھی ۔۔۔
قسم خدا کی کیا زبان لڑاتی ہو ۔۔۔اگلے گھر جاکر تم نے تو بیچاروں کا حشر نشر بگاڑ دینا ہے ۔۔۔حدید کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے بولا ۔۔
ہاں تو کیا ضرورت ہے اگلے گھر جانے کی ۔۔۔میں یہیں خوش ہوں ۔۔وہ اپنی بچپن کی تصویریں دیکھتے ہوئے دھیمے لہجے میں بولی ۔۔
اچانک اسکی نظر ایک تصویر پر ٹہر سی گئی ۔۔اماں ۔۔۔یہ کون ہیں مجھے یاد نہیں آرہا ۔۔۔وہ ایک تصویر کو ہاتھ لگاتے ہوئے بولی جہاں تابی کے کو گلے سے لگائے ایک خوبصورت لمبے بالوں والی عورت کے ساتھ ایک خوبصورت بھوری آنکھوں والا آدمی بھی تھا ۔۔
ارے یہ ۔۔۔۔حدید نے جھانکتے ہوئے کہا ۔۔انہیں تم نہیں جانتی ۔۔۔؟ میں بتاتا ہوں ۔۔۔وہ ایلبم اسکے ہاتھ سے لیتے ہوئے بولا ۔۔
یہ جو لمبے بالوں والی خوبصورت عورت ہیں ۔۔یہ تمہاری ساس ۔۔اور انکے ساتھ کھڑے یہ شخص تمہارے سسر صاحب ہیں ۔۔۔
یہ کیا فضول بکواس ہے ۔۔اسی بات کی تم سے امید تھی ۔۔وہ کھڑے ہوتے ہوئے اسکے بال نوچ کر پیر پٹخاتی ہوئی آگے بڑھ گئی ۔۔
ارے رکو تو ۔۔۔ابھی تو تمہارا شوہر بھی تمہیں دکھانا ہے چڑیل ۔۔۔اسے تپانے کے لیے حدید نے پیچھے سے آواز لگائی ۔۔۔
۔***************۔
ارے ارے ۔۔آرام سے ۔۔اتنی خوشی بھی اچھی نہیں ہوتی ۔۔۔۔
ایسے کیسے ۔۔۔اکلوتا بھائی ہے میرا ۔۔۔میں تو خوشی مناؤں گی اور خوب ناچوں گی ۔۔۔۔وہ جھومتے ہو بولی ۔۔۔
اچانک بچوں کے بجائے ہوئے پٹاخوں کے شور سے وہ دو قدم پیچھے ہوئی ۔۔۔ہاۓ اللہ ۔۔۔۔۔
ہاہاہا دیکھو ذرا ۔۔۔چھوٹے سے پٹا خے سے تمہارا دل دہل گیا۔۔۔اور خوب ناچو گی ۔۔۔
ہاں ناچوں گی ۔۔ڈرتی تھوڑئی نہ ہوں میں ۔۔۔وہ بھی کمر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولی ۔۔۔
ابا ایسے کیسے چلے گا ۔۔۔آپ نہیں چلیں گے تو یہ شادی کیسے ہوگی ۔۔
باسط ۔۔۔نکاح تو مقدس رشتہ ہے ۔۔۔اسے روکنا نہیں ۔۔۔اور میری طبیعت تو اچانک بگڑ جاتی ہے اور اچانک ٹھیک ۔۔۔تم جاؤ ۔۔دلہن والے انتظار کر رہے ہوں گے ۔۔۔بابا نے ہانپتے ہوئے کہا ۔۔
لیکن آپ کی غیر موجودگی میں ۔۔میں کچھ بھی نہیں کر سکتا ۔۔آپ کے بنا میں مفلوج ہو جاتا ہوں ۔۔۔وہ بیچارگی سے باپ کا ہاتھ چومتے ہوئے بولا ۔۔۔
تمہاری ماں ہے نہ ساتھ ۔۔۔انکی موجودگی میری موجودگی ہے ۔۔۔
آپ کو اس حالت میں چھوڑ کر میں کیسے جا سکتی ہوں ۔۔۔اماں نے فوراً کہا ۔۔۔
میری طبیعت سمبھل گئی تو میں آجاؤں گا ۔۔۔نکاح کا وقت نکلا جارہا ہے جلدی کریں ۔۔۔
با مشکل ہی ابا نے انھیں سمجھا کر بھیج دیا اور خود لیٹ گئے آرام کرنے ۔۔۔
جونہی بارات روانہ ہوئی ۔۔۔بچوں نے شور کے مچانے کے ساتھ ساتھ پٹاخے جلانا بھی شروع کئے ۔۔۔
اچانک ۔۔۔پٹاخہ آگ کی صورت اختیار کرتے ہوئے باورچی خانے کی کھڑکی کو پار کر گیا ۔۔۔جہاں مٹھایاں ۔۔سلینڈر ۔۔وغیرہ رکھے تھے ۔۔
آگ نے ھر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔۔۔ابا دوائی کے زیر اثر غنودگی میں تھے ۔۔اچانک دھوویں کی وجہ سے انکی سانس بند ہونے لگی ۔۔۔وہ کھانستے ہوئے اٹھ بیٹھے ۔۔۔
ارد گرد ہر چیز دھوویں میں ڈوبی تھی ۔۔
وہ کھانستے ہوئے با مشکل ہی باھر کی جانب بڑھے ۔۔جہاں ھر طرف آگ ہی آگ تھی ۔۔
خوف اور دمے کی وجہ سے وہ انکا سر چکرانے لگا ۔۔۔جبھی وہ زمین بوس ہو گئے ۔۔۔
بے حد شور کی وجہ سے اسے فون کی گھنٹی سنائی نہ دی ۔۔۔
بارات کو چیرتے ہوئے کسی اپنے نے اسکے ہاتھ میں فون تھمایا ۔۔فون محلے کے کسی آدمی کی تھی ۔۔۔
وہ ایک کان پر ہاتھ رکھتے ہوئے آواز سننے کی کوشش کرنے لگا ۔۔جب آواز سنائی نہ دی ۔۔تبھی وہ بھیڑ کو چیرتے ہوئے ایک سائیڈ ہو کر آواز سننے کی کوشش کرنے لگا ۔۔
باسط ۔۔ہیلو باسط ۔۔۔میں کریم بات کر رہا ہوں ۔۔۔تمہارے گھر کو آگ نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔۔۔
ہیلو کریم بھائی ۔۔کچھ سنائی نہیں دے رہا اپ کیا کہہ رہے ہیں تھوڑا اونچا بولیں ۔۔۔
باسط ۔۔۔تمہارے گھر کو آگ لگی ہے ۔۔۔باسط تمہارے گھر کو آگ لگی ہے ۔۔۔یہ الفاظ اسکے کانوں میں پڑتے ہی ۔۔اسے محسوس ہوا جیسے کسی نے پگھلا ہوا سیسہ اسکے کانوں میں انڈیل دیا ہو ۔۔۔
۔***************۔
سچی امی ۔۔۔دو گھنٹے ہو گئے ۔۔اس سے فرینچ فرائز نہیں بنے ۔۔۔حیرت ہے مجھے تو ۔۔۔ماروی نے چہرے پر ہاتھ ٹکاتے ہوئے کہا ۔۔۔۔
آخر اس لڑکی کا بنے گا کیا ۔۔۔
بن جائے گا کچھ نہ کچھ آپ فکر نہ کریں ۔۔۔پلیٹ ٹیبل پر پٹختے ہوئے وہ اپنے چشمے کو ٹھیک کرتے ہوئے بولی ۔۔
ویسے امی ۔۔۔۔میری نظر میں ایک بہت ہی اچھا رشتہ ہے لڑکا بھی اسکے ٹائپ کا ہے میں تو کہتی ہوں پیپر ہوتے ہی مںگنی کر دیں ۔۔۔ماروی نے اپنے تیئے اچھی صلاح دی ۔۔
کوئی ضرورت نہیں ۔۔۔میں اپنے ٹائپ کی ایک ہی اچھی ہوں ۔۔۔رہنے دیں ۔۔۔ہٹ موٹے ۔۔۔جب دیکھو کھاتا رہتا ہے ۔۔۔وہ فرینچ فرائز سے بھری پلیٹ کو حارث سے دور کرتے ہوئے بولی ۔۔
دیکھیں امی کس طرح میرے بچے پر ھر وقت نظر رکھتی ہے جبھی میں یہاں نہیں آتی ۔۔دیکھیں کمزور ہوتا جارہا ہے ۔۔۔ماروی اپنے تین سالہ بچے کے چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی ۔۔۔
آہ ۔۔۔ہاں ۔۔۔کمزور ۔۔۔۔پہلے سے کافی بھاری ہو گیا ہے یہ شیطان کا بچہ ۔۔دیکھیں ۔۔دم کیسے نکل آئی ہے ۔۔
دکھ رہی ہے آپ ۔۔کیسے یہ فاخر کو شیطان بول رہی ہے ۔۔میرے شوہر کے ساتھ ساتھ وہ اسکے کزن بھی ہے ہیں ۔۔۔
ارے ۔۔۔آپ کی اطلاع کے لئے میں نے شیطان فاخر بھائی کو نہیں آپ کو کہا ہے ۔۔اور ہاں میں جارہی ھوں پیپر کی تیاری کرنے مجھے تنگ مت کریں خاص کر یہ موٹا ۔۔۔وہ حارث کے بال بگاڑتے ہوئے چلتی بنی ۔۔
اب تو تمہیں فارغ کروں گی میں بونگی ۔۔پیچھے سے ماروی نے آواز لگائی ۔۔۔
۔****************۔
بھارت کو بھی ہندو ریاست ہونا چاہئے تھا
اروند سہارن کے ساتھ ایک ویڈیو بلاگ میں، میں نے یہ بات کہی تھی۔ انہوں نے بتایا ہے کہ اس...