“کوئی ہے؟ کھولو؟۔۔۔۔ نکالو مجھے۔۔۔۔۔ کوئی ہے؟” چلا چلا کر اس کا گلا بیٹھ گیا تھا۔
شزا نے خود کو اس وقت کے لیے کوسا تھا جب اس نے گھر سے باہر قدم رکھے تھے یہ جانتے ہوئے بھی کہ کتنا خطرہ موجود تھا وہاں!
زویا کے ہمراہ وہ مشعل اور عبداللہ کی شاپنگ کے لیے مارکیٹ گئی تھی۔ جب واپسی پر ان پر کسی نامعلوم انسان نے سپرے کیا تھا
ضرور اس سپرے میں بیہوشی کی دوا شامل تھی۔
“زویا!۔۔۔۔۔ زویا کہاں ہے؟ یا میرے اللہ اس کی حفاظت کرنا!” اس نے دعا کی تھی۔
“کوئی ہے؟۔۔۔۔۔ نکالو مجھے، کوئی سن رہا ہے؟” وہ ایک بار پھر چلانا شروع ہوگئی تھی۔
بھاری بوٹوں کی آواز سن اس کی آواز میں ڈر اور نمی گھل گئی تھی۔
“کوئی ہے؟ ہیلو؟۔۔۔۔ پلیز۔۔۔۔ بچاؤ مجھے۔۔۔۔ کوئی بچاؤ۔۔۔۔۔۔۔ کوئی تو بچالو!” رسیوں میں بندھی وہ برے سے رو رہی تھی۔
خود کو آزاد کروانے کی ہر ناممکن کوشش کروا چکی تھی وہ، مگر لاحاصل۔
دروازہ کھلنے کی آواز پر اس نے سر اٹھایا تھا، سامنے موجود وجود کو دیکھ اس کی آنکھوں میں حیرت اور ساتھ ہی نفرت نے جگہ لے لی تھی۔
“welcome to hell dear”
وہ ہنسا تھا جبکہ رسیوں سے جکڑی شزا کی آنکھوں میں خون اتر آیا تھا۔
“شبیر زبیری!” کرواہٹ اس کے منہ میں گھل گئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“کیا مطلب ہے تمہارا کہ نہیں ملیں۔۔۔۔ صرف تین گھنٹے، تین گھنٹے ہیں تمہارے پاس جاؤ انہیں ڈھونڈ کر لاؤ!” سنان کی دھاڑ پر پورے لاؤنج میں سناٹا چھاگیا تھا۔
عبداللہ کی پیٹھ تھپتھاتی صبغہ نے تھوک نگلے اسے دیکھا تھا آج سے پہلے اس نے سنان کو کبھی بھی اتنے غصے نہیں دیکھا تھا۔
آج صبح ہی زویا اور شزا دونوں شاپنگ کے لیے نکلی تھیں مگر ابھی تک ان کی واپسی نہیں ہوئی تھی، سنان کے آدمیوں کو ان کی گاڑی پارکنگ میں نظر آگئی تھی مگر وہ دونوں غائب تھی، اوپر سے آس پاس کے سی۔سی۔ٹی۔وی کیمرہ بھی تمام کے تمام خراب تھے۔
دونوں بچوں نے ماں کی غیر موجودگی میں رو رو کر سرپر آسمان اٹھا لیا تھا، مشعل تو پھر کسی حد تک سنبھل گئی تھی مگر عبداللہ کو زرا چین نہیں آرہا تھا
“کہاں جاسکتی ہیں وہ!” ماتھا مسلے وہ بڑبڑایا۔
“سنان!” وائے۔زی تیز قدم اٹھاتا اس کی جانب آیا تھا
“تمہیں اسے دیکھنا چاہیے!” اس نے لیپ ٹاپ سنان کے سامنے کیا تھا۔
سنان نے ویڈیو کو کلک کیا تھا اور اب وہ سب غور سے اسے دیکھ رہے تھے۔
سب سے پہلے نظروں کے سامنے زویا کا چہرہ آیا تھا جو بری طرح سے رو رہی تھی
“زویا” سنان نے مٹھیاں بھینچی تھی
“پھولوں کا تاروں کا سب کا کہنا ہے
ایک ہزاروں میں میری بہنا ہے”
گنگناتا شبیر زبیری اب ویڈیو کے سامنے آچکا تھا۔
“مائی ڈئیر بوائے کیسے ہو؟” وہ مسکرایا تھا۔
“خیر جیسے بھی ہو مجھے کیا لینا دینا” اس نے مزے سے کندھے اچکائے
“آخر یہ چاہتا کیا ہے؟” صبغہ بڑبڑائی تھی۔
“اب میری ایک بات غور سے کان کھول کر سن لو سلطان،۔۔۔ تمہاری دونوں بہنیں میرے پاس ہیں، میرے قبضے میں، میری قید میں اور اگر ان کی سلامتی چاہتے ہو تو بدلے میں مجھے میرے بیٹے کی اولاد سونپ دو۔۔۔۔ تمہارے پاس صرف کل شام تک کا ٹائم ہے اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو شزا کے میں چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرکے اسے کتوں کو کھلادوں گا جبکہ اس زویا کو رشئین مافیا کو بیچ دوں گا!۔۔۔۔۔ اور وہ کیا کرتے ہیں اس سے تم انجان نہیں۔۔۔۔۔ صرف کل شام تک کا وقت” وہ مسکرایا تھا اور ویڈیو ختم ہوگئی تھی جس کے اختتام پر رسیوں سے جکڑی بیہوش شزا کی تصویر آئی تھی۔
“ویڈو کیسے ملا؟” سنان نے بس اتنا سوال کیا
“ای۔میل کے ذریعے۔” وائے۔زی کی بات پر اس نے گہری سانس خارج کی
“یہ شخص پاکستان کب آیا؟” معتصیم کی آنکھیں پھیلی تھیں۔
اچانک موبائل پر آتی کال دیکھ معتصیم ایکسکیوز کرتا وہاں سے نکل گیا تھا۔
“اب ہم کیا کرے گے، ہم کسی صورت بچے اس شخص کے حوالے نہیں کرسکتے سنان، عبداللہ کو وہ اپنے جیسا بنالے گا جبکہ مشعل اس کے ساتھ نجانے کیا کرے؟” وائے۔زی نے صبغہ کے شانے سے سر ٹکائے عبداللہ کو اور پھر پرام میں سوئی ہوئی مشعل کو دیکھا تھا۔
“نہیں میں انہیں کچھ نہیں ہونے دوں گا!۔۔۔۔۔ تم انہیں اس شخص کے حوالے نہیں کرو گے سنان” وائے۔زی نے سختی سے اسے منع کیا تھا۔
“کیا تمہیں واقعی لگتا ہے وائے۔زی کے میں اپنے بچوں کو اس شخص کے حوالے کردوں گا؟” سنان نے ابرو اٹھائے اس سے سوال کیا تھا۔
اسی لمحے معتصیم بھاگتا ہوا اندر آیا تھا اور وہ سیدھا اپنے کمرے کی جانب بھاگا تھا۔
“معتصیم کیا ہوا اور تمہارا سانس؟ تمہارا سانس اتنا کیوں پھولا ہوا ہے؟” وائے۔زی اس کی حالت دیکھ چونکا تھا
“وہ ماورا!۔۔۔۔۔ ماورا غائب ہے وائے۔زی۔۔۔ وہ غائب ہے، تقی۔۔۔۔ اس کی کال آئی تھی۔۔۔۔۔ یا خدایا اب میں کیا کروں؟” وہ سر ہاتھوں میں گرائے پاس موجود کاؤچ پر بیٹھ گیا تھا۔
یہ ایک نیا دھچکا تھا ان سب کے لیے۔
“کہی شبیر زبیری؟”
“نہیں وہ نہیں، میں جانتا ہوں یہ ہمت کس کی ہوسکتی ہے” وہ سرخ آنکھیں سامنے موجود کرسٹل بال پر ٹکائے بولا تھا
“کون؟”
“فہام جونیجو” معتصیم کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اس شخص کی عبرتناک موت دے۔
“مجھے، مجھے جانا ہوگا! وہ یکدم اپنی جگہ سے اٹھا تھا جب اس کا موبائل دوبارہ بجا تھا جس پر “پرائیویٹ نمبر” شو ہورہا تھا
کچھ سوچتے ہوئے اس نے کال اٹھائی تھی۔
“ہیلو!” مقابل کی بات سن موبائل پر اس کی گرفت سخت ہوئی تھی۔
“کیا ہوا کون تھا؟” اسے کال کاٹتے دیکھ سنان اس کی جانب بڑھا تھا
“فہام جونیجو!۔۔۔۔۔ میرا شک ٹھیک نکلا، ماورا اسی کے پاس ہے۔۔۔۔۔” موبائل پر گرفت میں مزید سختی آئی تھی۔
“کیا کہہ رہا تھا وہ؟”
“بلایا ہےمجھے، ایک چانس دے رہا ہے کہ میں آؤں اور ماورا کو بچاسکتا ہوں تو بچالوں۔”
“کیا بکواس ہے یہ، آخر وہ شخص کرنا کیا چاہ رہا ہے؟” وائے۔زی کو اس پر صحیح معنوں میں تاؤ آیا تھا۔
“کچھ نہیں ہوا بس اس کا دماغ کام کرنا بند کرچکا ہے۔۔۔ عجیب انسان ہے، پیچھے ہی پڑگیا ہے!” معتصیم کا غصہ کسی صورت کم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔
ان کا دماغ واقعی میں ایک دن کے اندر اندر ٹھیک ٹھاک گھوم چکا تھا۔
“مگر مجھے اس کے پیچھے کوئی اور بڑی وجہ معلوم ہورہی ہے معتصیم۔۔۔۔ وہ کچھ اور چاہتا ہے۔۔۔۔۔ کیا؟ یہ نہیں معلوم!” سنان پرسوچ انداز میں بولا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“ہمیں بچوں کو شبیر زبیری کے حوالے کرنا ہوگا!” سنان کی بات سن ان دونوں کو شاک لگا تھا۔
“کوئی گھنٹہ پہلے کہہ رہا تھا کہ وہ اپنے بچوں کو کسی کو نہیں دے گا!” وائے۔زی نے غصے سے اس پر طنز کیا تھا۔
“کیا تم نے جازل کی بات نہیں سنی وائے۔زی؟۔۔۔۔۔ یا تمہارا دماغ اس قدر نکارا ہوگیا ہے کہ اس کام کرنا بند کردیا ہے؟” سنان اس پر برسا تھا۔
“اوکے گائز سٹاپ اٹ۔۔۔۔ اور تم سنان صاف، صاف بتاؤ کیا بتانا چاہ رہے ہو؟” معتصیم نے اسے اپنی جانب متوجہ کیا تھا۔
“جازل کے مطابق فہام جونیجو اس وقت اسی شہر میں موجود ہے اور وہ شبیر زبیری کے ساتھ مل کر کچھ پلان بھی کررہا ہے۔۔۔۔۔ اس سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں، ایک: وہ دونوں جو بھی پلان کررہے ہیں وہ ہمارے خلاف اور دو: ماورا بھی اس وقت شزا اور زویا کے پاس ہے!”
“شبیر زبیری کی بات تو مجھے سمجھ آتی ہیں کے اسے حماد کے بچے چاہیے مگر فہام جونیجو آخر کیا چاہتا ہے؟” وائے۔زی کی سوئی وہی آکر اٹکی تھی
“اسے ارحام شاہ کی جگہ چاہیے وائے۔زی۔۔۔۔۔ اب ارحام شاہ نہیں رہا تو اس کی جگہ کسی نہ کسی کو تو ملے گی اور فہام جونیجو چاہے جتنا مضبوط سہی مگر ارحام شاہ کا مقابلہ وہ آج بھی نہیں کرسکتا۔۔۔۔۔ اسے ڈر ہے کہ اب کہی ارحام شاہ کی گینگ ہم تینوں میں سے کسی کے حوالے نہ کردی جائے تو اسی لیے یہ پلان بنایا گیا ہے۔”
“وہ ہم تینوں کو ایک جگہ بلائے گے، مگر ان کے پلان کے مطابق معتصیم کو الگ اور ہمیں الگ۔۔ کیونکہ ان کے مطابق ہمیں تو معلوم ہی نہیں کہ وہ ساتھ ملے ہوئے ہیں اور اس طرح وہ ہمیں بنا ان کی چال سمجھنے کا موقع دیے حملہ کرے گے اور قصہ ختم!” سنان کی بات پر ان دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا تھا۔
“تو اب؟” معتصیم نے سوال اٹھایا
“بتاتا ہوں” سنان نے سر اثبات میں ہلایا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احتیاط سے عبداللہ کو جھولے میں ڈالے صبغہ نے اس کے اوپر ٹھیک سے لحاف دیا تھا۔
وہ ان دونوں بچوں کا سامان میڈ کی مدد سے ایک رات کے لیے اپنے کمرے میں شفٹ کرواچکی تھی۔
اتنے میں ہی تھکا ہارا وہ کمرے میں داخل ہوتا سیدھا بیڈ پر جالیٹا تھا۔
صبغہ بھی دونوں بچوں کے سونے کا یقین کرتی اس کے پاس جابیٹھی تھی جو آنکھیں موندے پیر لٹکائے لیٹا ہوا تھا۔
“تم ٹھیک ہو؟” اس کے بالوں میں انگلیاں چلائے وہ اسے سکون دے رہی تھی۔
“نہیں!” زرا سی آنکھیں کھول کر اسے دیکھے وہ دوبارہ آنکھیں بند کرچکا تھا۔
“سب ٹھیک ہوجائے گے سنان!” اسے اس حالت میں دیکھ صبغہ کو برا لگ رہا تھا، وہ چاہ کر بھی اس کے لیے کچھ کر نہیں پارہی تھی۔
“مجھے معلوم ہے صبغہ، مگر اب، اب میں تھک گیا ہوں۔۔۔۔ مجھے نہیں لگتا کہ اب مجھ میں اور ہمت باقی ہے” اس کی آنکھوں میں موجود بےبسی وہ باآسانی دیکھ سکتی تھی۔
چہرہ جھکائے لب اس کی آنکھوں پر رکھے وہ جیسے بےبسی کو بھگا دینا چاہتی تھی۔
اس کے اس عمل پر سنان دھیما سا مسکرایا تھا۔
“تم بھی سوچتی ہوگی نا کہ کیسا سسرال ملا ہے ابھی شادی کو ہفتہ بھی نہیں ہوا اور یہ سب ڈرامے شروع ہوگئے ہیں!” وہ دھیما سا مسکرایا تھا۔
“ایسی فضول باتیں مت سوچو سنان، میں جانتی ہوں کہ اس وقت میں تمہارے لیے کچھ بھی نہیں کرپارہی ہوں میں، مگر میرا یقین کرو میں واقعی میں دل سے چاہتی ہوں کہ تمہاری تمام مشکلات آسان ہوجائے!” اس کے بازو پر اپنا سر رکھے وہ اس کے قریب ہوچکی تھی۔
اپنے ہاتھ میں موجود اس کے ہاتھ پر لپ رکھے وہ مسکرایا تھا۔
تھوڑی ہی دیر میں صبغہ چینج کرکے سو چکی تھی جبکہ وہ بالکونی میں کھڑا باہر چلتی ہوا کو محسوس کررہا تھا۔
“بس کل کا دن۔۔۔۔۔ ایک آخری دن!” بڑبڑاتا وہ دونوں بچوں کے ماتھے پر لب رکھتا اپنی جگہ پرآلیٹا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ دونوں اس وقت ایک سنسان، گنجان آباد علاقے میں موجود تھے۔ سنان اور وائے۔زی ان دونوں نے بچوں کو اپنے سینے سے لگایا ہوا تھا۔
شبیر زبیری کے بتائے ہوئے ایڈریس پر وہ اس وقت موجود تھے۔ مگر یہاں کسی ذی۔روح کا کوئی نام و نشان نہ تھا!
“شبیر زبیری کہاں ہو تم؟۔۔۔۔ دیکھو میں لے آیا ہوں بچوں کو!۔۔۔۔ میری بہنیں میرے حوالے کردو!” سنان اونچی آواز میں بولا تھا۔
“اگر یہ اس شخص کا کسی قسم کا کوئی گندہ مزاق ہوا تو قسم خدا کی چھوڑوں گا نہیں میں اسے!” وائے۔ذی بڑبڑایا تھا۔
مزید آدھا گھنٹہ انتظار کرلینے کے بعد بھی وہ خالی ہاتھ تھے۔
“مجھے لگتا ہے ہمیں چلنا چاہیے سنان، اس شخص کے دماغ میں ضرور کچھ اور چل رہا ہے!” وائے۔زی کی بات پر اب کی بار سنان بھی سوچ میں پڑگیا تھا اور سر ہلائے وہ اس کے ساتھ مڑنے ہی لگا تھا کہ قدموں کی دھاپ پر وہ دونوں سیدھے ہوئے تھے۔
سامنے سے ہی انہیں شبیر زبیری اپنی جانب آتا نظر آرہا تھا مگر اس کے پیچھے دیکھ ان دونوں کی آنکھیں غصے سے لال ہوئیں تھی۔
ایک جانب مرینہ نے زویا کو تھاما ہوا تھا اور وہی دوسری جانب جازل کی سخت گرفت میں شزا غصے سے پھڑپھڑا رہی تھی۔
“ویلکم! ویلکم مائی ڈئیر!” شبیر زبیری ان کے سامنے کھڑا مسکرایا تھا۔
“انتہا قسم کے کوئی گھٹیا شخص ہو تم۔” وائے۔زی نے نفرت بھری نگاہوں سے اسے گھورا تھا۔
“اس میں کوئی شک؟” شبیر زبیری نے مسکرا کر تعریف وصول کی تھی۔
“لڑکیوں کو چھوڑ دو۔” سنان نے جیسے حکم سنایا تھا
“لڑکیوں کو چھوڑ دو!۔۔۔۔۔ ہم کیا یہاں پکڑم پکڑائی کھیل رہے ہیں؟” شبیر زبیری اس کی نقل اتارتے بولا تھا۔
“خیر میں چھوڑ دینا ہوں انہیں مگر بدلے میں۔۔۔۔۔۔” نظریں اس کی بچوں پر تھی۔
“ٹھیک ہیں لے لو انہیں مگر مجھے میری بہنیں صحیح سلامت چاہیں!” سنان کی بات پر شزا کی آنکھیں پھیلی تھی وہ جازل کی گرفت میں پھڑپھڑائی تھی۔
“اوکے۔” کندھے اچکائے اس نے مرینہ اور جازل کی جانب اشارہ کیا تھا جنہوں نے فوراً شزا اور زویا کو دھکا دیا تھا۔
“شزا زویا آجاؤ” سنان نے انہیں آواز دی
“نہیں ہرگز نہیں۔۔۔۔ میں بالکل بھی تمہیں اپنے بچے ان کے حوالے نہیں کرنے دوں گی!” شزا نے سر سختی سے نفی میں ہلایا تھا۔
“شزا!” سنان نے پکار میں کچھ ایسا تھا کہ شزا نے بےساختہ اس کی آنکھوں میں دیکھا جو اسے خود پر بھروسہ کرنے کو کہہ رہی تھی، اس سے وعدہ کررہی تھی کہ کچھ نہیں ہوگا۔
لب سختی سے بھینچے وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی ان کی جانب بڑھی تھی جب وائے۔زی سے بچے کو لیے سنان آگے کو بڑھا تھا۔
بیچ راہ میں رکتے شزا نے آخری نگاہ اپنے بچوں پر ڈالی اور لب بھینچے آگے چل دی تھی۔
شبیر زبیری کے اشارے پر ایک گارڈ نے آگے بڑھ کر دونوں بچوں کو پکڑا تھا۔
“تم نے جو مانگا میں نے دے دیا، اب مجھ سے اور میری فیملی سے دور رہنا۔۔۔۔۔ تف ہے تم پر!” آخری جملے اس نے مرینہ چوہان کو دیکھ کر بولے تھے۔
بچوں پر ایک آخری نگاہ ڈالے سنان مڑتا اپنی بہنوں کی جانب چل دیا تھا۔
“رکو سنان شاہ!۔۔۔۔ ایک آخری تحفہ ہے تمہارے لیے وہ تو لیتے جاؤ!” شبیر زبیری انہیں جاتے دیکھ بولا تھا۔
اس کی بات سن وہ دونوں چونک کر مڑے تھے۔
“فائیر!!” اس سے پہلے وہ چاروں کچھ سمجھ پاتے جازل اور مرینہ چوہان کی پسٹل سے نکلی گولی سنان اور وائے۔زی کا چیر گئی تھی۔
“گڈ بائے سلطان!” وہ مسکرایا تھا
“نہیں!!” شزا اور زویا دونوں کی چیخیں ایک ساتھ اس ویرانے میں گونجی تھی۔
“لڑکیوں کو لے آؤ!” انہیں بین کرتے دیکھ وہ کوفت سے اپنے ساتھوں سے بولا تھا جبکہ مرینہ اور جازل مسکرا رہے تھے۔
“خبردار قریب مت آنا!” شزا انہیں پاس آتے دیکھ غرائی تھی مگر وہ اگنور کرتے ان دونوں کو سختی سے تھامے شبیر زبیری کی جانب لیجانے لگے تھے۔
“تم لوگوں میں سے کوئی زندہ نہیں بچے گا کوئی بھی نہیں!” شزا غصے سے اپنے آپ کو چھڑوانے کی ناکام کوشش کررہی تھی۔
“اچھا! اور کون مارے گا ہمیں؟ یہ تمہارے مردہ بھائی؟ تمہارا وہ مرا باپ جس کی جان تم نے خود اپنے ہاتھوں سے لی تھی یا پھر وہ معتصیم جو ابھی تک فہام جونیجو کی گولی کا نشانہ بن چکا ہوگا!۔۔۔۔ بتاؤ زرا کون بچائے گا تمہیں؟” شبیر زبیری نے مسکرا کر سوال کیا تھا۔
“کچھ لوگوں کو خوش فہمیوں میں جینے کی بہت بری عادت ہوتی ہے!” اپنے پیچھے سے ابھرتی آواز پر شبیر زبیری کی مسکراہٹ پل بھر میں مدھم ہوئی تھی۔
“بھلا اس آواز کو تو وہ شخص نیند میں بھی پہنچان سکتا تھا!”
“ارحام شاہ” اس کے لب ہلے وہی ارحام شاہ کی مسکراہٹ گہری ہوئی تھی۔
“مجھے مارنے والا ابھی اس دنیا میں پیدا نہیں ہوا شبیر زبیری۔۔۔۔ تم نے سوچ بھی کیسے لیا کہ ارحام شاہ کو تمہاری کوئی بھی گھٹیا چال اتنی آسانی سے مار سکتی ہے؟” گن کا نشانہ اس کے ماتھے پر لیے وہ مسکرائے تھے۔
ان کے پیچھے کھڑے معتصیم، ماورا اور تقی بھی مسکرائے تھے۔
معتصیم اور ماورا کو صحیح سلامت دیکھ مرینہ اور شبیر دونوں کو پل بھر میں ساری گیم سمجھ آچکی تھی۔
بےشک فہام جونیجو کا قصہ ختم ہوچکا تھا۔
“خبردار!۔۔۔۔۔ خبردار جو کسی قسم کی کوئی ہوشیاری دکھائی نہیں تو اسے مار دوں گی!” اچانک زویا کو اپنے سامنے کیے اس کی کن پٹی پر پستول رکھے مرینہ چوہان چلائی تھی۔
زویا نے چیخ کے ساتھ خوف کے مارے آنکھیں بند کرلی تھی۔
“اسے مار ڈالوں گی میں۔۔ کوئی ہوشیاری نہیں” وہ ارحام شاہ کے دو آدمیوں کو اپنی جانب آتا دیکھ پسٹل پر گرفت سخت کیے بولی تھی۔
“دنیا کو الوداع کہہ دو میری جان!۔۔۔۔ کیونکہ اب تمہارا وقت تمام ہوا!” زویا کے کان میں صور پھونکتے جیسے ہی انہوں نے گولی چلانا چاہی تھی اسی پل ایک پرانے بوسیدہ کنٹینر کے پیچھے سے چلتی ایک گولی ان کی کلائی میں لگی تھی۔
ایک چیخ کے ساتھ انہوں نے ہاتھ پیچھے کیا تھا جب زویا ان کی گرفت سے نکلتی بھاگی تھی۔
اس سے پہلے وہ کچھ سمجھ پاتے دو اور گولیاں چلی تھی اور شزا کے قریب موجود وہ دو آدمی ڈھیر ہوگئے تھے۔
“جازل!” شبیر زبیری کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا تھا۔
وہ لب جو تھوڑی دیر پہلے مسکرارہے تھے وہ اب جامد تھے جبکہ آنکھوں میں صرف غصہ اور نفرت۔
“دھوکے باز کسی کو نہیں چھوڑوں گا میں۔۔۔۔ سب سے پہلے بچوں کو ماروں گا!” انہوں نے گن سے بچوں کو نشانہ لینا چاہا
“سر اس میں بچے نہیں ہیں، یہ تو گڈے ہیں” شبیر زبیری کی آنکھیں پھیل گئیں تھی۔
“ہم کیا تمہیں اتنے بےوقوف لگتے ہیں جو اصل میں بچے تمہیں تھمادیتے؟ کیا ہم تمہاری گھٹیا چالوں سے واقف نہیں؟” ارحام شاہ کی مسکراہٹ گہری ہوئی تھی۔
شزا اور زویا دونوں اس وقت ماورا کے برابر میں کھڑی تھی
“تم لوگ ٹھیک ہو؟” ماورا کے پوچھنے پر انہوں نے سر اثبات میں ہلایا تھا۔
جازل قدم اٹھاتا سنان اور وائے۔زی کی جانب بڑھا تھا اور انہیں ہلایا تھا جنہوں نے مسکرا کر آنکھیں کھولی تھی۔
“تو بتاؤ کیسی لگی ہماری گیم شبیر زبیری؟۔۔۔۔ ایک گیم تم نے ہم سے کھیلی اور ایک ہم نے تم سے!۔۔۔۔۔ اور یہ بات تم بہت اچھے سے جانتے ہو کہ ہم سلطانز گیمز کھیلنے میں کتنے ماہر ہیں۔۔۔۔ ہے نا شزا؟” سنان کھڑا ہوتا مسکرا کر بولا تھا۔
“کوئی شک؟” شزا بھی اب دھیما سا مسکرائی تھی، وہ اب اس شزا سے بالکل مختلف تھی جو کچھ دنوں پہلے تک پاگلوں جیسی حرکتیں کررہی تھی۔
“تمہیں کیا لگا تھا شبیر زبیری کے تم مجھے استعمال کرو گے اور مجھے پتہ نہیں چلے گا؟۔۔۔۔۔ بھول گئے کیا یہ سب کچھ میں نے تم سے ہی تو سیکھا ہے!” شزا نے آج اس کا داؤ اسی پر چلا تھا۔
“کیا ہوا؟ زبان کو فالج آگیا بولا نہیں جارہا؟” وائے۔زی نے شرارت سے سوال کیا تھا۔
“اوہ یہ؟ یہ تو جوس ہے انار کا پیوں گے؟” ان کی ںظریں اپنی شرٹ پر لگے لال رنگ پر جمی دیکھ وہ مسکرا کر بولا تھا
مرینہ چوہان تو خود کو خطرے میں دیکھتی سب کی نظروں سے بچتی بھاگنے کو تیار تھی جب کنٹینر کے پیچھے سے نکلتا کریم گن ان کی جانب کیے انہیں روکا تھا۔
“اتنی بھی کیا جلدی ہے محترمہ اپنا حصہ تو لیتی جائے!” وہ مسکرایا تھا جبکہ مرینہ چوہان کو اس سے خوف محسوس ہوا تھا۔
“بےوقوفوں میری شکل کیا دیکھ رہے ہو؟ حملہ کرو!” شبیر زبیری غصے سے اپنے آدمیوں پر چلایا تھا جو سب خوف لیے ارحام شاہ کو دیکھ رہے تھے۔
شبیر زبیری اور مرینہ چوہان کے اس وقت رنگ اڑے ہوئے تھے کیونکہ ارحام شاہ کے آدمی چاروں جانب سے گھیراؤ کیے ہوئے تھے۔
“آگے کنواں تو پیچھے کھائی بیچ میں دو گدھوں کی شامت آئی!” شزا مسکرا کر بولی تو ان سب کی مسکراہٹ بھی گہری ہوگئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...