سات روز گزر گئے تھے اور سبزیوں کا بیوپاری رمضان خاں گدھا لینے کے لیے نہیں آیا تھا۔ فخرو، فخرو کی ماں اور چچا تینوں کو توقع تھی کہ گدھا جب ایک بار پھر اس کے گھر سے کسی نہ کسی طرح واپس آ گیا ہے تو رمضان خاں دوسرے ہی روز آ کر جھگڑا کرے گا اور گدھا اپنے ہاں لے جانے کا اصرار کرے گا، مگر نا جانے کیا بات تھی کہ اس نے اپنی شکل نہیں دکھائی تھی۔
’’اب نہیں آئے گا رمضان کا بچہ۔‘‘ فخرو کی ماں نے خوش ہو کر چچا کو اطلاع دی۔
’’میرا بھی یہی خیال ہے۔ اس نے سمجھ لیا ہے کہ گدھا اس کے ہاں ٹکے گا نہیں۔‘‘
’’اور کیا گدھا ہمارا ہے۔‘‘ یہ فخرو کے الفاظ تھے۔
’’مفت میں دو سو مل گئے ہیں چچا‘‘
’’پاگل ہو گئے ہو فخرو! یہ اس کی امانت ہے۔ جب چاہے گا لے جائے گا۔‘‘
فخرو پر اوس پڑ گئی۔
’’کالو!‘‘ فخرو کی ماں نے چچا کو مخاطب کیا۔
’’کیوں آپا!‘‘
’’گھر کے لیے کچھ برتن لانے ہیں۔ فخرو کے کپڑے دیکھ رہے ہو کیا حال ہے ان کا۔‘‘
’’آپا! تم چاہتی ہو میں یہ امانت کی رقم خرچ کر دوں۔ نہیں ایسا نہیں ہو گا۔ فخرو کو کل سے کام کرنا ہو گا۔‘‘
فخرو نے ان سات دنوں میں پہلے کی طرح خوب آوارہ گردی کی تھی۔ اس نے سوچا تھا کہ اب اس کے دن اسی طرح مزے میں گزریں گے۔ لیکن چچا کی بات سن کر وہ سہم سا گیا۔
’’اب منڈی کیسے جائے گا فخرو؟ رمضان خاں اس سے گدھا چھینے بغیر نہیں رہے گا۔‘‘ فخرو کی ماں نے فخرو کی ترجمانی کی۔
’’رمضان خاں کے پاس جانے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ چچا نے پوچھا۔
’’منڈی جائے گا تو رمضان اسے دیکھے گا نہیں۔‘‘
’’آپا! شہر میں صرف ترکاریوں ہی کی منڈی نہیں ہے۔ پھلوں کی منڈی بھی ہے۔ ہے کہ نہیں؟‘‘
فخرو کی ماں خاموش رہی۔
’’ہمارا فخرو پھلوں کی منڈی جایا کرے گا اور وہی کام کرے گا جو اس منڈی میں کرتا تھا۔‘‘
’’مگر چچا! میں پھل گدھے پر کیسے لادوں گا؟‘‘
’’کیوں؟ کیا تکلیف ہو گی تمہیں؟ گدھا سبزیوں کا بوجھ اٹھا سکتا ہے تو پھلوں کا بوجھ کیوں نہیں اٹھا سکتا؟‘‘
یہ لفظ کہہ کر چچا کسی کام سے باہر گیا۔
فخرو کی حالت ایسی تھی جیسے اسے کسی بڑی سزا کا حکم سنایا گیا ہو۔ ماں نے محبّت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔
’’دکھی کیوں ہوتے ہو فخرو۔ بیٹے کام کرتے ہی اچھے لگتے ہیں۔‘‘
’’اماں! یہ گدھا، کیا مصیبت آئی ہے ہمارے گھر میں۔ اسے گدھا ہی دینا تھا ہمیں! یہ بھی کوئی تحفہ ہے۔ میرا جی چاہتا ہے اماں! اسے لے جا کر واپس کر آؤں۔‘‘
’’نہ، نہ پتر! بڑا شریف اور محبّت کرنے والا جانور ہے۔ ہم سے کتنی محبّت کرتا ہے۔ کہیں ٹکتا ہی نہیں۔ فوراً واپس آ جاتا ہے۔‘‘
فخرو کی ماں نے بیٹے کو سمجھانے کی کوشش کی۔
’’میں نے فیصلہ کر لیا ہے اماں! میں اب اسے کسی منڈی ونڈی نہیں لے جاؤں گا۔‘‘
چچا واپس آ گیا تھا اور اس نے فخرو کی بات سن لی تھی۔
’’دیکھتا ہوں تم کس طرح نہیں جاؤ گے۔ مفت کی روٹیاں توڑتے شرم نہیں آتی۔ جوان ہو، تمہاری عمر کے لڑکوں نے گھر سنبھال رکھے ہیں۔ تمہیں آوارہ پھرنے کے سوا کچھ سوجھتا ہی نہیں۔ کام کرو گے تو روٹی ملے گی۔ سمجھ لیا نا؟‘‘
فخرو کی ماں نے دیکھا کہ کالو خاں بڑے غصّے میں ہے تو بولی، ’’کالو، جائے گا۔ منڈی جائے گا میرا کماؤ بیٹا۔‘‘
’’کماؤ بیٹا ہے تو صبح سویرے جاگ کر پھلوں کی منڈی میں جائے گا۔‘‘
’’فخرو نے تو پھلوں کی منڈی دیکھی ہی نہیں۔‘‘ ماں نے کہا۔
’’میں دکان بند کر کے اسے اپنے ساتھ لے جاؤں گا اور کسی بیوپاری سے اس کی واقفیت بھی کروا دوں گا۔‘‘
فخرو اور اس کی ماں خاموش ہو گئے۔
چچا دکان بند کر کے گھر آ گیا اور فخرو کو اپنے ساتھ پھلوں کی منڈی میں لے گیا۔ ایک بیوپاری سے اس کا تعارف بھی کرا دیا۔
’’یہ کل آئے گا گدھے کے ساتھ۔ سودا گدھے پر لاد کر دکان پہنچا دیا کرے گا۔‘‘
’’اچھا۔‘‘
بیوپاری مان گیا۔
راستے میں چچا فخرو کو سمجھاتا رہا، ’’اچھے لڑکے کام سے کبھی نہیں گھبراتے۔ کام کرو گے تو سکھ پاؤ گے۔‘‘
فخرو چچا کی باتیں خاموشی سے سنتا رہا۔
دوسرے دن فخرو منڈی میں جانے کے خیال سے آدھی رات تک کروٹیں بدلتا رہا، پھر سو گیا۔
سوتے وقت اس نے دعا کی تھی، ’’اللہ کرے رمضان خاں آ کر گدھے کو اپنے گھر لے جائے۔‘‘
وہ خواب دیکھ رہا تھا کہ وہ گدھا لیے جا رہا ہے کہ رمضان خاں آتا ہے اور کہتا ہے، ’’میرا گدھا واپس کرو۔‘‘
وہ گدھے کی رسی رمضان خاں کے ہاتھوں میں دیتا ہے کہ اس کی کان میں چچا کی آواز گونجی، ’’اٹھو! منڈی میں جانے کا وقت ہو گیا ہے۔‘‘
فخرو اٹھ بیٹھا۔
’’آپا نے ناشتہ تیار کر لیا ہے۔ پیو دودھ کا گلاس اور اللہ کا نام لے کر جاؤ منڈی۔‘‘
فخرو غسل خانے سے باہر آیا تو ماں دودھ کا گلاس لیے کھڑی تھی۔
’’پی لو میرے چاند! میرے لال پی لو۔‘‘
فخرو نے آدھا گلاس دودھ پی کر گلاس چوکی کے اوپر رکھ دیا۔
’’باقی پی لو نا۔‘‘ ماں نے اصرار کیا۔
’’اماں بس!‘‘
چچا گدھے کے ساتھ دروازے کے باہر کھڑا تھا اس نے آواز دی، ’’فخرو! آؤ جلدی کرو۔‘‘
فخرو کی آنکھوں میں نیند بھری تھی، مگر چچا کے ڈر سے باہر آ گیا۔
چچا نے گدھے کی رسی اس کے ہاتھ میں دی۔
’’بسم اللہ پڑھ کر جاؤ۔ اللہ کامیاب کرے گا۔‘‘ ماں نے فخرو کو پیار کیا اور اسے گدھے کی رسی تھامے آہستہ آہستہ جاتے ہوئے دیکھتی رہی۔
نیند کی وجہ سے فخرو کے قدم بار بار ڈگمگا جاتے تھے۔ وہ خود کو مشکل سے سنبھال کر گدھے کی رسی تھامے چلنے لگتا تھا۔ منڈی اور اس کے درمیان ابھی کافی فاصلہ تھا۔
ایک مقام پر جہاں کئی نئے مکان بنائے جا رہے تھے اس پر نیند نے ایسا غلبہ کیا کہ اس نے اپنا سر گدھے کی گردن پر رکھ دیا اور بازو پھیلا دیے۔ گدھا ذرا رکا اور پھر چلنے لگا۔
گدھا چلا تو وہ تیورا کر گر پڑا۔
’’ارے گدھے!‘‘ اس نے غصّے سے کہا۔
’’ٹھہرو تو ذرا۔ دیکھتا ہوں تجھے۔‘‘ یہ کہہ کر فخرو اس کی پشت پر بیٹھ گیا۔
ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ نیند کی وجہ سے اس کا سر جھکے جا رہا تھا۔
تھوڑی دور آگے جا کر اس کا سر پھر گدھے کی گردن سے جا لگا اور اپنے آپ کو سنبھالنے کے بجائے وہ لیٹ گیا۔ اردگرد کے لوگ شوق اور دل چسپی سے یہ تماشا دیکھنے لگے، مگر گدھے نے رکنے کا نام نہ لیا۔
گدھا چلتا گیا چلتا گیا اور فخرو اس کی پشت پر بے خبر سوتا رہا۔
فضا میں سورج چمکنے لگا تھا۔ دھوپ ہر طرف پھیل گئی تھی۔
یکایک گدھا اچھلا اور اس کے اس طرح اچھلنے سے فخرو اس کی پشت سے نیچے زمین پر گر پڑا۔
’’ہیں! یہ میں کہاں آ گیا ہوں۔‘‘
فخرو نے آنکھیں ملتے ہوئے سامنے دیکھا۔ پہاڑوں کا ایک سلسلہ حد نگاہ تک چلا گیا تھا۔ وہ جہاں کھڑا تھا وہاں اونچے اونچے درخت نظر آ رہے تھا۔ اس نے سمجھ لیا کہ گدھا اسے ایک ویرانے میں لے آیا ہے جہاں دور دور تک کوئی آبادی نہیں ہے۔
’’ہت تیرے کی!‘‘ اس نے آگے بڑھ کر گدھے کے سر پر مکا مارا۔ گدھے پر تو کوئی اثر نہ ہوا، البتہ اس کا ہاتھ دکھنے لگا۔ نیند اب بھی اس کی آنکھوں میں بھری ہوئی تھی۔ اس سے کچھ فاصلے پر گدھے کے نیچے گھاس اگی ہوئی تھی۔
اس نے گدھے کا کان پکڑ کر اسے گھاس سے ہٹایا اور خود نرم نرم گھاس پر لیٹ گیا۔
فخرو دیر تک گہری نیند سوتا رہا۔ وہ اس وقت بھی سو رہا تھا جب اس نے آنکھ کھول کر دیکھا کہ گدھا اس کے کرتے کا دامن منہ میں دبائے ایک طرف اسے لیے جا رہا ہے۔
’’اوئے گدھے کے بچے! یہ کیا بدتمیزی ہے!‘‘
اور اس سے پہلے کہ وہ اپنے کرتے کا دامن گدھے کے دانتوں سے نکالے، گدھے نے منہ کھول کر خود ہی اس کا دامن چھوڑ دیا۔
وہ حیران و پریشان بڑ کے ایک درخت کے نیچے بیٹھا کرتے کا دامن اپنے پیٹ پر پھیلا رہا تھا کہ اس نے گدھے پر نظر ڈالی جو ایک گڑھے میں تھوتھنی ڈالے کھڑا تھا اور سر ہلا رہا تھا۔
وہ اٹھا اور اس گڑھے کے پاس گیا۔ نیچے ایسی چمک تھی کہ وہ ایک دم ڈر کر پیچھے ہٹ گیا۔
گدھے نے تھوتھنی گڑھے سے نکالی۔ اس کی طرف دیکھا اور پھر اپنی تھوتھنی گڑھے میں ڈال دی۔
فخرو گڑھے کی طرف آیا تو گدھے نے فوراً اپنی تھوتھنی اس میں سے نکال لی۔
اس نے اندازہ لگا لیا کہ گدھا چاہتا ہے کہ وہ گڑھے کے اندر دیکھے۔ فخرو نے دیکھا کہ اب کے چمک زیادہ ہو گئی تھی۔ اس نے ڈرتے ڈرتے اپنا دایاں ہاتھ گڑھے کے اندر ڈالا۔ سخت سی چیزیں اس کے ہاتھ سے مس کرنے لگیں۔
اس نے ہی سخت چیزیں مٹھی میں بند کر کے باہر نکال لیں۔ مٹھی کو کھولا تو ان سخت رنگا رنگ چیزوں سے روشنی اس طرح پھوٹ رہی تھی کہ اس نے محسوس کیا کہ اس کے ارد گرد چراغ جل اٹھے ہوں۔
وہ ان رنگ برنگے شیشوں کو دیکھتا رہا۔
’’یہ بڑیے قیمتی چیزیں ہیں۔‘‘ اس کے ذہن میں خیال آیا۔
اس نے گڑھے میں بیک وقت دونوں ہاتھ ڈال دیے اور شیشوں کے رنگین ٹکڑوں کو مٹھیوں میں بند کر کے بانہیں باہر نکالیں۔
تین مرتبہ اس نے یہی عمل کیا۔
اس کے آگے رنگین شیشوں کا ڈھیر لگ گیا تھا۔ چوتھی مرتبہ اس نے ہاتھ ڈالا تو صرف ایک ٹکڑا مٹھی میں بند کر کے باہر لا سکا۔
گویا اس نے گڑھے میں دبے ہوئے سارے کے سارے ٹکڑے باہر نکال لیے تھے۔
وہ بار بار ان رنگارنگ ٹکڑوں کو دیکھتا تھا اور اس کے دل کی دھڑکن بڑھتی جا رہی تھی۔
اس کے دماغ میں ایک سوال ابھرا، ’’انہیں گھر میں لے جاؤں کیسے؟‘‘
وہ اس سوال پر غور کر ہی رہا تھا کہ گدھے نے آگے بڑھ کر پھر اس کے کرتے کا دامن اپنے دانتوں میں دبا دیا اور جلد ہی اسے چھوڑ دیا۔
’’ٹھیک ہے عقلمند گدھے۔‘‘
اس نے اپنا کرتا اتارا اور سارے ٹکڑے اس میں سمیٹ کر گانٹھ باندھ دی۔
گدھا خود بخود چلنے لگا۔ اس نے پوٹلی گدھے کی پشت پر رکھی اور خود اس کے اوپر اس طرح بیٹھ گیا کہ آنے جانے والوں کی نظر اس پوٹلی پر نہیں پڑ سکتی تھی۔
ویرانے سے نکل کر وہ شہر میں پہنچ گیا۔ اسے راستے کا کوئی علم نہیں تھا۔ گدھا ہی اسے لے آیا تھا۔
ویرانے میں تو اسے کسی نے نہیں دیکھا تھا، وہاں کوئی تھا ہی نہیں، مگر شہر میں لوگ آ جا رہے تھے، ان کے لیے وہ ایک تماشا بن گیا تھا۔
آدھا دھڑ ننگا اور گدھے پر بیٹھا ہوا۔
عجیب تماشا تھا۔ بچے اسے دیکھ کر تالیاں بجانے لگے۔ ایک لڑکا اس کی طرف بڑھا تو گدھے نے دولتی ماری جو لڑکے کے ہاتھ پر لگی۔ وہ ہائے کہہ کر پیچھے ہٹ گیا۔ اس کے بعد کسی نے گدھے کے پاس آنے کی جرات نہ کی۔
فخرو اسی حالت میں اپنے گھر کے دروازے پر پہنچ گیا۔
اس کی ماں کوئی سودا خرید کر دروازے میں داخل ہو رہی تھی۔
’’وے فٹے منہ تیرا!‘‘ اس نے بیٹے کو اس حالت میں دیکھ کر کہا۔
فخرو نے سنی ان سنی کر دی اور گدھے کو دروازے میں سے نکال کر اندر لے آیا۔
’’وے تو پاگل تو نہیں ہو گیا فخرو‘‘!
فخرو جلدی سے نیچے اترا۔ پوٹلی چارپائی پر رکھ کر اس کے اوپر کپڑے ڈال دیے۔
ماں اس کی پاگلانہ حرکتیں دیکھ دیکھ کر پاگل ہو رہی تھی۔
’’تیرا بیڑا غرق ہو کر کیا رہا ہے تو؟‘‘
’’ماں، چپ۔‘‘ فخرو نے اپنا ہاتھ اپنے ہونٹوں پر رکھ دیا۔
’’اللہ کے لیے دروازہ بند کر دو۔‘‘
ماں تو کھڑی ہی رہی۔ فخرو نے جلدی سے دروازہ بند کر کے کنڈی لگا دی۔
’’اماں۔‘‘
’’ہوں۔‘‘
’’خزانہ۔۔ ۔۔ خزانہ اماں۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’اللہ قسم خزانہ!‘‘
فخرو نے کپڑے ہٹا کر پوٹلی کھولی۔ روشنی سے ماں کی آنکھیں چندھیا گئیں۔
’’دیکھا اماں۔‘‘
’’ہیں یہ کیا؟‘‘
’’چپ اماں۔‘‘
فخرو نے پھر پوٹلی کو کپڑوں میں چھپا دیا۔
’’چچا کو بلا لاؤ اماں۔‘‘
’’تم بلا لاؤ۔‘‘
’’نہیں اماں! میں یہیں رہوں گا۔‘‘
ماں دروازہ کھول کر چلی گئی۔
فخرو نے اندر سے کنڈی لگا لی۔ گھبراہٹ میں اس کا سانس بار بار رک جاتا تھا۔
تھوڑی دیر بعد باہر سے چچا کی آواز آئی، ’’فخرو۔‘‘
فخرو نے دروازہ کھول دیا۔ ماں اور چچا اندر آ گئے۔
’’مصیبت کیا ہے؟‘‘ چچا بولا۔
فخرو نے منہ سے کچھ نہ کہا۔ کپڑے ہٹا کر پوٹلی نکالی۔ پوٹلی میں سے روشنی چھن چھن کر باہر آ رہی تھی اور چچا نے جب اسے کھولا تو حیرت سے اس کے ڈیلے پھیل گئے۔
فخرو نے جلدی جلدی واردات سنا دی۔
’’بس اب بالکل خاموش رہو۔ یہ ہیرے ہیں۔‘‘
’’ہیرے!‘‘ ماں اور بیٹے نے منہ سے بیک وقت کہا۔
’’چپ۔۔ ۔۔ چپ۔۔ ۔۔ چپ!‘‘
چچا پوٹلی کوٹھری کے اندر لے گیا اور اسے کہیں چھپا کر باہر آیا۔
شام سے پہلے پہلے چچا نے دو سو روپے خرچ کر کے اعلی درجے کا لباس خریدا۔ ایک اشرفی رو مال میں اچھی طرح باندھی اور گھر سے نکل آیا۔ شام کے بعد لوٹا تو بہت سارا سامان اس کے ساتھ تھا۔ سب نے مل کر سامان ٹیکسی سے اتارا اور گھر کے اندر لے گئے۔
’’ہمارے دن پھر گئے ہیں آپا! اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے۔ یہ گدھا ہمارے لیے رحمت بن گیا ہے۔‘‘ چچا نے کہا۔
تینوں اپنے ہاتھ گدھے کی پشت پر پھیرنے لگے۔
٭٭٭
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...